آداب حدیث پاک

آداب حدیث پاک

آدابِ حدیث:

 ادب وہ چیز ہے جس کی تعلیم خود رب کائنات نے اپنے پیارے حبیب نبی اکرم (ﷺ) کو عطا فرمائی-

حضو ر نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا:

’’ادبنی ربی فا حسن تا دیبی‘‘[1]

’’مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا ‘‘-

علما ء کرام ؒ فرماتے ہیں :

’’ما یحمد من القول و الفعل ‘‘

’’ادب اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس پر تعریف کی جائے ‘‘-

اعلئ حضرتؒ  فر ماتے ہیں:

’’ولا دین لمن لا ادب لہ ‘‘[2]

’’جو با ادب نہیں اس کا کوئی دین نہیں ‘‘-

حضرت سیدنا ابو علی دقاق ؒ فرماتے ہیں:

’’بندہ اطاعت سے جنت تک اور اطاعت الٰہی میں ادب کرنے سے اللہ پاک تک پہنچ جاتا ہے ‘‘-[3]

ابن مبارک ؒ  فرماتے ہیں :

’’ہمیں زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا ادب حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے‘‘-[4]

حضرت سیدنا داتا علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:

’’دینی اور دنیاوی تمام امور کی زینت ادب ہے اور مخلوقات کو ہر مقام پر ادب کی ضرورت ہے ‘‘-[5]

علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:

’’الاخذ بمکارم الاخلاق ‘‘

 ادب عمدہ اخلاق کو اپنانے کا نام ہے-

 عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے:

’’الدین کلہ ادب‘‘

’’دین سارے کا سارا ادب ہے ‘‘-

محدث کے آداب:

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے بڑوں کا ادب نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں-بے شک میرے ادب میں سے یہ ہے کہ میرے امت میں سے شیخ (محدث)کی توقیر کی جائے‘‘-[6]

مجلسِ حدیث کی توقیر:

حضرت ابو سعید خدری(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

’’بے شک ہم مسجد میں بیٹھتے جب آقا کریم (ﷺ) ہماری طرف تشریف لائے پس آپ ہمارے پاس بیٹھے گویا کہ ہمارے سروں کے اوپر پرندے بیٹھے ہیں ہم میں سے کوئی ایک بھی کلام نہ کر سکا-[7]

حضرت حماد بن زید (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’ہم حضرت ایوب (رضی اللہ عنہ)کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے آواز سنی پس حضرت ایوب نے کہا کہ یہ کیسی آواز ہے کیا ان تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ آقا کریم (ﷺ) کی حدیث مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے آواز کو بلند کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ (ﷺ) کی موجودگی میں آواز بلند کرنا‘‘-[8]

حصول علم کے لیے ادب و احترام بہت ضروری ہے کیونکہ ترکِ فعل اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ ترکِ ادب ہے اس لیے اگر کوئی آدمی دین کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا مثلاً نماز چھوڑ دیتا ہے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے مگر ایمان سے خارج نہیں ہوتا لیکن اگر وہی شخص دین کے کسی حکم کی اہانت کرے بے ادبی کرے تو ایمان سے خارج ہو جاتا ہے-

حدیث پڑھنے اور پڑھانے کے آداب:

لفظ ادب زندگی کے تمام معاملات سے تعلق رکھتا ہے یونہی حدیث مبارکہ کے آداب کی کئی جہتیں ہیں- جیسا کہ حدیث مبارکہ سننے، پڑھنے اور پڑھانے سے پہلے محض رضائے الٰہی اور رضائے مصطفےٰ (ﷺ) کی نیت ہونی چاہیے-جیسا کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اعمال کا دارو مدار نیت پہ ہے بیشک ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘-[9]

’’جس شخص نے حدیث مبارکہ یا کسی بھی علم کو دنیا کی خاطر چاہا وہ آخرت کی خوشبو کو نہیں پائے گا‘‘-[10]

جس مجلس میں رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث  مبارکہ پڑھی یا بیان کی جا رہی ہو تو اس مجلس میں شور و غل کرنا سخت بے ادبی ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کے ارشاد کا احترام بعد از ظاہری وصال ویسے ہی ضروری ہے جیسا کہ آپ کی حیات طیبہ میں تھا- جلیل القدر محدث حضرت امام بخاری کے استاد امام عبدالرحمٰن بن مہدی(المتوفی 198ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے سامنے حدیث پڑھی یا سنائی جاتی تو وہ لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اوریہ آیت تلاوت فرماتے :

’’یٰٓاَیُّہَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ  فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘[11]

’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی(ﷺ) کی آواز سے ‘‘-

مزید فرماتے تھے کہ حدیث مبارکہ پڑھتے اور پڑھاتے وقت خاموش رہنا اسی طرح لازم ہے کہ جس طرح آپ (ﷺ) کے دنیا میں ارشاد فرمانے کے وقت لازم تھا-[12]

حضرت امام مالکؒ کا یہ معمول تھا کہ جب حدیث  مبارکہ بیان فرماتے تو پہلے غسل کرتے پھر خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہن کر نہایت عاجزی اور تواضع کے ساتھ حدیث  مبارکہ بیان کرتے-[13]

ایک شخص نےراستے میں چلتے ہوئے امام مالکؒ  سے حدیث پاک کے بارے سوال کیا تو آپؓ نے اسے بیس چھڑیاں لگائیں کہ یہ خلافِ ادب ہے کہ حدیث مبارکہ کو راہ چلتے ہوئے پو چھا جائے -جب بیٹھے تو جتنی چھڑیاں لگائیں تھیں اتنی حدیث  مبارکہ بیان کی تو اس شخص کو عمر بھر ملال رہا کاش کچھ اور چھڑیاں لگاتے-

امام مالکؒ ایک بار حدیث پاک بیان کر رہے تھے کہ بچھو نے آپؓ کو ڈس لیا- سا تھی نے پو چھا آج آپؒ کا رنگ بوقتِ بیانِ حدیث بار بار متغیر ہوا تو آپؓ نے فر مایابچھو نے سو بار کاٹ لیا تھا مگر حدیث پاک کا ادب مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں اپنی تکلیف کے لیے حدیث پاک کو روک لوں -

رئیس التابعین حضرت سعید بن المسیب (رضی اللہ عنہ)بیمار ہونے کی وجہ سے ایک پہلو پر لیٹے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے ان سے حدیث مبارکہ دریافت کی تو وہ فوراً اٹھ کے بیٹھ گئے اور حدیث پاک بیان کی- سائل نے کہا آپؓ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟ تو فرمایا میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی حدیث پاک کو کروٹ کے بل بیان کروں-[14]

اس لیے حضور نبی اکرم (ﷺ) نے حدیث و سنت روایت کرنے والے کو اپنا خلیفہ فرمایا ہے -

’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے اللہ میرے خلفاء پر رحم فرما- ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا جو میرے بعد آئیں گے میری احادیث اور سنت روایت کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے‘‘-[15]

سماعتِ حدیث کے آداب:

سماعتِ حدیث انتہائی ادب و عاجزی کے ساتھ کرنا چاہیے اس میں اپنی طرف سے کوئی بات شامل نہیں کرنی چاہیے- حضور نبی اکرم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے کسی ایسی بات کی نسبت میری طرف کی جو میں نے کہا نہ ہو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘-[16]

حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’تم مجھ سے حدیث سنتے ہو اور تم سے بھی حدیث سنی جائے گی (بعد ازاں) ان لوگوں سے بھی سنی جائے گی جنہوں نے تم سے سنا ہوگا ‘‘-[17]

 اس لیے حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اے اللہ ہمیں چیزوں کو اسی طرح دیکھنے کی توفیق عطا فرما جیسی وہ ہیں، باطل کو باطل کے روپ میں دیکھنے اور پھر اسی سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں حق کو حق کی صورت دیکھنے پھر اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘- [18]

کیونکہ الفاظ ابلاغ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں- مگر کبھی الفاظ ہی ابلاغ کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں- ماہرین نفسیات کے نزدیک ذرائع ابلاغ (Communication) میں الفاظ کا %7 حصہ ہے اور %30 حصہ لہجے میں ہے اور %55 حصہ جسمانی حرکات و سکنات (Body Language) کا ہوتا ہے-

حضرت سلیمان بن حرب (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ میں نے حضرت حماد بن زید (رضی اللہ عنہ)کو اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ یٰٓاَیُّہَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ  فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے سنا:

’’حضرت حماد نےکہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے وصال کے بعد آپ (ﷺ) کے روضہ مبارک پر آواز بلند کرنا ایسے ہی ناپسند ہے جیسا کہ آپ (ﷺ) کی حیات میں- جب حدیث مبارکہ پڑھی جائے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ خاموشی اختیار کریں جیسا کہ قرآن کریم کی سماعت کے وقت خاموشی اختیار کرتے ہیں ‘‘-[19]

حدیث سیکھنے کے آداب:

v     حدیث پاک سیکھنے کے لیے طالب علم میں اخلاصِ نیت کا ہونا ضروری ہے- اس لیے امام بخاری نے صحیح بخاری میں پہلے ’’الاعمال باالنیات‘‘ اس حدیث پاک کو درج فرمایا-

v     علم کو دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیے حاصل کرنے سے اجتناب کرے- جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:’’جو علم سیکھے اس کے ذریعے اللہ تعالی کی رضا مقصود نہ ہو بلکہ دنیاوی کوئی غرض پیش نظر ہو تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو کو نہیں پا سکے گا ‘‘-[20]

v     آدمی کلی طور پر طلبِ حدیث میں مشغول ہو جائے- اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرے-

v     اس کے شہر کے جو اساتذہ علمی و دینی اور اعلیٰ سند کے اعتبار سے بلند مرتبے پر فائز ہوں ان سے حدیث کی تحصیل شروع کرے-

تین چیزوں کا احترام بہت ضروری ہے:

1)  اپنے سکول  یا مدرسے کا احترام

2)  جس کتاب سے اکتساب فیض کیا اس کا احترام

3)  اپنے استاد کا احترام

v     حدیث کے علم کا آغاز صحیح بخاری و صحیح مسلم سے کیا جائے-

اختتامیہ:

انسانوں میں ادب،احترام کا شعور روز ازل سے ہے-اسلامی تعلیمات، خصوصاًقرآن ،حدیث میں تہذیبِ نفس اور کردار سازی میں ادب کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے- ادب ہی انسانوں کو حیوانوں سے جدا کرتا ہے-ادب ہی انسان کی معراج اور ارتقاءکا ذریعہ ہے –

بزبانِ شاعر:

ادب تا جیست از فضل الٰہی
بنہ بر سر برو ہر جا کہ خواہی

’’ ادب اللہ کے فضل کا تاج ہے سر پر رکھ جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے ‘‘-

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

کر دم از عقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل در گوش دلم گفت کہ ایمان ادب است[21]

’’میں نے عقل سے سوال کیا تو یہ بتا کہ ایمان کیا ہے؟ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان ادب کا نام ہے‘‘-

حدیث پاک کا ادب ہمارےلیسے بہت ضروری ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی حیات طیبہ میں ارشاد فرمانے کے وقت تھا- حدیث پاک کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح نہیں دینی چاہیے- حدیث ا ور صاحب حدیث کا ادب ہمارے لیے بہت ضروری ہے-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اپنی پنجابی ابیات میں  ادب کے متعلق فرماتے ہیں:

علم پڑھیا پر ادب نہ سکھیا کی لینا علم نوں پڑھ کے ھو

یعنی علم وہ ہے جو ادب سکھائے- کیونکہ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

٭٭٭



[1](جامع  صغیر حرف  الھمزہ، رقم الحدیث:310،  ص25)

[2](فتاوی رضویہ، ج:28،  ص:159)

[3](رسالہ قشیریہ، باب الادب، ص:316)

[4](ایضاً، ص:317)

[5]( کشف المحجوب، باب المشاہدہ، ص:369)

[6](کنز و میزان)

[7]( صحیح بخاری)

[8](الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع)

[9](صحیح بخاری)

[10](کنز العمال)

[11](الحجرات:2)

[12](مدارج النبوت، ج: 1،  ص:529)

[13](جامع بیان العلم، ج:2،  ص:199)

(مدارج  النبوت، ج:1، ص:542)

[14](مدارج النبوت، ج:1،  ص:541)

[15](الطبرانی فی المعجم الاوسط،ج:6، ص:395)

[16](صحیح البخاری،  کتاب الجنائز)

[17](المسند احمد بن حنبل، ج:1، ص:321)

(سنن ابی داؤد، کتاب العلم)

(سنن الکبرٰی للبہیقی، ج:10، ص:250)

(الجرح و تعدیل لابن ابی حاتم، ج:2، ص:8)

[18](مرقاة المفاتيح، ج:10، ص:110)

[19](الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع)

[20](سنن ابی داود، رقم الحدیث:36620)

[21](فتاوی رضویہ،ج:23، ص:393)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر