اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر لاتعداد انعامات فرمائے مگر کبھی ان احسانات کو جتلایا نہیں مگر ’’نبی رحمت (ﷺ)کی بعثت کو اپنا احسان عظیم قرار دیا‘‘- [1] ’’حضور نبی اکرم (ﷺ)کی ذات اقدس کو عالمین کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا‘‘[2]-حضور علیہ السلام کی ذات اقدس جن و انس، شجرو حجر، حیوانات و جمادات الغرض تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہی رحمت بن کر تشریف لائے - اس پیکر حسن لازوال کے نور کی ایک جھلک انسانوں پر پڑی تو جہنم میں گرئے ہوئے جنت میں سکون آور ہوئے-ذلت و تباہی کی پگڈنڈیوں کے مسافروں نے عزت و عظمت کی حسین راہ کے دامن کو پکڑ لیا- آقا دو جہاں کے فیضِ لازوال نے انسانیت کو اپنی ایسی بے مثال محبت و شفقت سے نوازا کہ جس نے اس محبت کاذائقہ چکھا وہ قدموں پر جانثار ہو گیا، گھر سے قتل کے ارادے سے نکلنے والے زلف عنبرین کے شکار ہوگئے-
سرکار دو جہاں (ﷺ) کی ذات اقدس کی مبارک حیات کا ایک اہم گوشہ غیر مسلموں کے ساتھ آپ (ﷺ)کے معاملات اور تعلقات بھی ہیں - آقا (ﷺ) کے فیض سے جہاں ایک دوسرےکے خون کے پیاسے باہمی طور پر سیرو شکر ہوگئے- وہاں مسلمان اور غیر مسلم بھی ایک دوسرے کے ساتھ اخوت انسانیت اور ادب بشریت کے اصولوں پر ایک دوسرے سے قریب ہوگئے-
سیرت نبوی(ﷺ) کے مطالعہ سے ایسے بے شمار شواہد اور واقعات ملتے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کو قریب لانے اور ہر دو میں ہم آہنگی کےفروغ کو سرکار دو جہاں (ﷺ) کتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے- اِس موضوع پہ بات کرتے ہوئے ایک اہم سوال یہ ہے کہ آج جب ہماری بعض نادانیوں اور اسلام کی غلط تفہیم سے پیدا ہونے والے فتنۂ دہشت گردی کی وجہ سے دُشمنانِ اِسلام دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام اور دُنیائے جدید ایک دوسرے سے متصادم دو قوتیں ہیں - یہ بھی کہ مسلمان سوائے اہلِ اسلام کے باقی سب کو فالتو مخلوق سمجھتے ہیں اور اُن کیساتھ میل جول کو گناہ تصور کرتے ہیں - اِس طرح کی بہت سی دیگر فضول اور لغو بحثیں ان دنوں دُنیا میں طول پکڑ رہی ہیں ، ایسے میں ہمیں سیرتِ پیغمبرِ دینِ مُبین میں جھانک کر اپنے لئے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور سیرتِ پاک کی روشنی میں دُنیا کو یہ باوَر کروانے کی ضرورت ہے کہ پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کل عالمین کیلئے رحمت بن کر آئے اور آپ (ﷺ) کا دین بھی عالمین کیلئے رحمت ہے -
زیر نظر مضمون میں سیر ت نبوی (ﷺ) کے روشنی میں ریاست مدینہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے اقدامات کا تجزیہ شامل ہے - اس ضمن میں بنیادی دستاویز جومیثاق ِمدینہ کے نام سے معروف ہے ، کا تجزیاتی اور معروضی تجزیہ اہمیت کا حامل ہے-
شہر مدینہ کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جبل اُحداور جبلِ عِیر کے درمیان10، 10 مربع میل پر پھیلا ہو ا یہ علاقہ جو پانچ زرخیز وادیوں مذینیب، مہزور، زانونا، بُطحان اور قناۃ پر مشتمل تھا- یہ بستیاں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع تھیں بستیوں کے اس مجموعے کو یثرب کہا جاتا تھا- جناب رسالت مآب (ﷺ) کی مبارک آمد کے ساتھ اس کو مدینتہ الرسول ہونے کا لازوال اعزاز نصیب ہوا - غیر مسلم یہودی قبائل مدینہ میں پہلے سے ہی آباد تھے- یہود یہاں کیسے آئے اور کب سے آباد ہوئے اس حوالے سے کئی آراء ملتی ہیں مثلاً:
1. ’’بخت نصر کے حملہ (587قبل مسیح) میں جب بنی اسرائیل تتر بتر ہوئے تو ان کا ایک گروہ مدینہ میں آکر آباد ہوگیا-
2. فلسطین پر حملے کے بعد 132 عیسوی میں جب یہودیوں کو وطن سے نکالا گیا تو یہ مدینہ، تیما اور وادی القری وغیرہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے-
3. ایک رائے یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اور دیگر لوگ جب بادشاہ کے ہمراہ اس بستی سے گزرے اور توریت میں موجود نشانیوں کو یہاں پایا جو کہ نبی آخر الزمان کی ہجرت گاہ ہوگی تو انہوں نے یہاں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا‘‘-[3]
رسول کریم (ﷺ) کی آمد سے عین پہلے مدینہ منورہ کی آبادی کے دوبڑے طبقے ہو گئے تھے - بت پرست اور یہودی ، ان میں آپس میں پھوٹ بھی تھی - اس لیے چند عرب اور چند یہودی قبائل ایک طرف ، باقی عرب اور باقی یہودی قبائل دوسری طرف حلیف بن چکے تھے اور وقتاً فوقتاً ان میں خونریزی بھی ہوتی رہتی تھی -انہی میں سے ایک لڑائی بعاث کے نام سے بھی مشہور ہے-
ڈاکٹر حمید اللہ نے ’’رسول اکرم(ﷺ) کی سیاسی زندگی‘‘میں لکھا ہے کہ سرکار دو عالم (ﷺ) کی ہجرت مدینہ کے وقت یہودی کم و بیش چالیس، پچاس فیصد نظر آتے تھے مگر عربوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ دولت مند تھے - مشہور قبائل قینقاع ، بنی نضیر اور قریظہ کے تھے جن کی آپس میں بھی پھوٹ تھی - قبیلہ قینقاع سب سے زیادہ عزت دار جانے جاتے تھے جس کی وجہ ان کا مالدار ہونا ہے-قینقاع کے معنی سنار کے ہیں اور بظاہر ان کا پیشہ زیور سازی ، زیور فروشی اور سودی قرضہ دہی تھا- دوسرا قبیلہ بنو نضیر تھا ، نضیر کے معنی تروتازہ درخت یا پودہ ہے اور واقعی یہ قبیلہ باغات و تخلستانوں کا مالک اور زراعت پیشہ تھا-بنو قریظہ انتہائی زیادہ جنگجو تھے اور کاروبار کے لحاظ سے جوتا سازی اور جوتا فروشی کا پیشہ تھا دوسرے دونوں قبیلوں کے مقابلے میں حقیر اور کم ذات جانے جاتے تھے - یہ تفریق خون بہا میں دیکھی جاتی تھی یعنی بنو قریظہ کا خون بہا بنو نضیر سے آدھا تھا -اس مختصر پس منظر کو ذکر کرنے کا مقصد اس حقیقت کو آشکار کرنا ہے کہ یہودی جہاں مدینہ کی تجارت، صنعت اور زراعت پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے وہاں آپس کی باہمی چپقلش اور خون ریزی بھی ان کی سماجی زندگی کا حصہ تھیں- جہاں مالی خوشحالی تھی وہاں آپس میں ہم آہنگی کا شدید فقدان بھی تھا- یہ حالات مسلمان اور غیر مسلم کو آپس میں ہم آہنگی کے اصولوں پر استوار کرنے کا نیا رخ باہمی تعلقات کو خوش اسلوبی سے طے کرنااور بین المذاہب مکالمہ کا فروغ اور باہمی تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا یہ سارا فیض سیرت نبوی (ﷺ) کاتھا اور برکات مصطفٰی (ﷺ) کا فیض تھا- میثاق مدینہ کی صورت میں تحریر کردہ عظیم دستور ریاست مدینہ کے باسیوں کے درمیان ایک ایسا شاہکار ہے جس سے مسلم و غیر مسلم کے حقوق و فرائض کو متعین بھی فرما دیا اور ہم آہنگی پر مبنی تعلقات کی بنیاد بھی ٹھہری-
قاضی سلمان پوری نے اپنی کتاب ’’رحمت للعالمین‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’نبی اکرم (ﷺ) نے مدینہ پہنچ کر ہجرت کے پہلے ہی سال یہ ارادہ فرمایا کہ جملہ اقوام سے ایک معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کرلیا جائے تاکہ نسل اور مذہب کے اختلاف میں بھی قومیت کی وحدت قائم رہے اور سب کو تہذیب وتمدن میں ایک دوسرے سے مدد واعانت ملتی رہے ‘‘-
حضور نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی مبارک سنت سے اور احادیث مبارکہ سے غیر مسلموں کے جن حقوق کا اعلان فرمایا اور عملی صور ت میں انہیں نافذ کیا ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیضان سیرت مصطفویٰ (ﷺ) ہی تھا کہ ریاست مدینہ میں رہنے والے مسلم و غیر مسلم کا باہمی تعلق ادب و احترام، مذہبی ہم آہنگی اور دو طرفہ تعلقات پر استوار تھا غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق چند احادیث کا مطالعہ فرمائیں-
حضر ت ابو بکر(رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ حضور اقدس (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ من قتل معاھدا فی غیر کنھہ، حرم اللہ علیہ الجنۃ‘‘[4] |
|
’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا‘‘- |
’’صحیح بخاری‘‘ کی حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر و(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’من قتل معاھدا لم یرح رالحۃ الجنۃ، و ان ریحھا تو جد من مسیرۃ اربعین عاما‘‘ |
|
’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے‘‘- |
امام ابو عبید قاسم بن سلام نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور علیہ السلام کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے کہ:
’’اللہ اور اللہ کے رسول محمد (ﷺ) اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں‘‘-
ریاست مدینہ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی-غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے-
امام حصکفیؒ نے ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان کیا ہےکہ:
’’ویجب کف الا ذی عنہ وتحرم غیبتہ کا المسلم‘‘ |
|
’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اس طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا‘‘- |
آقا علیہ السلام نے میثاقِ مدینہ کی صور ت میں انہی تعلیمات کو عملی طور پر اس طرح نافذ فرمایا کہ نہ صرف مدینہ میں موجودتمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئےاور وہاں کافی عرصہ سے رائج انتشار کی کیفیات سیاسی استحکام میں بدل گئیں بلکہ اسلام کے فروغ کے لیے بھی دیر پا اثرات مرتب ہوئے جوکہ سرزمین ِعرب میں کفر و شرک کے خاتمہ کا باعث بھی بنے-
اس دستور میں آپ کو سربراہ مملکت تسلیم کرلیا گیا گویا تمام مسلمانوں و غیر مسلموں نے اس دستور کے تحت سیاسی، سماجی، عسکری، قانونی اور عدالتی اختیارات کا مرکز آپ (ﷺ) کی ذات مبارکہ کو تسلیم کر لیا-میثاق مدینہ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات اس طرح مستحکم ہورہے تھے کہ یہود اور مشرک قبائل ان کے حلیف بن گئے اور ریاست مدینہ کے دفاع کی ذمہ داری کو سب نے مشترکہ طور پر قبول کر لیا-
اس معاہدہ کی صور ت میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ (ﷺ) کی صلح جو، اعلیٰ ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصور ابھرا- اس طرح مخالفین نے آپ کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں وہ چھٹنے لگیں-میثاق مدینہ کے تحت ریاست مدینہ میں ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کا قیام ممکن ہوا- اس سے قبل مذہبی اور سماجی اختلاف و تضادات کے باعث ہر قبیلہ اپنے اپنے رسوم و رواج کے تحت مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا آقا علیہ السلام نے مدینہ میں رہنے والے تمام مسلم و غیر مسلم قبائل کو سیاسی وحدت میں یکجا فرما کر انہیں ایک قوم بنا دیا جس سے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے لگے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’انھم امۃ واحدۃ من دون الناس‘‘ |
|
’’تمام دنیا کے لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی‘‘- |
آپ(ﷺ)نے مقامی لوگوں کے رسوم و قوانین کے احترام کا تصور بھی دیا تاکہ قومی سطح پر نظم و نسق پیدا کیا جا سکے-دیت کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ قرار دیا گیا کہ مہاجرین، قریش ، بنی عوف ، بنی حارث ، بنو ساعدہ ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو اور بنو اوس وغیرہ خون بہا کی ادائیگی کیلئے اپنے اپنے قبائلی قوانین کے پابندی کریں گے- اس دستور کی روشنی میں تمام فریقین پر باہم ایک دوسرے کا دفاع لازم کردیا گیا فرمایا:
’’وان بینھم النصر علی من حارب اھل ھذہ الصحیفۃ‘‘ |
|
’’اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے توان (یہودی اور مسلمانوں) میں باہم امدادعمل میں آئے گی‘‘- |
ریاست مدینہ میں آباد تمام اقلیتوں کیلئے بھی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا تاہم انہیں اس امر کا بھی پابند کیا گیا کہ وہ آئین کی پابندی کریں گے اور کسی طور پر بھی آئین اور دستور کی خلاف ورزی یا معاشرہ میں فتنہ پر وری و ظلم آفرینی کا باعث نہیں بنیں گے-
مدینہ کے مختلف طبقات کو جہاں آپ (ﷺ) نے ایک سیاسی وحدت میں یکجا فرمایا وہاں ہر طبقہ کو مکمل مذ ہبی آزادی بھی عطافرمائی اور ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو منع فرمایا-فرمایا:
’’ وان یھود بنی عوف امۃ مع المومنین للیھود وینھم وللمسلمین دینھم‘‘ |
|
’’اور بنی عوف کے یہودی ، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین‘‘- |
ریاست مدینہ میں قائم یہ عظیم نظم و نسق ایسا منفرد اور انوکھا قدم تھا جس نے شہر مدینہ کے تمام طبقات کو باہمی اہم آہنگی کے ساتھ یکجا کر دیا غیر مسلم مفکرین نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اختلافات میں گِری ہوئی قوم حکمت و بصیرت کے ساتھ اتفاق و اتحاد میں لانا آپ(ﷺ) کا ہی کارنامہ تھا چنانچہ “Sir Thomas Arnold”اپنی کتاب” The Preaching of Islam “میں لکھتے ہیں -
“We can understand how Muhammad could establish himself at Madina as the head of a large and increasing body of adherents who looked upto him as their head and leader and acknowledged no other authority……………without exciting and feeling of insecurity or any fear of encroachment on recognized authority”.
’’ان حالات میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محمد(ﷺ)نے کس طرح مدینہ کے مختلف النوع افراد سے بطور سربراہ اپنے آپ کو اپنے اختیار کو منوا لیا تھا ( جو آپ کی کمال سیاسی بصیرت کا مظہر ہے) اور لوگوں نے یہ سب کچھ بغیر کسی احساس عدم تحفظ یاتی حکومتی جبرو دباؤ کے لیے کیا تھا-
آر، اے ،نکلسن “R.A Nicholson” اپنی ایک کتاب “A Literary history of the Arabs” میں لکھتے ہیں :
“Muhammad is first care was to reconcile the desperate factions without the city and to introduce law and order among the heterogeneous elements which have been described”
’’مدینہ آنے کے بعد محمد (ﷺ) کا پہلا کام شہر کے اندر مختلف طبقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف النوع عناصر میں امن و امان کا قیام تھا‘‘-
ایسی اور بھی بے شمار شہادتیں موجود ہیں جو کہ غیر مسلم مفکرین اور مصنفین نے بے لاگ انداز میں بیان کیں- جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جب انسانیت طرح طرح کے گروہوں ، طبقات میں منقسم ہوجائے ، امن محبت، بھائی چارہ ، مذہبی ہم آہنگی اخوت، ایثار اور ہمدردی کی اقدار مٹ رہی ہوں تو انسانیت کو دوبارہ سے مدینہ ماڈل کی طرف لوٹنا ہوگااسی میں تمام انسانی طبقات کی رہنمائی اور اصلاح کا نسخہ پوشیدہ ہے-اس لیے آج پھر انسانیت کو ریاست مدینہ کے نافذ کردہ آئین کی ضرورت ہے جو نفرتوں کو مٹا دے اور دوریاں ختم کر کے انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب کر سکے- خاص کر مسلمانوں کو اپنے پیارے نبی (ﷺ) کی سیرت کے مطالعہ سے دُنیا کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کی بُنیادی تعلیمات ہیں ہی امن ، برداشت ، احترام اور محبت پر - اِس لئے اسلام ہر انسان کیلئے ، ہر سوسائٹی کیلئے اور ہر زمانے کیلئے آیا ہے -
٭٭٭
اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر لاتعداد انعامات فرمائے مگر کبھی ان احسانات کو جتلایا نہیں مگر ’’نبی رحمت (ﷺ)کی بعثت کو اپنا احسان عظیم قرار دیا‘‘- [1] ’’حضور نبی اکرم (ﷺ)کی ذات اقدس کو عالمین کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا‘‘[2]-حضور علیہ السلام کی ذات اقدس جن و انس، شجرو حجر، حیوانات و جمادات الغرض تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہی رحمت بن کر تشریف لائے - اس پیکر حسن لازوال کے نور کی ایک جھلک انسانوں پر پڑی تو جہنم میں گرئے ہوئے جنت میں سکون آور ہوئے-ذلت و تباہی کی پگڈنڈیوں کے مسافروں نے عزت و عظمت کی حسین راہ کے دامن کو پکڑ لیا- آقا دو جہاں کے فیضِ لازوال نے انسانیت کو اپنی ایسی بے مثال محبت و شفقت سے نوازا کہ جس نے اس محبت کاذائقہ چکھا وہ قدموں پر جانثار ہو گیا، گھر سے قتل کے ارادے سے نکلنے والے زلف عنبرین کے شکار ہوگئے-
سرکار دو جہاں (ﷺ) کی ذات اقدس کی مبارک حیات کا ایک اہم گوشہ غیر مسلموں کے ساتھ آپ (ﷺ)کے معاملات اور تعلقات بھی ہیں - آقا (ﷺ) کے فیض سے جہاں ایک دوسرےکے خون کے پیاسے باہمی طور پر سیرو شکر ہوگئے- وہاں مسلمان اور غیر مسلم بھی ایک دوسرے کے ساتھ اخوت انسانیت اور ادب بشریت کے اصولوں پر ایک دوسرے سے قریب ہوگئے-
سیرت نبوی(ﷺ) کے مطالعہ سے ایسے بے شمار شواہد اور واقعات ملتے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کو قریب لانے اور ہر دو میں ہم آہنگی کےفروغ کو سرکار دو جہاں (ﷺ) کتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے- اِس موضوع پہ بات کرتے ہوئے ایک اہم سوال یہ ہے کہ آج جب ہماری بعض نادانیوں اور اسلام کی غلط تفہیم سے پیدا ہونے والے فتنۂ دہشت گردی کی وجہ سے دُشمنانِ اِسلام دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام اور دُنیائے جدید ایک دوسرے سے متصادم دو قوتیں ہیں - یہ بھی کہ مسلمان سوائے اہلِ اسلام کے باقی سب کو فالتو مخلوق سمجھتے ہیں اور اُن کیساتھ میل جول کو گناہ تصور کرتے ہیں - اِس طرح کی بہت سی دیگر فضول اور لغو بحثیں ان دنوں دُنیا میں طول پکڑ رہی ہیں ، ایسے میں ہمیں سیرتِ پیغمبرِ دینِ مُبین میں جھانک کر اپنے لئے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور سیرتِ پاک کی روشنی میں دُنیا کو یہ باوَر کروانے کی ضرورت ہے کہ پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کل عالمین کیلئے رحمت بن کر آئے اور آپ (ﷺ) کا دین بھی عالمین کیلئے رحمت ہے -
زیر نظر مضمون میں سیر ت نبوی (ﷺ) کے روشنی میں ریاست مدینہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے اقدامات کا تجزیہ شامل ہے - اس ضمن میں بنیادی دستاویز جومیثاق ِمدینہ کے نام سے معروف ہے ، کا تجزیاتی اور معروضی تجزیہ اہمیت کا حامل ہے-
شہر مدینہ کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جبل اُحداور جبلِ عِیر کے درمیان10، 10 مربع میل پر پھیلا ہو ا یہ علاقہ جو پانچ زرخیز وادیوں مذینیب، مہزور، زانونا، بُطحان اور قناۃ پر مشتمل تھا- یہ بستیاں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع تھیں بستیوں کے اس مجموعے کو یثرب کہا جاتا تھا- جناب رسالت مآب (ﷺ) کی مبارک آمد کے ساتھ اس کو مدینتہ الرسول ہونے کا لازوال اعزاز نصیب ہوا - غیر مسلم یہودی قبائل مدینہ میں پہلے سے ہی آباد تھے- یہود یہاں کیسے آئے اور کب سے آباد ہوئے اس حوالے سے کئی آراء ملتی ہیں مثلاً:
1. ’’بخت نصر کے حملہ (587قبل مسیح) میں جب بنی اسرائیل تتر بتر ہوئے تو ان کا ایک گروہ مدینہ میں آکر آباد ہوگیا-
2. فلسطین پر حملے کے بعد 132 عیسوی میں جب یہودیوں کو وطن سے نکالا گیا تو یہ مدینہ، تیما اور وادی القری وغیرہ میں آکر پناہ گزین ہوگئے-
3. ایک رائے یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اور دیگر لوگ جب بادشاہ کے ہمراہ اس بستی سے گزرے اور توریت میں موجود نشانیوں کو یہاں پایا جو کہ نبی آخر الزمان کی ہجرت گاہ ہوگی تو انہوں نے یہاں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا‘‘-[3]
رسول کریم (ﷺ) کی آمد سے عین پہلے مدینہ منورہ کی آبادی کے دوبڑے طبقے ہو گئے تھے - بت پرست اور یہودی ، ان میں آپس میں پھوٹ بھی تھی - اس لیے چند عرب اور چند یہودی قبائل ایک طرف ، باقی عرب اور باقی یہودی قبائل دوسری طرف حلیف بن چکے تھے اور وقتاً فوقتاً ان میں خونریزی بھی ہوتی رہتی تھی -انہی میں سے ایک لڑائی بعاث کے نام سے بھی مشہور ہے-
ڈاکٹر حمید اللہ نے ’’رسول اکرم(ﷺ) کی سیاسی زندگی‘‘میں لکھا ہے کہ سرکار دو عالم (ﷺ) کی ہجرت مدینہ کے وقت یہودی کم و بیش چالیس، پچاس فیصد نظر آتے تھے مگر عربوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ دولت مند تھے - مشہور قبائل قینقاع ، بنی نضیر اور قریظہ کے تھے جن کی آپس میں بھی پھوٹ تھی - قبیلہ قینقاع سب سے زیادہ عزت دار جانے جاتے تھے جس کی وجہ ان کا مالدار ہونا ہے-قینقاع کے معنی سنار کے ہیں اور بظاہر ان کا پیشہ زیور سازی ، زیور فروشی اور سودی قرضہ دہی تھا- دوسرا قبیلہ بنو نضیر تھا ، نضیر کے معنی تروتازہ درخت یا پودہ ہے اور واقعی یہ قبیلہ باغات و تخلستانوں کا مالک اور زراعت پیشہ تھا-بنو قریظہ انتہائی زیادہ جنگجو تھے اور کاروبار کے لحاظ سے جوتا سازی اور جوتا فروشی کا پیشہ تھا دوسرے دونوں قبیلوں کے مقابلے میں حقیر اور کم ذات جانے جاتے تھے - یہ تفریق خون بہا میں دیکھی جاتی تھی یعنی بنو قریظہ کا خون بہا بنو نضیر سے آدھا تھا -اس مختصر پس منظر کو ذکر کرنے کا مقصد اس حقیقت کو آشکار کرنا ہے کہ یہودی جہاں مدینہ کی تجارت، صنعت اور زراعت پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے وہاں آپس کی باہمی چپقلش اور خون ریزی بھی ان کی سماجی زندگی کا حصہ تھیں- جہاں مالی خوشحالی تھی وہاں آپس میں ہم آہنگی کا شدید فقدان بھی تھا- یہ حالات مسلمان اور غیر مسلم کو آپس میں ہم آہنگی کے اصولوں پر استوار کرنے کا نیا رخ باہمی تعلقات کو خوش اسلوبی سے طے کرنااور بین المذاہب مکالمہ کا فروغ اور باہمی تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا یہ سارا فیض سیرت نبوی (ﷺ) کاتھا اور برکات مصطفٰی (ﷺ) کا فیض تھا- میثاق مدینہ کی صورت میں تحریر کردہ عظیم دستور ریاست مدینہ کے باسیوں کے درمیان ایک ایسا شاہکار ہے جس سے مسلم و غیر مسلم کے حقوق و فرائض کو متعین بھی فرما دیا اور ہم آہنگی پر مبنی تعلقات کی بنیاد بھی ٹھہری-
قاضی سلمان پوری نے اپنی کتاب ’’رحمت للعالمین‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’نبی اکرم (ﷺ) نے مدینہ پہنچ کر ہجرت کے پہلے ہی سال یہ ارادہ فرمایا کہ جملہ اقوام سے ایک معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کرلیا جائے تاکہ نسل اور مذہب کے اختلاف میں بھی قومیت کی وحدت قائم رہے اور سب کو تہذیب وتمدن میں ایک دوسرے سے مدد واعانت ملتی رہے ‘‘-
حضور نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی مبارک سنت سے اور احادیث مبارکہ سے غیر مسلموں کے جن حقوق کا اعلان فرمایا اور عملی صور ت میں انہیں نافذ کیا ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیضان سیرت مصطفویٰ (ﷺ) ہی تھا کہ ریاست مدینہ میں رہنے والے مسلم و غیر مسلم کا باہمی تعلق ادب و احترام، مذہبی ہم آہنگی اور دو طرفہ تعلقات پر استوار تھا غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق چند احادیث کا مطالعہ فرمائیں-
حضر ت ابو بکر() بیان کرتے ہیں کہ حضور اقدس (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ من قتل معاھدا فی غیر کنھہ، حرم اللہ علیہ الجنۃ‘‘[4] |
|
’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا‘‘- |
’’صحیح بخاری‘‘ کی حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر و() سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’من قتل معاھدا لم یرح رالحۃ الجنۃ، و ان ریحھا تو جد من مسیرۃ اربعین عاما‘‘ |
|
’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے‘‘- |
امام ابو عبید قاسم بن سلام نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور علیہ السلام کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے کہ:
’’اللہ اور اللہ کے رسول محمد (ﷺ) اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں‘‘-
ریاست مدینہ اور اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی-غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے-
امام حصکفی ()نے ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان کیا ہےکہ:
’’ویجب کف الا ذی عنہ وتحرم غیبتہ کا المسلم‘‘ |
|
’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اس طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا‘‘- |
آقا علیہ السلام نے میثاقِ مدینہ کی صور ت میں انہی تعلیمات کو عملی طور پر اس طرح نافذ فرمایا کہ نہ صرف مدینہ میں موجودتمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئےاور وہاں کافی عرصہ سے رائج انتشار کی کیفیات سیاسی استحکام میں بدل گئیں بلکہ اسلام کے فروغ کے لیے بھی دیر پا اثرات مرتب ہوئے جوکہ سرزمین ِعرب میں کفر و شرک کے خاتمہ کا باعث بھی بنے-
اس دستور میں آپ کو سربراہ مملکت تسلیم کرلیا گیا گویا تمام مسلمانوں و غیر مسلموں نے اس دستور کے تحت سیاسی، سماجی، عسکری، قانونی اور عدالتی اختیارات کا مرکز آپ (ﷺ) کی ذات مبارکہ کو تسلیم کر لیا-میثاق مدینہ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات اس طرح مستحکم ہورہے تھے کہ یہود اور مشرک قبائل ان کے حلیف بن گئے اور ریاست مدینہ کے دفاع کی ذمہ داری کو سب نے مشترکہ طور پر قبول کر لیا-
اس معاہدہ کی صور ت میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ (ﷺ) کی صلح جو، اعلیٰ ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصور ابھرا- اس طرح مخالفین نے آپ کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں وہ چھٹنے لگیں-میثاق مدینہ کے تحت ریاست مدینہ میں ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کا قیام ممکن ہوا- اس سے قبل مذہبی اور سماجی اختلاف و تضادات کے باعث ہر قبیلہ اپنے اپنے رسوم و رواج کے تحت مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا آقا علیہ السلام نے مدینہ میں رہنے والے تمام مسلم و غیر مسلم قبائل کو سیاسی وحدت میں یکجا فرما کر انہیں ایک قوم بنا دیا جس سے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے لگے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’انھم امۃ واحدۃ من دون الناس‘‘ |
|
’’تمام دنیا کے لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی‘‘- |
آپ(ﷺ)نے مقامی لوگوں کے رسوم و قوانین کے احترام کا تصور بھی دیا تاکہ قومی سطح پر نظم و نسق پیدا کیا جا سکے-دیت کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ قرار دیا گیا کہ مہاجرین، قریش ، بنی عوف ، بنی حارث ، بنو ساعدہ ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو اور بنو اوس وغیرہ خون بہا کی ادائیگی کیلئے اپنے اپنے قبائلی قوانین کے پابندی کریں گے- اس دستور کی روشنی میں تمام فریقین پر باہم ایک دوسرے کا دفاع لازم کردیا گیا فرمایا:
’’وان بینھم النصر علی من حارب اھل ھذہ الصحیفۃ‘‘ |
|
’’اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے توان (یہودی اور مسلمانوں) میں باہم امدادعمل میں آئے گی‘‘- |
ریاست مدینہ میں آباد تمام اقلیتوں کیلئے بھی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا تاہم انہیں اس امر کا بھی پابند کیا گیا کہ وہ آئین کی پابندی کریں گے اور کسی طور پر بھی آئین اور دستور کی خلاف ورزی یا معاشرہ میں فتنہ پر وری و ظلم آفرینی کا باعث نہیں بنیں گے-
مدینہ کے مختلف طبقات کو جہاں آپ (ﷺ) نے ایک سیاسی وحدت میں یکجا فرمایا وہاں ہر طبقہ کو مکمل مذ ہبی آزادی بھی عطافرمائی اور ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو منع فرمایا-فرمایا:
’’ وان یھود بنی عوف امۃ مع المومنین للیھود وینھم وللمسلمین دینھم‘‘ |
|
’’اور بنی عوف کے یہودی ، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین‘‘- |
ریاست مدینہ میں قائم یہ عظیم نظم و نسق ایسا منفرد اور انوکھا قدم تھا جس نے شہر مدینہ کے تمام طبقات کو باہمی اہم آہنگی کے ساتھ یکجا کر دیا غیر مسلم مفکرین نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اختلافات میں گِری ہوئی قوم حکمت و بصیرت کے ساتھ اتفاق و اتحاد میں لانا آپ(ﷺ) کا ہی کارنامہ تھا چنانچہ “Sir Thomas Arnold”اپنی کتاب” The Preaching of Islam “میں لکھتے ہیں -
“We can understand how Muhammad could establish himself at Madina as the head of a large and increasing body of adherents who looked upto him as their head and leader and acknowledged no other authority……………without exciting and feeling of insecurity or any fear of encroachment on recognized authority”.
’’ان حالات میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محمد(ﷺ)نے کس طرح مدینہ کے مختلف النوع افراد سے بطور سربراہ اپنے آپ کو اپنے اختیار کو منوا لیا تھا ( جو آپ کی کمال سیاسی بصیرت کا مظہر ہے) اور لوگوں نے یہ سب کچھ بغیر کسی احساس عدم تحفظ یاتی حکومتی جبرو دباؤ کے لیے کیا تھا-
آر، اے ،نکلسن “R.A Nicholson” اپنی ایک کتاب “A Literary history of the Arabs” میں لکھتے ہیں :
“Muhammad is first care was to reconcile the desperate factions without the city and to introduce law and order among the heterogeneous elements which have been described”
’’مدینہ آنے کے بعد محمد (ﷺ) کا پہلا کام شہر کے اندر مختلف طبقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف النوع عناصر میں امن و امان کا قیام تھا‘‘-
ایسی اور بھی بے شمار شہادتیں موجود ہیں جو کہ غیر مسلم مفکرین اور مصنفین نے بے لاگ انداز میں بیان کیں- جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جب انسانیت طرح طرح کے گروہوں ، طبقات میں منقسم ہوجائے ، امن محبت، بھائی چارہ ، مذہبی ہم آہنگی اخوت، ایثار اور ہمدردی کی اقدار مٹ رہی ہوں تو انسانیت کو دوبارہ سے مدینہ ماڈل کی طرف لوٹنا ہوگااسی میں تمام انسانی طبقات کی رہنمائی اور اصلاح کا نسخہ پوشیدہ ہے-اس لیے آج پھر انسانیت کو ریاست مدینہ کے نافذ کردہ آئین کی ضرورت ہے جو نفرتوں کو مٹا دے اور دوریاں ختم کر کے انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب کر سکے- خاص کر مسلمانوں کو اپنے پیارے نبی (ﷺ) کی سیرت کے مطالعہ سے دُنیا کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کی بُنیادی تعلیمات ہیں ہی امن ، برداشت ، احترام اور محبت پر - اِس لئے اسلام ہر انسان کیلئے ، ہر سوسائٹی کیلئے اور ہر زمانے کیلئے آیا ہے -
٭٭٭