سید الثقلین، امام القبلتین، جد الحسن و الحسین سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پہلے خود ادا فرمائے پھر اپنے غلاموں کو بھی ان کے ادا کرنے کی تلقین فرمائی- یہی وجہ ہے جب آپ (ﷺ) غارِ حرا میں کئی کئی روز اللہ عزوجل کی یاد میں بسر فرما رہے تھے تو پہلی وحی کے نزول کے وقت اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا) آپ (ﷺ) کی صفات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں :(یارسول اللہ ﷺ! )
’’إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ‘‘[1]
’’بے شک آپ (ﷺ) صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں (کمزوروں، یتیموں اور غریبوں) کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں مددکرتے ہیں ‘‘-
ومئی قسمت کچھ لوگ ظاہری عبادت پہ اکتفا کرتے ہیں وہ نہ تو اس عباد ت کے باطنی پہلو کا خیال رکھتے ہیں اورنہ حقوق العباد کو خاطر میں لاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات سے تسلی و دلاسہ دیتے ہیں کہ چونکہ ہم ظاہری ارکانِ اسلام (نماز ،روزہ ،زکوٰۃ وحج )کو اداکررہے اوریہی ہماری نجات کے لیے کافی ہے- بلاشبہ ظاہری ارکانِ اسلام پہ عمل پیراہونا بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر ظاہری عبادت کا ایک باطنی پہلو بھی ہے- حضور نبی رحمت (ﷺ) نے نہ صر ف اللہ عزوجل کی ظاہری و باطنی عبادت (حقوق اللہ) پہ اخلاص سے عمل پیرا ہونا سکھایا بلکہ حقوق العباد کی مکمل آگاہی و اہمیت سے بھی آشنا فرمایا ہے-
یہاں اِسی مناسبت سے صرف تین پہلوؤں ’’غریب کی مدد، بھوکوں کو کھانا کھلانا، ہمسائیوں کا خیال‘‘کے متعلق سیرت النبی (ﷺ) سے رہنمائی لینے کی سعی سعید کرتے ہیں:
غریب کی مدد:
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فر مایا:
’’بیوہ اور مسکین (کی مصلحتوں )کے لئے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثل ہے یا اس شخص کی طرح ہےجو رات کوقیام کرتا ہو اور دن کو روزہ رکھتا ہو‘‘- [2]
حضرت سہل بن سعد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فر مایا:
’’مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے،حضور نبی کریم (ﷺ) نے (یہ ارشاد فرماتے ہوئے) اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر ارشادفرمایا (یعنی بالکل قریب ہوں گے)‘‘- [3]
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سيد ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فر مایا:
’’جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دور فر مائے گا، جو شخص کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فر مائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا-اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘-[4]
حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کر دیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار فرشتوں کا سایہ کر دیتا ہے وہ فرشتے اس کے لئے اگر دن ہوتو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے‘‘-[5]
رسول اللہ (ﷺ) نے ایسے تمام لوگوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی تھی جو قرض کی حالت میں انتقال کر جاتے اور اپنے پیچھے اپنی بیوہ اور یتیم بچے چھوڑ جاتے-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’میں مؤمنوں کی جانوں سے زیادہ ان پہ متصرف ہوں پس مؤمنین میں سے جو فوت ہو گیا اور اس نے قرض کا بوجھ چھوڑا تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے‘‘-[6]
ان احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے غریب کی خدمت کرنے کی فضیلت و اہمیت سے آگاہی نصیب ہوتی ہے صوفیاء کرام چونکہ قرآن وسنت کی روح سے واقف ہوتے ہیں اس لیے وہ غرباء کی خدمت کا خاص اہتمام کرتے ہیں اور ان کے مقدس آستانوں پہ غرباء و فقراء کا تانتا بندھا رہتا ہے -غریب کی خدمت میں عظمت کے پیشِ نظر اکثر علماء کرام نے نوافل پہ خدمت خلق کو ترجیح دی ہے -
آخری حدیث مبارک کے مطالعہ سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم سب مسلمانوں میں سے کتنے خوش نصیب افراد کی قسمت میں اس سنت مبارک کی ادائیگی ہے کہ وہ کسی غریب کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی قرض کی ادائیگی کا بندوبست کرتا ہو؟ یہ حدیث مبارک تمام مسلمانوں کو دعوت فکر دیتی ہے-
ہمسائیوں کا خیال:
حضرت ابوہريره(رضی اللہ عنہ)سےمروی ہے کہ:
’’ایک شخص نےحضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی (یارسول اللہ (ﷺ)! فلاں عورت کی نماز،روزے اورصدقہ کی کثرت کا خوب چرچا ہے مگروہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے- حضورنبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: وہ دوزخی ہے- اس شخص نے (دوبارہ) عرض کی :یارسول اللہ (ﷺ)! فلاں عورت کی نماز،روزے اورصدقہ میں کمی ہے (یعنی یہ ان اعمال میں اس کی شہرت نہیں ہے) اور وہ پنیر کے چھوٹے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :وہ جنتی ہے ‘‘-[7]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) روایت بیان کرتی ہیں کہ:
’’سیدی رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جبریل مسلسل پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ عنقریب اس کو وارث (وراثت میں شریک) قرار دے دیں گے(یعنی ان کے بہت زیادہ حقوق کے بارے میں بتایاگیا) ‘‘-[8]
حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) روایت بیان کرتے ہیں کہ (مجھے) سیدی رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اے ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو‘‘-[9]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) سے روايت ہے کہ سیدی رسول الله (ﷺ) نےارشاد فرمایا :
’’وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں بھوکا رہے ‘‘-[10]
اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہے کہ پڑوسی صرف گھر کے ساتھ والا ہوتا ہے- امام طبرانی کی روایت ہم سے ہماری اس سوچ پہ نظر ِ ثانی کاتقاضاکرتی ہے کہ:
’’حضرت کعب بن مالک (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اورحضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کو مسجد کے دروازے پہ بھیجا اور وہ اس کے دروازے پہ کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرماتے: خبردار! پڑوسی (دائیں، بائیں، آگے، پیچھے) چالیس گھر تک ہے اور وہ جنت میں نہیں جائے گا جس شخص کی ایذا رسانی (تکلیف پہنچانے ) سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے‘‘-[11]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ :
’’مَیں نےعرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ دوں؟آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: ان میں سے جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر کے زیادہ قریب ہو ‘‘-[12]
امام بیہقیؒ نے’’شعب الایمان‘‘ میں پڑوسیوں کے حقوق اور اقسام کے بارے میں ایک طویل روایت رقم فرمائی ہے یہاں اس کا خلاصہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نےا رشادفرمایا:
’’کیاتم جانتے ہوکہ پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟(پھر آپ (ﷺ) نے ان کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اس کے حقوق میں سے ہے کہ) جب وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرے، جب تجھ سے قرض طلب کرے تو اسے قرض دے،جب وہ بیمارہو اس کی عیادت کرے اور اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دے اور جب اس کو مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرے، جب اس کی وفات ہو تو اس کے جنازے میں شریک ہو اور اگر پھل خریدو تو اس کو ہدیہ کرو-اگر نہ دے سکو تو اپنے گھر میں چپکے سے لے جاؤ (تاکہ اس کے بچوں کو پتا نہ چلے اور ان کی دل آزاری نہ ہو )‘‘-
مزید آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’پڑوسی کی تین اقسام ہیں ایک وہ جس کے تین حقوق ہیں-رشتہ دارمسلمان پڑوسی اس کاپڑوس کا حق،حقِ قرابت اور حقِ اسلام ہے اوروہ پڑوسی جس کے دوحقوق ہیں وہ مسلمان پڑوسی ہے اس کاپڑوس کا حق اور حقِ اسلام ہے اور وہ پڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے وہ کافر پڑوسی ہے اس کا صرف پڑوس کا حق ہے (لیکن اس کا بھی حق ہے)‘‘-
یہ بات ذہن نشین رہے کہ پڑوسی کا اطلاق صرف گھر کے ساتھ والے پر نہیں ہوتا بلکہ مفسرین کرام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی بھی پڑوسی ہے-یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو- اس اصطلاح سے مراد ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ، دفتر، فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے افراد، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل ہیں-
بھوکوں کو کھانا کھلانا:
حضرت ابوہريره(رضی اللہ عنہ)سےمروی ہے کہ:
’’ ایک شخص حضور نبی کریم(ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا (یارسول اللہ (ﷺ)! مجھے سخت بھوک لگی ہے، آپ (ﷺ) نے اپنی ازواج (مطہرات) کی طرف کسی کو بھیجا (تاکہ وہ کھانے کی کوئی چیز لائے) پس اس نے آپ (ﷺ) کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنھُنَّ) کے پاس کوئی چیز نہ پائی تو سیدی رسول اللہ (ﷺ)نےارشاد فرمایا کوئی شخص ہے جو اس رات اس کی مہمان نوازی کرے تو اللہ پا ک اس پر رحم فرمائے گا انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی: میں یارسول اللہ (ﷺ)!(اس کی مہمان نوازی کروں گا) پھر اس نے اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا: رسول اللہ (ﷺ) کے مہمان کی خاطر مدارت کرو کوئی چیز چھپا کر نہ رکھو اس نے کہا: (واللہ) میرے پاس تو صرف اس بچی کا کھانا ہے- صحابی رسول (ﷺ) نے فرمایا جب یہ رات کے کھانے کا ارادہ کرے تو اس بچی کو سلا دینا، اس چراغ کو بجھا دینا اور ہم یہ رات بھوکے گزاریں گے اس کی بیوی نے ایسا کیا پھر وہ شخص رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :بے شک اللہ عزوجل خوش ہوا یا ارشادفرمایا اللہ عزوجل فلاں مرد اور فلاں عورت کی کارگزاری سے ہنسا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت مبارک نازل فرمائی:
’’وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘[13]
’’اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘- [14]
حضرت ابو موسٰی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’العانی یعنی قیدی کو چھڑاؤ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو ‘‘-[15]
سيدنا ابوہريره (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول الله (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی گئی یارسول اللہ (ﷺ)! اعمال میں سے سب سے افضل عمل کون سا ہے تو آپ (ﷺ) نےا رشادفرمایا :
’’(سب سے افضل عمل یہ ہے) کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ‘‘-[16]
حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیدنا رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ( یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے حبیب (ﷺ)! یہ کس کیلئے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں‘‘- [17]
اسی طرح حضرت ہانی (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی :
’’اے اللہ کے رسول(ﷺ)! مجھے ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تُو اچھی بات کرنے اور کھانا کھلانے کو اپنے اوپر لازم کرلے (یعنی یہ کام کیاکر)‘‘-[18]
جو لوگ اپنے رب کی دی ہوئی وسعت و تر قی کے باوجود ایسے ضرورت مند وں کے لئے خرچ نہیں کرتے وہ غر یبوں کی امداد نہ کر نے کے وبال کو سمجھیں- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُo ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُo ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُo اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللہِ الْعَظِیْمِo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo[19]
’’(حکم ہوگا:) اسے پکڑ لو اور اسے طوق پہنا دو-پھر اسے دوزخ میں جھونک دو-پھر ایک زنجیر میں جس کی لمبائی ستر گز ہے اسے جکڑ دو-بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ محتاج کو کھانا کھلانے پر رغبت دلاتا تھا‘‘-
اسی طرح اللہ پاک نے ابرار لوگوں کی صفات کا تذکر ہ فرماتے ہوئے سورۃ الدھر میں ارشادفرمایا :
’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا‘‘[20]
’’اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو(اور)ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے‘‘-
سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی امت کے غرباء و فقراء اور دیگر ضرورت مندوں کے لئے زکوٰۃ و صدقات کی صورت میں ایسا مضبوط و مستحکم نظام قائم فرمایا کہ اگر ہر مسلمان اپنے حصہ کا فریضہ ادا کرے تو دنیائے اسلام کے طول و عرض میں کہیں بھی محتاج اور گدا گر نظر نہ آئیں -
اپنے حصے کے فریضے ادا نہ کرنے کے سبب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تنگ دستی سے پریشان لوگ عیسائی مشینریوں اور بد مذہبوں کی امداد کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں جس کا بھرپور فا ئدہ اٹھایا جارہا ہے-کاش کہ مسلمان اپنے فرائض کی ادائیگی پہ سوچتے ، اس کی طرف توجہ دیتے اوراللہ پاک کے اس فرمان مبارک پر عمل کرتے:
’’کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھڑانے میں (اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت، یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں‘‘-[21]
دوسرے مقام پہ ارشادفرمایا:
’’تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے اور جو بھلائی کرو بےشک اللہ اسے جانتا ہے ‘‘-[22]
خلاصہ کلام :
اسلام انسان کوحقوق اللہ اور حقو ق العباد کی کامل تکمیل کا درس دیتاہے اورصوفیاء کرام کا ہمیشہ یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے اپنے باطنی فیوض و برکات سے جہاں عوام الناس کے قلوب و اذہان کو مالا مال کیا وہاں خدمتِ خلق میں اپناثانی نہیں رکھتے- اس لیے جہاں ہر بڑی خانقاہ پہ روحانی تلقین کا انتظام ہوتا ہے وہاں غریبوں کی دل جوئی اورمہمانوں کے قیام و طعام کا مناسب انتظام ہوتاہے -
آج ہمارے قائد ومرشد جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمدعلی صاحب (مدظلہ الاقدس) اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جہاں فقر و معرفت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچارہے ہیں وہاں خدمتِ خلق میں مخلوق خدا کے لیے مثالیں قائم فرما رہے ہیں وہ اس صورت میں کہ آپ (دامت برکاتہم العالیہ )کا وسیع لنگر عوام الناس کے لیے صبح و شام بلاامتیاز جاری و ساری رہتا ہے- اس کے ساتھ ہزاروں طالب علم فی سبیل اللہ علم دین کے نورسے اپنے قلوب و اذہان کو منور کررہے ہیں- اصلاحی جماعت کے پلیٹ فارم سے بلا تفریق ہر خاص وعام کو دعوت دی جارہی ہے کہ آئیں اس قافلہءِ خیر میں شامل ہو کر اپنے باطن کو نورِ معرفت وحقیقت سے منور کریں اور جذبہ خدمت خلق کو جلا بخش مکارمِ اخلاق کی تکمیل کریں-اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو!
٭٭٭
[1]( صحیح البخاری، بَابُ بَدْءِ الوَحی)
[2]( صحیح البخاری ،کتاب النفقات)
[3]( صحیح البخاری ،کتاب الادب)
[4]( صحیح مسلم، كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ)
[5]( شعب الایمان،باب التعاون علی البر والتقوٰی)
[6](صحیح البخاری ،كِتَابُ النَّفَقَاتِ)
[7]( مسند الإمام أحمد بن حنبل،باب: مسند ابی ہریرہؓ)
[8](ایضاً)
[9]( صحیح البخاری، بَابُ الوَصَاةِ بِالْجَارِ)
[10](المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ الْبُيُوعِ)
[11](المعجم الكبيرللطبرانی ، باب الكاف)
[12](صحیح البخاری ،كِتَابُ الشفعه)
[13](الحشر:9)
[14](صحیح البخاری،کتاب التفسیر)
[15](صحیح البخاری، بَابُ فَكَاكِ الأَسِيرِ)
[16](شعب الایمان،باب التعاون علی البر والتقوٰی)
[17]( سنن الترمذی، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ)
[18](مصنف ابن شیبہ، کتاب الادب)
[19](الحاقہ:30-34)
[20](الدھر:8-9)
[21](البقرہ:177)
[22](البقرہ:215)