احادیثِ نبویہ ﷺ اور فضیلتِ علم

احادیثِ نبویہ ﷺ اور فضیلتِ علم

احادیثِ نبویہ ﷺ اور فضیلتِ علم

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی ستمبر 2024

علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی- تعلیم و تربیت اور درس وتدریس تو گویا اس دینِ برحق کا جزو لاینفک ہے- سیدی رسول اللہ (ﷺ) اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ حصول ِ علم کی رغبت اور تلقین فرماتے اللہ عزوجل نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ سے ہم سب کو یہ دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا:

’’ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا‘‘ [1]

’’اور عرض کرویْ عِلْمً کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے‘‘-

اسی اہمیت کے پیش ِ نظر یہاں فضیلتِ علم کے بارے میں چند فرامین مصطفٰے(ﷺ) لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں –

حضرت عبد اﷲ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کروتو کچھ چر لیا کرو (دلی مراد حاصل کرلیاکرو)،عرض کی ،یا رسول اللہ (ﷺ)! جنت کے باغ کیا ہیں؟آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’علم کی مجالس‘‘- [2]

سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’جس آدمی کو موت آئی اس حال میں کہ وہ علم حاصل کر رہا ہو تاکہ وہ اسلام کو زندہ کرے تو (جنت میں) اس کے اور انبیاء کرام (علیھم السلام) کے درمیان ایک درجہ کا فرق ہو گا‘‘-[3]

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہےاور میں (علم ) کو تقسیم کرنے والا ہوں، عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے‘‘- [4]

حضرت عبد اﷲ بن عباس (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک گھڑی بھر علم کا حصول ایک رات کے قیام سے بہترہےاور ایک دن علم حاصل کرنا تین ماہ کے روزوں سے افضل ہے‘‘- [5]

امام مناویؒ اس حدیث مبارک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پا ک اس کے بارے میں ہے جس نے شرعی علم حاصل کیا تاکہ اس پہ عمل کیاجائے - [6]

علماء حق کے فضائل:

ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

’’ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا‘‘[7]

’’اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں‘‘-

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کی اپنی بارگاہ ِ اقدس میں فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’يَرْ‌فَعِ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ‘‘ [8]

’’اللہ عزوجل ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا ‘‘-

ایک اورمقام پہ ارشادفرمایا:

’’كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ‘‘ [9]

’’اللہ والے ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس دیتے  ہو ‘‘-

امام ابو زکریا رازیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’با عمل علماء، حضور سید عالم (ﷺ) کی اُمت پر، اُن کے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہوتے ہیں- آپؐ سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے؟ آپؐ نے فرمایا: کیونکہ ان کے والدین تو انہیں دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں، جبکہ (باعمل) علماء انہیں جہنم کی آگ اور اس کی ہولناکیوں سے بچاتے ہیں‘‘-[10]

 ایک اور مقام پہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک کہ ان کے سرپرست اور حاکم سیدھے راستے پر قائم رہیں گے اور ہدایت پر وہ علماء ہیں جو اپنے علم پر عمل کرنے والے ہیں‘‘-[11]

حضرت ابو الدرداء (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ سيدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا‘‘- [12]

اللہ عزوجل علماء حق کے وسیلہ سے کئی گمراہوں کو راہِ ہدایت عطافرماتا ہے،حالانکہ کسی کی نجات کیلئے ایک بندے کا بھی ہدایت پا جانا کافی ہے- جیسا کہ جب سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’تیری وجہ سے ایک آدمی کاہدایت پاجانا تیرے لیے دنیا ومافیھا سے بہتر ہے‘‘- [13]

حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے‘‘-[14]

 اسی طرح حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’آقا کریم(ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہو ا اور آپ (ﷺ) سے عبادت گزاروں اور فقہاء کے بارے میں سوال کیا اور عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)! اللہ عزوجل کے ہاں عبادت گزار افضل ہیں یا فقہاء؟ تو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے ہاں ایک فقیہہ ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے ‘‘- [15]

حضرت کثیر بن قیس(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے آقا کریم (ﷺ) کو ارشاد فرماتے ہوئے سُنا:

’’جو کسی راستہ پہ چلا جس میں علم کی تلاش کرنا تھا اللہ عزوجل اس کیلئے جنت کی طرف راستہ کو آسان فرما دیتا ہے اور بے شک فرشتے طالب علم سے خوش ہوکر اس کے لیے اپنے پربچھاتے ہیں اور اس طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہرچیز استغفارکرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی بخشش طلب کرتی ہیں-بے شک عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے جس طرح چاند کی دیگر تمام ستاروں پر فضیلت ہے-بے شک علماء انبیاء (علیھم السلام) کے وارث ہیں- انبیاء دینار اور درہم نہیں چھوڑتے، بے شک وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں جس نے علم حاصل کیا اس نے وافر حصہ لیا‘‘- [16]

علماء سُو (بے عمل علماء) کے بارے میں :

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’مَثَلُ  الَّذِیْنَ حُمِّلُوا  التَّوْرٰىۃَ  ثُمَّ  لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ  الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ط بِئْسَ مَثَلُ  الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ  ط وَ اللہُ  لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘[17]

’’اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول ( ﷺ ) کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘-

"ویوز بڑھانے کیلئے" شدت پسندانہ گفتگو کرنے والے آجکل کے سوشل میڈیائی نام نہاد سکالروں کو ذہن میں رکھیں اور حضرت عمرو بن عاص(رضی اللہ عنہ) سے مروی فرمانِ رسول (ﷺ) دیکھیں:

’’عالموں کی وفات کے ذریعے علم دین ختم ہو جائے گا اور لوگ انتہائی جاہل اشخاص کو اپنا سردار بنا لیں گے اور ان سے جا کر مسائل پوچھیں گے  - وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دیں گے- خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘-[18]

بلاشبہ اس سے پہلے ذکر کی گئی روایات مبارکہ علم و عالم کی فضیلت پہ روشن دلیل ہیں لیکن یادرہے کوئی بھی چیز چاہے وہ کتنی ہی مفید وپائیدار کیوں نہ ہو جب تک اس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں انسا ن اس سے کما حقہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتا بلکہ وہ چیز بعض اوقات اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے جیسا کہ کشتی ،گاڑی و جہاز وغیر ہ سفر کے لحاظ سے انسان کیلئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن جب آپ اس کو صحیح طریقے سے قاعدے اور قانون کے مطابق نہیں چلائیں گے تو نہ صرف آپ اس کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے بلکہ یہی گاڑی آپ کیلیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے- یہی حال علم کا بھی ہے کہ بلاشبہ علم بہت بڑی نعمت اور انبیاء کرام (علیھم السلام) کی میراث ہے لیکن جب اس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں یعنی اس کو صحیح سمجھ کر اس پر عمل نہ کیا جائے تو یہ علم انسان کو بجائے اللہ عزوجل کا قرب بخشنے کے اس کو بارگاہ خداوندی سے دور بھی کر سکتا ہے-جیسا کہ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:

علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

’’علم کی غرض و غایت اگر صرف ظاہر سنورانا ہےتو یہ تیرے لئے سانپ ہے اوراگر تو اس سے اپنا من سنوارے گا تو یہ تیرا دوست ہے‘‘-

اسی چیز کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں :

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

ناچیز  مصرعہ  ثانی کو ایسے بھی پڑھتا ہے:

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں یوٹیوب کے ویوز

علم اور علم  حاصل کرنا خود ایک نعمت ہے لیکن اس حقیقی  نعمت کا فائدہ تب ہوگا جب اس پر عمل ہو گا جیساکہ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ :

’’ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا، اے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) میں چاہتا ہوں کہ نیکی کا حکم دوں اور برائی سے منع کروں کیا میں اس طرح تبلیغ کا حق ادا کروں گا- حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں، نیز فرمایا اگر تجھے تین آیات قرآنیہ سے رسوائی کا خدشہ نہیں ہے تو ضرور ایسا کر- اس شخص نے پوچھا وہ آیات کون سی ہیں فرمایا:

’’اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ‘‘

’’کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو‘‘-

کیا یہ آیت تو نے سمجھ  لی ہے اس نے کہا نہیں- فرمایا دوسری آیت یہ ہے:

’’لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ؁ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ  اَنْ تَقُوْلُوْا مَا  لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘

’’کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے-کتنی سخت ناپسند ہے  اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو‘‘-

کیا یہ آیت تو نے سمجھ لی ہے (اور اس پر عمل کر لیا ہے)  اس نے کہا نہیں- فرمایا تیسری آیت یہ ہے جو حضرت صالح(علیہ السلام) کا قول ہے:

’’وَمَآ  اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ  اِلٰی مَآ اَنْہٰکُمْ عَنْہُ‘‘

’’اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں میں  اس کے خِلاف کرنے لگوں‘‘-

کیا یہ آیت تو نے سمجھ لی ہے اس نے کہا نہیں تو حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا پھر تبلیغ اپنے نفس سے شروع کر‘‘-[19]

حضرت اُسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ)بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدی رسول اللہ(ﷺ)کو ارشاد فرماتے ہوئے سُنا:

’’قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا- (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کے پیٹ کی آنتیں دوزخ میں گر پڑیں گی- پھر وہ اس طرح گردش کرے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے- اہلِ دوزخ اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں کر ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص جواب دے گا: ہاں میں تمہیں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برے کام کرتا تھا‘‘-[20]

حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں  کہ :

’’جو نہیں جانتا اس کے لیے ہلاکت ہے، کہ اگر اللہ چاہتا تو اسے علم عطا فرماتا اور جو جانتا ہے پھر عمل نہیں کرتا اس کے لیے سات مرتبہ ہلاکت ہے ‘‘-[21]

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچی سے کاٹے جا رہے تھے-حضورنبی کریم(ﷺ)نے ارشادفرمایا : میں نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ تو فرشتوں نےعرض کی:یہ دنیا دار (پیشہ ور) خطیب ہیں جو لوگوں کو تو نیکیوں کا حکم کرتے تھے لیکن خود کو بھول جاتے تھے(یعنی بےعملی کرتے تھے) حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے تھے- کیا وہ عقل نہیں رکھتے تھے؟‘‘[22]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جس نے وہ علم جو محض اللہ عزوجل کی خاطر حاصل کرنا چاہیے،کسی دنیاوی مقصد کی خاطر حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا‘‘- [23]

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے:

’’علم اس لیے حاصل نہ کرو کہ علماء سے مناظرے کرو گے، سادہ لوگوں سے بحث کرو گے اورمجلس کو اپنی طرف متوجہ کرو گے جو شخص ایسا کرے گا وہ جہنم کا مستحق ہے‘‘-[24]

حضرت امام بخاریؒ نے علمائے سُوء کے ایک گروہ کے بارے امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) کے فرزند کا قول نقل فرمایا ہے:

’’حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) ان (خوارج ) کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے-(کیونکہ) انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا‘‘- [25]

حضرت امام بخاریؒ اور امام ابن حبانؒ نے  حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے (مسلمانوں پہ شرک کا الزام لگانے والے علمائے سُوء کے بارے)  ارشاد فرمایا:

’’بے شک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا- پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگا یا-راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی (ﷺ)! ان دونوں میں سے کون شرک کے قریب تھا ، شرک کا الزام لگانے والا (نام نہاد عالم) یا جس (عام مسلمان) پر شرک کا الزام لگایا گیا-آپ (ﷺ) نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا‘‘-[26]

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’آخری زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے- ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی  اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح (خونخوار) ہوں گے-اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے، میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے برد بار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے‘‘-[27]

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’روزِ قیامت لوگوں میں سب سے شدید عذاب میں مبتلا وہ عالم ہو گا جسے اُس کے علم نے نفع نہ دیا ہو گا‘‘-[28]

اس لیے صوفیاء کرام نے ہمیشہ علم ظاہر کے ساتھ علم باطن پہ زور دیا ہے سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھوؒ ’’نور الھدٰی‘‘ میں ارشادفرماتے ہیں:

’’جان لے کہ آدمی اپنے ظاہر کو اور اپنی زبان کو علمِ فضیلت سے آراستہ رکھتاہے لیکن اپنے باطن کو تصدیق ِ دل اور علمِ مشاہدہ سے بے خبر رکھتاہے، لیکن جسے علمِ باطن حاصل نہیں وہ مطلق حیوان ہے- وہ شیطان کا قیدی اور مردہ دل ہے، اگرچہ ظاہر میں اُس کی زبان پر علمِ نص و حدیث جاری رہتاہے لیکن باطن میں وہ جاہل دیو ہوتاہے، اُس کا نفس خبیث ابلیس کی طرح منافق ہوتا ہے‘‘-

شیخ امام احمدابو العباس مُرسیؒ کا قول ہے کہ:

’’علم تو وہ ہے جو کہ دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی‘‘- [29]

خلاصہ کلام:

اسلامی تعلیمات میں، علم کا مقصد صرف معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا بھی ہے- بے عمل علماء سے مراد وہ ہیں ،جنہوں نے دین کی تعلیمات کو صرف علم تک محدود رکھا لیکن اپنے اعمال میں اس پر عمل نہیں کیا اور جنہوں نے دین کے علم کو اپنی دنیا کیلئے استعمال کیا ، جو کہ اسلامی اخلاقیات اور کردار کی روح کے منافی ہے-بے عمل اور ابن الوقت علماء ہردور میں رہے ہیں جیسا  کہ یزیدی دور میں تھے ، لیکن موجودہ دورمیں ان کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کی نشاندہی فرماتے ہوئے خاتم النبیین  (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا- الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا- اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی- علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے- ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی (علمائے سُوء) سرچشمہ ہوں گے‘‘-[30]

کسی بھی عمل کی قبولیت اور اس کے اجر کا انحصار اس کی نیت پر ہوتا ہے-جیسا کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پہ ہے‘‘اس لیے ہم سب کو اپنے اعمال سر انجام دیتے وقت اپنی نیت اور قلبی رجحان کا ضرور محاسبہ کرنا چاہیے -ورنہ بعض اوقات پہاڑ جیسا عمل نیت میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے رائیگاں چلا جائے گا-

امام سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے تھے: علم کا آغاز اس کی طلب ہے، پھر اس پر عمل کرنا، پھر خاموشی، پھر اس میں غور و فکر کرنا اور اگر اہل علم اس میں مخلص ہوں تو اس سے افضل کوئی عمل نہیں-

ہم اپنی معروضات کا اختتام محبوب سُبحانی سیدنا حضور شیخ  عبد القادر الجیلانی الحسنی ولحسینیؒ کے ان فرامین مبارکہ سے کرتے ہیں :

  • اے واعظ! لوگوں کو وعظ کر اپنے باطن کی صفائی اور اپنے قلب کے تقوٰی سے اور اپنے ظاہر کو خوبصورت بناکر ان کا واعظ مت بن کہ تیراباطن بگڑاہواہو-
  • علم کتابوں سے حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ مردوں کے منہ سے حاصل ہوا کرتا ہے- [31]
  • ’’علم دو قسم کا ہے،ایک کا تعلق زبان سے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہے اپنے بندوں پر - دوسرے کا تعلق دل سے ہے اور یہی علم حصولِ مقصد کے لئے کار گر ہے- انسان کیلئے سب سے پہلے علمِ شریعت ضروری ہے تاکہ وہ اِس کے ذریعے عالمِ صفات میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ِصفات حاصل کر سکے جس کے بے شمار درجے ہیں- اِس کے بعد ضرورت ہے علمِ باطن کی تاکہ اُس کے ذریعے روح عالمِ معرفت میں معرفت ِذات حاصل کر سکے جو خلافِ شریعت و طریقت رسومات ترک کیے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی- اِس کا حصول اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ محض رضائے الٰہی کی خاطر نمائش و ریا سے پاک ریاضتیں اختیار نہ کی جائیں، جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :

’’فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا‘‘ [32]

’’ جو لقائے الٰہی کا آرزو مند ہے اُسے چاہیے کہ اعمالِ صالحہ اختیار کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ‘‘- [33]

٭٭٭


[1]طہٰ:114

[2]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المُعْجَمُ الكَبِير ،(المتوفٰی:360)، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة  الطبعة: الثانية، باب: مجاهد، عن ابن عباس ، رقم الحدیث: 11158

[3]ابن بطہ، عبيد الله بن محمد(المتوفى: 387هـ)، الإبانة الكبری،(دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض)،ج:1،ص:200

[4]البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، (دار:طوق النجاة۔1422ھ) كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ، رقم الحدیث:3116

[5]المناوی، عبد الرؤوف بن تاج العارفين،فيض القدير شرح الجامع الصغير ،(مصر،المكتبة التجارية الكبرى، 1356ھ) ج: 4،ص:269

[6]فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج: 4،ص:269

[7]فاطر:28

[8]المجادلہ:11

[9]آل عمران:79

[10]الشَّعْراني،عبد الوهاب بن أحمد بن علي،الطبقات الكبرى،(مصر: مكتبة محمد المليجي الكتبي وأخيه)، ج:1،ص:69

[11]الهداية إلى بلوغ النهاية،ج: 2،ص:1370

[12]يوسف بن عبد الله بن محمد( المتوفى: 463هـ)، جامع بيان العلم وفضله، ج:1،  ص:150

[13]الغزالی، محمد بن محمد(المتوفى: 505هـ)، إحياء علوم الدين،(بیروت،دارالمعرفۃ)،باب: فَضِيلَةُ التَّعْلِيمِ، ج:1،ص:9

[14]ابن ماجة، محمد بن يزيد، سنن ابن ماجہ، بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحدیث:222

[15]أحمد بن علي بن ثابت (المتوفى: 463هـ)، الفقيه و المتفقه،ج:1،ص:105

[16]احمد بن محمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ ،رقم الحدیث: 21715

[17]الجمعة:5

[18]صحیح البخاری، بَابٌ: كَيْفَ يُقْبَضُ العِلْمُ،رقم الحدیث:100

[19]البیھقی،أحمد بن الحسين،شعب الایمان،ایڈیشن اول،( الریاض:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، 1423 ھ)،ج:10،ص:60 ،رقم الحدیث: 7162

[20]صحیح البخاری، كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،رقم الحدیث:3267

[21]احمد بن حنبل، (المتوفى: 241هـ)، الزهد، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت(ایڈیشن اولیٰ:1999م)، ج:1، ص: 131،رقم الحدیث:868

[22]مسند الإمام أحمد بن حنبل،مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ،رقم الحدیث: 12211ج:19،ص:224

[23]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود بَابٌ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لِغَيْرِ اللهِ تَعَالیٰ، رقم الحدیث:3664

[24]حاکم،محمد بن عبد اللہ، المستدرك على الصحيحين، کتاب العلم، رقم الحدیث: 290

[25]ا لبخاری، محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم

[26]البخاری، محمدبن اسماعیل، التاریخ الکبیر، ج: 4، ص: 301،

ابن حبان، محمد بن احمد التمیمی البُستی، الصحیح، ج: 1، ص: 282، رقم الحدیث: 81

[27]الترمذی، ابو عیسیٰ محمد، السنن، کتاب الزھد عن رسول اللہ (ﷺ) ، ج: 4، ص: 603، رقم الحدیث:  2405

[28]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الصغیر،الناشر:المكتب الإسلامي،دارعمار–بيروت،ج:1،ص:305،رقم الحدیث:507

[29]الشعراني، الطبقات الکبری،ج:2،ص:14

[30]البیھقی،أحمد بن الحسين، شعب الایمان، ایڈیشن اول، (الریاض: مكتبة الرشد للنشر و التوزيع، 1423 ھ)، ج:3، ص: 317، رقم الحدیث: 1763

[31]بہجۃ الاسرار

[32]الکہف:110

[33]سر الاسرار

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر