اللہ تعالیٰ نے انسان کو شکل و صورت، رنگ و نسل، زبان و بیان، ذوق و مزاج، غور و فکر اور عقل و فہم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے-یہی وجہ ہے کہ ہر کس اپنی جداگانہ شخصیت اور انفرادی حیثیت رکھتا ہے-اس لئے اختلافِ رائے کا پیدا ہو جانا امرِ یقینی ہے-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ ‘‘[1]
’’اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف- بیشک اس میں نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لئے‘‘-
چونکہ اشیاء کا مختلف پیدا کیا جانا منشاءِ الٰہی سے ہے اس لئے ان میں اختلافِ رائے کا پایا جانا قدرتی امر ہے-میں سمجھتا ہوں جس طرح لوگوں کے رنگ اور زبان کا اختلاف آیاتِ الٰہی میں سے ہے اسی طرح انسانی عقل و فہم، نکتہ ہائے نظر اور ان سے جنم لینے والی سوچ و فکر اور آراء کا مختلف ہونا یہ بھی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے-
سیدنا حضرت عمر بن عبد العزیز(رضی اللہ عنہما) فرماتے :
’’ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام میں اختلاف نہ ہوتا کیونکہ اگر ان میں اختلاف نہ ہوتا تو رخصت و گنجائش کی کوئی صورت نہ پیدا ہوتی‘‘-[2]
اگر اختلاف درست نیت، درست سوچ اور خیر خواہی کی بنیاد پر کیا جائے تو اس سے افکار و نظریات کی کئی نئی راہیں کھلتی ہیں- جو یقیناً اُمت کے لئے باعثِ رحمت ثابت ہوتا ہے-آج ہمارے پاس جو کثیر تعداد میں قرآن و احادیث کے مختلف مفاہیم، تفاسیر اور تشریحات موجود ہیں اسی نیک نیتی پر مبنی اختلافِ رائے کا ہی ثمرہ ہیں -
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو طبعی اور فطرتی طور پر مختلف پیدا کیا ہے لیکن اِس انفرادی فر ق اور اختلاف کے باوجود اُمت میں اجتماعیت اور اتحاد مطلوب ہے-اس لئے عقائد اور افکار و نظریات کے اختلاف کو کسی صورت میں بھی فتنہ و فساد اور ملی وحدت کا شیرازہ پارہ پارہ کرنے کا سبب بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی-
اگر اختلاف مخالفت کا روپ دھار لے تو احترامِ انسانیت کا جنازہ اُٹھنے لگتا ہے، انسانی معاشرہ فتنہ و فساد کی نظر ہو جاتا ہے اور الفت و محبت کی جگہ تعصب، ہٹ دھرمی اور شدت پسندی لے لیتی ہے اور اُمت طبقاتی تقسیم میں منقسم ہو جاتی ہے-ایسا اختلاف جو اُمت کی وحدت کو ختم کرنے کا سبب بنے اس کو اختلاف شر قرار دیا گیا ہے اور اختلاف شر کے نتائج اتنے بھیانک اور خطرناک ہیں جس کا اندازہ قرآن مجید کی ا س آیت کریمہ سے لگایا جا سکتا ہے-
’’قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ ج اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ ‘‘[3]
’’کہا اے میرے ماں جائے نہ میری داڑھی پکڑو اور نہ میرے سر کے بال مجھے یہ ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا‘‘-
در اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام)اپنی قوم حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سپرد کر کے کوہِ طور پہ تشریف لے گئے تو پیچھے سامری نے سونے کا بچھڑہ بنا کرلوگوں کے سامنے بطور معبود پیش کیا تو لوگوں نے اس کی عبادت شروع کر دی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ قوم بچھڑے کی پوجا میں لگی ہوئی ہے-حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت ہارون (علیہ السلام)پر شدید غصہ آیا جس کو قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے ’’کہا اے میرے ماں جائے نہ میری داڑھی پکڑو اور نہ میرے سر کے بال مجھے یہ ڈر ہوا کہ تم کہو گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا‘‘-
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت ہارون (علیہ السلام) کے نزدیک قوم میں اختلاف و انتشار پھیلانا کتنا بڑا جرم تھا –
لیکن ایسا اختلافِ رائے جو خیر اور نیک نیتی پر مبنی ہو جس سے افکار و نظریات اور فہم و فراست کے نئے دریچے وا ہوتے ہوں ، جو بہتر سے بہتر تر کی تلاش کے لئے کیا جائے تو وہ قابل تحسین بھی ہے اور رحمت بھی-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللہِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘[4]
’’جو درخت تم نے کاٹے یا ان کی جڑوں پر قائم چھوڑ دیئے یہ سب اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لئے کہ فاسقوں کو رسوا کرے‘‘ -
جب بنو نضیر نے غزوۂ احد میں مشرکین کی مدد کر کے رسول اللہ (ﷺ) سے کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ایک دن مسلمانوں نے بنو نضیر کی بستی کا محاصرہ کر لیا، جیسے ہی انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا تو وہ فورًا اپنے قلعوں میں داخل ہو گئے- اور دروازے بند کردئیے تو مسلمان ان کےکھجور کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے لگے-کچھ درخت کاٹے گئے، کچھ درخت جلائے گئے ،تو بعض نے کہا کہ ان باغات کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے طور پر عطا فرمایا ہے ان کو نہ کاٹا جائے-بعض نے کہا کہ جنگی حکمتِ عملی کے پیش نظر ان درختوں کا کاٹنا چاہیے، جب دونوں کی آراء مختلف ہو گئیں تو بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں عرض کیا گیا کہ ہم نے جو کارروائی کی ہے اس پر ہمیں اجر ملے گا یا گناہ ہوگا-کہیں یہ فساد فی الارض کےزُمرے میں تو نہیں آئے گا-تو اتنے میں اللہ تعالیٰ نےیہ آیت مبارکہ نازل فرمائی:’’جو درخت تم نے کاٹے یا اُن کی جڑوں پر قائم چھوڑ دیئے یہ سب اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لئے کہ فاسقوں کو رسوا کرے‘‘ -
اللہ تعالیٰ نے دونوں کی رائے کو درست قرار دیا- یہ کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ جن کی رائے کے درست ہونے کی تصدیق اللہ تعالیٰ فرما دے -
تو اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اختلاف اگر خیر پر مبنی ہو تو رحمت ہے-اسی طرح حضرت امام بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے :
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) غزوۂ احزاب سے واپس تشریف لائے تو آپ (ﷺ) نے ہم سے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ میں پہنچے بغیر عصر کی نماز نہ پڑھے-جب راستے میں عصر کا وقت ہوا تو بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا کہ ہم عصر کی نماز اس وقت تک نہیں پڑھیں گے جب تک ہم بنو قریظہ پہنچ نہیں جاتے-بعض نے کہا کہ ہم عصر کی نماز پڑھیں گے کیونکہ آپ (ﷺ) نے ہم سے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا-ان کی رائے یہ تھی کہ اس ارشاد سے حضور نبی کریم (ﷺ) کا منشا یہ تھا کہ وہ بنو قریظہ میں جلدی پہنچو-آپ (ﷺ) کا یہ منشا نہیں تھا کہ بنو قریظہ میں ہی نمازِ عصر پڑھنا خواہ نماز قضا ہی ہوجائے-سو انہوں نے اس حدیث پاک کی منشا اور مفہوم پر عمل کیا-دوسرے صحابہ کرام نے حدیث پاک کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا کہ نمازِ عصر بنو قریظہ میں پہنچ کر ہی پڑھنی ہے-
دونوں کی رائے مختلف تھی لیکن چونکہ خیر پر مبنی تھیں اس لئے آپ (ﷺ) نے ان میں سے کسی فریق کو ملامت نہیں کیا-بلکہ دونوں کی رائے کو عزت و احترام عطا فرمایا-[5]
سیرت النبی (ﷺ) کی پیروی نہ کرنے کے نتیجے میں آج ہمارا معاشرہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے شخص کو کفر و گمراہی سے کم درجے کا ٹائیٹل ہی نہیں دیتے اور نہ ہی اس سے کم پر پیاس بجھتی ہے-حالانکہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے ایک آدمی سے سخت لہجے میں بات کی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اے عمر! اس کا جرمانہ ادا کرو تو نے اس سے سخت لہجے میں بات کی ہے-
امام ابن کثیر نے’’الجامع المسانید‘‘ اور امام ہیثمی نے ’’مجمع الزاوئد‘‘ میں نقل کیا ہےکہ:
زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے پہلی بار محمد (ﷺ) کو دیکھا تو نبوت کی تمام علامات کو میں پہچان گیا سوائے دو کے-ایک یہ کہ اس کا حلم اس کے غصہ پر غالب ہوگا-جتنا بھی اس کے ساتھ جہالت کا رویہ اختیارکیا جائے گا اتنا ہی ان کا حلم بڑھتا جائے گا-
پھر کہتے ہیں کہ مَیں نے آپ (ﷺ) کے ساتھ بیع کی- تو وعدے سے دو یا تین دن قبل میں نے آپ (ﷺ) سے قرض کا مطالبہ شروع کر دیا-میں نے آپ (ﷺ) کی قمیص اور چادر سے پکڑ کر سخت ترین طریقے سے بات کی-حضرت ابو بکر، عمر، عثمان اور دیگر صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) بھی ساتھ تھے- میری سختی دیکھ کر عمر نے مجھے غصہ سے کہا اے یہودی! کیا تو اللہ کے رسول (ﷺ) کے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہا ہے-اُس ذات کی قسم جس نے محمد (ﷺ) کو حق دے کر بھیجا ہے اگر مجھے کسی چیز کا ڈرنہ ہوتا تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا-زید کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) عمر کی طرف بڑے اطمینان، سکون اور مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہے تھے-پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا اے عمر! میں اور وہ تم سے کسی اور سلوک کے خواہاں تھے-تم مجھے حسنِ ادائیگی کا کہتے اور اسے حسنِ تقاضا کا کہتے-اب اسے لے جا اور اس کا قرض ادا کر دے اور اسے بیس صاع کھجوریں اضافی دے دے کیونکہ تو نے اسے دھمکی دی ہے-یہ حسنِ اخلاق دیکھ کر مجھے تصدیق ہو گئی اور میں نے اسلام قبول کر لیا-
یہ ہے سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ) کہ آپ(ﷺ) نے اپنے تو اپنے غیروں کو برداشت کرنا کیسے سکھایا-
امام ابن جریر ابو جعفر الطبری(المتوفی:310ھ)، امام بغوی، امام ابن کثیر اور دیگر کئی مفسرین اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا تو عصر کا وقت ہو چکاتھا، مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرنے لگے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے انہیں روکنے کا ارادہ کیا، لیکن آپ (ﷺ) نے منع فرمادیا کہ انہیں کرنے دو-
اندازہ لگائیں! دشمن ہیں، مخالف ہیں اپنے الگ عقائد اور نظریات رکھتے ہیں لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) نے اُمت کو عملاً یہ سبق سکھا دیا کہ اپنے مخالف کے عقائد و نظریات کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے اور اُسے اپنے اخلاقِ حسنہ سے کس قدر متاثر کرنا چاہیے-یہ سیرت النبی (ﷺ) کےوہ روشن باب ہیں جن کے نور سے ہم دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں -
اگر سیرت النبی (ﷺ) کا فیضان نصیب ہو جائے تو وجود میں شدت، ہٹ دھرمی اور لاشعوری ختم ہوجائے-لیکن اس قسم کی سنجیدگی وجود میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی مشنری ہو، اُس کا مشن لوگوں کو دین اسلام کے قریب سے قریب تر کرنا ہو- ایسا آدمی لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے اسباب مہیا کرتا ہے، تاکہ لوگوں کیلئے دین اسلام کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو -
تو پھر ایسا آدمی عدمِ برداشت کا شکار نہیں ہوسکتا بلکہ صبر و تحمل کا پہاڑ گراں ثابت ہوتا ہے-
آج ایک دو شہر نہیں بلکہ پورا معاشرہ تشدد، سفاکی، بے رحمی، خون خرابہ، دنگا فساد اور اخلاقی بحران کی لپیٹ میں ہے جس کی بد ترین شکل اشتعال زدہ ہجومی عدالتیں اور ان میں ہونے والے ماوارئے قانون و انصاف قتل ہیں-اگر اس شدت کو ختم کرنا چاہتے ہو تو سیرت النبی (ﷺ) کے سانچے میں خود کو ، اپنے اہل و عیال کو اور معاشرے کو ڈھالنے کی کوشش کریں-میں پورے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ سیرت النبی (ﷺ) کے فیضان سے یہ معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے-
اختتام کی طرف آتے ہوئے عرض کروں گا کہ ہمارے قائد و مرشد جانشینِ سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب (سرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) کا نوجوان نسل کی تربیت کیلئے یہ منہج ہے اور پیغام بھی کہ:
v اپنی زندگیوں کو سیرت النبی (ﷺ) کے فیضان کے نور سے روشن کیجئے-
v کسی سے اختلاف کرنے سے قبل مسئلہ کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے-کیونکہ بعض دفعہ ایک ہی وقت میں دونوں فریق درست بھی ہوسکتے ہیں-
ایک کے سامنے 6 کا عدد بن رہا ہے اور یہی ہندسہ دوسرے کے سامنے 9 کا عدد بن رہا ہے ، بیک وقت دونوں درست ہیں ، ضد کو چھوڑئیے ، کسی رہنما کو تلاش کیجئے تاکہ وہ تمھیں قریب سے مسئلہ کو سمجھنے کا گُر سکھا دے -
v اپنے فریقِ مخالف سے ہمیشہ عزت و احترام سے پیش آئیے کیونکہ ہمیشہ اپنے مخالف سے احترام و تکریم سے پیش آنا یہ عظیم لوگوں کا شیوہ ہے- عظیم لوگ بننے کی کوشش کیجئے -
دعوت ہے آئیے ،دیر مت کیجئے !
سلطان محمد علی صاحب کے قافلے کا سنگ اختیار کیجیے اور سیرت النبی (ﷺ) کے فیضان سے بھرپور حصہ حاصل کیجئے -
٭٭٭
[1](الروم:22)
[2]حوالہ: الإبانة الكبرى لابن بطة ، جز 2 ، ص : 565،دار الراية للنشر، الرياض،،
[3](طٰہ:94)
[4](الحشر:5)
[5](بخاری شریف، کتاب صلوٰۃ الخوف)