حضورنبی کریم ﷺ کا علم اور صوفیانہ استدلال

حضورنبی کریم ﷺ کا علم اور صوفیانہ استدلال

حضورنبی کریم ﷺ کا علم اور صوفیانہ استدلال

مصنف: مفتی محمد منظور حسین ستمبر 2024

 کائنات میں انسان پر جو ظاہر ہے یا مخفی ان تمام کو اللہ تعالی کی ذات جانتی ہے کیونکہ وہ ذات ’’عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ‘‘[1] ہے ہر نہاں اور عیاں کو جاننے والا ہے یہاں تک کہ دلوں کے اندر چھپے بھید بھی اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں –’’اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘[2] بھی اسی کا فرمان عالی شان ہے- قرآن مجید کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تو علم غیب سے متعلق دو طرح کی آیات بینات سامنے آتی ہیں ایک وہ آیات جن میں علم غیب کو اس نے اپنی ذات کیلئے بطور خاص ذکر کیا فرمان باری تعالیٰ ہے :

’’ قُل لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہُ‘‘[3]

’’تم فرماؤ غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے مگر اللہ ‘‘-

دوسری طرح کی وہ آیات ہیں جن میں انبیاء (علیھم السلام) کے علم غیب کا تذکرہ کیا گیا ہے- فرمان باری تعالیٰ ہے :

’’وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ‘‘[4]

’’اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ‘‘-

ایک چیز یاد رہے کہ پہلی آیت مبارکہ میں علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کے متعلق ہے -دوسری آیت میں انبیاء (علیھم السلام) کو علم غیب اللہ تعالیٰ کی خاص عطاء اور احسان کے نتیجے میں ہے-

آئیےدیکھتے ہیں کہ لفظ غیب کا اطلاق کس چیز پہ ہوتا ہے:

’’غیب ‘‘ ـــ غاب یغیب ـــ سے مصدر ہے -جو چیز آنکھ سے مخفی ہو غیب کہلاتی ہے-امام ابن منظور الافریقی ’’لسان العرب‘‘ میں لفظ غیب کے تحت لکھتے ہیں:

’’اور غیب ہر وہ چیز جو تم سے غائب ہو وہ غائب ہے-امام ابو اسحاق نے ’’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘ کی تفسیر میں کہا ہے جو چیز  متقین سے غائب تھی اور آقا کریم (ﷺ) نے ان کو اس کی خبر دی وہ غائب ہے جیسے مرنے کے بعد اٹھنا، جنت، دوزخ اور ہر وہ چیز جو ان سے غائب تھی اور آقا کریم  (ﷺ) نے ان کو اس کی خبر دی وہ غائب ہے‘‘-[5]

اسی معنی کو امام زبیدی نے ’’تاج العروس‘‘ میں ذکر کیا ہے:

’’علم غیب نبوت کا خاصہ ہے اس کے بغیر نبوت کا تصور کامل نہیں ہوتا کیونکہ نبی کا معنی ہی غیب کی خبریں دینے والا ہے‘‘-[6]

اما م زبیدی تاج العروس میں نبی کا معنی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’حضور نبی  کریم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق خبر دینے والے ہیں پس بیشک اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی توحید کے بارے میں آگاہ فرمایااور غیب پر انہیں مطلع فرمایا‘‘-[7]

پوشیدہ چیزوں پر مطلع ہونے سے متعلق مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں مثلا :علم، غیب ،کشف،مشاہدہ وغیرہ صوفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پوشیدہ امور پر اطلاع کا پانا روحانی پہلو سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کو کس آنکھ نے دیکھا اور کس کان نے اس کے کلام کو سنا کس ہاتھ نے چھوا وہ ذات اس سے منزہ و مبرا ہے -اسی طرح قرآن کریم کے بارے میں غور کریں تو اسے لوح مکنون سے لوح محفوظ پر درج کیا گیا -کس نے لوح مکنون کو دیکھا ؟کس نے لوح محفوظ کا مطالعہ کیا ؟اور کس نے پیکر جبرائیل کو دیکھا اور جس ہستی اقدس کے قلب اطہر پہ اترا کس نے اس کا نظارہ کیا ؟اس سے واضح ہوا کہ یہ سارے کا سارا معاملہ باطن (غیب)سے تعلق رکھتا ہے- یہی وجہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ)  نے حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے فرمایا:

’’اےعائشہ! بیشک میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا ‘‘- [8]

’’ترمذی شریف‘‘ کی حدیث میں حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ)نے روایت کی ہے کہ:

’’ایک دن حضور نبی کریم (ﷺ) نماز فجر کیلئے طلوع آفتاب کے قریب تشریف لائے اور نماز فجر جلدی ادا فرمانے کے بعد فرمایا کہ آج میں نماز تہجد کے بعد گہری نیند سو گیا- پس میں اپنے رب کو احسن صورت میں دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد (ﷺ) تو میں عرض کی لبیک اے میرے پروردگار فرمایا:’’فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت‘‘کس بارے میں جھگڑا کر رہے تھے؟ تو میں نے عرض کی ’’لا ادری‘‘اس کو تین بار دہرایا پھر فرماتے ہیں :

’’میں نے اپنے پروردگار کو دیکھا- اس نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا -جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی مجھ پر (کائنات کی) ہر چیزروشن ہو گئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا‘‘-[9]

اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

’’حتی کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے دست قدرت کی ٹھنڈک یعنی اس کی تاثیر کو اپنے سینے یا اپنے قلب اطہر میں پایا-پس ہر چیز روشن ہوگئی یعنی ہر چیز میرے لیئے منکشف اور ظاہر ہو گئی- جن اشیاء کے ظہور کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے پسند فرمایا چاہے علوم علویہ تھے یا علوم سفلیہ، یا بطور خاص ملا الاعلی درجات وکفارات (نماز با جماعت کی ادائیگی کیلئے مسجد کی طرف جانا ،نماز کے بعد مسجد میں ذکر کیلئے بیٹھنا ،احسن طریقے سے وضو کرنا ،کھانا کھلانا، نرم لہجے میں بات کرنا ،رات کو نماز ادا کرنا جب لوگ آرام کر رہے ہوں،بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ،ممنوعات کو ترک کرنا ،مسکینوں سے محبت کرنا وغیرہ‘‘-[10]

نوٹ:سنن ترمذمی میں کفارات اور درجات سے متعلق ان چیزوں کو ذکر کیا گیا کہ ’’ملا الاعلی‘‘ ان کے درجات وکفارات سے متعلق مخاصمہ کر رہے تھے -

امام ابن حجر کا قول ہے کہ  اس سے مراد  یہ کہ :

’’میں نے ہر چیز کو عین عیان پہچان لیا یعنی کوئی چیز مجھ سے مخفی اور پوشیدہ نہ رہی‘‘- [11]

اس حدیث پاک سے چند چیزیں واضح ہوئیں :

  • علم غیب ،کشف،مشاہدہ،عطیہ خدا وندی ہے-
  •  غیب کا علم اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیھم السلام) کو عطا فرمایا اور بطور خاص حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شانہ مبارک کے مابین اپنے دست قدرت کورکھ کر غیبی امور پر مطلع فرمانا اور یہ حضور نبی کریم (ﷺ)کیلئے خاص ہے -
  • امور غیبی پر اطلاع کی عنایت کیلئے سینہ نبوت اور قلب اطہر کو خاص کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ غیبی امور کے انکشاف و مشاہدہ کیلئے تنویر قلبی اور انشراح صدر تعلق باللہ سے نصیب ہوتے ہیں-
  • معاملات کی گہرائی ،تہہ اور حقیقت تک رسائی بھی تعلق خداوندی کے فیضان سے ممکن ہے -
  • معرفت الٰہی اور قرب خداوندی ہی وہ واحد راستہ اور ذریعہ ہے جس سے نجات ابدی، فلاح دارین اور استقامت دین و انوار ومشاہدات نصیب ہوتے ہیں-

جس سے نہ صرف حاضر وموجود کا انکشاف ہوتا ہے بلکہ ماضی و مستقبل کے احوال سے بھی آگاہی نصیب ہوتی ہے -

یہی وجہ ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے نہ صرف اس دور کے احوال ذکر کیے بلکہ پسِ پردہ یعنی دیوار کے پیچھے ،گزشتہ کل اور آنے والے کل کے احوال و معاملات کی خبریں قبل از وقت بیان فرمائیں یہاں تک کہ تخلیق آدم سے قبل کے احوال وواقعات اور اپنے موجودہ دور کے احوال اور پھر علامات قیامت ،روز محشر کے احوال حتی کہ پہلے اور آخری جنتی کے ساتھ ساتھ پہلے اور آخری جہنمی کی کیفیات تک کو بھی ذکر فرمایا جس کی تصدیق قرآن کریم کے مختلف مقامات سے متعدد آیات میں ملتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ‘‘[12]

’’اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں سب امتوں میں افضل کیا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ ‘‘-

جمہور مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’ امت محمدیہ (ﷺ) کو تمام امتوں پر گواہ کے طورپر کل قیامت کے دن لایا جائے گا-جب وہ امتیں اس امت کی گواہی پر انکار کریں گی کہ یہ امت تو سب سے آخر میں بھیجی گئی یہ کیونکر گواہ ہو سکتی ہے تو اس وقت امت محمدیہ (ﷺ) کی گواہی پر مہر ثبت کرنے اور تصدیق کرنے کیلئے آقا کریم (ﷺ) کو بطور گواہ لایا جائے گا -

دیکھیے تفسیر مظہری،تفسیر قرطبی،تفسیر حاشیہ صاوی علی الجلالین،تفسیر خازن،تفسیر بیضاوی،تفسیر روح البیان وغیرہ-

’’تفسیر ابن عربی‘‘ میں  علامہ ابن العربیؒ فرماتے ہیں کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شہادت/ گواہی  کا معنی یہ ہے کہ :

’’تمام امتوں پر آپ (ﷺ) کا مطلع ہونا نور توحید کے سبب ہے کہ تمام انبیاء (علیھم السلام)کے ادیان برحق ہیں اور آپ ہر دین دار کے حق ہونے اور صداقت پر ہونے کی کامل معرفت رکھتے ہیں اور جو باطل پر مبنی ہیں اور حق سے دور ہیں ان کی بھی کامل معرفت رکھتے ہیں‘‘-

اس کی وجہ نور توحید ربوبیت ہے جس نور کے سبب حجابات اٹھا دیے گئے اور تمام امتوں کے احوال کا مشاہدہ آپ (ﷺ) نے فرمایا- یہاں تک کہ امام ابن عربی فرماتے ہیں :

’’پس (حضور رسالت مآب ﷺ )پہلی تمام امتوں کے  گناہوں کو ،ان کے ایمان کی کیفیات، ان کے اعمال،ان کی نیکیوں،ان کی برائیوں ،ان کے اخلاص،ان کے نفاق اور ان کے دیگر تمام احوال کو نور حق یعنی معرفت الٰہی کے نور کےسبب پہچانتے ہیں اور حضور رسالت مآب (ﷺ) کی امت تمام امتوں کو اور ان کے احوال کو نور مصطفوی (ﷺ) کے سبب پہچانتی ہے ‘‘-[13]

یاد رہے کہ اعمال دو طرح کے ہیں :

1-طاعت                2-معصیت

طاعت:طاعت و فرمانبرداری میں بعض عمل انفرادی طور پر بجا لاتے ہیں جیسے ذکر واذکار، تسبیح و تحلیلات،رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا ،خفیہ صدقہ وخیرات کرنا وغیرہ اور بعض اعمال اجتماعی طور پر بجا لائے جاتے ہیں جیسے نماز،ارکان حج وغیرہ -

معصیت:نافرمانی والے امور اکثرو بیشتر انسان چھپ کے کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہ پائے -

صوفیاء کرام کے نقطہ نظر سے جو کہ قرآن وسنت سے ماخوذ ہے سے واضح ہوتا ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) تمام احوال کو خواہ وہ ظاہر ہوں یا مخفی ہوں ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے، پہچانتے ہیں چاہے طاعت سے متعلق ہوں یا معصیت سے متعلق -

کیونکہ نور معرفت کے جس درجہ پر حضور رسالت مآب (ﷺ) فائز ہوئے وہ کسی دوسرے کا نصیبہ نہ ٹھہرا -  سراج منیر وہ روشن چراغ ہے جو زمین کی تہوں میں چھپے ذرات اور آسمان میں چمکنے والے ستاروں کی تعداد اور حرکات و سکنات سے بھی واقف ہے اور یہ سب نور معرفت توحید و ربوبیت کی روشنی ہے جو دلوں میں چھپے رازوں سے بھی روشناس کرا دیتی ہے - جس کی تائید و توثیق شیخین کی جمع کردہ احادیث صحیحہ بخاری و مسلم بلکہ ائمہ صحاح ستہ ،ائمہ سنن و مسانید سے ہوتی ہیں-جنہوں نے ذخیرہ کتب احادیث میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے علم غیب پر پورے پورے ابواب باندھے-جس میں جنتیوں اور جہنمیوں کے اسماء ان کے آباؤ اجداد کے نام ،قبیلے کے نام مرقوم تھے- ان کتابوں تک کا ذکر کیا اور ان کے اعمال کا بھی ذکر کیا -زمین میں چھپے خزانوں کا ذکر ،سامنے اور پیچھے برابر دیکھنے ،دل میں ایمان کی کیفیات،نفاق کی کیفیات،یہاں تک کہ ظاہر وپوشیدہ تمام تر احوال و اعمال کا ذکر کیا گیا ہے-

صوفیاء کرام حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے علم غیب سے متعلق قطعی اور یقینی نظریہ رکھتے ہیں جیسا کہ علامہ روز بہان بقلی الشیرازی ’’تفسیر عرائس البیان‘‘ میں ’’وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مخلوق کی عاقبت کے تمام تر علوم آپ کو عطاء کر دیئے گئے جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہوگا ‘‘-[14]

علامہ علاؤالدین علی بن محمد بن ابراہیم البغدادی تفسیر خازن میں اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں :

’’وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ‘‘کا معنی یہ ہے کہ آپ کو تمام خفیہ امور کا علم عطاء کیا گیا اور دل میں چھپے رازوں پر آپ (ﷺ) کو مطلع کیا گیا ‘‘- [15]

امام ابو العباس احمد بن محمد بن مہدی ابن عجیبہ حسینی تفسیر  البحر  المدید میں تحقیق کے بعدنتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’امام نسفی کا قول ذکر کرتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ بیشک حضور نبی کریم (ﷺ) کا علم غیب پر مطلع ہونا قطعی ہے اور غیر نبی کا علم غیب پر مطلع ہونا ظنی ہے-کیونکہ بیشک اللہ تعالیٰ نے غیب پر اطلاع پانا انبیاء کرام کے ساتھ خاص کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ کے ساتھ خاص نہیں کیا ‘‘-[16]

پیران پیر محی الدین سیدی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تفسیر الجیلانی میں فرماتے ہیں:

’’آپ (ﷺ) پر اللہ تعالیٰ نے حقائق و معارف، اسرار و رموز ظاہر فرمائے اور ظاہر و باطن سے متعلق تمام تر اشارات منکشف فرمائے- مطلقا غیر کی طرف متوجہ ہونے سے بچنے کا ہنر اور ڈھنگ عطاء کیا اور آپ اس کو بیان کرنے میں بخل نہیں فرماتے بعد اس کے آپ کو حق سبحانہ وتعالیٰ نے تبلیغ وترویج کا حکم فرمایا ‘‘-[17]

یعنی آپ جن اسرار و  رموز،حقائق ومعارف اور امور غیبیہ جیسے احوال کا مشاہدہ فرماتے ہیں ویسے ہی اپنے فیضان نبوت سے اپنی امت کے خاص لوگوں کو اس راز سے شرف یاب اور فیض یاب فرماتے ہیں -

اس کی مزید وضاحت و صراحت آپؒ ’’سر الاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) کا فرمان ہے :

’’علم کاایک حصہ پوشیدہ رکھا گیا جسے علماء ربانیین کے علاوہ کوئی نہیں جانتا -یہ وہ راز ہے جسے معراج کی شب حضور نبی کریم (ﷺ) کے قلب اطہر پر 30 ہزار پردوں میں سے انتہائی گہرے پردے میں ودیعت فرمایا گیا -کسی ایک کو بھی اس رازسے شناسائی نہ ملی سوائے مقرب صحابہ کرام اور اصحاب صفہ (رضی اللہ عنھم) کے -[18]

علامہ روز بہان بقلی الشیرازی ’’تفسیر عرائس البیان‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے غیبی مشاہدات و انوار کو پوشیدہ رکھا سوائے انبیاء اور مرسلین، صدیقین جو کامل عقل والے، صفائے قلب رکھنے والے عارفین اور توحید پرست صاحب اسرار موحدین کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب سے شرف یاب فرمایا اور یہی وہ کاملین ہیں جو اہل مکاشفہ، اہل فراست اور اہل مشاہدہ قرار پائے‘‘- [19]

یہی وجہ ہے کہ  حضرت سلطان حق باھوؒ اپنی تصنیف لطیف عقل بیدار شریف میں فرماتے ہیں :

’’غیب کا علم خداوند پاک کا خاصہ ہے اور وہ اپنے خاص بندوں کو وہ خاص علم پڑھاتا ہے جیسا کہ علمِ لدنی جو دل کے اندر دلیل کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور بعض کو اُس کی آگاہی قربِ قدرتِ اِلٰہ سے الہام و پیغام کے ذریعے ہوتی ہے -یہ راہ حضرت محمد ِمصطفےٰ (ﷺ) کی عطا سے حاصل ہوتی ہے -جو کوئی اِس کا انکار کرتا ہے وہ مردود و روسیاہ و مردہ دل ہے اور عز و جاہِ دنیائے مردار کا طالب ہے ‘‘-[20]

اولیاء کاملین، صوفیاء کرام نے قرآن و سنت کے پیرائے میں اپنی تعلیمات میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے علم غیب سے متعلق یہی واضح فرماتے ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس سے واقف اور آگاہ نہیں ہوسکتا سوائے اس کے جسے خود ذات باری تعالیٰ آگاہ فرمائے اور قرآن کریم میں متعدد آیات بینات ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ’’خبیر‘‘ کا ذکر فرمایا یعنی خبر دینے والا یہاں تک کہ سورۃ لقمان کی آخری آیت اس میں علوم خمسہ یعنی قیامت کا علم، بارش کا علم،ماں کے بطن میں اولاد کا علم،کون سی جان کیا کمائے گی اور کون کہاں فوت ہوگا کا علم جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’ان اللہ عندہ علم‘‘اپنی ذات کے ساتھ خاص کیا اسی آیت مبارکہ کے آخر ی کلمات میں ارشاد فرمایا ’’ان اللہ علیم خبیر‘‘بیشک اللہ جاننے والا اور بتانے والا ہے سے واضح ہوتا ہے کہ اس ذات اقدس نے اپنے برگزیدہ انبیاء کرام (علیھم السلام) اور خاص کر امام الانبیاء حضور رسالت مآب (ﷺ) کو ان تمام علوم سے آگاہی بخشی جسے آپ (ﷺ) نے مختلف مواقع ومقامات پر اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو اس سے آگاہ فرمایا -جس پر احادیث مبارکہ شاہد و گواہ ہیں- یقیناً یہ فیض نبوت رکنے اور تھمنے والا نہ تھا اور نہ ہے جسے خلفاء راشدین کی عملی زندگی سے لے کر صوفیاء کرام کی مشاہداتی و مکاشفاتی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ میں مشاہدہ کیا جاتا رہا اور قیامت تک کیا جاتا رہے گا- طوالت کے پیش نظر علم غیب سے پردہ کشائی کا تذکرہ ممکن نہیں ورنہ غیبی واردات اور مشاہدات سے کتب بھری پڑی ہیں -آج بھی اہل نظر صفائے قلب اور جلائے روح سے پس دیوار اور پسِ پردہ دیکھ بھی لیتے ہیں اور آنے والے کل کی خبر بھی دیتے ہیں-انسان کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے اپنی عملی زندگی کا رشتہ ناطہ استوار کر ے تاکہ کثافتوں سے نکل کر لطافتوں کے انوار کو پائے اور غیب الغیب ذات اپنے پروردگار کی معرفت وقربت کا سامان مہیا کرے-

جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب  دنیا کے طول وعرض میں اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی صورت میں قرب خداوندی کے اسی پیغام کو عام فرما رہے ہیں کہ آئیں اور فیض نبوت کے علوم ظاہری وباطنی کے وارث بنیں اور اپنےتن کے ساتھ من کی دنیا کو آباد کریں-

٭٭٭


[1](الانعام:73)

[2](آلِ عمران:118)

[3](النمل:65)

[4](آلِ عمران:179)

[5](لسان العرب، ج:1، ص:767)

[6](تاج العروس، ج:3،ص:311)

[7](تاج العروس، ج:3،ص:295)

[8](صحیح البخاری ،کتاب الصلوۃ صلوۃ التراویح)

[9](سنن الترمذی ،باب ومن تفسیر  سورۃ ص)

[10](مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الصلاۃ)

[11](ایضاً)

[12](البقرہ:143)

[13](تفسیر ابن عربی، زیر آیت البقرہ:143)

[14](عرائس البیان، ج:1، ص:274)

[15](تفسیر خازن، ج:1،ص:426)

[16](البحر المدید، ج:8، ص:161)

[17](تفسیر جیلانی ،ج:6،ص:304)

[18]( سر الاسرار فی ما یحتاج  الیہ الابرار  ،ص:78)

[19](تفسیر عرائس البیان، ج:3، ص:460)

[20](عقل بیدار، ص:43)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر