تفریح طبع اور جسمانی ورزش : تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں

تفریح طبع اور جسمانی ورزش : تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں

تفریح طبع اور جسمانی ورزش : تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد ستمبر 2024

تفریح طبع:

جیسا کہ نام سے واضح ہے، تفریح ایک ایسا عمل یا حالت ہے جس کے ذریعے انسان اپنی ذہنی و جسمانی حالت کو خوشگوار اور مسرور بناتا ہے- تفریح طبع کا مقصد مناسب و جائز حدود میں رہتے ہوئے ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جو خوشی اور مسرت کا باعث بنیں اور جو انسان کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نہایت ضروری ہیں- یہ عمل مختلف سرگرمیوں جیسے کھیل، سیر و سیاحت وغیرہ کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے-

تفریح کا مفہوم :

 تفریح عربی زبان کا لفظ ہے- لغت’’لسان العرب“ میں لکھا ہے:

’’فرح غم کا ضد ہے اور یہ دل کا ہلکا پن ہے ‘‘-[1]

خوشی اور فرحت و اطمینان ایک اچھی کیفیت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ وَيَوْمَئِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُـوْنَ ‘‘[2]

’’ اور اس دن مؤمن خوش ہوں گے‘‘-

 اہمیت:

جائز حدود میں تفریح طبع کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ نہ صرف انسان کی روزمرہ زندگی کی یکسانیت کو ختم کرتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی کو بھی بہتر بناتی ہے- تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ افراد جو باقاعدگی سے تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، زیادہ خوش باش اور متحرک رہتے ہیں-

تفریح کی مختلف اقسام :

جسمانی تفریح :

جیسے صحت افزاء کھیل کود، ورزش وغیرہ، نہ صرف انسان کو جسمانی طور پر مضبوط بناتی ہیں بلکہ ذہنی سکون بھی فراہم کرتی ہیں-

ذہنی تفریح :

 ذہنی مشغولیات، جیسے کتابیں پڑھنا، قرآن سننا نئی چیزیں سیکھنا، شاعری و ادب پڑھنا اور ریاضی اور منطق کے سوالات حل کرنا، دماغی تناؤ کو کم کرتی ہیں اور ذہنی تندرستی میں اضافہ کرتی ہیں-

سماجی تفریح :

 دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا، تقریبات میں شرکت کرنا اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا انسان کو تنہائی سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کی سماجی زندگی کو بھرپور بناتا ہے-

 اسلامی نقطہ نظر :

 اسلامی تعلیمات میں بھی تفریح کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے- آقا کریم (ﷺ)کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ صحت مند روح کا قیام ایک صحت مند جسم میں ہی ممکن ہے-

 تفریحی کھیل اور تعلیمات نبوی ():

کائنات کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بہتر زندگی گزارنا سنت رسول (ﷺ)ہے- اسلام زندگی کی دلچسپیوں سے مکمل قطع تعلق کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ اسلام صرف عبادت اور خشیت کا نام نہیں، بلکہ اس میں کھیل، تفریح اور خوشی بھی شامل ہے- رسول اللہ(ﷺ) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی زندگیاں جہاں عبادت، زہد اور تقویٰ کی مثال ہیں، وہاں خوش دلی اور تفریح کی بھی ایک مثال ہیں- آقا کریم (ﷺ) کی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی تفریحی سرگرمیاں موجود تھیں، جن کا مشاہدہ آپ (ﷺ)نے خود فرمایا- سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں:

’’میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تو کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میرے پاس رسول اللہ (ﷺ) آتے اور میرے پاس سہیلیاں ہوتیں تو وہ چلی جاتیں- پھر جب آپ چلے جاتے وہ داخل ہوتیں‘‘-[3]

ایک اور روایت میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں :

’’ہر سال اہل جاہلیت دو مخصوص دنوں میں کھیلا کرتے- جب رسول اللہ (ﷺ) مدینہ طیبہ تشریف لائے آپ (ﷺ) نے فرمایا : تمہارے بھی دو ہی دن ہیں جن میں کھیلتے ہو-ان دونوں کے بدلے اللہ تعالیٰ نے دو بہتر دنوں کو مقرر فرمایا ہے یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی‘‘-[4]

اسی طرح جب رسول اللہ (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو حبشیوں نے استقبال میں اپنا کھیل پیش کیا - سیدنا انس (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:

’’جب رسول اللہ (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو آپ (ﷺ) کے آنے کی خوشی میں حبشیوں نے برچھیوں کے ساتھ اپنے کھیل کو پیش کیا ‘‘-[5]

 جسمانی ورزش :

 جسمانی ورزش صحت مند زندگی گزارنے کا ایک اہم جزو ہے، جس میں ایسی جسمانی سرگرمیاں شامل ہیں جو جسم کو متحرک کرتی ہیں- اس کے نتیجے میں جسمانی فٹنس، قلبی صحت اور مجموعی صحت میں نمایاں بہتری آتی ہے-

 لغوی معنی :

 جسمانی ورزش کا لفظی مطلب ہے جسم کی مشقتی حرکت- یہ اصطلاح عموماً ایسی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو جسم کو فعال اور مضبوط بناتی ہیں-

ضرورت و اہمیت :

جسمانی ورزش انسانی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے؛ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے- روزمرہ کی زندگی میں ورزش کرنے سے دل کی صحت میں بہتری آتی ہے، مختلف بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوتا ہےاور انسان ہمیشہ صحت مند رہتا ہے-

جسمانی ورزش کی اقسام :

یروبک ورزش :

اس میں دوڑنا، سائیکل چلانا اور تیراکی شامل ہیں جو دل اور پھیپھڑوں کو صحت مند بناتی ہیں-

انہانسمنٹ ورزش :

انہانسمنٹ ورزش دراصل ایسی ورزشوں اور تکنیکوں کو کہتے ہیں جو جسمانی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں- ان کا مقصد جسمانی قوت، برداشت، لچک اور مجموعی صحت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے-

مزاحمتی ورزش:

 مزاحمتی ورزش میں وزن اٹھانا جیسی سرگرمیاں شامل ہیں جو جسم کی مضبوطی کے لیے کی جاتی ہیں-

اختلافی ورزش:

کراس فٹ اور HIIT (ہائی اینٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ) ایسی ورزشیں ہیں جو جسم کے مختلف حصوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ سٹمنا اور انڈیورینس کو بڑھاتی بناتی ہیں-

جسمانی ورزش و تعلیمات نبوی ():

 اسلام میں جسمانی ورزش کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی زندگی میں مختلف جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم دی- عہد رسالت میں مختلف اقسام کے کھیل کود کے بارے میں روایات ملتی ہیں جو جسمانی ورزش کا ذریعہ بنتے تھے-

فوجی کھیل :

 سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں :

’’آپ (ﷺ) اپنی چادر سے مجھے پردہ دے رہے تھے اور مَیں مسجد میں حبشیوں کے ہتھیاروں کے کھیل کو دیکھ رہی تھی‘‘-[6]

نشانہ بازی:

 نشانہ بازی کی مختلف ادوار میں مختلف شکلیں رہی ہیں، خواہ وہ تیر کے ذریعے ہو یا اس دور میں جدید ہتھیاروں کے ذریعے- اس کی تعلیم کو اجر اور ثواب کا باعث قرار دیا گیا ہے- یہ کھیل نہ صرف جسمانی فوائد فراہم کرتا ہے بلکہ دشمن کے مقابلے میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے-

رسول اللہ (ﷺ) نے قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی ہے- آپ (ﷺ) نے  ارشاد فرمایا:

’’خبردار قوت سے مراد تیراندازی ہے‘‘-[7]

گھڑ سواری:

 گھڑ سواری انسانی جسم کو ورزش کے ساتھ ساتھ ہمت، جرأت اور بلند حوصلگی کی خصوصیات عطا کرتی ہے- عرب میں گھڑ سواری کو ایک عمدہ تفریحی عمل شمار کیا جاتا تھا، جس کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے تھے- گھوڑوں کی دوڑ کے یہ مقابلے مختلف فاصلوں پر ہوتے تھے، جیسے آج کل مختلف میٹروں کی دوڑ ہوتی ہے- رسول اللہ (ﷺ) خود گھوڑوں کی دوڑ کے فاصلوں کو متعین فرماتے تھے-

’’رسول اللہ (ﷺ) نے تربیت یافتہ گھوڑوں کیلئے حفیا نامی مقام سے ثنیۃ الوداع کے درمیان 6 میل کی مسافت اور غیر تربیت یافتہ کی مسافت ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقرر کی‘‘-[8]

حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا:

’’گھڑ سواری کرو، اس سے جسمانی طاقت اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے ‘‘-[9]

دوڑ :

آج کے دور میں بھی دوڑ، جسمانی ورزش کا سب سے بہترین ذریعہ ہے - رسول اللہ (ﷺ)بھی دوڑ جیسی جسمانی ورزش کے عمل میں شرکت فرماتے-

سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں :

’’میں رسول اللہ (ﷺ)کے ساتھ شریک سفر تھی - ہم نے باہم دوڑ لگائی اور میں آگے نکل گئی ایک عرصہ بعد پھر ایک سفر میں ہم نے دوڑ لگائی اس دوڑ میں آپ (ﷺ) نے مجھ پر سبقت حاصل کی آپ (ﷺ)نے یہ بھی فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے‘‘ -[10]

تیراکی :

 تیراکی ایک بہترین جسمانی ورزش ہے جو جسم کے تمام اعضاء کو فعال کرتی ہے- رسول اللہ (ﷺ)نے مردوں کو تیراکی کی تلقین فرمائی- تیراکی کے متعلق آپ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’مرد مؤمن کا بہترین مشغلہ تیراکی جبکہ عورت کا سوت کاتنا ہے ‘‘-[11]

آپ (ﷺ) نے نہ صرف مردوں کو تیراکی جیسے عمل کی تلقین کی بلکہ خود بھی تیراکی سیکھی- آپ (ﷺ) نے اپنے تیراکی سیکھنے کے واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

” جب رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے بچپن میں پیش آنے والے واقعہ کا تذکرہ کیا تو بنو نجار کے تالاب پر آپ (ﷺ)کی نظر پڑی تو اسے پہچان لیا- فرمایامَیں اس تالاب میں تیرتا اور بچوں کے ساتھ مل کر ان پرندوں کو اڑاتا جو یہاں پر بیٹھ جاتے “-[12]

لہٰذا تیراکی جیسے عمل کو آپ (ﷺ) نے بچپن سے ہی اپنا لیا تھا اور یہ آج کے جدید دور میں بھی ورزش کا اہم ذریعہ ہے-

حرف آخر :

دینِ اسلام نے حضرت انسان کیلئے ایک جامع ضابطۂ حیات پیش کیا ہے، جو دنیاوی اور دینی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی تعلیمات اور سنت کے ذریعے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی عطا فرمائی، جن میں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش بھی شامل ہیں- آپ (ﷺ) نے اپنی زندگی میں ان دونوں پہلوؤں کا بہترین نمونہ پیش کیا اور اپنی امت کو بھی ان کی ترغیب دی-

اس لئے ضروری ہے کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ)کی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اپنی زندگی میں تفریح اور ورزش کو شامل کریں- اس طرح نہ صرف ہماری جسمانی اور ذہنی صحت میں بہتری آئے گی بلکہ ہم ایک بہتر اور متوازن زندگی کی طرف قدم بڑھا سکیں گے-

٭٭٭


[1]( ابن منظور محمد بن مکرم ، لسان العرب، ج:2، ص :441)

[2](الروم : 4)

[3](سنن ابوداؤد، كتابُ الادب)

[4](سنن نسائی، رقم الحدیث: 15562)

[5](سنن ابوداؤد ، رقم الحدیث: 4923)

[6](صحيح بخاری، کتاب العدين )

[7](سنن ترمذی، کتاب التفسیر القرآن)

[8](صحیح بخاری، کتاب الصلوٰة )

[9]( سنن نسائی، رقم الحدیث: 8917 )

[10](سنن ابوداؤد، کتاب الجہاد)

[11](شعب الایمان، رقم الحدیث:824)

[12]( الطبقات الكبرٰى، ج: 1،  ص: 116)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر