اللہ جل شانہ نے کائناتِ ارضی و سماوی تخلیق فرمائی، زمین کو لہلہاتی فصلوں اور کھیتیوں، سرسبز و شاداب جنگلات، عقل و خرد اور دل و نگاہ کو موہ لینی والی آبشاروں، دریاؤں اور سمندروں، اونچے اونچے پہاڑوں اور لمبے لمبے قدآور درختوں، خوشبودار پھولوں اور پھلوں، خوشوں والی کھجوروں اور بھوسے والے اناج سے مزین فرمایا -
کتنی عظمت اور بزرگی والی ہے وہ ذات جس نے متعدّد آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ طبق دَر طبق پیدا فرمائے، اور اسی نے آسمانِ دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کیا اور ہر سماوی کائنات میں اس نے ایک نظام ودیعت فرمایا اور نظامِ تخلیق میں کوئی بھی ذرا بھر بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں رکھا کہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت کر سکے- قرآن پاک اللہ تعالی کی تخلیق پر تمام معترضین نقادوں کو چیلنج کرتا ہوا فرماتا ہے :
’’اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ‘‘[1]
’’جس نے بنائے ہیں سات آسمان اوپر نیچے ، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو‘‘-
’’ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ‘‘[2]
’’تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی‘‘-
’’دنیا کے نقادوں، انجینئروں اورعلومِ لطیفہ کے ماہرین کو دعوت دی جارہی ہے کہ جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے آسمان،زمین، پہاڑ،ہرقسم کی بے جان اور جاندار مخلوق،سب کودیکھو،غورسے دیکھو تنقیدی نگاہ سے دیکھو ایک بار نہیں بار بار دیکھو اور بتاؤ تمہیں اس میں کوئی نقص،کوئی عیب،کوئی رخنہ،کوئی شگاف یا ترتیب و تناسق میں کوئی کوتاہی نظر آتی ہے؟ تم عمر بھر کسی نقص کی تلاش میں سرگرداں رہو،تمہاری نگاہیں تھک کر چور ہو جائیں گی،لیکن ان کا کوئی عیب تلاش کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی-جو ہم نے بنا دیا،جیسا بنا دیا،اس سے بہتر کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا- کیا کوئی کَہ سکتا ہے کہ آسمان کی اتنی بلندی اور اتنا پھیلاؤ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس کی فضا میں جو اربوں تارے جگمگا رہے ہیں ان کی ترتیب درست نہیں ہے یا جس طرح زمین کو بنایا گیا ہے اس میں رد و بدل کی گنجائش ہے، ان بڑی بڑی چیزوں کو رہنے دو-ذرا اپنے انسانی پیکر پر غور کرو اور اس کے نقشہ میں کوئی ترمیم پیش کرو،چہرے پر ناک، منہ، آنکھیں، ہونٹ، دانت، زبان اور جو کچھ بنایا ہے اس میں کوئی تبدیلی کر کے دکھاؤ،کیاکوئی ترمیم،کوئی تجویز ،کو ئی رد و بدل ممکن ہے‘‘ [3]
نظامِ کائنات کی حفاظت کا انتظام :
اللہ تعالی نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ سے استشہاد لیا جا سکتا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰـھَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ‘‘[4]
’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں) چراغوں سے مزیّن فرما دیا ہے اور ہم نے ان (ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اَثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کیلیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-
’’فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَاط وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘[5]
’’پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے‘‘-
مزید’’سُورة الرحمٰن ‘‘ میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ‘‘[6]
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں‘‘-
یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کیلئے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی ، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں کیا مجال کہ سرمو دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں - کیا ہی انوکھا ، عجیب تر اور حیرت کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے -
امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين القرطبی (المتوفى : 671ھ) ’’تفسیر الجامع لأحكام القرآن‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَقَتَادَةُ وَأَبُو مَالِكٍ: أَيْ يَجْرِيَانِ بِحِسَابٍ فِي مَنَازِلَ لَا يَعْدُوَانِهَا وَلَا يَحِيْدَانِ عَنْهَا.
’’حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) حضرت قتادہ(رضی اللہ عنہ) اور ابو مالک(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی اپنی)منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوتے ہیں(یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے)‘‘-
اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع وغروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ وسال کاحساب بنتا ہے-اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے -
الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر ذرے اور ہر کُرے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور تر و تازگی ہے- انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے - تو واضح یہ ہوا کہ تخلیقِ کائنات میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی نقص بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و مبرا ہے - یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردا ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے -
جب دُنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور اُن کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی-اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں -
آج ہر ترقیاتی منصوبہ کسی نہ کسی صورت میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے- صنعتی انقلاب کے بعد 1750 ء سے لے کر اب تک زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ ہوا ہے[7] اور حالیہ صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2-1.5 ڈگری فارن ہا یئٹ اضافہ متوقع ہے جو کے ایک نہایت تشویشناک صوررت حال ہے اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیرز پگھلنے شروع ہو گئے ہیں، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ساحلی علاقے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے- مز ید برآں بارشوں کے سلسلے متاثر ہونے او ر غیر متوقع طوفانوں کا خدشہ ہے- موسمی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت، صحت کے مسائل، خوراک کے مسا ئل، جنگلی حیات کا نا پید ہونا،صاف پانی کی قلت، معاشی مسائل اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں-اس گلوبل وارمنگ کی موجب گرین ہاؤس گیسز ہیں جو فضا میں مختلف ذرائع سے شامل ہو رہی ہیں اس کا بڑا ماخذ نامیاتی ایندھن (تیل،گیس اور کوئلہ وغیرہ) کو ذرائع آمدورفت اور صنعتی پیداوار کے لیے جلانا ہے نیز سیمنٹ کی پیداوار اور دیگر صنعتی پیداوار کے نتیجے میں خارج ہونے والی گیسز ہیں جو فضاکو آلودہ کر رہی ہیں- سالانہ 40ارب ٹن گرین ہاؤ س گیس[8] فضا میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شامل ہو رہی ہے- دوسری جانب درخت جو کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں ان کا بے دریغ کٹاؤ، آبادی کا تیزی سے بڑھنا، سر سبز علاقوں کو پختہ کنکریٹ کی عمارتوں اور سڑکوں میں بدلنا موسمیاتی تبدیلی پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں-
موجودہ صورت حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت انسانی جان کی بقاء کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے اُن میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے- جو موسم کی ناہمواری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں- اب توفطری ماحول کی ناہمواری نے بھی انسانی وجود کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا ہے اوریہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیاجا سکتا ہے ان میں سےایک آلودگی سے پاک ماحول ہے- ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پُوری طرح اور بُری طرح متاثر ہو رہی ہے-
جس طرح اس وقت ہوائی آلودگی عالمی سطح پر انسانی جان کیلئے خطرہ بن چکی ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ 70 لاکھ لوگ اسی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں- دین اسلام جہاں دیگر مسائل سے متعلق حل پیش کرتا ہے وہاں ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی سے متعلق بھی ایک آفاقی نقطۂ نظر رکھتا ہے-
ماحولیاتی آلودگی سے انسانی جان کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟
ماحولیاتی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے اسلام نے صفائی اور شجر کاری کے تفصیلی احکام صادر فرما کر اس مسئلہ کا واضح حل فرما دیا- قرآن حکیم نے کھیتی اور پودوں کو برباد کرنا منافقین کا شیوہ قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ‘‘ [9]
’’اور جب وہ (آپ سے ) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے‘‘-
تعلیماتِ اسلامی میں بلا ضرورت درختوں کو کاٹنے سے منع کیا گیاہے - حتیٰ کہ حالت جنگ میں روانگی کے وقت مُسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں گے-اس کی سب سے بڑی مثال فتح ِ مکہ کی ہے کہ آپ(ﷺ) طاقت اور قوت کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو جہاں پر انسانی جانوں کے زیاں سے منع فرمایا وہاں فصلوں اور اشجار کو نقصان پہنچانے سے بھی منع فرما دیا-حضور نبی اکرم (ﷺ) نے شجر کاری کو صدقہ قرار دیا اور حکم فرمایا کہ شجرکاری کرو خواہ روز قیامت سے پہلے ایک ہی درخت لگانے کی فرصت مل جائے-آپ(ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے:
’’إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لاَ يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ‘‘ [10]
’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اس کو لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو‘‘
بحیثیت ِ اُمتی ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم خاتم الانبیاء (ﷺ) کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زمین اور اس کی فضا کو آلودگی سے بچائیں اور اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہر اُس عمل سے اجتناب کریں جس سے زمین کے حسن اور ماحولیات کو نقصان پہنچنےکا اندیشہ ہو-
ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تدارک سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں
ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا،پانی،مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا(ISSUE)فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے ا س کااطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پربھی ہوتاہے- ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طورپر متاثر ہوتا ہے اگرمعاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھوبیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیداہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اورغر باء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبیعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اورگندگی کا ڈھیر بن جائے-
پورا شہر ہرجگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے فلڈ ایریاکی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پرطبیعی اورطبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی،فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پُرسکون زندگی گزار سکے-حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے-
خوفِ طوالت کی وجہ سے آپ (ﷺ) کی سیرت مبارکہ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
پانی کو ضائع کرنے کی ممانعت :
پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے؛ آپ (ﷺ) نے صحابہ کرام () کو پانی کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہوجاتا ہے -
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ (ﷺ)نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو ‘‘-[11]
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم (ﷺ) کا گزر حضرت سعد (رضی اللہ عنہ)پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے) پس آپ (ﷺ)نے ( اسے دیکھ کر) فرمایا اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد (رضی اللہ عنہ)نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو‘‘-[12]
پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم :
جس طرح آپ (ﷺ) نے پانی کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپ (ﷺ) نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے‘‘-[13]
حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’ رسول اللہ (ﷺ) نے جاری پانی میں بیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘-[14]
پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر:
حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثلا: غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کیلئے صابن کے استعمال کے وقت ٹوٹی کو کھلا نہ رکھا جائے،برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لئے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ پائپ سے پانی زیادہ ضائع ہوجاتا ہے-اسی طرح مسواک اور وضوء کرنے کے لئے بھی پانی لوٹا یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں فضول نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی ، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے-اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارشوں کے پانی کو محفو ظ کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے-پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے-
پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا :
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاکہ:
’’اللہ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیئے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے‘‘-[15]
حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
’’ یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں‘‘-[16]
زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک :
سیرت النبی (ﷺ) کی روشنی میں زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے-آپ (ﷺ) نے شجر کاری کی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہھم) کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا-
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے ، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے‘‘-[17]
حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھالیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا ‘‘- [18]
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا شجرکاری کرنا :
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں ایک دن درخت لگارہا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا :اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا(یا رسول اللہ (ﷺ) درخت لگارہا ہوں‘‘-[19]
حضرت قاسم مَوْلَى بَنِى يَزِيد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت ابودرداء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:
’’ ان کے پاس سے ایک شخص گزرا- اس وقت وہ دمشق میں پودا لگارہے تھے- اس شخص نے ابو درداء (رضی اللہ عنہ)سے کہا:کیا آپ بھی یہ (دنیاوی ) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ (ﷺ) کے صحابی ہیں- حضرت ابودرداء (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر- میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے‘‘-[20]
بلاضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت :
حضرت عبد اللہ بن حُبْشِىّ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا -حضرت امام ابوداؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے، ( پوری حدیث اس طرح ہے ) کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا‘‘-[21]
بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت :
آپ (ﷺ) کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف سُتھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے-
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے‘‘-[22]
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا)اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا‘‘-[23]
حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت کےتین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے‘‘-[24]
حضرت عبد اللہ بن عباس(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت والے تین مقامات سے بچو- کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا‘‘-[25]
آقا کریم (ﷺ) پر اُمت کے اعمال کا پیش کیا جانا :
حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال پیش کیے گئے میں نے امت کے اچھے اعمال میں راستے میں ایذاء دینے والی چیز کا ہٹانا دیکھا اور برے اعمال میں مسجد میں وہ تھوک دیکھا جس کو دفن نہ کیا گیا ہو‘‘-
پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے-اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے - ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے آپ(ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے :
’’الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ ‘‘ [26]
’’پاکیزگی نصف ایمان ہے‘‘-
اس لئے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیداہونے والے مسائل کے تدارک کیلئے سیرت النبی (ﷺ) کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ‘‘ بھی ہماری اسی طرف رہنمائی کرتا ہے -
٭٭٭
[1](الملک:3)
[2](الملک:4)
[3](تفسیر ضیاء القرآن)
[4](الملک:5)
[5](حم السجدہ:12)
[6](الرحمٰن:5)
[7](Climate Change 2014 Synthesis Report Summary for Policymakers, Intergovernmental panel on climate on climate change 2014, pp.47)
[8](Michelle Melton, Sarah Ladislaw, Climate 101: An introduction to climate Change, CSIS, pp.2, 2015)
[9](البقرۃ:205)
[10](مُسند احمد ، رقم الحدیث : 13322)
[11](سنن ابن ماجہ، کتاب الطهارة و سننها)
[12](ایضاً)
[13](ایضاً)
[14](المعجم الأوسط، رقم الحدیث: 1749)
[15](صحیح مسلم ،کتاب الذكر والدعاء والتوبۃ)
[16](صحيح مسلم ، کتاب الرقاق)
[17](صحيح البخارى ، کتاب المزارعة)
[18](صحيح مُسلم ، کتابُ الْمساقاة )
[19](سُنن ابن ماجه ، کتاب الأدب)
[20](مسند احمد ، رقم الحدیث : 28270)
[21](سُنن أبى داود ، باب فِى قَطْعِ السِّدْرِ)
[22](صحيح مسلم ، کتاب الایمان)
[23](سُنن أبى داود ، کتاب الأدب)
[24](سُنن أبى داود ، کتاب الطهارة)
[25](مسند أحمد ، رقم الحدیث : 2767)
[26]( صحیح مُسلم ، کتاب الطهارة ، باب فَضْلِ الْوُضُوءِ)
اللہ جل شانہ نے کائناتِ ارضی و سماوی تخلیق فرمائی، زمین کو لہلہاتی فصلوں اور کھیتیوں، سرسبز و شاداب جنگلات، عقل و خرد اور دل و نگاہ کو موہ لینی والی آبشاروں، دریاؤں اور سمندروں، اونچے اونچے پہاڑوں اور لمبے لمبے قدآور درختوں، خوشبودار پھولوں اور پھلوں، خوشوں والی کھجوروں اور بھوسے والے اناج سے مزین فرمایا -
کتنی عظمت اور بزرگی والی ہے وہ ذات جس نے متعدّد آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ طبق دَر طبق پیدا فرمائے، اور اسی نے آسمانِ دنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کیا اور ہر سماوی کائنات میں اس نے ایک نظام ودیعت فرمایا اور نظامِ تخلیق میں کوئی بھی ذرا بھر بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں رکھا کہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت کر سکے- قرآن پاک اللہ تعالی کی تخلیق پر تمام معترضین نقادوں کو چیلنج کرتا ہوا فرماتا ہے :
’’اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ‘‘[1]
’’جس نے بنائے ہیں سات آسمان اوپر نیچے ، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو‘‘-
’’ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ‘‘[2]
’’تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی‘‘-
’’دنیا کے نقادوں، انجینئروں اورعلومِ لطیفہ کے ماہرین کو دعوت دی جارہی ہے کہ جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے آسمان،زمین، پہاڑ،ہرقسم کی بے جان اور جاندار مخلوق،سب کودیکھو،غورسے دیکھو تنقیدی نگاہ سے دیکھو ایک بار نہیں بار بار دیکھو اور بتاؤ تمہیں اس میں کوئی نقص،کوئی عیب،کوئی رخنہ،کوئی شگاف یا ترتیب و تناسق میں کوئی کوتاہی نظر آتی ہے؟ تم عمر بھر کسی نقص کی تلاش میں سرگرداں رہو،تمہاری نگاہیں تھک کر چور ہو جائیں گی،لیکن ان کا کوئی عیب تلاش کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی-جو ہم نے بنا دیا،جیسا بنا دیا،اس سے بہتر کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا- کیا کوئی کَہ سکتا ہے کہ آسمان کی اتنی بلندی اور اتنا پھیلاؤ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس کی فضا میں جو اربوں تارے جگمگا رہے ہیں ان کی ترتیب درست نہیں ہے یا جس طرح زمین کو بنایا گیا ہے اس میں رد و بدل کی گنجائش ہے، ان بڑی بڑی چیزوں کو رہنے دو-ذرا اپنے انسانی پیکر پر غور کرو اور اس کے نقشہ میں کوئی ترمیم پیش کرو،چہرے پر ناک، منہ، آنکھیں، ہونٹ، دانت، زبان اور جو کچھ بنایا ہے اس میں کوئی تبدیلی کر کے دکھاؤ،کیاکوئی ترمیم،کوئی تجویز ،کو ئی رد و بدل ممکن ہے‘‘ [3]
نظامِ کائنات کی حفاظت کا انتظام :
اللہ تعالی نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ سے استشہاد لیا جا سکتا ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰـھَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ‘‘[4]
’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں) چراغوں سے مزیّن فرما دیا ہے اور ہم نے ان (ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اَثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کیلیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘-
’’فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَاط وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ‘‘[5]
’’پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے‘‘-
مزید’’سُورة الرحمٰن ‘‘ میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ‘‘[6]
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں‘‘-
یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کیلئے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی ، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں کیا مجال کہ سرمو دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں - کیا ہی انوکھا ، عجیب تر اور حیرت کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے -
امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين القرطبی (المتوفى : 671ھ) ’’تفسیر الجامع لأحكام القرآن‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَقَتَادَةُ وَأَبُو مَالِكٍ: أَيْ يَجْرِيَانِ بِحِسَابٍ فِي مَنَازِلَ لَا يَعْدُوَانِهَا وَلَا يَحِيْدَانِ عَنْهَا.
’’حضرت ابن عباس() حضرت قتادہ() اور ابو مالک() نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی اپنی)منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوتے ہیں(یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے)‘‘-
اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع وغروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ وسال کاحساب بنتا ہے-اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے -
الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر ذرے اور ہر کُرے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور تر و تازگی ہے- انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے - تو واضح یہ ہوا کہ تخلیقِ کائنات میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی نقص بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و مبرا ہے - یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردا ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے -
جب دُنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور اُن کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی-اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں -
آج ہر ترقیاتی منصوبہ کسی نہ کسی صورت میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے- صنعتی انقلاب کے بعد 1750 ء سے لے کر اب تک زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ ہوا ہے[7] اور حالیہ صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2-1.5 ڈگری فارن ہا یئٹ اضافہ متوقع ہے جو کے ایک نہایت تشویشناک صوررت حال ہے اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیرز پگھلنے شروع ہو گئے ہیں، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ساحلی علاقے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے- مز ید برآں بارشوں کے سلسلے متاثر ہونے او ر غیر متوقع طوفانوں کا خدشہ ہے- موسمی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت، صحت کے مسائل، خوراک کے مسا ئل، جنگلی حیات کا نا پید ہونا،صاف پانی کی قلت، معاشی مسائل اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں-اس گل?