’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘[1]
’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا(یعنی اپنا تزکیہ کرلیا)‘‘-
ایک اور مقام پہ اللہ پاک نے نفس کی حالتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰہَا وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا وَ النَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىہَا وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰہَا وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰہَا وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰىہَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا‘‘ [2]
’’سورج کی قَسم اور اس کی روشنی کی قَسم-اور چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے (یعنی اس کی روشنی سے چمکے)اور دن کی قَسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے (یعنی اسے روشن دکھائے)-اور رات کی قَسم جب وہ سورج کو (زمین کی ایک سمت سے) ڈھانپ لے-اور آسمان کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے (اذنِ الٰہی سے ایک وسیع کائنات کی شکل میں) تعمیر کیا-اور زمین کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جو اسے (امرِ الٰہی سے سورج سے کھینچ دور) لے گئی-اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم-پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی-بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)-اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)-
یہاں اگر مذکورہ آیات مبارکہ میں غورکریں -توقاری پہ نفس کے تزکیے کی اہمیت بالکل واضح ہوجائے گی کہ اللہ عزوجل نے نہ صرف نفس کی قسم اٹھاتے ہوئے ارشادفرمایا :
’’وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا‘‘
’’اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس کی استوار کرنے والی ذات کی ‘‘-
بلکہ آٹھ قسمیں کھانے کے بعد ارشادفرمایا:
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَاوَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا‘‘
ان مذکورہ آیات مبارکہ کے علاوہ کئی مقامات پہ اللہ عزوجل نے تزکیہ کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا ہے-جیسا کہ اللہ عزوجل نے اپنے محبوب کریم رؤف رحیم (ﷺ) کی تشریف آو ری وبعثت مبارک کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ‘‘[3]
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول (ﷺ) بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘-
اس آیت مبارک کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی جلوہ گری کامقصد جہاں اپنے غلاموں اور امتیوں کو علم وحکمت اورقرآن وسُنت کی تعلیم کی روشنی سے منور کرنا تھا وہاں انہیں تزکیہ جیسی بے بہا دولت سے بھی نوازناتھا-جیساکہ ’’یُزَکِّیْکُمْ‘‘کے الفاظ مبارک سے ظاہر و عیاں ہےاور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تیرہ سالہ مکی دور مبارک میں مکمل توجہ ہی تزکیہ نفس پرتھی اور یہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی نظر ِ رحمت اورنظرِ کیمیا ہی کا اثر تھا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے ہمیشہ نفع ونقصان سے بالاتر ہو کرمحض اللہ عزوجل کی رضا کے مطابق فیصلے کیے یہاں تک کہ مکی دور میں جہاد بالسیف (تلوار سے جہاد) کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ظلم وسُتم پہاڑ تو سہے لیکن پیکر تسلیم و رضا بن کر سجدہ شُکر بجالاتے رہے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی اس مالی بے رغبتی اور گھر بار اور اولاد کی پرواہ کیے بغیر اللہ عزوجل اور محبوب مکرم (ﷺ) سے والہانہ عشق و محبت کو دیکھ کر حقیقت سے ناآشنا کفا ر نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو معاذ اللہ ناسمجھی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا جس کو اللہ عزوجل نے یوں بیان فرمایا:
’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَآءُطاَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘‘ [4]
’’اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لا ئے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایما ن لے آئیں سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں‘‘-
تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کی اہمیت کے پیشِ نظر سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ہر لمحہ و ہر لحظہ تزکیہ نفس کو پیش نظر رکھا- بلکہ اس کے باقی احکام ِشریعت پہ فوقیت و اہمیت دی، جیساکہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) جہادسے واپس تشریف لائےتو آپ(ﷺ)نے اپنے صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) سے ارشادفرمایا:
’’أَتَيْتُمْ مِّنَ الْجِهَاد ِالْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ‘‘
’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو‘‘-
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’مُجَاهِدَةُ النَّفْسِ‘‘[5]
(وہ)نفس کا مجاہدہ کرنا ہے‘‘-
سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی تو جہ کا مکمل مرکز ہی تزکیۂ نفس او ر تصفیۂ قلب ہونے کی وجہ سے آپ (ﷺ) وقتاً فوقتاً اپنے غلاموں کی ظاہر ی وقلبی کیفیت کا نہ صرف ملاحظہ فر ماتے بلکہ اس کے بارے دریافت بھی فرماتے جیسا کہ حضرت حارث بن مالک انصاری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس سے گزرے ، تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اے حارث! تونے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح یعنی (حقیقت ایمان کے ساتھ) صبح کی-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : اے حارث دیکھ تو کیا کَہ رہا ہے؟ ’’حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یقیناً ہر ایک شےکی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہےسو تمہارےایمان کی کیا حقیقت ہے؟عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں (دیدارِ الٰہی کی طلب میں) پیاسا رہتا ہوں اور حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کےعرش کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں ، جنت میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں، دوزخ میں دوزخیوں کو تکلیف سے چلاتے دیکھ رہا ہوں‘‘-حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’يَا حَارِثُ عَرَفْتَ فَالْزَمْ،ثَلاثًا‘‘[6]
’’اے حارث! تونے(حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا-یہ کلمہ آپ (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا‘‘-
یہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی نگاہِ ناز و رفاقت مبارک سے جو تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب نصیب ہوا وہ اس کو متاعِ بے بہا سمجھ کر دنیاکی ہرچیزپہ اس کو فوقیت دیتے اور نہ صرف اس کی حفاظت کرتے بلکہ ہرلمحہ اس میں اضافے کے خواہش مندرہتے -جیساکہ روایت مبارک میں ہے کہ:
’’حضرت حنظلہ)رضی اللہ عنہ( (ایک دن ایک خاص احتسابی کیفیت میں سوچتے سوچتے رونے لگے اور اسی حالت میں) سیدنا حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس سے گزرے تو رو رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنھم) نے فرمایا: اے حنظلہ تمہیں کیا ہوا؟ حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا : ’’اے ابو بکر!حنظلہ منافق ہوگیا ہے ‘‘-
’’حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کی مجلس مبارک میں ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ)ہم سے دوزخ و جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر جب ہم اپنی حرم اور مال واسباب کی طرف لوٹتے ہیں تو اکثر باتیں بھول جاتے ہیں-حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ ساری بات سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میرا بھی یہی حال ہے-(آؤ) میرے ساتھ حضورنبی کریم (ﷺ) کے پاس چلو‘‘-
حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں پس ہم دونوں حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں چلے گئے-پس جب رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے غلام کو دیکھا تو ارشاد فرمایا :
’’اے (میرے ) حنظلہ تجھے کیا ہوا؟
حضرت حنظلہ عرض کی’’ یارسول اللہ (ﷺ)! حنظلہ منافق ہوگیا‘‘-
(اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عرض کرتے ہیں )
’’یا رسول اللہ (ﷺ)! جب ہم آپ(ﷺ) کے پاس ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ) ہمیں وعظ و نصیحت میں جنت و دوزخ کا ذکر فرماتے ہیں‘‘-
’’(ایسا معلوم ہوتا ہے)گویا کہ ان دونوں کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں‘‘-
’’اور جب ہم واپس لوٹتے ہیں اور بیویوں اور مال و اسباب میں مصروفیت کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں (تو وہ کیفیت باقی نہیں رہتی )‘‘-
حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے میری ساری بات تفصیل سے سنی اور پھر ارشاد فرمایا:
’’لَوْ تَدُوْمُوْنَ عَلَى الْحَالِ الَّذِىْ تَقُوْمُوْنَ بِهَا مِنْ عِنْدِىْ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ فِىْ مَجَالِسِكُمْ وَفِىْ طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً ‘‘[7]
’’اگر تم اسی حال پر باقی رہو جس حال میں میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تمہاری مجلسوں، بستروں اور راستوں میں تم سے ہاتھ ملائیں لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے‘‘-
ان روایات مبارکہ سے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کی اہمیت مخفی نہیں رہتی مزید برآں تزکیہ نفس و تصفیہ کی اہمیت سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے ان فرامین مبارکہ سے بھی ظاہرہوتی ہے -
حضرت فَضالہ بن عُبَید (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقع پہ ارشادفرمایا:
’’اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهٗ فِي طَاعَةِ اللهِ‘‘[8]
’’ مجاہد وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتا ہے‘‘-
حضرت محمد بن کعب (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں :
’’إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ، وَزَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا، وَبَصَّرَهُ عَيْبَهُ فَمَنْ أُوتِيَ هَذَا فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ‘‘[9]
’’جب اللہ پاک کسی بندے کے بارے میں بھلائی کاارادہ فرماتاہے تواس کو دین کی فہم عطافرماتاہے -دنیامیں زہد عطا فرماتا ہے اور اسے اپنے عیوب پہ مطلع فرماتاہے-پس جس (خوش قسمت)کو یہ چیزیں عطاکی گئی اس کو دنیااورآخرت کی بھلائی عطاکی گئی‘‘-
انسانی بدن میں دل کو اہم مقام حاصل ہے اس کے تصفیہ پہ پورے بدن کی اصلاح کا دارومدارہے جیساکہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا :
’’أَلَا وَ إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَ إِذَافَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَ هِيَ الْقَلْبُ‘‘[10]
’’خبردار جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اور اگر وہ فاسد تو سارا جسم فاسد ہے خبردار وہ دل ہے‘‘-
ایک مقام پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے دل کے تصفیہ کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:
’’عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) حضورنبی کریم (ﷺ)سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللهِ‘‘
’’ہر چیز کو صاف کرنے والا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے اور دلوں کو صیقل کرنے کے لیے اللہ پاک کا ذکرہے‘‘-
اس حدیث مبارک کی تشریح میں ملاعلی قاریؒ رقم طرازہیں کہ:
’’ہر چیز جب اس پہ زنگ چڑھ جائے تو اس کوحقیقی یا مجازی طور پر صیقل یعنی روشن، صاف، اس کا تزکیہ اور تصفیہ کرنے کے لیے امام ابن حجر عسقلانیؒ کے مطابق کوئی آلہ ہوگاجس کے ذریعے اس کازنگ اترے گااوراس کی میل کچیل دورہوگی اور دلوں کوصیقل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے- کیونکہ دل سے اللہ عزوجل کے ذکر کے ذریعے اغیار کا غبار اترتا ہے اور دل (انوارِالٰہیہ)کے آثار کا مطالعہ کرنے کا آئینہ بن جاتا ہے ‘‘- [11]
خلاصہ کلام :
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب آدمی گنا ہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیا ہ نقطہ بیٹھ جاتا ہے گویا گناہ کے اثرات سے دل میلے ہو تے ہیں اور گناہوں سے پا ک ہونے کا مطلب ہے دل کا پاک ہونا ، اسی کو تو صوفیاء طہارت ِ باطنی کہتے ہیں اور قرآن اس کو تزکیہ کا نام دیتا ہے- یہ عملِ تصوف (طہارت باطنی) یعنی تزکیۂ نفس اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اسے انبیاء کرام (علیھم السلام)کے فرائضِ منصبی میں شامل فرمایا ہے اور بعثت محمدی (ﷺ) سے قبل انبیاء کرام (علیھم السلام) کے نزدیک تزکیہ نفس کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم(علیہ السلام)جب بارگاہ صمدیت میں بعثت ِمحمدی(ﷺ)کے لئے دعا مانگتے ہیں تو کس انداز سے دعا مانگتے ہیں اور جس علم کے ضمن میں اس کو موضوع ِ بحث بنایا جاتا ہے اس کو علمِ تصوف کہتے ہیں اور اسی تصوف کے بارے میں الشیخ الکبیر حضور شہنشاہ بغدادمحبوب سُبحانی،شہبازِ لامکانی سیدنا حضورالشیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی و الحسینی (رضی اللہ عنہ) ارشادفرماتے ہیں:
’’وَ لَمْ یُسَمِّ اَھْلُ التَّصَوُّفِ اِلَّا لِتَصْفِیَّۃِ بَاطِنِھِمْ‘‘[12]
’’صوفیا کو ان کے باطن کی صفائی کی وجہ سے اہل تصوف کہا جاتا ہے ‘‘-
سلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سخی سلطان باھو صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) ارشادفرماتے ہیں:
’’تصوف دل سے ماسویٰ اللہ کا زنگ اُتارنے کی راہ ہے‘‘-[13]
(لیکن)یاد رہے کہ یہ علمِ تصوف توحید کا علم ہے جو صرف دوستانِ الٰہی کو نصیب ہوتاہے- وہ شخص احمق ہے جو اہل اللہ فقیروں کو مجنون و دیوانہ سمجھتا ہے اور اُن کے مراتب سے محروم رہتاہے-دنیا داری میں عقلمند اہل ِہوا اِن اہل اللہ کو نہیں پہچانتے‘‘-[14]مزیدارشادفرمایا:’’علمِ تصوف سے عارف رحمت ِ الٰہی کی پناہ میں رہتا ہے جو کوئی علمِ تصوف پڑھنے سے منع کرتاہے وہ زندیق ہے‘‘-
کچھ کم علم و فہم یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ علم تصوف کہاں سے آگیا؟ان سے گزارش ہے کہ یہ فزکس، کیمسٹری، میتھ، کمپیوٹر، فلسفہ وغیرہ کے عنوانات و علوم کہاں سے آگئے؟ مقصداُن علوم پہ اعتراض کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باور کرانا مقصود ہے کہ جس طرح یہ علوم فرمان ِ مصطفٰے (ﷺ) ’’اطلبوا العلم من المھد الی اللحد‘‘ [15](ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو) کے ضمن میں آجاتے ہیں-اس طرح علم تصوف کی اصل بھی قرآن وسُنت میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے -اللہ عزوجل فہم کاملہ عطافرمائے – آمین!
٭٭٭
[1](الاعلیٰ:14)
[2](الشمس:1-10)
[3](البقرہ:151)
[4](البقرۃ:13)
[5]ابن بطال، علي بن خلف بن عبد الملكؒ( المتوفى: 449هـ)، شرح صحيح البخارى لابن بطال،( السعودية، الرياض،مکتبۃ الرشید، الطبعة: الثانية، 1423ه) )، بَاب مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِى طَاعَةِ اللهِ، ج:10،ص:210
[6]الطبرانی، سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة الطبعة: الثانية)،باب: الحارث بن مالك الأنصاري رضی اللہ تعالیٰ عنہ،رقم الحدیث: 3367،ج:03،ص:266
[7]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه) ،أ،ابواب صفۃ القیامۃ ،ج04،ص:666۔ رقم الحدیث:2514
[8]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)،باب: ُسْنَدُ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،رقم الحدیث: 23958،ج:39،ص:381۔
[9]ابن أبي شيبة،أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان،الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار (الناشر: مكتبة الرشد ،الرياض)، كِتَابُ الْفَرَائِضِ، ج:6،ص:240.رقم الحدیث: 31049
[10]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)،کتاب الایمان،ج 01،ص:20،رقم الحدیث:52
[11]مرقاۃ المفاتیح ،باب: ذِكْرِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّقَرُّبِ إِلَيْهِ
[12]سرالاسرار فی مایحتاج الیہ الابرار
[13]سلطان العارفین،باھوؒ،عقلِ بیدار،ایڈیشن ششم،(لاہور،العارفین پبلیکیشنز2015ء )،ص:23
[14]سلطان العارفین،باھوؒ، نورالھدٰی ،ایڈیشن ہفتم،(لاہور،العارفین پبلیکیشنز2014ء )،ص:215
سلطان العارفین،باھوؒ، امیرالکونین ،ایڈیشن اوّل،(لاہور،العارفین پبلیکیشنز2010ء )،ص:349
[15]روح البیان، جلد:5، ص:275