مشتعل ہجوم کی عدالت اور سیرت النبیﷺ

مشتعل ہجوم کی عدالت اور سیرت النبیﷺ

مشتعل ہجوم کی عدالت اور سیرت النبیﷺ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری اکتوبر 2023

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہمیں عبادات و ریاضات، اخلاقِ حسنہ کی تکمیل اور قرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ پر امن رہنے اور معاشرے کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کا درس دیتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں  ظلم و بربریت اور جبر و تشدد ہو  تواس معاشرے کا نہ صرف نظم و نسق ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ تباہ و برباد ہو جاتا - اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ کفر کا نطام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظا م نہیں چل سکتا کیونکہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے لہذا وہ اپنے پیروکاروں کو امن و سلامتی اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتاہے- یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ فلاح و بہبود اور امن و سلامتی کے لحاظ سے باقی تمام معاشروں سے  منفرد ہو جاتا ہے- اسلام نے معاشرے  میں امن و سلامتی برقرار رکھنے اور جبر و تشدد کی روک تھام کے لئے حدود و تعزیرات کا نفاذکیا ہے- ان کے نفاذ سے تو بظاہراً ایسے لگتا ہے کہ آدمی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے لیکن اگر حقیقتاً ان کے نفاذ کے نتائج اور ثمرات پر توجہ  کی جائے تو ان میں ایک معاشرے کی امن و سلامتی اور اس کی بقا کا راز پوشیدہ ہے-اسی لئے تو قرآن مجید  میں قصاص کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’قصاص میں تمہارے لئے حیات ہے‘‘-[1]

معاشرے میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لئے اسلام نے جو ہمیں قانون عطا کیا ہے اس کے نفاذ کا بھی ایک واضح سسٹم عطا کیا ہے کہ اس کا نفاذ حاکم وقت، قاضی یا ریاست کا عدالتی نظام کرے گا کسی فردِ واحد اور ہجوم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر عدالتی نظام کے ماوراء  خود فیصلے کرنا شروع کر دے جس طرح بدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان میں اس قسم کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں- یہ سراسر اسلامی تعلیمات اور سیرت النبی (ﷺ) سے ناواقفیت کی وجہ ہے حالانکہ اسلام قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا- جب ہم سیرت النبی (ﷺ) کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے  ہمیشہ اپنی حیات طیبہ میں اعتدال و توازن اورقانون کےمطابق زندگی گزارنےکو پسند کیا ہے- آپ نےکبھی بھی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا درس نہیں دیا بلکہ اس کے بارے شدید وعید بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے قومیں دین میں  غلو اور زیادتی (یعنی شدت پسندی اور انتہا پسندی) کے سبب ہلاک ہوئیں‘‘-[2]

تومعلوم ہوا کہ اسلام میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی کوئی گنجائش  نہیں ہے بلکہ اسلام کی نظر میں وہ عمل قابل قبول ہے جو ایک قانونی دائرہ کار کے اندر ہو اور اس میں اعتدال و توازن پایا جائے-

آقا کریم (ﷺ) نے ہمیشہ قانون و اصول کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیا آپ نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی  نہ خود کبھی قانون کو ہاتھ  میں لیا اور نہ ہی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی-

یہی وجہ ہے کہ جب صلح  حدیبیہ کے موقع پر آپ (ﷺ) کی  سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی شرائط پر گفتگو ہو رہی تھی اور صلح کی کچھ شرائط طے پاگئی تھیں تو ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کوئی ہماری جانب یعنی کفار مکہ کی طرف سے بغیر اجازت از خود تمہارے پاس آئے گا آپ اسے ہماری طرف لوٹا دیں گے اگرچہ وہ مسلمان ہو کر ہی پہنچے-تو اسی دوران سہیل بن عمرو جو کہ کفار کی طرف سے صلح نامہ کیلئے آیا ہوا تھا اس کا بیٹا ابو جندل کلمہ شہادت پڑھتا ہوا مسلمانوں کے پاس آگیا-

سہیل نے کہا اے محمد (ﷺ)! یہ پہلا امر ہے  جس پر صلح قرار پاچکی ہے لہذا میرے بیٹے کو میرے حوالے کیجئے اور ہماری طرف لوٹائیے-آپ  (ﷺ) نے ارشاد فرمایا صلح کی کتابت سے ابھی ہم فار غ نہیں ہوئے ہیں یہ شرط صلح کے مکمل ہونے کے بعد نافذ ہوگی مگر اس نے ضد اور ہٹ دھرمی دکھائی اور کہا کہ ہم صلح نہیں کرتے-آپ (ﷺ) نے بڑی کوشش کی حتیٰ کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اس ایک معاملے کو میری خاطر سے مستثنیٰ رکھو نرمی اور آسانی پیدا کرو- لیکن وہ نہ مانا آخر کار آپ (ﷺ) نے صلح نامہ کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے ابو جندل کو ان کے سپرد کر دیا- ادھر ابو جندل  پکار رہا ہے کہ اے مسلمانو! مجھے مشرکوں کے حوالے مت کرو میں مسلمان ہو کر تمہاری پناہ میں آیا ہوں-

میرےآقا کریم (ﷺ) نے ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے فضل و کرم  پر اعتماد رکھو یقیناً وہ تمہارے لئے کشادگی اور آزادی کی راہ پیدا فرمائے گا- اب ان کے ساتھ شرط   طے پاچکی ہے اور عہد باندھا جا چکا ہے-غدر اور بے وفائی ہمارا کام نہیں-[3]

اسی طرح جب آپ (ﷺ) صلح کےبعدحدیبیہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ابو بصیر(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہو کر مکہ سے فرار ہو کر آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں پہنچے کفار مکہ نے ان کے مطالبہ کے لئے دو آدمی آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں بھیجے ایک بنو عامر میں سے تھا اور دوسرا کوثر نامی اس کا ملازم و ساتھی تھا- ان دونوں نے ایک خط حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ میں پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ آپ بمقتضائے صلح جو صلح حدیبیہ میں طے  ہو چکا ہے ابو بصیر کو لوٹا دیں-آپ (ﷺ) نے ابو بصیر کو ان کے سپرد کر دیا تو انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ مجھے مشرکوں کی طرف بھیج رہے ہیں- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس قوم کے ساتھ عہد باندھا ہے ہمارا ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اور تم جانتے ہو کہ ہمارا کام  غدر و بے وفائی نہیں ہے- جاؤ اللہ تعالیٰ تمہارے کام میں کشادگی فرمائے گا اور فراخی اور آزادی کی کوئی راہ پیدا کر دے گا-

پھر وہ دونوں مشرک حضرت ابو بصیر کو لے کر مکہ روانہ ہو گئے جب وہ مقام ذو الحلیفہ پر پہنچے تو حضرت ابو بصیر نے موقع پا کر عامری کو اس کی  تلوار ہی سے مار دیا اوردوسرا بھاگ گیا حضرت ابو بصیر نے واپس آکر آپ کی بارگاہ میں عرض کی  کہ آپ نے تو مجھے ان کے سپرد کر کے اپنے عہد کو پورا کر دیا اب مجھے اللہ تعالیٰ نے ان سے آزادی بخشی اور ان کے شر سے محفوظ رکھا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یہ ابو بصیر تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا اور تیز کرنے والا ہے-[4]

ذرا ان دونوں واقعات کو سامنے رکھ کر سوچیں ! ایک طرف کفارمکہ اور دوسری طرف  دو مسلمان-مسلمانوں کے جانی دشمن کفار مکہ ان دو مسلمانوں کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہیں-دوسری طرف دونوں مسلمان دوہائیاں دے رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہو کر تمہاری پناہ میں آئے ہیں-اے مسلمانو! ہمیں ان کے سپرد نہ کرنا یہ ہم پر ظلم و ستم کریں گے-یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی -کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس کرب و دکھ بھری کیفیت و حالت میں آپ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) دل سے یہ چاہتے ہوں کہ ان کو کفارِ مکہ کے حوالے کر دیا جائے-ہرگزایسا نہیں   بلکہ ان کی تو یہ شدید آرزو اور تمنا تھی کہ کوئی ایسا راستہ نکل آئے کہ ان کو سپرد نہ کیاجائے لیکن مجبوری یہ تھی کہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ طے پاگیا تھا-لہٰذا آپ(ﷺ) نے خود  معاہدہ کی خلافت ورزی کی نہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو اجازت دی- بلکہ آپ (ﷺ) نے معاہدہ کی پاسداری کر کے امت کو یہ پیغام دیا کہ چاہے کوئی فردِ واحد ہو یا افراد کی صورت  میں  ہجوم، کسی کو بھی طاقت کے بل بوتے پر کسی کے ساتھ زیادتی کرنے، کسی کو یرغمال بنانے یا کسی کی موت اور زندگی کا  از خود فیصلہ  کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے-

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابو بصیر  آدمی کو قتل کر کے آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا  اور فرمایا کہ ابو بصیر تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا اور تیز کرنے والا ہے-

حضرت براء بن عازب (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے سامنے سے ایک یہودی گزرا جس کا منہ کالا  کیا ہوا تھا اور اس کو کوڑے مارے جاچکے تھے -آپ نے یہودیوں کو بلا کر فرمایا کہ کیا تمہاری کتاب میں زنا کی سزا یہی ہے انہوں نے کہا ہاں پھر آپ نے ایک یہودی عالم کو بلاکر فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کو نازل فرمایا-کیا تمہاری کتاب میں زنا کی سزا یہی ہے اس نے عرض کی کہ اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا-ہماری کتاب میں زنا کی سزا رجم ہے لیکن ہمارے معزز لوگ بکثرت زنا کرتے ہیں تو جب ہم کسی معزز شخص کو پکڑتے تو اس کو چھوڑ دیتے جب کسی غریب کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کر دیتے-سو ہم نے کہا چلو ہم سب مل کرایک ایسی سزا تجویز کر لیں جس کو ہم معزز اور غیر معزز  ہر شخص پر جاری کر سکیں-پھر ہم نے کوئلے سے منہ کالا  کرنے اور کوڑے مارنے کو رجم کی جگہ حد مقرر کر دیا -

تو اس وقت آپ (ﷺ) نے  ارشاد فرمایا اے اللہ! سب سے پہلے میں تیرے حکم کو اس وقت زندہ کرتا ہوں جبکہ یہ لوگ اس حکم کو مار چکے ہیں چنانچہ  آپ کے حکم سے وہ شخص رجم کیا گیا -[5]

اس حدیث پاک سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں کیونکہ جب سب یہودیوں نے مل کر زنا کی سزا رجم کی جگہ صرف منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنا مقرر کی تو یہ بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے-تو آقا کریم (ﷺ) نے اس شخص کو رجم کروا کر یہ واضح  پیغام دیا کہ تم کون ہوتے ہو قانون  کے ماوراء فیصلہ کروانے والے-لہٰذا  اس آدمی کی سزا قانون کے مطابق ہوگی اور وہ  رجم ہے-

اسی طرح حضرت علی(رضی اللہ عنہ)  سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے  مجھے یمن کی طرف بھیجا تو وہاں ایک قوم نے شیر کا شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھودا اور شیر اس میں گر گیا اس کے بعد گڑھے پر لوگوں کا رش لگ گیا تو اس دوران ایک آدمی گڑھے  میں گرنے لگا تو اس آدمی نے بچنے کیلئے دوسرے آدمی کو پکڑا اسی طرح دوسرے نے تیسرے کو پکڑا یہاں تک کہ اسی صورت حال میں چار آدمی گڑھے میں جا گرے اور شیر نے انہیں زخمی کیا  اور وہ بے چارے مر گئے-لوگ مشتعل ہو گئے اور وہ ہتھیار اٹھا کر گڑھا کھودنےوالوں کو مارنے کیلئے تیار ہو گئے-حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس آیا اور کہا کہ تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرو گے-آؤ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اگر تمہیں میرا فیصلہ پسند آجائے تو ٹھیک  ورنہ اس معاملے  کو آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ میں  لے جانا وہ فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں تو مولا  علی نے شریعت کے مطابق ان کے درمیان دیت کا فیصلہ کر دیا تو بعضوں نے اس فیصلے کو پسند کیا اور بعض نے انکار کیا آخر کار معاملہ آپ (ﷺ )کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ فیصلہ اسی طرح ہے جس طرح حضرت علی (رضی اللہ عنہ)  نے کیا ہے-[6]

ذرا اس حدیث مبارکہ پر غور فرمائیں کہ چار آدمیوں کے گڑھے میں مرجانے کی وجہ سے جب لوگوں نے مشتعل ہو کر   خود فیصلہ کرنا چاہا  تو حضرت علی نے مداخلت کی اور ان کی سرزنش کی کہ کیا چار آدمیوں کے بدلے پوری قوم کا قتل کرو گے-تو آپ کا مداخلت کرنا اور انہیں ڈانٹنا اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ آپ انہیں سمجھا رہے تھے- کہ تمہیں قانون کو ہاتھ میں لے کر از خود فیصلے کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے آؤ تمہارا فیصلہ میں کرتا ہوں اور پھر آقا کریم (ﷺ)نے اس فیصلے کے درست ہونے کی تصدیق بھی کر دی-تو معلوم ہوا کہ کسی بھی فرد واحد یا مشتعل ہجوم کو ماوراء حاکم یا قاضی یا   ما وراء عدالت قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر از خودفیصلے کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے-

اسی طرح جب لوگ آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں اپنے  معاملات کا فیصلہ کرانے کیلئے حاضر ہوتے تھے تو آپ نے کبھی بھی یہ نہیں فرمایا کہ فیصلہ تم خود کر لو بلکہ فیصلہ یا تو خود کیا ہے یا کسی صحابی کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا ہے مثال کے طور پر حضرت معقل بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے ایک قوم کے درمیان فیصلہ کرنے کا حکم دیا-[7]

حضرت عمر و بن العاص بیان کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس  آکر اپنا مقدمہ پیش کیا آپ نے حضرت عمر و بن العاص کو حکم دیا کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں-[8]

اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ دو فریق جھگڑا لےکر آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں آئے آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے عقبہ! چلو ان کے درمیان فیصلہ کر دو-[9]

معززقارئین! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اسلام کی سرحدیں پھیل گئیں اور آپ کی مصروفیات بڑھ گئیں تو آپ نے اسلامی علاقوں میں حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو حاکم مقرر کر کے بھیجا تو آپ نے ان حضرات کو انتظامی امور کے ساتھ قضاء کی اضافی ذمہ داری بھی عطا فرمائی جو کہ لوگوں کےمعاملات کے فیصلے بھی کرتے تھے -آپ نے حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت موسیٰ اشعری کو یمن بھیجا اور حضرت علاء بن حضرمی کو بحرین کا قاضی مقرر کیا-حضرت عتاب بن اسید کو مکہ کا قاضی مقرر کیا -حضرت دحیہ کلبی کو یمن کے ایک علاقے کا قاضی مقرر کیا اور حضرت عمر بن خطاب۔ حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا بھی آپ (ﷺ) کے قاضیوں میں شمار ہوتا تھا-[10]

ذرا غور کریں کہ اگر عوام نے فیصلے خود ہی کرنے ہوتے تو ان حضرات کو قاضی بنانے کا مقصد کیا تھا-لہٰذا! آپ (ﷺ) کا لوگوں کے درمیان فیصلے کے لئے کسی صحابی کو حکم دینا اور مختلف صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)  کو مختلف علاقوں اور جگہوں میں قاضی بنانے کی بھی یہی حکمت کار فرما تھی-اس  لئے ہمارے  لئےیہ ضروری ہے کہ  ہمیں بھی ریاست کے قانون و ضوابط کا پابند رہنا چاہیے اور کسی موڑ پر بھی ریاست کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ریاست میں رہتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینا  ریاست کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے-

قارئین! یہاں یہ بھی چیز بالخصوص مدنظر رکھنی چاہیے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ نہ کرنے کا جو معاملہ ہے یہ مسلمان کا مسلمان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ قانون اسلامی ریاست میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں پر بھی نافذ ہوگا-ایسا نہیں ہوگا کہ مسلمان کو تو ہم ایک قانونی اور عدالتی طریقہ کار کے تحت کسی معاملے میں سزا دلوائیں اور کسی اقلیتی فرد کے معاملے میں قانون اور عدالت کے ماوراء از خود فیصلے کرنا شروع کر دیں-اسلام ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتا -امام ابو یوسف اپنی کتاب  کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ عہد نبوی (ﷺ) اور خلافتِ راشدہ  میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی ہے-[11]

اس لئے اگر غیر مسلم سے کوئی ایسا معاملہ سرزد ہو جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر شرعی اور قانونی گرفت آتی ہے تو ایسا نہیں ہوگا کہ غیر مسلم سمجھتے ہوئے قانونی اور عدالتی طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی فرد واحد یا عوام کا ایک ہجوم خود عدالت لگا کر اس کا فیصلہ کر دے-بلکہ ایک مسلمان کی طرح اسے بھی ریاستی قانون اور عدالتی نظام کے تحت سزا دلوائی جائے گی-

یہ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے معاشرت کے لوگوں کا تحفظ کرتا ہے اور انہیں قانونی اور آئینی حق دیتا ہے-  اسی طرح اسلامی ریاست میں بسنے والے  غیر مسلم اقلیتوں کو بھی نہ صرف تحفظ دیتا ہے بلکہ انہیں بھی قانونی اورآئینی حق دیتا ہے- اسی لئے تو آقا کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے کہ خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا  یا اس کا حق غضب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا-[12]

تویہ محض ایک تنبیہ اور وعید ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانون ہے جو آقا کریم (ﷺ) نے ہمیں عطا کیا ہے جو آج تک قائم ہے- اگر کوئی شخص کسی پر ظلم و زیادتی کرتا ہے چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم ،کسی اسلامی شعار کی توہین کرتا ہے یا کوئی گستاخی کرتا ہے تو صرف اسی موصوف کو یا جو شریک جرم ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر سزا دلوائی جائے گی-ایسا نہیں ہوگا کہ ہم اس کے جرم کی پاداش میں اس کے دوسرے ہم مذہبوں کو رگڑ کر رکھ دیں اور مشتعل ہو کر ان کی املاک، ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کو نقصان پہنچائیں یہ سراسر ناانصافی ہوگی-رسول کریم (ﷺ)  نے  اہل نجران کو جو خط لکھا تھا اس میں یہی چیز بڑی وضاحت کے ساتھ ملتی ہے-آپ نے ارشاد فرمایا نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اس کے رسول  کی پناہ حاصل ہے ان کی جانیں ، ان کی شریعت،زمین و اموال ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی-[13]

اچھا بعض اوقات یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستانی عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا ملزم چھوٹ جاتے ہیں یا انصاف  کا حصول سست روی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ہم خود فیصلہ کر لیں تو لوگوں کا یہ گلہ اور شکوہ اپنی جگہ، گو کہ ہمارے عدالتی نظام بلکہ ہر ادارے میں  بہتر سے بہتر تر کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن  اس چیز کو بنیاد بنا کر از خود فیصلے کرنا یہ بھی  قانونی اور عقلی طور پر کسی بھی طریقے سے درست نہیں  چاہے کچھ بھی ہو پاکستان ایک  اسلامی ریاست ہے اور اس کا ایک عدالتی نظام موجود ہے   ہم اس کے خلاف نہیں جا سکتے-ہمارا کام ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شواہد پیش کر کے اس کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے-آگے عدالت جانے اور ملزم جانے اگر عدالت جان بوجھ کر درست فیصلہ نہیں  کرتی یا لٹکائے رکھتی ہے تو اس چیز کا وبال اس پر ہوگا  ہم  پر نہیں، ہم بری الذمہ ہیں-

اس لیےہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم سیرت النبی (ﷺ) کا مطالعہ کریں، اس کو اپنائیں اور  اسلام کے مزاج کو سمجھیں اسلام امن و سلامتی اور قانونی دائرہ کار کے تحت زندگی  گزارنے کا درس دیتا ہے-دین اسلام میں انتہا پسندی، شدت پسندی اور جبر و تشدد کا کوئی تصور نہیں ہے-

حقیقت بات  ہے کہ ہم انتہا پسند انہ رویے اختیار کر کے نہ صرف ریاستِ پاکستان کی بنیادوں کو کمزورکر رہے ہیں بلکہ اسلام کے امن و سلامتی کے تشخص کو بھی مجروح کر رہے  ہیں جس کی وجہ سے پھر اسلام مخالف قوتوں کو اسلام کے خلاف  ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا ہے جس میں ہم سب مسلمانوں کا نقصان ہے-

لہٰذا!  بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم سب  محبوب کریم (ﷺ) کی محبت بھری تعلیمات کو نہ صرف فکری و نظریاتی طور پر تسلیم کریں بلکہ اپنے معاشرے میں ان کا عملی اظہار بھی کریں اور ایک قانونی دائرہ کار کے تحت اپنی زندگی  گزاریں تا کہ ہمارے معاشرے کا نظم و نسق اور امن برقرار رہے جو کہ ایک مضبوط اور اسلامی معاشرے کی پہچان ہے-

٭٭٭


[1](البقرہ:179)

[2](سنن ابن ماجہ، جز:2، ص:1008)

[3](سیرت ابن ھشام، جز:2، ص:318)

[4](سبل الھدی و الرشاد، جز:5، ص:61-62)

[5](صحیح مسلم، باب رجم الیہود)

[6](سبل الھدی و الرشاد، جز:9، ص:213)

[7](مجمع الزوائد، جز:4، ص:193)

[8](مسند احمد، جز:4، ص:205)

[9](ایضاً)

[10](شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی، جز:5، ص:46)

[11](کتاب الخراج، ص:187)

[12](سنن ابی داؤد، جز:3، ص:170)

[13](الطبقات الکبرٰی للسعد، جزا:1، ص:220)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر