جس طرح انسان اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں سے گزرتا ہے قومیں بھی اسی طرح نشیب و فراز سے گزرتی ہیں اور جو چیزیں انسان کے عروج و زوال کا باعث بنتی ہیں-یقیناً وہی چیزیں قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتی ہیں کیونکہ قوم کی اکائی فرد ہے ،تو جو چیز فرد کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے وہ چیز قوم کیلئے بھی نقصان دہ ہوتی ہے - اگر کسی فرد کے طرزِ تکلم، اندازِ گفتگو، لب و لہجہ، یا اُس کے رویہ میں کڑواہٹ ہے، تُرشہ پن ہے، مٹھاس سے خالی ہے تو اُسے زوال سے کوئی چیز نہیں روک سکتی-
کسی فرد، معاشرے اور قوم کے وجود کے استحکام ، بقاء اور ارتقاءو انحطاط کا دارو مدار اُس کے رویے، لب و لہجے اور اخلاقی اقدار پر ہوتا ہے-یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو فرد یا قوم کو یا تو اَوجِ ثریا پہ پہنچا دیتے ہیں یاپھر اُن کے زوال کے اسباب بن جاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی قوم کے جنگ ہار جانے کے بعد دوبارہ اُٹھنے کے اُس کے سو فیصدمواقع(chances)باقی رہتے ہیں لیکن اَخلاقیات سے گری ہوئی قوم کے دوبارہ اُٹھنے کے مواقع اُس وقت تک باقی نہیں رہتے، جب تک کہ وہ دوبارہ اخلاقی اقدار سے ہمکنار نہ ہو جائے - جیسا کہ علامہ ابن خلدون (المتوفى: 808ھ) جو تاریخ عالم پر ایک وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، مقدمہ ابن خلدون میں لکھتے ہیں :
’’إذا تأذّن الله بانقراض الملك من أمّة حملهم على ارتكاب المذمومات و انتحال الرّذائل و سلوك طرقها، فتفقد الفضائل السّياسيّة منهم جملة و لا تزال في انتقاص إلى أن يخرج الملك من أيديهم ويتبدّل به سواهم ليكون نعيا عليهم في سلب ما كان الله ، قد أتاهم من الملك وجعل في أيديهم من الخير‘‘
’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے ملک چھینا چاہتا ہے تو اُس میں اخلاقِ ذمیمہ اور عاداتِ رذائل پیدا فرما دیتا ہے، اِس لیے وہ لوگ سیاسی خوبیوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور جب بیحرماں نصیبی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ اُن کے قبضہ سے ملک نکال لیتا ہے اور کسی دوسری قوم کو دے دیتا ہے جس میں سیاسی خوبیاں پائی جاتی ہیں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ملک سے محرومی اورحکومت کا نکلنا خود اُن کے کرتوتوں کا ثمرہ ہے کہ حق تعالیٰ نے انہیں جونعمت ملک وعزت عطا فرمائی تھی وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان سے سَلب کر لی گئی‘‘-[1]
آج ہماری معاشرتی زندگی کا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اخلاقی زوال و انحطاط کا شکار نہ ہو، وہ چاہےرہن سہن کے معاملات ہوں، لین دین کے معاملات ہوں، خوانگی زندگی کے معاملات ہوں، رشتہ داروں یا اڑوس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ برت برتاؤ کے معاملات ہوں-سیاسی یا مذہبی معاملات ہوں، حقوق و فرائض کی پاسداری کے معاملات ہوں ہر جگہ پر اخلاقی اقدار کا فقدان ہی نظر آئے گا-
میری دانست کے مطابق تین عوامل ایسے ہیں جو براہِ راست انسان کی اخلاقیات اور تعمیر سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں:
پہلا: اُن میں سے موروثی اقدار اور رویے ہیں-اگر مثبت ہوں گے تو شخصیت سازی میں خیر کے اثرات مرتب کریں گے اگر منفی ہوئے تو پھر شخصیت سازی میں شر کے اثرات پیدا کریں گے- یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مثبت و منفی سوچ و فکر یا اچھائی اور برائی ایک مستقل اثر رکھتی ہے-تو جس طرح نیک اعمال کے اثرات اولاد میں منتقل ہوتے ہیں اسی طرح برائی یا غیراخلاقی عادات و خصائل اور رویوں کے اثرات بھی اولاد میں منتقل ہوتے ہیں-
دوسرا :اُن میں سے اردگرد کا ماحول ہے جو براہِ راست انسانی رویوں اور اخلاقیات کو متاثر کرتا ہے-
تیسرا: اُن میں سے نظریہ ہے جو انسان کے عمل میں روح کی حیثیت رکھتا ہے- یہ بات بالکل درست ہے کہ عمل آدمی کے نظریہ کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر نظریہ معتدل ہے تو عمل میں اعتدال آئے گا- اگرنظریے میں شدت ہے تو عمل میں شدت اور تنوع پیداہوگا-چونکہ نظریات کسی نہ کسی ذریعے اور واسطے سے آدمی کے دل و دماغ میں داخل ہوتے ہیں- اس لئے شریعت نے آدمی کو ہر کسی کے ساتھ بیٹھنے میں آزاد نہیں چھوڑا ، حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهٖ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُّخَالِلُ ‘‘[2]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے؟‘‘
آدمی کو نشت و برخاست کے حوالے سے احتیاط کرنا اِس لئے بھی ضروری ہےکہ کسی بھی فرد یا قوم کی بقاء اور اُس کے عروج و زوال کا انحصار اُس کے نظریہ پہ ہوتا ہے-کسی قوم کی موت و حیات،اُس کے نظریہ کی موت و حیات سے وابستہ ہوتی ہے، چونکہ انسان فطرتِ اسلام پر پیدا کیا گیا ہے، اِس لئے اِس میں خیر کا پہلو زیادہ غالب رہتا ہے ، اور فطرتاً شر کی بانسبت خیر کی طرف میلان اور جھکاؤ زیادہ رکھتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ اردگرد کا مادیت زدہ بد بو دار ماحول اور باطن میں موجود حیوانی قوتیں انسانی نظریات پر حملہ آور ہونے کیلئے ہر وقت مستعد رہتی ہیں- اگر خیر کی طرف رہنمائی مل جائے تو انسان خیر کی طرف چلاجاتا ہے اور اگر شر کی طرف مادی اور حیوانی قوتیں اِسے لے کر جانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر شر کی طرف چلا جاتا ہے - اِس لئے شریعت مطہرہ نے انسان کو ہر کسی کے ہم مجلس ہونے کی اجازت نہیں دی بلکہ صادقین کا ہم مجلس ہونے کی تلقین کی ہے-
عالم اسلام کے نامور مؤرخ اور مفکر علامہ ابن خلدون (المتوفى: 808ھ) ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں مزید لکھتے ہیں :
’’و كان الإنسان أقرب إلى خلال الخير من خلال الشّرّ بأصل فطرته وقوّته النّاطقة العاقلة لأنّ الشّرّ إنّما جاءه من قبل القوى الحيوانيّة الّتي فيه وأمّا من حيث هو إنسان فهو إلى الخير وخلاله أقرب‘‘[3]
’’اور انسان اپنی صحیح فطرت کی روح سے اور قوت عاقلہ ناطقہ کی وجہ سے خیر و صلاح سے بہت زیادہ قریب اور شر و فساد سے بہت دور ہے ، کیونکہ اِس میں شر حیوانی قوتوں کی وجہ سے آتا ہے جو اس میں موجود ہیں، لیکن اگر انسان کو بحیثیت انسان کے دیکھا جائے تو وہ خیر ہی سے اور خیر والے اخلاق ہی سے زیادہ قریب ہے ‘‘-
لیکن اندرونی حیوانی قوتوں اور بیرونی ماد ی طاقتوں کے ہر وقت حملہ آور ہونے کی وجہ سے مسلسل خیر کی طرف جھکاؤ قائم نہیں رہ سکتا ، اس لئے انسان کو فطرتاً اور جبلتاً ہر وقت ایک ایسے ہادی کی ضرورت رہتی ہے جو اُسے خیر کی طرف رہنمائی کر کے اُسے خیر پر ثابت قدم رہنے کے لئے سامان مہیا کرتا رہے-انسان کی اِسی فطرتی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت اور رسالت کا اجراء فرمایا ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا لیکن آپ (ﷺ) نے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا سامان قیامت تک کے لئے مہیا فرمایا دیا ،جو ہر لمحہ ان کی رہنمائی کے لئے موجود اور مستعد ہے-
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بعثت نبوی (ﷺ) سے قبل عرب کا وہ معاشرہ جو ہر قسم کے اخلاقی بحران میں گھرا ہوا تھا- فکری بحران،نظریاتی بحران اور معاشرتی بحران آسمان کو چھو رہے تھے-یہ اُن کے فکری بحران کا نتیجہ ہی تھا کہ اپنے ہاتھوں سے پتھر کی مورتیوں کو تراشتے اور اُنہی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے جیسے اعمال یہ ان کے نظریاتی بحران کے ہی مرہون منت تھے، لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) نے پہلے عشرے میں ہی ان کی کایا پلٹ کر رکھ دی جو معاشرہ صدیوں پر محیط جہالت پر قائم تھا، اعلانِ نبوت کے بعد پہلا عشرہ گزرنے کو ہی تھا کہ ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آگیا،جس کی مثال تاریخ قیامت تک پیش نہیں کر سکے گی-
دیکھو! کہ کیسے لوگ تیار کر لئے گئے جو اپنے جینے پر دوسروں کے جینے کو ترجیح دے رہے ہیں اور اپنی جائیداد میں دوسرے مسلمان بھائی کو برابر کا شریک کر رہے ہیں-اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کے اندر خیر کا عنصر غالب ہوتا ہے جب بھی اُسے تربیت کے ماحول میں سے گزارا جاتا ہے تو یہ خیر کے اوجِ ثریا کو چھونے لگتا ہے اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے دینِ اسلام کو بطور عملی نمونہ کے پیش فرمایا ہے، تاکہ لوگوں کو قبول کرنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے میں آسانی ہو- وعدۂ خلافی کی صدیوں پرانی موذی مرض کو میرے آقا کریم (ﷺ) اپنے عمل کی گرمائش سے کیسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا-’’سنن ابی داؤد‘‘ میں ہے کہ:
’’حضرت عبد اللہ بن أَبِي الْحَمْسَاء(رضی اللہ عنہ) یہ اپنا اُس وقت کا واقعہ بتا رہے ہیں کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) نے اعلانِ نبوت نہیں فرمایا تھا-حضرت عبد اللہ بن أَبِی الْحَمْسَاء (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ بعثت سے پہلے مَیں نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے کوئی چیز خریدی اور اُس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی تھی مَیں نے وعدہ کیا کہ اِسی جگہ لا کر دیتا ہوں ، (جب گھر گیا)
’’فَنَسِيْتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِيْ مَكَانِهِ ، فَقَالَ: يَا فَتًى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ ‘‘
’’تو مَیں بھول گیا اور تین دن کے بعد مجھے یاد آیا ، جب مَیں واپس آیا تو آپ (ﷺ) اُسی جگہ (میرے انتظار میں)موجود تھے ،آپ (ﷺ) نے فرمایا : جَوان تم نے مجھے تکلیف دی ہے ،مَیں تین دن سے یہاں تمہارا انتظا ر کر رہا ہوں‘‘-
وعدہ خلافی ایک انتہائی غیر اخلاقی اور معاشرتی ناسور تھا جس کی بیخ کنی کیلئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے خود کو مشکل میں ڈال کر عملی اقدامات کے ساتھ اِس کا تدارک کیا، آپ (ﷺ) نے وعدہ خلافی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهٗ ، وَلَا دِيْنَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهٗ‘‘[4]
’’اُس کا ایمان(سلامت) نہیں جو امین نہیں اور اُس کا دین (سلامت) نہیں جس میں عہد (کی پاسداری) نہیں‘‘-
صحیح البخاری کی روایت میں وعدہ خلاف کو منافق قرار دیا گیا ہے- حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جس میں چار باتیں ہوں وہ منافق ہےیا جس میں چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کا اتنا ہی حصہ ہےیہاں تک کہ اُسے چھوڑ دے:
1-إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ
جب بات کرےگا تو جھوٹ بولےگا
2- وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ
جب وعدہ کرے گاتو خلاف ورزی کرےگا
3- وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ
جب معاہدہ کرے گاتو توڑ دےگا
4-وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ‘‘[5]
اورجب جھگڑا کرےگاتوگالیاں دےگا
آپ (ﷺ)کا معاشرتی نا انصافی و بدیانتی اور غیر اخلاقی ناسورکے خاتمے، سماجی اور فکری تغیر و تبدل اور غیر منصفانہ رویوں کی درستگی اور غیر عادلانہ طرز عمل کو عادلانہ ترازو میں رکھ کر تولنے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الحَدَّ عَلَى الوَضِيعِ وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ فَعَلَتْ ذَلِكَ لَقَطَعْتُ يَدَهَا‘‘[6]
’’بے شک تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہو گئے کہ وہ لوگ کسی حقیر اور پسماندہ مرد پر تو حد قائم کرتے تھے اور معزز اور وجیہہ آدمی کو چھوڑ دیتے تھے اور اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر (حضرت ) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بھی ایسا کرتیں تو مَیں اُن کا ہاتھ کاٹ ڈالتا‘‘-
یہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بعثتِ مبارکہ کےمقاصد میں سے تھا کہ لوگوں کی عادات و خصائل، اخلاقی اقدار اور اُن کے رویوں کی درستگی کی جائے کیونکہ انہی چیزوں پر فرد، معاشرے اور قوموں کی بقا، استحکام اور ارتقاء کا انحصار ہوتا ہے- اخلاقی اقدار کی اہمیت کا اندازہ آپ (ﷺ) کے اِن فرامین مبارکہ سے لگائیں، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ‘‘[7]
’’بے شک میں اخلاق کی درستگی کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ[8]
’’بے شک میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ‘‘[9]
’’میں اس واسطے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘-
حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے جب مجھے یمن روانہ فرمایا تو اُس وقت آقا کریم (ﷺ) نے جو آخری وصیت مجھے فرمائی تھی وہ یہ ہے، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَحْسِنْ خُلُقَكَ لِلنَّاسِ يَا مُعَاذُ بْن جَبَلٍ‘‘[10]
’’اے معاذ! اپنے اخلاق کو لوگوں کیلئے اچھا بناؤ‘‘-
کتب احادیث میں موجود ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) بُرے اخلاق سے پناہ مانگا کرتے تھے-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے:
’’اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشِّقَاقِ، وَالنِّفَاقِ، وَسُوْءِ الْأَخْلَاقِ‘‘[11]
’’اے اللہ میں ’’دشمنی، ضد‘‘ نفاق اور بُری عادات و خصائل سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِنِسَائِهِمْ‘‘[12]
’’مؤمنین میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہیں اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں ‘‘-
حضرت جابر بن سُمرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ :
’’إِنَّ الْفُحْشَ، وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنَ الْإِسْلَامِ فِي شَيْءٍ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا‘‘[13]
’’بیشک بد زبانی اور فحش گوئی کا اسلام سے ذرہ برا بربھی تعلق نہیں اور اسلام کے اچھے وہ ہیں ،جو اخلاق کے اچھے ہوں‘‘-
یہ اِسی تعلیماتِ نبوی (ﷺ) کا نتیجہ تھا کہ چند عشروں میں ایک ایسا مثالی،غیرت مند،جرأت مند، ایماندار، امانتدار، دیانت دار،وفادار، مُنصف، حیا دار، لالچ سے پاک، تکبر سے پاک، بدکاری سے پاک اور صاحب اخلاق معاشرہ وجود میں آیا کہ جس نے شرق سے غرب تک پورے عالم کفر کو متاثر کیا -
لیکن مَیں بعض دفعہ اپنے معاشرے کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ دورِ جاہلیت والا اخلاقی زوال پلٹ کر پھر ہمارے معاشرے میں داخل ہوگیا ہے-تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تدارک کیسے کیا جائے گا؟
غیر اخلاقی اقدار اور تلخ رویوں کا تدارک:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر نیک اور بد عمل کی تحریک سب سے پہلے انسان کے قلب و باطن میں پیدا ہوتی ہے جو بعد میں عمل کی صورت اختیار کر لیتی ہے-بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نیکی اور برائی کی جڑ انسان کے قلب و باطن میں پیوست ہے-اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کا عمل اس کے باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے-اگر باطن کا ماحول خوشگوار ہے، درست ہے، اچھا ہے ، پاکیزہ ہے تو وہاں سے اچھے اعمال کا صدور ہوتا ہے اگر باطن کا ماحول اچھا نہیں ہے ، اس میں شدت ہے، منافرت ہے، تناؤ ہے، غم و غصہ ہے تو پھر وہاں سے انسان کے رویوں اور اعمال سے انہی چیزوں کا ظہور ہوتا ہے-
اس لئے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے سب سے پہلے انسان کے قلب و باطن کا تزکیۂ کرنا از حد ضروری ہے تاکہ اس کی فکری اور اعتقادی تطہیر ہو جائے اور اس کا تعلق باللہ استوار ہو جائے کیونکہ مثالی معاشرہ کے قیام کے لئے بنیادی طور پر اس شعور کا پیدا کرنا ضروری ہے کہ ہر فرد خود کو اللہ کے حضور حاضر سمجھے، یہی وجہ تھی کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اعلانِ نبوت کے وقت سب سے پہلے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اُس میں یہی فلسفہ کارفرما تھا کہ اولین انسان کے تعلق باللہ کو استوار کیا جائے تا کہ معبودانِ باطلہ سے چھٹکارا پا سکے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا‘‘
’’لاالہ الااللہ کہو فلاح پاؤ جاؤ گے‘‘-
یعنی دنیاو آخرت کی فلاح کے حصول کے لئے آدمی کے قلب و باطن میں یہ عقیدہ راسخ کرنا ضروری ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ،جو وحدہ لاشریک ہے اور میں اس کا عاجز بندہ ہوں- اسی تصور کو سورۃ لقمان کی آیت : 13 سے بھی سمجھ سکتے ہیں -
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جس کو قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِطاِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ‘‘[14]
’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئےکہا اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک کرنا ضرور سب سے بڑا ظلم ہے‘‘-
دراصل یہ وہ بنیادی سبق ہے جو بندے کو ہر وقت اللہ جل شانہ کے حضور حاضر ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے، اور اِسی احساس کو مستقل اور مضبوط کرنے کیلئے قرآن کریم نے ایک مشق جاری رکھنے کا حکم فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ‘‘[15]
’’ پس اللہ کی یاد کرو، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے‘‘-
امام ابن جریر ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) ’’تفسیر طبری‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:
’’بالليل والنهار، في البر والبحر، وفي السفر و الحضر، والغنى والفقر، والسقم و الصحة، والسرِّ والعلانية، وعلى كل حالٍ‘‘[16]
’’دن اور رات میں،خشکی اور تری میں ، سفر اور حضر میں، غنایت اور فقر میں، بیماری اور صحت میں، پوشیدہ اور اعلانیہ یعنی ہر حال میں اللہ کا ذکر کریں‘‘-
امام بیضاوی تفسیر بیضاوی میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’داوموا على الذكر في جميع الأحوال‘‘
’’تمام احوال میں ذکر اللہ پر دوام اختیار کرو‘‘-
اسی تصور کو حدیث شریف میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَكْثرُوا ذِكْر اللهِ حَتَّى يَقُولُوا مَجْنُونٌ‘‘[17]
’’اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں‘‘-
پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاۡتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ‘‘[18]
’’اے میرے بیٹے (برائی)اگر رائی کے دانہ برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں ہو، اللہ اسے لے آئے گا، بیشک اللہ ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے‘‘-
یعنی کسی حال میں بھی اللہ تعالی سے چھپ نہیں سکتا -
سلطان الفقر ششم بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ)نے آقا کریم (ﷺ) کی سنت جمیل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے لوگوں میں ذکر اللہ کو عام کیا اور آپ اکثر یہ پڑھا کرتے تھے کہ :
نال تصور اسم اللہ دے دم نوں قید لگاویں ھو |
یعنی اپنی سانسوں کو اللہ کے ذکر میں ایسا لگا دو کہ کوئی سانس اللہ کے ذکر کے بغیر نہ نکلے، تاکہ ہر وقت دھیان اُسی طرف رہے اور بندہ اپنے آپ کو ہر وقت اللہ کے حضور حاضر سمجھے،اسی شعور کو پیدا کرنےکی ضرورت ہے-تو بھلا ایسی کیفیت میں رویوں میں تلخی آنے کی نوبت آسکتی ہے یا کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کا تصور کیا جا سکتا ہے- دوسرا فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ ذکر اللہ دل کی زمین کے لئے پانی کی حیثیت رکھتا ہے جو دل میں نرمی پیدا کرتا ہے اور یقیناً جب انسان کے باطن میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے تو انسان کے رویوں، عادات و خصائل اور لب و لہجہ میں بھی نرمی پیدا ہوجاتی ہے جو کسی قوم کی بقا و ارتقاء کی ضمانت ہے -
جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (دامت برکاتہم العالیہ) کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ جب ہمارا رب بھی رحمان و رحیم ہے اور ہمارا نبی بھی رحمۃ اللعالمین ہے تو اُمتی کے لئے ضروری ہے کہ اس کےوجود سے رحمت اور نرمی کا ظہور ہو -
اسی تصور کو حضرت علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا :
تا نداری از محمد رنگ و بو |
’’جب تک تو حضرت محمد (ﷺ)کے (اخلاقِ عالیہ)کا رنگ و بو اختیار نہیں کرتا اس وقت تک اپنے درود سے حضور پاک (ﷺ) کے نامِ نامی کو آلودہ نہ کر‘‘-
بس!
ایسا رہا کریں کہ لوگ آرزو کریں |
٭٭٭
[1](مقدمہ ابن خلدون ،الفصل العشرون في أن من علامات الملك التنافس في الخلال الحميدة وبالعكس ، الناشر: دار الفكر، بيروت )
[2](سنن أبي داود ،كِتَاب الْأَدَبِ ، سُنن ترمذی ، أَبْوَابُ الزُّهْدِ )
[3](مقدمہ ابن خلدون ،الفصل العشرون في أن من علامات الملك التنافس في الخلال الحميدة وبالعكس ، جز : 1 ،ص : 178، الناشر: دار الفكر، بيروت)
[4](مسند احمد بن حنبل ، صحيح ابن حبان )
[5](صحیح بخاری ، كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ)
[6]( صحيح البخاري ، كِتَابُ الحُدُودِ )
[7](اَلْأدَبُ الْمُفْرَد ، امام بخاری (المتوفى: 256ھ) ،مسند احمد بن حنبل ،مصنف ابن ابی شیبہ ،الجامع لابن وهب )
[8](الفوائد ،مسند الشِهَاب ،السنن الكبرى للبیھقی )
[9](موطاء امام مالك)
[10](الترغيب والترهيب ، كتاب الأدب)، (شعب الایمان للبیھقی)، (مؤطا امام مالک ، كِتَابُ حُسْنِ الْخَلُقِ )
[11](سنن ابی داؤد ، كِتَاب الصَّلَاةِ) (سُنن نسائی ، كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ)، (الدعوات الكبير للبیھقی)
[12](سنن أبي داود، كِتَاب السُّنَّةِ)،(سُنن الترمذي، أَبْوَابُ الرَّضَاعِ)
[13](مسند احمد )،(مصنف ابن ابی شیبہ )، (مسند أبی يعلى) ، (الترغيب والترهيب ، كتاب الأدب )
[14](لقمان:13)
[15](النساء:103)
[16](تفسیر طبری، زیر آیت سورۃ النساء:103)
[17](مسند احمد بن حنبل)، (صحیح ابن حبان)، (مسند بزار)، (مستدرک علی الصحیحین)
[18](لقمان:16)