مکالمہ (Dialogue)مذاہب کی تاریخ میں کوئی نیا تصور اور نظریہ نہیں ہے- انسانی تاریخ میں حضرت آدم و نوحؑ کے زمانے سے لے کر حضرت عیسیٰ کے دورِ مبارک تک مکالمہ (Dialogue) کی کوئی نہ کوئی شکل ہمیں ملتی ہے- بالخصوص جب انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنے اقوام کی طرف سے پیش کردہ اعتراضات کے جوابات اور ان کے شکوک و شبہات کے رفع کرنے اور انہیں اپنی دعوت سے قریب کرنے کے لیے ان کی شرائط پر کوئی دلیل یا وضاحت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس سے ہمیں تاریخ کے صفحات میں انبیاء و رسل (علیہم السلام) اپنی اقوام کے سرکردہ اور سربر آوردہ افراد کے ساتھ مستقل گفتگو کے سلسلہ میں جڑے نظر آتے ہیں-حضرت ابرہیم علیہ السلام جو موجودہ آسمانی مذاہب کے جدِّ اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں ان کی زندگی میں کئی بار مکالمہ (Dialogue) پیش آیا اور انہوں نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے منصبِ نبوّت کے فریضہ کو اس طور پر نبھایا کہ آپ کا فریقِ مخالف ’’فبھت الذّی کفر‘‘کا مصداق بن گیا-
حضور نبی کریم (ﷺ) کی زندگی مبارک میں مکالمہ (Dialogue) کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر وحی فرماتے ہوئے صرف ’’یایہا الذین آمنو‘‘ ہی نہیں فرمایا بلکہ قرآن کریم نے بار بار ’’یایہاالنّاس‘‘ اور ’’یا اہل الکتاب‘‘ کَہ کر کُل انسانیت اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مکالمہ (Dialogue)کی بنیاد ڈالی- اسی لیے حضور پر نور (ﷺ) کی حیاتِ طیّبہ میں ہمیں بار بار یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں، مشرکوں اور ملحدوں کے ساتھ مکالمات ملتے ہیں- آپ(ﷺ) نے اہلِ کتاب کو اساسیات دین کی طرف دعوت دی، جبکہ غیراہلِ کتاب کو مشترکات کی طرف بلایا-
مکالمہ (Dialogue) کی یہی روایت اسلامی تاریخ کے ہر دور میں قائم رہی اور غیرمسلم ممالک اور غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح اور موضوع پر جاری و ساری رہی-
مکالمہ (Dialogue) جو اسلام کی طرف سے داعیان اسلام اپنے مدعویین کی ساتھ کرتے رہے اُس کی اساس اور بنیاد اسلام کے مابعد الطبیعاتی افکار، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور عقائد وایمان پر مبنی رہا ہے- اسی طرح دنیا کی دیگر اقوام اور مذاہب مکالمہ (Dialogue) میں جس بنیاد پر کھڑے ہوکر نقد و جرح، ردوقبول اور تسلیم و تائید کرتے ہیں وہ بنیاد یا تو اُن کی مذہبی تعلیمات سے برآمد ہوتی ہے اور یا پھر اُن کے مابعد الطبیعاتی افکار اِس مباحثہ کے لیے بُنیاد فراہم کرتے ہیں- آج کی دنیا میں ’’اسلام اور مسیحیت کے مابین مکالمہ‘‘، ’’اسلام اور یہودیت کے مابین مکالمہ‘‘، ’’ابراہیمی ادیان کے درمیان مکالمہ‘‘، ’’مکالمہ بین المذاہب(Interfaith Dialogue)‘‘اور ’’تہذیبوں کے درمیان مکالمہ‘‘ کی اصطلاحات عام ہیں- ان تمام اقسام کے مکالمات کا مقصد روئے زمین پر عدم تشدّد، امن و آشتی اور پُر امن بقائے باہمی(Peaceful Coexistence)کو قائم کرنا ہے-
ضرورت و اہمیت:
مکالمہ (Dialogue)نظریاتی جنگ میں دلیل کی بنیاد پر اپنے مؤقف کو عقل اور نقل کی روشنی میں ثابت کرنے کا ایک بہت مؤثر پلیٹ فارم بن چکا ہے جس کے ذریعہ تمام اقوام اور تہذیبیں اپنے اپنے مؤقف کو اہلِ علم اور اصحاب دانش کے سامنے پیش کر کے پہلے خواص کے ذہن کو بدلنے اور اپنے مؤقف کی حمایت میں اُن کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر یہ خواص (Elite) رائے عامہ کو کسی مخصوص نقطۂ نظر پر ہموار کرتے ہیں- یہی نقطۂ نظر آج کی اصطلاح میں کسی قوم، مذہب اور تہذیب کا بیانیہ (Narrative)بن جاتا ہے- جس کی پُشت پر بالآخر حکومت اور ریاست کی قوّت نافذہ کھڑی ہوجاتی ہے اور پھر ’’العوام کل انعام‘‘ عامۃ الناس بھی غلط اور صحیح کو نظر انداز کرکے وہی گانا گاتے ہیں جو حکمرانوں کی زبان پر ہوتا ہے-
واضح رہے کہ گلوبلائزیشن (Globalization) کے اس دور میں بین المذاہب اور بین الاقوام مکالمہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے کسی حریف و رقیب کو اپنی دعوت کی طرف متوجّہ کرسکتے ہیں اور اُس کے سامنے باہم مکالمہ کی صورت میں ایسے موضوعات اور تصورات پر مکالمہ کر کے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں جن موضوعات کو عمومی زندگی میں یا تو مکمل طور پرنظرانداز کردیا جاتا ہے یا پھر اُس کی طرف بہت ہی سرسری انداز سے توجّہ دی جاتی ہے-مکالمہ اگرچہ کہ افراد کے مابین ہوتا ہے لیکن مکالمہ کرنے والے اگر کسی قوم اور تہذیب کے چوٹی کے دانشور اور اہلِ علم افراد پر مشتمل ہوں تو لامحالہ یہ مکالمہ مذاہب اور تہذیبوں کے مابین مکالمہ بن جایا کرتا ہے- مکالمہ میں جتنی زیادہ دلیل کی قوّت، موضوع کی سنجیدگی، گفتگو کی متانت، مقصد کی سچّائی، نقطۂ نظر کی وضاحت، زبان و بیان کی چاشنی، علم و عقل کا اجتماع اور مطالعہ و معلومات کی وسعت ہوگی اتنا ہی اِس مکالمہ کو زود اثر اور قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے-
لیکن !
اگر یہ مکالمہ خدانخواستہ مناظرہ میں بدل جائے تو پھر اِس مناظرہ کا جنگ و جدال میں بدل جانا اور اس جدال کا قتال کی شکل کو اختیار کرلینا قابل پیشن گوئی ہے جو کسی بھی صورت میں عالمی امن اور پُر امن بقائے باہمی کی کوششوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا بلکہ یہ رویّے اِس طرح کی سنجیدہ کوششوں کے لیے سمِ قاتل ہیں کیونکہ مکالمہ بین المذاہب اور بین التہذیب کا اصل مقصد جنگ و جدال کے لیے ذہن اور میدان کی تیاری نہیں بلکہ اِس کا مقصود حق اور سچ کو لوگو ں تک پہنچانا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جو مذہبی و قومی تعصّب اور جہالت و بے خبری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں-
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کون و مکاں کیلیے رسولِ رحمت ہیں- آپ(ﷺ) کی دعوت ہر زمانے، ہر خطّے اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے ہے -اسی لیے مسلمان اقوامِ عالم سے دور رہ کر یا کَٹ کر نہیں رہ سکتے- تمام انسانوں تک براہِ راست یا بالواسطہ اسلام کا پیغام پہنچانا ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے- وہ تمام اقوام جو مسلمانوں کی مخالف یا دشمن ہیں وہ بھی مسلمانوں کے مخاطب ہیں-اسی لیے اِن اقوام کے ساتھ محبت و مودت سے پیش آنا اور بااخلاق طریقے سے اِن تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے-لیکن اگر کسی قوم اور تہذیب کو اسلام اور مسلمانوں سے کسی غلط فہمی یا تعصّب کی وجہ سے عناد اور بغض پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ایسی قوم اور تہذیب کا اسلام سے قریب آنا اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے پیغام کو سمجھنا مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے تو ایسی اقوام اور تہذیبیں اس بات کی زیادہ مستحق ہیں کہ ہم اُن کے دل و دماغ کی تسخیر کی کوشش کریں اور اِس کیلیے مکالمہ کو بحیثیت ایک مؤثر ذریعہ کے اپنایا جائے- کیونکہ مستقل مکالمہ اور تعامل (Interaction) ہمارے مخاطبین کے دلوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے دشمنی کو کھرچ کرکے اُن کے دلوں کو پیغام حق کی قبولیت کے لیے تیار کردے گا-
’’وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘[1]
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا‘‘-
مکالمہ (Dialogue) کے لیے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی:
حضور نبی کریم (ﷺ) نے قیامت تک انسانوں کی مشکلات کے حل کو اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ بطورِ نمونۂ عمل(Role Model)کے پیش فرمایا ہے- آپ(ﷺ) کی حیات طیّبہ کو اپنی تفہیم اور تقلید کےلیے ہم دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں-
1- مکی دور 2-مدنی دور
مکی دور آپ(ﷺ) کی زندگی کا پہلا اور طویل دور ہے- جو کم و بیش 53برس پر محیط ہے- اسلام سے قبل کا عام مکی لوگوں کا دور جاہلی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے- کفر وشرک اور اوہام و خرافات پر مبنی اس معاشرت اور تمدن میں آپ(ﷺ) نے بھرپور سماجی زندگی گزاری- ہر وہ کام جو کسی بھی حوالہ سے مفید ہوسکتا تھا اُسے آپ (ﷺ) نے نہایت جوش و ولولہ سے سر انجام دیا- غریبوں کی مدد، بیواؤں کی دستگیری، مہمانوں کی ضیافت، تنگ دستوں کی امداد، مسافروں کی ضروریات کا خیال، پریشان حالوں کی معاونت، بے سہاراؤں کی مشکل کشائی کے ساتھ ساتھ حلف الفضول اور حرب الفجّار میں شرکت، حجر اسود کی تنصیب میں ثالثی اور شام و یمن کے تجارتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا، وہ معاملات ہیں جس نے آپ(ﷺ) کو سماجی سطح پر قبولیت عطا فرمائی اور پھر آپ (ﷺ)کی ذاتی زندگی کی صداقت و امانت نے اہلِ مکّہ میں سے متلاشیانِ حق کے دلوں میں آپ (ﷺ) کیلیے وسعت اور قبولیت کا مادّہ پیدا فرمایا-
لیکن دوسری طرف وہی معاشرہ جو آپ (ﷺ) کو صادق اور امین کا لقب دینے والا ہے انہوں نے اعلانِ نبوّت کے بعد مخالفت بلکہ عداوت کی ہر قسم اور شکل کو آپ (ﷺ) کے لیے روا رکھا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ استہزاء، تحقیر، تکذیب اور تعذیب کا ہر ہتھیار آپ(ﷺ) کے خلاف پوری شدّت کے ساتھ استعمال کیا - وہی مکّۃ المکرّمہ جس کے در و دیوار اور حجر و شجر بھی آپ(ﷺ) کے شناسا تھے، آپ(ﷺ) کیلیے یکثر اجنبی ہوگئے-دوست، دشمن بن گئے، عزیز، رقیب بن گئے، جاننے والوں نے پہچان سے انکار کردیا، بہی خواہوں نے ظلم و جور کی ہر شکل کو آپ (ﷺ) پر آزمایا، یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کا معاشرتی مقاطعہ (Social Boycott) کیا گیا- حالات کی تمام تر سنگینی کے باوجود آپ(ﷺ) نے جدال و قتال کی راہ اختیار کرنے سے آخری حد تک گریز فرمایا- اُس کی وجہ یہ تھی کہ دعوت اور مکالمہ (Dialogue) کے لیے درکار ماحول اِس بات کا متقاضی تھا کہ ممکن حد تک ماحول کو جنگ و جدال سے محفوظ رکھا جائے تاکہ فریقِ مخالف کو کسی نہ کسی بہانہ قریب لاکر کے مکالمہ کا عمل شروع کیا جاسکے-
تمام تر کوششوں کے باوجود ضد، بغض اور عناد کی چٹان اگر کسی بھی صورت میں ٹوٹنے نہ پائے تو تب بھی آقا کریم (ﷺ) کا اسوۂ حسنہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ جگہ ہی ترک کردی جائے ،خواہ عارضی طور پر ہو یا مستقل، جہاں دعوت کے امکانات بظاہر معدوم ہوجائیں اور ایسی نئی جگہ اور نئے دوست تلاش کیے جائیں جو اہلِ ایمان کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوں- مکّہ کی سرزمین پر جب مسلمانوں کیلیے ایمان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا اور ہر آنے والا دن گزرنے والے دن کے مقابلے میں سخت تر ہوتا چلا گیا تو ایسی صورت میں اگرچہ کہ اُس وقت کوئی دوسری اسلامی ریاست اور مملکت موجود نہ تھی؛ اور آپ(ﷺ) یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے گرد و نواح میں 2سپر طاقتیں روم و فارس موجود تھیں لیکن آپ (ﷺ) نے اہلِ ایمان کو اُن دو خوش حال عظیم سلطنتوں کی طرف ہجرت کے حکم کے بجائے سرزمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا- آپ(ﷺ) اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ وہ ایک عیسائی ریاست ہے لیکن حبشہ کا حاکم نجاشی اپنے عدل و انصاف اور خدا خوفی کی وجہ سے مشہور تھا- آپ (ﷺ) نے اپنے چچا زاد سیّدنا حضرت جعفر طیار کو ایک مختصر لیکن جامع خط دے کر نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تاکہ ایک طرف اُسے اسلام کی دعوت دی جاسکے تو دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ عمدہ سلوک پر اُسے آمادہ کیا جاسکے-
شاہ حبش کے نام خط:
خدائے رحمٰن و رحیم کے نام سے--- نجاشی شاہ حبش کے نام:
’’میں اس خدا کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو تمام کائنات کا حاکم ہے، پاک ہے، امان دینے والا اور سلامت رکھنے والا ہے!
میں اقرار کرتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیا اور عیسیٰ بطن مریم سے جلوہ افروز ہوئے- انہوں نے ان کو اپنی روح اور دم سے اسی طرح پیدا کیا جس طرح اس نے آدم (علیہ السلام)کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا- مَیں آپ کو اس خدائے واحد کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اس پر ایمان لائیے، خدا کی فرمانبرداری میں میرا ساتھ دیجیئے- میری پیروی اختیار کیجیئے اور میری رسالت کو تسلیم کرلیجیئے کیونکہ مَیں خدا کا پیغمبر ہوں! مَیں نے اللہ کا پیغام خلوص کے ساتھ آپ کو پہنچا دینے میں خیرخواہی کی ہے- میری ہمدردانہ نصیحت کو قبول کرنا آپ کا کام ہے- مَیں آپ کی رعایا کو بھی یہی دعوت دیتا ہوں- مَیں اپنے چچا زاد بھائی جعفر(رضی اللہ عنہ)کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھیج رہا ہوں، جب یہ آپ کے پاس پہنچیں تو حکومت کے غرور و تکبر کو ترک کرکے ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیے! اس پر سلامتی ہو جس نے راہِ راست کی پیروی کی‘‘-
یہ تو حضور نبی کریم (ﷺ) کا وہ نامۂ مبارک تھا جس میں آپ (ﷺ) نے نجاشی سے براہِ راست اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، حضرت عیسیٰؑ کی بن باپ ولادت و عظمت، حضرت مریم کی عصمت، اپنی رسالت پر ایمان کی دعوت، مکہ سے حبشہ گئے ہوئے مہاجرین کے ساتھ خیرخواہی سے پیش آنے اور اہلِ ہدایت کے لیے سلامتی کی دعا پر مشتمل تحریری مکالمہ فرمایا-
اسی طرح شاہِ حبش کے دربار میں مکہ کے آئے ہوئے وفد اور اُن کی طرف سے مظلوم مسلمانوں پر الزامات کی بوچھاڑ کے جواب میں حضرت جعفر طیار نے جو خوبصورت، جامع اور اسلام سے متعلق اپنے عقائد کا برجستہ اظہار کیا اُس کی صورت بالکل وہی تھی جو آج کل(Inter faith Conferences) میں اپنا مؤقف پیش کرنے والے کسی’’Delegate‘‘کی ہوا کرتی ہے کیونکہ شاہِ حبشہ کے دربار میں ایک طرف مسلمانوں کا وفد، دوسری طرف قریش کا بھیجا ہوا وفد، تیسری طرف عیسائی اہلِ علم، چوتھی طرف اہلِ دربار بطورِ سامعین اور تخت پر براجمان اصحم بن ابجر نجاشی[2] صدرِمجلس کی حیثیت میں بیٹھے ہوئے ہیں-
حضرت جعفر طیار (رضی اللہ عنہ)نے اہلِ ایمان کے مؤقف کو یوں بیان فرمایا:
’’خود ساختہ بتوں کی پرستش ہمارا مذہبی شعار تھا، مردار خوری، بدکاری اور بے رحمی ہماری معاشرت کا اہم جزو بن گیا تھا، ہم نہ ہمسایہ کے حقوق سے واقف تھے اور نہ اخوّت و ہمدردی سے آشنا، ہرطاقتور کمزور کو کھا جانے پر فخر کرتا تھا- یہ تھا ہمارا معیارِ زندگی!
ہماری اس تباہ حالی کا دور عرصہ دراز سے قائم تھا کہ یک بہ یک خدائے برتر نے ہماری قسمت کا پانسہ پلٹ دیا اور ہم میں ایک ایسا پیغمبر بھیجا جس کے نسب و حسب سے ہم پوری طرح واقف ہیں،جس کی عِفّت و پاک دامنی ہمہ وقت ہماری نظروں میں رہی ہے- وہ پیغمبر(ﷺ)آیا اور اُس پیغمبر (ﷺ)نے ہمیں ہدایت کی اور وہ روشن شمع ہمیں دکھائی جس نے ہماری آنکھوں سے ہماری بدکرداری اور جہالت کی تاریکی کے تمام پردے چاک کردیئے!
اُس پیغمبر(ﷺ)نے فرمایا تم صرف خدائے واحد کی پرستش کرو، اس کو اپنا خالق و مالک سمجھو- بت پرستی کو چھوڑو، تمہارے یہ خود ساختہ معبود تمہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان! گمراہی کی بنیاد باپ دادا کی کورانہ تقلید ہے! حضور نبی کریم (ﷺ) نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہمیشہ سچ بولو، امانت میں کبھی خیانت نہ کرو، ہمسایہ کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کو اپنا شعار بنائے رکھو، خونریزی اور خدا کی حرام کی ہوئی باتوں سے بچو، فحش کاموں اور جھوٹ کے قریب نہ جاؤ، یتیم کا مال نہ کھاؤ اور پاک دامن کو تہمت نہ لگاؤ، عبادت کرو، روزہ رکھو اور اموال کی زکوٰۃ دیا کرو-
بادشاہ سلامت! اس پیغمبر(ﷺ) نے اسی قسم کے اور بہت سے بہترین امور کی ہمیں تعلیم دی ہے- ہم نے اس کی تصدیق کی،اس(ﷺ) کو خدا کا پیغمبرسمجھا اور اس پر ایمان لائےاور جو کچھ اُس پیغمبر(ﷺ)نے خدا کا حکم ہمیں سنایا، ہم نے اس کی پیروی کی- ہم نے خدا کو ایک جانا، شرک سے توبہ کی، حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا! یہ ہے ہمارا جرم جس پر ہمارے ہم وطنوں نے ہمیں گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا اور ہم نے آپ کے ملک میں آکر پناہ لی ہے‘‘-
شاہِ حبشہ پر اس گفتگو کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ اُس نے قریش کے وفد کو صاف جواب دے کر مسلمانوں کو اُن کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور مسلمان آزادی کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے- مسلمان جب کچھ عرصہ حبشہ میں گزارچکے تو حضور نبی کریم (ﷺ) کی طرف سے شاہِ حبشہ کے نام دوسرا خط لکھا گیا جس میں اُس کو حکمت اور موعظت حسنہ کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی- اس خط کا متن بہت سادہ اور رواں ہے لیکن اسلوب وہی ہے جو مکالمہ میں اختیار کیا جاتا ہے یعنی گفتگو بغیر کسی دھونس، دھمکی اور بغیر شخصی و قومی تکبّر اور تفاخر سے خالی صرف اپنے مقصد، پیغام اور نقطۂ نظر کو مخاطب/ مخاطبین تک پہنچانا ہوا کرتا ہے-
شاہ حبش کے نام دوسرا خط:
محمد الرسول اللہ(ﷺ) کی جانب سے حبش شاہ نجاشی کے نام:
’’اس پر سلامتی ہو جو راہِ راست اختیار کرے- میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو معبودیت میں یکتا ہے- کل کائنات کا مالک ہے، برگزیدہ ہے، امن و سلامی کی پناہ گاہ صرف اسی کی ذات ہے اور اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم بتول پاک دامن پر القاء کیا وہ خدا کے نبی عیسیٰ کی والدہ ہیں- پس اللہ ہی نے ان کو اپنی روح سے پیدا کیا اور اس کو حضرت مریم (علیھا السلام) میں پھونک دیا جیسا کہ اس نے آدم کو اپنے دست قدرت سے بنایا-
اب میں آپ کو خدائے واحد لاشریک لہٗ، کی اطاعت و مودت اور محبت کی دعوت دیتا ہوں- آپ کو میری پیروی اختیار کرنی چاہیے اور خدا کا جو پیغام میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لانا چاہیئے-
میں آپ کو اور آپ کے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں، پس میں نے تبلیغ اور نصیحت کا فریضہ ادا کردیا ہے- آپ کو چاہیے کہ اسے قبول کریں-
پیروان ہدایت پر سلام ہو‘‘-
نجاشی آپ(ﷺ) کا نامۂ مبارک سُنتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ اُس سے اِس قدر متاثر ہوا کہ جونہی مضمون ختم ہوا وفورِ محبت اورفرط شوق سے نامۂ مبارک کو بوسہ دے کر سر پر رکھ لیا اور جواب میں درج ذیل خط آپ(ﷺ) کو مخاطب کرکے لکھا-
نجاشی کا جواب :
’’محمد رسول اللہ (ﷺ) کے نام اصحمہ نجاشی کی جانب سے-السلام علیک یا نبی اللہ! آپ (ﷺ) پر اللہ کی رحمت اور برکت ہو- وہ خدا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے اسلام کا راستہ دکھایا اور میری رہنمائی کی- بعد ازاں، اے خدا کے نبی! آپ(ﷺ) کے مکتوب گرامی کی زیارت کا مجھے شرف حاصل ہوا- آپ(ﷺ) نے حضرت عیسیٰؑ کے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے میں زمین و آسمان کے خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰؑ اس سے کچھ زیادہ نہیں- ہم نے ان تمام باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے جو آپ (ﷺ) نے ہم تک پہنچائیں- آپ (ﷺ) کے چچا زاد بھائی اور رفقاء ہمارے مقرب ہیں- میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ(ﷺ) خدا کے سچے رسول ہیں! میں نے آپ(ﷺ) کے چچازاد بھائی کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کیلیے بیعت کرلی ہے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا ہوں- اے اللہ کے نبی (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کی خدمت میں اپنے بیٹے ارھا کو بھیجتا ہوں- اگر آپ (ﷺ) کا حکم ہوگا تو میں خود بھی حاضر ہوجاؤں گا‘‘-
والسلام علیک ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘-
آپ نجاشی کے اس جواب سے حضور نبی کریم (ﷺ) کی حکمتِ دعوت اسلام کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک بادشاہ جو مفتوح اور مغلوب نہیں ہے بلکہ بااقتدار اور باحشمت ہے اور ساتھ ساتھ اہلِ ایمان کو پناہ دینے والا ہے وہ خود آپ(ﷺ) کے پیغام کی اثر پذیری سے کتنا متاثر ہے-
بین الاقوام اور بین المذاہب تعلقات کے ضمن میں مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ کا تحقیقی مطالعہ آج کی کثیر الثقافتی و کثیر التہذیبی دنیا کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے- اگرآج کی دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو کئی ممالک ایسے نظر آئیں گے جہاں عوام اور حکومتیں مسلمانوں کے لیے نسبتاً نرم گوشہ رکھتی ہیں ان حالات میں مسلمان حبشہ کے حالات و واقعات کو پیشِ نظر رکھیں تو دعوت اور مکالمہ (Dialogue)کے لیے ایک صحت مند ماحول قائم کیا جاسکتا ہے-
مکی دور کے مقابلے میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیات طیبہ کا مدنی دور بین الاقوام اور بین التہذیب مکالمات سے بھرا ہوا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اوس و خزرج کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد مدینہ طیبہ کے تینوں قبائلِ یہود ’’بنوقینقاع، بنو نضیر اور بنوقریظہ ‘‘کے ساتھ تحریری معاہدہ فرمایا جس میں مدینہ طیبہ کے یہودیوں کو مذہبی خودمختاری کے ساتھ ساتھ اُن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار کو برقرار رکھا گیا سب سے بڑھ کر مدینہ طیبہ کے دفاع کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی ماتحتی میں قبول کرکے مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور قومی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی- یہ ایک طرح کا دوقومی و دو مذہبی معاہدہ تھا جو آج کی جدید دنیا میں مسلمانوں کے الجھے ہوئے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے بین المذاہب مکالمہ کی بنیاد کا کام دیتی ہے-
اس کے بعد 6ھ میں صلح حدیبیہ کی صورت میں آپ (ﷺ) نے اہلِ مکہ کے ساتھ معاہدہ کے حوالہ سے جو گفت و شنید فرمائی اور اُس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی گئیں وہ بھی بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کیلیے مکالمہ کی کامیاب راہیں کھولتی ہیں، کیونکہ یہی وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجہ میں مسلمان اب اپنے آپ کو اہلِ مکہ کے ظلم و ستم سے آئندہ 10سالوں تک محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے اور دعوت دین کا کام بلا روک ٹوک عرب کے صحرا سے نکل کر قبائل عرب تک اور پھر پڑوسی ممالک تک پہنچانے میں مسلمان آزاد ہوگئے- اس کے ساتھ ساتھ مسلمان اس قابل ہوئے کہ عرب و بیرون عرب سماجی و تجارتی روابط کو تیزی سے بڑھاسکیں- ان سرگرمیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے کئی گناہ اضافہ ہوگیا اور بڑی بڑی شخصیات نے اسلام کو قبول کیا- آج کے حالات کے تناظر میں سیرت طیبہ (ﷺ) کا یہ پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر مواقع کے استعمال کی بجائے ہم مواقع کو ضائع کردیں تو پھر ہرکام ہوسکتا ہے لیکن امن کا قیام اور پُرامن بقائے باہمی کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں؛ لہٰذا غیرمسلم معاشروں میں رہنے والے مسلمان صلح حدیبیہ کے تناظر میں اپنی بقاء اور دین کی دعوت کے لیے بہتر راہیں تلاش کرسکتے ہیں-
یہ صلح حدیبیہ کے اثرات ہی تھے جن کے نتیجہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) قریش کی ایذا رسانیوں سے بے فکر ہوگئے اور اپنی پوری توجہ عالمی سطح پر دعوت اور مکالمہ کی طرف مرکوز فرمادی اور اُس وقت کے تمام ممتاز حکمرانوں کو ایسے سفیروں کے ذریعہ پیغامات ارسال کیے گئے جو اُن ممالک کے حالات، زبان، رسوم و رواج اور جغرافیہ سے کماحقہٗ آگاہی رکھتے تھے- اِن خطوط کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں اور غیرمسلم اقوام کے درمیان کسی نہ کسی شکل میں مکالمہ کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں اگرچہ کہ بعض بدبخت حکمرانوں نے آپ(ﷺ) کے پیغام کی توہین کی جسارت بھی کی لیکن کئی خوش نصیب حکمران ایسے تھے جنہوں نے آپ(ﷺ) کے پیغام کو دل و جاں سے قبول کر کے آپ(ﷺ) کی غلامی اختیار کی-اگرچہ کہ بعض ایسے بھی تھے جو مسلمان نہیں ہوئے لیکن اُن کا رویہ بہت نرمی اور دل جوئی پر مبنی تھا- اسی لیے آج کے عالمی حالات کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ہم اِس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سیرت طیبہ کی روشنی میں ہر جگہ مسلمانوں کو انفرادی سطح پر درج ذیل صورت حال در پیش ہے-
1. حضورنبی کریم (ﷺ) کا مشرکانہ وغیرمسلم تہذیب کے نمائندہ افراد و حکمرانوں سے انفرادی مکالمہ
2. اہلِ طائف کے سرداروں سے مکالمہ
3. ورقہ بن نوفل سے مکالمہ
4. نسطورہ راہب سے مکالمہ
5. نجران کے عیسائی علماء سے مکالمہ
6. یہودی ربیوں سے مکالمہ
جبکہ درجہ ذیل صورتوں میں قومی سطح پر آپ(ﷺ) نے تین قسم کے مکالمات فرمائے -
1. اہل مکہ سے مکالمہ
2. اہل حبشہ سے مکالمہ
3. اہل مدینہ سے مکالمہ
مندرجہ بالا مکالمات ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ حضورنبی کریم (ﷺ)کی اصل حیثیت ہادی اور داعی کی تھی اور دعوت کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ حالات پُر امن رہیں ورنہ دعوت کا کام جنگ و جدال کے ماحول میں ہرگز نہیں کیا جاسکتا-ضرب و حرب کی صورتحال میں کوئی فریق، مخالف فریق کے پیغام کو سُننے کا روادار نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجایا کرتا ہے- اس لیے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ممکن حد تک کشیدگی خود پیدا کرنے سے گریز کریں اور اگر فریقِ مخالف کی طرف سے صورت حال تشدّد کی طرف گامزن ہوجائےتوبہ فرمان خداوندی ’’وَالصُّلْحُ خَيْرٌ‘‘ [3] (اور صلح (حقیقت میں) اچھی چیز ہے) کے مصداق اُنہیں امن و امان کے ماحول کو یک طرفہ طور پر قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اسلام میں جہاد بذریعہ تلوار ضرورتاً ہے کہ اگر اِس کے ماسوا کوئی راہ باقی نہ بچے تو پھر اقدام اوردفاع دونوں صورتوں میں یا تو اسلامی حکومت اور یا پھر مظلوم و مقہور مسلمان اپنے جان و مال اور دین و ناموس کے تحفظ کے لیے بہر صورت کھڑے ہوسکتے ہیں- لیکن مسلمانوں کے لیے اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ وہ بہرصورت مکالمہ (Dialogue) کی اسلامی روایت کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ ہر سطح پر اس کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ غلط فہمیوں کا تدارک اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو دوسری اقوام تک پہنچانے میں مدد ملے- جتنا زیادہ مسلمان اپنے مؤقف کو مدلل اور مؤثر انداز میں دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیں گے اتنا ہی اسلام کی دعوت کو غیرمسلم اہلِ علم ودانش کے ذریعہ غیرمسلم عوام تک پہنچانے میں سہولت اور آسانی ہوگی-
مسلم انسٹیٹیوٹ اِس حوالہ سے تمام عالم اسلام کے شکریہ کا مستحق ہے کہ اس نے مکالمہ (Dialogue)کی روایت کو نہایت سنجیدہ، باوقار اور علمی و عالمگیر سطح پر فروغ دینے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے اس لئے وہ تمام عالمِ اسلام کے دیگر اداروں کے لیے مشعل راہ ہے- مسلم مفکرین سے لے کر مسلمانوں کے موجودہ قومی و عالمی حالات کے تناظر میں جس مستعدی سے مسلم انسٹیٹیوٹ نے اسلام اور اہل اسلام کے مؤقف کو مغرب کے علمی حلقوں میں پہنچانے کی کوشش کی ہےوہ پاکستان کے لیے تو سرمایہ افتخار ہے ہی لیکن پوری امّت مسلمہ کے لیے بھی نہایت مبارک اور مستحسن اقدام اس لیے ہے کہ فرضِ کفایہ کی صورت میں جس فریضہ کی ادائیگی کا بار مسلم انسٹیٹیوٹ نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہے اُس کی اہمیت سے اب تک مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں، تنظیمات، ادارے اور اہلِ علم و ثروت کما حقہٗ آگاہی بھی حاصل نہیں کرپائے چہ جائیکہ ان کو روبہ عمل لانے کی کوئی عملی کوشش کا آغاز ہو- اللہ تعالیٰ مکالمہ (Dialogue) کی اس روایت کو مزید فروغ دینے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی اِس متروک سنّت پر عمل پیرا ہونے کی تمام اسلامی ممالک اور اُن کے متعلقہ اداروں کو توفیق عطا فرمائےتاکہ امّت مسلمہ موجودہ درپیش چیلنجز سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہوسکے- آمین!
٭٭٭
[1](حم السجدہ:34)
[2]( محمد بن حبان ،السيرة النبوية وأخبار الخلفاء ، الكتب الثقافية ، بيروت، 1417 هـ ،لبنان،ج:1 ، ص:296)
[3](النساء:128)
مکالمہ (Dialogue)مذاہب کی تاریخ میں کوئی نیا تصور اور نظریہ نہیں ہے- انسانی تاریخ میں حضرت آدم و نوح () کے زمانے سے لے کر حضرت عیسیٰ کے دورِ مبارک تک مکالمہ (Dialogue) کی کوئی نہ کوئی شکل ہمیں ملتی ہے- بالخصوص جب انبیاء کرام () اپنے اقوام کی طرف سے پیش کردہ اعتراضات کے جوابات اور ان کے شکوک و شبہات کے رفع کرنے اور انہیں اپنی دعوت سے قریب کرنے کے لیے ان کی شرائط پر کوئی دلیل یا وضاحت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس سے ہمیں تاریخ کے صفحات میں انبیاء و رسل () اپنی اقوام کے سرکردہ اور سربر آوردہ افراد کے ساتھ مستقل گفتگو کے سلسلہ میں جڑے نظر آتے ہیں-حضرت ابرہیم علیہ السلام جو موجودہ آسمانی مذاہب کے جدِّ اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں ان کی زندگی میں کئی بار مکالمہ (Dialogue) پیش آیا اور انہوں نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے منصبِ نبوّت کے فریضہ کو اس طور پر نبھایا کہ آپ کا فریقِ مخالف ’’فبھت الذّی کفر‘‘کا مصداق بن گیا-
حضور نبی کریم (ﷺ) کی زندگی مبارک میں مکالمہ (Dialogue) کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر وحی فرماتے ہوئے صرف ’’یایہا الذین آمنو‘‘ ہی نہیں فرمایا بلکہ قرآن کریم نے بار بار ’’یایہاالنّاس‘‘ اور ’’یا اہل الکتاب‘‘ کَہ کر کُل انسانیت اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مکالمہ (Dialogue)کی بنیاد ڈالی- اسی لیے حضور پر نور (ﷺ) کی حیاتِ طیّبہ میں ہمیں بار بار یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں، مشرکوں اور ملحدوں کے ساتھ مکالمات ملتے ہیں- آپ(ﷺ) نے اہلِ کتاب کو اساسیات دین کی طرف دعوت دی، جبکہ غیراہلِ کتاب کو مشترکات کی طرف بلایا-
مکالمہ (Dialogue) کی یہی روایت اسلامی تاریخ کے ہر دور میں قائم رہی اور غیرمسلم ممالک اور غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ کسی نہ کسی سطح اور موضوع پر جاری و ساری رہی-
مکالمہ (Dialogue) جو اسلام کی طرف سے داعیان اسلام اپنے مدعویین کی ساتھ کرتے رہے اُس کی اساس اور بنیاد اسلام کے مابعد الطبیعاتی افکار، تہذیبی و ثقافتی اقدار اور عقائد وایمان پر مبنی رہا ہے- اسی طرح دنیا کی دیگر اقوام اور مذاہب مکالمہ (Dialogue) میں جس بنیاد پر کھڑے ہوکر نقد و جرح، ردوقبول اور تسلیم و تائید کرتے ہیں وہ بنیاد یا تو اُن کی مذہبی تعلیمات سے برآمد ہوتی ہے اور یا پھر اُن کے مابعد الطبیعاتی افکار اِس مباحثہ کے لیے بُنیاد فراہم کرتے ہیں- آج کی دنیا میں ’’اسلام اور مسیحیت کے مابین مکالمہ‘‘، ’’اسلام اور یہودیت کے مابین مکالمہ‘‘، ’’ابراہیمی ادیان کے درمیان مکالمہ‘‘، ’’مکالمہ بین المذاہب(Interfaith Dialogue)‘‘اور ’’تہذیبوں کے درمیان مکالمہ‘‘ کی اصطلاحات عام ہیں- ان تمام اقسام کے مکالمات کا مقصد روئے زمین پر عدم تشدّد، امن و آشتی اور پُر امن بقائے باہمی(Peaceful Coexistence)کو قائم کرنا ہے-
ضرورت و اہمیت:
مکالمہ (Dialogue)نظریاتی جنگ میں دلیل کی بنیاد پر اپنے مؤقف کو عقل اور نقل کی روشنی میں ثابت کرنے کا ایک بہت مؤثر پلیٹ فارم بن چکا ہے جس کے ذریعہ تمام اقوام اور تہذیبیں اپنے اپنے مؤقف کو اہلِ علم اور اصحاب دانش کے سامنے پیش کر کے پہلے خواص کے ذہن کو بدلنے اور اپنے مؤقف کی حمایت میں اُن کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر یہ خواص (Elite) رائے عامہ کو کسی مخصوص نقطۂ نظر پر ہموار کرتے ہیں- یہی نقطۂ نظر آج کی اصطلاح میں کسی قوم، مذہب اور تہذیب کا بیانیہ (Narrative)بن جاتا ہے- جس کی پُشت پر بالآخر حکومت اور ریاست کی قوّت نافذہ کھڑی ہوجاتی ہے اور پھر ’’العوام کل انعام‘‘ عامۃ الناس بھی غلط اور صحیح کو نظر انداز کرکے وہی گانا گاتے ہیں جو حکمرانوں کی زبان پر ہوتا ہے-
واضح رہے کہ گلوبلائزیشن (Globalization) کے اس دور میں بین المذاہب اور بین الاقوام مکالمہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے کسی حریف و رقیب کو اپنی دعوت کی طرف متوجّہ کرسکتے ہیں اور اُس کے سامنے باہم مکالمہ کی صورت میں ایسے موضوعات اور تصورات پر مکالمہ کر کے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں جن موضوعات کو عمومی زندگی میں یا تو مکمل طور پرنظرانداز کردیا جاتا ہے یا پھر اُس کی طرف بہت ہی سرسری انداز سے توجّہ دی جاتی ہے-مکالمہ اگرچہ کہ افراد کے مابین ہوتا ہے لیکن مکالمہ کرنے والے اگر کسی قوم اور تہذیب کے چوٹی کے دانشور اور اہلِ علم افراد پر مشتمل ہوں تو لامحالہ یہ مکالمہ مذاہب اور تہذیبوں کے مابین مکالمہ بن جایا کرتا ہے- مکالمہ میں جتنی زیادہ دلیل کی قوّت، موضوع کی سنجیدگی، گفتگو کی متانت، مقصد کی سچّائی، نقطۂ نظر کی وضاحت، زبان و بیان کی چاشنی، علم و عقل کا اجتماع اور مطالعہ و معلومات کی وسعت ہوگی اتنا ہی اِس مکالمہ کو زود اثر اور قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے-
لیکن !
اگر یہ مکالمہ خدانخواستہ مناظرہ میں بدل جائے تو پھر اِس مناظرہ کا جنگ و جدال میں بدل جانا اور اس جدال کا قتال کی شکل کو اختیار کرلینا قابل پیشن گوئی ہے جو کسی بھی صورت میں عالمی امن اور پُر امن بقائے باہمی کی کوششوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا بلکہ یہ رویّے اِس طرح کی سنجیدہ کوششوں کے لیے سمِ قاتل ہیں کیونکہ مکالمہ بین المذاہب اور بین التہذیب کا اصل مقصد جنگ و جدال کے لیے ذہن اور میدان کی تیاری نہیں بلکہ اِس کا مقصود حق اور سچ کو لوگو ں تک پہنچانا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جو مذہبی و قومی تعصّب اور جہالت و بے خبری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں-
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کون و مکاں کیلیے رسولِ رحمت ہیں- آپ(ﷺ) کی دعوت ہر زمانے، ہر خطّے اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے ہے -اسی لیے مسلمان اقوامِ عالم سے دور رہ کر یا کَٹ کر نہیں رہ سکتے- تمام انسانوں تک براہِ راست یا بالواسطہ اسلام کا پیغام پہنچانا ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے- وہ تمام اقوام جو مسلمانوں کی مخالف یا دشمن ہیں وہ بھی مسلمانوں کے مخاطب ہیں-اسی لیے اِن اقوام کے ساتھ محبت و مودت سے پیش آنا اور بااخلاق طریقے سے اِن تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے-لیکن اگر کسی قوم اور تہذیب کو اسلام اور مسلمانوں سے کسی غلط فہمی یا تعصّب کی وجہ سے عناد اور بغض پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ایسی قوم اور تہذیب کا اسلام سے قریب آنا اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے پیغام کو سمجھنا مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے تو ایسی اقوام اور تہذیبیں اس بات کی زیادہ مستحق ہیں کہ ہم اُن کے دل و دماغ کی تسخیر کی کوشش کریں اور اِس کیلیے مکالمہ کو بحیثیت ایک مؤثر ذریعہ کے اپنایا جائے- کیونکہ مستقل مکالمہ اور تعامل (Interaction) ہمارے مخاطبین کے دلوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے دشمنی کو کھرچ کرکے اُن کے دلوں کو پیغام حق کی قبولیت کے لیے تیار کردے گا-
’’وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘[1]
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا‘‘-
مکالمہ (Dialogue) کے لیے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی:
حضور نبی کریم (ﷺ) نے قیامت تک انسانوں کی مشکلات کے حل کو اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ بطورِ نمونۂ عمل(Role Model)کے پیش فرمایا ہے- آپ(ﷺ) کی حیات طیّبہ کو اپنی تفہیم اور تقلید کےلیے ہم دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں-
1- مکی دور 2-مدنی دور
مکی دور آپ(ﷺ) کی زندگی کا پہلا اور طویل دور ہے- جو کم و بیش 53برس پر محیط ہے- اسلام سے قبل کا عام مکی لوگوں کا دور جاہلی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے- کفر وشرک اور اوہام و خرافات پر مبنی اس معاشرت اور تمدن میں آپ(ﷺ) نے بھرپور سماجی زندگی گزاری- ہر وہ کام جو کسی بھی حوالہ سے مفید ہوسکتا تھا اُسے آپ (ﷺ) نے نہایت جوش و ولولہ سے سر انجام دیا- غریبوں کی مدد، بیواؤں کی دستگیری، مہمانوں کی ضیافت، تنگ دستوں کی امداد، مسافروں کی ضروریات کا خیال، پریشان حالوں کی معاونت، بے سہاراؤں کی مشکل کشائی کے ساتھ ساتھ حلف الفضول اور حرب الفجّار میں شرکت، حجر اسود کی تنصیب میں ثالثی اور شام و یمن کے تجارتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا، وہ معاملات ہیں جس نے آپ(ﷺ) کو سماجی سطح پر قبولیت عطا فرمائی اور پھر آپ (ﷺ)کی ذاتی زندگی کی صداقت و امانت نے اہلِ مکّہ میں سے متلاشیانِ حق کے دلوں میں آپ (ﷺ) کیلیے وسعت اور قبولیت کا مادّہ پیدا فرمایا-
لیکن دوسری طرف وہی معاشرہ جو آپ (ﷺ) کو صادق اور امین کا لقب دینے والا ہے انہوں نے اعلانِ نبوّت کے بعد مخالفت بلکہ عداوت کی ہر قسم اور شکل کو آپ (ﷺ) کے لیے روا رکھا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ استہزاء، تحقیر، تکذیب اور تعذیب کا ہر ہتھیار آپ(ﷺ) کے خلاف پوری شدّت کے ساتھ استعمال کیا - وہی مکّۃ المکرّمہ جس کے در و دیوار اور حجر و شجر بھی آپ(ﷺ) کے شناسا تھے، آپ(ﷺ) کیلیے یکثر اجنبی ہوگئے-دوست، دشمن بن گئے، عزیز، رقیب بن گئے، جاننے والوں نے پہچان سے انکار کردیا، بہی خواہوں نے ظلم و جور کی ہر شکل کو آپ (ﷺ) پر آزمایا، یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کا معاشرتی مقاطعہ (Social Boycott) کیا گیا- حالات کی تمام تر سنگینی کے باوجود آپ(ﷺ) نے جدال و قتال کی راہ اختیار کرنے سے آخری حد تک گریز فرمایا- اُس کی وجہ یہ تھی کہ دعوت اور مکالمہ (Dialogue) کے لیے درکار ماحول اِس بات کا متقاضی تھا کہ ممکن حد تک ماحول کو جنگ و جدال سے محفوظ رکھا جائے تاکہ فریقِ مخالف کو کسی نہ کسی بہانہ قریب لاکر کے مکالمہ کا عمل شروع کیا جاسکے-
تمام تر کوششوں کے باوجود ضد، بغض اور عناد کی چٹان اگر کسی بھی صورت میں ٹوٹنے نہ پائے تو تب بھی آقا کریم (ﷺ) کا اسوۂ حسنہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ جگہ ہی ترک کردی جائے ،خواہ عارضی طور پر ہو یا مستقل، جہاں دعوت کے امکانات بظاہر معدوم ہوجائیں اور ایسی نئی جگہ اور نئے دوست تلاش کیے جائیں جو اہلِ ایمان کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوں- مکّہ کی سرزمین پر جب مسلمانوں کیلیے ایمان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا اور ہر آنے والا دن گزرنے والے دن کے مقابلے میں سخت تر ہوتا چلا گیا تو ایسی صورت م?