سودکی حرمت سیرت النبیﷺ کی روشنی میں

سودکی حرمت سیرت النبیﷺ کی روشنی میں

سودکی حرمت سیرت النبیﷺ کی روشنی میں

مصنف: محمدحسیب خان دسمبر 2018

دینِ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے زندگی گزارنے کےتمام اصول قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے ذریعے وضع فرمائے ہیں، جن کی بنیاد آفاقی اور عالمگیر ہے اور جو عالمِ اِنسانیت کے لئے خیر اور بھلائی ہے- دنیا کاکوئی انسان جس بھی کونے سے تعلق رکھتا ہو اس سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے-عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے بہت سے نازیبہ عمل اور رسم و رواج تھے جن سےمظلوم انسانیت چکی میں پِس رہی تھی اور ان کا استحصال ہو رہا تھا- اس استحصال سے بچنے کے لیے دین اسلام نے کچھ قوانین لاگو کیے جس میں ربا یعنی سود کا خاتمہ بھی شامل ہے-

ربا کا لغوی معنی:

لغت میں ربا کے معنی زیادتی، بڑھوتی اور بلندی کے ہیں- باالفاظ دیگر ربا کا مطلب غیر قانونی منافع ہے- علامہ عینی نے ’’شرح المہذب‘‘کے حوالے سے لکھا ہے کہ ربا کو ’’الف، واؤ اور ی‘‘ تینوں کے ساتھ لکھنا صحیح ہے یعنی ’’ربا ، ربٰو اور ربٰی‘‘- [1]

علامہ زبیدی لکھتے ہیں کہ علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں اور زجاج نے کہا ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک ربا حرام اور دوسرا حرام نہیں ہے- ربا حرام ہر وہ قرض ہے جس میں اصل رقم سے زیادہ وصول کیا جائے یا اصل رقم پر کوئی منفعت لی جائے اور ربا غیر حرام یہ ہے کہ کسی کو ہدیہ دے کر اس سے زیادہ لیا جائے - [2]

اسلام سے پہلے عرب میں ربا کا تصور یہ تھا کہ اگر کو ئی قرض لیتا اور وقت پر واپس نہ کرتا تو اس کو وہ معاوضہ دگنا کر کے واپس دینا ہوتا تھا اور اگر پھر بھی وقت پر واپس نہ کرتا تو اس کو پھر وہ معاوضہ اور بھی دگنا کر کے واپس کرنا پڑتا تھا چاہےوہ پیسوں کی صورت میں ہو یا مال و متاع یا کسی ساز و سامان کی صورت میں- جب بھی قرض دیا جاتا تھا تو وقت اور مقدار کا تعین پہلے سے کر لیا جاتا تھا- ربا کو دین میں سختی سے منع کیا گیا ہے - قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی کافی جگہ پر ربا کی حرمت کے متعلق فرمایا گیا ہے -

حرمتِ سوداور قرآنِ کریم:

قرآن پاک کی کل 12 آیات میں ربا کے متعلق ذ کر آیا ہے- قرآنِ مجید کی ’’سورۃ الروم‘‘ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:

’’وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَـلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ ج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ‘‘[3]

’’اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خیرات) میں دیتے ہو (فقط) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عنداﷲ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں‘‘-

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ سودی کاروبار کرنے والا قیامت کے دن اور دنیا میں بھی ہرگز انعام یافتگان میں شامل نہیں ہوگا- اس کے بعد مدنی سورت ’’سورہ آل عمران‘‘ میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[4]

’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘-

اس آیت میں قرآن نے اس گھنا ؤنی پریکٹس میں شامل ہونے سے اور مومنین کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا -

مزید اللہ رب العزت نے سورۃالبقرہ میں ارشاد فرمایا :

’’اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوام وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَط وَاَمْرُہٗٓ اِلَی اللہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘[5]

’’جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سودا گری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آ گیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘-

حرمتِ سود اور احادیث نبوی(ﷺ):

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی ربا کے خاتمے کے متعلق اور اس سے بچے رہنے کے متعلق بہت سی جگہ پر بیان کیا گیا- قرآن کریم کے بعد سنتِ رسول (ﷺ)، قانون وضع کرنے کیلئےدوسرا ماخذ ہے جو قرآن مجید کا تسلیم شدہ مآخذ ہے- جبکہ دوسری طرف قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا ثبوت ارشاد نبوی(ﷺ) سے ہی ملتا ہے- باالفاظ دیگر قرآن و حدیث دونوں کا باہمی تعلق و ربط ہے- قرآن مجید سےحقیقی مراد باری تعالیٰ پانےاور ہدایت حاصل کرنے کے لئے سنت سے راہنمائی ضروری ہے- اسی طرح ربا سے متعلق بھی احادیث مبارکہ نے قرآنِ مجید میں موجود احکامات کو بیان فرمایا ہے-

حضرت سلمان بن عمرو (رضی اللہ عنہ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مَیں نے رسول اللہ (ﷺ)  کو فرماتے سنا کہ:

’’سن لو! زمانہ جاہلیت کے تمام سود کالعدم ہوگئے تم اپنے اصل زر کے حق دار ہو- تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم ہواور سن لو کہ جاہلیت کے جتنے قتل ہوئے تھے وہ سب معاف ہوگئے اور سب سے پہلے، میں حارث بن عبدالمطلب کا قتل معاف کرتا ہوں جو سویث میں دودھ پیتے تھے اور ہذیل نے انہیں قتل کردیا تھا- پھر فرمایا: اے لوگو!  کیا میں نے پیغام حق پہنچادیا؟ انہوں نے کہا جی ہاں! یہ بات تین بار کہی- آپ (ﷺ) نے تین بار کہا، اے اللہ گواہ رہنا‘‘- [6]

امام ابن سیرین ؒ سے روایت ہے وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’ان سے اس شخص کے بارے سوال کیا گیا جو کسی مرد سے درہم بطور قرض لے پھر قرض لینے والا مقروض کی سواری کا محتاج ہو جائے ( تو آیا وہ سواری استعمال کر سکتا ہے یا نہیں) تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا جو اسے اس کی سواری سے نفع پہنچے گا وہ رہا ہے-شیخ احمد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع ہے- تحقیق ہم نے ابن عون سے روایت کیا ہے وہ ابن سیر ین سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک ایک مرد کسی مرد کو درہم بطور قرض دے اور وہ اس پر اس کے گھوڑے کی سواری کی شرط لگائے پس یہ معاملہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا جو اس گھوڑے کی سواری سے نفع پہنچے گا ،وہ سود ہے‘‘-[7]

ربا کی اقسام :

’’اصطلاح شرعی میں ربا کی دو قسمیں ہیں : ’’ربا النسیئۃ اور ربا الفضل‘‘-اول الذکر کو ربا القرآن بھی کہتے ہیں کیونکہ ربا کی اس قسم کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے، جبکہ ثانی الذکر کو ربا الحدیث بھی کہتے ہیں- ربا الفضل یہ ہے کہ ایک جنس کی چیزوں میں دست بدست زیادتی کے عوض بیع ہو ’’مثلاً 4 کلو گرام گندم کو نقد8 کلو گرام گندم کے عوض فروخت کیا جائے - ربا النسیۃ یہ ہے کہ ادھار کی معیاد پر معین شرح کے ساتھ اصل رقم سے زیادہ وصول کرنا یا اس پر نفع وصول کرنا - آج کل دنیا میں جوسود رائج ہے اس پر بھی یہ تعریف صادق آتی‘‘-[8]

1.     ربا النسیئۃ:

’’ربا النسیئۃ‘‘ کی صحیح اور واضح تعریف امام رازی نے کی ہے،لکھتے ہیں:

’’ربا النسیئۃ‘ زمانہ جاہلیت میں مشہور تھا- وہ لوگ اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ وہ اس کے عوض ہر ماہ (یا ہر سال) ایک معین رقم لیا کریں گے اور اصل رقم مقروض کے ذمہ باقی رہے گی؛ مدت پوری ہونے کے بعد قرض خواہ؛ مقروض سے اصل رقم کا مطالبہ کرتا اور اگر مقروض اصل رقم ادا نہ کر سکتا تو قرض خواہ مدت اور سود دونوں میں اضافہ کردیتا؛ یہ وہ ربا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا‘‘-[9]

’’قرآن پاک میں ربا النسیئۃ کو ربا کرم اور ربٰوالقرآن بھی کہا گیا ہے- اس میں ایک مخصوص مقدار کی رقم طے کی جاتی ہے جو قرض دار کو قرض واپس کرتے وقت اس کو دینی ہوتی ہے‘‘-[10]

سیدنا ا بن مسعود (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ رسول کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا ‘‘-[11]

2.     ربا الفضل:

ربا کی دوسری قسم جسے ربا الحدیث بھی کہا جاتا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جیسی اشیاء کا تبادلہ جن کا وزن اور مقدار برابر نہ ہو مثل گندم کے بدلے گندم-

’’عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ(ﷺ)قَالَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَی بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَ بِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَ بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ‘‘[12]

’’حضرت عبادہ بن صامت(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا سونے کے بدلے سونا برابر بیچو اور اسی طرح چاندی کے عوض چاندی، کھجور کے بدلے کھجور، گہیوں کے بدلے گہیوں، نمک کے بدلے نمک اور جو کے عوض جو برابر فروخت کرو جس نے زیادہ لیا یا دیا اس نے سود کا معاملہ کیا- پس سونا چاندی کے عوض، گیہوں کھجور کے عوض اور جو کھجور کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ ہو‘‘-

حضرت عثمان بن عفان بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک دینار کو دو دینار اور ایک درہم کو دو درہموں کے عوض فروخت نہ کرو‘‘-[13]

ربا کی حرمت کا سبب:

قرآن کے مطابق سود کا لاگو ہونا مطلب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے خلاف اعلان جنگ ہے اور سیرت النبی (ﷺ)  کے مطابق سود کاعمل کبیرہ گناہ ہے- بہت سے عالم اس بات پر غور کرتے ہیں اور مختلف نظریے پیش کرتے ہیں اور متفقہ طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ سود کا منع ہونا اس لیے ہے کہ یہ بہت سی سماجی، اقتصادی اور اخلاقی برائیو ں کی جڑ ہے- آیئے سود کے کچھ نقصانات پر ایک نظر ڈالیں - سود کی ممانعت کی بڑی وجہ خود غرضی، بے حسی، انسانی سوز،بے دردی، لالچ اور دولت کی خواہش جیسے عناصر شامل ہیں- اسلامی اقتصادیات کے سارے مقصد اور راہنمائی کے اصول قرآن پاک اور سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں حاصل ہوتے ہیں اور یہ ہی اصل منبع ہدایت ہیں-قرآن نے ہمیں بہت سے طریقے بتائے؛ پہلا طریقہ کاروباری مہم ہے، دوسرا طریقہ استحصال کے خاتمے کا ہے، جبکہ تیسرا مقصد سماجی برابری عقیدے کی بنیاد پر زکوۃ کی صورت میں اور انسانی عقیدہ مساوات ہے -

عصر حاضر میں اسلامی بینکنگ یا سودی کاروبار:

بیسویں صدی میں جیسے جیسے سود کا لاگو ہونا بڑھتا جا رہا تھا تو اسلامک بینکنگ نے طے کیا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے سود جیسی غیر قانونی اور نا جائز چیز کا خاتمہ کیا جائے، جیسا کہ ہمارے دین میں بھی سود کے لیے سختی سے منع کیا گیا ہے - اس سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس میں کسی قسم کا کوئی سود کا عنصر نہ پایا جائے- بینکنگ کے اس نظام نے کچھ حکمت عملیوں کواپنایا اور کنوینشنل بینکنگ کی طرز پر تعبیر و تشریح کی گئی جیساکہ مضاربہ،اجارہ، مشارکہ اور مرابحہ وغیرہ -اس نظام کی نوبت تب آئی جب دیکھا گیا کہ سود سے پاک بینکنگ نظام کو بہت سی مالی مسائل کا سامنا پیش ہو رہا تھا انہی حالات میں (Dual) بینکنگ نظام متعارف ہوا- اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ایک اور نظام کو متعارف کروایا گیا کہ سود کی جگہ کچھ نئے اصول اور ایڈ جیسٹمنٹ ہوئی جو ایک سود سے پاک بینکنگ کو مختلف کرے-

اسلامک بینکنگ کے سارے اصول مغربی تہذیب اور ’’Interest Based Banking‘‘کے اصولوں پر بنائے جانے لگے بلکہ اس طرح بھی کہنا ٹھیک ہو گا کہ کنوینشنل بینکنگ کو ہی چند نام نہاد لوگو ں نے وضو کروا کر اسلامک بینکنگ بنا ڈالا- اسلامک بینکنگ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ ہر معاملے کا جائزہ اس طرح لیتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے اس معاملے کا کیسے سامنا کیا اور اپنے سارے سنہری اصول بھلا بیٹھے ہیں جو ہمیں سیرت طیبہ (ﷺ)سے حاصل ہوتے ہیں- اس کا حل یہی ہے کہ اپنے دین کے دئیے ہوئے اصولوں کی روشنی میں اپنے ضابطے متعین کریں اور ان سے راہنما ئی حاصل کریں- ایسا طریقہ اپنانا چاہیے جس میں سارے مسائل کا حل کلی طورپر ہو اور جس میں تعاون کرنا اور عمل کرنا بھی زیادہ مشکل نہ ہو-

اسلامی اقتصادی نظام کا تعلق سرمایہ دارانہ اور سماج کے نظم و ضبط سے ہے- بد قسمتی سے اسلامی اقتصادی دُنیا اس راہ پر ابھی تک گامزن نہیں ہو ئی جہاں اسے ہونا چاہیے کوئی بھی ایسی تدبیر نظر نہیں آرہی جس میں پیسوں یا دوسری چیزوں کی لین دین سود سے پاک ہوں-ہمیں چاہیے کہ کوئی ایسا سسٹم متعارف کروایا جائے جس میں سود کی کوئی گنجائش نہ ہو-

انسان اپنی سماجی، اقتصادی اور مذہبی سرگرمیاں اپنے ماحول کے مطابق ہی رکھتا ہے - اسلام میں سماجی اور اقتصادی سر گرمیاں اپنے مخصوص ماحول کے مطابق ہوتی ہیں- اسلامی ہدایات کا بنیادی ذریعہ قرآن پاک اور سیرت النبی (ﷺ)  ہے- اسلام میں تجارتی سرگرمیوں کا مقصد سب کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث میں ربا کے خاتمے کا واضح حکم اسی بات کا ثبوت دیتا ہے-الغرض! ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ نام نہاد اسلامک بینکنگ صحیح راہ پر نہیں جا رہی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)  کے بتائے طریقے پر مکمل طور پر گامزن نہیں ہے اور قرآن پاک میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جس نے ربایعنی سود کو فروغ دیا اس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے خلاف جنگ کی- ہمیں چاہیے کہ اس دھندلاہٹ اور کنفیوژن سے چھٹکارا حاصل کریں اوراس سے نمٹنے کےلئے کچھ مثبت اقدام لیں-

٭٭٭


[1](عمدۃالقاری، ج:11، ص:199)

[2](تاج العروس شرح القاموس، ج:10، ص: 143)

[3](الروم:39)

[4](آلِ عمران:130)

[5](البقرۃ:275)

[6]( سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)

[7](السنن الکبری،جز: 5،  ص: 573)

[8]( تفسیر تبیان القرآن،ج:1،  ص:976)

[9](تفسیرکبیر، ج:2، ص:351)

[10])Muslim, Kitab al-Musaqat, Bah bay’i al-ta'ami mithlan bi niithlii also in Nas’an(

[11](صحیح ابن ماجہ)

[12](سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)

[13](صحیح مسلم، ج:2، ص:64)

دینِ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے زندگی گزارنے کےتمام اصول قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے ذریعے وضع فرمائے ہیں، جن کی بنیاد آفاقی اور عالمگیر ہے اور جو عالمِ اِنسانیت کے لئے خیر اور بھلائی ہے- دنیا کاکوئی انسان جس بھی کونے سے تعلق رکھتا ہو اس سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے-عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے بہت سے نازیبہ عمل اور رسم و رواج تھے جن سےمظلوم انسانیت چکی میں پِس رہی تھی اور ان کا استحصال ہو رہا تھا- اس استحصال سے بچنے کے لیے دین اسلام نے کچھ قوانین لاگو کیے جس میں ربا یعنی سود کا خاتمہ بھی شامل ہے-

ربا کا لغوی معنی:

لغت میں ربا کے معنی زیادتی، بڑھوتی اور بلندی کے ہیں- باالفاظ دیگر ربا کا مطلب غیر قانونی منافع ہے- علامہ عینی نے ’’شرح المہذب‘‘کے حوالے سے لکھا ہے کہ ربا کو ’’الف، واؤ اور ی‘‘ تینوں کے ساتھ لکھنا صحیح ہے یعنی ’’ربا ، ربٰو اور ربٰی‘‘- [1]

علامہ زبیدی لکھتے ہیں کہ علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں اور زجاج نے کہا ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک ربا حرام اور دوسرا حرام نہیں ہے- ربا حرام ہر وہ قرض ہے جس میں اصل رقم سے زیادہ وصول کیا جائے یا اصل رقم پر کوئی منفعت لی جائے اور ربا غیر حرام یہ ہے کہ کسی کو ہدیہ دے کر اس سے زیادہ لیا جائے - [2]

اسلام سے پہلے عرب میں ربا کا تصور یہ تھا کہ اگر کو ئی قرض لیتا اور وقت پر واپس نہ کرتا تو اس کو وہ معاوضہ دگنا کر کے واپس دینا ہوتا تھا اور اگر پھر بھی وقت پر واپس نہ کرتا تو اس کو پھر وہ معاوضہ اور بھی دگنا کر کے واپس کرنا پڑتا تھا چاہےوہ پیسوں کی صورت میں ہو یا مال و متاع یا کسی ساز و سامان کی صورت میں- جب بھی قرض دیا جاتا تھا تو وقت اور مقدار کا تعین پہلے سے کر لیا جاتا تھا- ربا کو دین میں سختی سے منع کیا گیا ہے - قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی کافی جگہ پر ربا کی حرمت کے متعلق فرمایا گیا ہے -

حرمتِ سوداور قرآنِ کریم:

قرآن پاک کی کل 12 آیات میں ربا کے متعلق ذ کر آیا ہے- قرآنِ مجید کی ’’سورۃ الروم‘‘ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:

’’وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَـلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ ج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ‘‘[3]

’’اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خیرات) میں دیتے ہو (فقط) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عنداﷲ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں‘‘-

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ سودی کاروبار کرنے والا قیامت کے دن اور دنیا میں بھی ہرگز انعام یافتگان میں شامل نہیں ہوگا- اس کے بعد مدنی سورت ’’سورہ آل عمران‘‘ میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[4]

’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘-

اس آیت میں قرآن نے اس گھنا ؤنی پریکٹس میں شامل ہونے سے اور مومنین کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا -

مزید اللہ رب العزت نے سورۃالبقرہ میں ارشاد فرمایا :

’’اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوام وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَط وَاَمْرُہٗٓ اِلَی اللہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘[5]

’’جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سودا گری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آ گیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘-

حرمتِ سود اور احادیث نبوی(ﷺ):

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی ربا کے خاتمے کے متعلق اور اس سے بچے رہنے کے متعلق بہت سی جگہ پر بیان کیا گیا- قرآن کریم کے بعد سنتِ رسول (ﷺ)، قانون وضع کرنے کیلئےدوسرا ماخذ ہے جو قرآن مجید کا تسلیم شدہ مآخذ ہے- جبکہ دوسری طرف قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا ثبوت ارشاد نبوی(ﷺ) سے ہی ملتا ہے- باالفاظ دیگر قرآن و حدیث دونوں کا باہمی تعلق و ربط ہے- قرآن مجید سےحقیقی مراد باری تعالیٰ پانےاور ہدایت حاصل کرنے کے لئے سنت سے راہنمائی ضروری ہے- اسی طرح ربا سے متعلق بھی احادیث مبارکہ نے قرآنِ مجید میں موجود احکامات کو بیان فرمایا ہے-

حضرت سلمان بن عمرو (﷠) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مَیں نے رسول اللہ (ﷺ)  کو فرماتے سنا کہ:

’’سن لو! زمانہ جاہلیت کے تمام سود کالعدم ہوگئے تم اپنے اصل زر کے حق دار ہو- تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم ہواور سن لو کہ جاہلیت کے جتنے قتل ہوئے تھے وہ سب معاف ہوگئے اور سب سے پہلے، میں حارث بن عبدالمطلب کا قتل معاف کرتا ہوں جو سویث میں دودھ پیتے تھے اور ہذیل نے انہیں قتل کردیا تھا- پھر فرمایا: اے لوگو!  کیا میں نے پیغام حق پہنچادیا؟ انہوں نے کہا جی ہاں! یہ بات تین بار کہی- آپ (ﷺ) نے تین بار کہا، اے اللہ گواہ رہنا‘‘- [6]

امام ابن سیرین (﷫) سے روایت ہے وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (﷜) سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’ان سے اس شخص کے بارے سوال کیا گیا جو کسی مرد سے درہم بطور قرض لے پھر قرض لینے والا مقروض کی سواری کا محتاج ہو جائے ( تو آیا وہ سواری استعمال کر سکتا ہے یا نہیں) تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود (﷜)نے فرمایا جو اسے اس کی سواری سے نفع پہنچے گا وہ رہا ہے-شیخ احمد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع ہے- تحقیق ہم نے ابن عون سے روایت کیا ہے وہ ابن سیر ین سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک ایک مرد کسی مرد کو درہم بطور قرض دے اور وہ اس پر اس کے گھوڑے کی سواری کی شرط لگائے پس یہ معاملہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (﷜) کی بارگاہ میں عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا جو اس گھوڑے کی سواری سے نفع پہنچے گا ،وہ سود ہے‘‘-[7]

ربا کی اقسام :

’’اصطلاح شرعی میں ربا کی دو قسمیں ہیں : ’’ربا النسیئۃ اور ربا الفضل‘‘-اول الذکر کو ربا القرآن بھی کہتے ہیں کیونکہ ربا کی اس قسم کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے، جبکہ ثانی الذکر کو ربا الحدیث بھی کہتے ہیں- ربا الفضل یہ ہے کہ ایک جنس کی چیزوں میں دست بدست زیادتی کے عوض بیع ہو ’’مثلاً 4 کلو گرام گندم کو نقد8 کلو گرام گندم کے عوض فروخت کیا جائے - ربا النسیۃ یہ ہے کہ ادھار کی معیاد پر معین شرح کے ساتھ اصل رقم سے زیادہ وصول کرنا یا اس پر نفع وصول کرنا - آج کل دنیا میں جوسود رائج ہے اس پر بھی یہ تعریف صادق آتی‘‘-[8]

1.     ربا النسیئۃ:

’’ربا النسیئۃ‘‘ کی صحیح اور واضح تعریف امام رازی نے کی ہے،لکھتے ہیں:

’’ربا النسیئۃ‘ زمانہ جاہلیت میں مشہور تھا- وہ لوگ اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ وہ اس کے عوض ہر ماہ (یا ہر سال) ایک معین رقم لیا کریں گے اور اصل رقم مقروض کے ذمہ باقی رہے گی؛ مدت پوری ہونے کے بعد قرض خواہ؛ مقروض سے اصل رقم کا مطالبہ کرتا اور اگر مقروض اصل رقم ادا نہ کر سکتا تو قرض خواہ مدت اور سود دونوں میں اضافہ کردیتا؛ یہ وہ ربا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا‘‘-[9]

’’قرآن پاک میں ربا النسیئۃ کو ربا کرم اور ربٰوالقرآن بھی کہا گیا ہے- اس میں ایک مخصوص مقدار کی رقم طے کی جاتی ہے جو قرض دار کو قرض واپس کرتے وقت اس کو دینی ہوتی ہے‘‘-[10]

سیدنا ا بن مسعود (﷜)سے مروی ہے کہ رسول کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا، اس کا انجام کمی پر ہی ہوگا ‘‘-[11]

2.     ربا الفضل:

ربا کی دوسری قسم جسے ربا الحدیث بھی کہا جاتا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جیسی اشیاء کا تبادلہ جن کا وزن اور مقدار برابر نہ ہو مثل گندم کے بدلے گندم-

’’عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ(ﷺ)قَالَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَ الشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَی بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَ بِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَ بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ کَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ‘‘[12]

’’حضرت عبادہ بن صامت(﷜) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا سونے کے بدلے سونا برابر بیچو اور اسی طرح چاندی کے عوض چاندی، کھجور کے بدلے کھجور، گہیوں کے بدلے گہیوں، نمک کے بدلے نمک اور جو کے عوض جو برابر فروخت کرو جس نے زیادہ لیا یا دیا اس نے سود کا معاملہ کیا- پس سونا چاندی کے عوض، گیہوں کھجور کے عوض اور جو کھجور کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ ہو‘‘-

حضرت عثمان بن عفان بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک دینار کو دو دینار اور ایک درہم کو دو درہموں کے عوض فروخت نہ کرو‘‘-[13]

ربا کی حرمت کا سبب:

قرآن کے مطابق سود کا لاگو ہونا مطلب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے خلاف اعلان جنگ ہے اور سیرت النبی (ﷺ)  کے مطابق سود کاعمل کبیرہ گناہ ہے- بہت سے عالم اس بات پر غور کرتے ہیں اور مختلف نظریے پیش کرتے ہیں اور متفقہ طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ سود کا منع ہونا اس لیے ہے کہ یہ بہت سی سماجی، اقتصادی اور اخلاقی برائیو ں کی جڑ ہے- آیئے سود کے کچھ نقصانات پر ایک نظر ڈالیں - سود کی ممانعت کی بڑی وجہ خود غرضی، بے حسی، انسانی سوز،بے دردی، لالچ اور دولت کی خواہش جیسے عناصر شامل ہیں- اسلامی اقتصادیات کے سارے مقصد اور راہنمائی کے اصول قرآن پاک اور سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں حاصل ہوتے ہیں اور یہ ہی اصل منبع ہدایت ہیں-قرآن نے ہمیں بہت سے طریقے بتائے؛ پہلا طریقہ کاروباری مہم ہے، دوسرا طریقہ استحصال کے خاتمے کا ہے، جبکہ تیسرا مقصد سماجی برابری عقیدے کی بنیاد پر زکوۃ کی صورت میں اور انسانی عقیدہ مساوات ہے -

عصر حاضر میں اسلامی بینکنگ یا سودی کاروبار:

بیسویں صدی میں جیسے جیسے سود کا لاگو ہونا بڑھتا جا رہا تھا تو اسلامک بینکنگ نے طے کیا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے سود جیسی غیر قانونی اور نا جائز چیز کا خاتمہ کیا جائے، جیسا کہ ہمارے دین میں بھی سود کے لیے سختی سے منع کیا گیا ہے - اس سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس میں کسی قسم کا کوئی سود کا عنصر نہ پایا جائے- بینکنگ کے اس نظام نے کچھ حکمت عملیوں کواپنایا اور کنوینشنل بینکنگ کی طرز پر تعبیر و تشریح کی گئی جیساکہ مضاربہ،اجارہ، مشارکہ اور مرابحہ وغیرہ -اس نظام کی نوبت تب آئی جب دیکھا گیا کہ سود سے پاک بینکنگ نظام کو بہت سی مالی مسائل کا سامنا پیش ہو رہا تھا انہی حالات میں (Dual) بینکنگ نظام متعارف ہوا- اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ایک اور نظام کو متعارف کروایا گیا کہ سود کی جگہ کچھ نئے اصول اور ایڈ جیسٹمنٹ ہوئی جو ایک سود سے پاک بینکنگ کو مختلف کرے-

اسلامک بینکنگ کے سارے اصول مغربی تہذیب اور ’’Interest Based Banking‘‘کے اصولوں پر بنائے جانے لگے بلکہ اس طرح بھی کہنا ٹھیک ہو گا کہ کنوینشنل بینکنگ کو ہی چند نام نہاد لوگو ں نے وضو کروا کر اسلامک بینکنگ بنا ڈالا- اسلامک بینکنگ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ ہر معاملے کا جائزہ اس طرح لیتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے اس معاملے کا کیسے سامنا کیا اور اپنے سارے سنہری اصول بھلا بیٹھے ہیں جو ہمیں سیرت طیبہ (ﷺ)سے حاصل ہوتے ہیں- اس کا حل یہی ہے کہ اپنے دین کے دئیے ہوئے اصولوں کی روشنی میں اپنے ضابطے متعین کریں اور ان سے راہنما ئی حاصل کریں- ایسا طریقہ اپنانا چاہیے جس میں سارے مسائل کا حل کلی طورپر ہو اور جس میں تعاون کرنا اور عمل کرنا بھی زیادہ مشکل نہ ہو-

اسلامی اقتصادی نظام کا تعلق سرمایہ دارانہ اور سماج کے نظم و ضبط سے ہے- بد قسمتی سے اسلامی اقتصادی دُنیا اس راہ پر ابھی تک گامزن نہیں ہو ئی جہاں اسے ہونا چاہیے کوئی بھی ایسی تدبیر نظر نہیں آرہی جس میں پیسوں یا دوسری چیزوں کی لین دین سود سے پاک ہوں-ہمیں چاہیے کہ کوئی ایسا سسٹم متعارف کروایا جائے جس میں سود کی کوئی گنجائش نہ ہو-

انسان اپنی سماجی، اقتصادی اور مذہبی سرگرمیاں اپنے ماحول کے مطابق ہی رکھتا ہے - اسلام میں سماجی اور اقتصادی سر گرمیاں اپنے مخصوص ماحول کے مطابق ہوتی ہیں- اسلامی ہدایات کا بنیادی ذریعہ قرآن پاک اور سیرت النبی (ﷺ)  ہے- اسلام میں تجارتی سرگرمیوں کا مقصد سب کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث میں ربا کے خاتمے کا واضح حکم اسی بات کا ثبوت دیتا ہے-الغرض! ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ نام نہاد اسلامک بینکنگ صحیح راہ پر نہیں جا رہی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)  کے بتائے طریقے پر مکمل طور پر گامزن نہیں ہے اور قرآن پاک میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جس نے ربایعنی سود کو فروغ دیا اس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے خلاف جنگ کی- ہمیں چاہیے کہ اس دھندلاہٹ اور کنفیوژن سے چھٹکارا حاصل کریں اوراس سے نمٹنے کےلئے کچھ مثبت اقدام لیں-

٭٭٭



[1](عمدۃالقاری، ج:11، ص:199)

[2](تاج العروس شرح القاموس، ج:10، ص: 143)

[3](الروم:39)

[4](آلِ عمران:130)

[5](البقرۃ:275)

[6]( سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)

[7](السنن الکبری،جز: 5،  ص: 573)

[8]( تفسیر تبیان القرآن،ج:1،  ص:976)

[9](تفسیرکبیر، ج:2، ص:351)

[10])Muslim, Kitab al-Musaqat, Bah bay’i al-ta'ami mithlan bi niithlii also in Nas’an(

[11](صحیح ابن ماجہ)

[12](سنن ابی داؤد، کتاب البیوع)

[13](صحیح مسلم، ج:2، ص:64)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر