﴿ورکب بعلۃ البیضائ دلدل ولیس ذرعین والمغفر والبیضۃ﴾﴿۸۲﴾
’’اور حضور اقدس ﷺ اپنی سفید خچر دلدل پر سوار تھے اور آپ نے دوزرہیں لوہے کی ، خود اور ٹوپی پہن رکھی تھی -‘‘
مولانا عبدالرؤف دانا پوری ’’اصح السیر‘‘ میں آپ ﷺ کے زیرِ استعمال آلات حرب کے بیان میں رقمطراز ہیں :
’’آ پﷺ کے پاس نو تلواریں تھیں ،سات زِرہیں تھیں ،چھ کمانیں تھیں ،دو سپر تھیں ، دو نیزے تھے ،تین چوب دست تھے : النبعہ،البیضائ اورا لغزہ جس کو آپ ﷺ اکثر ساتھ رکھتے تھے- خود دو عدد تھے :الموشح اورذو المسوغ، تین حجاب تھے جن کو وقت حرب پہنتے تھے سیاہ رنگ کا عَلم ، چھوٹا خیمہ، بڑا تراکش تھا- آپﷺ کے پاس کل نو تلواریں تھیں جو آپ کو والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھیں - العضب ،ذوالفقار، قلعی ، البتار، الخنف ، الرسوب ،المخدم ،القضیب اور ذوالفقار جوبعد میں آپ ﷺ نے حضرت علی(رض)کو دے دی تھی-‘‘﴿۹۲﴾
نبی اکر م حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف صحابہ کرام(رض) کو جہاد کے لئے راغب کیا بلکہ جنگی تیاری ، آلاتِ حرب اور عسکری فنون میں تربیت ومہارت کا کبھی پورا پورا اہتمام فرمایا ،آپ ﷺ نے پہلی دفعہ جامع اور متوازن عسکری قوانین واصلاحات نافذفرمائیں ، جنگی پالیسیاں وضع کیں اور اہلِ عالم کو عسکری حکمت عملی سے متعارف کروایا -ہجرت مدینہ سے لے کر فتح مکہ تک آپ ﷺ کا معمولی فیصلہ اور چھوٹے سے چھوٹا اقدام نبوی فہم وفراست کے آئینہ دار ہیں -
اگر مہاجرین وانصار کی حفاظت،ان کے لئے دفاعی تدابیر ، نوزائیدہ اسلامی ریاست مدینہ کے مستقل قیام کے واقعات کا ہی عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو صرف انتخاب مدینہ کا ایک فیصلہ ہی آپ ﷺ کی دور اندیشی اور سیاسی دانشور ی کا منہ بولتا ثبوت ہے-
سید نا صاحب المدینہ ْﷺ ﴿مدینہ منور کے سردار﴾ :
نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کا انتخاب اگرچہ بظاہر تو ہجرت کے نکتہ نظر سے کیا لیکن دفاعی لحاظ بھی آپ ﷺ نے انتہائی موزوں اور مناسب مقام پسند فرمایا-
ڈاکٹر حمید اللہ بیان کرتے ہیں :
’’مدینتہ النبی ﷺ جہاں مسجد نبوی اور حجراتِ نبوی واقع تھے یہ دارالسلطنت مدینہ کاوسطی علاقہ تھا یہ تین اطراف سے محفوظ علاقہ تھاشمالی طرف کا راستہ فوجی لحاظ سے کھلا تھا -جہاںسے اہلِ مکہ حملہ آورہو سکتے تھے بہر حال یہ سمت اہلِ مکہ کے لیے توجنگی پیچیدگیاں رکھتی تھی لیکن اہلِ مدینہ کے لیے مفید پڑسکتی تھی اس کے محل وقوع اور موزوںترتیب سے اٹھانے کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ کا ایک بڑا اور اہم کارنامہ یہ تھا کہ آپﷺ نے معاہدات کے ذریعے یہود،اوس وخزرج اور متصلہ قبائل کو ان کے مذہبی،تمدنی اورمعاوشی فرق کے باوجود ایک نظم میں پرودیا تھا آپ ﷺ کی سیاسی مہارت کایہ ایک در(رح)خشاں ثبوت ہے-‘‘ ﴿۰۳﴾
سیدنا ا لالمعیﷺ﴿معاملہ فہم﴾:
ڈاکٹر حمید اللہ ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں:
’’نبی اکرم ﷺ نے انتہائی فہم وفراست اور تدبیرِ سیاست سے مدینہ کے دفاع کا انتظام فرمایا ایک طرف تو معاہدات کے ذریعے مدینے کے علاقوں کو دوست بنالیا گیا گویا مدینہ کے گرد ایک حفاظتی منڈل/حلقہ قائم کرلیا دوسرا اہلِ مکہ پر معاشی دبائو ڈالنا شروع کردیا یعنی قریشی قافلہ کے لئے مدینہ اور حلیف قبائل کی تجارتی راہ گزرسے گزرنا ممنوع تھا -تیسرایہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طلایہ گری اور جاسوسی کا ایک مؤثر نظام قائم کردیا - اس طرح دشمن پر دھاک بیٹھ گئی-‘‘﴿۱۳﴾
سیدنا کثیر الحراسﷺ ﴿زیادہ پہرے داروں والے ﴾:
صحابہ کرام(رض) مختلف غزوؤں میں باری باری آپ ﷺ کا پہرہ دیتے تھے پھر آیت مبارکہ نازل ہوئی :﴿واللّٰہ یعصمک من الناس﴾پھر اس کے بعد آپ نے پہرہ ختم کردیا - ﴿۲۳﴾
متعدد مواقع پر مسلمانوں اور کفار کی مڈھ بھیڑ،غزوۂ بدر سے پہلے مختلف سرایا کی روانگی اور غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت سعد (رض)کا آپ ﷺ کے خیمہ مبارک کا ننگی تلوار کے ساتھ پہرہ دینا، اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان پہرے دارں کا قریش کے شب ماروں کی گرفتاری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لشکرِ محمدی میں پہرہ داری ،باقاعدہ گشت اور سراغرسانی کا فعال اور مؤثر نظام موجود تھا جس کی وجہ سے نہ صرف اہلِ مدینہ کو دفاعی نقطۂ نظر سے مضبوطی حاصل ہوئی بلکہ دشمن پر اعصابی دباؤ بھی بڑھنے لگا-
سیدنا المطلعﷺ ﴿اطلاع دیئے گئے ﴾:
اسلامی حکم ﴿ولاتحبسوا﴾کے مطابق تو تجسس کرنا غیر اسلامی فعل ہے توپھر دستہ میں مخبر یا خبر رساں افراد کے موجود ہونے اور انہیں دشمن لشکر کی جاسوسی کے لئے بھیجنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟اس ضمن میں کئی سیرت نگار ایک حوبصورت نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اصل میں اس حوالے سے تین طرح کے الفاظ کی توضیح ضروری ہے اوّل ’’تعسس‘‘ سے مراد تویہ ہے کہ کسی برائی کو روکنے سے پہلے پیش قدمی کی جائے- دوم ’’تجسس‘‘ کسی ہدف کی خاطرمثبت چیز کاپتہ چلایا جائے -تجسس کسی کے خلاف براسوچا جائے اور پھراس برائی کا تجسس کیا جائے -تجسس کی ممانعت ہے جبکہ تحسس اور تعسس کی نہیں اور یہ سنت اور سیرت سے ثابت ہیں -
لہٰذا دشمن کی درست تعداد کا پتہ لگانا اور اس کے مطابق جنگی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے اقدامات کرنا کسی بھی طرح اسلامی اصولوں کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپﷺ نے غزوۂ احد میں دشمن کے ذبح کردہ اونٹوں کی تعداد معلوم کر کے دشمن کی تعداد کا پوراپورا اندازہ کرلیا-
سیدنا المخبرﷺ ﴿خبر رکھنے والے﴾:
علما بیان کرتے ہیں کہ اسلامی جنگی پالیسی میں خدع کی تو اجازت ہے مگر دغا کی نہیں،خدع سے مراد ہے کہ جاسوس کا خبر لانا ،کمین گاہ میں بیٹھنا،دکھاوے کی پیش قدمی، دشمن میں افواہ اڑانا ،پسپائی کا دھوکہ دیناوغیرہ جبکہ دغاسے مراد ہے انجانے میں دشمن پر ٹوٹ پڑنا اور بھاری جانی ومالی نقصان پہنچانا یا اَسیران کے ساتھ بد سلوکی اور ظلم کا رویہ روارکھنا اسلامی جنگی قانون میں کوئی بھی جنگی حکمت عملی جو ظلم وزیادتی کے زمرے میں آتی ہو خدع کی تعریف سے باہر ہے -
اس طرح آپﷺ کی نبوی فراست کے زیر نگرانی اسلامی دستوں کی طلایہ گردی اور مؤثر حرکت پذیری نے دشمن کو کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود نفسیاتی طور پر مسلسل ہراساں رکھا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے دھاک بیٹھ گئی-
سیدنا اللوذعیﷺ ﴿خوب ذکی﴾:
﴿عن جابر بن عبداللّٰہ (رض)قال کان النبیﷺ یجمع بین الرجلین من قتلی احد فی ثواب واحد ثم یقول الیھم اکثر اخذًا للقرآن فاذا أیثرلہ الٰی احدھما قدمہ فی اللحد وقال اناشھید علٰی ھولائ یوم القیامۃ وامر بدفنھم فی دمائھم ولم یغسلوا ولم یصل علیھم﴾﴿۳۳﴾
’’حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جنگ احد کے شہیدوں کو دودو کرکے ایک ہی کپڑے میں دفن کیا آپﷺ نے فرمایا جوان دونوں میں سے زیادہ قرآن پڑھتا ہے اس کو لحدمیں آگے رکھواور فرمایا کہ مَیں ان پر قیامت کے دن گواہی دوں گا اور آپ ﷺ نے انہیں خونوں سمیت بغیر جنازہ کے دفن فرمادیا اور وہ غسل بھی نہ دیئے گئے تھے-‘‘
دوران جنگ اور جنگ کے علاوہ جب بھی غیر متوقع اور پیچیدہ مسائل درپیش آئے آپﷺ نے انتہائی فراست سے ان کو حل فرمایا حتیٰ کہ جنگ کی نازک ترین گھڑی میں بھی آپ ﷺ کی مقدس شخصیت عمومی جذباتیت سے پاک اور نبوی فراست کا پیکر نظرآتی ہے -
سیدنا مرحمۃﷺ ﴿مہربان﴾:
﴿محمدرسول اللّٰہ والذین معہ اشدائ علی الکفار رحمائ بینہم﴾﴿۴۳﴾
’’محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ جو اصحاب (رض) ہیں کفار پر بہت سخت اور آپس میں بہت نرم ہیں-‘‘
شارحِ بخاری و مسلم علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:﴿ والذین معہ﴾ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جنہیںہر موقع پر آپ ﷺ کی معیت کا شرف حاصل رہا-پھر سیّدنا عمر فاروق(رض) ہیں جو کفار پر انتہا درجہ سخت تھے ایک موقع پر فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر ایک منافق کا سر قلم کردیا اور صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش سے بہت ترددکیا -یعنی﴿ اشدائ علی الکفار﴾ پھر سیّدنا عثمان غنی ہیں جو انتہا درجہ نرم دل تھے جب مسجد نبوی میں جگہ کم تھی تو اس کی توسیع کی ، روما نام کا میٹھے پانی کاکنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کیا ، غزوہ تبوک میں تین سو اونٹ مع سازوسامان مہیا کئے اور حضرت علی المرتضیٰ وہ ہیں جن کی شجاعت کے مسلمانوں پر بے تحاشا احسانات ہیں -
سیدناذوعذۃﷺ ﴿کافروں پر زبردست﴾:
﴿اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین﴾﴿۵۳﴾
’’مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت-‘‘
علامہ زمخشری بیان کرتے ہیں کہ کافروں سے مراد مرتدین ہیں،مرتدین کے کل گیارہ فرقے تھے - تین تو عہدِ نبوی میں ہی تھے اسود عنسی ، مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی ، تینوں اپنے اپنے انجام کو پہنچے جبکہ سات فرقوں کا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوںمکمل استیصال کرادیا-﴿۶۳﴾
آپ (رض) نے سب کی سرکوبی فرمائی، مسلمان جس قدر کفار و مشرکین اور منافقین و مرتدین پر سخت اور زبردست تھے اتنا ہی آپس میں پیار ، محبت ، ایثار اور لحاظ کرنے والے تھے-
سیدنا الضیغم ﷺ ﴿ببر شیر﴾:
﴿فمالھم عن التذکرۃ معرضینoکا نھم حمر مستنفرۃoفرت من قسورۃ﴾﴿۷۳﴾
’’ پس انہیں کیا ہوا کہ وہ نصیحت سے اعراض کر رہے ہیں گویا وہ بِدکے ہوئے وحشی گدھے ہیں جو شیر سے بھاگ رہے ہیں-‘‘
ابن عباس (رض) کہتے ہیں ’’ حمر‘‘ سے مراد جنگلی گدھے’’ مستنفرۃ‘‘سے مراد بِدکنا اور بھڑکنا ہے اور’’ قسورۃ‘‘ سے مراد شیر﴿قہر غلبہ﴾ یا تیر اندازوں کی جماعت بھی ہے-
زمخشری کہتے ہیں کہ مشرکین کو گدھوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ احمق ہیں جو حق سے بھاگ رہے ہیں -‘‘﴿۸۳﴾
حضرت علی (رض) سے روایت کہ جب لڑائی گرم ہوتی اور آنکھیں سرخ ہوتیں تو وہ سب ﴿صحابہ کرام ﴾حضورِ اکرم ﷺ کی پناہ لیتے اور دشمن کے قریب کوئی اتنا نہ ہوتا جتنا کہ آپ ﷺ ہوتے اور جنگِ بدر کے دن آپﷺ سخت جنگجو تھے-﴿۹۳﴾
جنگ کی سخت گھڑی میں نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہﷺ کسی بہادر شیر یا جنگجو سپاہی جیسا برتائوکرتے جو اپنے شکار پر پلٹ پلٹ کر جھپٹنا ہے-
سیدنا اللیثﷺ ﴿بہادر شیر﴾:
فکانہ لیث علی اشبالہ
وسط الھبائ ۃ خادر فی مرصد
’’ گویا کہ آپﷺ شیر ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ کھچار میں گھات لگائے بیٹھا ہو-‘‘﴿۰۴﴾
﴿اللیث: الشدۃ والقوۃ، شدید العارضۃ و قیل شدید قوی واللیث: أسد والجمع لیوث﴾﴿۱۴﴾
’’مراد ببر شیر کے ہیں یعنی قوی اور شدید طاقت میں آپ ﷺ کا یہ اسم مبارک آپ ﷺ کے رعب و شان پر دلالت کرتا ہے کہ جس طرح شیر کھچار میں گھات لگا کر بیٹھ رہتا ہے آپ ﷺ دشمن پر بھاری ہیں-‘‘
سیدنا المنتظرﷺ ﴿ڈھیل دینے والے﴾:
﴿عن عروۃ بن زبیر رضی اللہ عنہ اخبراہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قام حسین جآ ئ ہ وفد ھوازن مسلمین فسألوہ ان یرد الیھم اموالھم وسبیھم فقال لھم رسول اللّٰہ ﷺ أحب الحدیث الی اصدقہ فاختاروا احدی الطائفین اما السبی واما المال قد کنت استانیت بھم وقد کان رسول اللّٰہ ﷺ انتظرجم بضع عشرۃ لیلۃ حین قفل من الطائف﴾ ﴿۲۴﴾
’’ حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کے پاس جب قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آئے تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ ان کے مال اور ان کے قیدی ان کو واپس کردیں تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ مجھے وہ بات پسند ہے جو سچی ہو پس تم لوگ ایک بات اختیار کر لو یا قیدیوں کو واپس کردو یا مال کو اور مَیں نے تو مالِ غنیمت کی تقسیم میں دیر کی اور حضور اکرم ﷺ نے دس روز سے بھی زیادہ ان کا انتظار کیا جبکہ وہ طائف سے لوٹے تھے-‘‘
سید نا المعتق ﷺ ﴿غلاموں کو آزاد کرنے والے﴾
﴿عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ و معہ غلام من سبی ھوازن فقال لہ اذھب فا عتکف فذھب فاعتکف فبینما ھو یصلی اذا سمع الناس یقولون اعتق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم سبی ھوازن فدعا الغلام فاعتقہ﴾﴿۳۴﴾
’’حضرت ابن عمر(رض) سے روایت ہے کہ ہوازن کے قیدیوں میں ٰٓ ایک لڑکا بھی تھا آپ ﷺ نے اسے فرمایا جا اعتکاف بیٹھ!اور وہ معتکف ہو گیا وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ آپ ﷺ نے اسے بلایا اور آزاد کر دیا -‘‘
جب مسلمانوںکے لئے صلح میں بہتری ہو اور صلح فتنے اور فساد کو ختم کرنے کے لئے کی جائے اور مخالف بھی صلح کے لئے راضی برضا ہو تو صلح کر کے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور دشمن کی نیت کو اللہ توکل چھوڑ دینا چاہیے جبکہ ظاہری حالات صلح کے حق میں ہوں جس طرح نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے اہلِ مکہ سے دس سال کے لئے صلح کا معاہدہ کیا لیکن انہوں نے عہد شکنی کی-‘‘﴿۴۴﴾
امام زہری رحمۃاللہ علیہ اپنی حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ
’’ جب سہیل بن عمرو آیا اس نے کہا آؤ صلح کریں اور تحریر کر لیں تب آپ ﷺ نے کا تب کو بلایا -‘‘﴿۵۴﴾
صلح حدیبیہ کے پس منظر میں سید ندوی دو اہم نکات پیش کرتے ہیں-
سنہ ۶ ہجری تک تو نبی اکرم ﷺ کے اعجاز ،اخلاق، تدبیر اور مسلمانوںکے اخلاص، ایثار اور کوششوں سے اسلام تیزی سے پھیلتا رہا لیکن ابھی تک دواہم رکاوٹیں درپیش تھیں -
اوّل :مشرکین مکہ جنہوں نے ابھی تک مکہ میں غریب ، کمزور اور مسلمان عورتوں اور بچوں کو محبوس کر رکھا تھا -
دوم (رح): یہود خصوصاََ خیبر کے یہود جو دینِ اسلام میں داخل ہونا نہیں چاہتے تھے مگر اسلام کے سیاسی نظام کو مدینہ میں استوار کرنے کی راہ میں روکاوٹ تھے-﴿۶۴﴾
اسی طرح آپ ﷺ نے پہلی جنگی پالیسی وضع کی ، قاصدین و اسیران کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا اور باغیوں کے لئے سزاؤں کی حدود تجویز کیں-
سید نا کاتب الامان ﷺ ﴿امان لکھ کردینے والے﴾:
قبل از اسلام نہ صرف اسیرانِ جنگ کے ساتھ درندگی اور بربریت کا سلوک کیا جاتا تھا بلکہ قائدین کو بھی بیدردی سے قتل کر دیا تھا - عہدِ رسالت ﷺ میں نہ صرف اس رسمِ بد کا خاتمہ ہوا بلکہ معاہدات کی پابندی اور پاسداری کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا-
حضرت حذیفہ بن الیمان(رض) کا مشرکینِ مکہ سے معاہدے کی وجہ سے جنگِ بدر میں حصہ نہ لینا - صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو جندل (رض) کی پابہ زنجیر واپسی اور ان کی بے کسی پر مسلمانوں کو آزردہ خاطر ہونا اسلامی جنگی معاہد کی پابندی کا واضح ثبوت ہے- ﴿۷۴﴾
سید نا المصالح ﷺ ﴿صلح جو﴾:
آپ ﷺ نے سیاسی بصیرت کی بنائ پر آفاقی ریاست قائم کی اور امن و آشتی کی بنیاد پر مواخات کا درس دیا- اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے دشمن عناصر کے ساتھ کئی دفعہ معاہدے کئے جن کی بنیاد امن و آشتی ، صلح جوئی اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ تھا - اس ضمن میں صلح حدیبیہ کو باقاعدہ طور پر تحریر کرایا گیا- سیرت النبی ﷺ کے تجزیہ نگاروں نے صلح حدیبیہ کو پہلی اسلامی خارجہ پالیسی قرار دیاہے-
ان کے نزدیک اسلامی معاہدات و منشورات کو ان کے مقاصد کے تناظر میں کچھ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
۱-حلف الفضول :﴿مظلوموں کی امداد کا پہلا تاریخی منشور﴾
۲-مواخاتِ مدینہ :﴿تاریخ انسانی کا اوّلین معاہدہ ﴾
۳-میثاقِ مدینہ :﴿ریاستی حقوق کی پہلی تحریر﴾
۴-خطبہ فتح مکہ :﴿بنیادی انسانی حقوق کا پہلا منشور﴾
۵- خطبہ حجتہ الوداع : ﴿حقوق انسانی کا عالمی و دائمی منشور﴾
آپﷺ میدانِ جنگ میں بھی دشمن کے رُوبروبھی مخصوص اور دور رَس مقاصد کے تناظرمیں مختلف مواقع پر جداگانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں- جہاں آپ ﷺ ایک جری شیر اور جنگجو سپا ہی کی طرح میدانِ کا رزار میں شجاعت کے جوہر دکھا تے ہیں ، بدعہدوں اور مرتدین کو قرار واقعی سزادیتے ہیں تاکہ وہ نشانِ عبرت بن سکیں - مسلمانوں کے لیے واحد سہارا اور دشمن کے لیے شمشیرِ نہاں ہیں وہیں اپنے حسن سلوک سے دشمن کا دل بھی جیت رہے ہیں اور کمال شفقت سے انہیں پناہ بھی فراہم کرتے ہیں جیسا کہ
حضرت شیبہ بن عثمان رحمۃاللہ علیہ جو کہ ﴿معاذ اللہ ﴾آپﷺ کی جان لینے کی نیت سے غزوۂ حنین میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے دیکھا تو ان(رض) کا سینہ ٹھونکا اور فرمایا :’’اے شیبہ (رض) ! تو ذرا آگے بڑھ اور جہاد کر ‘‘اس کے بعد آپ ﷺ حضرت شیبہ (رض)کو محبوب ترین ہوگئے -﴿۸۴﴾
کیونکہ آپﷺ کے جہاد تبلیغ کا اصل مقصد اور مشن انسانیت کی تکریم اور امن و آشتی کا قیام تھا-
سید نا المجیر ﷺ ﴿پناہ دینے والے﴾:
﴿وَاِن احد من المشر کین استجارک فاجرہ﴾ ﴿۹۴﴾
ََِ’’ اور اگر کوئی شخص مشرکین میںسے پناہ طلب کرے تو آپ ﷺ اسے دے دیتے -‘‘
اگر کوئی شخص ﴿مشرک﴾ دار السلام یعنی اسلامی ریاست میں دینِ اسلام کو سمجھنے کے لئے آنا چاہے تو اسے اجازت دینی چاہیے اور اس کے جان ، مال عزت کی حفاظت بھی ریاست کرے لیکن اسے قلیل مدت ہی ٹھہرنے کی اجازت دی جائے ،بغیر سبب یا عذر کے وہ نہیں ٹھہر سکتا-﴿۰۵﴾
جہادِ اسلامی کا اصل مقصد دینِ اسلام کی تبلیغ و تر ویج ہے اور کفر و شرک کا خاتمہ ہے اس لئے مشرکین کے خلاف جہاد کرنا عبادت ہے لیکن اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ لینا چاہے تو اسے پناہ دینی چاہیے تا کہ وہ شرحِ صدر اور اطمینانِ قلب کے ساتھ دینی احکامات کو سمجھ سکے-
نبی کریم ﷺ نے اپنی سیاسی بصیرت اور عسکری فہم وفراست سے جہادِ اسلامی کے تصور کو عملاََ معنویت بخشی- انتخابِ مدینہ سے لے کر معاہداتِ نبویہ ﷺ کے انعقاد، نظامِ سفارت کے قیام ، سراغرسانی کے فعال نظام اور خبر رسانی کے مؤثر اہتمام تک اور دورانِ جنگ زمین اور گھاٹیوں کے ماہرانہ استعمال ، اسلامی لشکر کی حرکت پذ یر ی ، دشمن پر نفسیاتی دھاک بٹھانے اور اسلامی لشکر کی مناسب دستہ بندی اور مورچہ بندی تک آپ ﷺ کا ہر فیصلہ آپ ﷺ کی نبوی فہم و فراست کا عکاس ہے-
حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی دشمنانِ اسلام کے ساتھ مخصوص مقاصد کے تناظر میں مختلف مواقع پر مختلف طرزِ عمل اختیار کرنا ، محاربین و اسیران کے حقوق کا تعین ، میدان جنگ میں عسکری قوانین کا اطلاق اور بر وقت موزوں اور مؤثر حکمت عملی کا انتخاب نہ صرف آپ ﷺ کی سیاسی دور اندیشی اور عسکری فراست کے منہ بولتے ثبوت ہیں بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کی جامعیت اور اکملیت پر بین دلائل ہیں-
حواشی و حوالہ جات:
۸۲-ابن سعد - ابو عبداللّٰہ ، الطبقات الکبریٰ، ۲/۰۵۱
۹۲-دانا پوری، عبدالروؤف ، اصحح السیر، کراچی: اصحح المطابع کارخانہ تجارت کتب، ص: ۶۹۵
۰۳- عہدِ نبوی کے میدان ہائے جنگ، ص ۱۲
۱۳- ایضاً، ص ۸۳
۲۳- الحلبی، برہان الدین ، علی بن ابراہیم ، السیرۃ الحلبیۃ ، بیروت لبنان : دارالکتب العلمیہ، ۷۲۴۱ھ،۳/۴۲۴
۳۳- بخاری، ابو عبداللہ ، محمد بن اسماعیل ، امام ، باب ، الصلوٰۃ علی التشہد، حدیث نمبر: ۳۴۴۱،۲/۱۹
۴۳- الفتح: ۹۳
۵۳- المائدہ: ۴۵
۶۳- سعیدی، علامہ غلام رسول ، مولانا تبیان القرآن ، ۳/۳۱۲
۷۳- المدثر: ۴۹/۱۵
۸۳- سعیدی، علامہ غلام رسول ، مولانا تبیان القرآن ، ۲۱/۷۹۳
۹۳-ابوا لفضل ، عیاض بن موسیٰ بن عیاض، الشفائ بتعریف حقوق المصطفیٰ، عمام: دارالفیحائ، ۷۰۴۱ ہجری، ۱/۷۶
۰۴-السہیلی، ابوالقاسم ، عبدالرحمٰن بن عبداللہ ، الروض الانف فی شرح السیر النبویہ لابن ھشام ، بیروت لبنان : دار احیائ التراث العربی، ۱۲۴۱ہجری، ۷/۵۵۳
۱۴- الافریقی ، ابن منظور ، محمد مکرم ، لسان العرب، بیروت لبنان: دار احیائ التراث العربی، ۶۱۴۱ ہجری، ۲ /۸۸۱
۲۴- بخاری ، ابو عبداللّٰہ ، محمد بن اسماعیل ، امام ، الجامع الصحٰح، باب ، اذا وھب شیئا وکیل ، حدیث نمبر: ۷۰۳۲،۳/۹۹
۳۴- احمد بن حنبل، المسند، باب: مسند عبداللّٰہ بن عمر (رض) حدیث نمبر: ۸/۴۶، ۰۱/۵۶۴
۴۴-رازی فخرالدین ، تفسیر کبیر، بیروت لبنان،: دار احیائ التراث العربی، ۱۲۴۱ ہجری، ۵/۰۰۵
۵۴- بخاری ، ابو عبداللّٰہ ، محمد بن اسماعیل ، امام ، الجامع الصحٰح، باب ، غزوۃ الحدیبیہ، حدیث نمبر:۰۱/۴، ۵/۶۲۱
۶۴- ندوی سلمان، سید، رحمتِ عالم(ص)، لاہور ص: ۶۹
۷۴- علامہ شبلی نعمانی ، سیرت النبی ٔ ، اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی، ص:۴۰۲
۸۴- الماوردی، ابوالحسن، علی بن محمد بن محمد ، اعلام النبوۃ، بیروت لبنان: دارالمکتبۃ الھلال، ۹۰۴۱ ہجری، ۱/۳۲۱
۹۴- التوبہ:۶
۰۵- رازی ابوبکر، احمد بن علی ، الجصاص، احکام القرآن ، لاہور: سہیل اکیڈمی، ۰۰۴۱ ہجری ، ۳/۴۸
﴿ورکب بعلۃ البیضائ دلدل ولیس ذرعین والمغفر والبیضۃ﴾﴿۸۲﴾
’’اور حضور اقدس ﷺ اپنی سفید خچر دلدل پر سوار تھے اور آپ نے دوزرہیں لوہے کی ، خود اور ٹوپی پہن رکھی تھی -‘‘
مولانا عبدالرؤف دانا پوری ’’اصح السیر‘‘ میں آپ ﷺ کے زیرِ استعمال آلات حرب کے بیان میں رقمطراز ہیں :
’’آ پﷺ کے پاس نو تلواریں تھیں ،سات زِرہیں تھیں ،چھ کمانیں تھیں ،دو سپر تھیں ، دو نیزے تھے ،تین چوب دست تھے : النبعہ،البیضائ اورا لغزہ جس کو آپ ﷺ اکثر ساتھ رکھتے تھے- خود دو عدد تھے :الموشح اورذو المسوغ، تین حجاب تھے جن کو وقت حرب پہنتے تھے سیاہ رنگ کا عَلم ، چھوٹا خیمہ، بڑا تراکش تھا- آپ
ö کے پاس کل نو تلواریں تھیں جو آپ کو والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھیں - العضب ،ذوالفقار، قلعی ، البتار، الخنف ، الرسوب ،المخدم ،القضیب اور ذوالفقار جوبعد میں آپ
ö نے حضرت علی(رض)کو دے دی تھی-‘‘﴿۹۲﴾
نبی اکر م حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف صحابہ کرام(رض) کو جہاد کے لئے راغب کیا بلکہ جنگی تیاری ، آلاتِ حرب اور عسکری فنون میں تربیت ومہارت کا کبھی پورا پورا اہتمام فرمایا ،آپ
ö نے پہلی دفعہ جامع اور متوازن عسکری قوانین واصلاحات نافذفرمائیں ، جنگی پالیسیاں وضع کیں اور اہلِ عالم کو عسکری حکمت عملی سے متعارف کروایا -ہجرت مدینہ سے لے کر فتح مکہ تک آپ ﷺ کا معمولی فیصلہ اور چھوٹے سے چھوٹا اقدام نبوی فہم وفراست کے آئینہ دار ہیں -
اگر مہاجرین وانصار کی حفاظت،ان کے لئے دفاعی تدابیر ، نوزائیدہ اسلامی ریاست مدینہ کے مستقل قیام کے واقعات کا ہی عمیق نظری سے جائزہ لیا جائے تو صرف انتخاب مدینہ کا ایک فیصلہ ہی آپ ﷺ کی دور اندیشی اور سیاسی دانشور ی کا منہ بولتا ثبوت ہے-
سید نا صاحب المدینہ ْﷺ ﴿مدینہ منور کے سردار﴾ :
نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کا انتخاب اگرچہ بظاہر تو ہجرت کے نکتہ نظر سے کیا لیکن دفاعی لحاظ بھی آپ
ö نے انتہائی موزوں اور مناسب مقام پسند فرمایا-
ڈاکٹر حمید اللہ بیان کرتے ہیں :
’’مدینتہ النبی ﷺ جہاں مسجد نبوی اور حجراتِ نبوی واقع تھے یہ دارالسلطنت مدینہ کاوسطی علاقہ تھا یہ تین اطراف سے محفوظ علاقہ تھاشمالی طرف کا راستہ فوجی لحاظ سے کھلا تھا -جہاںسے اہلِ مکہ حملہ آورہو سکتے تھے بہر حال یہ سمت اہلِ مکہ کے لیے توجنگی پیچیدگیاں رکھتی تھی لیکن اہلِ مدینہ کے لیے مفید پڑسکتی تھی اس کے محل وقوع اور موزوںترتیب سے اٹھانے کے ساتھ ساتھ حضور اکرم
öکا ایک بڑا اور اہم کارنامہ یہ تھا کہ آپ
ö نے معاہدات کے ذریعے یہود،اوس وخزرج اور متصلہ قبائل کو ان کے مذہبی،تمدنی اورمعاوشی فرق کے باوجود ایک نظم میں پرودیا تھا آپ
ö کی سیاسی مہارت کایہ ایک در(رح)خشاں ثبوت ہے-‘‘ ﴿۰۳﴾
سیدنا ا لالمعیﷺ﴿معاملہ فہم﴾:
ڈاکٹر حمید اللہ ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں:
’’نبی اکرم ﷺ نے انتہائی فہم وفراست اور تدبیرِ سیاست سے مدینہ کے دفاع کا انتظام فرمایا ایک طرف تو معاہدات کے ذریعے مدینے کے علاقوں کو دوست بنالیا گیا گویا مدینہ کے گرد ایک حفاظتی منڈل/حلقہ قائم کرلیا دوسرا اہلِ مکہ پر معاشی دبائو ڈالنا شروع کردیا یعنی قریشی قافلہ کے لئے مدینہ اور حلیف قبائل کی تجارتی راہ گزرسے گزرنا ممنوع تھا -تیسرایہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طلایہ گری اور جاسوسی کا ایک مؤثر نظام قائم کردیا - اس طرح دشمن پر دھاک بیٹھ گئی-‘‘﴿۱۳﴾
سیدنا کثیر الحراسﷺ ﴿زیادہ پہرے داروں والے ﴾:
صحابہ کرام(رض) مختلف غزوؤں میں باری باری آپ ﷺ کا پہرہ دیتے تھے پھر آیت مبارکہ نازل ہوئی :﴿واللّٰہ یعصمک من الناس﴾پھر اس کے بعد آپ نے پہرہ ختم کردیا - ﴿۲۳﴾
متعدد مواقع پر مسلمانوں اور کفار کی مڈھ بھیڑ،غزوۂ بدر سے پہلے مختلف سرایا کی روانگی اور غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت سعد (رض)کا آپ ﷺ کے خیمہ مبارک کا ننگی تلوار کے ساتھ پہرہ دینا، اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان پہرے دارں کا قریش کے شب ماروں کی گرفتاری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لشکرِ محمدی میں پہرہ داری ،باقاعدہ گشت اور سراغرسانی کا فعال اور مؤثر نظام موجود تھا جس کی وجہ سے نہ صرف اہلِ مدینہ کو دفاعی نقطۂ نظر سے مضبوطی حاصل ہوئی بلکہ دشمن پر اعصابی دباؤ بھی بڑھنے لگا-
سیدنا المطلعﷺ ﴿اطلاع دیئے گئے ﴾:
اسلامی حکم ﴿ولاتحبسوا﴾کے مطابق تو تجسس کرنا غیر اسلامی فعل ہے توپھر دستہ میں مخبر یا خبر رساں افراد کے موجود ہونے اور انہیں دشمن لشکر کی جاسوسی کے لئے بھیجنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟اس ضمن میں کئی سیرت نگار ایک حوبصورت نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اصل میں اس حوالے سے تین طرح کے الفاظ کی توضیح ضروری ہے اوّل ’’تعسس‘‘ سے مراد تویہ ہے کہ کسی برائی کو روکنے سے پہلے پیش قدمی کی جائے- دوم ’’تجسس‘‘ کسی ہدف کی خاطرمثبت چیز کاپتہ چلایا جائے -تجسس کسی کے خلاف براسوچا جائے اور پھراس برائی کا تجسس کیا جائے -تجسس کی ممانعت ہے جبکہ تحسس اور تعسس کی نہیں اور یہ سنت اور سیرت سے ثابت ہیں -
لہٰذا دشمن کی درست تعداد کا پتہ لگانا اور اس کے مطابق جنگی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے اقدامات کرنا کسی بھی طرح اسلامی اصولوں کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپﷺ نے غزوۂ احد میں دشمن کے ذبح کردہ اونٹوں کی تعداد معلوم کر کے دشمن کی تعداد کا پوراپورا اندازہ کرلیا-
سیدنا المخبرﷺ ﴿خبر رکھنے والے﴾:
علما بیان کرتے ہیں کہ اسلامی جنگی پالیسی میں خدع کی تو اجازت ہے مگر دغا کی نہیں،خدع سے مراد ہے کہ جاسوس کا خبر لانا ،کمین گاہ میں بیٹھنا،دکھاوے کی پیش قدمی، دشمن میں افواہ اڑانا ،پسپائی کا دھوکہ دیناوغیرہ جبکہ دغاسے مراد ہے انجانے میں دشمن پر ٹوٹ پڑنا اور بھاری جانی ومالی نقصان پہنچانا یا اَس