منصب قضاء کے تقاضے: سیرت نبویﷺ کی روشنی میں

منصب قضاء کے تقاضے: سیرت نبویﷺ کی روشنی میں

منصب قضاء کے تقاضے: سیرت نبویﷺ کی روشنی میں

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2024

منصبِ قضاءۃ ایک ایسا عظیم منصب ہے جو لوگوں کے مسائل حل کرنے ، ان کے حقوق کی فراہمی اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لئے کسی باشعور و ذی علم اور باصلاحیت شخصیت کو عطا کیا جا تا ہے-آقا کریم (ﷺ) نہ صرف خود اس منصب پر فائز رہے بلکہ صحابہ کرام کو بھی کئی مواقع پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے حاکم مقرر فرمایا  اور مختلف شہروں میں یہ منصب قضاء عطا فرما کر انہیں روانہ فرمایا-یہ منصب جتنا عظیم ہے اتنا حساس بھی ہے کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست شرعی حدود کے نفاذ اور لوگوں کے حقوق اور جان و مال کے ساتھ ہے-جس میں ذرا سی کوتاہی اور جھول بھی  لوگوں کے حقوق اور جان و مال کےسلب کا سبب بن سکتی ہے جو کہ نہ صرف بہت بڑا جرم ہے بلکہ گناہ کبیرہ بھی ہے-اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے کئی علماء کرام جب انہیں اس منصب کی پیش کش کی گئی تو وہ اس سے گھبراتے اور معذرت کر لیتے تھے خاص کر غاصب حکمرانوں کے عہد میں -

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس منصب کے حامل شخص کو عدل و انصاف قائم رکھنے پر تنبیہ  فرمائی ہے-اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو حکم فرمایا:

’’وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ ط اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ‘‘[1]

’’اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں‘‘-

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو فرمایا:

’’یٰدَاوٗدُ  اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی‘‘[2]

’’اے داؤد! ہم نے  تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تو تم لوگوں میں حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘-

کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کر کے انہیں عدل و انصاف کرنے کا حکم فرمایا-جیسا کہ سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ‘‘[3]

’’اے ایمان والو! انصاف پر اچھی طرح قائم رہنے والے ہو جاؤ‘‘-

ایک اور مقام پر فرمایا:

’’لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَ قْرَبُ لِلتَّقْوٰی‘‘[4]

’’تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو انصاف کرو- وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے‘‘-

مزید سورۃ الانعام میں ارشاد فرمایا:

’’وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی‘‘[5]

’’اور جب تم کچھ کہو تو حق بات کہو خواہ تمہارا قریبی رشتہ دار کیوں نہ  ہو‘‘-

لہٰذا! عوام الناس کے حقوق و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے ضروری ہے کہ قاضی اور منصف اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے مسائل حل کرے اور انہیں پورا پورا انصاف مہیا کرے-

زیر نظر مضمون میں ہم منصبِ قضاء کے چند اہم تقاضے سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں-

اسلامی نقطہ نظر سے منصبِ قضاءکا پہلا بنیادی اور اہم تقاضا یہ ہے کہ فیصلہ شرعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے -اگر ان اصولوں کی موافقت نہ کی گئی تو ایسا کرنے والا ظالم اور فاسق ہوگا-

اگر ہم قرآن مجید و احادیث مبارکہ کا بغور مطالعہ کریں تو اسی چیز کی طرف رہنمائی ملتی ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّآ  اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ  اَرٰىکَ اللہُ ط وَلَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا‘‘[6]

’’ اے محبوب (ﷺ)بے شک ہم نے آپ کے حق کے ساتھ کتاب بھیجی ہے تا کہ آپ لوگوں کے درمیان  اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ (ﷺ)کو بتلایا ہے اور آپ ان خائنوں کی طرف داری نہ کیجئے‘‘-

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘[7]

’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم  نہ کرے سو ایسے لوگ ظالم ہیں‘‘-

امام ترمذی روایت فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ (ﷺ) نے پوچھا! تم فیصلہ کیسے کرو گے؟ انہوں نے عرض کی  میں اللہ  کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اگر اس میں حکم نہ پاسکو تو انہوں نے عرض کی میں رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا-فرمایا: اگر سنت سے بھی حکم نہ پا سکو تو، عرض کی میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں کہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو یہ توفیق عطا فرمائی‘‘-[8]

معلوم ہوا کہ قاضی اور حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ فیصلہ قرآن و سنت اور احکامات کے مطابق کرے -کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جو شرعی قوانین اور اس کی روح کے متصادم ہو-

منصب قضاء کا دوسرا ضروری تقاضا یہ ہے کہ فریقین کو انصاف اور ان کا حق مہیا کرے کیونکہ کسی شخصیت کو یہ منصب عطا بھی اس لئے کیا جاتا ہے کہ تا کہ لوگوں کے مسائل سن کر ان کے  مال و جان اور ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے- اگر کوئی اس منصب کا حامل ایسا نہیں کر سکتا تو اس کے لئے بہت سخت وعید آئی ہے-

حضرت بریدہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہوگا اور دو دوزخ میں ہوں گے-جنت میں وہ قاضی ہوگا جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے اور جو حق پہچاننے کے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ دوزخ میں ہوگا اور جو شخص جہالت سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا وہ بھی دوزخ  میں ہوگا‘‘-[9]

اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وقت کے قاضی میں دو بنیادی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے-

  1. قانون اور معاملات کی پوری واقفیت
  2. ہر معاملہ میں عدل و انصاف کے تقاضوں کا لحاظ

اگر قاضی میں ان دونوں اوصاف میں سے کوئی وصف موجود نہیں ہے تو  وہ اس قابل نہیں ہے کہ اسے قاضی کا منصب دیا جائے یا اسے اس عہدے پر برقرار رکھا جائے-

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی(رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے‘‘-[10]

مطلب یہ ہے کہ جب تک قاضی اپنے عہدے اور حلف کی پاسداری کرتا ہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عدل و انصاف پر قائم رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے لئے شامل حال  رہتی ہے اور وہ درست فیصلےتک پہنچ جاتا ہے-لیکن جونہی وہ اپنے منصب اور حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے تو مدد اور تائید اٹھالی جاتی ہے اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے-پھر اس کا ہر فیصلہ مفاد اور فساد پر مبنی ہوتا ہے-

اس کے برعکس  جو قاضی لوگوں کے  مقدمات کا فیصلہ عدل و انصاف پر کرتا ہےاور اپنے عہدے اور منصب کا لحاظ کرتا ہے تو اس کیلئے بشارات بھی ہیں-جس طرح ما قبل مذکور حدیث میں فرمایا گیا  کہ وہ جنت کا مستحق ہوگا-

اسی طرح حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ)  نے ارشاد فرمایا:

’’انصاف کرنے والے امام کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور زمین پر حد قائم کرنا چالیس سال کی بارش سے زیادہ پاکیزگی اور صفائی کرنے والا ہے‘‘-[11]

حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’دنیا میں انصاف کرنے والے (قیامت کے دن) رحمان کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے‘‘-[12]

حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سےزیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو انصاف کرنے والا حاکم ہو‘‘-[13]

منصب قضاء کا ایک تقاضا یہ بھی ہے فریقین کے درمیان مکمل مساوات سے کام لے کیونکہ قانون کی  نگاہ میں حاکم و محکوم، مرد و عورت، سیاہ و سفید سب برابر ہیں -عدالتی کارروائی کے دوران قاضی کا کسی ایک فریق کی طرف غیر شعوری جھکاؤ فریق مخالف کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ ناانصافی پہ مائل کر سکتا ہے-اس لئے قاضی کو سختی سے ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ مساوات اور غیر جانبداری کے عمل کو  یقینی بنائے-لہٰذا عدالتی کارروائی کے دوران قاضی کے بیٹھنے میں، متوجہ ہونے میں اشارہ اور نظر کرنے میں فریقین کے درمیان یکساں سلوک کرے-یہاں تک کہ بات چیت کے دوران کسی ایک فریق سے بہ نسبت دوسرے فریق کے بلند آواز کے ساتھ گفتگو نہ کرے-

حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی آزمائش میں ڈالا گیا اس کو چاہیے کہ کسی صورت میں بھی ایک فریق سے دوسرے فریق کے مقابلہ میں زیادہ بلند آواز سے بات نہ کرے‘‘-[14]

یعنی قاضی کو چاہیے کہ گفتار کردار، لب و لہجہ ہر چیز میں دونوں فریقوں سے بالکل یکساں سلوک کرے کسی فریق کو جھڑکے نہیں اور دونوں کو اپنا مدعا بیان کرنے میں برابر موقع میسر  کرے-ایک روایت کے مطابق جو کہ وہ بھی حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے اس میں عدل و مساوات کا ایک ایسا اعلیٰ ترین معیار بیان کیا گیا ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے-آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’قاضی کو چاہیے کہ مقدمہ میں فریقین کو دیکھنے میں، ان کی طرف اشارہ کرنے اور ان کو بٹھانے میں بھی عدل کرنا چاہیے‘‘-[15]

یعنی ایک فریق کی طرف  زیادہ دھیان دینا یا اس کی طرف رخ کر کے بیٹھنا اور اس کی بات بھر پور توجہ سے سننا اور دوسرے کی کم توجہ سے سننا بھی عدل و مساوات کے منافی ہے-

مساوات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قاضی اس بات کو یقینی بنائے کہ دونوں فریق اس کے سامنے پیش کئے جائیں-جیسا کہ عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’خصمین یعنی مدعی اور مدعی علیہ قاضی کے سامنے پیش کئے جائیں‘‘ -[16]

اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ دونوں فریقین کا قاضی کے سامنے حاضر ہونا ضروری ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی فریق کو  دولت، منصب یا اثر و رسوخ کی بنا پر عدالت کی پیشی سے مستثنی قرار دے دیا جائے-لہٰذا فریقین میں سے  کسی ایک کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی برتاؤ عدالتی آداب اور انصاف کے متصادم ہے-

منصب قضاء کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ فریقین میں سے کسی کی دعوت نہ کرے کیونکہ اس سے آقا کریم (ﷺ) نے منع فرمایا ہے-روایت میں ہے کہ:

’’ایک شخص حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس مہمان آیا اور صبح فریق مقدمہ کی حیثیت سے پیش ہوا-آپ نے اس سے پوچھا کیا تم مقدمہ میں فریق ہو، اس نے کہا جی ہاں-تو آپؓ نے ارشاد فرمایا تو پھر مہمانی کے لئے کوئی اور جگہ تلاش کر کیونکہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے دوسرے فریق کے بغیر کسی ایک فریق کی مہمان داری سے منع فرمایا ہے‘‘-[17]

کیونکہ قاضی اگر کسی ایک فریق کی دعوت یا مہمان نوازی کرے گا تو قاضی پر اس فریق کی طرف میلان اور جھکاؤ کا الزام لگے گا اور دوسرے فریق کا قاضی سے اعتماد اٹھ جائے گا-

قضاء کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے-حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرہ نے اپنے صاحبزادے کو جو سجستان میں قاضی تھے لکھا کہ:

’’تم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرو اس لئے میں نے آپ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی حاکم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں ہرگز فیصلہ نہ کرے‘‘-[18]

غصہ کی حالت میں فیصلہ دینے کی ممانعت اس لئے آئی ہے کہ اس حالت میں عموماً انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور قوت فیصلہ نقطہ اعتدال سے خاصی ہٹ جاتی ہے اور اس امر کا بہت قوی امکان ہو جاتا ہے کہ غلط فیصلہ صادر ہو جائے-

حاصل کلام یہ ہے کہ منصب قضاء یہ کوئی عام عہدہ اور منصب نہیں ہے بلکہ یہ انبیاء کرام کا منصب رہا ہے جو زمین پہ انصاف قائم کرنے بھیجے گئے ، اس کا وقار خاتم الانبیاء (ﷺ) نے  اور ان کی تیار کردہ جماعت نے قائم کیا - آج بھی یہ ایک پر وقار و باعزت اور ریاست کا سب سبے بڑا عہدہ ہوتا ہے کہ جہاں حاکم وقت بھی کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے-لہٰذا! اس منصب پر برجمان ہونے والے کیلئے لازم ہے کہ وہ اس منصب کی حساسیت اور عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو پورا کرے -اگر قاضی ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا بلکہ  اپنی خواہش، مفاد کو اہمیت دیتا ہے تو یقین جانیے-یہ چیز نہ صرف عدالتی آداب کے خلاف ہے بلکہ فتنہ و فساد کا باعث ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد بھی عدالت سے اٹھ جاتا ہے اور لوگ مایوس ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ عدالتوں سے ماوراء خود فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں جو انتشار کا باعث بنتا ہے-

لہٰذا! منصفوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے مقدمات اور مسائل کو شرعی اصولوں کے مطابق حل کر تے ہوئے فریقین کو اپنے بروقت عدل و انصاف اور مساواتی عمل و کردار سے انہیں مطمئن کریں تاکہ نہ صرف ان کے انصاف کا بول بالا ہو بلکہ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد بھی بحال رہے اور وہ انصاف ہوتا ہوا دیکھیں-

٭٭٭


[1](المائدہ:42)

[2](سورۃ ص:26)

[3](النساء:135)

[4](المائدہ:8)

[5](الانعام:152)

[6](النساء:105)

[7](المائدہ:45)

[8](سنن ترمذی، باب: ما جاءفی القاضی کیف یقضی)

[9](سنن ابی داؤد، باب فی القاضی یخطئی)

[10](سنن ترمذی، باب ماجاء فی الامام العادل)

[11](شعب الایمان، رقم الحدیث:7379)

[12](صحیح مسلم، باب فضیلۃ الامام العادل)

[13](سنن ترمذی، باب ما جاء فی الامام العادل)

[14](سنن دار قطنی، کتاب فی الاقضیۃ و الاحکام)

[15](المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:622)

[16](سنن الکبری للبیہقی، باب انصاف الخصمین فی المدخل علیہ)

[17](سنن الکبری للبیہقی، باب لا ینبغی للقاضی ان یضیف الخصم)

[18](صحیح بخاری، باب ھل یقضی القاضی او یفتی وھو غضبان)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر