حقیقت تو یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق اور اوصاف و کمالات کو کماحقہ بیان کرنا ہمارے بس کی بات نہیں- شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں:
ندانم کدا مین سخن گویمت |
’’میں نہیں جانتا کہ آپ (ﷺ) کی مدح و توصیف میں کونسا سخن کہوں کہ میں جو کچھ بھی بیان کروں گا آپ(ﷺ) اس سے برتر و بالا ہیں‘‘-
خاتم المرسلین ، سید الانبیاء حضرت محمدِمصطفےٰ (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ پوری انسانیت کیلئے حسن ِ اخلاق و مکارم اخلاق کے عملی پیکر کی حیثیت سے تقلید کا اکمل نمونہ ہے-چاہے وہ خلق صدق و سچائی ہو،دیانت داری ہو،امانت داری ہو ، ایفائے عہد ہو،جود و سخا ہو،عدل و انصاف ہو،شجاعت و بہادری ہو،عفو و درگزر ہو،حلم و بردباری ہو حتی ٰ کہ جتنے بھی ارفع اخلاق و اوصافِ حمیدہ ہیں آپ (ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ میں مجتمع فرمادیے گئے ہیں -
اسلام میں صدق و سچائی کوایک اہم ترین اور وسیع مقام حاصل ہے اور سچ کا بول بالا ہونا اسلامی معاشرے کا بنیادی وصف ہے- زیر نظر مضمون فرامین مصطفیٰ (ﷺ) کی روشنی میں صدق و سچائی (جو کہ آپ (ﷺ) کے خُلق کی برتر مثال اور اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ہے)کی تاکید اور جھوٹ (دروغ گوئی ) سے بچنے پر بحث کرتا ہے -
صدق (سچائی) اور جھوٹ (کذب) باہم متضاد شے ہے- صدق کو ایمان والوں جبکہ جھوٹ کو منافقین کی نشانی قرار دیاگیا ہے- جھوٹ(غلط بیانی)کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو حقیقت کے برعکس بیان کرنا یا ایسی خبر دینا جو واقع کے خلاف ہو- سچ کی تعریف یہ ہے کہ حقیقت کے سوا کچھ نہ بیان کیا جائے بلکہ ایسی خبر دی جائے جوواقع کےمطابق ہو-
مفتی احمد یا رخان نعیمی لکھتے ہیں کہ :
’’جھوٹ کئی قسم کا ہوتا ہے:
- ’’قول میں جھوٹ،وہ اس طرح کہ خلاف واقع خبر دے-
- فعل میں جھوٹ، وہ اس طرح کے عمل قول کے خلاف ہو یعنی کہے کچھ اور کرے کچھ-
- عقیدے میں جھوٹ،وہ اس طرح کے غلط عقائد اختیار کرے- مثلاً خالق تو ایک ہے لیکن کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ خالق تو چند ہیں تو یہ عقیدے کا جھوٹ ہوا- ہر جھوٹ برا ہے لیکن عقیدے کا جھوٹ سب سے برا ہے‘‘-
اسی طرح امام ابو حامد محمد الغزالی ؒ ’’احیاء العلوم‘‘ میں صدق کی اقسام، معانی اور مراتب پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’لفظ صدق کا اطلاق چھ معانی پر ہوتا ہے:
قول میں صداقت، نیت میں صداقت، ارادے میں صداقت، عزم میں صداقت، عزم پورا کرنے میں صداقت، عمل میں صداقت اور دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صداقت- جوشخص ان چھ معانی میں صدق کے ساتھ متصف ہو وہ صدیق ہے اس لیےکہ لفظ صدیق صدق سے مبالغے پر دلالت کرتا ہے- پھر صادقین کے بہت سےدرجات ہیں جس شخص کو کسی خاص چیز میں صدق حاصل ہوگاوہ اس خاص چیز کے اعتبار سے صادق کہلائے گا جس میں اس کا صدق پایا جائے گا‘‘-[1]
قرآن کریم اور سنتِ نبوی (ﷺ) میں بھر پور تاکید فرمائی گئی ہےکہ جھوٹ سے بچو اور سچائی کا راستہ اختیار کرو- جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور (ہمیشہ)سچوں کے ساتھ رہو‘‘- [2]
اسی طرح جھوٹ بولنے والوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے:
’’اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے‘‘- [3]
سیرت النبی (ﷺ) اور فرامین نبوی (ﷺ) کی روشنی میں صدق و سچائی کی تاکید اور جھوٹ کی مذمت کا اندازہ مندرجہ ذیل بیانات کی روشنی میں ہوتا ہے-
1-صدق نیکی جبکہ جھوٹ گناہ کی راہ دکھاتا ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :
’’صدق کو لازم رکھو،کیو نکہ صدق نیکی کی ہدایت دیتا ہے اور نیکی جنت کی ہدایت دیتی ہے- ایک انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے؛اور تم جھوٹ سے بچو اور جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں-ایک بندہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘- [4]
2-کمال کے متعلق سوال
حضرت عبد اللہ بن عباس(رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم(ﷺ)سے کمال کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (ﷺ)نے فرمایا:
’’حق بات کہنا اور صدق پر عمل کرنا‘‘-[5]
3-جھوٹ بد کاری ہے
جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ وہ بدکاری کے ساتھ ہے اور جھوٹ و بدکاری دونوں جہنم میں ہیں-سچ اختیار کرو، اس لیےکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں ہیں- [6]
4-جھوٹ کبیرہ گناہ ہے
ایک مرتبہ آپ (ﷺ)تکیہ لگائے ہوئے تھے اور اس حالت میں ارشادفرمایا :
’’کیا میں تمہیں وہ گناہ بتلاؤ ں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں ،اس کے بعد آپ(ﷺ) نے فرمایا ،شرک باللہ اور نا فرما نئ والدین پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:جھوٹ بھی کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے‘‘- [7]
حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بد بو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے‘‘- [8]
5-جھوٹ فجور( گناہ) اور فجوردوزخ تک پہنچاتا ہے
امام ابو داؤد حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :
’’اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ، کیونکہ جھوٹ فجور (گناہ) تک پہنچاتا ہے اور فجور دوزخ تک پہنچاتا ہے ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کے مواقع تلاش کرتا ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے‘‘- [9]
6-بڑی خیانت
ایک حدیث میں آپ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کہو جسےوہ سچ سمجھتا ہو اور حال یہ ہو کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو‘‘-[10]
7-سنی سنائی بات پرجھوٹ بولنا
امام مسلم روایت کرتے ہیں:
’’حضرت حفص بن عاصم (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نےفرمایا کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بیان کردے‘‘-[11]
8-لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولنا
آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’اس شخص کیلئے ہلاکت ہو جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے، اس کیلئے ہلاکت ہو اس کیلئے بربادی ہو‘‘-[12]
9-ایمان کی تکمیل کیلئے جھوٹ کا ترک کرنا ضروری ہے
امام احمد روایت کرتے ہیں:
’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا اس وقت تک بندہ کا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے حتیٰ کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اور ریا کو ترک کردے خواہ و ہ اس میں صادق ہو‘‘- [13]
10- سچ کی ترغیب کےدوواقعات
ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا- بولا مجھے، زنا، چوری، شراب اور جھوٹ کی عادت ہے، میں ایمان لانا چاہتا ہوں مگر یکدم چاروں عیب نہیں چھوڑ سکتا- حضور مجھے ایک عیب سے منع فرما دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا، فرمایا جھوٹ چھوڑ دے- وہ بولا بہت اچھا- مسلمان ہوا-جب دربارِ عالی سے گیا چوری کا ارادہ کیا، خیال آیا کہ اگر پکڑا گیا تومیں جھوٹ تو نہیں بولوں گا، اقرار کروں گا اور میرا ہاتھ کٹےگا- یہی خیال ہر عیب کرتےوقت آیا- سب سےتوبہ کرلی- بارگاہ عالی میں حاضر ہوا- بولا میری جان فدا آپ(ﷺ) جیسے معلم پر کہ آپ (ﷺ) نے مجھے جھوٹ سے روک کر سارے عیبوں سے بچا لیا - [14]
عبد اللہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم (ﷺ) ہمارے گھر تشریف لائے،میں اس وقت چھوٹا تھا اس لیے کھیلنے چلا گیا، میری والدہ نےکہا اےعبد اللہ! یہاں آؤ میں تجھے ایک چیز دوں گی، رسول اکرم (ﷺ) نے دریافت کیا، تم کیا چیز دینا چاہتی تھیں، انہوں نےعرض کیا کھجور، آپ (ﷺ)نےفرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھاجاتا- [15]
11-جھوٹ بولنے پر عذاب
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت سمرہ بن جندب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمایا :
’’میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ جبرائیل اور میکائیل میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدسہ میں لے گئے،میں نے دیکھا وہاں ایک آدمی بیٹھاہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا، اس نے وہ آنکڑا اس کی باچھ میں داخل کیااور آنکڑے سے اس کی باچھ کو کھینچ کر گدی تک پہنچا دیا، پھر وہ آنکڑا دوسری باچھ میں داخل کیا اور اس باچھ کو گدی تک پہنچا دیا ،اتنے میں پہلی باچھ مل گئی اور اس نے پھر اس میں آنکڑا ڈال دیا ،(الی قولہ) حضرت جبرئیل نے کہا : جس شخص کی باچھ پھاڑ کر گدی تک پہنچائی جارہی تھی یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا، پھر اس سے وہ جھوٹ نقل ہو کے ساری دنیامیں پھیل جاتا تھا، اس کو قیامت تک اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا- [16]
صدق و سچائی کا کامل نمونہ
(سیرتِ خاتم النبیین (ﷺ)
حضور نبی کریم (ﷺ) کا لقب صادق و امین ہے اور دنیا نے آج تک آپ (ﷺ) سے بڑھ کر صداقت و سچائی کی کوئی مثال نہیں دیکھی - بلاشبہ آپ (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ کا ہر ایک پہلو صدق و حق گوئی سے معمور و معطر ہے جس کا اعتراف آپ (ﷺ) کے دشمنوں نے بھی کیا جو بن دیکھے آپ (ﷺ) کی صداقت و دیانت پر یقین رکھتے تھے -
آپ (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ سچائی کے ایسے کئی عظیم واقعات سےمزین ہے جن کا احاطہ فقط ایک تحریر میں نہیں کیا جا سکتا-
علامہ نور بخش توکلی ؒ اپنی تصنیف سیرتِ رسول ِ عربی (ﷺ) میں رقم طراز ہیں کہ:
’’اپنے تو در کنار بیگانے بھی آنحضرت (ﷺ) کی صداقت کےقائل تھے- حضرت عبد اللہ بن سلام ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ حضور کو دیکھتے ہی پکار اٹھے:
’’وجہہ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ ‘‘[17]
’’ان کا چہرہ دروغ گو کا چہرہ نہیں‘‘-
مزید لکھتے ہیں کہ:
’’صلحِ حدیبیہ کی مدت میں ہرقلِ روم نےابوسفیان (جواب تک ایمان نہ لائے تھے) سے آنحضرت (ﷺ) کی نسبت پوچھا :
’’کیا دعویٰ نبوت سے پہلے تمہیں ان پر جھوٹ بولنے کا گمان ہوا ہے ؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں‘‘-[18]
ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ:
’’جب آپ(ﷺ) کو اعلانِ دعوت کا حکم ہوا تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو پکارا، جب وہ جمع ہو گئےتوآپ(ﷺ) نے ان سےپوچھا: بتاؤ اگر میں تم سےیہ کہوں کہ وادی مکہ سے ایک سواروں کا لشکر تم پر تاخت و تاراج (تباہ و برباد) کرنا چاہتا ہے تو کیا تمہیں یقین آجائے گا ؟وہ بولے ہاں، کیونکہ ہم نے تم کو سچ ہی بولتے دیکھا ہے‘‘- [19]
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتےہیں:
’’ابوجہل نے حضور نبی کریم (ﷺ)سےکہا اے محمد (ﷺ)! ہم جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ہم تمہیں جھٹلاتے بھی نہیں ہیں ہم تو اس (پیغام) کو جھٹلاتے ہیں جوتم لےکر آئے ہو[20]- تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ‘‘-
’’ہمیں معلوم ہے تمہیں رنج دیتی ہے وہ بات جو یہ کہ رہے ہیں وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں‘‘-[21]
مذکورہ بالا فرامین نبوی(ﷺ)کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سیرت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں جھوٹ کی کس قدر سخت الفاظ میں مذمت، صدق و سچائی کی اہمیت اور اسے عملی زندگی میں لاگو کرنے کیلئے اصرار کیا گیا ہے- صدق و سچائی کی یہی تلقین (جو سیرتِ النبی (ﷺ) سے نصیب ہوتی ہے) ہمیں اکابرین امت اورسلف صالحین کی تعلیمات اور ان کی عملی زندگیوں میں بھی بدرجہ اتم دیکھنےکو ملتی ہے بلکہ صوفیاء کرام کے نزدیک صدق دائمی فرض کی حیثیت رکھتا ہے- صاحبِ روح البیان نے مسئلہ صوفیانہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’بعض اہلِ معرفت فرماتے ہیں کہ جو دائمی فرض ادا نہیں کرتا اس کا وقتی فرض بھی قبول نہیں ہوتا- ان سے عرض کیا گیا کہ دائمی فرض کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا صدق‘‘-
جھوٹ بولنے کے چند بڑے نقصانات:
معمولی سی بات، ذاتی مفاد اور وقتی شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ کاسہارا لینا واضح کرتا ہے کہ ہم اسلام میں سچائی کی عظمت و حکمت سےناآشنا ہیں- لیکن یاد رکھیں کہ جھوٹ وقتی فائدہ مگر دائمی نقصان کا سبب ہے اور جھوٹ بولنے کے چند بڑے نقصانات جن کا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے ہے درج ذیل ہیں:
v انسان اجتماعی بھلائی اور خیر و شر کی فکر سے تہی دامن ہو جاتا ہے -
v سماجی بدامنی و فساد کا باعث (جومعاشرتی بگاڑاور باہمی منافرت کا بڑا سبب ہے)
v باہمی اعتماد کا فقدان (جھوٹا آدمی اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے)
v روحانی اضطراب و بے چینی (جومردہ دلی اور روسیاہی کی علامت ہےجبکہ سچ بولنا روحانی بالیدگی و اطمینان کو فروغ دیتا ہے)
v حق گوئی کا جذبہ اورہمت کھوبیٹھنا اور ہر وقت جھوٹ اور جھوٹے بہانے (False Excuses)کی تلاش میں رہنا-
v اپنی عزت و وقار کھو بیٹھنا (جبکہ سچ بولنے سے انسانی عظمت و وقارمیں اضافہ یقینی ہے )
جھوٹ سےکیسےبچاجائے؟
صرف جھوٹ ہی واحد برائی نہیں جو ہمارے سماج کی پریکٹس اور عادت بن چکی ہے بلکہ سطورِ بالا میں بیان کردہ دیگر برائیاں اور خصائلِ رذیلہ (جن میں غیبت، چوری، خیانت، زنا، حسد، تکبر، وعدہ خلافی اور دوسروں کی حق تلفی سرِ فہرست ہیں)بھی اخلاقی انحطاط وسماجی تنزلی کاسبب بن رہےہیں جس کی بنیادی وجہ قرآن و سنتِ رسول(ﷺ)سےہماری قطع تعلقی اوراسلام کی اقدارِ عالیہ سے دوری ہے-
(1)اول، ہمیں مذہب، سماج اور اخلاقیات (چاہے مذہبی ، سیاسی، اقتصادی یا سماجی اخلاقیات ہوں) کا اسلامی تناظرمیں مطالعہ اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا-
(2)دوم،بچوں کی تربیت اور ان کی اخلاقی زندگی کا نصاب آپ (ﷺ) کی سیرتِ مبارکہ، کتاب ِ ہدایت اور اولیائے کاملین کی تعلیمات کو بنانا ہو گا-حضورنبی کریم (ﷺ) کی حیات ِ طیبہ سے سچائی کی تاکید اور جھوٹ سے اجتناب کے واقعات کوبچوں کے مطالعہ کا حصہ بنایا جائے تاکہ سچائی کی طرف ان کی رغبت بڑھے- چونکہ یہ فطری عمل ہےکہ بچپن میں جو عادات، اطوار اور اخلاق بچوں کو سکھائیں گے وہ تا دمِ مرگ ان کی زندگی کا حصہ رہیں گےپھر چاہےوہ برےاخلاق و اطوار ہوں یا اچھے-بچے اسی نہج پر پروان چڑھیں گے- اپنی اولاد کی تربیت میں اوائلِ عمری سے ہی سیرتِ طیبہ کے محاسن و اخلاقی تعلیمات کی عملی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ صدق و سچائی ان کے خمیر میں رچی بسی ہو اور وہ معاشرے میں آئین ِ جوانمرداں کاعملی مظہرہو- بقول حکیم الامت:
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی |
(3)سوئم، بچوں میں سچ بولنے اور سچ کی خاطر مرمٹنے کیلئے ہمت اور حوصلہ پیدا کرنا چاہیے لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہم خود کو بچوں کےسامنے بحیثیت معلم، والد، بھائی کہ معاملات ِ زندگی میں اپنے قول وفعل سےسچائی کا عملی نمونہ پیش کریں-
(4)چہارم، بچوں کو بار بار تاکید کریں کہ صدق و سچائی ہی مسلمان کا زیور اور ہماری ایمانیات کا حصہ ہے- ان کے قلوب و اذہان میں راسخ کریں کہ کائنات میں ارفع اخلاق کی سب سے عظیم مثال ہمارے آقا و مولا شاہِ لولاک (ﷺ) نے ہمیں سچ بولنے کا حکم دیا ہے جن کی سیرت طیبہ پر عمل کر کے ہی ہم شرفِ انسانیت اور دین و دنیا میں سرفرازی حاصل کرسکتے ہیں-
مزید برآں! ایک مسلمان اور خاتم الانبیاء (ﷺ) کا امتی ہونے کے ناطے اور بحیثیت قوم ہمارا اولین فریضہ ہے کہ آپ (ﷺ)کی حیاتِ طیبہ سے اپنے عملی رشتے کو کبھی منقطع نہ ہونے دیں -چاہے ہمارے سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی یا اخلاقی مسائل ہوں ہمیشہ سیرت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں صداقت و حق گوئی ہمارا ضابطہ ہو اور اسلامی نظام ِ حیات کا قیام ہماری قومی و ملی ترجیح ہو-
مولانا رومیؒ نے جھوٹوں کی اقتداء کو صبح کاذب سےتشبیہ دی ہے-
صبح کاذب خلق را رہبر مباد |
’’صبح کاذب (جھوٹی صبح) کسی (مخلوق) کی رہبر نہ ہو، اس لیے کہ اس نے بہت سے قافلے برباد کیے ہیں ‘‘-
بہر صورت ایسا کلام کیا جائے جس سے صداقت و سچائی کی خوشبوآئے - اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ جیسی خصلتِ بد سے بچنے اور صداقت و حق گوئی کو اپنا دائمی شعار بنانے کی توفیق عطا فرمائے-آمین
٭٭٭
[1](احیاء العلوم، ج:4، کتاب النیۃ والاخلاص)
[2](التوبہ: 119)
[3](البقرہ: 10)
[4](صحیح البخاری، رقم الحدیث:6094)
[5](احیاء العلوم، ج:4، کتاب النیۃ والاخلاص)
[6](سنن ابن ماجہ/ سنن نسائی)
[7]( صحیح بخاری وصحیح مسلم)
[8](سنن الترمذی، رقم الحدیث:1972)
[9](سنن ابوداؤد،ج: 3،ص: 325)
[10](بخاری فی الادب المفرد،ابوداؤد،سفیان بن اسیدؓ)
[11](صحیح مسلم ،ج:1،ص: 8)
[12](سنن ابوداؤد، جامع الترمذی، سنن النسائی)
[13](مسند احمد ،ج: 2، ص: 364)
[14](تفسیر کبیر)
[15](سنن ابی داؤد)
[16](صحیح بخاری ،ج:1،ص:185)
[17](مشکوٰۃ شریف، باب فضل الصدقۃ)
[18](سیرتِ رسولِ عربی(ﷺ)،نور بخش توکلیؒ)
[19](صحیح بخاری،کتاب التفسیر)
[20]( المستدرک(مترجم)، کتاب تفسیر القرآن)
[21](الانعام:33)