حجرہ نبویہ(ﷺ) پر نعتیہ اشعار

حجرہ نبویہ(ﷺ) پر نعتیہ اشعار

حجرہ نبویہ(ﷺ) پر نعتیہ اشعار

مصنف: ڈاکٹر خورشیدرضوی دسمبر 2017

بابِ جبریل (علیہ السلام) سے اندر آکر بائیں طرف کی غلام گردش میں داخل ہوا تو اتفاقاً غلام کی نگاہِ بے ادب مقصورہ شریف کے بالائی حاشیے پر لکھی سنہری عبارت کی طرف اٹھ گئی-یہ عبارت غالباً دھات میں تراشی گئی ہے اور شاید آبِ زر سے مطلا ہے[1]-خطاطی آرائشی انداز کی ہے:

جس کے ہر جدولِ گل پیچ کے الجھاؤ میں
کتنے صنّاعوں کی صد عمرِ عزیز آویزاں

پڑھنا آسان نہ تھا اور چونکہ یہ مقصد پیشِ نظر بھی نہ تھا اس لئے ایک سرسری سی نگاہ پر اکتفا کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ غالبا ترکی زبان میں کچھ لکھا ہے کیونکہ یہ درو بام ترک دورکی یادگار ہیں اور ترکی اس زمانے تک عربی رسم الخط ہی میں لکھی جاتی تھی-صفّہ کی جانب سے ہوتا ہوا ’’روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ کے حصے میں پہنچا تو خوش قسمتی سے وہاں باجماعت نماز کی صف میں جگہ مل گئی سلام پھیرا تو اچانک اس جانب سے بھی مقصورہ شریف کے بالائی کونے پر اسی عبادت کے نقوش جگمگا اٹھے-یہاں آب زر خاصا تازہ محسوس ہوا جگر جگر کرتے حروف اچانک واضح ہوئے تو عربی کا یہ شعر سمجھ میں آگیا:

یا من یقوم مقام الحمد منفردا
للواحد الفرد لم یولد و لم یلد

’’اے وہ (ﷺ)کہ جو مقامِ حمد پر شانِ انفرادیت کے ساتھ استادہ ہوگا اس ذاتِ واحد و یکتا کے سامنے جو ’’لم یلد ولم یولد ہے‘‘-

تجسس بڑھا تو نگاہ اگلے شعر پر گئی-اس کے گل پیچ حروف کو سلجھانے میں ذرا دیر لگی مگر بالآخر سمجھ میں آہی گیا:

یا من تفجرت الانھار نابعۃ
من اصبعیہ فروا الجیش بالمدد

’’اے وہ (ﷺ)کہ جس کی دو انگلیوں سے دریا پھوٹ کر بہہ نکلے سو اس نے پورے لشکر کو اس روانی سے سیراب کردیا‘‘-

اچھا تو یہ بحر بسیط مثمن مخبون (مستفعلن، فاعلن/فعلن، مستفعلن، فعلن) میں ایک دالیہ نعتیہ قصیدہ ہے-اب تو نگاہ ہٹنے کا نام نہ لیتی تھی-جیب پر ہاتھ مارا تو قلم ندادر-ایک صاحب جو چہرے مہرے سے ترک معلوم ہوتے تھے سامنے بیٹھے نظر آئے-ان سے قلم مانگا اور دونوں شعر مسائل، دعاؤں اور سلاموں پر مشتمل  اس جیبی کتابچے پر لکھ لئے جو میرے پاس تھا-آگے نظر دوڑائی تو پورے شعر پر سبز روغن پھرا نظر آیا-الفاظ چونکہ شاید دھات پر ہیں اس لئے اب بھی ان کا اُبھار مختلف زایوں سے محسوس تو ہوتا ہے مگر ان کو پڑھنا قریب قریب ناممکن ہوگیا ہے-اس سے آگے مزید چار اشعار کی بھی یہی کیفیت تھی-اشعار پر پھرا ہوا روغن سبز گنبد کا ہم رنگ ہے-شاید سعودی دور میں جب گنبد پر روغن کی تجدید کی گئی ہو تو اسی روغن سے ان اشعار کو بھی دبا دیا گیا ہو جو سعودی مسلک کے اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئے ہوں-پانچ اشعار کے غیاب کے بعد یہ شعر سامنے آیا:

یا ذا الجمال تعالیٰ اللہ خالقہ
فمثلہ فی جمیع الخلق لم اجد

’’اے صاحب جمال (ﷺ)کہ جس کا خالق، اللہ، بزرگ و برتر ہے سو اس کی مثال ساری مخلوق میں،مَیں نے کہیں نہیں پائی‘‘-

اس کے بعد یہ شعر تھا جس کے پہلے مصرع کے آخری تین حروف بہت غور کے باوجود سمجھ میں نہ آسکے-

خیر الخلائق، اعلی المرسلین
خیر الانام و ھادیھم الی الرشد

’’تمام مخلوق سے افضلؐ سب رسولوں سے اعلیٰؐ سب لوگوں سے برتر اور راہ ہدایت کی طرف ان کے رہنماؐ‘‘-

اس کے آگے ایک شعر پھر مٹا ہوا تھا-اب غلام کو پھر اسی غلام گردش کی طرف آنا تھا-مگر پہلے قلم کی واپسی ضروری تھی-چنانچہ احساس تشکر کے ساتھ ان صاحب کی امانت ان کو لوٹائی اور باب جبریل علیہ السلام کی جانب سے باقی اشعار پر نظر ڈالی-اگلے دو شعر رفتہ رفتہ یو ں سمجھ میں آئے-

فمدحہ لم یزل دابی مدا عمری
وحبہ عند رب العرش مستندی
علیہ ازکی صلاۃ لم تزل ابدا
مع السلام بلا حصر، بلا عدد

’’سو آپ (ﷺ) کی مدح زندگی بھر میرا دستور رہی ہے اور انہیں کی محبت پرودگارِ عرش کے ہاں میرا سہارا ہے- آپ (ﷺ) پر پاکیزہ ترین درود ہو جو ابد تک جاری رہے-مع سلام کے، بے شمار، لاتعداد‘‘-

اب پھر قلم کی جستجو ہوئی- ایک صاحب مشرقی دیوار سے لگے تلاوت میں مصروف نظر آئے-اس بار ان سے قلم مانگا اور ذرا دیر بعد واپس کردیا-پھر جب کوئی لفظ اور سمجھ میں آیا تو پھر ان کےپاس پہنچا اور دوبارہ دستِ سوال دراز کیا اور بتایا کہ میں ان عبارتوں کو پڑھنے میں مصروف ہوں- انہوں نے کمال فراخ دلی سے وہ قلم مجھی کو ہدیہ کردیا اور ذرا سے تکلف کے بعد میں نے یہ ہدیہ اخلاص قبول کر لیا-(بعد میں مسجد سے باہر آتے ہوئے تعارف کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ میرے یہ محسن راوالپنڈی کے نوجوان نعت خواں جناب غلام عباس چشتی تھے-اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے)-

اب اطمینان سے باقی عبارت پر غور شروع ہوا-اگلا مصرع یوں تھا-

’’والآل و الصحب اھل المجد قاطبۃ‘‘

’’اور آل و اصحابؓ پر بھی جو سب کے سب صاحبان مجد ہیں‘‘-

دوسرے مصرع کے پہلے دو ایک لفظ چھوڑ کر باقی مصرع پر وہی روغن پھرا ہوا تھا-نصف سے زائد مصرع کے چھپ جانے سے ایک ابہام پیدا ہوگیا اور جو دو ایک لفظ ظاہر تھے وہ بھی بہت کوشش کے باوجود مجھ سے نہ اٹھائے گئے-اسی اثناء میں نظر نیچے کی جانب مقصورہ شریف کی جالی کے دروازے پر لگے ایک مختصر سے چپٹے تالے پر پڑی-اس پر باریک حروف میں قصیدہ بردہ شریف کا یہ مصرع جھلک رہا تھا:

’’ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ‘‘

’’وہی (اللہ کے)حبیب (ﷺ) ہیں جن کی شفاعت کی امید رکھی جاتی ہے‘‘-

معلوم نہیں دوسرا مصرع باقی نہیں رہ سکا تھا یا قفل کے دوسری جانب تھا جو نظر نہیں آتی تھی-

بائیں جانب مواجہ شریف کی طرف دیوارِ قبلہ بھی دکھائی دے رہی تھی جس پر غالباً ترکوں کے زمانے کی خطاطی کے شاہکار دیکھ کر نگاہ حیرت میں رہ جاتی ہے-حسنِ خط کے علاوہ ان حروف کے رنگ اس قدر اجلے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے خطاط کو اپنا قلم سکھائے زیادہ دیر نہیں ہوئی-حالانکہ غالباً یہ مشہور خطاط عبد اللہ بک زھدی کے نتائج فن ہیں-جن کو خاص طور پر استنبول سے بھیجا گیا تھا اور وہ مسجد نبوی ؐمیں تین برس اس خدمت میں مصروف رہے-[2]یہ بات 1280ھ/4-1863ء لگ بھگ کی ہے[3]-گویا سوا سو برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر ان نقوش کی آب و تاب میں فرق نہیں آیا-

فن کے ان کرشموں سے نگاہ پلٹی تو پھر سے اس مصرع کے ابتدائی کلمات پر دماغ لڑایا جس کا اکثر حصہ سبز روغن میں گم ہو چکا تھا- مگر اپنے قصور فہم کا اعتراف کرنا پڑا- یہ مصرع آخری تھا- اس سے آگے مقصورہ شریف کے حاشیے پر جو جگہ باقی رہ گئی ہے اس پر اسی خط میں حضرات عشرہ مبشرہ، (رضی اللہ عنہم)، کے اسمائے گرامی پر مشتمل یہ عبارت درج ہے:

’’اللھم ارض عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی و طلحۃ و زبیر و سعد و سعید و عبد الرحمٰن بن عوف و ابو عبیدۃ الجراح (رضی اللہ عنہم)‘‘

’’الزبیر‘‘ کے بجائے’’زبیر‘‘،’’ابی عبیدۃ‘‘ کے مقام پر ’’ابو عبیدۃ‘‘ اور ’’اللھم ارض‘‘ کے صیغے کے بعد ’’رضی اللہ عنہم اجمعین‘‘ کی تکرار، عبارت طے کرنے والے کی عجمیت کا سراغ دیتی ہے-

یہ سب کچھ نوٹ کر چکا تو ایک عجیب مسرت و طمانینت کا احساس ہوا-مواجہ شریف پر آکر سلام عرض کر رہا تھا اور وہی کتابچہ جس میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی محنت کا ما حصل محفوظ تھا میرے ہاتھ میں تھا کہ ایک نوجوان مطوع صاحب تشریف لائے اور روزمرہ کی عربی میں کچھ یوں گویا ہوئے:

’’یا شیخ مش ھذا سلام‘‘             ’’جناب یہ کوئی سلام نہ ہوا‘‘

میں نے کتابچہ کھول کر ان کا اطمینان کرنے کی کوشش کی اور دکھایا کہ اس میں ’’السلام علیک یا رسول اللہ(ﷺ)‘‘اور اسی قسم کے الفاظ درج ہیں، کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے-ارشاد ہوا:

’’انت تگوم تگراتگرا مش ھذا سلام‘‘

’’آپ کھڑے ہیں اور پڑھے چلے جارہے ہیں، پڑھے چلے جا رہے ہیں-یہ کوئی سلام نہ ہوا‘‘-

شاید ان کو دیر تک میرا کھڑے رہنا قابل اعتراض معلوم ہوا تھا یا معلوم نہیں کیا-اسی اثناء میں انہوں نے میرے ہاتھ سے کتابچہ چھین لیا- مجھے اضطراب ہوا کہ ساری محنت اکارت نہ ہوجائے- میں نے ’’طیب شکرا‘‘، ’’بہت اچھا، مہربانی‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار سے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی- خوش قسمتی سے چلتے چلتے انہوں نے کتابچہ مجھے واپس کردیا-

اشعار کے اسلوب و مضامین سے اندازہ ہوتا تھا کہ قصیدہ بردہ کے بعد کے کسی متاخر دور کے ہیں-ایسی اہم اور نمایاں جگہ پر لکھوائے جانے سے ذہن میں ایک قیاس یہ بھی آتا تھا کہ خود سلاطین ترکیہ میں سے کسی کے نہ ہوں-بہرحال کسی اہم اور معروف شخصیت ہی کے ہوں گے چنانچہ توقع تھی کہ پاکستان پہنچ کر تحقیق سے ان کا سراغ مل جائے گا-

واپس آکر سب سے پہلے’’المجموعۃ النبھانیۃ‘‘ میں جستجو کی مگر یہ اشعار اس میں شامل نہ تھے-مرکزی لائبریری پنجاب یونیورسٹی کے چیف لائبریرن جناب جمیل احمد رضوی سے ذکر ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی صاحب کا کتابچہ ’’حجرۂ نبوی (ﷺ) کے اندر نقش عربی کی چند نایاب نعتیں‘‘مہیا کی جو مجلس رضا، کراچی سے جو ن 1998ء میں شائع کیا گیا ہے-اگرچہ عربی متن کتابچے میں شامل نہ تھا تاہم اردو ترجمے سے اندازہ ہوگیا کہ صفحہ9-11، پر جن اشعار کا اردو مفہوم ’’حجرۂ مبارک کے اندر درو دیوار پر نقش قصیدہ‘‘ کے زیر عنوان درج ہے وہی میرے مطلوبہ اشعار ہیں- صفحہ6 پریہ وضاحت موجود ملی کہ ڈاکٹر صاحب کا ماخذ ’’شفاء الفواد بزیارۃ خیرالعباد‘‘ ہے چنانچہ اصل کی طرف رجوع کیا گیا- 246 صفحات پر مشتمل ’’شفاء الفواد بزیارۃ خیر العباد‘‘ السید محمد بن السید علوی بن السید عباس المالکی الحسینی کی تالیف ہے جسے1411ھ/1991ء میں ’’دو لۃ الامارات العربیۃ المتحدۃ‘‘ (U.A.E) کی وزارتِ اسلامی امور و اوقاف کی طرف سے شائع کیا گیا ہے-صفحہ203 پر اشعار کا مکمل عربی متن مل گیا جس میں وہ اشعار بھی شامل ہیں جو اب روغن پھر جانے کے سبب پڑھے نہیں جاتے-آغاز میں چند تعارفی سطور دی گئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ یہ قصیدہ 1191ھ میں سلطان عبد الحمید خان بن سلطان احمد خان نے کہا-ناظم کے اخلاص اور عشق رسول (ﷺ) کا نتیجہ کہئے کہ وہ حجرۂ نبویہ شریفہ پر نقش کئے جانے کا مستحق ٹھہرا-اسے ایک پرانی ترکی کتاب یعنی ایوب صبری باشا کی ’’مرآۃ الحرمین‘‘ سے برآمد کیا گیا ہے-

اسماعیل باشا البغدادی کی مشہور تالیف ’’ھدیۃ العارفین‘‘ کے مطابق، [4]امیر اللواء، ایوب صبری پاشا الرومی الحنفی بحریہ میں رئیس المحاسبات (چیف آو اکاونٹس) کے عہدے پر فائز تھا-اس کی وفات ماہ صفر 1308ھ/ ستمبر اکتوبر 1890ء میں ہوئی-اس کی تصانیف کے ذیل میں مندرجہ ذیل عنوان درج کیے گئے ہیں:

احوال جزیرۃ العرب

تاریخ الوہابیۃ

تکملۃ المناسک

شرح بانت سعاد (ترکی)

محمود السیر

نجاۃ المومنین

مرآۃ الحرمین

یہ آخری تصنیف یہاں زیر بحث ہے- ’’ھدیۃ العارفین‘‘ کے علاوہ اسماعیل باشا نے ’’ایضاح المکنون‘‘ میں بھی اس کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع تاریخ مکہ و مدینہ ہے اور یہ ترکی زبان میں پانچ جلدوں میں شائع ہوئی[5]-افسوس کہ متعدد کتب خانوں میں تلاش کے باوجود یہ کتاب دستیاب نہ ہوئی اور ثانوی حوالےکا اصل سے موازنہ کرنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی- اس کی جستجو میں البتہ ’’مرآۃ الحرمین‘‘ہی کے عنوان سے عربی میں جنرل ابراہیم رفعت باشا مصری کا جو کئی برس امیر حج رہے، ایک صدی پیشتر کا سفر نامہ حج و زیارت ہاتھ آگیا جس سے بعض مفید معلومات اس مضمون کےلئے بھی اخذ کی جاسکیں- یہ سفر نامہ دو جلدوں میں قاہرہ سے 1925ءمیں شائع ہوا- وافر تفصیلات کے علاوہ اس میں اس دور کی بہت سی نادر تصاویر بھی شامل ہیں-زیر غور اشعار کا حوالہ اس کتاب میں پہلی جلد کے صفحہ 475 پر ملتا ہے لیکن ابراہیم رفعت پاشا نے فنی طور پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے- لکھتے ہیں:

’’و مکتوب علی الحجرۃ فی جھاتھا المختلفۃ شعر رکیک ابی قلمی ان یخط منہ الا ھذین البیتین‘‘-

’’حجرے پر مختلف اطراف میں کچھ پھسپھسے شعر لکھے ہوئے ہیں جن میں سے ان دو شعروں کے علاوہ کچھ درج کرنا میرے قلم نے گوارا نہیں کیا‘‘-

اس کے بعد دسواں اور گیارھواں شعر نقل کیا گیا ہے-جیسا کہ آگے آتا ہے، زبان و بیان کے اعتبار سے ان اشعار کی بندش کہیں کہیں کچھ سست ضرور محسوس ہوتی ہے-تاہم ابراہیم رفعت پاشا کی رائے کچھ ضرورت سے زیادہ سخت نظر آتی ہے-

خیر اس رائےسے قطع نظر ’’علی الحجرۃ‘‘ ، ’’حجرے پر‘‘ کے الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ اشعار باہر کی جانب درج ہیں نہ کہ اندرونی درودیوار پر- شفاء الفواد میں بھی ’’علی الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ‘‘ ہی کے الفاظ آئے ہیں جبکہ عبد اللہ الحداد کے قصیدے کے بارے میں، جس کا ذکرآگے آتا ہے، ’’داخل الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ‘‘ حجرۂ نبویہ شریفہ کے اندر کی جانب کی وضاحت موجود ہے اور عنوان ہی ’’القصیدۃ  الحدادیۃ الداخلیہ للحجرۃ النبویۃ الشریفۃ‘‘، ’’حجرۂ نبویہ شریفہ میں شیخ حداد کا اندرونی قصیدہ‘‘ قائم کیا گیا ہے جبکہ زیر بحث اشعار کا عنوان صرف ’’قصیدۃ الحجرۃ النبویۃ الشریفۃ‘‘،  ’’حجرۂ نبویہ شریفہ کا قصیدہ‘‘ ہے- علاوہ ازیں ’’شفاء الفواد‘‘ میں جن اشعار کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ روغن سےمٹا دیے گئے  وہ بیرونی جانب کے مشاہدے کے مطابق ہے چونکہ حجرۂ پاک کے اندر داخلے کی سعادت خاکسار کو حاصل نہیں ہوئی اس لئے قطعیت سے کچھ کہنا مناسب نہیں تاہم مندرجہ بالا قرائن کی روشنی میں امکان غالب یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشعار بیرونی حاشیہ پر ہی درج ہیں اور اس قیاس کی گنجائش بہت کم نظر آتی ہے کہ اس کے اندر اور باہر دونوں جگہ درج ہوں اور عین ایک سی تفصیلات کے ساتھ -واللہ تعالیٰ اعلم

’’شفاء الفواد‘‘ کے منقول عربی متن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے تین اشعار مواجہ شریف کی جانب ہوں گے جن  کا سراغ خاکسار کو نہیں ملا (تفصیل آگے آتی ہے)- تاہم اس جانب دائیں ہاتھ کو جالی سے اوپر کی طرف ایک شعر درج ہے:

نبی عظیم خلقہ الخلق الذی
لہ عظم الرحمٰن فی سید الکتب

’’عظیم نبی(ﷺ)، جن کا خلق وہ خلق ہے کہ جس کی عظمت کا تذکرہ خدائے رحمان نے کتابوں کی سردار کتاب میں فرمایا ہے‘‘-

یہ شعر گیارھویں صدی ہجری/ سترھویں اٹھاروں صدی عیسوی کے ممتاز ادیب و شاعر جناب عبد اللہ الحداد کا ہے جنہیں الحداد الیمنی، الحداد الیمانی، الحدادی با علوی اور صرف الحداد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے- ان کا یہ مکمل قصیدہ اکتالیس اشعار پر مشتمل ہے اور ان کے دیوان’’الدر المنظوم لذوی العقول و الفہوم‘‘ میں جو المطبعۃ المیمنیۃ، مصر سے رمضان 1315ھ (جنوری، فروری 1898ء )میں شائع ہوا ہے، صفحہ 66-67 پر موجود ہے- مذکورہ بالا شعر قصیدے کا سولہواں شعر ہے اور اس میں آیت قرآنی ’’و انک لعلی خلق عظیم‘‘(68/4) کی طرف اشارہ ہے-قصیدے کا مکمل عربی متن ’’شفاء الفواد‘‘ میں بھی ’’القصیدۃ الحدادیۃ الداخلیۃ للحجرۃ النبویۃ الشریفۃ‘‘ کے عنوان سے نقل کیا گیا ہے- جس کا ذکر گزر چکا ہے-تعارفی کلمات میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ قصیدہ حجرہ پاک کے اندر کی جانب نقش کیا گیا ہے جو شاعر کے اخلاص اور پختگی عشق کا ثمرہ ہے نیز اس کا سولہواں شعر الگ ہے مواجہ شریف پر نمایاں انداز میں درج کیا گیا ہے-

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے خاصی جستجو کے باوجود ایوب صبری پاشا کی ترکی تصنیف ’’مرآۃ الحرمین‘‘تک رسائی نہ ہوسکی اور یہ تجسّس ہی رہا کہ انہوں نے زیر بحث دالیہ اشعار کی نسبت سلطان عبد الحمید خان (اول) سے کرتے ہوئے کیا حوالہ مہیا کیا ہے-بہر حال یہ امر قرین قیاس ضرور ہے کہ یہ شعر سلطان مذکور ہی کے ہوں کیونکہ مسجد نبویؐ کی دور بہ دور تعمیر کے تاریخی جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقصورہ شریف پر یہ اشعار غالباً سلطانِ عثمانی محمود ثانی کے زمانے میں نقش کئے گئے جو موجودہ سبز گنبد کا بھی بانی ہے-یہ سلطان محمود، سلطان عبد الحمید اول مذکور کا بیٹا تھا اور اس کا دور حکومت 1223ھ-1255ھ بمطابق 1808ءتا 1839ء ہے-موجودہ گنبد کی تعمیر 1233ھ/18-1817ء میں ہوئی [6]اوراس پر سبز رنگ سلطان محمود کی حکومت کے آخری سال یعنی 1255ھ/ 1839ء کی یادگار ہے[7]-چنانچہ اغلب ہے کہ مقصورہ شریف، جس کے اوپر سبز گنبد قائم ہے، کے موجودہ نقش و نگار بھی گنبد کی تعمیر یعنی 1233ھ/ 1817ء ہی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہوں اور سلطان محمود ثانی نے اس وقت اپنے والد محروم، سلطان عبد الحمید اول کے یہ نعتیہ اشعار یہاں کندہ کرادیے ہوں-

سلطان عبد الحمیداول بن سلطان احمد ثالث، ترکان عثمانی میں ستائیسواں سلطان تھا- وہ 1137ھ/ 1725ء میں پیدا ہوا- 50 برس کی عمر میں 1187ھ/ 1774ء میں تخت نشین ہوا اور سولہ سال حکمرانی کر کے 1203ھ/ 1789ء میں وفات پائی- اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں اس کے جو احوال درج ہیں[8]-بیشتر اس کے دور حکومت کے سیاسی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہیں- اس کے ذاتی اوصاف میں اس کی امن پسندی، جوش، اخلاق کریمانہ اور انسانی ہمدردی کی  طرف البتہ سرسری سا اشارہ ملتا ہے- اس کی شاعرانہ حیثیت کا سرے سے کوئی ذکر نہیں حالانکہ مآخذ کی ایک طویل فہرست درج کی گئی ہے-

معلوم نہیں اس پہلو کا ذکر ان تمام مآخذ میں موجود ہی نہیں یا دائرہ معارف میں نظر انداز کر دیا گیا ہے-ذاتی طور پربھی کسی ایسے ماخذ تک تادم تحریر رسائی نہیں ہو سکی جس میں سلطان کی شخصیت کے شعری و ادبی پہلو کا سراغ مل سکتا ہے-چنانچہ یہ تجسّس ہنوز باقی ہے کہ اگر سلطان عربی میں قدرت کلام رکھتا تھا تو اشعار زیر بحث کے علاوہ عربی میں اس نے کیا کیا نظم کیا نیز خود ترکی زبان میں بھی شاعری کی یا نہیں-

اب زیر غور اشعار کے مکمل عربی متن کی طرف آئیے جو ’’شفاء الفواد‘‘ میں ایوب صبری پاشا کی ’’مرآۃ الحرمین‘‘ کے حوالےسے منقول ہے اور جس میں وہ سب اشعار اور مقامات شامل ہیں جو مٹ گئے یا اس عاجز سے پڑھے نہ جا سکے-تاہم متن نقل کرنے سے پہلے چند توضیحات مناسب معلوم ہوتی ہیں-

’’شفاء الفواد‘‘(ص:204) کی وضاحت کے مطابق قصیدے کے پہلے تین شعر بھی ان اشعار میں شامل ہیں جن کو روغن پھیر کر مٹادیا گیا-موجودہ ترتیب اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تین شعر مواجہ شریف کی جانب رہے ہوں گے-لیکن خاکسار کو یاد نہیں آتا کہ اب اس جانب ان کے مٹے ہوئے ہونے کا نشان بھی نظر  سے گزرا ہو- معلوم نہیں نگاہ یکسر ان سے چوک گئی یا اب اس طرف کچھ ایسی تبدیلی عمل میں آچکی ہے جس سے مقصورہ شریف کا پرانا حاشیہ چھپ گیا ہے-

پانچویں شعر:’’یا من تفجرت الانھار نابعۃ‘‘ کے دوسرے مصرع کا متن ’’شفاء الفواد‘‘ میں یوں ہے:

’’من اصبعیہ فروی الجیش ذا العدد‘‘

’’ذا العدد‘‘کثیر التعداد کے معنوں میں ہے یعنی آپ (ﷺ)  کی انگلیوں سے پھوٹنے والے پانی نے ایک کثیر التعداد لشکر  کو سیراب کردیا-یہ لفظ اس معجزے کے پس منظر میں بڑا  برمحل ہے البتہ اس کی جگہ اس عاجز کی براہ راست قرأت ’’بالمدد‘‘ تھی جس سے مراد وہ مزید پانی ہوگا جو اسی پانی میں مسلسل آآکر ملتا رہے اور اس کی روانی کا سلسلہ کبھی کم نہ ہو-سورۂ کہف میں ارشادِ ربانی ہے:

’’قل لو کان البحر مدادا لکمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی و لو جئنا بمثلہ مددا‘‘ (18/109)

’’کَہ دو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی(کے طور پر استعمال)ہو تو بالیقین سمندر ختم ہو جائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں خواہ ہم اور ایسا ہی (سمندر) اس میں لاکر کیوں نہ ملادیں ‘‘-

’’جزر‘‘ کے مقابلے میں سمندر کے چڑھاؤ کے لئے ’’مد‘‘ کا جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ بھی اسی مادے سے ہے-چنانچہ پانی کے وفور کے مفہوم کے پیشِ نظر اس عاجز کی قرأت بھی بے محل معلوم نہیں ہوتی  لہٰذا اسے آغاز کلا م میں بحالہ برقرار رہنے دیا گیا ہے اگرچہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اس عاجز سے پڑھنے میں کوتاہی  ہوئی ہو-خصوصاً اس لئے کہ ’’شفاء الفواد‘‘ کے منقول متن کے مطابق تیسرےشعر میں، جواب نظر نہیں آتا’’المدد‘‘ کا قافیہ گزر چکا ہے اور آگے آخری شعر میں پھر آرہا ہے-

اس کے بعد جو پانچ شعرروغن میں دب گئے ہیں ’’شفاء الفواد‘‘ میں ان کا، بلکہ مجموعی اعتبار سے مکمل متن کا جائزہ لینے سے احساس ہوتاہے کہ زبان و اسلوب کے اعتبار سے بندش واقعی جا بجا کچھ سست ہے جس پر ابراہیم رفعت پاشا نے زیادہ ہی کڑا تبصرہ کر دیا  ہے-ان اشعار میں استمداد و توسل وغیرہ کا مضمون ہے جو وہابیہ کے نقطۂ نظر سے موجب انقباض ہوا ہوگا-کچھ ایسی ہی صورت باقی مٹے ہوئے اشعار کی ہے-

گیارھویں شعر کا آغاز ’’شفاء الفواد‘‘ میں ’’رب الجمال تعالیٰ خالقہ‘‘سے ہوتا ہے- ابراہیم رفعت پاشا کے ہاں بھی اسی طرح منقول ہے اور مٹے ہوئے اشعار کے سیاق میں اس کی گنجائش بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے- تاہم خاکسار نے بچشم خود جو کچھ پڑھا تھا وہ ’’رب الجمال‘‘ کی جگہ ’’یذا الجمال‘‘ تھا- وہ بھی چونکہ وزن و معنی کے اعتبار سے گنجائش رکھتا ہے اس لئے اپنی روداد میں اسے اسی طرح رہنے دیا گیاہے-

اس شعر کے بارے میں ’’شفاء الفواد‘‘ (ص:204) میں یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ اسے الگ سے حجرۂ نبویہؐ کی جالی پر ’’دکۃ الاغوات‘‘ کے سامنے یعنی محراب تہجد کی جانب نقش کیا گیا ہے-

’’دکۃ الاغوات‘‘ سے مراد صُفّہ شریف ہی ہے[9]-’’دکۃ‘‘ چبوترے کو کہتے ہیں اور ’’اغوات‘‘ (بفتح الغین)’’اغا‘‘ کی جمع ہے جو ’’آغا‘‘ کا مخفف ہے-یہاں ’’اغوت‘‘ سے مراد وہ خواجہ سرا ہیں جو ایک مدت تک مسجد نبویؐ کی دربانی اور خدمت، خصوصاً حجرہ پاک کی روشنی و صفائی کے لئے مامور رہے- اس دستور کا آغاز نور الدین زنگی یا بقول بعض، صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے ہوا[10]-سو برس پہلے تک یہ سلسلہ جاری تھا کیونکہ ابراہیم رفعت پاشا کی ’’مرآۃ الحرمین‘‘ میں ان خواجہ سراؤں کا نہ صرف ذکر کیا گیا ہے بلکہ بعض کی تصویریں بھی شامل ہیں[11]-غالباً ان خواجہ سراؤں یا اغوات کا اجتماع صفہ کی جانب رہتا تھا-چنانچہ اسی جانب کے دروازے سے وہ حجرہ شریف میں روشنی کے کرنے کے لئے داخل ہوتے تھے[12]-

اسی نسبت سے صُفّہ ’’دکۃ الاغوات‘‘ یعنی ’’آغاؤں‘‘ کا چبوترہ‘‘ کہلانے لگا-

گیارھواں شعر ’’شفاء الفواد‘‘ کی توضیح کے مطابق اگر دکتہ الاغوات کے سامنے محراب تہجد کی جانب جالی میں کندہ ہے تو فقیر کی توجہ اسی طرف نہیں گئی مگر خیال یہ ہے کہ شاید ایسا نہیں اور مراد اسی جانب کا وہی بالائی حاشیہ ہے جس پر باقی اشعار مقصورہ شریف کے گردا گرد کندہ ہیں- مگر وہاں تنہا یہی شعر نہیں بلکہ غالباً اگلے دو شعر بھی اسی رخ پر ہیں جن میں سے آخری روغن سے مٹا ہوا ہے-عین ممکن ہے اس وقت کی عمارت میں وہی حصہ صُفہ کی جانب الگ سے نمایاں ہو جس پر گیارھواں شعر درج ہے-

بارھویں شعر کے آخری تین حروف جو بہت غور کے باوجود اس وقت سمجھ میں نہ آسکے تھے ’’شفاء الفواد‘‘ میں ’’ذری‘‘ درج ہیں چونکہ مقصورہ شریف پر ان اشعار کی خطاطی میں الف مقصورہ کو ’’ی‘‘ کےبجائے الف سے لکھا گیا ہے- مثلاً پانچویں شعر میں لفظ ’’ردّا‘‘ جو بالعموم’’ردّیٰ‘‘  لکھا جاتا ہے اور چودھویں شعر میں ’’مدا‘‘ جس کی مانوس شکل ’’مدّیٰ‘‘ ہے یہ لفظ ’’ذریٰ‘‘بھی وہاں ’’ذرا‘‘ درج ہے اور وہ بھی آرائشی خط میں کچھ اس طرح کہ نقطہ واضح نہیں الف درمیان میں آگیا ہے-’’ر‘‘ آغاز میں خاصی اونچی ہے اور ’’ذ‘‘ آخر میں- گویا ’’راز‘‘ لکھا ہو- لفظ ’’ذریٰ‘‘ ’’ذروۃ‘‘ بمعنی ’’بلندی‘‘ یا ’’چوٹی‘‘ کی جمع ہے جبکہ اس مقام پر مصرع میں جمع کے صیغے کی توقع نہیں ہوتی- ایک قیاس یہ ذہن میں آتا ہے کہ یہ اصل میں ’’ذریٰ‘‘ بالفتح بصیغہ واحد ہو اور اس سے مراد ’’جائے پناہ‘‘ہو- جیسا کہ عربی میں کہتے ہیں’’فلان فی ذریٰ فلان‘‘- ’فلاں، فلاں کی پناہ یا سائے میں ہے- یا پھر اس کا مفہوم ’’طبیعت‘‘ سمجھا جائے جیسا کہ لغت عرب میں آتا ہے کہ ’’ان فلانا لکریم الذری‘‘ یعنی ’’فلاں طبع کریمانہ رکھتا ہے‘‘- واللہ اعلم-

اس شعر کے دوسرے مصرع میں احقر کی قرأت ’’خیر الانام‘‘ (تمام مخلوق سے افضلؐ) تھی جبکہ ’’شفاء الفواد‘‘میں ’’ذخر الانام‘‘ (سرمایہ خلقؐ)درج ہے-

آخری سے پہلے شعر کے آخری الفاظ ’’شفاء الفواد‘‘میں ’’بلا حصر،وبلاعدد‘‘  ہیں-فقیر کا ذوق بھی یہی تقاضا کرتا تھا مگر یاد آتا ہے کہ بغوع دیکھنے پر بھی وہاں بلا حصر، بلا عدد ہی سمجھ میں آیا تھا-

آخری شعر کے مصرع ثانی کے ابتدائی کلمات جو روغن سے تو بچ گئے تھے مگر پڑھنے میں نہ آتے تھے ’’شفاء الفواد‘‘ سے معلوم ہوا کہ وہ ’’بحر السماح‘‘ (بحر سخاوت) تھے-

ان معروضات کے بعد اب آخر میں ان اشعار کا کامل عربی متن جس طرح ’’شفاء الفواد‘‘ میں ایوب صبری پاشا کی’’مرآۃ الحرمین‘‘ سے منقول ہے-مع اردو ترجمانی کے درج کیا جاتا ہے- ان میں جو شعر روغن سے مٹادیے گئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے شعر نمبر 1تا 3،  6 تا 10، 13 اور آخری مصرع کا آخری حصہ-یہی تفصیل ’’شفاء الفواد‘‘ (ص:204) میں مندرج ہے البتہ آخری مصرع کے آخری حصے کا ذکر وہاں نہیں کیاگیا -

یا سیدی یا رسول اللہ خذ بیدی
مالی سواک ولا الوی علی احد

’’میرے آقا،یا رسول اللہ (ﷺ) میری دستگیری فرمائیے- آپ (ﷺ) کے سوا میرا کوئی نہیں اور میں کسی کی طرف پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں‘‘-

فانت نور الہدی فی کل کائنۃ
و انت سر الندی یا خیر معتمد

’’کہ آپ (ﷺ) ہی ہر موجود میں (مضمر) نورِہدایت ہیں اور اے بہترین تکیہ گاہ آپ (ﷺ) ہی رازِ سخاوت ہیں‘‘-

و انت حقا غیاث الخلق اجمعھم
و انت ھادی الوری للہ دی المدد

’’اور آپ (ﷺ) فی الواقع، تمام کی تمام مخلوق کے لئے سراپا امداد ہیں اور آپ (ﷺ) ہی خدائے مددگار کی طرف رہنمائے خلق ہیں‘‘-

یا من یقوم مقام الحمد منفردا
للواحد الفرد لم یولد و لم یلد

’’اےوہ(ﷺ) جو مقامِ حمد پر شانِ انفرادیت کے ساتھ استادہ ہوگا اس ذات واحد و یکتا کے سامنے جو لم یلد ولم یولد ہے‘‘-

یا من تفجرت الانھار نابعۃ
من اصبعیہ فروی الجیش ذا العدد

’’اے وہ (ﷺ)جس کی دو انگلیوں سے دریا پھوٹ بہے سو اس نے کثیر التعداد لشکر کو سیراب کردیا‘‘-

انی اذا سامنی ضیم یروعنی
اقول یا سید السادات یا سندی

’’میری کیفیت یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ہولناک ظلم میرے درپے ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں ’’اے سید سادات! اے میرے سہارے‘‘-

کن لی شفیعا الی الرحمٰن من زللی
و امنن علی بما لا کان فی خلدی

’’میری لغزش پر خدائے رحمان کے ہاں میری سفارش فرمائیے اور مجھے ایسی نعمتوں سے ممنون کیجئے جو میرے خیال و گمان میں بھی نہ ہوں‘‘-

و انظر بعین الرضا لی دائما ابدا
و استر بفضلک تقصیری مدی الامد

’’اور مجھ پر ہمیشہ خوشنودی کی نگاہ رکھئے اور از راہ کرم ابدتک میری کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائیے‘‘-

و اعطف علی بعفو منک یشملنی
فاننی عنک یا مولای لم احد

’’اور مجھ پرایسے عفو سے شفقت فرمائیے جو مجھے ڈھانپ لے کہ اے میرے آقا(ﷺ) میں آپ (ﷺ) سے سرتابی کا مرتکب نہیں ہوا‘‘-

انی توسلت بالمختار اشرف من
رقی السموات سر الواحد الاحد

’’میں نے رسولِ مختار (ﷺ) کو وسیلہ بنایا ہے جو آسمانوں پر جانے والوں میں اشرف ترین ہستی ہیں اور خدائے واحد و یکتا کا راز ہیں‘‘-

رب الجمال تعالیٰ اللہ خالقہ
فمثلہ فی جمیع الخلق لم اجد

’’صاحب جمال(ﷺ)ہیں کہ جن کا پیدا فرمانے ولا اللہ، بزرگ و برتر ہے[13] سو ان کی مثال ہی میں نے کل مخلوق میں نہیں پائی‘‘-

خیر الخلائق اعلی المرسلین ذری
ذخر الانام و ھادیھم الی الرشد

’’تمام مخلوقات میں بہترین تمام رسولوں میں چوٹی کے، بلند ترین، سرمایۂ خلق اور راہِ ہدایت کی طرف ان کے ہادی (ﷺ)‘‘-

بہ التجات لعل اللہ یغفرلی
ھذا الذی ھو فی ظنی و معتقدی

’’میں نے انہیں کی پناہ لی ہے-شاید کہ اللہ مجھے معاف فرمائے-یہی میرا (حسن) ظن اور میرا عقیدہ ہے‘‘-

فمحدحہ لم یزل دابی مدی عمری
و حبہ عند رب العرش مستندی

’’سو انہی کی مدح زندگی بھرمیرا طریق رہی ہے اور انہی کی محبت پرودگارِ عرش کے ہاں میرا سہارا ہے‘‘-

علیہ ازکی صلاۃ لم تزل ابدا
مع السلام بلا حصر و لا عدد

’’آپ (ﷺ) پر پاکیزہ ترین درود ہو، جو تا ابد جاری رہے مع سلام کے، بے شمار و لاتعداد‘‘-

و الال و الصحب اھل المجد قاطبۃ
بحر السماح و اھل الجود و المدد

’’اور آل و اصحاب (رضی اللہ عنہم)پربھی جو سب کے سب صاحبانِ مجد ہیں، دریا دلی کا سمندر ہیں اہلِ سخاوت و امداد ہیں‘‘-

٭٭٭


[1](ابراہیم رفعت پاشا کی ’’مرآۃ الحرمین‘‘ 1/459سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے-انہوں نے مسجد نبوی کے درودیوار کے بعض نقوش کی تفصیل بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے-

’’وکل ھذا مکتوب بالخط الجمیل المحلی بماء الذھب‘‘

’’اور یہ سب کچھ خوبصورت خط میں لکھا ہوا ہے جسے سونے کی پانی سے آراستہ کیا گیا ہے‘‘)

[2](ایضاً،1/468)

[3](ایضاً،1/467)

[4](ھدیۃ العارفین، 1/229)

[5](ایضاح المکنون، 2/458)

[6](مرآۃ الحرمین، 1/465)

[7](ایضاً)

[8](اردودائرہ معارف اسلامیہ، 12/847-849)

[9](مرآۃ الحرمین، 1/449، وعلی یسارہ الصفۃ او دکۃ الاغوات‘‘ اس کے بائیں جانب صُفہ یا دکۃ الاغوات ہے)

[10](ایضاً، 1/459، یہاں مختلف ادوار میں اغوات کی تعداد اور قومیت وغیرہ کے بارے میں مفید تفصیلات ملتی ہیں)

[11](ایضاً، 1/460)

[12](ایضاً، 1/451)

[13](جملے کی ایک مختلف ترکیب فرض کرتے ہوئے اسی مصرع کا ترجمہ یوں بھی ممکن ہے-

اللہ تعالیٰ جو پروردگارِ جمال ہے، آپ () کا خالق ہے)

بابِ جبریل (علیہ السلام) سے اندر آکر بائیں طرف کی غلام گردش میں داخل ہوا تو اتفاقاً غلام کی نگاہِ بے ادب مقصورہ شریف کے بالائی حاشیے پر لکھی سنہری عبارت کی طرف اٹھ گئی-یہ عبارت غالباً دھات میں تراشی گئی ہے اور شاید آبِ زر سے مطلا ہے[1]-خطاطی آرائشی انداز کی ہے:

جس کے ہر جدولِ گل پیچ کے الجھاؤ میں
کتنے صنّاعوں کی صد عمرِ عزیز آویزاں

پڑھنا آسان نہ تھا اور چونکہ یہ مقصد پیشِ نظر بھی نہ تھا اس لئے ایک سرسری سی نگاہ پر اکتفا کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ غالبا ترکی زبان میں کچھ لکھا ہے کیونکہ یہ درو بام ترک دورکی یادگار ہیں اور ترکی اس زمانے تک عربی رسم الخط ہی میں لکھی جاتی تھی-صفّہ کی جانب سے ہوتا ہوا ’’روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ کے حصے میں پہنچا تو خوش قسمتی سے وہاں باجماعت نماز کی صف میں جگہ مل گئی سلام پھیرا تو اچانک اس جانب سے بھی مقصورہ شریف کے بالائی کونے پر اسی عبادت کے نقوش جگمگا اٹھے-یہاں آب زر خاصا تازہ محسوس ہوا جگر جگر کرتے حروف اچانک واضح ہوئے تو عربی کا یہ شعر سمجھ میں آگیا:

یا من یقوم مقام الحمد منفردا
للواحد الفرد لم یولد و لم یلد

’’اے وہ (ﷺ)کہ جو مقامِ حمد پر شانِ انفرادیت کے ساتھ استادہ ہوگا اس ذاتِ واحد و یکتا کے سامنے جو ’’لم یلد ولم یولد ہے‘‘-

تجسس بڑھا تو نگاہ اگلے شعر پر گئی-اس کے گل پیچ حروف کو سلجھانے میں ذرا دیر لگی مگر بالآخر سمجھ میں آہی گیا: