کوئی بھی شاعر جب عشقِ مصطفٰے(ﷺ) کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوتا ہے اور اس لطف و کرم کو شعرکے قالب میں ڈھالتا ہے وہ کلام نعت کہلاتا ہے - سب سے پہلے اللہ رب العزت نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کی نعت بیان فرمائی ہے، پورا قرآن آپ (ﷺ) کی مدح و ثنا اور اوصاف و محاسن کا لافانی شاہکار ہے- معیاری شاعری کا وصف ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن و قلب میں فکری و جمالیاتی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے یعنی اسے جہان فکر اور ذوق جمال وسیع ہونے کا احساس ہو جاتا ہے - برصغیرپاک وہند کی شاعری کی تاریخ میں فکر و جمالیات کے امتزاج کےحوالہ سے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی نظیرملنا مشکل ہے - زیست کے کسی بھی پہلو کی جمالیاتی تعبیر کرنا کسی بھی بڑے شاعر کا خاصہ ہے لیکن ایک نظام فکر مرتب کرنا جو بیان اور حسن بیان کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترے بلکہ نئے معیارات کی تشکیل کا باعث بنے کسی معجزہ سے کم نہیں-علامہ اقبالؒ کی شاعری کو یہ اعجاز حاصل ہے -
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کے نزدیک زندگی کی قوت محرکہ عشق ہے- ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عشق سے مراد عشق رسول (ﷺ) ہے- ان کی نظر میں عشق محض جذبہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ضابطہ حیات ہے- امت مسلمہ کے کسی بھی عمل کو وہ عشق کے بغیر کامل نہیں سمجھتے - یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری سے نعتیہ کلام کو الگ کرنا جسم سے روح کو نکالنے کے مترادف ہے-
حضرت علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ایک عظیم مفکر و فلسفی، دانشور و جہاں دیدہ اور شعراء میں بھی ان کا طرہ بلند تھا- ان کی شخصیت کا ہرپہلو قابل رشک اور باعث تقلید ہے ان کی مثال اس قیمتی جوہر کی سی ہے جو اپنی مثال آپ ہو-
ان تمام تر خصوصیات کے باوجود جو پہلو ان کی ذات کو ممتاز کرتا ہے آپ کی شخصیت کو امر کر دیتا ہے وہ عشق مصطفےٰ کریم (ﷺ)ہے- وہ عشق رسالت مآب(ﷺ) میں خود تڑپتے بھی تھے اور دوسروں کو تڑپاتے بھی ہیں- برتن سے وہی چیز برآمد ہوتی ہے جو اس میں ہوتی ہے- اس لیے کلام اقبال میں متعدد اشعار جابجا ملتے ہیں جو ان کے عشق کا اظہار ہیں جنہیں سلیس الفاظ میں نعتیہ کلام کہا جاسکتا ہے-
علامہ محمد اقبالؒ کا شمار اردو اور فارسی کے بڑے نعت گو شعراء میں ہوتا ہے- وہ رب تعالیٰ کی خوشنودی ومعرفت عشق رسول (ﷺ) میں تلاش کرتے ہیں- ان کے حضور سرور کائنات سے محبت کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
’’ان کے گداز قلب اور رقت احساس کا یہ عالم تھا کہ جہاں ذرا حضور سرور کون و مکان(ﷺ) کی رافت و رحمت یا حضورکی سروری کائنات کا ذکر آتا تو حضرت علامہ کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور دیر تک طبیعت نہیں سنبھلتی‘‘-[1]
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کے نعتیہ کلام کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ انہوں نے حضور رسالت مآب(ﷺ) کےظاہری و باطنی ہرپہلو کو اپنے کلام میں پرونے کی سعی جلیلہ فرمائی ہے- زیرمطالعہ تحریر سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے-
علامہ اقبالؒ امت کو ایک کارواں سمجھتے ہیں حضور کی ذات اس کارواں کی سرداراعلیٰ کی حیثیت سےنگہبانی فرما رہے ہیں- آپ(ﷺ) کی معیت و تعلیمات کی روشنی میں یہ قافلہ منزل ابدی کی طرف رخت سفر باندھے ہوئے ہے جس کا راحت و سکون آپ کے اسم مبارک کی برکت سے قائم ہے- حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
سالار کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا |
حضور رسالت مآب(ﷺ) کی ذات گرامی کو اللہ تعالیٰ نے رحمت العالمین بنا کر معبوث فرمایا انسان جب امورِ دنیوی میں الجھ کے رہ جاتا ہے تو اس کا تعلق باللہ اور تعلق بالرسول کمزور پڑنے لگتا ہے- وہ ذات بڑی کریم ورحیم ہے اگرانسان میں تھوڑی سی احساس کی چنگاری سلگ اٹھے تو لذات دنیا سے اس کا دل اُکتا جاتا ہے- پھر وہ اپنی اصل کی طرف لوٹتا ہے تو اسباب اس کا راستہ دیکھ رہے ہوتے ہیں- حضور (ﷺ) کی ذات اسے اپنی شان رحمت کی لپیٹ میں لے لیتی ہے- بقول اقبال :
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو |
حضور نبی کریم(ﷺ) کی ذات گرامی مظہر ذات الٰہی ہے- اگرکسی کو توحید کی روشنی نصیب ہوئی تو وہ آپ کی نگاہ التفات کا صدقہ ہے- اس کائنات میں اگر رمق ہے، چہک مہک ہے، یہ نیلگوں آسماں بے ستون کھڑا ہے تو یہ آپ (ﷺ) کے نام گرامی کی بدولت ہے یعنی حضور (ﷺ) جانِ کائنات ہیں -بقول اقبال :
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنّم بھی نہ ہو |
حضوررسالت مآب(ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وصف ودیعت فرمایا کہ جو بھی آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں آیا، جسے آپ کی مجلس کی حاضری نصیب ہوئی، آپ کی نگاہ کرم عطا ہوئی ان پہ انعام یہ ہوا کہ دلوں کا تزکیہ ہوگیا – آپ (ﷺ) نےاس منہج پہ ان کی تربیت فرمائی کہ تاریخ گواہ ہے انہوں نے آپ کی ذات اقدس کی خاطر جوانیاں بھی قربان کیں، مال بھی قربان کیا، جانوں کے نذانے بھی پیش کیے- ان کے لب کھلتے تو ایک ہی آواز ہوتی ہمارے لیے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے- جب آپ(ﷺ) نے مال لانے کا حکم فرمایا تو صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ)سارا مال اٹھا لائے جس کا ذکراقبال یوں فرماتے ہیں:
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس |
دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ آئے کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا تو کسی نے سخاوت کے لبادے میں اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی- کسی نے جاہ وجلال سے اپنا تسلط قائم کیا تو کسی نے دنیاکو فتح کرنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے لیکن زمانے کے حوادث نےان کے نام تک نیست و نابود کر دیئے- اس کے برعکس حضور (ﷺ) کی بارگاہ میں حبشہ سے غلام آتے ہیں جن کا نام گرامی حضرت بلال (رضی اللہ عنہ)ہے تربیت کا وہ معیار ملتا ہے جس کی بدولت جید صحابہ اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں، ان کا عشق انہیں امر کردیتا ہے- بقول اقبال:
اقبال! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے |
یہاں رومی سے مراد سکندراعظم ہے-حضور رسالت مآب(ﷺ) ذات بابرکات محبوبیت کے مقام پہ فائض ہے -جہاں آپ (ﷺ) سردار الانبیاء ہیں وہیں آپ کی امت بھی تمام امتوں سے افضل ہے - آپ (ﷺ)نے اپنے اوصاف حمیدہ سے ایک قوم تشکیل فرمائی، اس کو ایک نصب العین اور ضابطہ حیات عطا فرمایا- ہماری بقا اسی نصب العین کواپنانے میں ہے- بقول اقبال:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر |
حضور (ﷺ) کی بارگاہ کے غلام، بادشاہوں سے زیادہ فہم وفراست رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ہروقت کرم کے منتظررہتے ہیں-ان سے کبھی بھی عاجزی و انکساری کادامن نہیں چھوٹتا-جس کا ذکر اقبال یوں کرتے ہیں :
کرم اے شہِؐ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم |
حضور نبی کریم (ﷺ) خاتم الانبیاء ہیں- اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس کا تذکرہ فرمایا ہے اورحدیث نبوی (ﷺ) سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ آپ (ﷺ)اول بھی ہیں اور آخر بھی- آپ (ﷺ) صاحب قرآن ہیں اور پورا قرآن آپ (ﷺ)کی نعت ہے-بقول اقبال:
وہ دانائے سُبل ختمُ الرُسل مولائے کُل جس نے |
بارگاہ رسالت میں اقبال التجا کرتے ہیں کہ اے والی یثرب! ہماری دستگیری فرما، ہم بھٹک رہے ہیں ہم نے تیرے دین کا پہرا دینا تھا، ہم تیرے فقر کے وارث تھے لیکن ہماری سوچ افرنگی ہوتی جا رہی اورایمان زناری -
تُو اے مولائے یثرب ؐ!آپ میری چارہ سازی کر |
جسے آقاکریم(ﷺ) کی دستگیری نصیب ہوجاتی ہے پھر کوئی بھی باطل قوت اسے راہ راست سے گمراہ نہیں کرسکتی جیسا کہ علامہ صاحب لکھتے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہٴ دانش فرنگ |
تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے نور مبارک کو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور اس کے بعد آپ (ﷺ) کے نورمبارک سے تمام عالم کی ارواح کو تخلیق فرمایا-اس کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تُو |
حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی ساری زندگی ثناء مصطفٰے میں گزری- حکیم الامت کا لقب بھی آپ کو آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پہ درود وسلام کا نظرانہ پیش کرنے کی وجہ سے عطا ہوا-
کافر ہندی ہوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق |
حضور رسالت مآب(ﷺ) جان کائنات ہیں آپ کی ذات پاک چلتا پھرتا قرآن ہے- اس عالم آب و خاک میں جوروشنی ہے وہ آپ کی ذات اقدس سے ہے - اعمال وعبادات کی قبولیت آپ(ﷺ) کی محبت پہ موقوف ہے- اقبال فرماتے ہیں:
لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب |
اقبالؒ جہاں حضور نبی کریم (ﷺ) کے اوصاف و کمالات بیان فرماتے ہیں وہیں امت کا درد بھی رکھتے ہیں- جب امت کی وحدت کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے تو اس المیہ پہ وہ بارگاہِ رسالت میں التجا کرکے رہنمائی کے طلب کرتے ہیں:
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر |
سر زمین عرب کی دنیا میں اہمیت ہے تو وہ اس کی سرحدی حدود کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا اعجاز آپ (ﷺ) کی وہاں تشریف آوری کی بدولت ہے- بقول اقبالؒ:
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا |
مسلمان کی موت فاقہ کشی سے نہیں ہوتی، اسباب کی کمی سے اس کی قوت ماند نہیں پڑتی،بلکہ یہ اس وقت مات کھا جاتا ہے جب اس کے بدن سے روح محمد(ﷺ) نکل جاتی ہے- پھر چاہے اس کے پاس مال و متاع کی بہتات ہی کیوں نہ ہو-اقبال اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا |
ایک اور جگہ علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:
دردل مسلم مقام مصطفٰے است |
’’مصطفٰے(ﷺ) کامقام مسلمان کے دل میں ہے- ہماری عزت اور آبرو مصطفٰے (ﷺ) کے نام مبارک سے ہے- کوہ طور حضور نبی اکرم (ﷺ) کے دولت خانے کی گرد کی ایک لہرہے اور آپ (ﷺ) کا کاشانہ مبارک کعبہ کے لیے بیت الحرم کی حیثیت رکھتا ہے- ابد حضور اکرم(ﷺ) کے اوقات کے ایک پل سے بھی کمتر ہے- ابد حضور(ﷺ) سے فیضان حاصل کرنے والا ہے- چٹائی حضور اکرم(ﷺ) کی راحت بھری نیند کی احسان مند ہے- کسریٰ کا تاج حضور نبی کریم (ﷺ) کی امت کے پاوں تلے ہے‘‘-
حضورﷺکی ذات قدسیہ شفیع ہیں آپ روزمحشر امت کی شفاعت فرمائیں گے علامہ اقبالؒ نے یوں ذکرکیا ہے-
روز محشر اعتبار ماست او |
’’قیامت کے روز حضور نبی کریم (ﷺ) ہماری آبرو اور عزت ہیں- آپ (ﷺ) دنیا میں بھی ہمارے پردہ دار ہیں‘‘-
امت مسلمہ جسد واحد کی مانند ہے اور اس جسم کی جا ن حضور آقاکریمﷺ کی ذات قدسیہ ہے-
چوں گلِ صد برگ ما را بو یکیست |
’’سینکڑوں پتیوں والے پھول کی طرح ہماری خوشبوایک ہے وہ یعنی حضورنبی کریم(ﷺ) کی ذات اس نظام کی روحِ جان ہے اور وہ ایک ہی ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ میرا محبوب مومنوں کی جان سے بھی قریب ہے آپ ہمارے دل میں جلوہ گرہیں-
ہستی مسلم تجلی گاہِ او |
’’مسلمان کا وجودحضور(ﷺ) کی جلوہ گاہ ہے حضور کے راستے کی گرد سے کئی طورپیدا ہوتے ہیں ‘‘-
کائنات کے جس ذرہ پہ آپ(ﷺ) کے ظاہری قدم مبارک لگے اللہ تعالیٰ نےاسے عالم سے ممتاز کردیا - بالخصوص حضور کا جومدینہ ہے اس کو اللہ نے بہت شرف بخشا ہے-
خاک یثرب از دو عالم خوش تر است |
’’یثرب کی خاک دونوں جہانوں سے کہیں بہتر ہے وہ شہرکتنا مبارک ہے جس میں دلبررہتا ہے‘‘-
حضورنبی کریم (ﷺ)دین فطرت لے کر آئے اور آپ نے شریعت کو نافذ فرمایا جو دستورزندگی کی تفصیل ہے-
ہست دین مصطفٰے دین حیات |
’’رسول اللہ (ﷺ) کا دین زندگی کا دین ہے اور حضور (ﷺ)جو شریعت لائے وہ زندگی کے دستورکی تفصیل ہے‘‘-
اقبال کے نزدیک زندگی کا عہد شباب آپ(ﷺ) کے ظہور سے ہے اس زمین و آسماں کو قدر و منزلت آپ (ﷺ)کے ظہور سے ملی ہے-
اے ظہور تو شباب زندگی |
’’آپ (ﷺ) کا ظہور زندگی کا عہدشباب تھا اور آپ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیرتھا- ہماری زمین نے صرف اس وجہ سے اونچا درجہ حاصل کرلیا کہ آپ (ﷺ) کی بارگاہ سے شرف پایا - آسمان آپ (ﷺ) کے لب بام کوچومنے سے سربلند ہوا‘‘-
آپ(ﷺ)کی آمد سے انسانیت کو معراج نصیب ہوئی- انسان اپنی حقیقت سے آگاہ ہوا آپ کے عشق سے روح کو تسکین عطا ہوتی ہے-
جلوۂ بے پردہ او وانمود |
’’وجود کا چھپا ہوا جوہر آپ (ﷺ) کے ظہور سے آشکار ہو گیا- آپ(ﷺ) کے عشق کے بغیر روح کوتسکین نہیں- آپ (ﷺ) کا عشق وہ دن ہے جسے شام نہیں ہے‘‘-
حکیم الامت ایک جگہ فرماتے ہیں:
حمد بیحد مر رسول پاک را |
’’حضورنبی کریم(ﷺ) کی بے حد تعریف و ستائش جن کی ذات گرامی نے مشت خاک کوایمان کی دولت سے نوازا‘‘-
علامہ اقبالؒ کی نظر میں فقروبادشاہی کسی کو نصیب ہوئی تو وہ آپ(ﷺ)کی ذات بابرکات کے صدقے ہوئی-
خسروی شمشیر و درویشی نگہ |
’’فقر اور بادشاہی یہ دونوں حضور نبی کریم (ﷺ) کی خاص حالت کی غماز ہیں اوریہ حضورکی ذات بابرکات کی تجلی سے قائم ہیں‘‘-
اقبالؒ امت کو پیغام دیتے ہیں کہ اگر ہم اس مادیت کے پُر آشوب دور میں سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں تواس کا ایک ہی راستہ ہے، طلب الٰہی دل میں جاگزیں کیےحضورکی بارگاہ میں پیش ہوجائیں -
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر |
’’اگر تو اس جہاں میں مقام پانا چاہتا ہے اللہ سے دل لگا اور حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ) کے راستے پرچل‘‘-
جو سوز حضور نے اس امت کو عطا کیا تھا جس کو سینوں میں سجائے حضور کے رفقاء نے مائندہ لباسوں اور زنگ آلود ہتھیاروں سے دنیا کے فرعونوں کو للکارا ان کے سامنے دین مبین کے پرچم کو سربلند کیا-لیکن آج وہ سوز باقی نہیں رہا - علامہ اقبالؒ حضوراکرم (ﷺ)کی بارگاہ میں یوں التماس کرتے ہیں:
مسلماں آں کج کلاہے |
’’وہ مسلمان جو فقیری میں بھی بادشاہ ہے اس کے سینے سے آہ کا سوزمٹ گیا ہے - اس کا دل آہ و فریاد کر رہا ہے وہ نہیں جانتا کہ کیوں آہ و فریاد کر رہا ہے- یا رسول اللہ (ﷺ) ایک نگاہ کرم کر کے اس کی تقدیر بدل دیجیے‘‘-
علامہ اقبالؒ کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اندر بہار جاودانی محبت رسول (ﷺ) کے بغیر ناممکن ہے- آپؒ کا یہ کلام اس طرف توجہ مبذول کرواتا ہےکہ جہاں حضور (ﷺ)کی سیرت سے وابستگی لازم ہے وہیں صورت مصطفٰے کریم (ﷺ) تک پہنچنا ضروری ہے-
٭٭٭
[1](اقبال اور عشق رسول، پروفیسر سید محمد عبد الرشید، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس، 1977،ص:48)