تواضع و حسنِ معاشرت خاصہ خاصان رسلﷺ

تواضع و حسنِ معاشرت خاصہ خاصان رسلﷺ

تواضع و حسنِ معاشرت خاصہ خاصان رسلﷺ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری اکتوبر 2022

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو اس کائنات میں بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ہادی اعظم بنا کر مبعوث فرمایا-آقا کریم (ﷺ) تمام اوصاف و کمالات اور اخلاق و محاسن کےنہ صرف مظہر اتم ہیں  بلکہ ان سب کی تکمیل بھی کرنے والے ہیں- آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق‘‘

’’میں تمام مکارم اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-

آپ (ﷺ) کے اخلاق و محاسن کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا گیا کہ آپ کا خلق کیا ہے تو انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ آپ کا خلق تو قرآن ہے یعنی آپ قرآن پر اتنا عمل کرنے والے تھے گویا کہ آپ قرآن مجسم تھے-گویا کہ آپ کی ذات مبارکہ تمام صفات و کمالات اور اخلاق و محاسن کا سرچشمہ اور منبع تھی-آپ کی سیرت و کردار کا ایک ایک پہلو امت مسلمہ اور نوجوانانِ اسلام کے لئے راہنمائے اصول کی حیثیت رکھتا ہے کہ جن کو اپنا کر آج کا نوجوان نہ صرف اپنے اخلاق و عادات کو سنوار سکتا ہے- بلکہ ایک کامیاب مصلح بن کر معاشرے میں ناپید اخلاقی قدریں  زندہ کر کے اصلاح معاشرہ میں ایک اہم  کردار ادا کر سکتا ہے- ہم اس مختصر مضمون میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت طیبہ میں سے آپ (ﷺ) کی تواضع و حسن معاشرت جو کہ خاصۂ خاصان رسل ہے اور نوجوانانِ اسلام کے لئے راہنمائے اصول کی حیثیت رکھتا ہے اس کے چند جھرونکے پیش کریں گے تاکہ ان کو اپنا کر ہم سب ایک کامیاب اور باوقار زندگی گزار سکیں-

آپ  () کی تواضع و انکساری:

ہمارے نبی کریم (ﷺ) کو مقاماتِ قرب میں تواضع کا بہت زیادہ حصہ ملا اور آپ (ﷺ) کی تواضع کے سلسلے میں یہی بات کافی ہے کہ:

’’أَنَّهٗ خُيِّرَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا مَلِكًا أَوْ نَبِيًّا عَبْدًا فَاختَارَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا عَبْدًا، فَقَالَ لَهٗ إِسْرَافِيلُ عِنْدَ ذَلِكَ: فَإِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَاكَ بِمَا تَوَاضَعْتَ لَهٗ أَنَّكَ سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ ‘‘[1]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کو اختیار دیا گیا کہ کیا آپ نبی بادشاہ ہونا پسند کرتے ہیں یا نبی بندہ؟تو آپ (ﷺ) نے نبی بندہ ہونا  پسند فرمایا-اس وقت آپ سے حضرت اسرافیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ کی اسی تواضع کی بنا پر اللہ عزوجل قیامت کے دن آپ (ﷺ) کو تمام اولاد آدم کی سرداری مرحمت فرمائے گا اور آپ ہی وہ پہلے شخص ہوں گے جو شفاعت کریں گے‘‘-

حضرت ابی امامہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے  کہ:

’’خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ (ﷺ) مُتَوَكِّئًا عَلٰى عَصَا، فَقُمْنَا لَهٗ، فَقَالَ: «لَا تَقُوْمُوا كَمَا يَقُومُ الْأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا».وَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌآكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ الْعَبْدُ ‘‘[2]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) عصاء مبارک پر ٹیک لگائے جب ہم پر تشریف لائے تو ہم آپ کے لئے کھڑے ہو گئے-آپ (ﷺ) نے فرمایا عجمیوں کی طرح نہ کھڑے ہو کہ وہ ایک دوسرے کی یونہی تعظیم کرتے ہیں اور فرمایا : میں ایک بندہ ہوں-اس طرح کھاتا ہوں جس طرح بندہ کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح بندہ بیٹھتا ہے‘‘-

’’وَكَانَ يَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُرْدِفُ خَلْفَهُ، وَيَعُودُ الْمَسَاكِينَ، وَيُجَالِسُ الْفُقَرَاءَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ، وَيَجْلِسُ بَيْنَ أَصْحَابِهِ مُخْتَلِطًا بِهِمْ، حَيْثُ مَا انْتَهٰى بِهِ الْمَجْلِسُ جَلَسَ ‘‘[3]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) دراز گوش پر سوار ہوتے تو کسی کو اپنے پیچھے بٹھا لیا کرتے تھے اور مسکینوں کی عیادت کرتے اور غریبوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے اور غلاموں کی دعوت قبول کرتے اور اپنے صحابہ میں مل کر اس طرح بیٹھ جایا کرتے کہ جہاں جگہ ملتی‘‘-

’’حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)  سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

«لَا تُطْرُوْنِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارٰى اِبْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهٗ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ ‘‘[4]

’’مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصارٰی نے حضرت عیسی ابن مریم (علیہ السلام)  کو بڑھایا (کہ انہوں نے خدا کا بیٹا مان لیا معاذ اللہ) میں تو بندہ ہی ہوں تو مجھ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (ﷺ) ہی کہو‘‘-

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کا کام میں ہاتھ بٹاتے اور اپنے کپڑوں کو صاف فرماتے اور اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور اپنے کپڑوں میں پیوند لگاتے، اپنی نعلین گانٹھتے، اپنی خدمت آپ کرتے اور بازار سے اپنا سامان خود لاتے تھے‘‘-[5]

’’جب فتح مکہ ہواتو آپ (ﷺ) مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہوئے؛

’’إِنَّ رَسُولَ اللهِ (ﷺ) لِيَضَعَ رَأْسَهٗ تَوَاضُعًا لِله حِينَ رَأَى مَا أَكْرَمَهُ اللهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ، حَتّٰى إنَّ عُثْنُونَهُ لَيَكَادُ يَمَسُّ وَاسِطَةَ الرَّحْلِ ‘‘[6]

’’تو آپ نے اللہ عزوجل کے حضور میں عاجزی و تواضع سے سر کو پالان پر جھکا دیا تھا یہاں تک کہ  قریب تھا اس کی اگلی لکڑی کے سرے پرآپ کا سر لگ جائے‘‘-

ایک عورت حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئی جس کی عقل میں کچھ خرابی تھی ،اس نے کہا:

’’يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً، فَقَالَ: يَا أُمَّ فُلَانٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ حَتَّى أَقْضِي لَكِ حَاجَتَكِ فَخَلَا مَعَهَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ، حَتَّى فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا‘‘[7]

’’اس نے کہا مجھے آپ (ﷺ) سے کچھ کام ہے آپ نے فرمایا مدینہ طیبہ کی جس گلی میں چاہے بیٹھ جا میں تیرے پاس  بیٹھ جاؤں گا حتٰی کہ میں تیری حاجت کو پورا کردوں- چنانچہ آپ اس کے ساتھ ایک راستہ میں تشریف فرما ہوئے حتی کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوگئی-اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ آپ کی بہت زیادہ تواضع کی وجہ سے ہوا‘‘-

حضرت عبد اللہ بن حمساء (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

مَیں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی بعثت سے پہلے آپ سے ایک سودا کیا اور آپ کی کچھ رقم باقی تھی میں نے وعدہ کیا کہ فلاں جگہ آپ کے پاس حاضر ہوں گا لیکن میں بھول گیا حتی کہ تین دن گزر گئے – مجھے یاد آیا تو آپ اسی جگہ پر تھے آپ نے فرمایا تم نے مجھے مشقت میں ڈالا میں تین دن سے تمہارا یہاں منتظر ہوں‘‘-[8]

حضرت ابوقتادہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ :

’’نجاشی کا وفد  آیا تو حضور نبی کریم (ﷺ) خود ان لوگوں کی خدمت کرنے لگے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ)! ہم آپ کی جگہ کام کرتے ہیں اور کافی ہیں، آپ نے فرمایا: ان لوگوں نے ہمارے ساتھیوں کی عزت و احترام کیا تھا تو میں ان کو بدلہ دینا پسند کرتا ہوں‘‘-[9]

جس طرح رسول اکرم (ﷺ) نے اپنے عمل و کردار سے امتِ مسلمہ اور نوجوانانِ اسلام کو تواضع اختیار کرنے کا درس دیا ہے ، تو اسی طرح آپ نے اپنے اقوال و فرامین سے بھی نہ  صرف تواضع اختیار کرنے کا حکم دیا بلکہ اس کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے-

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ، إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ‘‘[10]

’’جو شخص معاف کرتا ہے، اللہ سبحانہ، اس کی عزت بڑھاتا ہے اورجو شخص اللہ رب العزت کے لئے تواضع (عاجزی) کرتا ہے، اللہ سبحانہ اس کا مقام بلند کرتا ہے‘‘-

ایک اور مقام پر ارشادفرمایا:

’’طُوبٰى لِمَنْ تَوَاضَعَ مِنْ غَيْرِ مَنْقَصَةٍ، وَذَلَّ فِي نَفْسِهِ مِنْ غَيْرِ مَسْكَنَةٍ، وَأَنْفَقَ مَالًا جَمَعَهُ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ، وَرَحِمَ أَهْلَ الذِّلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ، وَخَالَطَ أَهْلَ الْفِقْهِ وَالْحِكْمَةِ‘‘[11]

’’وہ شخص خوشحال ہے جو محتاجی کی حالت نہ ہونے کے باوجود تواضع کرتا ہے اور جو مال جمع کیا اس کو گناہ سے ہٹ کر خرچ کرتا ہے کمزوروں اور مسکینوں پر رحم کھاتا ہے اور فقہ و حکمت والوں کی ہم نشینی اختیار کرتا ہے‘‘-

’’اَلْكَرَمُ اَلتَّقْوٰى، وَالشَّرْفُ اَلتَّوَاضُعُ، وَاْليَقِينُ اَلْغِنٰى‘‘[12]

’’کرم، تقوٰی ہے، شرف، تواضع ہے اور یقین مالداری ہے‘‘-

’’إِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعِ‘‘[13]

’’جب کوئی بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ سبحانہ سے ساتویں آسمان تک بلندی عطا فرماتا ہے‘‘-

’’إِنَّ التَّوَاضُعَ لَا يَزِيدُ الْعَبْدَ إِلَّا رِفْعَةً فَتَوَاضَعُوا يَرْفَعْكُمُ اللهُ‘‘[14]

’’تواضع بندے کو برتری عطا کرتی ہے بس تم تواضع اختیار کرو تا کہ اللہ سبحانہ تم پر رحم فرمائے‘‘-

آپ () کا حسنِ معاشرت:

رسول اللہ (ﷺ) لوگوں سے الفت فرماتے اور ان سے نفرت نہ کرتے تھے، آپ ہر قوم کے با اخلاق فرد کی تکریم کرتے اور ان کو ان پر حاکم مقرر کرتے (بد خُلق) لوگوں کو خوفِ خدا  یادلاتے ،اپنے اصحاب کی نگرانی فرماتے اور اپنے ہمنشین کو اس کا حصہ مرحمت فرماتے-حاضرین مجلس میں کوئی یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ کوئی  اور بھی اس سے بڑھ کر آپ کے نزدیک مکرم ہے جو شخص بھی آپ کے ساتھ بیٹھتا یا وہ ضرورت سے زیادہ قریب ہوجاتا تو حضور نبی کریم (ﷺ) صبر فرماتے-یہاں تک کہ وہ خود اٹھ کر چلا جاتا اور جو شخص بھی اپنی حاجت کے لئے آپ سے سوال کرتا تو اس کو دے کر بھیجتے یا اس سے نرم بات کرتے-الغرض! آپ (ﷺ) کا اخلاق و حسن معاشرت اس قدروسیع تھا کہ وہ تمام لوگوں پر محیط تھا-گویا آپ سب کے باپ (بلکہ اس سے بڑھ کر) تھے اور تمام مسلمان آپ (ﷺ)کے نزدیک حق میں مساوی تھے-

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)  حضور نبی کریم (ﷺ) کے وصف جمیل میں فرماتے ہیں کہ:

’’آپ لوگوں میں زیادہ کشادہ سینہ اور سب سے بڑھ کر صادق القول اور سب سے زیادہ نرم طبیعت والے اور زیادہ اچھا برتاؤ کرنے والے تھے ‘‘-[15]

ابن ابی حالہ فرماتے ہیں کہ:

’’آپ (ﷺ) ہمیشہ خوش رُو، خوش خُلق اور نرم دل رہتے اور آپ سے کبھی بھی بدا خلاقی، بدکلامی، بازار میں چِلا کر بولنا، بدگوئی اور عیب چینی صادر نہ ہوئی اور نہ آپ خواہ مخواہ کسی کی مدح سرائی کرتے جس چیز کو نہ چاہتے اس سے تغافل کرتے اورکوئی بھی آپ (ﷺ) سے مایوس نہ ہوتا‘‘-[16]

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’لقد خَدِمتُ رَسُولَ اللهِ عَشَرَ سِنينَ، فوَاللهِ ما قالَ لي أفٍّ قَطُّ، ولم يَقُلْ لِشَيْءٍ فَعَلتُهٗ: لِمَ فَعَلتَ كَذا؟ ولا لِشَيْءٍ لِمَ اِفْعَلْه: أَلا فَعَلتَ كَذا؟‘‘[17]

’’ میں دس(10) سال رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر رہا آپ(ﷺ) نے کبھی بھی مجھ سے اُف نہ فرمایا اور نہ کبھی میرے کسی  کام کو کہا کہ یہ کیوں کیا اور نہ کسی کو نہ کرنے پر یہ فرمایا: یہ کیوں نہ کیا؟‘‘

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ:

’’مَا كَانَ أَحْسَنُ خُلُقًا مِنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) مَا دَعَاهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَلَا مِنْ أَهْلِهِ إِلَّا قَالَ لَبَّيْكَ‘‘[18]

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ اخلاق میں حضور نبی کریم (ﷺ) سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور آپ کے صحابہ (رضی اللہ عنھم) یا گھر والوں میں سے کوئی بھی حضور کو بلاتا تو آپ (ﷺ) لبیک ہی فرماتے‘‘-

حضرت جریر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ (ﷺ) مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلاَ رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي‘‘[19]

’’جب سے مَیں مسلمان ہوا ہوں رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے کبھی بھی نہ روکا اور جب بھی مجھے دیکھتے تو (ﷺ)آپ مسکرا دیتے‘‘-

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) سے جس نے کان میں بات کی تو آپ اس وقت اس کی سماعت فرماتے جب تک وہ خود علیحدہ نہ ہو جاتا اور جو کوئی بھی آپ کا دستِ مبارک پکڑ لیتا آپ اس سے اس وقت تک ہاتھ نہ چھڑاتے جب تک وہ خود نہ چھوڑ دیتا اور کبھی یہ نہ دیکھا گیا کہ آپ اپنے ہم نشین سے آگے گھٹنے کر کے بیٹھیں ہوں‘‘-[20]

’’حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’كَانَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا، فَرُبَّمَا جَاءُوهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا‘‘[21]

رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں نماز فجر کے بعد مدینہ منورہ کی باندیاں پانی سے بھرا برتن لاتیں اور حضور نبی کریم (ﷺ)  ہر ایک برتن میں اپنا دست مبارک ڈال دیتے اور بسا اوقات سردی کا موسم بھی ہوتا تھا-(لوگ  اس سے برکت حاصل کرتے )‘‘-

’’آقا کریم (ﷺ) کے پاس اگر کوئی آدمی اس حالت میں آتا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو آپ نماز کو مختصر کر کے اس سے آنے کا مطلب پوچھتے-جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو پھر نماز شروع کر دیتے‘‘-[22]

حضرت عبد اللہ بن حارث (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ)‘‘[23]

’’میں نے کسی کو حضور نبی کریم (ﷺ) سے بڑھ کر تبسم فرماتے  نہ دیکھا‘‘-

حضرت عبد اللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’غزوہ بدر کے موقع پر تین تین مجاہدوں کے لئے ایک ایک اونٹ تھا-چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ اور ابو لبابہ انصاری رسول اللہ (ﷺ) کے عدیل تھے جب حضور کے اترنے کی باری آتی تو دونوں عرض کرتے کہ آپ نہ اتریں-ہم آپ کے بدلے پیدل چلتے ہیں مگر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے کہ تم مجھ سے زیادہ قوی نہیں ہو اور میں تمہاری نسبت اجر و ثواب سے زیادہ بے نیاز نہیں ہوں‘‘-[24]

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ (ﷺ) سَبَّابًا، وَلاَ فَحَّاشًا، وَلَا لَعَّانًا، كَانَ يَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ المَعْتِبَةِ: «مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُهُ ‘‘[25]

’’رسول اللہ (ﷺ) فحش کہنے والے نہ تھے اور نہ کسی پر لعنت کرنے والے اورنہ ہی گالی دینے والے تھے-جب آپ کسی پر عتاب فرماتے تو یوں ارشاد فرماتے: اسے کیا ہوا، اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘-

’’ایک سفر میں آپ(ﷺ) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لئے ایک بکری درست کر لو-ایک نے کہا اس کا ذبح کرنا میرے ذمے ہے دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ ہے-ایک اور بولا پکانا میرے ذمے ہے آپ نے فرمایا میں جانتا ہو تم کر سکتے ہو لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے ممتاز کروں کیونکہ خدا تعالیٰ اس بندے کو ناپسند فرماتا ہےجو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بنتا ہے اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کر کے لائے‘‘-[26]

آپ (ﷺ) لوگوں کی دل جوئی کے لئے کبھی کبھی خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے مگر وہ متضمن دروغ نہ ہوتی تھی-

’’ایک روز ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے سواری عنایت کیجئے تا کہ میں اس پر سوار ہوجاؤں-آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا وہ بولا میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ اونٹنیاں ہی تو اونٹ جنتی ہیں یعنی ہر ایک اونٹ اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے-اس میں تعجب کیا ہے‘‘-[27]

’’اسی طرح ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے جو قرآن پڑھا کرتی تھی حضور نبی کریم (ﷺ) سے عرض کیا کہ آپ دعا کریں کہ میں بہشت میں داخل ہوں آپ نے اس سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت بہشت میں داخل نہ ہوگی-وہ پریشان ہو گئی اور اس نے اس کا سبب پوچھا-توآپ (ﷺ)نے جواب دیا کیا تو قرآن نہیں پڑھتی-اس میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

’’  اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ  اِنْشَآءً­­؁  فَجَعَلْنٰہُنَّ  اَبْکَارًا ‘‘ [28]

’’بیشک ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا  اور ان کو کنواریاں بنایا ‘‘-[29]

یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عورتیں جنت میں جوان ہو کرد اخل ہوں گیں-

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے اپنے اقوال اور افعال و اعمال سے ہمیں تواضع و حسن معاشرت کا درس دیا ہے ہم سب کو چاہیے کہ آقا کریم (ﷺ) کی سیرت طیبہ کے اس عظیم پہلو کو اپناتے ہوئے اپنے اندرتواضع و انکساری اور حسن معاشرت پیدا کریں-مسکینوں اوربیماروں کی عیادت کریں، غریبوں اور ناداروں کے ساتھ اچھا برتاؤ  کریں اور ان کے ساتھ بیٹھا کریں-اگر وہ دعوت دیں تو خوش اسلوبی سے ان کی دعوت کو قبول کریں اگر کسی مجلس میں جائیں تو جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں اپنے اہل خانہ کے کام کاج میں ہاتھ بٹائیں-اپنے متعلقہ کام خود کیا کریں-حسنِ معاشرت اختیار کرتے ہوئے لوگوں سے سچ بولیں ، نرم مزاج رکھیں-لوگوں سے اچھا برتاؤ رکھیں، کسی سے بدکلامی اور کسی کی عیب جوئی نہ کریں ، ہمیشہ خوش رو اور خوش اخلاق رہیں-اپنے خادموں کو مت جھڑکیں اور ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاؤ رکھیں اپنے ساتھیوں سے عدل و انصاف سے کام لیں-یہ ایک حقیقت ہے کہ جو تواضع و انکساری کرتا ہے نہ صرف دنیا اس کو دوست رکھتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کامقام و مرتبہ اور سر بلند ہو جاتا ہے-

شیخ سعدی علیہ الرحمہ تواضع کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

دلا! گر تواضع کنی اختیار
شودِ خلقِ دنیا ترا دوست دار

اے دل اگر تو عاجزی اختیار کرے تو دنیا کی مخلوق تجھے دوست رکھنے والی ہوگی-

تواضع کند مردرا سرفراز
تواضع بود سروراں را طراز

عاجزی بندے کے سر کو بلند کر دیتی ہے، عاجزی سرداروں کی زیب و زینت ہے-

تواضع کند، ہوشمند گزیں
نہد شاخ پر میوہ سر برزمین

عقل مند عاجزی اختیار کرتا ہے کیونکہ میوے سے لدی ہوئی شاخ اپنا سر زمین پر رکھ دیتی ہے-

تواضع ز گردن فرازاں نکوست
گدا گر تواضع کند خوی اوست

بلند گردن (عالی مرتبت )لوگوں کی عاجزی اچھی ہے اگر بھکاری عاجزی  کرے تو وہ اس کی عادت ہے-

شیخ احمد بن محمد القسطلانی نے ’’المواہب اللدنیہ‘‘ میں بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے:

’’بندہ حقیقت تواضع تک اسی وقت رسائی حاصل کر سکتا ہے جب نور مشاہدہ کی چمک اس کے دل میں پائی جائے-تو اس وقت نفس پگھلتا ہے-اس کے پگھلنے سے اس کا دل تکبر اور خود پسندی کے کھوٹ سے صاف ہو جاتا ہے اور دل سے تمام خرابیوں کے آثار مٹ جاتے ہیں-اس وقت نفس حق اور مخلوق کے لئے نرم اور متواضع ہو جانا ہے‘‘-

٭٭٭


[1]( الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے، جز: 1، ص: 130)

[2](ایضاً)

[3](عيون الأثر، جز:2، ص:402)

[4](صحيح البخاری، جز:4، ص:167)

[5](عيون الأثر، جز:2، ص:402)

[6](السيرة النبوية لابن هشام، جز:2،  ص:405)

[7](صحیح مسلم، جز:4، ص:1812)

[8]( المواهب اللدنية،  جز:2، ص:116)

[9](دلائل النبوة، جز:2، ص:307)

[10](صحیح مسلم، جز:4، ص:2001)

[11](السنن الكبرٰى، جز:4، ص:306)

[12](كنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، جز:3، ص:90)

[13](كنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، جز:3، ص:110)

[14](جامع بيان العلم و فضله، جز:1، ص:562)

[15](شرح السنة، جز:13، ص:22)

[16](شعب الإيمان، جز:3، ص:24)

[17](مسند أبي يعلى، جز:6، ص:104)

[18](دلائل النبوة لابی نعيم الاصبہانی، جز:1، ص:181)

[19](صحيح البخاری، جز:4، ص:65)

[20]( سنن أبي داود، جز:4، ص:251)

[21](صحیح مسلم، جز:4، ص:1812)

[22](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے، جز:1، ص:122)

[23](الشمائل المحمدية، جز:1، ص:186)

[24](مشكاة المصابيح، جز:2، ص:1145)

[25](صحيح البخاري، جز:8، ص:13)

[26](المواهب اللدنية، جز:2، ص:114)

[27](سنن ترمذی، جز:4، ص:357)

[28](الواقعہ:35-36)

[29](شرح السنة، جز:13، ص:183)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر