بلاشبہ حضرت محمد (ﷺ) ربطِ عام رکھتے-ربطِ عام سے مراد تمام شعبہ ہائے زندگی کے عام لوگوں سے تعلق اور انہیں راغب کرنےکی صلاحیت ہے اور یہ بطورِ قائد آپ کےلیے مرکزی حیثیت رکھتی تھی- لوگ آپ کی پیروی کرنا پسند کرتے کیوں کہ وہ آپ سے ایک گہرا تعلق محسوس کرتے- وہ جانتے تھے کہ آپ بلاشبہ مختلف ہیں- آپ انتہائی محتاط راست طرزِ عمل کے ساتھ ایک پیغمبر اور ایک قائد تھے لیکن آ پ نے کبھی(دوسروں پر) برتری کا تاثرقائم نہ کیا اور بہت پہلوؤں میں عام دل چسپیوں کے ساتھ ایک نارمل انسان دکھائی دیتے جو دیگر لوگوں کی طرح بہت سی چیزوں پر مسکرائے اور غمگین ہو اورپسندو ناپسند رکھے-
مثال کے طور پر روایت ہے کہ آپ نے کُشتی کی تعریف فرمائی اور اپنی بڑی عمر مبارک میں اس سے بھرپور لطف اٹھایا جسے بالکل ایک دنیوی سرگرمی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے- پچاس برس کی عمر مبارک میں آپ کا سامنا قبیلہ قریش کے مضبوط ترین فرد رکانہ ابن ابویزید ابن ہاشم ابن عبدالمطلب ابن عبد مناف سے ہوا- آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی - رکانہ نے آپ کے دینِ حق کے پیغام کی حقانیت جاننا چاہی- یہ طے ہوا کہ اگر حضور اسے کشتی میں پچھاڑ دیں تو وہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لے گا- آپ نےاسےکشتی میں دو نوں مرتبہ پچھاڑ دیا جس پر وہ ششدر رہ گیا- آج کے بہت سارے مسلمانوں کو اِس قصے کا کم علم ہے جب کہ ایک مشہور حدیث زیادہ معلوم ہے جوکہ حضور کی روزمرہ کی اشیا ءسے اخلاقی و روحانی آگہی بخشنے پر مبنی ہے کہ پہلوان وہ نہیں جو کشتی میں غالب آ جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے-
آقا کریم (ﷺ) نے گھوڑے اور اونٹ کی دوڑ بھی لگائی اور اسی طرح عوامی مقابلہ جات کا انعقاد بھی کیا اور بعض اوقات انعامی رقم اپنے ہاں سے عطا فرمائی- تربیت یافتہ گھوڑے حفیاء اور الوداع کے مابین چھ میل دوڑتے تھے جب کہ غیر تربیت یافتہ گھوڑے ثنیۃ الوادع اور بنو زریق کی مسجد کے مابین ایک میل دوڑتے تھے- بعد میں حضور نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا کہ مَیں گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار پھلانگ گیا- ایک حدیث مبارکہ ایسے مقابلوں کے ماحول کی منظر کشی کرتی ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) کی ایک اونٹنی عضباء تھی جسے مقابلہ میں پچھاڑنا قریباً ناممکن تھا- پھر ایک دیہاتی اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر آیا جو اس (اونٹنی) سے چھ سال چھوٹا تھا-مقابلے میں یہ اونٹ اس اونٹنی (عضباء ) سےآگے نکل گیا اور مسلمانوں پر نتیجہ بڑا شاق گزرا- حضور نبی کریم (ﷺ) کے سامنے یہ بات آئی تو آپ (ﷺ) نے (انہیں سمجھانے کے لیے) فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ جو چیز بھی بلند ہوتی ہے وہ اسے پست کردیتا ہے“-
حضور نے تیر اندازی کو پرلطف اور فائدہ مند مشغلہ قرار دیا جسے نوجوانوں کو سیکھنا چاہیئے- آپ نے خود بھی اسے اپنایا اور اپنی حیات طیبہ میں اسے اپنایا-
آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ تیراندازی کرو اور گھڑسواری کیا کرو اور تمہارا تیراندازی کرنا مجھے(گھڑسواری سے ) زیادہ محبوب ہے -مسلمانوں کے لیے لہوِ دنیا میں مشغول ہونا ناجائز ہے مگر تیراندازی ، گھوڑے کی تربیت اور بیوی کے ساتھ اچھا وقت گزارنےکے کہ یہ برحق ہیں -
آپ (ﷺ)نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے تیر اندازی کا فن سیکھا، پھر اس سے بیزار ہوگیا اور اسے ترک کر دیا تو یہ ایک نعمت تھی جس کی اس نے ناشکری کی-
قدرتی طور پر تیر اندازی کا ایک واضح فائدہ تھا-عرب جنگوں میں تیر سے لگے زخم تلواروں اور نیزوں سے زیادہ لوگوں کو قتل اور معذور بناتے- جنگ کی تیاری میں آپ نےایک بار ترغیب فرمائی کہ زیادہ سے زیادہ قوت سے جمع کر کے دشمن کا سامنا کرو- جان لو کہ قوت تیراندازی میں ہے- جان لو کہ قوت تیراندازی میں ہے- جان لو کہ قوت تیر اندازی میں ہے-آپ نےمزید فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی تیر اندازی کی مشق ترک نہ کرے-
گھڑ دوڑ اور تیراندازی میں پائے جانے والی مہارت ، تربیت اور ان اہم عسکری سرگرمیوں میں کمال کی نمو کے بے پناہ معاشرتی فوائد پر حضور نے ان سرگرمیوں کی علیحدہ حیثیت رکھی- ایک حدیث مبارک میں رسول اللہ (ﷺ) مطابق صرف اونٹ بھگانے میں، گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں انعام واکرام جائز ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ)نے وجدانی طور پر یہ جانا کہ آپ کادوسروں سے ایک مؤثر قائد اور کارکن کے تعلق کو پیدا کرنا ایک مساوی معاشرے(Egalitarian Society) کی تشکیل کے لیے ضروری ہے جس میں ہر کوئی ترقی کرتی خوشحال ریاست سے فائدہ اٹھائے جس میں آپ جلوہ گر ہوں اور سب کی آپ تک رسائی ہو-
آپ (ﷺ)کے نزدیک تعلق کی بہت اہمیت ہے- آپ گلی سے گزرتے ہوئے ہر ایک سے ملتے حتیٰ کہ کھیلتے ہوئے بچوں سے بھی اور ہر ایک کسی کو خاص کر کمزور اور غریب لوگوں کو وقت عطا فرماتے -
ایک مرتبہ ایک خاتون جس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا اس نےحضور نبی کریم (ﷺ)سے عرض کی کہ آپ باہر تشریف لا کر اس کی بات سن لیں-اس کے کہنے کے مطابق آپ نے اس سے بات فرمائی اورکھڑے ہو کر اس کا مسئلہ سماعت فرماتے رہے-
اسی طرح جب ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو مسلمان غصے ہوئے- حضور (ﷺ) نے انہیں اسے تکلیف پہنچانے یا روکنے سے منع کیا- آپ نے خود پانی کا ڈول منگوا کر اور اس کی جگہ پر بہایا- آپ (ﷺ)نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے فرمایا کہ انہیں چیزیں مشکل کی بجائے آسان بنانےکےلیے بھیجا گیا ہے-ایک حدیث کے مطابق آپ (ﷺ) نے بدو کو آرام سے سمجھایا - بدو نے کہا کہ حضور (ﷺ)پر میرے ماں باپ قربان ہوں کہ آپ اٹھ کر میرے پاس تشریف لائے -آپ نے ملامت فرمائی نہ ہی تنقید فرمائی بلکہ صرف یہ کہا کہ مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں بلکہ یہ اللہ کی یاد اور نماز کے لیے بنائی گئی ہے -
حضور نبی کریم (ﷺ) بچوں سے خصوصی شفقت فرماتے اور اکثر اوقات ان سے کھیلتے اور اپنے کندھوں پر سوار فرماتے - ایک بار اپنے منبر سے صحابہ سے خطاب فرما رہے تھے کہ آپ کے نوا سے حسنین کریمین صغر سنی سے چل رہے تھے- آپ نیچے تشریف لائے، انہیں اٹھایا اور لے کر واپس منبر پر تشریف لے آئے- آپ (ﷺ)کو اپنی نواسی حضرت اُمامہ (رضی اللہ عنہ) بھی بہت پیاری تھیں اور ایک مرتبہ باجماعت نماز کے دوران ان پر لطف و شفقت فرمائی-
رسول اللہ (ﷺ)نے لوگوں کو نماز پڑھائی جبکہ آپ ان کے کندھے پر تھیں جب آپ سجدہ کرتے تو انہیں (زمین پر) بٹھا دیتے تھے جب آپ کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے، آپ نےاسی طرح نماز ختم فرمائی-
حضرت انس ابن مالک (رضی اللہ عنہ) کے ننھے بھائی ابو عمیر کو دیکھا کہ وہ ایک پالتو پرندے سے محبت کرتے ہیں- ان سے حضور ہر بار پرندے سے متعلق استفسار فرماتے- یہ افعال صحابہ کرام کے دلوں پر جاگزیں ہوئے کہ اسلام ہر ایک کیلئے ہے حتیٰ کہ معاشرے کے بالکل غیر اہم اور بے قدر لوگوں کا بھی حضور نے خیال رکھا اور یوں ایک حقیقی ربطِ عام تھا-
٭٭٭