انسانی تاریخ کے پارینہ اوراق کو لوٹتے وقت جب ہماری نظر ارتقا کی الم ریز جھلملیوں میں سے چھنتی ہوئی ان کے رزمیہ بین السّطورپر پڑتی ہے توکسی خواب کے گریز پانظاروں کی طرح ہم گزری ہوئی قوموں اورسلطنتوں اورتمدنوں کے کھنڈروں کو پے بہ پے نیست سے ہست اورہست سے نیست ہوتادیکھتے ہیں جس سے زیادہ ہیبت افزا اورحوصلہ فرسا منظر اورکوئی نہیں ہوسکتا-قدرت کی قوتوں کی نظروں میں نہ افراد کی وقعت ہے نہ اقوام کی منزلت ،اس کے اٹل قوانین برابر اپنا عمل کئے جارہے ہیں اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کی منزل مقصود بہت ہی دور ہے جسے مقاصدِ انسانی کے آغاز وانجام سے کسی قسم کاتعلق نہیں لیکن
؎آدمی زادہ طرفۂ معجونیست
باوجود حالات گردوپیش کی نامُساعدت کے اُس کے تخیّل کی آئینہ بردار ہے -اسے اپنی ہستی کاکامل ترجلوہ دکھادیتی ہے اوراُن ذرائع کی دریافت پرآمادہ کرتی ہے جواس تصویر مثالی میں جس کے خط وخال اُس کی شانِ اکملیت کو چُھپائے ہوئے ہیں جان ڈال سکیں -دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں انسان بہت ہی کمزور وناتواں ہے-اپنے بچائو کے لئے وہ قدرتی حربوں سے مسلح نہیں کیاگیا-وہ بصارت شبینہ سے محروم ہے اس کی قوتِ شامَّہ اورطاقت گریز بہت کم ہے - لیکن پھر بھی زندگانی کی آزادیوں اورپہنائیوں کی جستجو میں اس نے اپنی اَن تھک سرگرمیوں کو ہمیشہ سے وقف کئے رکھاہے تاکہ قوانین قدرت کی کہنہ اورطرزِعمل سے واقف ہوکروہ رفتہ رفتہ اُن اسباب پر حاوی ہوجائے جو خود اُس کے ارتقاء پر مؤثر ہیں-
قانونِ انتخابِ فطری کے اکتشافِ عظیم کی بدولت انسان اپنے خانوادہ کی تاریخ کاعقلی تصور قائم کرنے کے قابل ہوگیا حالانکہ پہلے اس تاریخ کے واقعات کی حیثیت اس کے نزدیک حوادث کے ایک فوق الادراک سلسلہ سے زیادہ نہ تھی جو بلا کِسی اندرونی ترتیب یاغائت کے فرداً فرداً مادر ایّام کے سراپا اسراربطن سے پَیدا ہوکر گہوارۂ شہود میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے نظرآیا کرتے تھے -اس قانون کے معانی کی تنقیدجب اور بھی زیادہ دقت نظر کے ساتھ کی گئی اوراُن فلاسفہ نے جن کی خیال آفرینیاں ڈراونؔ کے مقدمۂ حکمت کاتتمہ ہیں جب حیات کی ہیئتِ اجتماعی کی دوسرے نمایاں حقائق کااکتشاف کیا تومدنی زندگی کے عمرانیؔ ، اخلاقیؔ، اقتصادی اور سیاسی پہلوئوں کے متعلق انسان کے تصوّرات میں ایک انقلابِ عظیم پیدا ہونے کی صورت نکل آئی -
علم الحیات کے اُصولوں نے حال میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ فرد فی نفسہٖ ایک ہستی اعتباری ہے یایوں کہیے کہ اس کانام اُن مجردات ِعقلیہ کی قبیل سے ہے جن کا حوالہ دے کرعُمرانیات کے مباحث کے سمجھنے میں آسانی پَیدا کردی جاتی ہے -بالفاظِ دیگرفرد اُس جماعت کی زندگی میں جس کے ساتھ اس کاتعلق ہے بمنزلَۂ ایک عارضی وآنی لمحہ کے ہے -اس کے خیالات ،اس کی تمنائیں اس کاطرز ماندوبود اس کے جملہ قوائے دماغی وجسمانی بلکہ اُس کے ایّام زندگانی کی تعداد تک اس جماعت کی ضروریات وحوائج کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جس کی حیاتِ اجتماعی کاوہ محض ایک جزوی مظہر ہے -فرد کے افعال کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ برسبیل اضطرار وبلاارادہ کسی ایک خاص کام کوجو جماعت کے نظام نے اس کے سپُرد کیا ہے انجام دے دیتا ہے اوراس لحاظ سے اس کے مقاصد کوجماعت کے مقاصد سے تخالفِ کلّی بلکہ تضاد مطلق ہے -جماعت کی زندگی بلحاظ اپنے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کی زندگی کے بالکل جُداگانہ ہوتی ہے اور جس طرح ایک جسم ذوی الاعضاء مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خودبخود بلاعلم وارادہ اپنے اندرایسی قوتوں کو برانگیختہ کردیتا ہے جو ا س کی تندرستی کا موجب بن جاتی ہیں اسی طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہوگئی ہو بعض دفعہ خود بخو د رد عمل کرنے والی قوتوں کو پَیدا کرلیاکرتی ہے- مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل ودماغ کاانسان پیدا ہوجاتا ہے یاکوئی نئی تخیل نمودار ہوتی ہے یاایک ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کارآتی ہے جس کااثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی وروحانی تمام طاغی وسرکش قوتوں کو اپنا مطیع ومنقاد بنانے اور اس موادِ فاسد کوخارج کردینے سے جوقوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لئے مضر تھا قوم کونئے سرے سے زندہ کردیتے ہیں اوراس کی اصلی توانائی اس کے اعضاء میں عود کرآتی ہے -اگرچہ قوم کی ذہنی ودماغی قابلیت کادھارا افراد ہی کے دماغ میں سے ہوکر بہتا ہے -لیکن پھر بھی قوم کااجتماعی نفس ناطقہ جو مُدرک کلیات وجُزئیات اورخبیر و مرید ہے بجائے خود ضرور موجود ہوتا ہے - ’’جمہوری رائے اورقومی فطنت‘‘ وہ جملے ہیں جن کی وساطت سے ہم موہوم ومبہم طور پراس نہایت ہی اہم حقیقت کااعتراف کرتے ہیں کہ قومی ہستی ذوی العقل اورذوی الارادہ ہے -اژدحامِ خلائق جلسۂ عام جماعت انتظامی ،فرقہ مذہبی اورمجلس مشاورت سے وہ مختلف ذرائع ہیں -جن سے قوم اپنی تدوین وتنظیم کاکام لے کر وحدت ادراک کی غائت کوحاصل کرتی ہے -یہ ضروری نہیں ہے کہ قومی دماغ تمام اُن مختلف خیالات کی خبر یا علم رکھتا ہوجو ایک وقتِ خاص میں افراد کے دماغوں میں موجود ہوتے ہیں اس لئے کہ خود افراد کادماغ بھی کامل طورپر اپنی اِدراکی حالتوں سے آگاہ نہیں ہوتا-اجتماعی یعنی قومی دماغ میں بہت سے احساسات ومقامات وتخیلات قومی حاسہ کی دہلیز سے باہر رہتے ہیں-قوم کی ہمہ گیر دماغی زندگی کافقط ایک جزو محدود دروازہ کے اندر قدم رکھتا ہے اورقومی اِدراک کی تابناک شعاعوں سے منّور ہوتا ہے -اس انتظام کی بدولت مرکزی اعضاء کی توانائی کی ایک بہت بڑی مقدار غیرضروری جزئیات پرصَرف ہونے سے محفوظ رہتی ہے-
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ قوم ایک جُداگانہ زندگانی رکھتی ہے -یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے اصولاً غلط ہے اوراسی لئے تمدنی وسیاسی اصلاح کی تمام وہ تجاویز جو اس مفروضہ پر مبنی ہوں بہت احتیاط کے سَاتھ نظرثانی کی محتاج ہیں - قوم اپنے موجودہ افراد کامجموعہ ہی نہیں ہے -بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کرہے -اس کی ماہیت پراگر نظرِغائر ڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ غیر محدود ولامتناہی ہے اس لئے کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حدِ نظر کے فوری منتہاکے پَرلی طرف واقع ہیں لیکن ایک زندہ جماعت کاسب سے زیادہ اہم جزو متصور ہونے کے قابل ہیں -علم الحیات کے اکتشافاتِ جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اُٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کاحال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے -مجموعی حیثیت سے اگر
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں