آزادیٔ کشمیر کی تمام تنظیمات کے متحدہ پلیٹ فارم آل پارٹیز حریت کانفرنس کی جانب سے "نظریہ پاکستان: تعلیماتِ قرآن، اقبال اور قائد اعظم کی رُو سے" کے عنوان سے اے پی سی ایچ سی کے اسلام آباد آفس میں چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں صاحبزادہ صاحب نے خصوصی خطاب بھی کیا اور وقفہ سوال و جواب میں حاضرین کے موضوع سے متعلقہ مختلف سوالات کے جوابات دئیے- نشست میں تحریک آزادی کشمیر کی مختلف جماعتوں کے قائدین ، نمائندگان ، کشمیری دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی - نشست کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-
خصوصی لیکچر:
صاحبزادہ سلطان احمد علی
چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قربانیوں سے ہم سب لوگ آشنا ہیںاور اس پلیٹ فارم سے نظریہ پاکستان، قرآن، قائد اور اقبال کی تعلیمات کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنا میرے لئے باعثِ اعزاز ہے- علامہ اقبال کے متعلق خلیفہ عبدالحکیم نے لکھاہے کہ ’’یوں تو اقبال قرآن کا شاعر ہے لیکن وہ شاعروں کا بھی قرآن ہے‘‘ - اقبال اُن شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے براہ راست قرآن کریم سے تلقین و ارشاد حاصل کیا- جبکہ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی قرآن کا کس قدر گہرا مطالعہ رکھتے تھے-
“It is Islam. It is the Great Book, Quran that is the sheet-anchor of Muslim India. I am sure that as we go on there will be more and more of oneness, one God, one Book, one Prophet and one Nation” (26/12/1943)
ترجمہ: -یہ اسلام ہے ،یہ قرآن ایک بہت عظیم کتاب ہے، قرآن ہندوستان کے مسلمانوں کی بنیاد ہے - مجھے یقین ہے کہ جیسے ہم آگے بڑھیں گے تو واحدانیت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوگی- ایک خدا ، ایک کتاب، ایک پیغمبر اور ایک قوم-(اگر آپ ترجمہ میں کمی بیشی کریں تو اس کا کلر بلیو کر دینا-شکریہ)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد نے براہ راست قرآن مجید سے راہنمائی حاصل کی اور ہمارے لئے بھی یہی رہنمائی فرمائی کہ ہم قرآن کو اپنا راہبر بنائیں کیونکہ اسی سے ہمارے اندر وحدت پیدا ہو سکتی ہے یعنی ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک رسول - اور یہی تصور اقبال کے ہاں بھی پایا جاتا ہے- قرآن مجید میں دو قومی نظریہ کا بنیادی درس سورۃ الکافرون میں دیا گیا ہے کہ
(آپ فرما دیجیے: اے کافرو!oمیں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہوoاور نہ تم اس (رب) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوںoاور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن (بتوں) کی تم پرستش کرتے ہوoاور نہ (ہی) تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس (رب) کی میں عبادت کرتا ہوںo(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہےo)
اس سے وہ بنیاد ملتی ہے جس پر ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ء کو قائد اعظم نے تقریر کی اور کہا:
“The Hindus and Muslims belong to two different religious philosophies, social customs and literatures. They neither intermarry nor interdine together and, indeed they belong to two different civilisations which are based mainly on conflicting ideas and conceptions. Their aspects on life and of life are different. It is quite clear that Hindus and Muslims derive their inspiration from different sources of history. They have different epics, different heroes, and different episodes. Very often the hero of one is a foe of the other and, likewise, their victories and defeats overlap. To yoke together two such nations under a single state, one as a numerical minority and the other as a majority, must lead to growing discontent and final destruction of any fabric that may be so built up for the government of such a state".
ترجمہ: -ہندو اور مسلمان دو الگ اور جداگانہ مذہب، معشرتی اقدار اور ادب کے مالک ہیں ، نہ وہ آپس میں شادی کرتے ہیں اور نہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، وہ دو الگ تہذیبوں پر استوار ہے ، یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وِجدان حاصل کرتے ہیں - ان کی رزم مختلف ہے ، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جد- اکثر ایسا ہوتا ہے ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہے - ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینا کاجن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت ہے اور دوسری اکثریت ہو ، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہوجائے گا جو اسی طرح کی ریاست کیلئے بنایا جائے گا-
علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں مسلم قومیت کی الگ شناخت اور جداگانہ ریاست کے وجود کیلئے پیش کئے گئے دلائل اسلام اور اسلام کی سیاسی سوچ کے عیسائیت اور مارٹن لوتھر کی تحریک کے ساتھ تقابلی جائزے پر مبنی تھے- خطبہ الہ آباد سے قبل اور ۱۹۰۸ء کے بعد کی گئی علامہ اقبال کی شاعری میں چار بنیادی چیزیں تھیں:(۱) نظریہ وطنیت، (۲) نظریہ قومیت نسلی و نسبی بُنیاد پہ ، (۳) ہندوستان میں پائی جانے والی مایوسی کی فضا اور (۴) خطے میں ابھرتا ہوا مذہبی ’’سٹیٹس کو‘‘- ان چار موضوعات پر اقبال نے ایک تحریک کے طور پر کام کیا- ان چاروں کو علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بھی موضوع بحث بنایا ہے - یہ حسنِ اتفاق ہے کہ خطبہ الہ آباد اقبال کی اُسی تحریک کا تسلسل بنا جس کے تسلسل میں وہ وطنیت کی نفی کرتے آ رہے تھے مثلاً وہ اپنی مشہور نظم وطنیت میں فرماتے ہیں:
ان تازہ خدائوں میں بڑاسب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اسی طرح مسلمانوں کی نسبی عصبیت کو اقبال زہرِ قاتل سمجھتے تھے جس کو انہوں نے سورۃ اخلاص کی تفسیر کرتے ہوئے بھی بیان فرمایا- حضرت سلمان فارسیؓ کا قول بھی بیان فرمایا جس میں وہ اپنی دیگر شناختوں کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور صرف اسلامی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں اِسی ضمن میں اپنے آباؤ و اجداد سے خود کو منسوب کرنے کی بجائے اپنا نام "سلمان ابن اسلامؓ " فرماتے ہیں- طلوع اسلام میںاقبال نے فرمایا:
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال وپر تیرے
تو اے مرغِ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
یعنی پرواز سے قبل پروں کو پھڑپھڑا کر رنگ و نسل کے امتیاز کی گرد و غُبار کو ختم کرنا ضروری ہے- اقبال نے زور دیا کہ ہمیں ہر طرح کی رنگ و نسل کے تفاخر کو ختم کرنا ہے-کیونکہ ہم سب ایک ہی آغوش میں پلے ہیں جو دینِ اسلام کی آغوش ہے-
تیسری چیز اقبال یہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں تخمِ امید و یقین کی آبیاری کی جائے- وہ مسلمانوں میں یقین و امید کو پروان چڑھانا چاہتے تھے اسی لئے فرماتے ہیں:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
جب اِس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پر ِ رُوح الامیں پیدا
یقین و امید نکل جانے سے قومیں ڈوب جایا کرتی ہیں- اقبال نوجوانوں میں امید و یقین اور جہدِ مسلسل کی تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سوۃ المائدہ کی آیت ۵۰ میں ارشادِ ربانی
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں