اسفارِ رسول(ﷺ)

اسفارِ رسول(ﷺ)

اسفارِ رسول(ﷺ)

مصنف: شہلانور ستمبر 2024

سیرت رسول (ﷺ) کا ہر پہلو ہی درخشاں و تاباں ہے کیونکہ آپ (ﷺ) اللہ  پاک کے مظہراتم ہیں آپ (ﷺ) کی ذات کریمہ قرآن مجید کی عملی تفسیر اور انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے- مضمون ھٰذا میں سیرت پاک کے ایک انتہائی خوبصورت پہلو پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے، جس میں تاریخی ترتیب کے لحاظ سے تجارتی، تبلیغی و دعوتی، مہماتی، سفر حج و عمرہ، سفر ہجرت و معراج وغیرہ اسفار رسول (ﷺ) کا ذکر کیا جائے گا- زیر نظر مضمون، اعلانِ نبوت سے قبل و بعد ، اسی طرح اعلان نبوت کے بعد کے زمانے کے بھی مکی اور مدنی ادوار کے اسفار پر محیط ہوگا-

پہلا سفر:

 مصطفیٰ جان رحمت (ﷺ) کے اسفار کا آغاز اس سہانی گھڑی سے ہوجاتا ہے جب آپ (ﷺ) کو ولادتِ پاک کے کچھ دیر بعد حضرت عبد المطّلب (رضی اللہ عنہ)سیّدہ آمنہ پاک (رضی اللہ عنہا) کے گھر سے اپنی آغوش میں لے کر بیت اللہ  شریف کی زیارت کو لے جاتے ہیں - [1]

سفر رضاعت:

آپ (ﷺ) کو حضرت حلیمہ (رضی اللہ عنہا) رضاعت کے لیے ساتھ لے گئیں اور برکات رسول (ﷺ) سے خوب مستفید ہوئیں - آپ (ﷺ) کی ولادت باسعادت مشہور قول کے مطابق 12 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ءکو ہوئی[2] اور یہ سفر آپ (ﷺ) کی ولادت باسعادت کے چند دنوں بعد ہوا-

سفرمدینہ :

 577 ء میں آپ (ﷺ) کی عمر مبارک چھ  برس تھی، سیدہ حضرت بی بی آمنہ (رضی اللہ عنہا) نے آپ (ﷺ)کے ساتھ آپ (ﷺ) کے ننہال کے لیے سفر کیا تاکہ آپ (ﷺ) اپنے ماموں سے ملیں اور اپنے والد کی قبر کی زیارت بھی کریں-یہاں ایک ماہ قیام رہا ، یہاں حضور (ﷺ) نے اپنے خزرجی قرابت داروں کے تالاب میں بچوں کے ساتھ تیراکی سیکھی، اسی سفر سے واپسی پر ابواء کے مقام پر حضرت آمنہ(رضی اللہ عنہا)وفات پاگئیں-[3]

 سفریمن :

آپ (ﷺ) نے 10 برس کی عمر میں اپنے چچا زبیر بن عبد المطلب  کےساتھ یمن کا سفر کیا اس سفر کا ایک خاص واقعہ سرکش اونٹ کے حوالے سے ہے جو آنے جانے والوں کو روکتا تھا- حضور نبی کریم(ﷺ) کو پتہ چلا کہ یہ اُونٹ لوگوں کا رستہ روکے ہوئے ہے، تو آپ(ﷺ) اس کی طرف بڑھے جب اُونٹ نے آقا کریم (ﷺ) کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ فوراً بیٹھ گیا اور زمین سے اپنی چھاتی رگڑنے لگا آپ (ﷺ) نے اپنے اُونٹ کو چھوڑا اور اسی اونٹ پر پوری وادی کا سفر طے کیا اور پھر اسے رہا کر دیا-[4]

 شام کی جانب پہلا تجارتی سفر :

جب آپ (ﷺ) کی عمر مبارک تقریبًا 12 برس ہوئی تو اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ہمراہ شام کی جانب تجارتی مقاصد کے لیے بصد اصرار سفر کیا- اس سفر کا اہم واقعہ عیسائی راہب بحیراسے ملاقات ہے، اس نے جب آپ (ﷺ) کے حالات و کیفیات کا مشاہدہ کیا- بعد ازیں آپ (ﷺ) سے گفتگو سے مزید معلومات حاصل کیں تو آپ (ﷺ) کے چچا کو خبردار کیا کہ آپکےبھتیجے رسول رب العالمین اور رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں اور انہیں یہودیوں سے خطرہ ہے اس لیے فوری طور پر انہیں واپس لے جائیں-[5]

حرب فجار میں شرکت:

جب آپ (ﷺ) کی عمر مبارک تقریباً پندرہ سے بیس  برس کے درمیان تھی تو آپ (ﷺ) نے حروب فجار میں سے ایک جنگ کیلئے اپنے چچاؤں کے ساتھ سفر کیا جس کا ایک فریق بنی کنانہ اور قریش تھے اور دوسرا بنو ہوازن - یہ جنگ مکہ کے قریب ’’شرب‘‘ کے مقام پر ہوئی، جنگ میں اس حد تک شرکت کی کہ ترکش سے تیر نکال کر انہیں دیتے تھے-[6]

شام کی جانب دوسرا سفر:

جب آپ (ﷺ) کی عمر مبارک 25 برس ہوئی تو آپ (ﷺ) حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کا سامان تجارت لے کر شام گئے- آپ (ﷺ) کے ساتھ حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کا غلام میسرہ بھی تھا- سفر کے دوران بصریٰ میں اسی مقام پر جہاں اس سے قبل چچاابو طالب کی معیت میں قیام کیا تھا اور بحیریٰ راہب سے ملاقات ہوئی، وہاں اب ایک اور راہب سے ملاقات ہوئی جس کا نام نسطورا تھا- اس راہب نے بھی آپ (ﷺ) کے رسول ہونے کی گواہی دی ، میسرہ نے اس راہب کی باتیں اپنی مالکہ کو بتائیں جنہوں نے ورقہ بن نوفل سے اس کا ذکر کیا -[7]

یمن کی طرف دو سفر:

تجارتی اسفار حضور نبی اکرم (ﷺ) نے حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے:

’’حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے  حضور نبی اکرم (ﷺ) کو جرش (یمن کے ایک مقام) کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا ‘‘-[8]

بحرین کی طرف سفر :

نبوت سے قبل آپ (ﷺ) کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے- بحرین سے وفدِ عبد القیس جب آیا تو آپ (ﷺ) نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول(ﷺ)! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں- آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاکہ: ’’ہاں! میں نے تمہارے ملک میں خوب سیر کی ہے ‘‘-[9]

 یہ وہ اسفار ہیں جو آپ (ﷺ) نے اعلان نبوت سے قبل کیے- بعد از اعلان نبوت آپ(ﷺ) کی توجہ نبوت کی ذمہ داریوں پر مرکوز ہوگئی جس میں سرفہرست تبلیغ و دعوت اسلام تھا- چنانچہ اب آپ (ﷺ) کے اسفار تبلیغی و دعوتی مقاصد کے لیے ہونے لگے- اعلان نبوت کے بعد تجارتی مقاصد کے لیے آپ (ﷺ) کے سفر کرنے کا ثبوت سامنے نہیں آیا- اعلان نبوت کےبعد کے اسفار کو ہم مکی اور مدنی دور میں منقسم کرسکتے ہیں - مکی دور 13 برس جبکہ مدنی دور 10 برس  پر مشتمل ہے- مکی دور کے اسفارزیادہ تر دعوت و تبلیغ جبکہ مدنی دور کے سفر غزوات و حج و عمرہ کے لیے ہوئے-

ایام حج میں تبلیغ کے لیے سفر:

جب حج کے ایام شروع ہونے لگتے اور لوگ مکہ و قرب و جوار منیٰ و عرفات وغیرہ میں قیام پذیر ہوتے تو آپ (ﷺ) ان کے پاس جاکر انفرادی و اجتماعی طور پر دعوت اسلام پیش کرتے تھے-ربیعہ بن عباد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ میں ابھی نوجوان تھا اور اپنے والد کے ساتھ منیٰ کے میدان میں اپنے خیمے میں موجود تھا میں نے دیکھا رسول اللہ (ﷺ) ہر قبیلہ کی قیام گاہ پر تشریف لے جاتے اور انہیں دعوتِ توحید دیتے-[10]

تجارتی منڈیوں (عکاظ ، مجاز، مجنہ) کی طرف سفر:

ویسے تو عرب کے متعدد مقامات پر میلے اور منڈیاں لگائی جاتی تھیں لیکن عکاظ، مجاز اور مجنہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ، علامہ یاقوت لکھتے ہیں:

’’یہ تجارتی منڈیاں قریش اور تمام اہل عرب کی مشترکہ منڈیاں تھیں اور عکاظ سب سے بڑی منڈی تھی کہتے ہیں عکاظ کی منڈی شوال کے پورے مہینہ لگتی تھی پھر وہاں سے مجنہ آجاتے تھے اور وہاں ذی القعدہ کے بیس دن خرید و فروخت کی گرم بازاری ہوتی تھی وہاں سے چل کر ذی المجاز میں آجاتے یہ منڈی حج کے ایام تک لگی رہتی‘‘-

آپ (ﷺ) کو فرائض نبوت کی ادائیگی کا احساس ہمہ وقت بے چین رکھتا تھا، چنانچہ دور و نزدیک جہاں آپ (ﷺ) کو اہل عرب کے کسی اجتماع کی خبر ملتی حضور (ﷺ) وہاں تشریف لے جاتے - ابو طارق(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں :

’’میں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کو ذی المجاز کی منڈی میں دیکھا قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کررہے تھے اور فرمارہے تھے :

’’یاایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا‘‘

’’اے لوگو! کہو اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، فلاح پاجاؤگے‘‘-

سفر طائف:

شوال المکرم 10نبوی میں آپ (ﷺ) تبلیغ کے لیے مکہ سے 120 میل کے فاصلے پر طائف نامی شہر پا پیادہ تشریف لے گئے- 10دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا، لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیاحتیٰ کہ طائف کے  اوباش اور آوارہ گرد لوگوں  نے آپ (ﷺ) کو پتھر مارنا شروع کیے، سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بلکہ نعلین مبارک تک آپ (ﷺ) لہولہان ہوگئے-اس موقع پر بھی آپ (ﷺ) نے یہی فرمایا:’’مجھے اﷲ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسا ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اﷲ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے‘‘-[11]طائف سے واپسی پر جنّات کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا-

ہے ثبت تری ذات سے تاریخ ِ بشر میں
وہ عزم جو تھکتا نہیں طائف کے سفر میں

سفر اسراء و معراج:

 آپ (ﷺ) کے چچا  حضرت ابو طالب اور رفیقہ حیات حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کے انتقال اور پھر طائف والوں کے مایوس کن رویہ سے آپ (ﷺ)  مغموم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب (ﷺ) کو اسراء و معراج کا شرف عطا فرمایا- آپ (ﷺ) کا مکہ سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ’’ اسراء‘‘ اور وہاں سے آسمانوں کا سفر ’’معراج ‘‘ کہلاتا ہے- اس بارے میں محدثین کا اختلاف ہے کس ماہ اور کس تاریخ کو آپ (ﷺ) معراج پر تشریف لے گئے؟ ابن قتیبہ اور علامہ ابن عبد البر نے ماہ رجب کا  تعیین کیا ہے اور متاخرین میں امام رافعی اور امام نَوَوِی اور محدث عبد الغنی مقدسی نے بھی اسی مہینے کو اختیار کیا ہے بلکہ 27 تاریخ کی بھی تصریح کردی ہے- علامہ زرقانی نےلکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے- اصول یہ ہے کہ جب کسی بات پر سلف کا اختلاف ہو اور کسی رائے کی ترجیح پر کوئی دلیل قائم نہ ہو تو بظن غالب وہ قول صحیح ہو گا جس پر عمل درآمد ہو اور جو لوگوں میں مقبول ہو-جہاں تک سال کی بات ہے تو علامہ علی بن برہان الدین حلبی لکھتے ہیں:

’’یہ سفر ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا - ابن حزم نے اسے یقین کے ساتھ لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے- اور بعض کے نزدیک یہ سفر ہجرت سے دو سال پہلے اور بعض کے نزدیک تین سال پہلے وقوع پزیر ہوا‘‘-[12]

سفر کے پہلے حصے ’’اسراء‘‘ کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت جبکہ سفر کے دوسرے حصے یعنی معراج کو سورہ النجم کی ابتدائی آیات میں بیان فرمایا گیاہے- نیز حضرت انس (﷜) کی روایت کی گئی حدیث سفر معراج کی تفصیل کے لیے سب سے زیادہ محفوظ ہے- اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے-[13]

عقبہ کی جانب سفر در سفر :

نبوت کے گیارہویں سال ماہ رجب میں آپ (ﷺ) عقبہ[14] کی جانب تشریف لے گئے - وہاں 6 افراد آپ (ﷺ) کی دعوت پر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے - اگلے سال 12 نبوی میں دوبارہ عقبہ کے مقام پر ہی بارہ افراد اسلام لائے، اسے بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے- اس اگلے سال 13نبوی میں ایک بار پھر عقبہ کے ہی مقام پر مزید افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ہجرت کے بارے میں تمام معاملات طے پائے- ابن کثیر کے مطابق اس رات بیعت کرنے والوں کی تعداد 75تھی-[15]

سفر ہجرت مدینہ:

نبوت کے تیرہویں سال جو بعد میں پہلا ہجری سال مقرر ہوا اللہ کی طرف سے آپ کو ہجرت کی اجازت مل گئی -آپ (ﷺ) اپنے پیارے دوست سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو سا تھ لے کر عازم ِمدینہ ہوئے،  مؤرخہ 26 صفر یعنی 9 ستمبر 622ء  کی رات آپ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اہلِ مکہ کی امانتیں سپرد فرما کر اپنے بستر پر سُلا دیا اور نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے گھر سے نکل کر سب سے پہلے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے گھر گئے اور پھر آپ (رضی اللہ عنہ) کے ہمراہ تین دن تک غار ثور میں پناہ لی -یکم ربیعُ الاوّل بروز پیر سفرِہجرت کا آغازہوا اور12 ربیعُ الاوّل کو قُبا میں پہنچے،حضرت کلثوم بن ھِدْم کے یہاں چند دن قیام فرمایا-[16]اسی دوران مسجدِ قبُا تعمیر فرمائی جس کی شان و عظمت پرسورۂ توبہ کی آیت 108 گواہ ہے- قبیلۂ بنوسالم میں پہلا جمعہ ادا فرمایا- نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد آپ (ﷺ) دوبارہ قبا تشریف لے گئے اور دس روز کے قریب قیام فرمایا - 22 ربیع الاول بمطابق 4 اکتوبر 622ء آپ (ﷺ) مدینہ کی جانب مستقل قیام کیلئے روانہ ہوئے-

غزوہ ابواء/ غزوہ ودان :

ہجرت کے بعد ماہ صفر 2ھ میں آپ (ﷺ) نے تقریباً 70 مہاجرین صحابہ کے ساتھ مقام ابواء کی طرف پہلا عسکری سفر فرمایا ، اس غزوہ کا مقصد قافلہ قریش کی روک تھام تھی - قافلہ تو نکل گیا لیکن اس سے بڑھ کر اہم کام انجام پذیر ہوا اور وہ بنو ضمرہ سے دوستی کا معاہدہ تھا، معاہدے کے تحت بنو ضمرہ اپنے ہم عقیدہ اہل مکہ کی معاونت نہ کرسکتے تھے- یہ آپ (ﷺ) کی پہلی فوجی مہم تھی جس میں آپ (ﷺ) نے 15دن مدینہ  منورہ سے باہر  قیام فرمایا-[17]

غزوہ بواط:

ربیع الاول 2ھ  میں 200 ساتھیوں کے ساتھ آپ (ﷺ) سفر کے لیے روانہ ہوئے، اس غزوہ میں بھی کوئی معاملہ پیش نہ آیا اور آپ (ﷺ) واپسی تشریف لے آئے-

غزوہ صفوان/سفوان/ غزوہ بدر اولیٰ:

غزوہ صفوان اور غزوہ العشیرہ کے وقوع میں علماء سیرت کا اختلاف ہے کہ ان میں سے پہلے کون سا پیش آیا- ابن سعد اور دیگر علماء کی رائے میں غزوہ صفوان پہلے واقع ہوا جبکہ ابن اسحاق کے مطابق غزوہ صفوان، ذو العشیرہ کے بعد واقع ہوا -ابن سعد کے قول کے مطابق ربیع الاول میں پیش آیا-[18]اس غزوہ کا سبب یہ ہوا کفار مکہ نے مسلمانوں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے سردار کرز بن جابر فہری کی سربراہی میں ایک مختصر سی فوج بھیجی جنہوں نے ایک چراگاہ پر حملہ کر کے چرواہے کو قتل کردیا، کچھ درختوں کو کاٹ دیا اور جتنے مویشی ہانک کر لے جاسکتے تھے ساتھ لے گئے-آپ (ﷺ) کو جب اس کی اطلاع ملی تو تقریباً 70 صحابہ کے ساتھ ان کا تعاقب وادی صفوان تک کیا لیکن وہ تیزی سے آگے نکل گئے-

غزوہ ذو العشیرہ:

علامہ حلبی اس غزوہ کو جمادی الاول میں ذکر کرتے ہیں-آپ (ﷺ) اس مہم کے لیے 200افراد کے ساتھ ابو سفیان کے قافلے کے ارادے سے روانہ ہوئے -یہ وہی قافلہ ہے جس نے مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں کا سامان لوٹا اور شام لے جا کر بیچنا چاہتے تھے اسی  کی وجہ سے غزوہ بدر پیش آیا- آپ (ﷺ) راز داری برقرار رکھتے ہوئے جب بنی مدلج کے علاقے ذو العشیرہ پہنچے تو معلوم ہوا قافلہ وہاں سے نکل چکا ہے- یہاں آپ (ﷺ) نے ایک اور سیاسی کامیابی حاصل کی اور بنو مدلج و بنو ضمرہ کے درمیان صلح کروائی نیز بنو مدلج سے بنو ضمرہ ہی کے مثل ایک معاہدہ کیاآپ (ﷺ) نے جمادی الاول کے باقی دن اور جمادی الآخر کے چند روز یہیں قیام فرمایا -[19]

غزوہ بدر :

آپ (ﷺ)کوجب مندرجہ بالا ذکر کردہ ابو سفیان کے قافلے کی واپسی کی اطلاع ملی تو آپ (ﷺ) بلا تاخیر سفر پر روانہ ہوگئے- آپ (ﷺ) کے ساتھ 313 جانثار تھے اور یہ 12رمضان المبارک ہفتے کا دن تھا- بدر کے مقام پر دونوں گروہوں میں جنگ برپا ہوئی، مسلمان جوانمردی سے لڑے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد ہوئی- 14مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 70 کفار واصل جہنم ہوئے جن میں ابوجہل بھی شامل ہے اور 70 افراد ہی قیدی ہوئے-[20]

غزوہ سلیم:

غزوہ بد ر کے بعد آپ (ﷺ) کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو غطفان کی شاخ بنو سلیم مدینہ پر چڑھائی کی تیاری کررہے ہیں -آپ (ﷺ)بلاتاخیر 200سواروں کے ساتھ ان کے اپنے علاقے میں مقام کدر تک اچانک جاپہنچے اور انہیں سنبھلنے کا موقع بالکل نہ ملا - قبیلے میں بھگدر مچ گئی اور وہ 500 اونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے-آپ (ﷺ) بنو سلیم میں 3 روز قیام فرما کر واپس تشریف لے آئے- یہ غزوہ بدر سے واپسی کے 7روز بعد ہی پیش آیا-[21]

غزوہ سویق:

غزوہ بدر میں ابو سفیان نے شکست کے باعث قسم کھالی کہ جب تک وہ اپنے مقتولوں کا انتقام نہ لے گا تب تک نہ گھی کھائے گا، نہ غسل جنابت کرے گا- اسی غم و غصہ میں ماہ ذوالحجہ میں وہ 200سواروں کو لے کر عام راستے سے ہٹ کر نجد کا لمبا راستہ طے کرتے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچا -[22] مقام عریض جہاں مسلمانوں کا نخلستان تھا جس میں کھجوروں کے چھوٹے پودوں کا بڑا ذخیرہ تھا، انہیں نذر آتش کردیا اور وہاں موجود ایک انصاری معبد بن عمرو اور ان کے ساتھی کو شہید کردیا- ابو سفیان نے سمجھا کہ اس نے اپنی قسم پوری کر دی ہے- آپ (ﷺ) کو اطلاع ملی تو آپ (ﷺ)200 مہاجرین اور انصار کو ساتھ لے کر ابو سفیان کے تعاقب کے لیے نکلے- ابو سفیان اور اس کے ساتھی سر پر پاؤں رکھے بھاگے چلے جارہے تھے- مسلمانوں کو تعاقب میں ستو کی گری ہوئی بوریاں بطور غنیمت ملیں - ستو کو عربی میں سویق کہتے ہیں اس لیے اس غزوہ کا نام سویق مشہور ہوگیا-

غزوہ ذی امر / غطفان:

یہ جنگی سفر آپ (ﷺ) کے زیر قیادت 3ھ میں پیش آیا - آپ (ﷺ) کو محکمہ جاسوسی نے اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جماعت مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اکھٹی ہورہی ہے- جب دشمن کو لشکر مدینہ کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ آس پاس کی پہاڑیوں میں چلے گئے- آپ (ﷺ) نے وہاں پر رعب و دبدبہ قائم کرنے اور مسلمانوں کی طاقت باور کروانے کے لیے تقریباً پورا ماہ صفر کا وہیں بسر کیا- بعض علماء سیرت نے اس بات کی  تصریح کی ہے کہ یہ غزوہ ربیع الاول میں ہوا-[23]

غزوہ الفرع:

حضور نبی کریم (ﷺ) کو اطلاع ملی کہ بنی سلیم بن منصور نے ایک لشکر اکھٹا کیا ہے اور وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے- آپ (ﷺ) 300 مجاہدین کو ساتھ لیکر ان کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے حضور (ﷺ) کی آمد کی خبر سن کر وہ سب آگے پیچھے ہوگئے -آپ (ﷺ) بخیر و عافیت مدینہ واپسی تشریف لے آئے-

غزوہ بنو قینقاع:

یہ غزوہ ہجرت سے 20 ماہ بعد ماہ شوال میں وقوع پذیر ہوا- اس غزوے کا پس منظر مسلمان خاتون کے ساتھ بد تمیزی اور ایک مسلمان کو شہید کرنا تھا- آپ (ﷺ) نے بغیر کسی تاخیر کے بنو قینقاع کی بستی کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا - ان کا محاصرہ شوال کی 15 تاریخ بروز ہفتہ شروع ہوا جو 15 روز جاری رہا- اللہ پاک نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تو آپ نے انہیں 3 دن کے اندر مدینہ سے نکلنےکی مہلت دی- یہ لوگ شام میں جاکر آباد ہوئے لیکن کچھ عرصے بعد ان کا نام و نشان بھی مٹ گیا   -[24]

غزوہ احد:

3ھ میں جب غزوہ بدر کو سال پورا ہوا[25]تو کفار کا لشکر جو 3 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہوا-آپ (ﷺ)نے اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا اور مدینہ سے باہر نکل کر سامنا کرنے کا فیصلہ ہوا- اس غزوہ میں 70مسلمان شہید ہوئے جن میں آپ (ﷺ) کے چچا حضرت امیر حمزہ (رضی اللہ عنہ)بھی شامل تھے ۔

غزوہ حمراء الاسد:

آپ (ﷺ) نے احد کے اگلے ہی روز اتوار کو صبح مسلمانوں کو جمع فرماکر کفار کے تعاقب میں جانے کا عندیہ دیا -اگرچہ مسلمان زخموں سے چور چور تھے لیکن سرکار (ﷺ) کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے نکل پڑے - آپ (ﷺ) جب حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو یہیں رک گئے جب اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ وہ واپس مکہ چلے گئے ہیں تو آپ (ﷺ) واپسی مدینہ تشریف لے آئے-

غزوہ بنو نضیر :

غزوہ احد کے بعد بنو نضیر کھلم کھلا عداوت و بد عہدی پر اتر آئےکہ انہوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) پر چکی گرا کر آپ کو  شہید کرنے  کا منصوبہ بنالیا جبکہ آپ (ﷺ) اس وقت ان کے پاس مذاکرات کیلیے موجود تھے- آپ (ﷺ) کو حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے خبر مل گئی، آپ (ﷺ)  نے صحابہ کرام کو یہود کے ارادوں کی خبر دی- آپ (ﷺ) نے انہیں مدینہ سے نکلنے کا نوٹس بھجوایا ، نہیں  میں جواب ملنے کے بعد آپ (ﷺ) بنو نضیر کی طرف روانہ ہوگئے اور ان کا محاصرہ کرلیا- ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رعب ڈالا اور محاصرہ کے6 اور بعض روایتوں میں15دن بعد ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے- غزوہ بنو نضیر ربیع الاول 4 ھ میں پیش آیا- [26]

غزوہ ذات الرقاع:

یہ غزوہ بنو نضیر کے بعد جمادئ الثانی میں پیش آیا[27] جب آپ (ﷺ) کو بنو محارب و ثعلبہ کی جنگی تیاری کی اطلاع ملی نیز عامر بن طفیل نے غداری کر کے 70 جلیل القدر صحابہ کو شہید کردیا تھا -آپ (ﷺ) نے اپنے 400 مجاہدین کے ساتھ ان کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے- جب ان قبائل کو آپ (ﷺ) کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے نوجوانوں اور آس پاس کے قبائل کو جمع کرلیا- پہل کسی نے نہ کی- کچھ دن فریقین آمنے سامنے رہے لیکن جنگ کی نوبت نہ آئی اور آپ (ﷺ) بخیر و عافیت مدینہ پلٹ آئے-

غزوہ بدر الصغریٰ:

غزوہ احد سے واپسی پر ابو سفیان نے آپ (ﷺ) کو چیلنج دیا تھا کہ ایک سال بعد ہمارا اور تمہارا مقابلہ بدر میں ہوگا اور آپ (ﷺ) نے اس کے چیلنج کو قبول کیا- غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر آپ (ﷺ)نے تین ماہ مدینہ میں بسر کیے اور شعبان میں بدر کی طرف 1500 جانثاروں کے ساتھ روانہ ہوئے-ابو سفیان مکہ سے2 ہزار کا لشکر لےکر نکلا لیکن مجنہ کے مقام پر اہل لشکر کو قائل کرلیا کہ واپس لوٹ جانا چاہئے مسلمان نہ آئیں گے- آپ نے 8 روز لشکر قریش کا انتظار کیا - پھر بحفاظت مدینہ تشریف لے آئے-

غزوہ دومتہ الجندل:

اس غزوہ سے پہلے تک آپ (ﷺ) کی تمام عسکری سرگرمیوں اور مہمات کا دائرہ کار مدینہ کے گردو نواح اور نجد تک تھا- پہلی دفعہ مجاہدین اسلام روم نے  ایک اہم صوبے شام کے ایک سرحدی شہر دومتہ الجندل کا قصد کیا- چنانچہ 5 ھ کے ربیع الاول کے مہینے[28] میں آپ (ﷺ) ایک ہزار مجاہدین اسلام کی معیت میں دومتہ الجندل کی جانب روانہ ہوئے- یہ مسافت 15دن کی تھی- لشکر اسلام جب اس علاقے کے قریب پہنچا تو ہر طرف بکریوں کے ریوڑ اور اونٹوں کے گلے چر رہے تھے، کوئی آدمی دکھائی نہ دیا-آپ (ﷺ) نے چند روز وہاں قیام کیا اور 20 ربیع الثانی کو مراجعت فرمائی-

غزوہ مریسیع/ بنی مصطلق:

یہ جنگی سفر 5ھ میں پیش آیا- اس غزوہ کا محرک یہ اطلاع تھی کہ بنو مصطلق کے رئیس حارث بن ابی ضرار نے اپنی قوم کے جوانوں اور اور دیگر قبائل کو مسلمانوں پر حملہ کے لیے تیار کیا ہے -تصدیق کے بعد آپ (ﷺ) شعبان کےماہ میں اپنے مجاہدین کو لے کر روانہ ہوئے - جب پیغمبر اسلام کے آنے کی خبر ہوئی اردگرد کے لوگ بھاگ گئے اور حارث اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا- آپ (ﷺ) مریسیع پہنچے تو چشمےکے پاس آپ (ﷺ) کا خیمہ نصب کیا گیا- مجاہدین اسلام کی صفیں آراستہ کی گئیں ، پہلے تیر اندازی ہوتی رہی پھر آپ (ﷺ) نے یکبارگی حملے کا حکم دیا- دشمن پسپا ہوئے اور آپ (ﷺ) فتحیاب ہوکر لوٹے-[29]

غزوہ بنو قریظہ:

غزوہ خندق کے بعد آپ (ﷺ) اپنے صحابہ کے ساتھ گھر وں کو پہنچے ہی تھے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور حکم خداوندی سنایا کہ جب تک بنو قریظہ کا خاتمہ نہ ہوجائے ہتھیار اتارنے کی اجازت نہیں- چنانچہ مسلمان اپنے ہتھیار سجائے گھروں سے نکلے- لشکر جلد ہی بنو قریظہ پہنچا -25دن محاصرہ جاری رہا جب وہ کوئی فیصلہ نہ کرپائے تو انہوں نے سعد بن معاذ کو حکم مقرر کرنے کی سفارش کی جو آپ (ﷺ) نے قبول فرمالی غزوہ خندق و بنو قریظہ سے 5 ھ کے آخری مہینے ذو الحجہ میں فراغت ہوئی-

غزوہ بنی لحیان و غزوۃ الغابہ:

آپ (ﷺ) نے ربیع الاول 6 ھ[30] میں رجیع کے مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے دوسو صحابہ کی معیت میں بنو لحیان کا رخ کیا- ان کو بھی آپ (ﷺ) کی آمد کی خبر ہوگئی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف بھاگے اور ان کا کوئی بھی آدمی گرفت میں نہ آسکا-آپ (ﷺ) نے 2 روز قیام کیا- کُل 14دن مدینہ سے باہر رہ کر آپ (ﷺ) تشریف لائے-

بنو لحیان سے واپسی پر دو تین راتیں ہی گزریں کہ عیینہ بن حصن فزاری نے مدینہ سے کچھ فاصلے پر الغابہ نامی چراگاہ جہاں آپ (ﷺ) کی شیردار اونٹیاں چرا کرتی تھیں- چند سواروں کے ساتھ حملہ کردیا ، آپ (ﷺ) کو علم ہوا تو آپ (ﷺ) بھی روانہ ہوگئے- صحابہ نے انتہائی سرعت سے کاروائی کی خاص کر حضرت سلمہ بن اکوع نے آپ (ﷺ) کی اونٹنیاں واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا-

عمرہ کیلئے سفر (غزوۃ الحدیبیہ):

ذو القعدہ 6ھ [31]میں حضور اقدس (ﷺ) عمرے کی نیت سے مکہ کی جانب تشریف لے گئے کسی قسم کی لڑائی پیش نظر نہ تھی- قریش کو جب آپ (ﷺ) کی روانی کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے کہ عمرہ صرف ایک بہانہ ہے اصل مکہ پر قبضہ کرنا ہے- انہوں نے حضور نبی کریم(ﷺ) کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے 200سواروں کا خالد بن ولید کو کراع النعیم کی طرف بھیج دیا - آپ (ﷺ) نے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے مشہور راستہ چھوڑ کر ایک نہایت کٹھن اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا اور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے- یہاں مشہور بیعت رضوان بھی ہوئی- سہیل بن عمرو کے ذریعے چند شرائط پر صلح ہوگئی جسے صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے اور جسے اللہ پاک نے فتح کا نام دیا- آپ (ﷺ) نے حدیبیہ میں انیس یا بیس دن قیام فرمایا اور ماہ ذو الحجہ میں مدینہ تشریف لے آئے-

غزوہ خیبر:

آپ (ﷺ) نے محرم 7 ھ  کے ایام میں خیبر کی طرف روانگی فرمائی-[32]آپ (ﷺ) انتہائی رازداری سے سفر کرتے ہوئے رات کو خیبر کے باہر پہنچ گئے- صبح جب اہل خیبر اپنے کام کاج کے لیے نکلے تو لشکر دیکھ کر گڑبڑا گئے اور بھاگے کہ خدا کی قسم محمد (ﷺ)لشکر سمیت آگئے ہیں- قلعے فتح ہوتے رہے یہاں تک کہ ابن ابی الحقیق نے صلح کے لیے بات چیت کی- آپ (ﷺ) نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کر دی کہ پیداوار کا آدھا حصہ یہود کو دیا جائے گا اور جب تک رسول اللہ (ﷺ) چاہیں گے اس برقرار رکھیں گے اور جب چاہیں گے جلاوطن کردیں گے-[33]

غزوہ ذات الرقاع:

آپ (ﷺ) نے قبیلہ انمار یا غطفان کی دو شاخوں بنی ثعلبہ او ر بنی محارب کے اجتماع کی خبر سنی تو فوری طور پر چار یا سات سو صحابہ کرام کی معیت میں نجد روانہ ہوئے- مقام نخل پر بنو غطفان کی ایک جمعیت سے آپ (ﷺ) کا سامنا ہوا لیکن جنگ نہ ہوئی- سنگ دل اعراب کو مرعوب کرنے میں اس غزوہ کا بڑا اثر رہا-

عمرۃ القضاء :

گزشتہ برس یعنی 6ھ میں آپ (ﷺ) عمرہ کی نیت سے تشریف لے گئے تھے لیکن بوجوہ کر نہ سکے اور صلح حدیبیہ واقع ہوئی- اسی عمرہ کی قضاء کیلئے 7ھ ذو ماہ القعدہ میں آپ (ﷺ) صحابہ کے ساتھ عازم مکہ ہوئے- تین دن مکہ میں قیام فرمایا اور چوتھے دن واپس روانہ ہوئے-[34]

فتح مکہ:

20 رمضان المبارک 8ھ فتح مکہ کا دن تاریخ انسانیت کا مقدس و مبارک دن ہے، جس نے کفر کے ایوانوں کو نیست و نابود کردیا - آپ (ﷺ) مکہ تشریف لائے اور تاریخی الفاظ ارشاد فرمائےلاتثریب علیکم الیوم -اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عظیم فتح کا ذکر سورہ نصر میں کیا ہے-

غزوہ حنین و غزوہ طائف:

بنو ہوازن اور ثقیف اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ اوطاس کے مقام پر مقابلے کے لیے جمع ہوئے - رمضان8 ھ  میں آپ (ﷺ) مکہ تشریف لائے تھے اب شوال میں ہی مکہ سے کوچ فرمایا آپ (ﷺ) کے ساتھ 12 ہزار کی فوج تھی، دشمن کو شکست ہوئی-اس غزوہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں کیا ہے-غزوہ طائف، غزوہ حنین سے ہی منسلک ہے- غزوہ حنین کے بیشتر افراد مالک بن عوف کے ساتھ طائف میں ہی آئے تھےاور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے-لہٰذا آپ (ﷺ) نے حنین سے فارغ ہوکر ماہ شوال8ھ میں طائف کا رخ کیا [35]اور قلعہ طائف کا محاصرہ کرلیا- مسلمانوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کئی مسلمان شہید بھی ہوئے- آپ (ﷺ) نے باہم مشورہ سے محاصرہ اٹھا دیا-

عمرہ جعرانہ :

غزوہ حنین سے حاصل ہونے والا مال غنیمت آپ (ﷺ) نے غزوہ طائف کے بعد جعرانہ کے مقام پر تقسیم فرمایا اور پھر عمر ہ کے لیے تشریف لے گئے ، آپ (ﷺ) کا یہ سفر عمرہ بھی ماہ ذوالقعدہ میں ادا ہوا-[36]

سفر تبوک:

غزوہ تبوک آپ (ﷺ) کی زندگی کا آخری غزوہ ہے جو ماہ رجب 9ھ  میں وقوع پزیر ہوا-[37]مسلمانوں کو یہ متواتر یہ خبریں پہنچ رہی تھیں رومی مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کررہے ہیں -آپ (ﷺ)نے دقت نظری سے کام لیتے ہوئے اس عسرت کے باوجود سامنا کرنے کا فیصلہ کیا- آپ (ﷺ) تبوک پہنچے تو رومی لشکرا ور ان کے حلیفوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور ٹکر لینے کی ہمت نہ ہوئی- اسلامی لشکر تبوک سے فتح یاب لوٹا-

حجۃ الوداع :

10ھ ماہ ذو القعدہ کی 25 تاریخ کو بعد نماز ظہر آپ (ﷺ) حج کے لیے سفر پر روانہ ہوئے [38] اور آٹھ دن سفر طے کر کے 4 ذو الحجہ کو مکہ مراجعت فرما ہوئے- پہلے عمرہ ادا کیا - لیکن احرام نہیں کھولا اور اسی احرام سے حج کے افعال ادا فرمائے- 9ذو الحجہ کو مقام عرفات میں جبل رحمت پر آپ (ﷺ) نے تاریخ ساز خطبہ دیا جسے ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے- اس سفر سے واپسی کے بعد آپ (ﷺ)  سفر آخرت کیلیے روانہ ہوئے-

حضور نبی کریم (ﷺ) کے اسفار جہاں آپ (ﷺ) کی زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے روشناس کرواتے ہیں وہیں امت کے لیے السفر وسیلۃ الظفر(عربی کہاوت) کی عملی تصویر بھی پیش کرتے ہیں - ضرورت اس امر کی ہے آپ (ﷺ) کے سفر میں اپنائے گئے اور سکھائے گئے آداب کا مطالعہ بھی کیا جائے-

خلاصہ  کلام یہ ہے کہ  حضور نبی کریم (ﷺ) کے جتنے بھی اسفار مبارک  ہیں بامقصد اور اسلام کی سربلندی کیلئے   تھے-پس   ہمیں  فرمان رسول  (ﷺ) ’’عليكم بسنتی‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر کام کو بامقصد اور دین اسلام کی سربلندی کیلئے  کرنا چاہئے -

٭٭٭


[1]البصری، عبد الملک بن ہشام،السیرۃ النبویۃ، دار الکتاب العربی،  بیروت، 1410ھ، ج: 1، ص: 160

[2]ابن سید الناس، محمد بن عبداللہ، عيون الاثر في فنون المغازي والشمائل والسير، دار القلم، بیروت، 1414ھ، ج1 ، ص: 33

[3]عيون الاثر في فنون المغازي والشمائل والسير، ج:1، ص:47

[4]الشامی، محمد بن یوسف،سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد،دار الكتب العلمية ،بيروت،1414ھ، ج:2 ، ص: 139

[5]السھیلی ، عبد الرحمٰن بن عبداللہ،الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام ، دار إحياء التراث العربي، بيروت، 1421ھ، ج:3، ص:140

[6]سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج:2، ص:152

[7]الحلبی، علی بن برھان الدین، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون،دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1427 ، ج: 1، ص: 193

[8]النیسابوری ، الحاکم، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ومنھم خدیجۃ بنت خویلد، دار الكتب العلمية - بيروت ، 1411ھ، رقم الحدیث : 4834

[9]الامام ، احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، بقیۃ حدیث وفد عبد القیس، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ،  رقم الحدیث: 15559

[10]عماد الدین، اسماعیل بن کثیر،ابو الفداء، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، 1396ھ، بیروت، ج:2، ص، 155

[11]الحلبی، علی بن برھان الدین، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون،دار المعرفۃ ، 1400ھ، بیروت، ج: 1، ص: 397

[12]سیرۃ الحلبیہ ، ج:1 ، ص:515

[13]القشیری ، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، دار الطباعة العامرة ،  تركيہ ، 1434ھ، ج:1 ، رقم الحدیث: 259

[14]منیٰ اور مکہ کے درمیان ایک اونچا ٹیلہ ہے جو عقبہ کے نام سے موسوم ہے یہاں سے مکہ دو میل کے فاصلے پر  ہے ۔ اس کے قریب ایک مسجد بھی ہے،  یہیں سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں

[15]عماد الدین، اسماعیل بن کثیر،ابو الفداء، السیرۃ النبویۃ(فصول فی السیرۃ)، مؤسسة علوم القران، 1403ھ ، ص، 112

[16]الروض الأنف ، ج: 4، ص:152

[17]الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد، ج: 4، ص: 14

[18]ابن سعد ، محمد بن سعد ، الطبقات الكبرى، دار الكتب العلمية، بيروت، 1410ھ، ج:2، ص:6

[19]البصری، عبد الملک بن ہشام،السیرۃ النبویۃ،  دار الکتاب العربی، بیروت، 1410ھ، ج: 1، ص: 598

[20]السیرۃ النبویۃ(فصول فی السیرۃ)،ص:139

[21]سیرۃ الحلبیہ ، ج:2 ، ص:280

[22]الروض الانف ، ج:5، ص: 271

[23]الروض الانف ، ج:5، ص:274

[24]ازھری،ضیاء النبی ، ج: 3 ، ص:440

[25]البیہقی ، ج:3 ، ص: 201

[26]الطبقات الکبریٰ ،ج:2، ص:43

[27]ازھری،ضیاء النبی ، ج: 3 ، ص: 634

[28]السیرۃ النبویۃلابن ہشام ، ج:2،ص:213

[29]مبارکپوری، صفی الرحمٰن، الرحیق المختوم، مکتبہ سلفیہ،  لاہور، 1421ھ، ص:443

[30]الطبقات الکبریٰ ،ج:2، ص:60

[31]دلائل النبوۃ للبیھقی ،ج:4، ص:91

[32]سیرۃ الحلبیہ ، ج:3، ص:45

[33]السیرۃ النبویۃلابن ہشام ، ج:2،ص:356-357

[34]الطبقات الکبریٰ ،ج:2، ص:92

[35]الروض الانف ، ج:7، ص:274

[36]السیرۃ النبویۃ(فصول فی السیرۃ)،ص:209

[37]سیرۃ الحلبیہ ، ج:3 ، ص:183

[38]ایضاً،  ص:360

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر