سیرت النبی (ﷺ) کا عصر حاضر میں مطالعہ- زاویہ نظر:
اس میں شک نہیں کہ سیرتِ پاک پہ بہت عظیم کام ہوا ہے اور اس اُمت کےمختلف علماء نے ہمیشہ سیرت النبی (ﷺ) پہ اپنے اپنے اعتبار سےمختلف زبانوں میں مختلف منہج تشکیل دیئے- خاص طورپہ جس وقت مسلمان کالونائزڈ (colonized) ہوئے اور یہ خطہ ویسٹرن کالونیز کا ایک حصہ بن گیا تو ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلام اور مسلمانوں کی حیات اور بقاء کا تھا جو کہ ہماری حریت و آزادی تھی- اس لیے کہ ہمیں پہلے سپین میں کالونائز کیا گیا تو ہم پہلے پہل شاید زیادہ فکر مند نہیں ہوئے تھے جس کی کئی وجوہات تھیں- اس کی ایک وجہ غالباً ہمارا تاتاری تجربہ تھا کہ کالونائز ہو جانے کے باوجود بھی ہمارے اندر بقاء کی قوت ہے- لیکن بعد ازاں جو سپین میں تجربہ ہوا وہ تاتاری تجربہ سے بہت مختلف اور بھیانک تھا- اس نے مسلمانوں کوبہت زیادہ فکر مند کردیا- سترہویں صدی عیسوی کے بعد جیسے ہی ویسٹرن کالونیئل پاورز نے مختلف اسلامی خطوں میں پھیلنا شروع کیا تو تقریباً نارتھ افریقہ، کسی حد تک مڈل ایسٹ، ساؤتھ ایشیا اور بڑے بڑے خطوں پہ پھیلی ہوئی مسلم اُمہ تقریباً کالونائزڈ ہوتی چلی گئی- مفتوحہ علاقوں میں مسلمانوں میں یہ ڈرتھا کہ ہمارے ساتھ پھر سپین کی تاریخ نہ دہرائی جائے- جس کے لئے مسلمانوں نےروایتی طریقہ کار کو چھوڑ کر ایک غیر روایتی طریق سے اپنی اس وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سیرت النبی (ﷺ) کا مطالعہ کیا اور لوگوں کو اس بات پہ اُکسایا کہ جب تک مسلمان معاشی، سماجی اور فکری طورپہ اپنی آزادی کو یقینی نہیں بناتے تب تک اسلام مسلمانوں کے اندرپوری طرح اپنی روح کے ساتھ نہیں اتر سکتا- اس سے مطالعۂ سیرت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا- اس کے بعد ہمارے ہاں سیرت پہ تقریباً جتنی بڑی بڑی کتب لکھی گئی ہیں ان کا بنیادی فوکس یہی رہا ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی حیاتِ نو کا حصول یا اس کا آغاز یا اس کو کسی نئے ارتقاء کی جانب کیسے لے کر جا سکتے ہیں؟ اس لیے پچھلی ڈیڑھ صدی سے دنیا بھر میں جو سیرتِ پاک پہ کام ہو رہا ہے یہی اس سب کا بنیادی مطمع نظر رہاہے-
حضور کریم (ﷺ) سےنسبت کی بنیاد:
آج کا موضوع بھی چونکہ ریاست کے متعلق ہے تو ابتدا میں یہ کہنا چاہوں گا ایک مسلمان کے طور پہ ہمارے لیے یہ یقین رکھنا ضروری ہےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ امور ریاست ہوں، معیشت ہوں ، معاشرت ہوں ، عدل و قضا کے مسائل اور دیگر ہمارے عمرانی و سماجی مسائل ہوں ان کیلئے ہم یقیناً سیرت النبی (ﷺ) ہی سے رہنمائی لیتے ہیں- لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارا تعلق حضور نبی کریم خاتم النبیین (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے محض ایک سیاسی قائد اور سیاسی پیروکار کا ہے- ہمیں سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم اسلام کے محض سیاسی پیروکارنہیں ہیں اور ہمارا اسلام کے ساتھ تعلق محض فکر سیاست و ریاست کی بنیاد پر نہیں ہے- ہمارا تعلق اس بنیاد سےکہیں زیادہ ماورا ہے اور اُس کیلئے حضور نبی کریم خاتم النبیین (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے ہمارا تعلق اُن کی شرف رسالت اور ختم نبوت کی بنیاد پہ ہے- یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایمان کی اولین بنیاد یہ کلمہ مبارک ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی بھی تعلق سے پہلے حضور نبی کریم (ﷺ) سے اپنے روحانی تعلق کو قائم کرتے ہیں:
’’اَشْھَدُ اَنْ الَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘
اس مقدمہ پہ طویل مباحث متقدمین، متوسطین، متاخرین اور تمام طبقات کے علماء اور آئمہ کے ہاں آپ کو مل جائیں گی کہ وہ مومنین ’’سابقون الاَوّلون‘‘ اور وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جنہوں نے حضور خاتم النبیین (ﷺ) سے اپنا تعلق ریاست کے آغاز سے قبل قائم کیا تھا، اُن کا اسلام اور پیغمبرِ اسلام (ﷺ) سے تعلق کچھ اور تھا- اُن کی نظر میں نبی پاک (ﷺ) کی حیثیت اور رتبہ صرف بستی کے سردار یا لشکر کے سالار یا ریاست کے سربراہ سے بہت بڑھ کے تھا- ان مذکورہ پیمانوں میں بھی ’’سابقون الاولون‘‘ کی اطاعت و اتباع کی مثال نہیں ڈھونڈی جا سکتی، لیکن آقا پاک (ﷺ) سے ان کا ظاہری و باطنی تعلق ان چیزوں سے بہت بڑھ کے تھا- میں اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، البتہ اقبال کی زبان سے بیان کر دیتا ہوں کہ اقبال کے نزدیک ’’سابقون الاولون‘‘ کا آقا پاک (ﷺ) سے کیا تعلق تھا:
معنی ءِ حرفم کنی تحقیق اگر |
قوتِ قلب و جگر گردد نبیؑ |
اگر معیارِ محبت آقا پاک (ﷺ) کا روحانی فضل و کمال ہوگا تو انسان نہ صرف دولت و سلطنت و خلافت کے اہل ہو جاتا ہے بلکہ اس کا شمار مقربین و اولیاء میں ہوگا- اس کا وجود نُورِ مصطفوی (ﷺ) کی برکات سے جگمگانے لگے گا، ایسے شخص کا قول و فعل قابلِ پیروی و اطاعت بن جاتا ہے- بقولِ سیدنا حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) کے ’’خُلِقتَ مُبرأً منْ كلّ عيبٍ‘‘[1]یعنی ’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر عیب سے پاک پیدا فرمایا ہے ‘‘- رسول اللہ (ﷺ) کے فیضِ باطنی اور توجۂ روحانی سے بندۂ مومن کے وجود کو اللہ تعالیٰ امان بخش دیتا ہے- اِس لئے آقا پاک (ﷺ) سے ہمارے تعلق کی اصل بنیاد روحانی فیض و فضل ہے ، باقی درجے (جیسا کہ جاہ و حشمت وغیرہم) سب کچھ اس کے بعد آتا ہے-
اس گزارش اور یاد دہانی کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس کا مکمل ضابطہ ہمیں سیرت النبی (ﷺ) سے عطا نہ ہوا ہو- چاہے معیشت و اقتصادیات ہے ، سیاست و ریاست ہے، قضا و عدالت ہے، سماج و معاشرت ہے ، حرب و ضرب ہے، یا علم و فکر کے دیگر شعبے ہیں ہر ایک پہلوئے زندگی میں ہمارا رول ماڈل اور ہماری راہنمائی کا اولین ذریعہ سیرتِ پاک ہے- مگر سیرتِ پاک اور صاحبِ سیرت (ﷺ) سے ہمارا تعلق محض اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت بلند و بالا اور اعلیٰ ہے-
ریاست کا قیام اور اسلام کے مقاصد کی تکمیل:
’’ریاست‘‘ اسلام کا صرف مقصد ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ اور ایک ایسا راستہ ہے جس کی مسلمانوں کو رہنمائی خود ربِ ذوالجلال نے اپنی آخری کتاب میں فرمائی ہے-
اہلِ حق کی ریاست کاقیام حکم الٰہی:
ریاست ایک ایسا ضروری راستہ ہے جس کے بغیر مسلمانوں میں اسلام اپنی پوری صورت و روح کے ساتھ جا گزیں نہیں ہوسکتا- اسلام کونافذالعمل بنانے کےلئے ریاست کا قیام حکم الٰہی، سنت نبوی (ﷺ) اورہماری ذمہ داری ہے- اللہ تعالیٰ نےاس بات کوقرآنِ مجیدمیں کئی مقامات پہ بیان فرمایا ہے جس کا تعلق معاشرت کے عمرانی فلسفے سے بھی ہے- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘ [2]
’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں‘‘-
رسالت ایک روحانی شرف اور منصبِ روحانی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے منتخب شدہ برگزیدہ بندے کو وحی کے ذریعے عطا فرما کر صحائف اور اپنے احکامات کے ساتھ زمین کی طرف بھیجتا ہے تاکہ وہ ان احکامات کو عملی طور پر مؤمنین اور انسانوں کے مابین قائم کرے- جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں میزان کا حکم فرمایا-میزان کا تعلق عدل سے ہے اورعدل کا تعلق عدالت سے- عدالت انصاف کرتی ہے اور عدالت کا تعلق اختیار سے ہوتا ہے کہ عدالت کیسے عدالت بنتی ہے-
مثلاً اگر کوئی شخص کسی بھی جگہ کھڑا ہو کر اعلان کرے کہ میں مُنصف ہوں- آؤ مجھ سے اپنے فیصلے کرواؤ تو یہ سوال ہوں گے کہ آپ کو یہاں مُنصف کس نے مقرر کیا؟ آپ اپنے اوپر کس کو جواب دہ ہیں؟ آپ کے قانون کی اساس اور بنیاد کیا ہےجس کی بنیاد پہ آپ فیصلہ کر رہے ہیں؟
اس لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیھم السلام) کے ذریعے عامتہ الناس میں اس انصاف اور عدل کو قائم فرمایا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ حضور خاتم النبیین (ﷺ) سے قبل بھی جو انبیاء کرام (علیھم السلام) آئے ان میں فقط درسِ اخلاقیات ہی مروج نہ تھا- گوکہ بعض شریعتوں میں صرف اخلاق کی تعلیم تھی لیکن اس کے برعکس بعض شریعتوں میں جیسے حضرت موسٰی، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شریعتوں میں انہوں نے ریاست، سیاست اور عدل کا ایک پورا نظام قائم کیا– جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد(علیہ السلام)کے متعلق فرمایا:
’’یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ‘‘[3]
’’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لیے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے‘‘-
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد(علیہ السلام) کو خلافت و حکومت عطا کرنے کا جو فلسفہ بیان فرمایا وہ اس نظامِ عدل کو قائم کرنا ہے جو منشاء الٰہی ہے کہ میری مخلوق کے درمیان عدل ہو- عدل منشاءِ الٰہی ومقصدِاسلام ہے اوراس مقصدکےحصول کاذریعہ ریاست ہے جو قضا و عدالت قائم کرتی ہے-
اللہ تعالیٰ نے اسی آیت کے دوسرے مقام پہ حضرت داؤد(علیہ السلام)کواس بات کا پابند بنایا کہ آپ عدل و انصاف کریں گے مگراس تدبیر اور حکمت کے ساتھ نہیں جو ذاتی خواہشات یا ذاتی پسند و نا پسند سے طلوع ہو- بلکہ اس نظام کے ساتھ جو ہم نے آپ کو عطا فرمایا ہے اس کی اطاعت و اتباع کرتے ہوئےآپ نظامِ عدل کو قائم کریں- باالفاظ دیگر عدل و انصاف کا پیمانہ ہماری عطاکردہ شریعت کے اصول و حدود ہوں گے-
اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ النور،آیت:55‘‘میں بھی اسی فلسفے کو بیان فرمایا ہے :
’’وَ عَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْفٰـسِقُوْنَ‘‘[4]
’’اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی اَمانتِ اِقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لیے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے‘‘-
یعنی وہ لوگ جو ایمان میں مکمل ہیں اور عمل صالح اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ضروران کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا[5] جس طرح سے ان سے قبل بھی لوگوں کو زمین کے اندر اختیار دیا-پھر دین کے ساتھ اس خلافت کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دیکھوگے جب صالحین اور اہل ایمان کی خلافت قائم ہوگی تو دین تقویت پائےگا-
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘[6]
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں‘‘-
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ الفتح‘‘ میں آقا کریم (ﷺ) کے مقاصدِ بعثت اور آپ (ﷺ) کے اوصاف و کمالات بیان فرمائے ہیں :
’’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ‘‘[7]
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے‘‘-
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام منشائے الٰہی ہے اور مقاصدِ دین کے حصول کے ضروری تقاضوں میں سے ایک انتہائی اہم تقاضا و فریضہ ہے-
اسلام کی اساس میں ریاست کا قیام :
قرآنِ مجید کی روشنی میں پہلی بات تو یہ معلوم ہوگئی کہ منشاءِ ایزدی زمین پہ عدل وانصاف کا قیام ہےاور انصاف کے قیام کاذریعہ اللہ تعالیٰ نےانبیاءکرام(علیھم السلام) اور حضور خاتم الانبیاء (ﷺ)کی بعثت مبارک سےیہ واضح کیا کہ اس مقصد کیلیے غلبہ دین کی ضرورت ہے تاکہ ظلم مٹ جائے اور اللہ کا دین جو انصاف،خیراور بھلائی کا دین ہے اس کا نظام قائم ہوجائے- اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلیے جو نظامِ عدل قائم فرمایا اس نظامِ عدل کو انسانوں کے مابین منصفانہ طور پہ ترسیل کیا جائے اور اعلیٰ و ادنیٰ ، امیر و غریب طبقات کی بنیاد پہ جو لوگوں میں ظلم و ستم، جبرواکراہ اور استحصال ہے وہ ختم ہوجائے- اِس لئے قیامِ ریاست ’’Essential‘‘ یعنی بنیادی ضرورت ہے-
اسلام، قوت و شوکت کا مظہر: اقبالیاتی نقطۂ نظر
نظامِ اسلامی اور روح دین کے نفاذ اور اس کے حصول کیلئے مسلمان کے پاس سوائے اس کے چارہ نہیں ہے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام وجود میں لائے جِس کی بنیاد رنگ و نسل یا نام و نسب، زبانی و لسانی اور جغرافیائی عصبیتوں کی بجائے ’’کلمۂ طیبہ‘‘ پہ ہو-
تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر استوار |
خلافت یا ریاست کا مقصد بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور جو پاکستان کے حصول کا نظریہ اقبالؒ کے مدِنظر تھا وہ بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کے ’’سوشو-اکنامک‘‘مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ اسلام کی مکمل تجربہ گاہ قائم کی جائے-جس کے لئے بقول اقبال ہمیں سیاسی اور معاشی آزادی حاصل کرنی ضروری ہے جو بغیر ریاست کےناممکن ہے اور آزاد ریاست کے بغیر سیاسی اور معاشی آزادی بھی کسی کام کی نہیں- جبکہ ریاست کا سیاسی اورمعاشی آزادی کے بغیر قائم رہنا غلاموں کی ایک قوم کا زندہ رہنا ہے- (اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اقبال اور قائد کا خواب ’’سیاسی معاشی اور فکری آزادی‘‘ ابھی ہمیں حاصل کرنا ہے جس کیلئے ایک جہدِ مسلسل اور انتھک محنت و ریاضت کی ضرورت ہے )
اقبال نے اس بات پہ بھی زوردیا ہے کہ اسلام قوت اور شوکت کا درس دیتا ہے، یہ رہبانیت اور زندگی کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ پیدا نہیں کرتا- بلکہ جب مرزا قادیانی نے جہاد کے خلاف فتویٰ دیا تو حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے مرزائیت کو ردّ کرتے ہوئے اسے ’’برگِ حشیش‘‘ قرار دیا:
وہ نبوت ہےمسلماں کے لیے برگِ حشیش |
اقبال کے نزدیک سلطنت و ریاست قوت وشوکت کی مظہر ہے اور شوکت و قوت کے بغیر کوئی بھی قوم اپنا کلچر، زبان ، آدابِ زندگی اور آئین و قانون نافذ نہیں کر سکتی-
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد |
اقبال کے نزدیک ’’چوبِ کلیمؑ اور شمشیرِ محمد(ﷺ)‘‘ کے بغیر اسلام کے مقاصد کا حصول ناممکن ہے-
امام ابنِ ہشام نے سیرت میں اسلام کے اوائل کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کے مطالعہ سے پہلے ایک چیز ذہن نشین کر لیں کہ یہ تب کی بات ہے کہ ابھی ریاست و معسکر تو دور ابھی اس کے کوئی خد و خال بھی سامنے نہیں تھے- مکہ کے چند نوجوانوں، چند غلاموں، چند بچوں اور چند خواتین پہ مشتمل مؤمنین کاایک چھوٹا سا گروہ ہے جو حضورخاتم النبیین (ﷺ) کی رسالت پہ ایمان رکھتے ہیں اور شاید مکہ سے باہر اسلام کا ابھی پوری طرح تعارف بھی نہیں ہوا تھا- اس لئے اسلام کے مزاج کی شناخت کریں کہ اسلام اپنے اوائل ہی میں ہمیں کس جانب رغبت دلاتا ہے- امام ابنِ ہشام لکھتے ہیں کہ :
’’چونکہ حضرت ابوطالب خود بھی سردارانِ قریش میں سے تھے اور خاندانِ بنوہاشم کے سربراہ تھے توقریش کے بڑے بڑے سردار حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بھتیجے اور ہمارے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ کوئی حل نکالا جائے- حضرت ابو طالب نے آقا کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بھتیجے! یہ تیری قوم کے سردار تم سے کچھ لینے اور تمہیں کچھ دینے آئے ہیں- حضور نبی کریم (ﷺ) نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
’’نَعَمْ، كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُوْنِيْهَا تَمْلِكُوْنَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِيْنُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ‘‘ [8]
’’(مجھے ان سے اور کچھ نہیں چاہئے البتہ) مَیں ان سے وہ ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں جس کے کہنے کے بعد سارا عرب ان کے سامنے جھک جائے گا اور اس (ایک کلمہ) کی وجہ سے اہل عجم بھی انہیں جزیہ بھیجا کریں گے‘‘-
یہ وہ وقت ہے جب فقط چند عشاق سرکار دو عالم (ﷺ) کے اردگرد ہیں- ابھی کفارِ مکہ کے مظالم اور تاریخ کا وہ سلسلہ مکمل طور پر شروع نہیں ہوا- ابھی ہجرت کا دور دور تک آنے والے برسوں میں کوئی امکان نہیں ہے، ابھی تک دعوتِ اسلام مکہ سے بہت زیادہ باہر نہیں نکلی ، ابھی قرآن پاک میں احکامِ جہاد بھی نازل نہیں ہوئے- یہاں سرکار دو عالم (ﷺ) فرما رہے ہیں کہ اگر یہ لوگ کلمے کا اقرار کر لیں تو عرب بھی ان کا ہو جائے گا اورعجم بھی ان کے قدموں میں آ گرے گا- ابوجہل بھی سردارانِ قریش کے ساتھ تھا، تو وہ چالاکی سے کہنے لگا کہ اے محمد(ﷺ)! آپ کی اور آپ کے والد کی قسم اس مسئلہ کے حل کے لئے ہم ایک کی بجائے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں آپ فقط بتائیں کہ کس بات پہ عرب وعجم ہمارا ہوگا اور آپ کی اور ہماری صلح ہوگی- آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’لَا إلَهَ إلَّا اللهُ، وَتَخْلَعُوْنَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ‘‘[9]
’’تم کہو کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جن بتوں کی تم پرستش کرتے ہو ان کی پرستش ترک کر کے ایک اللہ کی عبادت کیا کرو‘‘-
مکی سرداروں نے ہاتھوں پہ ہاتھ مارا اور کہنے لگے کہ اسی اصول سے تو ہمارا اختلاف ہے یعنی آپ ہم سے ہمارے معبود چھینناچاہتےہیں؟‘‘-
اس حدیث پاک سے کئی اہم نکات مثلاً دعوت و تبلیغ، کلمہ طیبہ کی طاقت، یقین کی قوت، حکمت، وعظِ حسنہ اور دیگر کئی پہلو بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن یہاں پہ یہ پہلو زیربحث ہے کہ ابھی ریاست و افواج بھی نہیں ہیں لیکن آقا کریم (ﷺ) فرما رہے ہیں کہ اگر اس کلمہ کا اعتراف اور اقرارکر لو گے تو تم عرب بھی فتح کرلو گے اور عجم بھی-کیونکہ اسلام کا یہ کلمہ ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ اپنی اصل میں قوت اور شوکت ہی کا اظہار ہے-
امام ابو نعيم الأصبہانیؒ ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں امیر المؤمنین سیدنا ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے جو سفارت قیصرِ روم کے دربار میں بھیجی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’جب صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) قیصرِ روم کے دربار میں داخل ہوئے تو انہوں نے اسے اپنے سامنے تخت پہ بیٹھا دیکھا تو انہوں نے تو یک زبان ہو کرپڑھا ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ تو تختِ روم لرز اٹھا- قیصرِ روم نے کہا کہ تم نے یہ کلمہ کیوں پڑھا تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے فرمایا اس لیے کہ ہماری قوت اس کلمہ سے ہے ‘‘-[10]
حکیم الامت علامہ اقبالؒ یہی فرماتے ہیں کہ:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی |
لا قیصر و لا کسریٰ تو مسلمانوں کو ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ نے سکھایا تھا لیکن افسوس! کہ آج امت نے توحید کو فلسفۂ کلام کا جھگڑا بنا کے رکھ دیا-
چوں می گویم مسلمانم بلرزم |
’’جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو میرا وجود لرز اٹھتا ہے اس لیے کہ مَیں ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ کی مشکلات (یعنی عملی ذمہ داریوں) سے واقف ہوں ‘‘-
ریاست و مذہب اور مادہ و روح کی بحث:
دنیا میں خاص طور پہ اسلام کے متعلق جو جدید بحث ہے اس میں ہمارے ہاں بھی اکثر ہمارے مذہب بیزار لبرلز اور متاثرینِ مغرب ہمیشہ ’’Separation of Church and State‘‘کے جواز پر دلائل پیش کرتے ہیں، یہ اصطلاح خاص اس دنیا کیلئے ہے جن کامذہب صرف اخلاقی تعلیمات تک تھا اور اس کے مذہبی پیشواؤں کے پاس سوسائٹی کے ہر مسئلے کا حل موجود نہیں تھا- ظاہر ہے کہ اسے اسلام اور دنیائے اسلام پہ منطبق کرنا یا تو کم علمی کہلائے گا یا تعصب-
پاکستان کے وجود کے جواز کا پہلا ڈاکیومنٹ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا خطبہ الہٰ آباد ہے- جس میں علامہ اقبالؒ نے دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی بحث شروع کی ہے فلسفے کی زبان میں اس کو مابعد الطبیعات(metaphysics) کی بحث بھی کہا جاسکتا ہے- کیونکہ وہ روح اور مادہ کی بات کرتے ہیں کہ اسلام میں جو مادہ اور روح کا تصور ہے اس میں ثنویت نہیں بلکہ وحدت ہے- جس طرح عیسائی مبلغین نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام)کی تعلیمات کی تشریحات میں مادہ و روح میں ثنویت قائم کی ہے جس بنیاد پہ کلیسا بیزار تحریکوں کو ’’ریاست و کلیسا کی علیحدگی‘‘ جیسے نعروں پہ کامیابیاں ملیں- تعلیماتِ اسلام میں روح اور مادے میں دوئی نہیں ہے، اقبال کے نزدیک مادہ روح کی ہی ناسوتی صورت کا اظہار ہے نہ کہ مادہ روح سے الگ کوئی چیز ہے- اسی بنیاد پہ اقبال کہتے ہیں کہ روح کا تعلق دین سے ہے اور مادہ کا تعلق دنیا سے- اگران دونوں کو علیحدہ کردیا جائے تو ان میں ثنویت پیدا ہوگی جس سے دین کسی اور طریقے سے چلے گا اور دنیا کسی اور طریقے سے- چونکہ مادہ اور روح میں ثنویت نہیں ہے لِہٰذا دین ودنیا کو الگ نہیں کیا جا سکتا- بقول حکیم الامت:
از کلید دین در دنیا گشاد |
سرکاردوعالم(ﷺ)نےدین کی چابی سےدنیا کا دروازہ کھولاہے- یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے دین و دنیا کو الگ نہیں کیا جاسکتا-
اولاً تو یہاں اقبال نے اسلامی مملکت کے قیام پہ زور دیا- ثانیاً اقبال نے کہا کہ اسلام کو کسی مارٹن لوتھرکی تحریک کی ضرورت نہیں ہے- کیونکہ اسلام مادہ اور روح کی ثنویت کی بات ہی نہیں کرتا-چونکہ کلیسا میں زیادہ تر سیدنا عیسٰی (علیہ السلام) کی اخلاقیات پہ زور تھااس لئے وہاں پہ روح اور مادہ کی ثنویت کی بحث میں مارٹن لوتھر کی تحریک کامیاب ہو سکی- تصورِ اسلام میں مادہ روح ہی کی ایک صورت کا اظہار ہے اس لئے دین و دنیا اور مذہب و ریاست کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا- اِسی تصور پہ حکیم الامتؒ کی خوبصورت نظم ’’دین و سیاست‘‘ ملاحظہ فرمائیے!
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی |
’’جنیدی‘‘ امام جنید بغدادی (رضی اللہ عنہ) کا فقر ہے اور ’’اردشیری‘‘ شاہِ فارس اردشیر کا تخت- اقبال کہتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام جنید بغدادی کو شاہِ اردشیر کے تخت پہ بٹھایا جائے کیونکہ فقر بے لوث و بے غرض اور حسد و کینہ سے پاک ہوتا ہے اس لئے نظامِ عدالت اگر فقر کے ہاتھ ہے تو دنیا میں انصاف آ جائے گا-جس کی ایک مثال امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کی سند کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن نتیجتاً بے مثال ہےکہ جب آپؓ ایک کافر کو گرا کر اس کے سینے پہ چڑھ گئے اور خنجر سے اس کو قتل کرنے لگے تو اس نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے چہرہ انور پہ گستاخی کی اور تھوک دیا- جب اس گستاخ نے تھوکا تو آپ (رضی اللہ عنہ) اس کے سینے سے اترگئے-اس نے اپنے ایک مخصوص انداز میں کہا کہ ابوطالب کے بیٹے پیچھے کیوں ہٹ گئے ہو- آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا پہلے میں تمہیں فقط اللہ کے لیے قتل کررہا تھا لیکن تیرے اس عمل کے بعد تجھے قتل کرتا تو اس میں میرا غصّہ بھی شامل ہوتا- اندازاہ لگائیں! کہ جب دل میں ولایت و فقر کی دولت ہو تو انسان کی قوت فیصلہ کیسےعمل کرتی ہے- یہ ہے ’’ہوں ایک جنیدی و اردشیری‘‘ کا عملی مفہوم-
مجاہد کی تلوار، عالم کے قلم، عادل کے ترازو اور حکمران کی قوت فیصلہ و اقدامات کے پیچھے اس طرح کی شانِ بے نیازی ہوجس سے وہ اس روئے زمین پہ انصاف قائم کر سکیں-
تیسری بات اقبال نے یہ کی کہ اسلام میں اس طرح کی پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُٹھ کر کہے کہ مجھے زمامِ اختیار دے کر ریاست پہ بٹھا دو کیونکہ میں عالم، زاہد، متقی، قاری اور حافظ ہوں- خطبہ الہٰ آباد میں اقبال نے مادہ اور روح کی ثنویت کی بحث میں یہ بات کہی ہے-
امورریاست نبھانا ذمہ داری ہے:
مَیں خود ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ایک مذہبی جماعت سے وابستہ ہوں مگر بقول اقبالؒ:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق |
سلطان العارفین حضرت سلطان حق باھوؒ کی نسبت سے حق کہنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں اس لئے جسے اقبال نے واضح کیا وہ قرآن و سنت کی رُو سے حق ہے- یعنی محض پارسا ہونا، محض عالم دین ہونا، محض ایک فقہ کا مسئلہ دان یا واعظ ہونا یا محض ایک سیاسی مذہبی جماعت کا قائد ہونا کسی کی قابلیت و اہلیت کا معیار نہیں ہے کہ اِس میرٹ پہ اُسے مسندِ اقتدارمل جائے- بلکہ مسندِ اقتدار کا میرٹ اور اس کی صلاحیت و قابلیت و اہلیت کی دیگر بھی بہت سی شرائط ہیں- جیسا کہ امام مسلمؒ نے ’’صحیح مسلم، کتاب الامارۃ‘‘ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے جلیل القدر صحابی سیدنا ابوذرغفاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی:
’’يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَا تَسْتَعْمِلُنِیْ؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهٖ عَلَى مَنْكِبِیْ ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ ضَعِيْفٌ، وَ إِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَ نَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيْهَا‘‘[11]
’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ مجھے کہیں عامل (نگران) مقرر نہیں فرمائیں گے ؟ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مارا پھرفرمایا اے ابو ذر آپ ضعیف ہیں اور یہ (امارت و حکومت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن باعث شرمندگی و ندامت ہےسوائےاس کے جو اسے حاصل کرنے کا حقدار ہو اور اس میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاسکے‘‘-
یعنی بروزِ قیامت صرف اس آدمی کی نجات ہوگی جو اس اہل ہو کہ اپنی امارت و حکومت کے حقوق کو پورا کرے اور جو اس امارت و حکومت کا اہل نہیں ہے اگر اس کے ہاتھوں میں اس کی ذمہ داری ہوگی تو وہ اس کے حق کو پورا نہیں کر سکے گا اور قیامت کے دن اسی منصبِ امارت کا اس کے اوپر بوجھ پڑے گا- ان بنیادوں پہ اقبال کا استدلال تھا کہ جیسی پیشوایت کلیسا میں نظر آتی ہے جس میں مارٹن لوتھر کلیسا کی پاپائیت کو ان کی مذہبی پیشوایت اور مذہبی سیاست کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوئے- اقبال کے نزدیک اسلام میں اس کا جواز ہی نہیں ہے کہ صرف عالم، متقی و پرہیزگار ہونا حقِ امارت کا اہل ہونا ہے- بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ امورِ سلطنت سے متعلقہ علوم میں بھی مہارت ہو، قومی و بین الاقوامی قانون کا پتا ہو ، مروّجہ معیشت و نظمِ اقتصاد اور تجارت کو جانتا ہو ’’جیو پالیٹکس‘‘ اور ’’جیو اکانومی‘‘ کو جانتا ہو- سیاسی معاشی اور سفارتی ’’نگوسی ایشن‘‘ جانتا ہو، حقِ امارت وہ رکھتا ہے جو مسائل کو بات چیت کے ہنر سے حل کرتا ہو کیونکہ مسائل مار دھاڑ کر کے حل نہیں کئے جاتے بلکہ بات چیت اور استدلال کی قوت سے حل ہوتے ہیں-
سربراہ مملکت اور کثیرالجہتی:
اعلانِ اسلام سے قبل اگر حضور خاتم النبیین (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تمام وہ امور ہیں جن کو سرکار دو عالم (ﷺ) بتقاضائے ظاہر بھی بخوبی جانتے تھے- جتنے بھی ہمارے نجومِ ہدایت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سرکار دو عالم (ﷺ) کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تھے وہ سبھی اپنے اپنے قبیلوں کے وہ لوگ تھے جو مکہ کی شہری ریاست میں قوتِ استدلال میں مختلف اہمیتیں رکھتے تھے کہ قبائل کے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے- جیسا کہ حضرت عمر ابن خطاب (رضی اللہ عنہ) مکہ میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے- اسی طرح حقِ امارت کا اہل امورِ خارجہ (foreign affairs) اور سفارت کاری (diplomacy) کو جانتا ہو-قوتِ استدلال سے بات چیت کرنا الگ چیز ہے اور سفارت کاری ایک الگ فن ہے- کلاسیکی معنیٰ میں سفارت کاری سے مراد کسی جگہ پر اپنی گنجائش پیدا کرنا ہے- جیسا کہ آقا کریم (ﷺ) کے جدِ امجد سیدنا ہاشم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ کیسےانہوں نے دربارِ روم و کسریٰ، یمن اور شام میں قریش کے لیے گنجائش پیدا کی اور کس احسن طریق سے پورے بلادِ عرب میں مکہ کی حیثیت کو منوایا- یہ مؤثر سفارتکاری کا ایک عمدہ نمونہ ہمیں تاریخِ سیرت سے ملتا ہے- اِس لئے اگر کوئی موثر سفارت کاری کا اہل نہیں تو وہ اپنی قوم کو تنہائیوں کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے-
اسی طرح حقِ امارت کا اہل جغرافیے، اقوام کی تاریخ، اقوام کی نفسیات، تزویراتی امور (strategic affairs)، جنگی قوانین، جنگی سازو سامان اور جنگی نظم وضبط کو جانتا ہو کہ حملہ کیسے، کب اور کہاں کرنا ہے؟ جیسا کہ سیرتِ پاک سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عربوں میں منجنیق چلانے کا رواج نہیں تھا ، جب اسلامی ریاست ابتدا میں تھی تو اس کے استعمال کی اتنی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی- لیکن بعد ازاں سرکار دو عالم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں سے چند منتخب لوگوں کو یمن بھیجا تاکہ جا کر منجنیق کا استعمال سیکھ آئیں کہ منجنیق چلاتے کیسے ہیں؟ بناتے کیسے ہیں ؟ اور اسے عرب میں بھی لے کر آئیں- ’’اسلامی لشکر نے طائف کے حملہ میں منجنیق کا استعمال کیا‘‘-[12]اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح کی پیشوایت کلیسا میں تھی اس طرح کی پیشوائیت کا اسلام میں کوئی معیار نہیں ہے بلکہ دیگر امور پہ مہارت شرطِ لازم ہے-
مذہبی پیشوائیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص مذہبی حفظِ مراتب یا درجہ بندی ،جسے انگریزی میں (Religious Hierarchy) کہیں گے ، میں اعلیٰ ترین منصب پہ فائز ہے، اس منصب کی بنیاد پہ محض مذہبی احترام و عقیدت میں اُسے زمامِ اقتدار بھی سونپ دی جائے- چاہے وہ سیاسی و دُنیوی اعتبار سے اُس کی اہلیّت و قابلیّت نہ رکھتا ہو-
جیسا کہ سرکاردوعالم(ﷺ) کی حدیثِ پاک کو امام طبرانی، امام جلال الدین سیوطی، امام ہیثمی اور دیگرمحدثین کرامؒ سے بھی روایت کیا ہے اورحضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ)نے بھی روایت کیا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’نِعْمَ الشَّيْءُ الْإِمَارَةُ لِمَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَحَلَّهَا، وَ بِئْسَ الشَّيْءُ الْإِمَارَةُ لِمَنْ أَخَذَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا فَتَكُوْنُ عَلَيْهِ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘[13]
’’امارت(حکومت) اچھی چیز ہے اس شخص کیلئے جو اس کا حق دار ہو اور اس کی اہلیت رکھتا ہو اور امارت بری چیز ہے اس شخص کیلئے جو اس کا حق دارنہ ہو اور اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو وہ قیامت کے دن نادم و پریشان ہو گا‘‘-
اس لئے اسلام کے تصورِ ریاست میں حکمران کی اہلیّت و قابلیّت کا اپنا ایک معیار و اصول ہے- یعنی، اگر باعتبارِ اہلیّت منصب کے حق دار ہو تو مسندِ حکمرانی پہ بیٹھو اگر حق دار نہیں ہو تو اس مسند پہ نہیں بیٹھ سکتے خواہ کتنے ہی معزز و معتبر، متقی و پرہیزگار ہو- اِس بات کے دوسرے سرے پہ بھی اتنا ہی حَسّاس معاملہ ہے کہ اگر کوئی جاہل، فاسق ، بد کردار و بد قماش اور فیضانِ تعلیماتِ اسلامیّہ سے دُور شخص محض سیاسی چالاکیوں سے اقتدار پہ قابض ہو جائے تو اس سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی- اقبالیاتی اصطلاح میں بات کریں تو یوں ہو گا کہ جنیدی و اردشیری کا اشتراک درکار ہے-
ایک اور بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ناچیز خود بھی اہلِ تصوف سے تعلق رکھتا ہے، شیخ جنیدؒ کی طریقت اور شیخ الاکبر ابن العربیؒ کے منہج پہ ہمارا منہج ہے-لیکن مَیں غیر فعال (Passive & Lifeless) تصوف کا قائل نہیں ہوں جو رہبانیت اور بے عملی کی طرف لے جائے-بلکہ تصوف کا آغاز ہی عدل و محاسبہ پہ ہوتا ہے کہ جو آدمی جتنا باطن صفا ہے اس پہ اتنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ حق کی جدوجہد کرے- کیونکہ باطن صفا کے وجود سے سماج کے لئے خیرِ کثیرطلوع ہوگا-
اسی طرح جو ملائیت کا جارحانہ (Violently Aggressive) انداز ہے ناچیز اس کا بھی قائل نہیں ہے- عالمِ اسلام میں جس طریقہ سے پچھلے کئی عشروں سےجو ایک ماردھاڑ کا سلسلہ چل رہا ہے جس کو مذہب کے لبادے میں لپیٹ رکھا ہے یہ رویّہ بھی درست نہیں- کیونکہ اس میں قوم، ملک اور دین کے نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے-اس لئے غیر فعال صوفی ازم اور جارحانہ ملائیت یہ دونوں رویے قابلِ اصلاح ہیں اور عدمِ اعتدال پہ مبنی ہیں- اِس لیے ضَروری ہے اعتدال پہ مبنی سوچ ہو جو ہمیں بہتر قومی و مِلّی زندگی کا راستہ دکھائے اور اعتدال کے ساتھ آگے لے کر چلے-
اسلامی ریاست کا تصور اور عوام کا اقتداروکردار:
اسلامی ریاست میں سرکارِ دو عالم (ﷺ) اور آپ (ﷺ)کے بعد خلفائے راشدین نے جو نظم پیدا کیا جس میں انہوں نے عوام کو اپنے ساتھ اقتدار میں شامل کیا- عوام کو شریکِ اقتدار کرنے کیلئے کثیر الجہتی اقدامات ریاستِ مدینہ میں اٹھائے گئے جن کو خلفائے راشدین المھدیّین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مزید وُسعت دی-
(۱)-سرکاردوعالم(ﷺ) نے عوام کی اقتدار میں شمولیت کا اوّلین طریقہ مجلسِ مشاورت کے اہتمام سے فرمایا- پیغمبر اسلام(ﷺ) سے قبل بھی حکمِ الٰہی سے جتنے انبیائے کرام (علیھم السلام) نے حکومتیں قائم فرمائیں ، مثلاً: سیدنا موسٰی، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان (علیھم السلام) ان سب کے ہاں بھی یہی دستور تھا کہ وہ اپنی عوام کو مشاورت کے عمل سے اقتدارمیں شریک کر لیتے تھے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَج وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا‘‘[14]
’’اور بے شک اﷲ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لیے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کیے‘‘-
یعنی خلافت، حکومت یا مملکت کو چلانے کے لیے ایک اصول تھا جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا کہ اُس قوم کے منتخب اور معتبر لوگوں کو مشاورت میں شریک کرلیا جائے جن کے ذریعے سے پوری قوم اقتدار میں شریک ہوجاتی ہے-
حافظ ابنِ کثیر نے اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ:
’’رسول اللہ(ﷺ) نے جب لیلۃ العقبیٰ میں انصار سے بیعت لی تو ان میں حضور نبی کریم (ﷺ)نے بارہ نقیب مقرر کیے جن میں سے تین قبیلہ اوس اور نو قبیلہ خزرج سے تھے، جن کو سرکار دو عالم (ﷺ) نے مشاورت کے لیے اپنی مجلسِ مشاورت میں شامل فرمایا‘‘-[15]
قرآنِ مجید بھی مومنین کیلیے اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ عملِ مشاورت کو ترجیح دیں- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَص وَ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ‘‘[16]
’’اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے‘‘-
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام میں حتیٰ کہ پیغمبراسلام (ﷺ) سے قبل بھی جو شریعتیں تھیں ان میں بھی شورائی جمہوریت پائی جاتی تھی جو کہ مطلق الانانیت، بادشاہت اور ملوکیت کے تصور پہ یقین نہیں رکھتے تھے-
(۲)-آقا کریم (ﷺ) نے عوام کی اقتدار میں شمولیت کا دوسرا طریقہ اختیار فرمایا وہ اختیارات کو نچلی سطح پہ منتقل کرنا تھا تاکہ لوگوں کی ریاستی امور میں دلچسپی بڑھے اور وہ خود کو ریاست کا حصہ تصور کریں نہ کہ اپنے آپ کو اس سے جدا سمجھیں-
اُن میں پھر وہی مشاورت کا سلسلہ،جس میں آقا کریم (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں ایک انتہائی کمال نظم و ضبط قائم فرمایا کہ ہر دس افراد پہ ایک نقیب مقرر کیا اور پھر ہردس نقیبوں کے اوپر ایک عریف مقرر کیا اور سو عریفوں کی ایک مجلس مشاورت (پارلیمنٹ) تھی جو سرکار دو عالم (ﷺ) کے ساتھ مسجد نبوی میں اور دیگر مقامات پہ مشاورت کرتی تھی- ایسا نظامِ مشاورت قائم کیا گیا جس میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے تاکہ کوئی عام شخص بھی یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ وہ مشاورت میں شامل نہیں تھا- آقا کریم (ﷺ) کی مجلس میں بیٹھے ایک سو عرفاء تمام قبائلِ عرب کی آواز تھے-کیونکہ اس مجلسِ مشاورت میں قبیلوں کے مسائل ان عرفاء کے توسط سے ڈسکس ہوتے تھے-
’’صحیح بخاری‘‘ کی حدیث پاک ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے بعض مقامات پہ قبائل کے عوامی ہجوم سے بات کرنے کی ہدایت کی اور بعض مقامات پہ قبائل کے عوامی ہجوم کی بجائے فرمایا کہ اپنے نمائندے بناؤ اور ان کے ذریعے میرے ساتھ بات چیت طے کرو- تاکہ تمہارا ان پہ اعتماد بنے اور تمہیں یہ احساس ہو کہ ہم جن لوگوں کو تمہارے اوپر مقرر کرتے ہیں ہم انہیں تمہارا صحیح خیرخواہ اور نمائندہ تصور کرتے ہیں جو تمہاری درست آواز اوپر تک پہنچاتے ہیں-
حضرت عروہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے وہ مروان اور حضرت مِسْوَر بن مخرمہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’ آقاکریم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں ھوازن کا وفد آیا تو آقا کریم (ﷺ) نے ان کے سامنے یہ پیشکش رکھی کہ یا توقیدی واپس لے لو یا رقم؛ توآقا کریم (ﷺ) نے ان کے درمیان جو فیصلہ فرمایا انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) ہم اس پہ راضی ہیں-آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ تم میں سے کس کس نے اجازت لی ہے اور کس کس نے اجازت نہیں لی پس تم واپس جاؤ اور ہمارے پاس اپنے معاملات کے لیے عریفوں کو خودمختار بنا کے بھیجو- پھرجب عرفاء آقا کریم (ﷺ)کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی یہی عرض کیا کہ یارسول اللہ (ﷺ) ہمارے پورے قبیلہ کا یہی مشورہ ہوا ہے جو اس سے پہلے ہم نے آپ کو عرض کیا‘‘-[17]
نچلی سطح پہ اختیارات کی منتقلی کا یہ وہ طریق تھا کہ مشاورت اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر ایک سسٹم کے ذریعے ہونی چاہیے جس سے عوام اقتدار میں شامل ہوسکے- پھر یہی طریق بعد میں خلفائے راشدین نے بھی اختیارکیا-
(۳)- ایک طریقہ جو انتہائی احسن ہے کہ عوام کو یہ اختیار ہو کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس مسئلے پہ چاہے اپنے حکمران کے احتساب کا مطالبہ کرسکتی ہے-یہ عوام کے اقتدار میں شمولیت کی عظیم ترین مثال ہے-
حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں امیر المؤمنین سیدنا صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ)کا پہلا خطبہ رقم کیا ہے جس میں آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’لوگو! مَیں اپنے آپ کو اس اہل نہیں سمجھتا کہ مَیں تم میں بہترین انتخاب ہوں- ہاں! تم نے اگر مجھے ذمہ داری دی ہے تو مَیں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کے احکامات کے مطابق ادا کروں- اس لئے تم اس وقت تک میرے حکم کے پابند ہو جب تک مجھے پاؤ کہ مَیں کتاب وسنت کے مطابق اپنے فرائض ادا کر رہا ہوں اور جب مجھے یہ پاؤ کہ میں کتاب وسنت کے مطابق تمہارے مابین عدل و انصاف نہیں کر رہا تو تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ میرا احتساب کرو اور مجھے حکمران ماننے سے انکار کر دو‘‘-[18]
خود کو عوامی احتساب کیلئے پیش کرنا اور خود کو ایسے احتساب سے مبرا نہ جاننا عامۃ الناس کا خلافت و ریاست پہ اعتماد بڑھاتا ہے-
شخصی آزادی اور ریاستی ذمہ داری :
اِسلامی ریاست میں آقا کریم (ﷺ) نے شخصی آزادی کو یقینی بنایاکہ جو بھی آدمی اس ریاست کا شہری ہوگا اس کو شخصی آزادی میسر ہوگی- بلاوجہ، غیر مصدقہ اطلاع اور جھوٹے الزام کی بنیاد پہ کسی بھی شخص کو پابندِ سلاسل نہیں کیا جاسکتا- اس پہ کئی روایات ہیں ، مثلاً؛ امام ابوداؤدؒ نے روایت کیا کہ:
’’آقا کریم (ﷺ)کے وقت میں چند لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تو پوچھنے والے نے پوچھا کہ ان کو کس بنیاد پہ گرفتار کیا گیا ہے تو جو اُن پہ مقرر تھا جواب نہ دے سکا، دوسری بار پوچھا گیا تو وہ پھر بھی چپ رہا، تیسری بار جب پوچھا گیا تو وہ پھر بھی چپ رہا تو آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ایسے لوگ جن کو بلاوجہ گرفتار کر لیا جائے مناسب نہیں‘‘-[19]
کیونکہ اِس سے اِن کی شخصی آزادی مجروح ہوتی ہے اس لئےان کو فوراً آزاد کیا جائے ‘‘-
امام شاطبی نے ’’معالم السنن‘‘اور امام ابویوسف نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں یہ اخذ کیا کہ فقط دوباتوں کی بنیاد پہ آپ کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں- ایک عدالت کے حکم پہ اور عدالت بھی اس وقت جب اس پہ کسی چیز کو ثابت کرے اور دوسرا تفتیش کی غرض سے- امیر المؤمنین سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) کا یہی قول امام مالک نے ’’مؤطا شریف‘‘ میں نقل کیا:
’’اسلام میں کسی مناسب قانونی کاروائی کے بغیر کسی شخص کو گرفتار یا پابند سلاسل نہیں کیا جاسکتا ‘‘-[20]
امام ابو داؤدؒ نے روایت کیا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سےمروی حدیث پاک ہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ:
’’ آقا کریم (ﷺ) نے جب مجھے یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجا تو فرمایا:اے علی! جب بھی کوئی تمہارے پاس فیصلہ لے کر آئے تو فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کی بات کو سننا تاکہ کوئی یہ نہ کہے میری بات کو عدالت یا اس مقام پہ سنا نہیں گیا- جب دونوں کو سنو گے تو حق تمہارے سامنے خودبخود روشن ہو جائے گا کہ ان میں کون جھوٹا اور کون سچا ہے جس بنیاد پہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے ہو‘‘-[21]
اسلامی ریاست کا یہ بنیادی اصول ہے جس میں ہرفرد کو شخصی آزادی میسر ہے اور کوئی کسی پربلاوجہ قدغن نہیں لگا سکتا-
مؤثر سفارت کاری اور مکالمہ کی اہمیت:
گفتگو کے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سرکار دو عالم (ﷺ) کی سیرت اقدس میں یہ چیز بڑی واضح نظر آتی ہے کہ آپ نے مسائل کے حل کیلئے مکالمہ اور بات چیت کو بہت اہمیت دی- جہاں آپ (ﷺ) کی قیادت میں اسلامی فوج کی فتوحات کی شاندار کامیابیاں نظر آتی ہیں وہاں اسلام کے سفیروں نے بھی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں جن کی سفارت کی نظیر نہیں ملتی- اس لئے جہاں ہم ایمان و یقین کی تازگی شجاعت و دلیری کی نشو و نما کیلئے اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ غزوہ بدر کیسے ہوا؟ غزوہ اُحد کیسے بپاہوا؟ غزوہ خیبرکے کیا محرکات تھے؟ غزوہ خندق کیسے رونماء ہوا؟ مکہ کی فتح کیسے ہوئی؟ وہیں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں میں دانش و حکمت کے فروغ اور مکالمہ و دلائلِ علمی کے حصول کی لگن بھی پیدا کریں اور انہیں یہ بھی بتائیں کہ بغیر لڑے حبشہ کیسے فتح ہوا؟ بغیر کسی لشکر و معسکر کے مدینہ منورہ کیسے فتح ہوا؟
حبشہ تو سرکار دو عالم (ﷺ)کے دو خطوط اور سفیرِ اسلام سیدنا جعفر طیار (رضی اللہ عنہ)کی ایک تقریر پہ فتح ہوا-مدینہ کے لوگ عربوں کے روایتی میلوں میں آتے تھے، سرکار دو عالم(ﷺ) نے چند قبائلی لیڈرز منتخب کر کے ان کو دعوتِ اسلام دی- یہ وہ وقت ہے جب مکہ کے لوگ ظلم پہ مائل تھے، اپنے بیگانے سب چھوڑ چکے تھے، چند انصار آپ (ﷺ) کے ساتھ شامل ہوئے، تلوار اور تیرچلائے بغیر سرکارِ دو عالم (ﷺ) مہاجربن کے گئے اور فاتح کی حیثیت میں مدینہ میں داخل ہوئے- لوگو ! ہے کوئی ایسی مثال دُنیا میں ؟
مصطفےٰ از کعبہ ہجرت کردہ با اُم الکتاب |
اُم الکتاب ہاتھ میں ہے اور اپنے خویش قبیلے نے اپنے ہی گھر سے ہجرت پہ مجبور کیا- سرکار دو عالم (ﷺ)تو اپنا سب کچھ چھوڑ کے گئے تھے- کیاکبھی مہاجر بھی فاتح ہوئے؟ لیکن مدینہ میں جو استقبال ہوا وہ اپنی آبائی بستی سے ایک ہجرت کرکے آنے والے کا نہیں بلکہ ایک فاتح کا استقبال تھا-یہاں یہ بات بھی بیان کرنا چاہوں گا جس پر متعدد حوالاجات موجود ہیں کہ سرکار دو عالم(ﷺ) کے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے اہل مدینہ نے کہہ دیا تھاکہ آپ (ﷺ) ہمارے سردار اورحکمران ہوں گے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ’’بستیاں تلواروں سے فتح ہوئیں اور مدینہ قرآن مجید سے فتح ہوا‘‘[22]-
اِس لئے مکالمہ بھی سیرت النبی (ﷺ) سے اخذ ہونے والا ایک بہترین راستہ ہے جوہر دور میں بالعموم اور فی زمانہ بالخصوص مسلمانوں کو اختیار کرنا چاہئے-
دشمن دشمن ہوتا ہے، اس کا کام ہی دشمنی کرنا ہے لیکن ہمارا کام اس کی دُشمنی کو ناکام بنانے کے لیے تدبیر کرنا ہے- اس وقت مسلمانوں کا سلگتا ہوا مسئلہ توہین رسالت کاہے جس پہ ہر مسلمان بے حد اضطراب اور تکلیف محسوس کرتا ہے- اِس طرح کے ہمارے جو چند بڑے بڑے مسائل ہیں اُن پہ مکالمہ کے اور مؤثر سفارتکاری کے ذریعے بین الاقوامی قانون سازی کروائی جا سکتی ہے، جوکہ نہ صرف ان مسائل کا دیر پا حل ہے بلکہ امن کی ضمانت ہوگی- تاکہ کسی شر پسند، تہذیبی دہشت گرد کو ’’آزاد صحافت‘‘ یا ’’اظہارِ رائے کی آزادی‘‘ کی قبا تلے چھپنے کی گنجائش نہ مل سکے- مثلاً: جب چند برس قبل مختلف ممالک کے اخبارات نے گستاخانہ خاکے شائع کیے جو کہ پوری دنیائے اسلام کیلئے ایک نہایت تکلیف دہ عمل تھا اور پوری اسلامی دنیا سراپا احتجاج تھی- دربار عالیہ حضرت سلطان باھُوؒ سے قائم شدہ تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ میں محققین نے تحقیق کی کہ عام ویسٹرن آدمی مسلمانوں کے مؤقف کی تائید کھل کے کیوں نہیں کرتا؟ آخر مسئلہ کیا ہے؟ تو مسئلہ یہ سامنے آیا کہ اکثر مسلمان سکالرز آزادیٔ اظہارِ رائے ’’freedom of expression‘‘کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں- اس کے مقابلے میں عام مغربی آدمی کہتا ہے ہماری کئی سو سال کی تاریخ ہے ان آزادیوں کے پیچھے ،ہم نے بڑی طویل جنگیں کی ہیں اس بنیاد پہ مطلق العنان حکمرانوں اور کلیسا کی قوت سے جان چھڑائی ہے اب ہم فقط جذباتی مسلمانوں کے کہنے پہ اظہارِ رائے کی آزادی کے عَلَم کو سر نگون کیوں کر دیں؟ ان کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو سوال اہم تھا، لیکن پھر وہی بات کہ مکالمہ کی رُو سے اس کا حل کیا تھا ؟ ہم اِس نتیجہ پہ پہنچے کہ عام مغربی آدمی کی سوچ کو مسلمانوں کے مؤقف کے حق میں ’’آزادیِ اظہارِ رائے‘‘ کے سوال پہ نہیں کیا جا سکتا- البتہ برائی کی جڑ اظہارِ رائے کی آزادی میں ’’حقِ ہتک و توہین‘‘ ہے- انسٹیٹیوٹ نے ڈیبیٹ کیلئے ایک سوال تیار کیا کہ:
“Freedom of expression gives one the right to insult?”
’’کیا اظہارِ رائے کی آزادی کسی کی ہتک/ توہین کی اجازت دیتی ہے ؟‘‘
اس کے لئے ہم نے طے کیا کہ ہم اس میں کسی مشرقی مسلم سکالر کو نہیں بلائیں گے ، یہ مغرب کی ڈیبیٹ ہے مغرب میں کریں گے- حقِ ہتک کے دفاع میں دلائل دینے والی ڈاکٹر ہیلری سٹافر ، لندن سکول آف اکنامکس سے تھیں اور اس کی مخالفت میں دلائل دینے والے پرنسٹن یونیوریسٹی امریکہ سے ڈاکٹر جیمسن ڈوئیگ تھے-اس کے علاوہ ہم نے ڈیبیٹ میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ کے سینئر پروفیسر اور شکاگو یونیورسٹی سے انٹرنیشنل قانون کے سینئر پروفیسر بلائے یہ سبھی غیر مسلم تھے- البتّہ ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر لورین بوتھ، جن کا بیک گراؤنڈ کرسچین ہے لیکن وہ کنورٹڈ مسلم ہیں- اِن کو ہم نے اس ڈبیٹ میں بلایا اور ایک انٹرنیشنل ڈیبیٹ کروائی جس میں دنیا کے 70 سے زائد ممالک کے لوگوں نے کمنٹس اور ووٹنگ کے ذریعے شرکت کی-19فیصد لوگوں نے کہا کہ اظہارِ رائے میں حقِ ہتک شامل ہے جبکہ 81 فیصد لوگوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے میں حقِ ہتک نہیں ہے- خود بڑے بڑے مغربی اسکالرز نے اس بات پہ تائید کی کہ اظہارِ رائے کی آزادی میں حقِ ہتک شامل کرنا تباہی کا شاخسانہ ہے-
اِس لئے مکالمہ ایک ایسا عمل ہے اگر آپ اسے صحیح علمی دلائل کے ساتھ استعمال کریں تو دنیا آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی- اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو چاہئے کہ اِس مسئلہ پہ نہایت سنجیدہ اور دور رس حکمتِ عملی کے ساتھ مؤثر سفارتکاری کریں اور بین الاقوامی قانون سازی کے ذریعے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے تہذیبی دہشت گردوں کو سخت سزائیں دلوائیں-
اِسلامی ریاست کا اولین فریضہ ہے کہ ہمارے آقا و مولا حضور خاتم النبیّین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ناموس اور عزت کی محافظ بنے-
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حُرمت پر |
٭٭٭
[1](المستطرف فی کل فن مستطرف، الباب الثانی و الاربعون فی المدح و الثناء)
[2](الحدید:25)
[3](سورۃ ص:26)
[4](النور:55)
[5](اس آیت سے خلیفہ کےلئے بنیادی شرائط جو سامنےآتی ہیں ان کو موضوع سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے زیر بحث نہیں لاتے ورنہ انکی تعبیرو تشریح سے بہت سے مسائل کا حل تجویز ہوتاہے)-
[6](الحج:41)
[7](الفتح:28)
[8](سيرة ابن ہشام، باب:وَفَاةُ أَبِی طَالب وَخَدِيجَة )
[9](سيرة ابن ہشام، باب:وَفَاةُ أَبِی طَالب وَخَدِيجَة )
(البدایہ و النہایہ، فصل: فی وَفَاةُ أَبِی طَالب)
[10](دلائل النبوۃ، ج:1، ص:50، دارالنفائس، بیروت)
[11](صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)
[12](سنن ترمذی، ابواب الادب)
[13](معجم الکبیر، رقم الحدیث:4697)
[14](المائدہ:12)
[15](تفسیر ابن کثیر،سورۃ المائدہ زیر آیت:12)
[16](الشوریٰ:38)
[17](صحیح بخاری، کتاب الوکالۃ)
[18](البدايہ والنہایہ، خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ الصَّدِيقِ(رضی اللہ عنہ)
[19]()
[20]()
[21](سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ)
[22](شعب الایمان، باب فی حُب النبی (ﷺ)، فصل فی السمائہ (ﷺ)