سیّد المؤذنین : اقبال کی نظر میں

سیّد المؤذنین : اقبال کی نظر میں

سیّد المؤذنین : اقبال کی نظر میں

مصنف: ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نومبر 2015

 ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

 کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

 اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی

(۱) نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

عہدِ نبوت کی بات ہو اور ذکرہو اذان کا، پھر نیاز مندی و محویت کے عالم میں چہرۂ آفتابِ رسالت کا نظارہ کرنے کا تذکرہ ہو تو بھلا کون سی ہستی ہے جو چشمِ تصورمیں آئے گی؟ توحیدحق کی شہادت تو ہوتی ہی رہی تھی ، ہوتی ہی رہے اور ہوتی ہی رہے گی مگر دہکتے ہوئے سنگریزوں پر لیٹے ہوئے سینے پر وزنی چٹان پڑی ہو اور زبان سے اَحد اَحد کی شہادتِ حق کا نعرۂ مستانہ بلند ہو کر کافروں کے قلب و جگر کو پگھلا رہا ہو تو پھر لطف ہی کچھ اور ہے ! پھر شین کی جگہ سین کی آواز سے توحیدِ حق کا یہ نعرۂ مستانہ اور شہادتِ رسالت کی یہ رُو ح پرور صدا ہی تو اذانِ بلالی کی معراج تھی اور یہی وہ اذانِ بلالی ہے جس کی رُوح مفقود ہونے پر اقبال سراپا حسرت و فریاد ہے -(۲) 

’’توحید پرستی کے نشے میں شرک و بت پرستی کو جس پائے حقارت سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ٹھکرایا اور غیر متزلزل قوتِ ایمانی کی ڈھال سے جس ظلم و ستم کا منہ انہوں نے پھیرا اسے اہلِ توحید کا سرمایۂ فخر نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟‘‘

حلیۃ الاولیاء میں حافظ ابو نعیم الاصفہانی نے پروانۂ شمعِ رسالت کی لفظی تصویر یوں پیش کی ہے:(۳)

{ومنھم السید المتعبد المتجرد، بلال بن رباح ، عتیق الصدیق ذی الفضل والسماح، علم الممتحنین فی الدین والمعذبین، خازن الرسول الأ مین، محمد سید المرسلین- السابق الموامق ، والمتوکل الواثق}

ترجمہ:-’’ انہی اولیاء اللہ میں سیّد عبادت گزار، تجرد کی زندگی بسر کرنے والے بلال ابن رباح ہیں جو صاحبِ فضیلت و سخاوت و صدیق کے آزاد کردہ غلام تھے - دین کی خاطر آزمائش میں ڈالے جانے والوں اور ستائے جانے والوں کے سَر خیل تھے - آپ رسولِ امین ،سیدالمرسلین ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزانہ دار تھے - آپ سبقت لے جانے والے عاشقِ حق اور توکل میں پختگی کے مالک تھے-‘‘

حافظ ابن عبدالبر اندلسی اور حافظ ابو نعیم اصفہانی کے علاوہ دیگر سیرت نگاروں نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ دینِ حق کا اظہار و اعلان کرنے والی ہستیاں سات تھیں، سیدنا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیدنا ابو بکر ؓ، سیدنا عمارؓ، ان کی والدہ حضرت سمیعہ ؓ ، سیّدنا صہیب رومیؓ، سیّدنا بلال ؓاور سیّدنا مقدادؓ- جہاں تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے سیّدنا ابو طالب کی شکل میں حفاظت اور دفاع کا سامان کردیا تھا- سیّدنا ابوبکر ؓ بھی اپنے طاقت ور قبیلے کے طفیل محفوظ و مامون تھے مگر باقی اہلِ ایمان کو تو مشرکین مکہ نے اپنے ظلم و تشدد کے شکنجے میں جکڑ لیا تھا - ان سب کولوہے میں جکڑ کر سُورج کی جلادینے والی دھوپ میں گویا پگھلادیاجاتاتھا-ان میں سے ہر ایک نے کسی حد تک کسی کسی رنگ میں قریش کے بپھرے ہوئے مشرکین کی بات مان ہی لی تھی مگرسیّدنا بلال رضی اللہ عنہ توایک فولادی چٹان بن گئے تھے حتٰی کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی راہ میں پیش آنے والی ہر مصیبت حقیر اورہر اذیت ہیچ معلوم ہوتی تھی -اُمیَّہ بن خلف اوراس کے حواری تشدد کا ہرحربہ آزماکرمایوس ہوجاتے تو سیّدنابلالؓ کوبیڑیاں پہنادیتے اوربچّوں اوراُوباشوں کے حوالے کردیتے جو انہیں مکّہ مکرمہ کی گلیوں میں گھسیٹتے اورپتھر مارتے پھرتے تھے -رُخِ سیاہ خون سُرخ میں نہاجاتا مگر بلالؓ تھے کہ عزم واستقامت کی فولادی چٹان بنے پھرتے تھے -جس سے ہرقدم اورہرحرکت پراحداحد کانغمۂ توحید پھوٹ (۴)رہاتھا!وہ تو حضرت شیخ سعدی کے اس قول کی عملی تصویر تھے جوانہوں نے پختہ اورقوی الایمان موحدِ حق پرست کے متعلق کہاتھا:

موحّد چوں درپائے ریزی زرش

سہ شمشیر ہندی نہی برسرش

امید وہراسش نباشدزکس

برین است بنیاد توحید وبس!

’’توحید پرست جب اپنے مال و زر کو پائوں میں روند ڈالے، تین ہندی تلواریں (تیز ترین تلواریں)اپنے سر پر رکھ لے ، تو اسے کسی سے نہ کوئی اُمید ہوتی ہے نہ خوف ہوتا ہے بس اسی پر پہ توحید کی بنیاد ہے-‘‘

سیّدنا کی کنیت ابوعبداللہ تھی -والد کانام رباح اوروالدہ ماجدہ کانام حمامہ تھا-آپ کے ایک بھائی تھے جن کانام خالد تھا اورایک بہن بھی تھی جس کا نام غُضْرہ یا غُفَیْرہ(۵)تھا-سیّدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ پر ظلم وتشدد کرنے والوں میں ابوجہل اوراُمیہ بن خلف پیش پیش تھے -ابوجہل کوجب ان کے قبول اسلام کاعلم ہوا توننگی پیٹھ کے بل گرم گرم سنگریزوں پرڈال دیا -سنگریزوں کی تپش اورسورج کی تمازت ہی جسم کوبھون ڈالنے کے لئے کیاکم تھی مگر ظالم ابو جہل نے ایک شکی اُٹھا کران کے سینے پر رکھ دی لیکن سیّد المئوذنین کی زبانِ حق بیان تھی کی نغمۂ توحید گائے جارہی تھی ! ایک ہی نعرہ تھا احداحد کا جوابوجہل ایسے ظالم مشرکین کے دلوں میں لرزہ پیداکرنے اورحسد کی آگ میں جلانے کے لئے کافی تھا-(۶)

یہ ظلم وتشدد جسے بلالؓ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کئیے جارہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بے حد ناگوار اورناقابل برداشت تھا  چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ایک دوست کے توسّط سے امیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کردیا -اس طرح سیدنا بلال حبشیؓ ان کے مولیٰ (یعنی آزاد کردہ غلام)قرار پائے تھے-یہ بھی ایک رشتہ تھا جوتادمِ واپسیں قائم رہتا تھا اوراس وقت کے معاشرے میں اسے قدر واحترام کی نظر سے دیکھا جاتاتھا-(۷)

آزادی کی نعمت سے متمتع ہونے کے بعد سیّدنا بلالؓ حضرت صدیق اکبرؓ کے خزانہ دار اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن رہے-جنگ بدر اوراُحد کے علاوہ تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے-مؤاخات مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کابھائی چارہ حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب سے کروایاتھا- (۸)

قانون قدرت میں مکافات عمل کاسلسلہ خوب ہے -سیّدنا بلالؓ پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑنے والا ابوجہل غزوہ بدر میں ذلت کی موت مرا-اسی میدان میں دوسرا ستم کیش اُمیّہ بن ؒخلف خود شمشیرِ بلالی سے واصلِ جہنم ہوا-اسی موقع پرسیّدنا صدیق اکبرؓ نے اپنے مولیٰ کی خوشی وتسلی میں شریک ہوتے ہوئے چند اشعار کہے اورسیّدنا بلالؓ کی نذر کیے ان میں سے ایک شعریہ (۹)ہے:-

ھَنِیئًازَادَکَ الرَّحْمٰنُ خَیْراً فَقَدْ اَدْرَکْتَ ثَائُ رَک یَابِلَالٗ

 

ترجمہ:-خوشگوار اورمبارک

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر