لباس اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور یہ اُن نعمتوں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لے کر اپنے بندوں پر احسان جتلایا ہے اور اپنی بارگاہ سے خصوصی طور پر اولاد آدم کیلئے نازل فرمایا ہے - لباس بطورِ انعام کے اولاد آدم کو عطا کئے جانے کا یہ شرف صرف انسان کو حاصل ہے دنیا کی کسی اور مخلوق کو اِس نعمت سے سرفراز نہیں فرمایا گیا - اللہ تعالیٰ نے تمام اولادِ آدم کو مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا :
’’یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا ط وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی لا ذٰلِکَ خَیْرٌط ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ‘‘[1]
’’ اے اولاد آدم ! بیشک ہم نے تم پر ایسا لباس نازل کیا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہے اور وہ تمہاری زینت (بھی) ہے اور تقویٰ کا لباس، وہی سب سے بہتر لباس ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘-
امام رازی تفسیر کبیر میں اسی آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ آیات جو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر فضل و رحمت پر دلالت کرتی ہیں یعنی اُن آیات میں اُن پر لباس کا اتارنا بھی ہے-تاکہ وہ اس میں نصیحت حاصل کرتے ہوئے اِس عظیم نعمت کو پہچانیں (اور اس کی قدر کریں)‘‘- [2]
لباس کی قدر اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لباس آیاتِ الٰہی میں سے ایک آیت ہے - اس لئے اس کی قدر کرنا لازم ہے -
امام ابن کثیر، تفسیر ابن كثير میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کا بندوں پر احسان ہے جس نے انہیں لباس اور زینت بخشی‘‘-[3]
امام قرطبی ’’تفسیرقرطبی‘‘ میں اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’مَیں کہتا ہوں کہ مِن جملہ نعمتوں میں سے ایک شرم گاہ کو ڈھانپنا بھی ہے ‘‘-[4]
لباس کا پہلا مقصد بھی یہی ہے کہ بدن کے اُن اعضا کو دوسروں کی نظروں سے چھپایا جائے جنہیں برہنہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے، کیونکہ غیر ساتر لباس پہننے والوں کیلئے سخت وعید آئی ہیں - البتہ مجبوری کی حالت اِس سے مستثنیٰ ہے-
لباس کا دوسرا مقصد زیب و زینت کا حصول ہے کہ انسان خوبصورت دکھائی دے اور یہ زینت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ طکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ [5]
’’ (اے نبی(ﷺ) آپ کہیے، اللہ کی زینت کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے، اور اس کی دی ہوئی پاک چیزوں کو، آپ کہیے یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خصوصاً ان ہی کے لیے ہیں، ہم جاننے والے لوگوں کے لیے اسی طرح تفصیل سے آیتوں کو بیان کرتے ہیں‘‘-
امام قرطبی،’’تفسیرقرطبی‘‘میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’یہاں زینت کا لفظ خوبصورت اورحسین لباس کیلئے ہے جب اِسے پہننے والا اِس پر قادر ہو‘‘-
امام قرطبی مزید اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’یہ آیت قیمتی اور عمدہ لباس پہننے،جمعہ،عیدین ،لوگوں اور اپنے بھائیوں کی ملاقات کے وقت لباس کے ساتھ حسن و جمال کا اظہار کرنے پر دلیل ہے ‘‘-
آپ مزید لکھتے ہیں :
’’انسان پر واجب ہے کہ وہ خوبصورت دکھائی دے اور یہ نفس کا حق ہے اور اس چیز میں شریعت نے اس پر ملامت نہیں کی ، اسی لیے وہ بال سنوارتا ہے ،شیشہ دیکھتا ہے اورعمامہ درست کرتا ہے‘‘-
سیدناحضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی مونچھیں بڑی بڑی تھیں اُن کو سنوارتے اور بنا کے رکھتے ،جیساکہ مؤرخین نے کتبِ تاریخ میں لکھا ہے کہ:
’’حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی مونچھوں کے دائیں بائیں سے بال کافی بڑے تھے یعنی بڑی مونچھیں تھیں‘‘- [6]
مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ اپنے کپڑوں ، بالوں ، داڑھی اور مونچھوں کو سنوارکے رکھے تاکہ خوبصورت لگے -
علامہ أبو بكر محمد بن جعفر الخرائطی (المتوفى: 327ھ) اور امام قرطبی اسی حوالے سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کے اصحاب کا ایک گروہ آپ (ﷺ) کی ملاقات کیلئے آپ (ﷺ) کے کاشانہ اقدس پہ حاضر ہوا ، منتظر تھا کہ آپ (ﷺ) تشریف لائیں، پس آپ (ﷺ) ملاقات کیلئے باہر تشریف لائے اور گھر میں ایک برتن تھا جس میں پانی تھا تو آپ (ﷺ) پانی میں دیکھنے لگے اور اپنی ریش مبارک اور اپنے بال مبارک سیدھے اور درست فرمانے لگے تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) کیا آپ بھی یہ کر رہے ہیں؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ہاں جب آدمی اپنے بھائیوں کے پاس جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘-[7]
حضرت ابوالعالیہ فرمایاکرتے :مُسلمان جب آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں تو وہ حُسن و جمال کا اہتمام کریں، (یعنی تیاری کریں تاکہ خوبصورت لگیں) جس طرح لباس آیاتِ الٰہی میں سے ایک آیت (نشانی)ہے اسی طرح لباس کا خوبصورت ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے -آقا کریم (ﷺ) نے اپنے عمل سے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی اُمت کو تلقین بھی کی اور نیا لباس پہننے پر دعا کی تعلیم بھی فرمائی؛ اور آپ (ﷺ) نے مختلف مواقع پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو تاکید فرمائی کہ آدمی کے وجود پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اثر ظاہر ہونا چاہیے- جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے -
’’حضرت ابو الاحوص (رضی اللہ عنہ)کے والد بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس میلے کچیلے کپڑوں میں حاضر ہوا،آپ(ﷺ) نے فرمایا:کیا تمہارے پاس مال ہے؟ مَیں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ (ﷺ) (میرے پاس ہر قسم کا مال ہے) ،آپ (ﷺ) نے فرمایا: کیسا مال ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ ، بکریاں ،گھوڑے اور غلام عطا فرمائے ہیں ، رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے تجھے مال دیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور بخشش کا اثر تم پر ظاہر ہونا چاہئے ‘‘- [8]
’’مؤطا امام مالک‘‘ میں ہے کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) فرمایا کرتے :
’’جب اللہ تعالیٰ تم پر کشادگی فرمائے تو تم بھی اپنے اوپر کشادگی کیا کرو‘‘-[9]
اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے تو اللہ و رسول کی فرمانبرادری میں رہتے ہوئے رہن سہن اور لباس وغیرہ اچھا رکھنا چاہئے، یہ غرور و تکبر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہےاورنعمت کی شکر کی ادائیگی ہے- جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے :
’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ میرے کپڑے دھلے ہوئے ہوں اور میرے سر میں تیل لگا ہوا اور میری جوتی نئی ہو،اس نے اور بھی کئی چیزیں ذکر کیں حتیٰ کہ اپنے چابک کی ڈوری کا بھی ذکر کیا اور پوچھا یا رسول اللہ (ﷺ) کیا یہ چیزیں تکبر سے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا نہیں یہ جمال ہے اور بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال سے محبت کرتا ہے-لیکن تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے‘‘-[10]
امام فخرالدین رازی اِس آیت ’’قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ‘‘کی تفسیر میں زینت اورطیبات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’زینت سے مُراد عام ہے اور ا ِس میں زینت کی تمام اقسام شامل ہیں اِس میں بدن کو صاف رکھنا ، سواریاں رکھنا اور انواع و اقسام کے زیورات شامل ہیں اور اگر مردوں پر سونے چاندی اور ریشم کی حرمت کے متعلق نص نہ آئی ہوتی تو وہ بھی اس عموم میں شامل ہوتے،اور ( طیبات رزق) میں ماکولات و مشروبات کی تمام اقسام داخل ہیں ،جن سے لذت اور چاہت حاصل ہو‘‘ - [11]
مطلب یہ تھا کہ اچھا لباس پہننا تکبر نہیں ہیں اور نہ خلافِ زہد و تقوی ہے بلکہ زینت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور زینت کا دائرہ کار وسیع ہے ، باقی رہا تکبر تو وہ حق سے روگردانی کرنا اور لوگوں کو کم تر اور حقیر جاننا ہے - تو معلوم ہوا کہ زیب و زینت اور لباس کے حوالے سے اسلام کا دائرہ وسیع ہے ،اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اور یقیناً زمان و مکان کے اختلاف کی وجہ سے لوگوں کے رہن سہن، طور اطوار اور لباس و زبان ایک جیسے نہیں رہ سکتے تھے- اِس لئے دینِ اسلام نے قبولِ اسلام کے لئے کسی خاص قسم اور خاص ہیئت کے لباس وزبان کو شرط قرار نہیں دیا کہ اِس کو اپنائے بغیر اسلام میں داخل نہیں ہو سکتے، یہی وجہ ہے کہ احادیث و آثار میں انواع و اقسام کے کپڑے پہننے کا ثبوت موجود ہے -
اسلام نے توفقط مردوعورت پر شرم گاہ کو چھپانا فرض قرار دیا ہےاور اِس سے زیادہ کو زینت میں شمار کیا ہے - حضور نبی کریم(ﷺ) کی سیرت طیبہ سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں لباس پہننے کی وسعت کتنی ہے -علامہ غلام رسول سعیدی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے سفید اور مختلف رنگوں کے حلے(ایک قسم کی دو چادریں) پہنی ہیں،جبہ اور کوٹ زیب تن کیا ہے، قبا (ایک قسم کی شیروانی) پہنی ہے، آپ نے قمیص پہنی ہے اور یہ آپ کا پسندیدہ لباس تھا، سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا ہے، اور کھال اور کپڑے کی مختلف قسم کی ٹوپیاں پہنی ہیں، پوستین پہنی ہے اور بیل بوٹوں والی نقشین اور سادہ چادریں اور اونی کمبل اوڑھے ہیں، ایسا جبہ اور پوستین پہنی ہیں جن کی آستینوں پر ریشم کا کام کیا گیا تھا، آپ (ﷺ) نے شلوار خریدی ہے- علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے شلوار پہنی بھی ہے آپ نے اونی، سوتی، باریک اور موٹے ہر قسم کے کپڑے پہنے ہیں اور غیر اسلامی ملکوں کے بنے ہوئے کپڑے بھی آپ نے پہنے ہیں-( نیزآپ (ﷺ) نے شامی جبے ، رومی جبے ، یمنی اور قطری منقش اور دھاری دار چادریں بھی زیب تن فرمائی ہیں)- آپ (ﷺ) نے سادہ اور انتہائی قیمتی اور اعلیٰ قسم کے کپڑے بھی پہنے ہیں‘‘-[12]
مفتی بغداد علامہ محمودآلوسی، لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) نےایک ہزار درہم کی چادر زیب تن فرمائی‘‘-[13]
امام ذہبی لکھتے ہیں :
’’حضرت علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب سردیوں میں پچاس دینار کا کپڑا خرید کر لباس بناتے اور پھر گرمیوں میں اس کو صدقہ کر دیتے اور گرمیوں میں مصری کپڑوں میں سے خرید کر لباس بناتے‘‘-[14]
امام قرطبی لکھتے ہیں :
’’حضرت تمیم داری (رضی اللہ عنہ)نے نماز کےلئے ایک ہزار درہم کا حلہ خرید رکھا تھا-جس میں نماز پڑھتے تھے‘‘-[15]
مفتی بغداد علامہ محمودآلوسی، لکھتے ہیں :
’’حضرت امام اعظم ابو حنیفہ چار سو دینار کی چادر اوڑھتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کا حکم فرماتے،اور امام محمد بھی قیمتی لباس پہنتے تھے ‘‘- [16]
امام بیہقی روایت کرتے ہیں :
’’حضرت مالک بن انس(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر کے تمام فقہاء کو حسین لباس پہنے ہوئے دیکھا ہے‘‘- [17]
جن روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو کھانے ، پینے اورلباس پہننے میں اتنی فراوانی نہیں تھی جیساکہ آتا ہے کسی کی فقط ایک قمیض ہوا کرتی تھی یا اس قبیل کی جتنی بھی روایات ہیں ، تو یہ اسلام کے اوائل دور کی بات ہے - یقیناً اوائل دور میں ایسی ہی صورتحال سے گزرنا پڑا-لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور مالِ غنیمت کی کثرت ہوئی تو صورتحال یکسر بدل گئی-
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان کی قلبی واردات اور دلی کیفیات بدلتی رہتی ہیں کبھی اس پر صبر اور زہد کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ روزمرہ کے معمولی کپڑے پہنتا ہے تو کبھی اس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار اور شکر کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ عمدہ اور قیمتی لباس پہنتا ہے-
لباس کے حوالے سے ہمیشہ یہ چندباتیں پیش نظر رہنی چاہئیں کہ اصل میں اس کا استعمال کرنا جائز ہو یعنی ریشمی نہ ہو مرد کیلئے -دوسری بات یہ ہے کہ قابل ستر ہو، مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے- یہ جو آج کل مرد اور نو جوان حضرات اتنے چھوٹے کچھے پہنتے ہیں جس سے گھٹنے ننگے رہ جاتے ہیں اور اسی طرح وہ گھومتے پھرتے ہیں،تو جاننا چاہئے کہ مرد کے گھٹنے اُن اعضاء میں شامل ہیں جن کو شرعاً چھپانا فرض ہے اور آزاد عورت کا سر سے لے کر پاؤں تک ہے -
لباس کے حوالے سے تیسری بات یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو،فساق و فجاراور کفار کے ساتھ مشابہت نہ ہو ،اُن کی قومی علامت یا مذہبی شعار بھی نہ ہو - یعنی کسی لحاظ سے مشابہت نہ رکھتا ہو ، کہ دیکھنے والا یہ نہ کہہ سکے کہ یہ فلا ں مذہب یا فلاں قوم کا آدمی ہے ، کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشادِ گرامی ہے:’’جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اُس کا شمار اسی قوم سے ہوگا‘‘-[18]
محدث کبیر حضرت ملا علی قاری حنفی اس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’یعنی جس شخص نے لباس وغیرہ میں کفار کی مشابہت کی، یا فساق و فجار کی مشابہت کی، یا اہل تصوف اور صالحین و ابرار لوگوں کی مشابہت کی،تو اس کا شمار انہی کے گروہ سے ہوگا- یعنی گناہ اور خیر میں ‘‘- [19]
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ اس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
’’حدیث میں تشبہ مطلق ہے جو اخلاق، اعمال اور لباس (سب) کو شامل ہے- خواہ اچھے لوگوں کے ساتھ مشابہ ہو یا بُرے لوگوں کے ساتھ مشابہ ہو-اگر اخلاق و اعمال میں مشابہت ہو،تو اس کا حکم ظاہر اور باطن دونوں کو شامل ہو گا -اگر صرف لباس میں مشابہ ہوتو اس کا حکم صرف ظاہر کے ساتھ مخصوص ہو گا ‘‘-[20]
علامہ غلام رسول سعیدی اسی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یعنی اگر کوئی شخص مثلاً سکھوں کا سا لباس اور ان کی وضع اور قطع اختیار کرے تو اس کا بظاہر سکھوں میں شمار ہوگا وہ حقیقت میں سکھ نہیں ہو جائے گا اور نہ قیامت کے دن سکھوں میں اٹھے گا-البتہ اس ظاہری لباس اور وضع قطع کو دیکھ کر دیکھنے والے اس کو سکھ خیال کریں گے ‘‘-
غیر قوم کے ساتھ مشابہت کے حوالے سے اس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہئےجس کو فقہاء کرام نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ آدمی نہ سمجھی کی بنیاد پر کسی کے بارے کوئی غلط رائے نہ قائم کرلے -
علامہ ابن نجیم حنفی’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ اہل کتاب کے ساتھ ہر چیز میں تشبہ مکروہ نہیں ہے، کیونکہ ہم بھی کھاتے پیتے ہیں، جس طرح وہ کھاتے پیتے ہیں البتہ صرف مذموم کاموں میں ان کے ساتھ تشبہ ممنوع ہے یا جس کام کو ان کے ساتھ تشبہ کے قصد کے ساتھ کیا جائے وہ ممنوع ہے‘‘- [21]
علامہ حصکفی ’’در مختار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’اہل کتاب کے ساتھ ہر چیز میں تشبہ مکروہ نہیں ہے بلکہ مذموم چیزوں میں تشبہ مکروہ ہےاور جن کاموں میں تشبہ کا قصد کیا جائے‘‘-[22]
علامہ غلام رسول سعیدی ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’کفار کے ساتھ تشبہ ان امور میں ممنوع ہے جو امور کفار کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ باطلہ کے ساتھ مخصوص ہوں-یا جو امور کتاب و سنت کی تصریحات کے خلاف ہوں اور جو امور ہمارے اور کفار کے درمیان مشترک ہوں یا جو امور نافعہ ہوں ان میں اگر کفار کے ساتھ تشبہ واقع ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے-بلکہ احادیث میں اس قسم کے امور کو اختیار کرنے کی بکثرت مثالیں ہیں-خندق کھودنا کفار کا طریقہ تھا، لیکن اس کے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کو اختیار کر لیا-اسی طرح خط کے اوپر مہر لگانا بھی کفار کا طریقہ تھا لیکن اس کی افادیت کی بنا پر حضور نبی کریم (ﷺ) نے مہر بنوا لی- اسی طرح اور کئی مثالیں ہیں ‘‘- [23]
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ ’’فتاوٰی عزیزیہ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’جو چیز کفار کے ساتھ مخصوص ہو اور ا ُس کو مسلمان استعمال کرتے ہوں خواہ وہ چیز از قبیلِ لباس ہو یا طعام-سو وہ چیز تشبہ میں داخل ہے اور اس کا استعمال ممنوع ہے اور جو چیز کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اگرچہ کفار اُس چیز کو زیادہ استعمال کرتے ہوں اور مسلمان اُس کو کم استعمال کرتے ہوں تو اُس چیز کے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے-اِسی طرح اگر بعض امور کفار کے ساتھ کسی فائدہ کی بنا پر یا کسی آرام کی وجہ سے یا کسی دوا کے سبب سے مخصوص ہوں تو اُن امور کو اُن فوائد کے حصول کی وجہ سے حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ اُس میں ان کے ساتھ تشبہ کی نیت نہ ہو-ہاں جو تشبہ مطلقاً ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے آپ کو ان کی جماعت میں داخل کرے اور اُن کے ساتھ دل میں محبت کرے اسی طرح ان کے مشابہت کے قصد سے ان کی زبان اور ان کی طرزِ تحریر کو سیکھے تو یہ ممنوع ہےاور ان کی عبادات اور ان کے تہواروں (مثلاً عید وغیرہ) میں تشبہ اختیار کرنا بھی مطلقاً ممنوع ہے-اس مفہوم پر بکثرت احادیث دلالت کرتی ہیں اگر اُن سے تشبہ کی غرض ہو تو ہر چیز میں تشبہ منع ہے- اسی طرح اگر کسی بدنی فائدہ کی بنا پر ان کا لباس پہنتا ہے جب کہ ان کی مشابہت مقصود نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں ہے‘‘-[24]
اس مسئلے کی مزید وضاحت امام احمد رضا خان قادریؒ کی زبانی عرض کر دیتے ہیں -اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری’’فتاوٰی رضویہ‘‘ میں ایک فتوی کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ:
’’بنگلہ دیش میں ساڑھی ایک عام لباس ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں لہذا اس میں کسی ایک کی کوئی خصوصیت نہیں-لہٰذا اس حالت میں از قبیلِ تشبہ نہیں‘‘-
اسی فتوی میں آگے نیچریوں کا ایک خاص قسم کی ٹوپی استعمال کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’صرف بے دین اس کے استعمال کی عادت رکھتے ہیں (یعنی نیچری)لیکن اب دیکھنے میں یہ آیا ہے (اور یہ مشاہدہ ہوا ہے) کہ بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ سرخ بخار سرایت کر گیا ہے –(یعنی وہ ٹوپی پہننارواج پا گیا ہے) لہٰذا اب نیچریت کا شعار نہیں رہا-پس اہل علم اور اصحابِ تقوٰی کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے یہاں تک کہ علماء اور صلحاء کا معمول ہو جائے‘‘- [25]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے ارشاد :
’’جو چیز کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اگرچہ کفار اُس چیز کو زیادہ استعمال کرتے ہوں اور مسلمان اُس کو کم استعمال کرتے ہوں تو اُس چیز کے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘
اور حضرت امام احمد رضا خانؒ کا یہ اصول بیان کرنا کہ:
’’(ایسا لباس) جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہوں- لہٰذا اس میں کسی ایک کی کوئی خصوصیت نہ ہو-لہٰذا اس حالت میں از قبیلِ تشبہ نہیں‘‘
اور اعلیٰ حضرت کا دوسرا یہ فرمانا کہ:
’’بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ سرخ بخار سرایت کر گیا ہے-لہٰذا اب نیچریت کا شعار نہیں رہا‘‘-
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا لباس گو کہ ایک زمانے میں وہ غیر مذہب کا مخصوص تھا ، تو یقینا اُس زمانے میں وہ از قبیل تشبہ تھا-لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ لباس غیر مذہب کی خصوصیت نہیں رہا بلکہ وہ مسلمانوں میں بھی رواج پاگیا تو اب وہ از قبیلِ تشبہ نہیں رہے گا -
ڈیڑھ دو سو برس قبل پینٹ شرٹ کے حوالے سے جو فتوے صادر فرمائے گئے وہ اپنے وقت کے مطابق درست تھے- کیونکہ اُس وقت یہ انگریزوں کا مخصوص لباس تھا -جس طرح ایک زمانے میں قرآن پاک کو پرنٹنگ پریس سے چھپوانے پہ ممانعت اعلان کی گئی، تصویر اور ویڈیو کی ممانعت پہ فتوے صادر فرمائے گئے مگر آج انہیں مجموعی طور پر قبول کر لیا گیا ہے-اسی طرح پتلون وغیرہ کچھ صدیاں قبل مغربی لوگوں کا لباس تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پہ بدل چکی ہے اور آج یہ انگریزوں کا مخصوص لباس نہیں رہا - یہ لباس اب مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا ہے - پوری دنیا میں پینٹ شرٹ پہنی جاتی ہے، اب یہ صرف ایک قوم کا مخصوص لباس نہیں رہا -اگر مغربی دنیا میں کوئی بھی مسلمان ہو تا ہے، الحمدللہ! مسلمان ہوتے رہتے ہیں اور بیرون ممالک ہمارے مشائخ اور علماء کوتوفیق الٰہی سے یہ سعادت نصیب ہوتی رہتی ہے -
اُن لوگوں کا تو لباس ہی یہی ہے تو ان کو مسلمان کرنے کے بعد کوئی مخصوص لباس نہیں دیا جاتا کہ اب تو مسلمان ہو گیا ہے ،آج کے بعد وہ لباس نہیں پہننا ، یہ لباس پہننا ہے -
مزید اسکولز، کالجز ، یونیورسٹیز اور دفاتر میں پینٹ شرٹ کا استعمال عام ہے- کسی پینٹ شرٹ پہنے ہوئے آدمی کو دیکھ کر کوئی اُسے غیرمذہب تصور نہیں کر سکتا- ہاں یہ ضروری ہے کہ پینٹ شرٹ کو بنواتے وقت ڈھیلا رکھنا چاہئے اور نیچے سے انڈرویئر وغیرہ ضرور ہونے چاہیں تاکہ قابل ستر اعضاء نمایاں نہ ہوں –
٭٭٭
[1](الاعراف:26 )
[2]تفسير الكبير ،ج : 14،ص: 222 ،الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
[3]تفسير ابن كثير،ج : 3 ،ص: 359 ،الناشر: دار الكتب العلمية،بيروت
[4]تفسیر الجامع لأحكام القرآن،ج: 7 ،ص: 182 الناشر : دار الكتب المصرية – القاهرة
[5]الاعراف : 32
[6]معرفة الصحابة جز: 1 ، ص: 45، الناشر: دار الوطن ، الرياض
الاستيعاب فی معرفة الأصحاب ، جز: 3 ،ص: 1146، الناشر: دار الجيل، بيروت
تاريخ دمشق ،جز: 44 ، ص: 17، الناشر: دار الفكر، لبنان، بیروت
تاريخ الخلفاء ، جز: 1 ،ص :105، الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز
[7]اعتلال القلوب للخرائطی (المتوفى: 327ھ)، جز :1 ،ص :170، الناشر: نزار مصطفى الباز، مكة المكرمة-الرياض
الجامع لأحكام القرآن ، للقرطبی (المتوفى : 671ھ) ، جز :7 ، ص: 197، الناشر : دار الكتب المصرية – القاهرة
[8]سنن أبي داود ،كِتَاب اللِّبَاسِ ، الناشر: المكتبة العصرية، - بيروت
[9]موطأ الإمام مالك ، جز 2 ،ص 82 ،الناشر: مؤسسة الرسالة
[10]مسند احمد بن حنبل ، ج : 6،ص: 338 ، الناشر: مؤسسة الرسالة ،بیروت
[11]مفاتيح الغيب للرازی،ج :14 ،ص:230، الناشر: دار إحياء التراث العربي ،بيروت
[12]شرح صحیح مسلم، ج:6، ص:374، فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور، پاکستان
[13]تفسیر روح المعاني ، ج :4 ص :352 الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[14]تاريخ الإسلام للذهبی، ج :6،ص: 437،الناشر: دار الكتاب العربي، بيروت
تهذيب الكمال فی أسماء الرجال، ج:20، ص : 398، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت
[15]تفسیر الجامع لأحكام القرآن، ج: 7، ص:196، الناشر : دار الكتب المصرية – القاهرة
[16]تفسیر روح المعاني ، ج : 4،ص : 352 ،الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[17]شعب الإيمان ،ج: 8،ص: 270، الناشر: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض
[18]سنن أبي داود ، كِتَاب اللِّبَاسِ ، الناشر: المكتبة العصرية، بيروت
[19]مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،ج: 7، ص: 2782 ،
الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان
[20]اشعتہ اللمعات، ج:3، ص:585، المکتبۃ الرشیدیہ ، کوئٹہ ، پاکستان
[21]البحر الرائق ، ج:2، ص:11، الناشر: دار الكتاب الإسلامی
[22]رد المحتار على الدر المختار ، ج:1، ص: 624، الناشر: دار الفكر-بيروت
[23]شرح صحیح مسلم، ج:6، ص:381، فرید بک سٹال، اردو بازار لاہور، پاکستان
[24]فتاوٰی عزیزیہ، ج:1، ص:11، مطبوعہ مجتبائی دہلوی بحوالہ: شرح صحیح مسلم
[25]فتاوٰی رضویہ، ج:22، ص:191-192، رضا فاؤنڈیشن، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور پاکستان