تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور سیرت النبیﷺ سے رہنما اصول

تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور سیرت النبیﷺ سے رہنما اصول

تنظیمِ وقت کا جدید تصور اور سیرت النبیﷺ سے رہنما اصول

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز ستمبر 2024

وقت عظیم عطیۂ خداوندی اور انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کی بازیافت اور تلافی ناممکن ہے- ماضی، حال، مستقبل سب وقت پر منحصر ہے-

جدید دور میں تنظیمِ وقت کیسے کی جائے؟ منظم وبامقصد زندگی کیسے گزاری جائے؟ زندگی کا ہر لمحہ کیسے مؤثر و پائیدار بنایا جائے ؟ اس کیلئے قرآن مجید کی تعلیمات[1] ، اسوہ رسول اللہ (ﷺ) اور تعلیماتِ نبوی(ﷺ) سے واضح ہدایات اور رہنما اصول و ضوابط عطا کیے گئے ہیں -

بلاشبہ صحیح معنوں میں ہدایت و فیض یابی کے حصول اور زندگی بسرکرنے کےتفصیلی قواعد و ضوابط سیکھنے کےلیے سنتِ رسول(ﷺ) کو اپنا رفیق و رہبر بنانا روح ِ ایمان کا بنیادی تقاضا اور اوّلین شرط ہے-

خواہ جدید دنیا ایڈ منسٹریشن و مینجمنٹ کے تمام شعبوں میں بہتری و ترقی کے لحاظ سے بام ِ عروج تک پہنچ جائے پھر بھی آرگنائزیشن اور ایڈمنسٹریشن کے مسلّم ضابطوں اور صحیح اسلوب تک رسائی کے لئے سیرتِ خاتم النبیین (ﷺ) کو روزن ِ دید بنانا پڑتا ہے-

سیرت النبی(ﷺ)کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی سب سے عظیم، کامیاب اوربااثر شخصیت کی حیثیت سے حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنی زندگی کے ہر میدان میں وقت کی اہمیت، وقت شناسی اور تنظیمِ وقت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا- مثلاً ریاست مدینہ کے سربراہ کی حیثیت سے حضور نبی اکرم(ﷺ)نے مینجمنٹ کے لیے جو اقدامات فرمائے ان میں تنظیمِ وقت بہ غایت ِ اولیٰ نظر آتی ہے - [2] اس کے علاوہ معاملات و معمولات ِزندگی میں اعلیٰ و مؤثر ترین تنظیمِ اوقات کے اعتبار سے کرۂ ارض پہ آپ (ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ سے بڑ ھ کر عمدہ و قابل ِ تقلید عملی مثال نہیں مل سکتی- آپ (ﷺ) بیک وقت ایک والد، معلمّ،  شوہر، مبلغ، مدبّر و مفکر،قانون ساز ، ثالث و عادل، فاتح سپہ سالار، سفارتکار، تاجر، سیاسی قائد، ریاست کے بانی، سربراہِ مملکت اور روحانی پیشوا تھے- اس قدر ہمہ جہت و ہمہ گیر شخصیت کسی دوسرے انسان کی نہیں ہوسکتی- جسے دیکھ کر ایک عام آدمی ورطہ حیرت میں رہ جاتا کہ اتنی محدود مدت میں اس قدرہمہ جہت شخصیت کیسے زندگی کے ہر شعبے میں سارے کام انتہائی نظم وضبط،صحیح منصوبہ بندی اور اعتدال و میانہ روی و خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکتی ہے- یہی تو سیرت ِ مصطفےٰ (ﷺ) کا اعجاز اور انفرادیت ہے -

آج دنیا میں تنظیمِ و قت زیادہ تر مغربی طریقوں اور مطالعات پہ مبنی ہے جبکہ رسول اللہ (ﷺ) نے 1400 برس قبل مینجمنٹ کے جن اصولوں اور اقدار کی بنیاد رکھی وہ مینجمنٹ کے مغربی تصورات سے کہیں بڑھ کر قابلِ عمل ہیں [3] تنظیم وقت کے مغربی تصور میں فرد کی صرف مادی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے جبکہ سیرتِ رسول (ﷺ) کا تصور تنظیمِ وقت سماج کی مادی اور اخلاقی وروحانی ضروریات کا بھی احاطہ کرتا ہے- تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ہر کامیابی، عظمت اور جدت ان عناصر سے منسلک ہےجو تنظیمِ وقت میں کام آتے ہیں اور مذکورہ عناصر کے مطابق سیرتِ رسول(ﷺ) تنظیمِ وقت کی تمام تھیوریز پر مقدم ہے-[4]   معاصر مینجمنٹ ماہرین نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو Master of Skillful Time Management کے طور پر تسلیم کیا ہے- امریکہ کی مونٹکلیر سٹیٹ یونیورسٹی  کے پروفیسر یوکسل اسلاندوگن  نے اپنے مضمون:

“The time management in the life of Prophet Muhammad”.

میں لکھا ہے کہ جب ہم تنظیمِ وقت کے تناظر میں حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ)کی زندگی کاجائز ہ لیتے ہیں تو چار اہم اصول ہمارے سامنے آتےہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں اصولوں پر اکثر موجودہ ماہرینِ ٹائم مینجمنٹ کا اتفاق ہے- وہ چار اصول یہ ہیں:

  1. وقت کی قدردانی کے نتیجے میں دستیاب وقت کے ہر حصے کا بہترین استعمال کرنا -
  2. ایک مشن ومقصد کے تحت اقدار میں رہتے ہوئے ہر سرگرمی کیلئے منصوبہ بندی کی ترجیحات -
  3. ٹائم پالیسی یا ٹائم بجٹ قائم کرنا ( ترجیحات کے مطابق کام کی یومیہ ،ہفتہ وار،ماہانہ یا سالانہ تقسیم )-
  4. مختص اوقات کے اندر شیڈول سرگرمیوں کی تکمیل- [5]

حضور نبی کریم (ﷺ) وقت کے پابند اور وقت کے استعمال میں انتہا درجہ محتاط تھے - آپ (ﷺ) نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا  بلکہ ایسا کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی-  [6]اسی طرح آپ (ﷺ) کی زندگی نظم و ضبط اور توازن کا آئینہ دار تھی جس میں کبھی کوئی خلل واقع نہیں ہوا- محققین نے بیان کیا ہے کہ تنظیمِ وقت کے حوالے سے سیرت النبی (ﷺ) سے درج ذیل پانچ اسباق(اصول) وقت کو نتیجہ خیز اور بامقصد بنانے کیلئے انتہائی مؤثر ہیں-

  1. سحر خیزی کو اپنا معمول بنانا
  2. اپنے دن کو نمازِ پنجگانہ کے گرد شیڈول کرنا
  3. ترجیحات کاتعین کرتے ہوئے مستقل مزاجی اختیار کرنا
  4. نیکی (اعمالِ صالحہ )میں عجلت کرنا
  5. دوسروں کے وقت کا احترام کرنا  [7]

وقت کی اہمیت اور تنظیمِ وقت پر احادیث رسول () :

احادیث ِ رسول(ﷺ) میں وقت کی اہمیت و قدردانی اورتنظیم ِ وقت کی زبردست تاکید کی گئی ہے-آقا پاک (ﷺ) کی روز مرہ کی ترتیب (Daily life) [8] میں مختلف سرگرمیوں کیلئے تعین اوقات اس کی ایک عملی مثال ہے جسے اپنا کر کوئی بھی انسان منظم و متوازن زندگی گزار سکتا ہے-

حضور نبی کریم () کا نظامِ اوقات:

نظامِ اوقات(Time Table) تشکیل دینا تنظیمِ وقت کا بنیادی اصول ہے – یہ انسان کو نظم و ضبط کا پابند بناتا اور اس میں وقت کی پابندی ،باقاعدگی اور یکسوئی جیسی عادات پیدا کرتا ہے-  [9]

حضور نبی اکرم(ﷺ) مختلف اوقات میں مختلف کام سرانجام دیتے جس کا مقصد صحیح وقت پر صحیح طریقے سے وہ کام کرنا تھا -اگر تمام امور ایک ہی وقت میں سر انجام دیے جاتے تو اُمت کیلئے ان پر عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے ایک مشکل مثال قائم ہوجاتی -اس لیے آقاپاک(ﷺ) نے مختلف اوقات میں کاموں کی تقسیم فرمائی تاکہ وقت بھی ضائع نہ ہو اور تمام کام بطریق احسن تکمیل پاجائیں- [10]

امام ترمذیؒ نے ’’شمائل ترمذی‘‘ میں سید الشہداء امام عالی مقام حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے حضورنبی کریم (ﷺ) کے روزمرہ کے معمولات اور شب و روز کی مصروفیا ت کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :

”حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے گھر کے اوقات اور معمولات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا- وقت کا ایک حصہ اپنے ذاتی کاموں پر صرف کرتے تھے، دوسرا حصہ گھر والوں کے لیے مخصوص ہوتا تھا اور تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہوتا تھا“-

اپنے اوقات کو کیسے تقسیم کیا جائے؟

حضور نبی کریم(ﷺ) نے ا وقات کی تنظیم اور تقسیم کیلئے صحف ابراہیم ؑ ( سیدنا حضرت ابراہیمؑ پر نازل کردہ آسمانی صحیفہ جس کا قرآن مجید میں بھی ذکر آیا ہے )کی تعلیمات کچھ اس طرح ارشاد فرمائی ہیں:

”عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے، ایک حصہ اللہ تعالیٰ سے مناجات کیلئے ،دوسرا احتسابِ نفس کیلئے ،تیسر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں غور وفکر کیلئے اور چوتھا حصہ اپنے کھانے پینے کی ضروریا ت کیلئے خاص کرے“-

مقاصد و ترجیحات کا قیام :

مقاصد و ترجیحات کا تعین تنظیمِ وقت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر کسی شخص کے سامنے کوئی مشن و مقصد ہوگا تووہ اپنے مقصد کے حصول کی جستجو میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا گوارا نہیں کرے گا بلکہ اس کیلئے وقت کو بہتر طریقے سے منظم کرے گا- تنظیمِ وقت میں مقصد و ترجیحات کا یہ عنصر رسول اکرم (ﷺ) کی حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو کی گئی اس نصیحت میں واضح نظر آتا ہے کہ انہیں جب یمن بھیجا ‘تو ان سے فرمایا :

’’ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں-وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں- جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی- پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی‘‘-[11]

مذکورحدیث میں آقاپاک(ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو ان کے مشن و مقصد اور ترجیحات کے قیام کے متعلق آگاہ فرمایا ہے تاکہ وہ اپنا فریضہ مؤثر و کار گر طریقے سے انجام دے سکیں- [12]

وقت کی صحیح منصوبہ بندی :

زندگی کے میدان میں انسان کی کامیابی کیلئے جو امور شرط کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے ایک منصوبہ بندی بھی ہےجس کا مطلب ہے کہ کیا کیا جائے ،کیسے کیا جائے ،کس کے ذریعے کیا جائے اور کس کی نگرانی میں کیا جائے وغیرہ-[13] اس کا ایک مطلب وقت کو اپنی پسند اور خواہش کے مطابق ترتیب دینا بھی ہے- منصوبہ بندی ہمیں زندگی پہ قابو پانے کا شعور دیتی ہے[14]  اور تنظیم وقت کیلئے منظم منصوبہ بندی کو ایک بنیادی جزو کے طور پہ دیکھا جاتا ہے- یہ کہا جاتا ہے کہ منصوبہ بندی کے بغیر وقت صرف کرنا ایسا ہی جیسے بجٹ بنائے بغیر پیسے خرچ کرنا -برائن ٹریسی (Brian Tracy) کہتا کہ :

“1 minute of planning things saves ten minutes of doing things”.[15]

’’چیزوں کی منصوبہ بندی میں صرف کیا گیا 1 منٹ وہ چیزیں کرنے کےلیے 10 منٹ بچاتا ہے‘‘-

زندگی کے ہر معاملے میں پہلے سے سوچنا اور اس کی منصوبہ بندی کرنا نہ صرف حکمت کا حصہ بلکہ سنتِ نبوی (ﷺ) ہے -  [16]حضور نبی اکرم(ﷺ) کی مبارک زندگی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ(ﷺ) نے کوئی بھی کام بغیر منصوبہ بندی کےنہیں کیا بلکہ دینی و دنیاوی امور دونوں میں محکم منصوبہ بندی کو اپنایا- مثلاً ہجرتِ مدینہ کے دوران سفر کیلئے مناسب سواری کا انتظام ،غارِ ثور میں قیام کا فیصلہ، راشن کا بندوبست ، قریش اور مشرکین کے حالات سے باخبر رہنے کیلئے عبد اللہ بن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنا، مدینہ طیبہ پہنچ کر مسجد نبوی کی تعمیر کا فیصلہ کرنا اور مہاجرین کے مسائل حل کرنے کیلئے لائحہ عمل تشکیل دینے کے علاوہ غزوات و سرایا کی حکمت عملی جیسے اقدامات سیرت النبی (ﷺ)میں منصوبہ بندی کی عمدہ امثال و نظائر کے طورپر پیش کی جاتی ہیں -[17] اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ضیاعِ وقت سے بچنے کیلئے کام کی پیشگی منصوبہ بندی کی تلقین کی گئی ہے- جیسا کہ شجرکاری کی اہمیت کے حوالے سے ر سول اکرم(ﷺ) کا یہ ارشادِ گرامی طویل المدتی اور دور رس منصبوبہ بندی کی خوبصورت مثال ہے:

’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اس کو لگاسکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو‘‘-[18]

وقت کی مؤثر تنظیم کیلئے نماز کی بر وقت ادائیگی:

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم(ﷺ)کی بارگاہ میں عرض کی کہ اللہ رب العزت کے ہاں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ(ﷺ)نے فرمایا:

’’مقررہ وقت پر نماز پڑھنا ‘‘-[19]

نماز ایک ایسا منفرد اور مثالی عمل ہے جو کسی مسلمان کو وقت کی پابندی اور بروقت کام کی ترغیب دیتا ہے جس سے اُسں کے نظم و ضبط (Self-Discipline) اور وقت کو منظم و مؤثر بنانے کی صلاحیت میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا ہے –ہر نماز کیلئے مختص نظام الاوقات پر عمل پیرا ہوکر روزہ مرہ کا ایسا معمول بنایاجاسکتا ہے جو وقت کو نتیجہ خیز بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے -اسی لیے سیرت رسول(ﷺ) میں ایک مسلمان کو اپنے اوقاتِ کار نماز پنجگانہ کے گرد تشکیل دینے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لیے نماز سے بڑھ کر تنظیم وقت پر کاربند رہنے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہوسکتا-

ٹال مٹول کی عادت سے اجتناب :(Procrastination)

تنظیمِ وقت نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ انسان وقت ہوتے ہوئے اور یہ حقیقت ’’آج نہیں تو کبھی نہیں ‘‘ جاننے کے باوجود بھی تساہل، پھر کبھی ، آئندہ کرلوں گا تاخیر و ٹال مٹول ( Procrastination) کی روش اپنا لیتا ہے جس سے اہم و ضروری نوعیت کی شخصی، پیشہ ورانہ یا سماجی ذمہ داریاں التواء کا شکا رہوجاتی ہیں -ٹائم مینجمنٹ کے ماہر آر ایلک میکنزی (R. Alec MacKenzie) نے اپنی مشہور کتاب:

“The Time Trap: The Classic Book on Time Management”

میں کاہلی یا ٹال مٹول کی عادت کو کامیابی کیلئے زہر قرادیا ہے-

آقا کریم (ﷺ)نے اپنی اُمت کو سستی و کاہلی اور ٹال مٹول سے سخت منع کیا ہے -حتیٰ کہ صحیح بخاری میں آپ (ﷺ) کی ایک مشہور دعا منقول ہے جس میں آپ (ﷺ) نے سستی وکاہلی سے اللہ کی پناہ مانگی ہے - قرآن مجید (سورۃ آل عمران ) میں اہلِ یمان کو سستی و غفلت سے صریحا ً منع کیا گیا ہے- مزید احادیث مبارکہ میں مستقل مزاجی اپناتے ہوئے تواتر و تسلسل سے کام کرنے کی تلقین کی گئی ہے- اس کے علاوہ حضرت عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو (1) اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ،(2) اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، (3)اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، (4) اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور(5) اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے “ -[20]

مذکورہ حدیث وقت کے مؤثراستعمال اور کام میں بلاوجہ تاخیر سے اجتناب کی اہمیت پر زوردیتی ہے- اس کے علاوہ یہ ہمای زندگی کی محدودیت کی طرف بھی اشارہ کرتی کہ وقت برق رفتاری سے گزررہا ہے اور ہر لمحہ انسان موت کے قریب ہورہا ہے ، اس لیے ہمیں اس مختصر سی زندگی میں اپنے اوقات کو غفلت و سستی میں ضائع کرنے کی بجائے اعمال صالح اور رضائے الٰہی کیلئے وقف کرنا ہے -

لوگ نعمت ِ وقت کی قدر نہیں کرتے :

حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

”دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ، صحت اور فراغت “ - [21]

اس صریح فرمان کے باجود انسانوں کی ایک کثیر تعداد ضیاعِ وقت میں مصروف ہے جو سوائے قوموں کی تباہی اور نقصان کے اور کچھ نہیں-

مذکوہ حدیث مبارکہ کے ضمن میں بعض صالحین کا قول ہے کہ فراغتِ وقت ایک عظیم نعمت ہے لیکن جب بندہ اس نعمت کی ناقدری کرتا ہےتو وہ اس طرح کے اپنے اوپر خواہشِ نفس کا درواز کھول لیتا ہے اور شہوانی خواہشوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر بےچینی وبے سکونی مسلط کر دیتا ہے اور اس کی صفائی قلب کو سلب کر لیتا ہے-  [22]

حسنِ اسلام کی علامت:

تنظیمِ وقت کی راہ میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ لایعنی اور فضول کام (Distractions) ہیں جو انسان کو بامقصد کاموں سے دورکردیتے ہیں- یعنی ایسے کام جن کا دنیا اور آخرت میں کہیں بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا -دین اسلام میں ایسے کاموں کو ترک کرنا اچھے مسلمان اور کامیاب انسان کی نشانی بتلائی گئی ہے-[23]

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول کاموں کوچھوڑ دے “ - [24]

اس حدیث میں ایک مسلمان کے حسن ِ اسلام کیلئے بڑا واضح پیغام ہےکہ وہ غیرضروری و بے سود مشاغل (جو ضیاعِ وقت کا سبب ہیں) سے بالکل کنارہ کش ہو اور بہترین کاموں کیلئے اپنے اوقات کی تنظیم کرے-قرآن کریم نے بھی فلاح یافتہ لوگوں کی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ’’وہ لغو (بے سود بے وبے فائدہ) قول و فعل سے پرہیز کرتے ہیں ‘‘-[25]

زمانے کو برا نہ کہو:

بسا اوقات انسان پر کوئی مشکل یا مصیبت وپریشانی آن پڑے تو وہ گردِش ایّام کا شکوہ کرنے لگتا ہے یعنی زمانے (وقت) کو برابھلاکہتا ہے- یہ دورِ جاہلیت میں مشرکین عرب کی روایت تھی کہ ان پر کوئی دکھ یا غم پہنچتا تو وہ کہتے:

’’ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ‘‘ ’’ہائے زمانے کی بربادی ‘‘-

زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے-رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں‘‘- [26]

سورۃ الجاثیہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” اور بولے وہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ اور انہیں اس کا علم نہیں وہ تو نرے گمان دوڑاتے ہیں “-

وقت کی بازپرس ہوگی :

یومِ حساب ہر انسان سے جو بنیادی سوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق وقت سے ہے-حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

”قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گاتاآنکہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے: عمر کہاں گزاری،جوانی کس کام میں کھپائی ،مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا“ - [27]

اس حدیث پاک میں وقت اور منازلِ زندگی کی اہمیت پتہ چلتی ہے-خاص طور پر اس میں جوانی کاتذکرہ ہوا ہے کیونکہ جوانی میں انسان عمر کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور تندرست و توانا ہوتا ہے- اس لئے جوانی میں انسان جو کام سر انجام دے سکتا ہے وہ بڑھاپے میں ممکن نہیں- جوانی کی عبادت کا اجر بھی زیادہ ہے- اس لیے اوقاتِ جوانی کے متعلق ہر مسلمان سے خصوصی طور پرسوال کیا جائے گا- یہ حدیث ہر مسلمان نوجوان کو سبق دیتی ہے کہ وہ اپنی جوانی اطاعت ِ مصطفٰے(ﷺ) اور امورِ خیر میں صرف کرے تاکہ وہ خوشنودی و رضائے الٰہی کو پاسکے-

مذکورہ بیان سیرتِ رسول(ﷺ) اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں وقت شناسی و تنظیم وقت کی محض ایک جھلک ہے -مزید سیرت النبی(ﷺ)کے کئی گوشے ایسے ہیں (خوفِ طوالت کے پیشِ نظر جن پر بات نہیں کی جا سکتی)  جن سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حیاتِ انسانی میں وقت کی قدر وقیمت اور تنظیمِ وقت کا درس ملتا ہے-

درج بالا بحث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیرت النبی(ﷺ)میں تنظیم وقت کے رہنما اصول ایک کامیاب او ر متوازن زندگی کی ضمانت ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر جدید دور میں نہ صرف معیارِ زندگی بہتر بنایا جاسکتاہے بلکہ کاروباری و  تنظیمی سطح پر ان تمام مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے جو تنظیمِ وقت کی راہ میں حائل ہیں- لیکن صد افسوس کہ اسوۂ رسول (ﷺ)  میں وقت کی اہمیت اور تنظیمِ وقت کی اس قدر تاکید کے باجود آج مسلم معاشروں میں ٹائم مینجمنٹ کلچر اور وقت کے مثبت استعمال کا شدید فقدان پایا جاتا ہے جو بطور اُمت ہماری تنزلی اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا نہ ہونے کا ایک بڑاسبب ہے جبکہ دوسری طرف وقت کی قدر کرنے والی اور اس کا بہتر استعمال کرنے والی قومیں اوج ثریا پہ مقیم ہیں - بطور قوم ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کوئی بھی کام یا فریضہ پھر چاہے وہ دینی ہو یا دنیا وی بروقت انجام نہیں دیتے بلکہ وقت کو ایک بے وقعت چیز سمجھے ہوئے تن آسانی و تساہل پسندی میں ضائع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیں ناکامیوں اور محرومیوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے - آج ہر مسلمان پر لازم ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں سیرت لنبی (ﷺ)کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے تاکہ وہ اپنے کارِ حیات مثبت و مؤثر طریقے سے انجام دے سکے-

٭٭٭


[1]( ہم مجلّہ ہذا کے خصوصی شمارہ (قرآن نمبر2023ء) میں  تعلیماتِ قرآن مجید کی روشنی میں وقت کی اہمیت اور تنظیمِ وقت پر تفصلی بحث کرچکے ہیں-یہاں  صرف سیرت النبی(ﷺ) کے تناظر میں تنظیمِ وقت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے-)

[2]تفصیل کیلئے دیکھیے:Time Management from Islamic and Administrative Perspective - Dr. Khalid Al-Jeraisy

[3]Time Management in Islam, Shama Razi, Al-Idah 32 (June. 2016)

[4]Time Management and Excellence Achievement in As-Sunnah An-Nabawiyyah,

 Amen Hajy MohammedAmen-Arif Ali Arif

[5]TIME MANAGEMENT IN THE LIFE OF THE PROPHET MUHAMMAD, YUKSEL A. ASLANDOGAN

[6]ایضاً

[7]Maximize Use of Your Time with These Tips from the Seerah, Mohammed Faris

[8]حضور نبی اکرم(ﷺ) کیDaily Routine” " کی تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے:

Daily Routi1ne of the Holy Prophet (SAW), Syed Abdul Ghaffar Bukhari, Abida Iqbal

[9]Why Is It Important to Have a Timetable?, By Ramraj Saini

[10]Daily Routi1ne of the Holy Prophet (SAW), Syed Abdul Ghaffar Bukhari, Abida Iqbal

[11]صحیح البخاری،رقم الحدیث:1496

[12]Time Management from Islamic and Administrative Perspective - Dr. Khalid Al-Jeraisy

[13]Vol 1 No 2 (2018): UNIVERSITY OF CHITRAL, JOURNAL OF RELIGIOUS STUDIES (UOCHJRS)

[14]Effective time management – selected issues, Aneta Olejniczak, M.Sc. Institute of Aviation, Poland

[15]Abid

[16]آج نہیں تو کبھی نہیں،سستی ، کاہلی اور تن آسانی؛تعارف،وجوہات اور علاج،محمد بشیر جمعہ

[17]Vol 1 No 2 (2018): UNIVERSITY OF CHITRAL, JOURNAL OF RELIGIOUS STUDIES (UOCHJRS)

[18]مسند احمد بن حنبل

[19]صحیح البخاری،رقم الحدیث: 527

[20]مشكوٰة المصابيح،کتاب الرقاق

[21](صحیح البخاری،کتاب الرقاق)

[22](علامہ یوسف القرضاوی،الوقت فی حیاۃ المسلم ،)

[23]سیلف مینجمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ کامیابی کی کلید،ڈاکٹر محمد یونس خالد

[24](جامع ترمذی،رقم الحدیث:2317)

[25](المؤمنون:3)

[26]( صحیح البخاری،کتاب الادب)

[27](سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع،باب فی القیامۃ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر