سائبر کرائم پر ایک طائرانہ نظر:
تہذیب یافتہ معاشرے ہمیشہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور اگر کوئی معاشرے کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی جسارت کرتا ہےیا معاشرے کی سالمیت کے لئے بنائے گئے قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہی قانون مجرم کی گرفت کرکے اس کی جانب سے سرزد ہوئے جرم پرسزا عائد کرنے کا مؤجب ٹھہرتا ہے-انسان ترقیاتی مراحل طے کرتے ہوئےاس وقت جدیدیت اور بھرپور تکنیکی صلاحیتوں سے مالا مال معاشرے میں سانس لے رہا ہے جہاں ہر چیز ڈیجِٹلائیزڈ (Digitalized) ہوچکی ہے-انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے آنے سے طرزِ زندگی اور سوچ کا زاویہ بدل گیا ہے اور ان جدید طرزیات نے افرادکی کارکردگی اور انسانی ابلاغ میں اپنا مؤثر ترین حصہ شامل کیا ہے-معلوماتی اور ابلاغی ٹیکنالوجی نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا کو حقیقی معنوں میں عالمی گاؤں (global village) بنا دیا ہے- ٹیکنالوجی میں جدت طرازی سے سماجی و اقتصادی ترقی کی جہت میں اضافہ ہوا اور نتیجتاًسائبر اسپیس کے صارفین کے لیے تجارتی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی مواقع پیدا ہو رہے ہیں-[1] ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 62 فیصد آبادی اور مغربی یورپ میں 94 فیصد لوگ انٹرنیٹ صارفین ہیں- تقریباً 91 فیصد لوگ سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں، 71 فیصد لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ پی سی جبکہ30فیصد لوگ آفس ملازمت کی جگہوں پہ میسر کردہ آلات سے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں[2]
جہاں ان سہولتوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے وہیں انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف جرائم کی ایک طویل فہرست بھی مرتب ہو چکی ہے جسے سائبر کرائم(cyber crime) کہا جاتا ہے-سائبر کرائم کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بہت سے لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہے جو انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں- سائبر کرائم کا مطلب ہے کہ کسی بھی معلومات، شخص یا ادارے کی ساخت کو نقصان پہنچانا یا پھر کسی صورت مواد کو چرانایا اس میں ترمیم کر دینا- اس کے علاوہ کسی بھی نوعیت کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے انٹرنیٹ صارفین یا کسی بھی اداروں کو دھمکانا بھی اس میں شامل ہے-یہ جرائم کئی قسم کے ہوسکتے ہیں جیسے کہ ڈیجیٹل جعل سازی، ہیکنگ، سائبر اسٹاکنگ،سائبر مالیاتی فراڈ، سوشل میڈیا فراڈ، کسی فرد یا ادارے کے خلاف نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ،ڈیٹا کی چوری ، کسی اسکیم کے نتیجے میں رشوت و بھتہ خوری، ہراسگی اوربچوں کی فحاش نگاری وغیرہ- [3]
سائبر حملوں کی چند مثالیں:
عصرِ حاضر میں حملوں کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے- جس طرح گھوڑوں کی جگہ ٹینکوں اور تلوار کی جگہ میزائل نے لی اسی طرح جدت ترازی میں حملوں کے لئے میدانِ جنگ میں فریقین کا ہونا لازم نہیں رہا، انٹرنیٹ کے ذریعے وہ تمام حملے ہورہے ہیں جو شخصی، مالی،کاروباری نقصان کا باعث بنتے ہیں-یہ cyber attacksدراصل بدنیتی پر مبنی کارروائیاں ہوتی ہیں جو کمپیوٹر سسٹم تک غیر مجاز رسائی کے ذریعے دوسرے کے اثاثوں کو چوری کرنے ، بے نقاب کرنے، تبدیل کرنے، غیر فعال کرنے یا پھر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جاتی ہیں-[4] سائبر حملے کسی بھی ایک فرد یا گروہ یا قومی ریاستوں کی طرف سے مختلف وجوہات کی بنا پر دوسروں پر کئے جاتے ہیں جن میں مالی فائدہ، سیاسی ایجنڈا، ذاتی انتقام، یا نظریاتی عقائد وغیرہ شامل ہیں-
ransomwareنامی کرپٹو وائرس کی وجہ سے 2017 میں تقریباً150ممالک میں تین لاکھ سے زائد کمپیوٹرز بند ہوئے، اس cyber attack میں تمام کمپیوٹر سکرین پر ایک آپشن رونما ہوا جس میں کمپیوٹر کی بحالی کے لئے 300ڈالر کی مانگ کی گئی تھی-[5] اسی طرح 2021ء میں فلوریڈا کے ایک علاقے کے اندر ہیکرزنے آبی فراہمی کے نظام کی پروگرامنگ کوہیک کیا اور اس میں خطرناک حد تک ہائڈروجن پرآکسائیڈ کی مقدار کو بڑھا نے کی سازش کی تھی لیکن اس پر بروقت قابو کرلیا گیا ورنہ یہ ایک بہت بڑےسانحہ کے طور پر سامنے آتا-[6] اسی طرح پاکستان میں خاتون گلوکارہ نے ایک مرد گلوکار پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا- نتیجتاً بارہا غیرحاضری اور ثبوت کی عدم دستیابی پہ الزامات ثابت نہ ہو سکے اور ملزم نے تہمت لگانے والی خاتون پر کیس دائر کیا اور پاکستان کے سائبر قانون کے تحت ان پر cyber stalking, terrorism and defamationکا کیس دائر کیا اور کورٹ نے فیصلہ ان کے حق میں دیا-[7] ایک رپورٹ کے مطابق ہر دس میں سے چوتھی امریکی شہری آن لائن ہراسانی کا شکار ہیں جن میں سے چند شدید نوعیت کی ہراسگی سے بھی دوچار ہوتے ہیں- [8]کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں آن لائن ہراسگی کیسوں کی رپورٹنگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا- [9]ایسے خدشات اور سنگین نتائج کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انٹرنیٹ صارفین کیلئے cyber security کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہdata breach (معلومات کی غیر متعلقہ شخص تک رسائی)، phishing (ای میل ڈیٹا چوری کرنا)،web hijacking (کسی کی ویب سائٹ پرکنٹرول کرکے اس کا ڈیٹا تبدیل کر دینا)سمیت تمام تر سائبر جرائم سے حتی الامکان محفوظ رہا جاسکے اور لوگ اطمینان کے ساتھ آن لائن کام اور سماجی تعامل کریں اور مناسب حل کے ذریعے کاروبار اور حکومتوں کو ابلاغ میں بہتری حاصل ہو سکے-[10] ویسے بھی راز داری (privacy) کے خدشات تو انٹرنیٹ اور کمپیوٹر شئیرنگ کے آغاز سے ہی زیرِ بحث رہے ہیں-سائبر پرائیوسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ صارف کی جانب سے کی گئی توقع ہے بلکہ صارف کا حق ہے کہ جب وہ انٹرنیٹ استعمال کرے تو اس کی شخصی و ذاتی معلومات محفوظ رہیں اور کوئی تیسرا فریق ان معلومات تک کسی صورت رسائی حاصل نہ کر سکے- کیونکہ ذاتی معلومات میں گھر کا پتہ، فون نمبر، طبی معالجے کی تاریخ اور مالی ریکارڈ جیسا حساس ڈیٹا شامل ہوتا ہے- اگر یہ معلومات بے تواضعی سے استعمال کی جائیں تو ان کے نقصانات کا نتیجہ ابتر ہوسکتا ہےاور بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا استعمال ہو یا محض انٹرنیٹ سرچنگ،یہ ایک ایسی سرگرمی بن گئی ہے جس میں ذاتی سالمیت کوخطرہ لاحق رہتاہے- [11]
عالمی قوانین کا اجمالی جائزہ:
دنیا بھر میں مختلف تہذیبوں میں امن و امان کی پاسداری کی خاطر اور جرائم کے قلع قمع کرنے کی وجہ سے قوانین اور ضوابط کو سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے-کئی بین الاقوامی قوانین سائبر کرائم کی ضمن میں بھی نافذ العمل ہیں -عالمی تنظیم کونسل سائبر کرائم (جس کو بڈا پیسٹ کنونشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) در اصل سائبر کرائم پر پہلا بین الاقوامی معاہدہ ہے- اس معاہدے نے سائبر کرائم کو باقاعدہ جرم قرار دیا اور اپنے 66ممبران کے مابین سائبر کرائم سے نبٹنے کیلئے مشترکہ فریم ورک فراہم کیا- [12]جبکہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ روک تھام برائے منشیات و جرائم عالمی سطح پر سائبر کرائم سے بچنے کے لئےقوانین کے نفاذ میں تکنیکی معاونت کرتا ہے-[13] اسی طرح سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے اقوام متحدہ کا ادارہ ITUبھی کئی جہتوں سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہےجیسےعالمی سائبر سیکیورٹی ایجنڈا،آئی ٹی یو ڈی سیکیورٹی پروگرام ودیگر-بعین اسی طرح اقتصادی تعاون اور ترقی کی بین الاقوامی تنظیمOECD اپنے 38 ممبر ممالک میں سائبر سیکورٹی اور ڈیجیٹل اقتصاد کے مسائل پر رہنمائی اور سفارشات فراہم کرتی ہے- [14] افریقہ کے براعظم میں 2011ء میں سائبر سیکیورٹی اورذاتی ڈیٹا کی حفاظت کے لئے مکمل فریم ورک تیار کیا گیا جو اس براعظم کے 55 ممالک پر نافذ العمل ہے-[15] سائبر کرائم کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف خطوں نے اپنے معاہدے اور فریم ورک تیار کیے ہیں-جنوب مشرقی ایشیاء اور یورپی یونین کے بھی اسی طرح اپنے اپنے قوانین اور فریم ورک موجود ہیں جس پر خطے بھر میں عمل کیا جاتا ہے-پاکستان میں بھی اس متعلق کئی قوانین ہیں جن میں برقی ٹرانزکشن آرڈیننس(ETO)، برقی جرائم کی روک تھام کے قوانین (PECA)، قومی سائبرسیکیورٹی پالیسی 2021 و دیگر شامل ہیں-الغرض یہ کہ تمام تر قوانین کا مقصد و محور محض امن و انصاف کی فضا کو قائم رکھنا ہے-اب سائبر کرائم اور سیکیورٹی کے متعلق چند رہنما اصول ہم سیرتِ طیبہ (ﷺ) کی روشنی میں دیکھیں گےکیونکہ انسانی فلاح و بہبود کی صورت میں ریاستِ مدینہ کی مثال آج بھی اعلیٰ و ارفع ہے-
جھوٹ کی ترویج:
)Flow of Misinformation)
جھوٹ بولنا، جعلی خبروں کا ابلاغ اور غلط معلومات کی فراہمی انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا پر عام رواج بن گیا ہے جبکہ یہ افراد، تنظیموں اور معاشرے کے لئے سنگین نتائج مرتب کر سکتے ہیں- جھوٹ کی بالادستی سےاعتماد اور اعتبار کم ہوتا ہے، جمہوریت کمزور پڑتی ہے، جذباتیت پیدا ہوسکتی ہے- حتیٰ کہ خوف اور الجھن کے باعث ذہنی بگاڑ بھی پیدا ہو سکتاہے-مخصوص ایجنڈا کے تحت انٹرنیٹ پر جھوٹا پروپیگنڈا اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جبکہ جھوٹ گوئی اخلاقی پستی کی بھی انتہا ہے-
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’ کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟‘‘ فرمایا: ’’جھوٹ بولنا (یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا)‘ ‘-[16]
سوشل میڈیا پر طنز و مزاح کے نام پر لغو گوئی، فسق و فجور کا بازار گرم رہتا ہے-حالانکہ وہی مزاح کسی کی ذاتیات کو نقصان پہنچانے کے مترادف بھی ہوتا ہے-ایسا مزاح جس میں جھوٹ ہو اور وہ کسی کے لئے باعث تضحیک ہو تو وہ انداز روا رکھنا بھی اخلاقاً نامناسب ہے- حدیث مبارکہ میں آیا ہے:
’’سیدنا ابو امامہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ’’میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا، جنت کی ایک جانب میں،اس شخص کیلئے جو جھگڑا چھوڑ دے، اگرچہ حق پر ہو اور ایک محل کا، جنت کے درمیان میں، اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے، اگرچہ مزاح ہی میں ہو، اور جنت کی اعلیٰ منازل میں ایک محل کا‘ اس شخص کیلئے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے‘‘-[17]
غلط پروپیگنڈا چلانا(Disinformation)
وہ غلط معلومات جن کی دانستہ طور پر ترویج کی جاتی ہے اور سچ میں جھوٹ کو خلط ملط کرکے پیش کیا جاتا ہےتاکہ عوامی رائے پر اثر ڈالا جا سکے یا فرد اورکسی تنظیم کو نقصان پہنچایا جا سکے-ایسیکمپین عموماً غیر قانونی یا غیر رسمی حملوں پر مبنی ہوتی ہیں جیسے ہیکنگ، ڈیٹا چرانا، اسمگل شدہ یا ڈارک نیٹ فورم وغیرہ-اسی وجہ سے disinformationکو سائبر سیکیورٹی خدشے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے-[18] سچ کو جھوٹ میں خلط ملط کرکے ہدفی مقاصد کے حصول کی خاطر پروپیگنڈا رچنا اخلاقی طور پر بدعنوانی اور فریب کے زمرے میں آتا ہے اور فرمانِ نبوی(ﷺ)کے مطابق یہ طریقہ برکت کو ضائع کر دیتا ہے-دونوں شرکاء کا آپسی مزاج صداقت پر مبنی ہونا ضروری ہے جیسا کہ ہمیں حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت ( بیع ختم کر دینے کا ) اختیار ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں - ( آپ (ﷺ) نے مزید ارشاد فرمایا) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا کر رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے‘‘-[19]
الزام تراشی اور تضحیک
)Cyber Defamation)
انٹرنیٹ کے ذریعے کسی پر بہتان بازی، الزام تراشی کرنا،کسی کی نیک نامی کو بدنامی سے بدل دینا،کسی کی عزت و آبرو کو بےعزتی اور رسوائی میں تبدیل کرنا، کسی شخص کو لوگوں کے سامنے حقیر گرداننا،اس کی تحقیر کر کے اسے اس کے متعلقہ حلقے میں رسوا کروانا تاکہ لوگوں کی نظر میں قبولیت کے درجہ کو تباہ و برباد کیا جاسکےیا ذاتی، مسلکی، جماعتی، مذہبی، لسانی بنیادوں پر کسی سے بدلہ لینا، اس کی ثقاہت (credibility) کو ختم کرنا، سوشل میڈیایا انٹرنیٹ کے دیگر پلیٹ فارم پر کسی کی عزت اچھالنا سب کچھ فی کُلِّ cyber defamation کے زمرے میں آتا ہے- سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سےاس کے متعلق دو تصور ملتےہیں- پہلا تصور غیبت کا ہے، ایک ایسا نقص جو کسی شخص میں موجود ہو اور اسے اس کے پیٹھ پیچھے بیان کیا جائے اور دوسرا تصور بہتان کا ہے یعنی ایسا نقص جو کسی شخص میں ہے ہی نہیں لیکن اس سے منسوب کیا جائے-[20] دونوں عمل انتہائی رذیل ہیں لیکن عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا پہ اس کی کثرت عروج پر ہے-اگر کوئی شخص انٹرنیٹ کے ذریعے کسی کی ذات پر گالی کسے، بہتان بازی کرے یا کسی کا مال ہڑپےیا کسی کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنائے تو اس حوالے سے حدیث پاک میں یہ حکم صادر ہوا ہے:
’’حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس نے گالی دی ہو گی، بہتان لگایا ہو گا، مال کھایا ہو گا، خون بہایا ہو گا اور مارا ہو گا، تو اس کی نیکیوں میں سے اس (دوسرے شخص) کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان (دوسرے شخص) کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘-[21]
کسی پر بہتان بازی یا الزام تراشی کرنا کماحقہ بدگمانی سے شروع ہوتا ہے لہٰذا کسی کےتئیں معاملے، واقعے یا بات کے سیاق و سباق کو جانے بغیر اپنی رائے قائم کرلینا سنگین نتائج کی جانب پیش رفت کروا سکتا ہے-رحمۃ اللعالمین(ﷺ) کا یہ فرمان ہمیں ازبر ہونا چاہئے:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘‘-[22]
نجی زندگی میں مداخلت :
)Cyberstalking & Doxing(
پردے میں سرزد ہوئے گناہوں کو مردود الشہادۃ سے ظاہر کرنا، کسی کی شناخت، مقام، رابطے کی تفصیلات یا دیگر حساس معلومات کو آن لائن ظاہر کرنا، ڈیجیٹل میڈیا جیسے ای میل، سوشل میڈیا یا میسجنگ ایپلیکشن کے ذریعہ بار بار کسی کی پیروی(stalk) کرنا، نگرانی کرنا، رابطہ کرنے کی کوششیں کرنا یا دھمکی دینا[23] یہ سب بدنیتی پر مبنی اور غیر قانونی عمل ہے جس سے متاثرہ شخص کو خوف، پریشانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ سکتا ہے-اصلاح کے بجائے بدنیتی پر مبنی ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ سالوں کی محنت، رفعت اور وقعت کو یک لخت ختم کر کے متعلقہ شخص کو معاشرے میں تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے-اسی لئےتمام انسانوں میں اعلیٰ انسان حضور نبی کریم (ﷺ) نے حکم صادر فرمایا ہے کہ:
’’جو کسی مسلمان سے اس کی ایک تکلیف دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکلیفوں میں سے ایک تکلیف دور کرتا ہے - جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس (کے عیبوں ) کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘-[24]
لہٰذاخلوت کے گناہوں کو اچھالا نہ جائےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ستار العیوب ہےاور اللہ پاک نےاپنے نیک بندوں کی صفات میں صفائے قلب و روح کو رکھا ہے یعنی ان کا عمل کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچاتا، وہ تنقید برائے اصلاح کرتے ہیں اور اصلاح بھی حکمت کے ساتھ کرتے ہیں-الغرض اگر کوئی اس طرح کی تضحیک آمیز جسارت کر بھی جائے تو قانونی چارہ جوئی کی جائے نہ کہ وہی کام دہرایا جائے جو سامنے والا نے کیا- حدیث پاک میں اس متعلق یہ بیان ہوا ہے:
’’کوئی شخص تمہیں گالی دے یا تمہارے کسی عیب پر تمہیں عار دلائے تو تم اس کے کسی عیب پر اسے عار نہ دلاؤ- اس کا وبال اس کے سر ہوگا‘‘-[25]
کسی کے گناہوں کا پرچار کرنا مومن کی صفت نہیں- ہوش مند ی و دانش مند ی و خیر خواہی کا تصور یہ ہے کہ آپ کسی کی اصلاح ایسے کرو کہ اس کی ہدایت کا باعث بن جائے نہ کہ ایسے عمل جس سے اس کی اخلاقی و دینی زندگی تباہ ہو جائے-اس کیلئے رسوائی اور بدنامی کا باعث نہ بنے - حدیث پاک میں آیا ہے:
’’حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی برہنگی چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی برہنگی چھپائے گا - اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا پردہ فاش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا پردہ فاش کرے گا حتی کہ اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا‘‘-[26]
جدت طرازی نے جہاں آسائشوں کی راہیں ہموار کی ہیں وہیں جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد سائبر کرائم کی راہ بھی کھلی ہے- البتہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سیرتِ طیبہ (ﷺ)سے جو اصول وضع ہوئے ہیں ان پر عملدرآمد کرکے اپنی زندگیوں کو سنوار یں اور معاشرے کو پُر امن بنائیں-
٭٭٭
[1]MoITT – National cyber security policy 2021, p.1
[2]Pattnaik, N., et, al. (2023). Perspectives of non-expert users on cyber security and privacy: An analysis of online discussions on twitter. Computers & Security, 125, 103008. https://doi.org/10.1016/j.cose.2022.103008
[3]FIA, categories of cybercrime. Retrieved from:
https://www.fia.gov.pk/ccw
[4]IBM. What is a cyberattack? Retrieved from:
https://www.ibm.com/topics/cyber-attack
[5]Chapelle, Bill. 2017. WannaCry Ransomware: What We Know Monday. NPR. Retrieved from:
https://www.npr.org/sections/thetwo-way/2017/05/15/528451534/
[6]Atkins, Harris. 2022. The biggest cyberattacks in history. History Hit. Retrieved from: https://www.historyhit.com/the-biggest-cyberattacks-in-history/
[7]Ibrahim, N. (2020, December 3). Pakistan’s #MeToo case highlights controversial cybercrime law. Snopes. Retrieved from:
https://www.snopes.com/news/2020/12/03/metoo-pakistan-cybercrime/
[8]Vogels, A. E. (2021, May 25). The State of Online Harassment | Pew Research Center. Pew Research Center: Internet, Science & Tech. Retrieved from:
https://www.pewresearch.org/internet/2021/01/13/the-state-of-online-harassment/
[9]Rehman, F. & Burhan Uddin, K. 2021. Cybercrime peaked in Pakistan during the lockdown — will 2021 be any different? Geo News. Retrieved from: https://www.geo.tv/latest/327267/
[10]Microsoft. What is cybersecurity? Microsoft Security. Retrieved from:
https://www.microsoft.com/en-us/security/business/security-101/what-is-cybersecurity
[11]M, J. (2023). What is internet privacy & Why it matters? Internet Privacy. Retrieved from:
https://www.internetprivacy.com/what-is-internet-privacy/
[12]UNODC (2004) International Human Rights and Cybercrime Law.
https://www.unodc.org/e4j/en/cybercrime/module-3/key-issues/international-human-rights-and-cybercrime-law.html
[13]UNCTAD, Cybercrime Legislation Worldwide.
https://unctad.org/page/cybercrime-legislation-worldwide
[14]OECD, Digital security risk management. Retrieved from: https://www.oecd.org/sti/ieconomy/Digital-Security-Risk-Management.htm
[15]CCDCOE, African Union 2011.
https://ccdcoe.org/organisations/au/
[16]( صحیح مسلم، رقم الحدیث:261)
[17](سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:4800، باب:خوش اخلاقی کا بیان)
[18]Caramancion, K. M., et, al. (2022). The Missing Case of Disinformation from the Cybersecurity Risk Continuum: A Comparative Assessment of Disinformation with Other Cyber Threats. Data, 7(4), 49.
https://doi.org/10.3390/data7040049
[19](صحیح بخاری، رقم الحدیث الحدیث: 2079، کتاب:خرید و فروخت کے مسائل کا بیان)
[20](مسلم، کتاب البر، باب تحریم الغیبۃ، ترمذی،ا بواب البر والصلۃ، باب ما جائ فی الغیبۃ)
[21]( صحيح مسلم، کتاب: حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب)
[22]( صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6064)
[23]Ostendorf, S., et, al. (2020). Neglecting Long-Term risks: Self-Disclosure on social media and its relation to individual Decision-Making tendencies and problematic Social-Networks-USE. Frontiers in Psychology, 11.
https://doi.org/10.3389/fpsyg.2020.543388
[24](صحیح بخاری، رقم الحدیث:6578)
[25]( سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:4084)
[26](سنن ابن ماجہ کتاب:حدود کے احکام و مسائل، باب:مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالنا)