ماحول دوست زندگی سیرت رسولﷺ کی روشنی میں

ماحول دوست زندگی سیرت رسولﷺ کی روشنی میں

ماحول دوست زندگی سیرت رسولﷺ کی روشنی میں

مصنف: انجنیئر رفاقت ایچ ملک اکتوبر 2023

سیرت طیبہ (ﷺ) ایک آفاقی پیغام ہے جس میں ہر ایک شئے کے لیے خیر ہے- آج انسانی ماحول کو درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی سیرت طیبہ (ﷺ)میں راہنمائی موجود ہے- ماحول سے مراد انسان کے گردوپیش ہے جس میں انسان، جانور اورنباتات زندہ رہتے ہیں -ماحول تمام کیمیائی،طبی و حیاتیاتی عوامل کا مجموعہ ہے- جو جاندار اشیاء پہ اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی ہیت اور زندہ رہنے کے امکانات پہ بھی اثر ڈالتا ہے- اس کرۂ ارض کا ماحول جاندار چیزوں کے زندہ رہنے کیلئے موزوں ترین ہے- فضاء میں موجود آکسیجن کی مقدار اور کرۂ ارض کا درجہ حرارت ہر شئے ایک خاص مقدار میں موجود ہے- جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں- قرآن حکیم میں خالق کائنات نےانسان کو یہ دعوت دی ہے :

’’تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی‘‘-

بد قسمتی سے انسانی عوامل کے باعث انسانی ماحول تیزی سے ابتری کا شکار ہو رہا ہے- اس وقت انسانی جان کی بقاء کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے اُن میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی ہے- ماحولیاتی آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء شامل کرنا ہے کہ جس سے ماحول پہ منفی اثرات مرتب ہوتےہیں- ان اجزاء میں صنعتی و گھریلو کیمیائی آلودگی ہے- ماحولیاتی آلودگی کی اقسام میں زمینی آلودگی، ہوائی آلودگی اور اور آبی آلودگی شامل ہیں- صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے نامیاتی ایندھن کے باعث فضاء میں بڑی مقدار میں مضر صحت گیسوں کا اخراج ہوتا ہے- جس کی وجہ سے بڑے شہروں کی فضاء صحت کے لیے نقصان دہ ہو جاتی ہے- پاکستان میں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 100 کے قریب پہنچ چکا ہے جو کہ ایک خطرناک پوائنٹ ہے- اس کے علاوہ پلاسٹک کا استعمال زمینی و آبی آلودگی کا باعث بن رہا ہے-

دنیا میں سالانہ 400 ملین ٹن پلاسٹک بنائی جا رہی ہے- جس کا آدھا حصہ محض ایک دفعہ استعمال کے لیے ہے اور10 فیصد سے بھی کم کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے- اس میں سے 23 ملین کے قریب دریاؤں اور سمندروں میں چلا جاتا ہے جو پانی کو آلودہ کر رہا ہے اور سمندری حیات کے لیے بڑا خطرہ ہے- یہ بنی نوع انسان کو درپیش مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے-

ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بھیانک اثر ماحولیاتی تبدیلی ہے- جس کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جو کہ انسانی جانوں و دیگر حیاتیاتی نظاموں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے- دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کی وجہ سے فضا میں گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے- گرین ہاوس گیسزمیں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور دیگر گیسیں شامل ہیں جو کہ نامیاتی ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتی ہیں- 1850ء تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ppm280 تھی جو کہ 2019 ء میں بڑھ کر ppm410 ہو گئی ہے- IPCC کی رپورٹ کے مطابق زمینی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں 1850ء سے لے کر اب تک 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ ااضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے - 1970 ء کے بعد اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے- موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ، سمندر کی سطح میں اضافہ، بارشوں کے سلسلوں میں تبدیلی، قحط سالی اور سیلاب جیسی آفات کا انسانیت کو سامنا ہے - 2022ء کا سال انسانی تاریخ میں ماپا جانے والا پانچواں گرم ترین سال تھا-

سیرت طیبہ (ﷺ) میں ماحول کوصاف رکھنے،گندگی کی روک تھام، قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط اور خدا تعالیٰ کی دی گئی تمام نعمتوں کی حفاظت پہ متعدد بار زور دیا گیا ہے -

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے  دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا)اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا‘‘-[1]

شجر کاری کی ترغیب:

ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام میں شجرکاری اہم کردار ادا کرتی ہے- محسنِ انسانیت نے جس پُر زور انداز میں شجر کاری کی ترغیب دی اس کی کوئی نظیرنہیں ملتی -

سیدنا حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی  کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

”اگر قیامت قائم ہونے لگے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو اگر وہ قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگا دے “-[2]

حضرت انس بن مالک  (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشتکاری کرتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ، انسان یا حیوان کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے‘‘-[3]

درخت لگانے کی فضیلت پر ایک روایت میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص کوئی درخت لگاتا ہے تو جتنا اس کے ساتھ پھل لگتا ہے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر لکھتاہے‘‘- [4]

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)بھی درخت لگانے کا اہتمام فرماتے تھے -حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں ایک دن درخت لگا رہا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ (ﷺ)  نے فرمایا :اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ (ﷺ) درخت لگا رہا ہوں‘‘-[5]

درختوں کی حفاظت :

فضاء کو صاف رکھنے میں درختوں اور جنگلات کا بہت بڑا کردار ہے - جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذ ب کرتے ہیں جو گرین ہاوٗ س گیس ہے جس کے اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے- جنگلات بے شمار جانوروں اور پرندوں کی آماجگاہ ہیں اور کرۂ ارض پہ حیاتیاتی تنوع کو قائم رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں - اس ضمن میں رسول اللہ (ﷺ) کی حیات طیبہ سے انسانیت کے لیے ایک اہم سبق ہے-

آپ (ﷺ)نے بلاوجہ پیڑ کاٹنے والوں کے لیے وعید فرمائی ہے- چنانچہ حضرت عبداللہ بن حُبْشِىّ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص کسی پیڑ کو (بلاضرورت)کاٹے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا سر جہنم میں ڈالے گا‘‘- [6]

حضرت امام ابوداؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ:

’’یہ حدیث مختصر ہے، ( پوری حدیث اس طرح ہے ) کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا‘‘-[7]

حشرات و جانوروں کی حفاظت:

کرۂ ارض پہ موجود ہر جاندار چیز کا کوئی نہ کوئی کردار ہے- اگر محض حشرات کی ہی بات کی جائے تو حیاتیاتی نظام میں ان کی اہمیت مسلم ہے - حشرات زمین مختلف الانواع فاضل مادوں کو تحلیل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں - حشرات زمین پر پائے جانے والی مخلوقات کا ایک بڑا حصہ ہیں اوریہ انسانوں سمیت دوسری مخلوقات کے لیے نفع بخش ہیں- یہ نہ صرف پرندوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں کے لیے خوراک کا کام دیتے ہیں- بلکہ دنیا میں 75 فیصد فصلوں کی تخم کاری کا باعث بنتے ہیں، مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرررساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں- سائنسی تحقیق کے مطابق 40 فیصد حشرات کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے- جو کیڑے مار ادویات کے استعمال، بڑھتی آبادی، زراعت کے جدید طریقوں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ناپید ہو رہے ہیں- حیاتیاتی نظام کے تحفظ کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سے لگایا جا سکتا ہے-

سیدنا عبدالرحمٰن بن عثمان (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:

’’ایک طبیب نے حضور نبی اکرم (ﷺ) سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق سوال کیا تو آپ (ﷺ)  نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا ‘‘-[8]

صفائی و پاکیزگی کا اہتمام:

آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے:

’’الطهور شطر الإيمان‘‘[9]

’’پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘‘-

طہارت نہ صرف اجر و ثواب کے حصول کا باعث ہے بلکہ اس کے متعدد دنیوی فوائد بھی ہیں- طہارت سے انسانی صحت اور نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں- اس کے برعکس گندگی اور آلودگی معاشرے کے اجتماعی ماحول پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں- جدید سائنس کے مطابق آلودہ ماحول میں رہنے والے وقتاً فوقتاً بیماریوں کا شکار رہتے ہیں مثلاً ڈائریا،ٹائیفائڈ،ٹی بی اور جلدکی بیماریاں خارش وغیرہ- طہارت میں جسم کی صفائی سے لے کر گلی، محلہ اور شہر تک کی صفائی ہے- اقوام متحدہ کے مطابق:

“Access to safe water, sanitation and hygiene is the most basic human need for health and well-being”.

’’صاف پانی، صحت و صفائی تک رسائی انسان کی صحت اور بہتری کے لیے سب سے بنیادی ضرورت ہے‘‘-

لطافت و پاکیزگی کی اہمیت کے اظہار کیلیے آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’بلاشبہ اللہ کی ذات پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے-صاف ستھرا ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے ‘‘-[10]

قدرتی وسائل ضائع کرنے کی ممانعت:

اگر ماحولیات کو آج سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ وسائل فطرت کا بے جا اورغیرمعتدل استعمال ہے-اسلام میں ماحولیاتی تحفظ پر بہت زور دیا گیا- کیونکہ انسانی بقا صحت مند ماحول کے بغیر ممکن نہیں ہے- سیرت طیبہ میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کثیر احادیث موجود ہیں- جو ایک مومن پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہیں کہ وہ قدرتی وسائل کی حفاظت میں کوئی کسر باقی نہ رکھے- جن وسائل کا استعمال ہم زمین پر کرتے ہیں، حضور نبی اکرم (ﷺ) کی تعلیمات میں ان کا طریقہ استعمال اور انہیں برتنے کا انداز بڑے اعتدال و کفایت شعاری سے ملتا ہے- پانی ایک عظیم نعمت ہے- جس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے- عبداللہ بن عمرو(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) حضرت سعد (رضی اللہ عنہ) کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“-[11]

حضرت ابن عمر(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ)نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو‘‘-[12]

مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدرتی وسائل کے استعمال میں ازحد ممکن احتیاط برتنی چاہیے جس کا اطلاق روزمرہ کی استعمال کی اشیا ء سے لے کر بجلی کے استعما ل تک ہوتا ہے- بجلی کی زیادہ تر پیداوار نامیاتی ایندھن سے ہوتی ہے- بجلی کے ضیاع کامطلب ہے ہم زیادہ سے زیادہ نامیاتی ایندھن جلا کر فضا میں خارج کر رہے ہیں جو کہ گلوبل وارمنگ کا ذریعہ ہے- لہٰذا صنعتی، کاروباری و گھریلو سطح پہ بجلی کا کم سے کم استعمال کیا جانا چاہیے اور ٹرانسپورٹ کو بھی ضرورت کے تحت استعمال کیا جانا چاہیے- حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آپ(ﷺ) صبح کے وقت چراغ جلانے سے منع فرماتے تھے-

آب و ہوا کی طہارت:

اسی طرح آپ (ﷺ)نے اپنے پیروکاروں پر پاکی و طہارت کے ذریعہ آب و ہوا کی حفاظت لازم فرمائی ہے اور تمام منفی رویوں سے اجتناب کا حکم دیا ہے-

حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ  حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں وبا پھیلی ہوئی ہے) تو وہاں نہ جاؤ- لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو‘‘-[13]

اسلام میں حدود حرم میں کسی نباتاتی پودے اور کسی پرندے اور جانور کے شکار کرنے کی ممانعت بھی ماحولیاتی تحفظ کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے، وہ علاقے کسی مثالی خطے سے کم نہیں ہیں-مزید برآں یہ کہ آپ (ﷺ) نے کسی بھی پرندے یا جانور کو ناحق اور بے فائدہ مارنے سے شدت کے ساتھ روکا ہے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے-

حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے کہ:

’’یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں‘‘-[14]

صوتی آلودگی:

شور بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے- انسانی سماعت ایک خاص فریکونسی Hz20 سے  Hz2000 تک کی آواز کو سن سکتے ہیں جس سے زیادہ فریکونسی کی آواز انسان سننے سے قاصر ہوتے ہیں- مشینی دور میں صوتی آلودگی بھی ایک خطرناک مسئلہ بن چکا ہے جس کے باعث عوام میں سماعت کے مسائل اور ذہنی امراض جنم لیتے ہیں- سیرت طیبہ (ﷺ) میں صوتی آلودگی کو کم کرنے کا سبق ملتا ہے- آپ (ﷺ) ایسے شخص کو ناپسند فرماتے جس کی آواز تیز ہوتی اور پست آواز والے کو پسند فرماتے- اس کے علاوہ متعدد احادیث میں شور مچانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے- لہٰذا ہمیں چاہیے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں - ٹریفک میں بے جا ہارن کا استعمال، زیادہ شور مچانے والی گاڑیاں اور مو ٹر سائیکل عوام الناس کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے - اس کے علاوہ آبادیوں کے قریب فیکٹریوں میں شور کم کرنے کیلئے مناسب انتظام کیا جانا چاہیے- گھریلو سطح پر بھی موسیقی کے آلا ت یا شور مچانے والی مشینری سے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے-

آبی آلودگی :

آبی آلودگی سے مراد ندی، نالوں، دریاوں، سمندروں اور زیر زمین پانی کے ذخیروں میں ایسے کیمیکل کا یا جرثوموں کا شامل ہو جانا ہے جو انسانوں اور ماحول کے لیے مضر ہو- آبی آلودگی کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں زراعت میں استعمال ہونے والی ادویات ، فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادے ہیں جن کو براہ راست بغیر صفائی کے ندی نالوں میں چھوڑ دیا جاتاہے،  گھروں کا فاضل مادہ اور سمندری پانی میں شامل ہونے والا تیل اور دیگر شامل ہیں - دنیا میں 80 فیصد استعمال شدہ پانی بغیر صاف کیے واپس ماحول میں شامل ہوتا ہے - اس میں وہ پانی بھی شامل ہے جو بارش کے بعد سڑکوں سے ہر طرح کے کوڑا کرکٹ، تیل اور گریس کو اپنے ساتھ بہا کے ندی نالوں میں لے جا تا ہے- اس کے علاوہ ایک بڑی مقدار میں استعمال شدہ پلاسٹک کی بنی اشیاء بھی پانی کے ذخیروں میں شامل ہو رہی ہیں- پانی انسانی زندگی میں جز و لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے- سیرت مبارکہ میں پانی کی طہارت پر بہت زور دیا گیا ہے-

پانی کی صفائی کے تعلق سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’ایسے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرو جو جاری نہ ہو (تاکہ ایسا نہ ہو کہ) پھر تم اسی سے غسل کرو‘‘-[15]

حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘- [16]

مسلمان ہونے کے ناطے سیرت طیبہ کی روشنی میں ہم پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ملکی و انفرادی سطح پہ پانی کی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں -

سیرت نبوی (ﷺ) کی درخشندہ تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے ضمن میں کثیر راہنمائی فراہم کی گئی ہے-جو ذاتی طہارت سے لے کر فضائی، ا ٓبی وصوتی لطافت تک پھیلی ہوئی ہے - سیرت طیبہ(ﷺ) کے بیشتر پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بصیرت ملتی ہے کہ اس کرۂ ارض پہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے ناطے انسان کو اس زمین کے قدرتی ماحول اور حیاتیاتی نظام کی از حد حفاظت کرنی چاہیے- جو انسان کےلیے ایک طرح سے ثوابِ دارین کا ذریعہ ہے اور دوسری طرف انسان کی اپنی صحت اور حفاظت کے لیے بہترین اہتمام ہے- آج آلودگی کی کسی بھی صورت کو روکنا ہر مسلمان کی دینی و قومی ذمہ داری ہے - جدید دور میں تہذیب یافتہ قوموں کی پہچان کا پیمانہ صفائی و پاکیزگی ہے- مسلمان کی تو ابتدا اور انتہا طہارت پر ہے- مسلمان کی فطرت میں اللہ رب العزت نے طہارت و پاکیزگی کا جوہر ودیعت کیا ہے- لہٰذا ، آج ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کےلیے بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرے-

٭٭٭


[1](سنن ابی داود، کتاب الادب)

[2]( مسند احمد  بن حنبل، رقم الحدیث:12 125)

[3](صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2320)

[4](کنزالعمال، رقم الحدیث: 9057)

[5](سُنن ابن ماجه ، کتاب الأدب)

[6](سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: 5239)

[7](سُنن أبى داؤد، باب فِى قَطْعِ السِّدْرِ)

[8](سنن ابو داؤد، رقم الحدیث: 3871)

[9](سنن الترمذی، ج:5، ص:420، دارالغرب الاسلامی)

[10](سنن ترمذی، ج:4، ص:325، رقم الحدیث: 2808)

[11](سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 425)

[12](سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارت وسننھا)

[13](صحیح بخاری، رقم الحدیث :3473)

[14](صحيح مسلم ، کتاب الرقاق)

[15](صحیح مسلم)

[16](المعجم الأوسط، رقم الحدیث: 1749)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر