رسول اکرم(ﷺ)کےمکتوبات اور معاہدات کا تحقیقی جائزہ

رسول اکرم(ﷺ)کےمکتوبات اور معاہدات کا تحقیقی جائزہ

رسول اکرم(ﷺ)کےمکتوبات اور معاہدات کا تحقیقی جائزہ

مصنف: مفتی محمد ہاشم دسمبر 2017

 

 ’’اس مضمون میں جہاں ’’٭‘‘آئےوہ تفصیلی فٹ نوٹ کی طرف نشاندہی کرتا ہے‘‘-

 مکتوبات و خطوط لکھنے اور انہیں محفوظ رکھنے کا سلسلہ قدیم ہے- جب انسانوں نے لفظ ایجاد کئے تو انہیں لکھنا بھی ایجاد کیا - حسبِ ضرورت صحائف اور دیگر تحریروں کو محفوظ کرنے کیلئے لکھ لیا جاتا - قبائل اور ممالک کا احوال ، وباؤں کا اور فسادات کا احوال از منہ قدیم سے مکتوبات کی ایک شکل رہا ہے - ایک دوسرے سے مدد مانگنے کیلئے بھی خطوط لکھے جاتے - انبیا کرام (علیہم السلام) اور مختلف بادشاہ اپنی اطاعت قبول کرنے کے نامے بھی لکھتے رہے-قرآن مجید میں حضرت سلیمان (رضی اللہ عنہ) کا ملکہ سبا کو لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے کہ خط ملنے پر ملکہ سبا حضرت سلیمان (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوئی- جب ہم اپنے نبی پاک شہِ لولاک (ﷺ) کی سیرتِ پاک کا مُطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ایک انتہائی اہم پہلو آپ (ﷺ) کے خطوط اور مکتوبات ہیں جو کہ ابوابِ سیرت کا نہایت روشن باب ہیں جن سے ہم دعوت کا نبوی طریق اور نبوی اسلوب سیکھتے ہیں کہ حکمت و اخلاقیات اور شانِ بے نیازی یقین بااللہ کے کن معیارات کو ملحوظ رکھ کر ایک نبی معاصر امم و ملوک کو مخاطب فرماتا ہے - آقا پاک (ﷺ) نے مختلف بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو خطوط ارسال فرمائے-پھر اس کے بعد خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہ) نے بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے، یہ خطوط شائع ہوچکے ہیں اور اہل علم اپنی تحریروں او رتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں -

مکتوبات نبوی(ﷺ):

قرآن حکیم کے اس ارشاد کے مطابق:

’’ وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّارَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘[1]

’’اور ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا‘‘-

آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت عالمگیر ہے-اسی عالمگیر نبوت کی بعثت کے تحت آپ (ﷺ)نے سینکڑوں کی تعداد میں خطوط روانہ فرمائے تا کہ اسلام کا عالمگیر پیغام دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ جائے-ان خطوط کے مخاطبین میں مختلف قسم کے لوگ شامل تھے-ان میں سے کچھ خطوط تو اس عہد کے عظیم اور پر ہیبت بادشاہوں کے نام ہیں جن میں اہل کتاب کے علاوہ مشرک بھی تھے-بعض خطوط عرب کے علاقائی بادشاہوں، راجاؤں اور سردارانِ قبائل کے نام ہیں اور کچھ مکتوبات آپ (ﷺ)نے صحابہ کرام،مسلم عمائدین اور سپہ سالاروں کو بھی تحریر کیے-یہاں پر ہمارا مقصد صرف ان چند خطوط کا جائزہ لینا ہے جو ماضی قریب میں اصل متن کے ساتھ اصل شکل میں دریافت ہوئے ہیں-یہ خطوط جو معروف و مشہور ہیں اور ان کا تذکرہ کتبِ سیرت و تاریخ میں تواتر سے ملتا ہے، دور حاضر میں ان کی دریافت اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلام کے معجزے کا اظہار ہے-اگرچہ آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کی صداقت کے لئے ہمیں کسی ایسے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ کے مصداق آپ (ﷺ)کی رسالت و تعلیمات ہر طرح سے عیاں ہیں-البتہ اہل ایمان کے لئے تقویت کا باعث اور منکرین کے لئے حجت کا سبب ضرور ہےکیونکہ انسانیت کے لئے جتنے بھی فضائل، محاسن اور آداب ہوسکتے ہیں وہ تمام کے تمام اسلام کی ابدی تعلیمات کا جزو لازم ہیں، اسلام کی انہی ابدی صدا قتوں سے دیگر اقوامِ عالم کو روشناس کرانے کے لئے آپ (ﷺ) نے ضروری سمجھا کہ سلاطینِ عالم تک خطوط کے ذریعے اس پیغام کو پہنچایا جائے، تاکہ آپ (ﷺ) اپنے فریضہ ٴ تبلیغ سے کما حقہٗ عہدہ برآہوسکیں-

کتب سیرت نبوی (ﷺ) کے مطالعہ کے بعد مکتوبات نبوی (ﷺ)سے متعلق درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے صلح حدیبیہ سے واپسی پر ماہ ذی الحجہ 6ھ میں بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کا ارادہ کیا،اس موقع پر آپ (ﷺ)نے صحابہٴ کرام (رضی اللہ عنہ)سے مشورہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو! میں تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں، تمام دنیا کو یہ پیغام پہنچاؤ،اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا، حضرت عیسیٰ (علیھم السلام)کے حواریین کی طرح اختلاف نہ کرنا کہ اگر قریب جانے کو کہا تو راضی ہوگئے اور اگر کہیں دور جانے کا حکم دیا تو زمین پر بوجھل ہوکر بیٹھ گئے-

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) جو اطاعت و جانثاری کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اور اپنے خلوص، تعمیلِ ارشاد اور وفا شعاری کے بڑے سخت سے سخت مراحل میں بھی اعلیٰ درجہ کی کامیابی کی سند اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کا طلائی تمغہ حاصل کرچکے تھے، انہوں نے اس خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھا اور تعمیلِ ارشاد کے لئے دل وجان سے تیار ہوگئے- مگر بایں ہمہ آپ کی خدمت اقدس میں ایک مشورہ بھی پیش کیاکہ:

یا رسول اللہ! جس خط پر مہر نہ ہو،سلاطین اس کو قابلِ وثوق اور قابل اعتماد نہیں سمجھتے،حتی کہ ایسے خط کو پڑھتے تک نہیں-

آپ (ﷺ) نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)کے مشورہ سے ایک مہر کندہ کروائی، جس کا حلقہ چاندی کا تھا تونگینہ بھی چاندی ہی کا تھا،مگر صنعت حبشہ کی تھی اس پر مہر کی شکل میں ”محمد رسول اللہ“ کندہ تھا صورت یہ تھی:سب سے نیچے لفظ محمد، سب سے اوپر لفظ اللہ اور درمیان میں لفظ رسول تھا‘‘- [2]

’’جیسا کہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آپ (ﷺ)نے دنیا کے چھ مشہور حکمرانوں کے نام تبلیغی خطوط روانہ فرمائے اور ان پر اپنی مہر بطورِ دستخط ثبت فرمائی‘‘-[3]

’’قیصرو کسریٰ وغیرہ کے نام خطوط کا ذکر ’’صحیح بخاری‘‘ میں بھی موجود ہے اور خط پر مہر لگانے کیلئے چاندی کی انگوٹھی تیار کرنے کا ذکر بھی موجود ہے ‘‘-[4]

(1)’’آپ(ﷺ)نے یہ مہر لگاکر سلاطین و امراء کے نام خطوط روانہ فرمائے، ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور یہ بھی واضح فرمادیا کہ رعایا کی گمراہی کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے- واقدی کے قول کے مطابق آپ (ﷺ) نے یہ خطوط 6ھ کے اخیر ماہ ذو الحجہ میں صلح حدیبیہ کے بعد روانہ کئے اور بعض کے نزدیک 7ھ میں روانہ کئے گئے- ممکن ہے کہ آپ (ﷺ)نے سلاطین عالم کے نام یہ خطوط بھیجنے کا ارادہ تو6ھ کے آخر میں فرمایا ہو اور پھر 7ھ میں خطوط روانہ کئے ہوں‘‘-[5]

(2)’’ بہر حال حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے یہ خطوط روانہ کئے گئے‘‘- [6]

(3)’’ مکتوبات نبوی(ﷺ) میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے، ان میں چار مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں: (1)مشرکین عرب، (2)عیسائی، (3)یہودی اور (4) زرتشی (مجوسی)‘‘-

آپ (ﷺ)نے ہرقل اور مقوقس کے نام جو خطوط لکھے، ان میں آپ (ﷺ) نے اپنے نام کی خصوصیت کے ساتھ ’’عبد اللہ‘‘ (خدا کا بندہ) لکھا،جس سے مخاطب کے عقیدے کی نہایت لطیف پیرائے میں تردید کردی گئی ہے کہ انبیاء ومرسلین خدا کی اولاد نہیں، بلکہ مخلوق ہوتے ہیں-فارس خسر و پرویز کے نام جو نامہ مبارک ارسال کیا گیا،اس میں عقیدہٴ توحید کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا کیونکہ فارس میں دو خداؤں کا عقیدہ موجود تھا،اس کے بعد اسلام کے عالمی مذہب ہونے اور آپ کے تمام اقوام کی جانب مبعوث ہونے کا صاف لفظوں میں اظہار کیا گیا-یہود کے نام خط میں تورات کے حوالے دے کر اپنی نبوت کا اثبات کیا گیا اور مشرکینِ عرب کے نامہٴ مبارک میں توحید خدا پر زور دے کر غیر خدا کی عبادت سے روکا گیا-

قیصر روم (جو کہ مذہباً عیسائی تھا) نے آپ (ﷺ) کے دعوتی خط کے بعد احوال کا جائزہ لے کر آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کا اقرار کیا،مگر اسلام قبول نہ کیا- اسی طرح عزیز مصر مقوقس نے بھی (جوکہ مذہبا نصرانی تھا) آپ (ﷺ)کی نبوت و رسالت کا اعتراف کیا،مگر حلقہٴ اسلام میں داخل نہ ہوا، نجاشی شاہ حبشہ (جوکہ عیسائی تھا) حلقہ بگوش اسلام ہوا-

مکتوب نبوی(ﷺ) اور اہل سندھ :

’’بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے ایک خط اہل سندھ کی جانب بھی ارسال فرمایا تھا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور سندھ کے کچھ خوش قسمت حضرات حلقہ بگوش اسلام ہو کر دربار رسالت مآب (ﷺ)میں حاضر ہوئے‘‘-[7]

(4) ’’آپ (ﷺ)نے ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں اور عرب کے قبائلی سرداروں کے نام جو خطوط تحریر فرمائے ہیں،ان کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ(ﷺ) نے دنیا میں کس طرح کا ذہنی،فکری اور عملی انقلاب برپا کیا؟ اور انسانیت کے لئے کیسے کیسے زریں اصول وضع فرمائے؟ تمدن اور معاشرت کو کن راہوں پر ڈالا؟ اور انسانیت کے فطری تقاضوں کی کس حد تک تکمیل فرمائی؟کسی شخصیت کا مطالعہ اس کے خطوط کی روشنی میں بہترین مطالعہ قرار دیا گیا ہے- خطوط کے ذریعے مکتوب نگار کی سیرت،شخصیت، روز مرہ پیش آنے والے حالات و واقعات، معاشرتی و سیاسی تغیرات اور اس عہد کے معاشرتی و سیاسی اور تاریخی عوامل با آسانی معلوم ہوجاتے ہیں،نیز کسی شخص کے انفرادی و اجتماعی حالات معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا-کسی مفکر کا قول بھی ہے کہ ’’خطوطِ انسانی زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں- آپ (ﷺ)نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے بادشاہوں، قبائل عرب کے سرداروں اور گورنروں کے نام جو خطوط لکھے، وہ کتب حدیث میں محفوظ ہیں‘‘-

مکتوبات نبوی (ﷺ)کی تحقیق:

’’مکتوبات کی تعداد300کے قریب ہے، ان میں سے 139 خطوط ایسے ہیں جن کا اصل متن محفوظ ہے اور 86 خطوط وہ ہیں جن کا صرف مفہوم کتب میں ذکر کیا گیا ہے‘‘-[8]

آپ(ﷺ)کے مکاتیب کو سب سے پہلے حضرت عمرو بن حزم انصاری (رضی اللہ عنہ)نے مرتب کیا تھا،انہوں نے آپ(ﷺ) کے 21 مکاتیب گرامی جمع کئے تھے‘‘-

ابن طولون نے بھی اپنی کتاب ”مفاکہة الخلان فی حوادث الزمان“ میں مکاتیب پر لمبا چوڑا نوٹ لکھا ہے-

 ڈاکٹر حمید اللہ نے ” الوثائق السیاسیہ“ کے نام سے بہت جامع کام کیا ہے،جس کا اردو ترجمہ ”رسول اکرم (ﷺ)کی سیاسی زندگی“ کے نام سے دستیاب ہے- اس موضوع پر اردو میں اب تک جنہوں نے سب سے زیادہ قابل قدر کام کیا ہے، وہ مولانا سید محبوب رضوی صاحب ہیں،موصوف نے اپنی کتاب ”مکتوبات نبوی (ﷺ)“ میں آقائے نامدار(ﷺ)کے 300کے قریب مکاتیب جمع کردئے ہیں اور بہت تحقیقی کام کیا ہے-

اس کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے ”بلاغ مبین“ میں آپ (ﷺ)کے مکاتیب کو جمع کیا ہے -

صاحبزادہ عبد المنعم خان نے ”رسالات محمدیہ“ میں مکتوبات نبوی (ﷺ)کی کافی تعداد جمع کردی ہے-

’’گذشتہ 2 صدیوں میں آپ(ﷺ) کے 6 مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہوچکے ہیں، یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ، منذر بن ساوی گورنر بحرین، قیصر روم ہرقل، شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس،شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ، شاہ عمان جیفر و عبدان کے نام ہیں ‘‘-[9]

اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سب سے بہتر اور مؤثر طریقہ وہی ہے جو آپ (ﷺ)نے اختیار فرمایا،مکتوبات نبوی (ﷺ)میں اسی طریقہ کو پیش کیا گیا ہے،آپ (ﷺ) کے ان خطوط سے جو بات نمایاں طور پر سمجھ میں آتی ہے،وہ یہی ہے کہ اسلام کو غیر مسلموں کے سامنے کس انداز سے پیش کرنا چاہیے؟اور مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلقات و معاملات میں کن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے؟ان خطوط میں تبلیغی جذبے کی آبیاری کا سامان بھی ہے اور تزکیہٴ باطن و اصلاح نفس کے لئے رہنمائی بھی-اصول دین کی تبلیغ بھی ہے اور اسلام کے احکام ومصالح اور تشریعی مسائل کا ذکر بھی-آپ (ﷺ)نے شاہانِ عالم کے نام جو خطوط ارسال فرمائے ہیں،یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی نبوت و رسالت فقط جزیرہٴ عرب کے’’اُمّیّین‘‘کے ساتھ مخصوص نہیں تھی ، بلکہ آپ (ﷺ)کی رسالت عرب وعجم،جن و انس،یہود و نصاری، مشرکین، مجوس اور پوری دنیا کے انسانوں کے لئے یکساں ہے-

مکتوبات و معاہدات نبوی (ﷺ) کی مختصراً و اجمالی تفصیلات درج ذیل ہیں:

نامہ مبارک بنام نجاشی ،شاہ حبشہ:

’’نجاشی٭کے نام تین مکاتیبِ نبوی (ﷺ) اس وقت سیرت کی کتب میں موجود ہیں البتہ معروف دوسرا مکتوبِ نبوی ہے جس کے ملنے پر شاہ نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا‘‘-[10]

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-من محمد رسول اللہ الی النجاشی عظیم الحبشہ سلام علی من اتبع الھدی اما بعد انی احمد الیک اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن واشھد ان عیسی ابن مریم البتول الطیبہ الحصینہ فحملت بعیسی من روحہ و نفخہ کما خلق ادم بیدہ وانی اعودک الی اللہ وحدہ لا شریک لہ و الموالاة علی طاعتہ وان تتبعنی وتؤمن بالذی جاءنی فانی رسول اللہ و انی اعودک وجنودک الی اللہ عزوجل وقد بلغت و نصحت فاقبلونصیحتی- والسلام علی من التبع الھدی‘‘

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے حبشہ کے عظیم نجاشی کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے- ’’اما بعد‘‘ میں اس اﷲ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی حقیقی بادشاہ ہے -وہ تمام عیبوں سے پاک ہے،امن دینے والا اور سب کا نگہبان ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عیسی ابن مریم (علیہ السلام)اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالی نے مریم بتول طیبہ عفیفہ کی جانب القاء کیا (کہ وہ اللہ کے نبی (حضرت)عیسٰی (علیہ السلام) کی والدہ بنیں) پس اللہ ہی نے ان کو اپنی روح سے پیدا کیااور اس کو (حضرت مریم (علیھا السلام) میں)پھونک دیا-جیسا کہ اس نے (حضرت آدم (علیہ السلام)کو اپنے دست قدرت سے بنایا -میں تجھے اللہ کی طرف اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی محبت کی طرف بلاتا ہوں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اور اس پر یقین کرے جو اللہ کی طرف سے میرے پاس آیا ہے(یعنی قرآن) کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں اور میں نے اللہ کا حکم پہنچادیا اور تمہیں نصیحت کر دی پس تم میری نصیحت قبول کر و اور سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے‘‘-

نامہ مبارک بنام کسری‘ شاہ فارس:

مؤرخین عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ خسرو پرویز٭نے رسول اکرم (ﷺ) کے مکتوب گرامی کو چاک کر دیا تھا-مگر اس کے بعد مکتوب گرامی کا کیا ہوا،اس بارے میں کسی نے کچھ نہیں لکھا-البتہ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ کسری نے ٹکڑے اکٹھے کرکے ابن حذافہ(قاصد) کو دے دیے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) کوبطور ہدیہ دے دینا تاہم اس وقت کون جانتا تھا کہ کسری کی عظیم الشان سلطنت تباہ ہوجانے والی ہے اور جس تحریر کو بظاہر چاک کر کے پھینک دیا گیا ہے وہ مرور زمانہ اور گردش روزگارکے باوجود 1400 سال کے بعد بھی دستیاب ہو سکتی ہے‘‘-[11]

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-من محمد ابن عبداللّٰہ ورسولہ الی کسری عظیم فارس سلام علی من التبع الھدی و امن باللّٰہ ورسولہ وشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ادعوک بدعایة اللّٰہ فانی انا رسول اللّٰہ الی الناس کافة لا نذر من کان حیا و یحق القول علی الکافرین اسلم تسلم فان ابیت فان اثم المجوس علیک‘‘

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے فارس کے عظیم کسری کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں-میں تجھے اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول (بھیجا ہوا)ہوں تاکہ ہر زندہ انسان کو (آخرت) کاڈر سناؤں اور کافروں پر اللہ کی بات ثابت ہو جائے - اسلام قبول کرو سلامت رہو گے-پھر اگرتو نے انکار کیا تو تمام مجوسیوں(کے اسلام قبول نہ کرنے)کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا‘‘-

نامہ مبارک بنامِ مقوقس ‘شاہ قبط مصر: ٭

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم من محمد ابن عبد ﷲ ورسولہ الی المقوقس عظیم القبط سلام علی من التبع الھدی اما بعدفانی ادعوک بدعایة السلام اسلم تسلم یوتک ﷲ اجرک مرتین فان تولیت فعلیک اثم القبط یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواءبیننا وبینکم ان لا نعبدالاﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون ﷲ فان تولوافقولوااشہدوا بانا مسلمون‘‘

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم -اللہ کے رسول محمد(ﷺ)کی طرف سے قبط کے عظیم مقوقس کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے-اما بعدمیں تمہیں اسلام کے کلمہ کی دعوت دیتا ہوں-اسلام لے آؤ سلامت رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا-پھر اگر تو نے رو گردانی کی تو تجھ پر تمام قبط(کے اسلام نہ لانے)کا گناہ ہوگا-اے اہل کتاب تم ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں پھر اگر وہ رُوگردانی کریں تو آپ کَہ دیجیے کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں‘‘-

نامہ مبارک بنام ہر قل‘ قیصرروم:

حضور اکرم (ﷺ) کا وہ مکتوب مبارک جو آپ (ﷺ)نے روم کے شہنشاہ ہرقل کے نام ارسال فرمایاتھا :٭

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم-من محمدابن عبد ﷲ و رسولہ الی ھرقل عظیم الروم سلام علی من اتبع الھدی-اما بعد فانی ادعوک بدعایة السلام اسلم تسلم یوتک ﷲ اجرک مرتین فان تولیت فعلیک اثم الاریسین ویا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواءبیننا وبینکم ان لا نعبد الا ﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنابعضا اربابا من دون ﷲ فان تولوافقولوااشہدوا بانا مسلمون‘‘

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے ر وم کے عظیم ہرقل کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے-اما بعدمیں تمہیں اسلام کے کلمہ کی دعوت دیتا ہوں-اسلام لے آؤ سلامت رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا-پھر اگر تو نے رو گردانی کی تو تیری تمام جاہل رعایا (کے اسلام نہ لانے)کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اے اہل کتاب تم ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کاشریک ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو آپ کَہ دیجیے کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں‘‘-

نامہ مبارک بنام منذر بن ساوی حاکم بحرین: ٭

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم- من محمد رسو ل ﷲ الی المنذر بن ساوی سلام علیک فانی احمد ﷲ الیک الذی لا الہ غیرہ واشھد ان لا الہ الا ﷲ و ان محمدا عبدہ و رسولہ- اما بعد فانی اذکرک ﷲ عزوجل فانہ من ینصح فانما ینصح و انہ من یطع رسلی و یتبع امرھم فقد اطاعتی و من نصح لھم فقد نصح لی و ان رسلی فقد انمو علیک خیرا و انی قد شفعتک فی قومک فاترک للمسلمین ما اسلموا علیہ و عفوت من اھل الذنوب فاقبل منھم وانک مھما تصلح فلن نعزلک عن عملک ومن تام علی یہودیة او مجوسیة فعلیہ جزیة‘‘

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے منذر بن ساوی کے نام،سلام ہوتجھ پر میں تجھ سے اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں-اما بعد میں تجھے اللہ عزوجل کی یاد دلاتا ہوں جو نصیحت قبول کرتا ہے وہ اپنے فائدے کیلئے کرتاہے اور جس نے میرے قاصدوں کی پیروی کی اور ان کی ہدایت پر عمل کیا تو ا س نے بلا شبہ میری پیروی کی اور جس نے اس کی خیر خواہی کی اس نے گویا میری خیر خواہی کی اور میرے قاصدوں نے آکر تمہاری توصیف کی اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کی پس وہ املاک مسلمانوں کے پاس چھوڑ دو جن پر وہ اسلام لانے کے وقت قابض تھے اور گناہوں سے درگزر کرتا ہوں- لہٰذا تم بھی ان سے (توبہ)قبول کر لو اور جب تک تم اصلاح احوال کرتے رہو گے تو ہم تمہیں ہرگز معزول نہیں کریں گے اور جو شخص یہودیت یا مجوسیت (آتش پرستی)پر قائم رہنا چاہے اس پر جزیہ ہے‘‘-

معاہدات نبوی(ﷺ):

مذکورہ بالا خطوط ومکتوبات اور معاہدات کے علاوہ بھی درج ذیل مکتوبات ومعاہدات نبوی (ﷺ) کا ذکر کتب سیرت وتواریخ میں ملتاہے-

صحیفہ عمر و بن حزم :

’’ 10ھ میں جب یمن کا علاقہ نجران فتح ہوا تو رسول اللہ (ﷺ) نے عمرو بن حزم کویمن کا عامل بنا کر بھیجا تو انہیں ایک عہد نامہ تحریر فرما دیا جس میں آپ نے شرائع و فرائض و حدود ِاسلام کی تعلیم دی تھی‘‘-[12]

قبیلہ جُہینہ کے نام تحریر :

’’عبد اللہ بن عکیم روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ (ﷺ) کی ایک تحریر (ہمارے قبیلہ جہینہ ) کو پہنچی‘‘-[13]

اہل جرش کے نام خط:

’’نبی کریم (ﷺ) نے ایک نامہ مبارک اہل جرش کو بھیجا تھاـ جس میں کھجور اور کشمش کی مخلوط نبیذ کے متعلق حکم بیان فرمایا گیا تھا‘‘- [14]

’’حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ)نے یمن سے آنحضرت (ﷺ) سے لکھ کر دریافت کیا کہ کیا سبزیوں میں زکوٰۃ ہے؟ آپ (ﷺ) نے تحریری جواب دیا کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں‘‘-[15]

عہد ِنبوی (ﷺ)کے خطوط :

ڈاکٹر حمید اللہ کا بیان ہے کہ عہد ِنبوی کے کوئی پونے تین سو مکتوب یکجا کیے جاچکے ہیں‘‘[16]

نومسلم وفود کے لیے صحائف:

’’جب حضرت وائل بن حجر نے (مدینہ سے ) اپنے وطن لوٹنے کے ارادے پر رسول اللہ(ﷺ) کے حضور عرض کیا:’’یا رسول اللہ!میری قوم پر میری سیادت کا فرمان لکھو ا دیجئے‘‘ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) سے تین ایسے فرمان لکھوا کر وائل کے سپرد فرمائے ‘‘-[17]

آپ نے مندرجہ ذیل وفود کو بھی اسلامی احکام پر مشتمل صحیفے الگ الگ لکھوا کر عنایت فرمائے :

 ’’وفد قبیلہ خثعم، وفد الریاویّین، وفد ثمالةوالجدان‘‘[18]

’’ایک مرتبہ کسی لشکر کے سردار کو حضور نے ایک خط دیا اور فرما دیا کہ جب تک توفلاں فلاں مقام پر نہ پہنچ جائے اس کو نہ پڑھنا، وہ سردا ر جب مقامِ مقررہ پر پہنچا تولوگوں کے سامنے حضور کاخط پڑھا اورسب کو اس کی اطلاع کر دی‘‘-

تحریری معاہدے :

’’ہجرت کے فوراً بعد مختلف قبائل عرب اور دوسری اَقوام سے آپ (ﷺ)کے معاہدات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا-ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے ’’الوثائق السیاسیۃ‘‘ میں ایسے تحریری معاہدات کی بہت بڑی تعداد جمع کی ہے –’’دستور ِمملکت‘‘ جو ہجرت کے صرف پانچ ماہ بعد آپ نے نافذ فرمایا تھا، وہ بھی معاہدات ہی کے سلسلے کی اہم کڑی ہے-اسی طرح چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کامعاہدہ تحریر کیاگیا-اس معاہدے کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے تحریر فرمایا تھا- اس کی ایک نقل قریش نے لے لی اورایک آقا (ﷺ) نے اپنے پاس رکھی ‘‘-[19]

جاگیروں کے ملکیت نامے :

رسول اللہ (ﷺ) نے بہت سے لوگوں کو جاگیریں عطا فرمائیں اور ان کے ملکیت نامے بھی تحریر کروا کے دئیے- مثلاً حضرت زبیر بن العوام(رضی اللہ عنہ) کو ایک بڑی جاگیر عطا فرماتے وقت یہ دستاویز لکھوا کر دی:

’’یہ دستاویز محمد رسول اللہ (ﷺ) نے زبیر کو دی ہے ان کو سوارق پورا کاپورا بالائی حصے تک موضع مُورع سے موضع موقت تک دیا ہے، اس کے مقابلے میں کوئی اپنا حق اس میں نہ جتائے ‘‘-[20]

اَمان نامے :

آپ (ﷺ)نے بہت سے افراد اور خاندانوں کو امان نامے لکھوا کر عطا فرمائے-ان کا ذکر طبقات ِابن سعد میں بھی ملتا ہے اور ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ہے کہ آپ(ﷺ) نے حضرت ابو بکر صدیق( ﷜) کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ سے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر اَمان نامہ سراقہ بن مالک کو لکھوا دیا-

بیع نامے :

رسو ل اللہ (ﷺ) قیمتی اشیاء کی خرید وفروخت کے وقت ان کی دستاویز بھی لکھوایا کرتے تھے -عبد المجید بن وہب روایت کرتے ہیں کہ عداء بن خالد بن ہوذہ نے ان سے کہا: کیا میں تمہیں ایسی تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ (ﷺ) نے میرے لیے تحریر کرائی تھی -انہوں نے کہا:کیوں نہیں ! اس پر انہوں نے ایک تحریر نکالی،اس میں لکھا تھا: یہ اقرار نامہ ہے کہ عداء بن خالد بن ہوذہ نے محمد رسول اللہ (ﷺ) سے خریداری کی-

یہ شرف امت ِمسلمہ کو حاصل ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد (ﷺ)کے ارشاداتِ گرامی، افعال، خط و کتابت باقاعدہ روایات کے ساتھ محفوظ موجود ہیں- مکاتیب ِ نبوی (ﷺ) کے ہر لفظ سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کامل رہنمائی ملتی ہے- سرورِ عالم (ﷺ) کے خطوط میں طوالت، تکلف وتصنع اور وضع و قطع کی بجائے لطافت، سادگی،حقیقت پسندی اور ایجاز و اختصار کا پہلو نمایاں ہے- ان خطوط و معاہدات سے جہاں فقہی،قانونی،مذاہب عالم سے ہم آہنگی اور اسلامی ریاست کے دوسری ریاستوں سے تعلقات عامہ کے تعین میں مدد ملتی ہے وہیں اس وقت کے تاریخی عوامل اور آپ(ﷺ) سے اپنائی جانے والی مختلف حکمت عملی کا پتہ چلتا ہے-زیرِ نظر مضمون میں اختصار کے پیشِ نظر مکاتیب و معاہدات کے تمام جہات و مضمرات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں- آقا پاک (ﷺ)کی جامع حیاتِ طیبہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ (ﷺ)کی سیرت مبارکہ کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے خطوط میں موجود افکار و تصورات پر تحقیقی اور توضیحی مطالعہ کیا جائے اورادبی و علمی مجلات شائع کیے جائیں-عصرِ حاضر کے معاشرتی تقاضوں کے پیرائے میں ان سے استفادہ کیا جائے-ان خطوط و معاہدات کے فرہنگیں، اشاریے اور تشریحات پر مبنی تحقیقی مقالوں کو عام کیاجائے- تحقیق کی دنیا میں سیرت ِطیبہ ہم سے اسی بات کی متقاضی ہے -

٭٭٭


[1]( الانبیاء:107)

[2](کاندھلوی،ادریس مولانا سیرت المصطفی: ج:2، ص:409)

[3]( طبقات ابن سعد ، ابن سعد ، ج:2، ۲ ص:29)

[4](الجامع الصحیح البخاری، ج :1،ص:13)

[5](طبری، ابن جریر، تاریخ الامم والملوک، ج:ص:84)

[6](عبد الحق محدث دہلوی ، مدارج النبوت، ج:ص :294 )

[7](ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، الہدایہ والنہایہ، ج:ص:262)

[8](رضوی، محبوب، مولانا، مکتوبات نبوی، طبع پاکستان، ص:42)

[9](ایضاً---ص:305)

٭ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:”11مئی 1939ءکو جب میں نے آکسفورڈ میں ابتدائے سن ہجری کے چند عربی مکتوبات مدینہ پر لیکچر دیا تو پروفیسر مارگویتھ نے جلسے میں بیان کیا کہ ایک مکتوب نبوی جو نجاشی حبشہ کے نام بھیجا گیا تھا،دستیاب ہوگیا ہے اور اسکارٹ لینڈ کے ایک شخص کے پاس ہے- جلسے کے بعد میں نے پروفیسر کے توسط سے اس شخص کو ایک خط بھیجا-کئی ماہ بعد مجھے اس کا جواب حید ر آباد میں ملا-خط نویسندہ مسٹر ڈنلاپ کا سیام ان دنوں شام میں تھا-جواب میں مکتوب مبارک کی ایک نقل جو ہاتھ سے کی گئی تھی،منسلک تھی اور وعدہ کیا گیا تھا کہ اسکارٹ لینڈ واپسی پر مجھے فوٹو بھی دیا جائے گانیز اس مکتوب پرایک مضمون بہت جلد لندن کے رسالہ جے آر ای ایس میں بھی چھپے گا (بعد میں یہ مضمون مذکورہ رسالہ کے جنوری 1940ءکے شمارہ میں چھپا اور اس مذکورہ مکتوب کا فوٹو بھی شائع ہوا)‘‘-(محمد حمیداللہ،رسول اکرم (ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص:401)

یہ خط ایک جھلی پر لکھا ہوا ہے جو ساڑھے تیرہ انچ لمبی اور نوانچ چوڑی ہے اس میں حروف کی شکل گول اور جلی ہے اس لئے آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے-یہ بھورے رنگ کی سیاہی سے لکھا ہوا ہے اور خط کی17 سطریں ہیں-آخر میں ایک انچ قطر کی گول مہر کا نشان ہے جو فوٹو میں صاف نہیں ہے-(محمد یونس،رسو ل اللہ (ﷺ)کا سفارتی نظام،ص 392)

[10](ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، الہدایہ والنہایہ، ج:4، ص:262)

٭مئی 1963 کی دسویں یا اس کے لگ بھگ زمانہ میں ساری دنیا کے تمام بڑے اخباروں نے بیروت کی یہ اطلاع شائع کی کہ وہاں کے سابق وزیر خارجہ (ہنری فرعون)کے موروثی ذخیرے میں اصل مکتوب نبوی بنام کسری دریافت ہوا ہے-یہ دریافت چونکہ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد نے کی تھی -اس لیے انہوں نے 22 مئی1963ءکوبیروت کے روزنامہ ’’لحیوة‘‘ میں اس نامہ مبارک کا فوٹو ایک تحقیقی مضمون کے ساتھ شائع کیا-

ڈاکٹر حمید اللہ نے مذکورہ خط کے بارے میں کچھ اقتباسات اپنی کتاب میں نقل کئے ہیں کہ ہنری فرعون کے والد نے پہلی جنگ کے اختتام پر یہ دستاویز دمشق میں ڈیڑھ سو اشرفی میں خریدی،یا تو اس کو خود معلوم نہ تھا یا اس نے اپنے اہل خانہ کو نہ بتایا کہ یہ کیا چیز ہے-بہرحال ہنری فرعون کو 1962ءتک معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوب نبوی (ﷺ) ہے-نومبر 1962ءکے آخر میں اس نے یہ خط صلاح الدین المنجد کے سپرد کیا کہ اس کو پڑھنے کی کوشش کریں-یوں یہ خط منظر عام پر آیا-(محمد حمید اللہ ،رسول اکرم (ﷺ)کی سیاسی زندگی، ص :233)

ڈاکٹر صلاح الدین المنجد نے اس خط کے بارے میں بتایا:

(۱)یہ ایک رق جھلی ہے جس کا رنگ مرور زمانہ کی وجہ سے تبدیل ہو گیا ہے اور کانچ کے ایک فریم میں بند ہے-(۲)جھلی پرانی اور نرم ہے، گہری خاکی رنگ کی ہے،اس کے کنارے کالے پڑ گئے ہیں-یہ 38 سینٹی میٹر لمبی اور ساڑھے اکیس سنٹی میٹر چوڑی ہے (۳)یہ جھلی مستطیل سی ہے مگر چوڑائی یکساں نہیں ہے،اوپر زیادہ چوڑی ہے اور نیچے کم -(۴)اس پر عبارت 15 سطروں پر مشتمل ہے مگر کوئی سطر اڑھائی سم ہے تو کوئی ساڑھے اکیس سم-(۵)عبارت کے نیچے گول مہر ہے جس کا قطر تین سم ہے-(۶)جھلی کے نچلے حصے نے پانی کا مار کھایا ہے-جس کے باعث بعض جگہ الفاظ مٹ گئے ہیں اور بعض جگہ مدھم ہو گئے ہیں-مہر کی عبارت مٹ گئی ہے (۷)اس جھلی کو کسی نے پھاڑنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ تیسری سطر سے دائیں طرف سے وسط تک چری گئی ہے-پھر طولا دسویں سطر تک پھٹی ہے-(محمد حمید اللہ، رسول اکرم(ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص :244)

[11](محمد یونس،رسول اللہ (ﷺ) کا سفارتی نظام،ص 415)-

٭ڈاکٹر حمید اللہ مذکورہ خط کی دریافت کی بابت لکھتے ہیں: ’’موسیو بارتل می نامی ایک مستشرق اپنے کچھ ساتھیوں سمیت کچھ عرصے سے مصر کی قدیم ترین زبان کا مطالعہ کرنے لگے ہیں-خاص کر قبطی زبان کے مخطوطات تلاش کر رہے ہیں جو مصر کے تنہائی پسند راہبوں کے قبضے میں موجود ہیں اور عہد سلف کے متعلق قیمتی آثار پر مشتمل ہیں-اسی تلاش کے دوران ایک دن جب وہ تھکن سے چور چور ہو چکے تھے-اخمیم کے قریب ایک راہب خانے کوپہنچے-اس راہب خانے میں ایک عربی مخطوط دستیاب ہوا جو صورت میں بہت معمولی نظر آتا تھا اس کی جلد سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اصل میں کسی ایسی کتاب کے لئے تیار کیا گیا تھا جو خاصے بڑے حجم کی ہوگی- یہ جلد کناروں سے خراب ہو گئی تھی اور اس کے اندر سے کچھ قبطی حروف دکھائی دے رہے تھے-ہمارے سیاح نے کوشش کی کہ اس پہلے ورق کو الگ کر ے جو متعدد لکھے ہوئے اوراق کو لپٹا ہوا معلوم ہوتا تھا-چنانچہ جب احتیاط سے اسے علیحدہ کیا گیا تو فی الحقیقت اندر سے کوئی دس اوراق برآمد ہوئے جن پر قبطی زبان کےقدیم خط میں انجیل لکھی ہوئی تھی-ان اوراق کو ایک موٹے کاغذ میں لپیٹا گیا تھا اور سب کوجوڑ دیا گیا تھا، وسطی حصہ جو باہر سے دونوں پہلوؤں کو ملاتا تھا سیاہ چمڑے کے ایک ٹکڑے سے بنا ہوا تھا-چنانچہ موسیو بارتل می نے دونوں پہلوؤں سے ان قبطی اوراق کو یکے بعد دیگرے جدا کیا جو کتاب کے داخلی حصے پر مشتمل تھے-اس پر انہیں ان اوراق کے اندر بیچ میں دونوں پہلوؤں پر چمٹا ہوا کھال یا جھلی کا ایک ٹکڑا نظر آیا جسے کیڑوں نے دو جگہ سے چاٹ لیا تھا-موسیو بارتل می کو اس پر اس خط میں کچھ عربی حروف سے نظرآئے، ہزار کوشش کے بعد انہوں نے لفظ محمد کو پڑھ لینے میں کامیابی حاصل کی-اب اس میں کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ دستاویز خاصی دلچسپی کی حامل ہے اس لئے انہوں نے جتنی احتیاط ممکن تھی برت کر اس کھال کو پوری طرح علیحدہ کرنے کی کوشش کی،چاہے وہ کتنی ہی کوشش کرتے اسے بھگونے اور نم کرنے پر مجبو ر تھے-اس کاروائی میں چند الفاظ جو پہلے ہی سے مٹ چلے تھے پوری طرح غائب ہو گئے-اس خط کو کچھ دنوں بعد موسیو بارتل می نے سلطان عبد المجید خان اول کے ہاتھ تین سو اشرفیوں میں فروخت کر دیا-یہ خط تبرکات نبوی (ﷺ) کے ساتھ مصر کے شاہی خزانے میں داخل ہو گیا -یہ نامہ مبارک عجائب خانہ توپ قابلی سرائے میں محفوظ ہے 1966ءمیں اس کو عجائب خانہ میں کھول کر رکھ دیا گیا کہ ہر کوئی اس خط کو دیکھ سکتا ہے- (محمد حمید اللہ، رسول اکرم (ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص:152-153)

سید محبوب رضوی اس مکتوب کے بارے میں لکھتے ہیں: ”آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر عالم شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی بن احمد المقدسی نے مصباح المغی کے نام سے مکتوبات نبوی کو جمع کیا تھا،انہوں نے دور اول کے مشہور مؤرخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مقوقس کے نام جو مکتوب نبوی روانہ کیا گیا تھا اس کو صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے تحریر فرمایا تھا اس طرح خوش قسمتی سے حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کے دست مبار ک کی لکھی ہوئی یہ تحریر ہم تک پہنچ گئی ہے-”(رضوی،مکتوبات نبوی (ﷺ)، ص:141)

٭1976ءمیں دستیاب ہوا-اسلامی تاریخ کے اس نادر تحفے کو متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زاید النہیان (مرحوم) نے لاکھوں روپے دے کر لندن سے اپنے ملک منتقل کر لیا تھا-انہوں نے اس مکتوب مبارک کے حقیقی اوراصلی ہونے کی تحقیق کے لئے دنیا بھر کے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں،جنہوں نے پوری چھان بین کے بعد اس کی صحت اور اصلیت کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد ہی ہماری تاریخ کے اس عظیم ورثے کو شیخ زاید نے لاکھوں روپے کے عوض خرید لیا تھا-(محمد یونس،رسو ل اللہ (ﷺ) کا سفارتی نظام، ص: 376)

تاریخی حوالوں کے مطابق رسول (ﷺ) کا یہ خط اردن کے ہاشمی سلطنت کے بانی اور سابق سربراہ شاہ حسین کے دادا شاہ عبداللہ کی ملکیت تھا-شاہ عبد اﷲنے اس کو اپنی آخری بیوی ملکہ نجدہ کو مہر کے طور پر دیا تھا-ملکہ نجدہ تین سال قبل عمان سے ترک وطن کر کے ہند چلی گئی تھیں اور یہ خط سوئزر لینڈ کے ایک بنک میں محفوظ کر دیا گیا تھا-اسی خط کے اصل ہونے کی تصدیق برٹش میوزیم کے ماہرین نے کی ہے اور اس کے اصل اور

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں