غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی پر ایک نظر

غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی پر ایک نظر

غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی پر ایک نظر

مصنف: مستحسن رضا جامی ستمبر 2024

نعت کا میدان بے حد وسیع ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی شانِ اقدس میں جتنا لکھا جائے وہ کم ہے- اگر مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم شعراء کے ہاں نعت گوئی کے ضمن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان کے حوالے سے نعتیہ ادب کی روایت کا جائزہ لیا جائے تو ایک طویل روایت سامنے آتی ہے-اس روایت میں کئی سو شعراء ہیں - اس روایت میں ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت  حتی کہ انگریز یورپی بھی شامل ہیں- ان شعراء کے ہاں آقا کریم (ﷺ) کی نعت گوئی کے حوالے سے بہت منفرد مضامین ملتے ہیں- بعض جگہوں پر یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی کسی غیرمسلم کا کلام ہے-

غیر مسلم شعراء کے ہاں نعت گوئی کی روایت کئی سو برس پر محیط ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ریاض مجید کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے:

’’برصغیر میں غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کی روایت کا آغاز جنوبی ہند سے ہوا-مسلمان شاعروں کی طرح ہندو اورسکھ شعراء نےعقیدت و محبت کے اظہار میں حضور اکرم (ﷺ) کی سیرت ونعت کوبھی اپنی تخلیقات کاموضوع بنایا-لچھمی نرائن شفیق کا’’معراج نامہ‘‘ اور راج مکھن لال مکھن کانعتیہ کلام اس اظہارِ عقیدت کے ابتدائی نمونے ہیں -شفیق نے مثنوی کی ہیئت میں معراج کے واقعات شاعرانہ انداز میں رقم کیے ہیں-شعری التزام اوربرجستگی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں-جبکہ راجہ مکھن لال نے اپنی نعتوں میں عربی کلام اورقرآن و حدیث کے حوالے بھی دیے ہیں- خلوصِ عقیدت اورحضور اکرم (ﷺ) سے نجات و شفاعت طلبی کے مضامین ان کے ہاں عام ہیں‘‘-[1]

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کے ضمن میں روایت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ غیر مسلم شعراء کی تعداد سینکڑوں میں ہے-

نمایاں غیرمسلم نعت گو شعراء میں آرزو سہارنپوری سادھو رام ، اختر ہری چند ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ادب سیتا پوری کنور، سورج نرائن سنہا،آشفتہ دہلوی پنڈت امر ناتھ ، آنند جگن ناتھ پرشاد، پنڈت رگو ناتھ سہائے، پنڈت اندر جیت شرما ، بیکل امرتسری برج گوپی ناتھ،  بسنت لال ، تلسی داس ، تفتہ ہرگوپال ، تمیز لکھنوی گنگا سہائے ، جان رابرٹ ، جست سیرام پوری ، بشن نرائن ، خار دہلوی پنڈت رتن موہن زتشی ،خیال چندر بھان ، دلو رام کوثری ، درد جگدیش مہتہ ، دل منوہر لال ، رضا کالی داس گپتا ، کالکا پرشاد ،عرش ملیسانی ، کرشن موہن لال ، ماتھر لکھنوی ، مہاراجہ سر کشن پرشاد ، مہندر سنگھ بیدی، کیفی دہلوی چندر بھان، محروم پروفیسر تلوک چند اور پروفیسر نذیر قیصر شامل ہیں-

اسی طرح کتابوں کا تذکرہ کیا جائے تو فانی مراد آبادی کا مرتب کردہ انتخاب ’’ہندو شعراء کا نعتیہ کلام‘‘ عارف پبلشنگ ہاؤس لائل پور سے 1963 میں شائع ہوا جس میں ہندو شعراء کے کلام کا جائزہ ہے-محمد محفوظ الرحمن کا مرتبہ مجموعہ ’’ہندو شعرا دربارِ رسول (ﷺ)میں‘‘ گلشنِ ابراہیمی پریس لکھنؤ سے شائع ہوا -محمد الدین فوق کامرتبہ انتخاب ’’اذانِ بت کدہ‘‘ بھی اہم ہے -عبد المجید خان سوہدری کامرتبہ انتخاب ’’ہندو شعراء کانعتیہ کلام‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے- ’’بہر زماں بہر زباں‘‘ نور احمد میرٹھی کی لکھی ہوئی مفصل کتاب ہے- جس میں غیر مسلم شعراء  کے نعتیہ گوئی کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے-یہ کتاب ادارۂ فکر نو کراچی سے 1996 میں شائع ہوئی ہے جس کے کل 685 صفحات ہیں اور 336 شعراء کے نعتیہ کلام کو یکجا بھی کیا گیا ہے اور مدلل تعارف بھی دیا گیا ہے- ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کی کتاب ’’سارا عالم ہے منور آپ (ﷺ) کے انوار سے‘‘ حق پبلی کیشنز لاہور سے 2009 میں شائع ہوئی جو کہ 366 صفات پر مشتمل ہے اور 257 غیر مسلم شعرأ کے کلام پہ بات کی گئی ہے-اسی طرح ایک اور کتاب کا نام ’’نعت گویان غیر مسلم‘‘ہے-اس کے مصنف پروفیسر طرزیؔ ہیں-یہ کتاب 2018 میں آئی بی ایس بُک سٹور پرائیویٹ لمیٹڈ دریا گنج نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے- اس کتاب کے کل 285 صفحات ہیں اور 372 شعرأ کے کلام کا جائزہ لیا گیا ہے- ان مرتبہ و تالیف کردہ کتب کے علاوہ بھی کئی نمایاں ادبی و مذہبی رسائل میں غیر مسلم شعرأ کی نعت گوئی کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے-غیر مسلم شعرأ کے ہاں خاتم النبیین (ﷺ) کی ذات مقدسہ کو پیش کئے گئے خراجِ تحسین کی عملی مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں-

آرزو سہارن پوری مادھو رام کا ہدیہ عقیدت:

ازل ہی سے محمد(ﷺ) کی ثنا خواں ہے زباں میری
بیاضِ صبحِ ہستی پر لکھی ہے داستاں میری
 تیرے محبوب کی مدح و ثنا مقصود ہے مجھ کو
دھلا دے آبِ کوثر سے کوئی یا رب زباں میری

 جگن ناتھ آزاد ادبی حلقوں کی معروف شخصیت تھے- اُن کی محبت و عقیدت کا رنگ ملاحظہ ہو:

مجھے لکھنا ہے اک انسانیت کا بابِ تابندہ
منور جس کے ہوں الفاظ مصرعے جس کے رخشندہ
مجھے اک محسنِ انسانیت (ﷺ) کا ذکر کرنا ہے
مجھے رنگِ عقیدت فکر کے خاکے میں بھرنا ہے
٭٭٭٭٭

سلام اُس ذاتِ اقدس پر سلام اُس فخرِ دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر
سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا

آنند پنڈت جگن ناتھ پرشاد کا اظہارِ محبت:

مدحِ حُسنِ مصطفٰی (ﷺ) ہے ایک بحرِ بے کراں
اُس کے ساحل تک کوئی شیریں بیاں پہنچا نہیں
نیک و بد کی ہے خبر تُو واقفِ کونین ہے
ہے پہنچ تیری جہاں وہم و گماں پہنچا نہیں

ٹھاکر بوا سنگھ کا انداز فکر بھی دیکھئے (اس نعت کے بارے منقول ہے کہ شاعر کی بینائی رُخصت ہو گئی تھی ، تو اس نے ایک مسلمان حاجی کے ہاتھ یہ نعت لکھ کر مدینہ منورہ بھیجی کہ روضہء اقدس کے باہر سلام دے کر پڑھ دیجئے گا ، ایک دن شاعر نے لوگوں کو کہا کہ آج میری نعت روضہ شریف پڑھ دی گئی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم؟ تو اس نے کہا میں اپنی بینائی لوٹتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں -  اور معجزانہ طور پہ وقت کے ساتھ ان کی گئی ہوئی بینائی لوٹ آئی ) :

اتنا کرم ہو آنکھ میں آ جائے روشنی
کہنا صبا یہ جا کے پیغمبر (ﷺ) کے سامنے
جس در سے آج تک کوئی لوٹا نہ خالی ہاتھ
دستِ طلب دراز ہے اُس در کے سامنے

اختر ہری چند شانِ رسالت مآب (ﷺ) میں یوں لکھتے ہیں:

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دُرِ یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا

آزاد سونی پتی رادھا کشن کا منفرد رنگِ عقیدت :

فروغِ دین و ایماں عظمت و شان رسالت (ﷺ) ہے
اُسی کی ذات سے روشن جہاں میں شمعِ وحدت ہے
اُسی کے دم سے دنیا میں عروجِ آدمیت ہے
محمد مصطفٰی (ﷺ) سے مجھ کو بھی دل سے عقیدت ہے

برق بھگوان داس لکھتے ہیں :

تری خاک پائے مقدس کو پہنچے
نہ دارا نہ خسرو نہ جم یا محمد (ﷺ)
ترا حُسنِ سیرت جو تحریر کر دے
کہاں سے وہ لاؤں قلم یا محمد (ﷺ)

بیدار کرپال سنگھ کی محبت کا زاویہ :

اے کہ تجھ سے صبحِ عالم کو درخشانی ملی
ساغرِ خورشید کو صہبائے نورانی ملی
حاکم و محکوم کو تُو نے برابر کر دیا
ذرۂ ناچیز کو ہم دوشِ اختر کر دیا

پرشاد حیدر آبادی راجہ پرشو رام کا عارفانہ رنگ:

جس دن سے نگاہوں میں تصویرِ محمد(ﷺ) ہے
پنہاں دلِ مضطر میں تنویرِ محمد (ﷺ) ہے
ہم نے تو یہ سمجھا ہے ہم نے تو یہ جانا ہے
 قران حقیقت میں تفسیرِ محمد (ﷺ) ہے

تارا لاہور تارا چند کا محبت کا اظہار :

نہیں تھا جز خدا کچھ پہلے اے تاراؔ محمد (ﷺ) سے
ہُوا ہے انتظامِ دو جہاں سارا محمد (ﷺ) سے
ملک بے تاب مجھ کو دیکھ کر کہتے ہیں فرقت میں
محبت کتنی رکھتا ہے یہ بے چارہ محمد (ﷺ) سے

تمیز لکھنوی گنگا سہائے حصول عشق کے متلاشی ہیں :

ہر دم تصورِ شہ بالا جناب ہو
لب پہ ہمیشہ ذکر رسالت ماب (ﷺ) ہو
ثانی تمہارا دونوں جہاں میں نہیں کوئی
یا رب حصولِ عشقِ رسالت ماب (ﷺ) ہو

جان رابرٹ کی عقیدت کا منفرد پہلو :

ہے عرش پہ قوسین کی جا جائے محمد (ﷺ)
رشکِ یدِ بیضا ہے کفِ پائے محمد (ﷺ)
عیسیٰ سے ہے بڑھ کر لب گویائے محمد (ﷺ)
یوسُف سے ہے بڑھ کر رخِ زیبائے محمد (ﷺ)

جست سیرام پوری بولائی جست لکھتے ہیں:

ہے نورِ خدا آبگینے کے اندر
خدا مل گیا ہے مدینے کے اندر
میرے دل کی تنویر کیا پوچھتے ہو
ہے نورِ نبی (ﷺ) اس نگینے کے اندر

جوہر بجنوری چندر پرکاش کی عقیدت کا رنگ :

اللہ رے عروجِ شبستانِ محمد (ﷺ)
ہے عرشِ بریں زینہ ایوانِ محمد (ﷺ)
لو مل ہی گیا حشر میں بخشش کا سہارا
ہاتھ آ ہی گیا گوشہ دامانِ محمد (ﷺ)

خار دہلوی پنڈت رتھن موہن ناتھ زتشی لکھتے ہیں:

دنیا تو کیا ہے دین کی دولت ترے نثار
جان عزیز ختم رسالت ترے نثار
تجھ کو ملا ہے سرورِ کونین کا لقب
دونوں جہاں کی عظمت و حرمت ترے نثار

’’نورِ سخن‘‘کے مؤلف نور احمد میرٹھی غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

’’غیرمسلم نعت گو شاعروں نے نہ صرف نبی ِبرحق سے انتہائی خلوص وعقیدت کا اظہار کیا ہے بلکہ اکثر شعراء نے حضوراکرم (ﷺ) کے دامنِ رحمت میں پناہ مانگی ہے- تمام شاعروں نے ادب و احترام کوملحوظ رکھا ہے، بعض شعراء کے ہاں زبان و بیان کی گل افشانیاں بھی ہیں- اوراضطرابی کیفیات بھی- جذبات کی حدت بھی ہے اورمحسوسات کی شدت بھی،فکری لہروں کی روانی بھی ہے اور تاریخ کی ورق گردانی بھی - جس سے پتا چلتا ہے کہ ان شعرا نے تعلیمات اسلامی اور سیر ت النبی (ﷺ) کابغور مطالعہ کیا ہے -اسی لیے بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام سے اپنے تعلق کا واضح اظہار کیا ہے-ایسے اشعار پاکیزگیِ جذبات کا بہترین نمونہ ہیں‘‘-[2]

درد جگدیش مہتہ لکھتے ہیں:

اب عمر کا لنگر ٹوٹ گیا ہو مجھ پہ نظر یا شاہِ عربؐ
اعمال پہ پردۂ ظلمت ہے لو میری خبر یا شاہِ عربؐ
گو لطف نہیں ہے جینے میں جیتا ہوں مگر یا شاہِ عربؐ
ہے خوف سے لرزاں جسم مرا اور شق ہے جگر یا شاہِ عربؐ

ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ کا منفرد اظہارِ محبت :

صاحب دل ہیں ثنا خوانِ رسول عربی (ﷺ)
دل ہی کیا جو نہ ہو قربانِ رسول عربی (ﷺ)
رہبر عقل ہے فرمانِ رسول عربی (ﷺ)
ہادی قلب ہے ایمانِ رسول عربی (ﷺ)

راز لائل پوری دھنپت رائے تھاپر کی عقیدت کا اظہار :

عاشق نہیں ہوں حسن جہان خراب کا
شیدا ہوں دل سے میں تو رسالت ماب (ﷺ) کا
ہے داستان آپ (ﷺ) کی ہر اک کتاب میں
ہے درج ہر جریدہ فسانہ جناب کا

مزید کچھ شعرأ کے کلام سے چیدہ چیدہ مثالیں ملاحظہ ہوں:

رائے اروڑہ رائے:

جان و دل سے ہیں فدائے احمدِ مختار (ﷺ) ہم
دیکھیے دیکھیں گے اس سرور کا کب دربار ہم
جلوۂ حُسنِ نبی (ﷺ) جاری ہے مثلِ بحرِ فیض
یا خدا پائیں گے کب اس سے درِ شہوار ہم

رضا کالی داس گپتا

عرش سے لائے پیمبر (ﷺ) وہ پیامِ زندگی
بڑھ گیا جس سے وقار و احترامِ زندگی
قلبِ انساں سے نکالا موت کا خوف آپ (ﷺ) نے
زندگی کو آپ (ﷺ) نے بخشا مقامِ زندگی

ساحر ہوشیار پوری اوم پرکاش :

ہے زمانے بھر میں شہرہ اب میرے اشعار کا
 ذکر ہے ان میں جنابِ احمدِ مختار (ﷺ) کا
 قاتلوں نے بھی جھکایا آپ (ﷺ) کے قدموں میں سر
 یہ بھی تھا اک معجزہ اخلاق کی تلوار کا

سحر کنور مہندر سنگھ بیدی:

تکمیلِ معرفت ہے محبت رسول (ﷺ) کی
ہے بندگی خدا کی اطاعت رسول (ﷺ) کی
تسکینِ دل ہے سرورِ کون و مکاں کی یاد
سرمایۂ حیات ہے الفت رسول (ﷺ) کی
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد (ﷺ) پہ اجارہ تو نہیں

شفق گوپال کرشن:

ہر سمت رُونما ہوا جلوہ رسول (ﷺ) کا
کیوں کر نہ ہر زباں پہ ہو چرچا رسول (ﷺ) کا
کیوں وجد آفریں نہ ہو احساس زندگی
گونجا ہے ساز روح پہ نغمہ رسول (ﷺ) کا

طالب دہلوی شیش چندر:

کیا درس مساوات دیا نوعِ بشر کو
اترے گا نہ سر سے کبھی احسانِ محمد (ﷺ)
اے رحمتِ عالم تیرے جلووں کے تصدق
ہم کو بھی دکھا دے رخِ تابانِ محمد (ﷺ)

عاشق ہوشیار پوری منشی رانجھا:

طاقت کہاں بشر کی لکھے شانِ مصطفٰی (ﷺ)
جب آپ ہی خدا ہو ثنا خوانِ مصطفٰی (ﷺ)
عاشق نبی (ﷺ) کے عشق میں زر کی تو بات کیا
میری ہزار جان ہو قربانِ مصطفٰی (ﷺ)

عرش ملیسانی:

عاشق حاملِ جلوۂ ازل پیکر نُورِ ذات تُو
شان پیغمبری سے ہے سرورِ کائنات تُو
فیض عمیم سے ترے قلب و نظر کی وسعتیں
مومن حق پرست کا حوصلہ نجات تُو

امیدِ شفاعت پہ دن کٹ رہے ہیں
 وگرنہ کہاں مجھ میں کوئی قرینہ
یہی ما حصل عرشؔ ہے زندگی کا
میرا سر ہے اور آستان مدینہ
دلو رام کوثری :

عظیم الشان ہے شانِ محمد (ﷺ)
خدا ہے مرتبہ دانِ محمد (ﷺ)
بتاؤں کوثریؔ کیا شغل اپنا
میں ہوں ہر دم ثنا خوانِ محمد (ﷺ)
مدینے میں مجھ کو بلا یا محمد (ﷺ)
ذرا اپنا کوچہ دکھا یا محمد (ﷺ)
مجھے لوگ کہتے ہیں دیوانہ تیرا
کہوں اور کیا ماجرا یا محمد (ﷺ)
ترا کوثریؔ رہتا ہے ہندوؤں میں
ہے ظلمت میں آبِ بقا یا محمد (ﷺ)
کچھ عشقِ پیمبر میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد(ﷺ)

کیفی دہلوی چندر بھان :

اللہ نے جس عرب کو بیاباں بنا دیا
ابر کرم سے تُو نے گلستاں بنا دیا
نورِ ازل کی ایسی ضیا پاشیاں ہوئیں
ذرے کو آفتاب درخشاں بنا دیا

گلشن ہریانوی رام مورتی:

چمکتا ہے روضہ درون مدینہ
انگوٹھی میں جیسے جڑا ہو نگینہ
پیغمبر کی تقلید لازم ہے گلشنؔ
نہ پالو کبھی دل میں بغض اور کینہ

گویا گیانی کرتار سنگھ:

دو عالم کے آقا (ﷺ) خوشی چاہتا ہوں
خوشی ہی نہیں زندگی چاہتا ہوں
عطا کیجیے مجھ کو نورِ ہدایت
اندھیرے میں ہوں روشنی چاہتا ہوں

مشر، پنڈت پربھو دیال:

اے ابرِ کرم بحر سخا احمد مختار (ﷺ)
دنیا کے عذابوں سے بچا احمد مختار (ﷺ)
ہے تیرے لیے پردہ کثرت کی نمائش
ہے تُو ہی دو عالم کی بِنا احمد مختار (ﷺ)

منوہر لال دلؔ:

آقا جو محمد (ﷺ) ہے عرب اور عجم کا
بے مثل نمونہ ہے مروت کا کرم کا
حاصل ہے جنہیں تیرے غلاموں کی غلامی
لیتے نہیں وہ نام کبھی قیصر و جم کا
کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں احمد مرسل (ﷺ)
دریا ہے وہ اُلفت کا، وہ منبع ہے کرم کا

ناشاد سرجیت سنگھ:

اسی کی ہے صبحیں اسی کی ہے شامیں
جو لیتا ہے ہر صبح نامِ محمد (ﷺ)
قیامت سے مجھ کو ڈراتا ہے ناصح
پتہ ہے کہ میں ہوں غلامِ محمد (ﷺ)

نذیر قیصر :

چراغ نور مصطفی (ﷺ) دلوں میں ہے
 وہ آفتاب کم نما دنوں میں ہے
 زمین جس کے سائے کو ترس گئی
 اس اجنبی کا نقشِ پا دلوں میں ہے
 لرز رہا ہے جس سے ساز حرف کن
 کبھی سنو کہ وہ صدا دلوں میں ہے

ہندوؤں اورسکھوں کے نعتیہ مجموعوں کے متعلق نور احمد میرٹھی کی رائے بہت اہم ہے :

’’یہ غیرمسلموں بالخصوص ہندوؤں اورسکھوں کی نبی اکرم (ﷺ) سے عقیدت و محبت ہی ہے،کہ متعدد شاعروں کی نعتیں ان کے شعری مجموعوں میں بھی ملتی ہیں-مگر یہ بات ہر اعتبار سے اہم ہے کہ بعض غیر مسلم شعراء کا نعتیہ ذخیرہ اتنامقبول ہوا کہ ان کے مجموعے منظرعام پرآئے-اس سلسلے میں کوثری دلو رام کانعتیہ مجموعہ ’’گلبنِ نعت کوثری‘‘، مہاراجہ سرکشن پرشاد کا مجموعہ ’’ہدیۂ شاد‘‘، بالمکند عرش ملسیانی کا مجموعۂ نعت ’’آہنگِ حجاز‘‘،الن جون مخلص بدایونی کا مجموعہ ’’گُل دستۂ نعت‘‘،آرزو سہارن پوری کا ’’ظہورِقدسی‘‘، ادیب لکھنوی کامجموعۂ نعت ’’نذرانۂ عقیدت‘‘، کالی داس گپتا رضا کا ’’اُجالے‘‘، چرن سنگھ ناز مانک پوری کا مجموعہ ’’رہبرِاعظم‘‘شائع ہوچکے ہیں‘‘-[3]

ڈاکٹر عمیر منظر کی آخر پہ رائے ملاحظہ ہو :

’’ہندوستان کے مخصوص ثقافتی اور تہذیبی پس منظر میں غیرمسلم نعت گو شعرا نے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے-اس سے جہاں باہمی انس و محبت اور اور اخوت ویگانگت کی فضا قائم ہوئی ہے -  ان نعتوں نے منافرت اور دشمنی کے ماحول میں سرور کائنات (ﷺ) کے اخلاق اور مروت کو رہنما بنایا-ہندوستان کے کثیر ثقافتی اور تہذیبی ماحول کو یقینا نعتیہ شاعری کے سبب بڑی تقویت ملی ہے‘‘-[4]

بطور مجموعی کوشش کی گئی ہے کہ غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام کا جائزہ لیا جائے لیکن چونکہ ان شعراء کی تعداد سینکڑوں میں ہے- لہٰذا تمام شعراء کے کلام کی مثالیں دینا اور ان پر مفصل بات کرنا ممکن نہیں ہے- جتنے شعراء کے کلام پہ بات کی گئی ہے یا جن شعراء کے کلام سے نعتیہ مثالیں دی گئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ ہندو، سکھ، عیسائی اور انگریز شعراء نے اپنی فہم اور فراست کے مطابق حضور نبی اکرم (ﷺ) کی شان مبارک لکھنے کی کوشش اور کاوش کی ہے اور یہ نعتیہ انتخاب اردو ادب کی روایت میں خوبصورت اضافہ ہے-

٭٭٭


[1]ریاض مجید ،ڈاکٹر،اردو میں نعت گوئی، لاہور، اقبال اکادمی ،1990 ،صفحہ 567-

[2]نور احمد میرٹھی،نورِ سخن، کراچی ،ادارہ فکرِنو ، 1996 ، صفحہ 29

[3]نوراحمد میرٹھی،بہرزماں بہر زباں،کراچی ،ادارۂ فکرِنو 1996 ، صفحہ 70

[4]غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی https://adbimiras.com/ghair-muslim-shora-ki-naat-goyi-by-dry-dr-omair-manzar/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر