سیرۃ کا لفظ سارِ یسیرُ سیرًا سے ہے جس کامعانی سفر کرنا، چلنا اور جانا ہے؛اس سے اس کااسم ’’السیرۃ‘‘ہے (اسی کو اردو میں ’’سیرت‘‘ لکھتے ہیں) اور یہ حالت، طرزِ زندگی، طریقہ اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کی کیفیت کے معانی میں ہے-[1]لفظ سیرت واحد کے طور پر اور بعض دفعہ اپنی جمع سِیَر کے ساتھ اہم شخصیات کی سوانح حیات اور اہم تاریخی واقعات کے بیان کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے-لفظ سیرت اب اصطلاحاً سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کی مبارک زندگی کے جملہ حالات بیان کیلیے استعمال ہوتا ہے جبکہ کسی اور منتخب شخصیت کے حالات کیلیے لفظ سیرت کا استعمال قریباً متروک ہو چکا ہے- اب جہاں بھی ’’سیرت‘‘ کا لفظ استعمال ہوگا چاہے اس کے ساتھ ’’رسول، نبی، پیغمبر یا مصطفےٰ ‘‘کے الفاط نہ بھی استعمال کیے جائیں تو ہر قاری سمجھ جاتا ہے کہ اس سے مراد حضور نبی کریم (ﷺ)کی سیرت مبارک ہی ہے- بلکہ بعض دفعہ لفظ سیرت کو کتاب کے مصنف کی طرف مضاف کر کے بھی یہی اصطلاحی معنی مراد لیے جاتے ہیں جیسے سیرت ابن ہشام کہ اس کا مطلب ابن ہشام کے حالات زندگی نہیں بلکہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)کے حالات ہیں جو کتاب کے مصنف ابن ہشام نے جمع کیے ہیں-
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق وخصائلِ کریمانہ کا تذکرہ فرمایا ہے- کائنات کی تخلیق سے پہلے روزِ الست میں بھی اللہ پاک اپنے محبوب کریم (ﷺ) کے ذکر کو عام فرماتا رہا جیساکہ تمام انبیاء کرام (علیھم السلام) سے ایک عہد لیا گیاتھا جس کاذکر قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیاہے :
’’وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ‘‘[2]
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘-
اس کے بعد انبیاء کرام (علیھم السلام) اپنے ہردور میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم مبارک کی تعمیل کرتے رہے اور آپ (ﷺ) کی تشریف آوری کی خبر اور اوصافِ حمید ہ کاتذکرہ اپنی قوم سے فرماتے رہے جیساکہ روایت میں ہے :
’’عن علي بن أبي طالب قال لم يبعث الله عزوجل نبيًّا، آدمَ فمن بعدَه إلا أخذ عليه العهدَ في محمد: لئن بعث وهو حيّ ليؤمنن به ولينصرَنّه ويأمرُه فيأخذ العهدَ على قومه‘‘ [3]
’’حضرت علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر بعد تک جس نبی علیہ السلام کو بھی بھیجا اس سے عہد لیا کہ اگر اس کی حیات میں حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) مبعوث ہوں گے تو وہ ضرور بہ ضرور ان پر ایمان لائے گااور ضرور بضرور ان کی مدد کرے گا اور پھر وہ نبی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی قوم سے یہ عہد لیتا تھا‘‘-
سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے تو الفاظ مبارک بھی قرآن پاک میں مذکور ہیں :
’’وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ‘‘ [4]
’’اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا! اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس (عظیم الشان) رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہے‘‘-
انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم) کی تلقین و تبلیغ کا نتیجہ تھا کہ ہر دور میں حضور رسالت مآب (ﷺ)کی سیرت و اوصافِ حمیدہ کا خوب چرچہ رہا،اس کا اندازہ ان روایات سے بھی ہوتاہے :
امام جلال الدین سیوطیؒ ’’سورۃ الدخان:37‘‘ کی تفسیر میں رقم فرمایا ہے:
’’تبع یمانی حضور نبی کریم (ﷺ) کی تشریف آوری سے تقریباً کئی سو سال قبل فوت ہوا- جب اس نے مدینہ طیبہ (جس کا نام اس وقت یثرب تھا) پر چڑھائی کی اور اسے برباد کرنے کا ارادہ کیا تو یہودی علماء نے اسے بتایا کہ یہ شہر نبی آخر الزماں (ﷺ) کی جائے ہجرت ہے جن کا نام احمد ہو گا- انہوں نے تبع کو یہ بتایا کہ تبع اس کا زمانہ نہیں پائے گا تو تبع نے اپنے قوم کو کہا:تبع نے اوس اور خزرج سے کہا! اسی شہر میں رہ جاؤ جب وہ تمہارے درمیان ظاہر ہو تو اسے پناہ دینا اور اس کی تصدیق کرنا- اگر تمہاری موجودگی میں آپ (ﷺ) کی تشریف آوری نہ ہو تو اپنی اولادوں کو اس کے بارے میں وصیت کر جانا‘‘-
پھر اس نے حضور رسالت مآب (ﷺ)کی محبت میں ایک قصید ہ لکھا وہ قصیدہ بطور میراث اہل مدینہ کے پاس رہا اور اس کی روایت نسل در نسل چلتی رہی- ابو ایوب خالد بن زید الانصاری(رضی اللہ عنہ)کو یہ قصیدہ حفظ تھا جن کے ہاں حضور نبی کریم (ﷺ) ہجرت کے بعد قیام فرما ہوئے-قصیدے میں سے صرف دو اشعارکو قلم بندکرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
حُدِثْتْ اَنَّ رَسُوْلَ الْمَلِيْكِ |
’’مجھے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا رسول(ﷺ) حرم کی سر زمین میں حق کے ساتھ ظاہر ہوگا‘‘-
وَ لَو مدّ دهري إِلَى دهره |
’’اگر میرا زمانہ آپ (ﷺ) کے زمانہ مبارک تک طویل ہوتا تو مَیں ان کا وزیر اور ان کا چچا زاد ہوں گا( یعنی مددگار بنتا)‘‘-
مذکورہ روایات تو قبل از ولادت رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت پاک کے متعلق تھیں- رسول اللہ (ﷺ)کی حیات مبارکہ میں تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا تو معمول مبارک ہی یہی تھا کہ وہ ہر وقت جمال محمد (ﷺ) و کمالاتِ محمد مصطفٰے (ﷺ) سے اپنی زبانوں کو تر رکھتے تھے- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے دور مبارک سے لے کر آج تک سیرت مبارک پہ کئی کتب مرقوم ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہے گا-یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگو لیوتھ (S. Margoluth) نے1905ء میں نبی مکرم، شفیع معظم سیدنا حضرت محمدمصطفٰے (ﷺ)کے حالات پر مبنی ایک کتاب ’’Muhammad and The First Rise of Islam‘‘ میں اعتراف کیا کہ :
’’حضرت محمد(ﷺ) کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف ہے‘‘-
حضور رسالت مآب (ﷺ) کی سیرت کی جامعیت و اکملیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ دنیا کے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی استطاعت و بساط کے مطابق فیض یاب ہوسکتے ہیں -
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے |
اللہ کی قدرت اور نبوت محمدی(ﷺ) کا اعجاز دیکھیں کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی نبوت کے 23سال کے مختصر عرصہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پر ان سارے حالات و کیفیات کا گزر ہوگیا جن سے قیامت تک کسی انسان کا سامنا ہوسکتا ہے- غربت و امیری، خوشی و مسرت، غم و اندوہ، سفر و حضر، تجارت و مزدوری، شادی و غمی ---غرض وہ کون سی حالت ہے جو آپ(ﷺ) پر نہ آئی ہو اور اس سلسلے میں آپ(ﷺ) کا سنہرا نمونہ نہ ملتا ہو- آپ(ﷺ) والد بھی بنے اور شوہر بھی، آپ (ﷺ) نے رشتہ داریاں بھی کیں، آپ (ﷺ) نے معاہدے کیے، آپ (ﷺ)کو منافقین سے بھی واسطہ پڑا اور آپ (ﷺ)کو ایسے وفادار دوست بھی ملے جنہوں نے مہر و وفا کے بے نظیر نقوش صفحہ تاریخ پر ثبت کی-
ویسے تو ہر اس شخص کیلیے سیرت رسول ِ عربی (ﷺ) کا مطالعہ از حد ضروری ہے جو دین اسلام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہے- البتہ مسلمانوں کے لیے سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے جبکہ غیر مسلموں کیلیے سیرت کے مطالعہ کی نوعیت اس سے کچھ مختلف ہو سکتی ہے-
اہل اسلام کے حوالے سے مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت کے نکات حسب ذیل ہیں:
v اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سید ی رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کو لازم اور فرض قرار دیا ہے- اس لحاظ سے سیرت نبوی(ﷺ) کا مطالعہ و پہچان نہایت ضروری ہے-
v اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دیا ہے اور تما م مسلمانوں کو آپ (ﷺ) کے اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے- لہٰذا سیرت نبوی (ﷺ) کو جانے بغیر آپ (ﷺ)کے اسوہ حسنہ پر عمل ممکن نہیں-
v دین کی تبلیغ کے لیے بھی رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت مبارک کامطالعہ انتہائی ضروری ہے تاکہ مبلغ کو علم ہو کہ کس طرح تاجدارِ کائنات ،سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے عرب کی جہالت کو ختم فرما کر ان کو نظم وضبط کاپابندبنایا -
v قرآن پاک کی فہم اورا س پہ عمل پیرا ہونا سیرت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ تاجدارِ انبیاء (ﷺ) ہی قرآن پاک کی عملی و کامل تفسیر ہیں -
v ہمیں سیرت مبارک کے اس پہلو کو بھی سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرم (ﷺ) نے اپنے عہد مبارک میں کس طرح تربیت فرمائی ؟ معاشرے کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیسے کیا؟ حکومت کے قیام کے سلسلے میں طریقۂ نبوی (ﷺ)کیا تھا؟ داخلی و خارجی دشمنوں سے کس طرح نمٹاگیا؟ اس چیز کے بھی فہم و ادراک کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اندازِ تربیت تھا جس کی بدولت مختصر سے عرصے میں چرواہے اورعلم سے ناآشنا لوگ عظیم سکالر اور رہبرورہنما بن گئے-
دراصل رسول اللہ(ﷺ) کی سیرت مبارک کو صرف ظاہری احکام تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ’’او امر و نواہی‘‘ کو ہم تک پہنچایا ہے اسی طرح اللہ عزوجل نے ان کیفیات کو بھی ہم تک بحفاظت پہنچایا ہے- نورِ مجسم (ﷺ) کی زندگی مبارک پر ان کیفیات (تعلق مع اللہ و قلبی ذکر توکل و یقین، عاجزی ومخلوق پہ شفقت، زہد و استغناء، عزم و اسقلال ،جدو جہد و شوق ِ شہادت) کا رنگ اس طرح چھایا ہوا تھا کہ اگر سیرت نگار یا سیرت کا مطالعہ کرنے والے نے ان کیفیات کو نظر انداز کردیا تو سیرت کے صحیح خد و خال اور اس کی روح سامنے نہیں آسکتی اوراصل مقصود بھی پورا نہیں ہو سکتا - اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ سیرت رسول ِ عربی (ﷺ) کو مکمل طور پہ سمجھا جائے اوراس پہ عمل پیرا ہونے کی حتی المقدور کوشش کی جائے –کیونکہ بزبانِ حکیم الامت:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی |
٭٭٭
[1](المنجد،باب: سیر، یسیر)
[2](آلِ عمران:81)
[3](جامع البيان في تأويل القرآن ،جلد : 3 ، ص: 330)
[4](الصف:6)
[5]( تفسیر درمنثور،زیرِ آیت:الدخان:37)