سیرت النبویﷺ کی روشنی میں ایک مسلمان کی اخلاقی ذمہ داریاں

سیرت النبویﷺ کی روشنی میں ایک مسلمان کی اخلاقی ذمہ داریاں

سیرت النبویﷺ کی روشنی میں ایک مسلمان کی اخلاقی ذمہ داریاں

مصنف: لئیق احمد اکتوبر 2020

فاق النبیین فی خلق و فی خلق
ولم یدا نوہ فی علم و لا کرم

’’وہ اپنی سیرت میں بھی اور اپنی صورت میں بھی سب انبیائے کرام (علیھم السلام)سے فائق ہیں اور ان کے علم و کرم میں بھی اُن میں سے کوئی اُن کے ہم پلہ نہیں ہے‘‘-

’’اَخلاق خُلق کی جمع ہے جس کے معنی عادت، طبعی خصلت، طبیعت، مزاج اور فطرت کے ہیں‘‘- [1]

صاحبِ لسان العرب لکھتے ہیں:

’’الخلق و الخلق السجية و هو الذين و الطبع و السجية و حقيقة انه لصورة الانسان الباطنة و هي نفسه و اوصافها و معانيها المختصة بمنزلة الخلق لصورتها الظاهرة و اوصافها و معانيها ‘‘[2]

’’خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبیعت ہے انسان کی باطنی صورت کو اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے ساتھ خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے‘‘-

اخلاق انسان کے وہ اعمال اور عادات ہوتے ہیں جو اس کی فطرت میں پختہ ہوں نہ کہ بناوٹی  اور بلا تکلف اس سے صادر ہوتے ہوں- انسان کے اخلاق سے اس کے مزاج اور رویے کی عکاسی ہوتی ہےکہ وہ کس طبیعت کا مالک ہے اور اس کا کردار کن حرکات و سکنات کا جامہ ہے- اخلاق کی دو اقسام ہیں:

1-اخلاق الحسنۃ :(فضیلت؛ اچھے اخلاق)

2- اخلاق السئیۃ: (رزیلت؛ برے اخلاق)

فردِ واحد کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی انقلاب بپا کرنے کی قوت رکھتے ہیں اوربہترین معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے-دینِ اسلام نے جو اخلاق کا رول ماڈل آقا پاک (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی صورت میں پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے بہترین اسوۂ حسنہ ہے-آقا کریم (ﷺ) کے اعلیٰ اخلاق پر خالقِ اخلاق کا فرمان ہے:

’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘[3]

’’اور بے شک آپ (ﷺ) اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں‘‘-

آقا کریم (ﷺ) کے مزاج شریف پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ ج لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ‘‘[4]

’’ (اے حبیب) خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘-

شیخ عبدالحق محدث دہلوی’’مدارج النبوۃ‘‘ میں حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اکمل محاسن الافعال‘‘

’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا‘‘-

ایک روایت میں ہے:

’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘[5]

’’یعنی مجھےاچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا‘‘-

حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کے اخلاقِ حسنہ کے متعلق عبدالمصطفٰےاعظمی رقمطراز ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے- یعنی حلم و عفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد،  شجاعت، ایفائے عہد، حسن معاملہ، صبر و قناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری،مساوات، غمخواری، سادگی و بےتکلفی، تواضع و انکساری،حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ (ﷺ) فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے ایک جملے میں اس کی صحیح ترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پرپورا پورا عمل آپ (ﷺ) کے اخلاق تھے‘‘- [6]

اللہ تعالیٰ نے حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کوپوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا ہے- آپ کی بعثت باعثِ تکمیل اخلاق حسنہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کی ہر جہت میں آقا کریم (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ کو عملی جامہ پہنا کر اوڑھ لیں، آپ(ﷺ) کے اخلاق سے متخلق ہو جائیں، آپ (ﷺ) کے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہو جائیں اور بحیثیتِ فرد اور بحیثیتِ مجموعی آپ(ﷺ) کی سیرت کو مشعلِ راہ بناکر اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی تکمیل کریں-بالفاظِ دیگر ہر مسلمان سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرنے کا مواخذہ دار ہے- خواہ انفرادی سطح پر ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی سطح پر کسی عہدہ و منصب پر فرض شناسی کے آداب ہوں زندگی کے ہر شعبے میں آپ (ﷺ) نے آدمی کیلئے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن و اکمل ادا کرنے کا ایک آئیڈیل نمونہ پیش فرمایا ہے-

اخلاقی ذمہ داریاں بحیثیتِ انفرادی:

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کی صورت میں ہر مسلمان مومن کیلئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ مہیا فرما دیا- زندگی کی ہر جہت میں اور ہر کردار میں، انفرادی نشونما سے لے کر معاشرے کی تشکیل تک ہمیں آقا کریم (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے -

1-بطور والد کے ذمہ داری:

صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی شہزادیوں اور شہزادوں (نواسوں) کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے-بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرضیکہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہیئے- آقا کریم (ﷺ) نے اسے خود کرکے دکھایا اور سمجھایا ہے- حدیث مبارکہ ہے:

اُم المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ:

’’قَدِمَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)‏‏‏‏ فَقَالُوا‏‏‏‏ أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ؟ قَالُوانَعَمْ‏‏‏‏ فَقَالُوا ‏‏‏‏ لَكِنَّا وَاللهِ مَا نُقَبِّلُ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ) وَ أَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللهُ قَدْ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ؟

’’کچھ اعرابی حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں ( خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! ( اپنے بچوں کا ) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) حضور نبی اکرم (ﷺ)نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے ‘‘- [7]

سیدنا مقدام بن معدی کرب (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے :

’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: تم اپنے آپ کو جو کھلاؤ گے، وہ تمہارے لیے صدقہ ہو گا، تم اپنی اولاد کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا،تم اپنی بیوی کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہارا صدقہ ہو گا اور تم اپنے خادم کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا‘‘-[8]

2-بطور اولاد کے ذمہ داری:

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ (رضی اللہ عنہا) آپ کے بچپن میں ہی انتقال فرما گئیں اور والد ماجد حضرت عبداللہ بن عبد المطلب آپ کی ولادت سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے- لیکن رحمۃ اللعالمین (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ چونکہ اسوۂ حسنہ ہے اس لیے جب جب آپ نے والدین کا ذکر فرمایا ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک کا معاملہ رکھنے کی تلقین فرمائی- حضور نبی کریم (ﷺ)نے اولاد کیلئے بطور خاص والدین سے حسن سلوک کی ترغیب و تلقین فرمائی ہے- حدیث مبارکہ ہے:

’’حضرت فضیل نے عمارہ بن قعقاع سے انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ، کہا : ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول! لوگوں میں سے ( میری طرف سے ) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا:  تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہاری ماں ، پھر تمہارا باپ ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی ( رشتہ دار ) ہو ، ( پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو‘‘- (اسی ترتیب سے آگے حق دار بنیں گے - ) [9]

حضورنبی کریم (ﷺ) نے ایک شخص کی زندگی میں والدین کے مقام اور ان کی حیثیت کی اہمیت اس انداز سے بیان فرمائی کہ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ قرار دیا اور والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو جنت کا راستہ بتلایا- ایک موقع پر حضور نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا:

 ’’ان اللّٰہ عز و جل یوصیکم بأمھاتکم‘‘ [10]

’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہیں‘‘-

’’ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللهِ،‏‏‏‏ مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ ‘‘[11]

’’ابو امامہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا: وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں ‘‘-

عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا کہ:

’’میں نے حضور نبی کریم (ﷺ)سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا- پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا‘‘-[12]

حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’ایک صحابی نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ حضور نبی کریم (ﷺ) نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ پھر انہیں میں جہاد کرو‘‘-[13]

3-بطور شوہر کے ذمہ داری:

رشتۂ ازدواج سماج کی عمارت کی اکائی تسلیم کی جاتی ہے- اللہ تعالیٰ نے اُنسِیّت و محبت کا جو رشتہ نکاح کے ذریعہ رائج فرمایا ہے اس سے حسنِ معاشرت میں اضافہ در اضافہ ہوتا ہے - ایک مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو حدیث کی رو سے اس کا ایمان تکمیل پاجاتا ہے- لہٰذا اس رشتۂ اِلتفات میں اخلاق کا دائرہ کار بھی بہت وسیع کیا گیا ہے جس میں لطافت، مزاح، ادب، احسان وغیرہا شامل ہیں- شوہر پر بیوی کے حقوق متعین کیے گئے ہیں اور اس کی قدر و منزلت کا حکم دیا گیا ہے- نیک بیوی کو متاع قرار دیا گیا ہے،حدیث مبارکہ ہے:

’’وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) الدُّنْيَا كُلُّهَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَة الصَّالِحَة» . رَوَاهُ مُسلم

حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا مکمل طور پر متاع ہے اور بہترین متاعِ دنیا نیک بیوی ہے ‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا:

’’خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي‘‘[14]

’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں ‘‘-

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ :

’’رسول اللہ (ﷺ)غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیااور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! یہ کیا ہے؟“ میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولیں: گھوڑا، آپ نے فرمایا: ”اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے؟“ وہ بولیں: دو بازو، آپ نے فرمایا: ”گھوڑے کے بھی بازو ہوتے ہیں؟ وہ بولیں: کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک گھوڑا تھا جس کے بازو تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لی‘‘-[15]

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

’’انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا :’’جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ ، اس کے چہرے پر نہ مارو ، نہ اسے بُرا بھلا کہو اور (ناراضگی پر) صرف گھر میں اس سے علیحدگی اختیار کرو ‘‘ -[16]

4-بطور سردار (مالک)کے ذمہ داری

حضرت زید بن حارثہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمانے والے تھے- آپ کوام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا)نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں دیا تھا - آپ (ﷺ)کا حضرت زید (رضی اللہ عنہ)سے محبت کا رویہ اس قدر عیاں تھا کہ آپ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور انہیں آزاد کی حیثیت عطا فرمائی-[17] یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں آپ (رضی اللہ عنہ)کوحب النبی یعنی نبی کے محبوب کا لقب بھی ملا-[18]

5-بطور بھائی کے ذمہ داری

آقا پاک (ﷺ)کے سگے بھائی بہن نہیں تھے بلکہ آپ کی پرورش آپ (ﷺ) کے چچا حضرت ابو طالب نے فرمائی اور آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سےحضور نبی کریم (ﷺ) بے حد محبت فرماتے-

سیدنا عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ (ﷺ) نے جب مدینۂ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! (ﷺ) آپ نے سارے صحابۂ کرام (رضی اللہ عنھم) کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا- حضورِ نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ ‘‘[19]

’’(اے علی!) تم دُنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو‘‘-

6-بطور اعزاء و اقرباء کے ذمہ داری

حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

’’دینے والے کا ہاتھ اوپر (برتر) ہوتا ہے، پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر‘‘-[20]

 حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی اہلیہ حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا شوہر ضرورت مند ہے کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا:

 ’’نعم ولک أجران‘‘

’’ہاں تمہیں اس صدقے کا دوہرا اَجر ملے گا‘‘-

ایک شخص نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ:

’’ یا رسول اللہ ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا اگر تمہیں کوئی بکری وادی میں اس حال میں ملے کہ اس نے چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا‘‘- [21]

7-بطور پڑوسی کے ذمہ داری

دین اسلام معاشرت کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ نہ صرف فرد کی ذاتی تسکین و تسلی کا ضامن بنتا ہے بلکہ معاشرے کے دوسرے افراد کیلئے بھی خیر و آفیت اور دردِ دل کی فضا ہموار کرتا ہے- معاشرتی نظام میں سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے اور آقا پاک (ﷺ) نے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والوں کو افضل و برتر فرمایا ہے-

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہو‘‘-[22]

سیدنا ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا ہمسایہ اس کے فساد سے محفوظ نہیں“ -[23]

سیدنا عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے سیدنا عبد اللہ ابن زبیر (رضی اللہ عنہ) کو خبر دیتے ہوئے کہا: میں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا:

”وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھاتا ہے جبکہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے“ -[24]

اخلاقی ذمہ داریاں بحیثیتِ مجموعی

حضرت ابوبکرہ (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم (ﷺ)نے یوم نحر کو ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’فان دماءکم و أموالکم و اعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا وفی بلدکم ھذا ‘[25]

’’پس بےشک تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تم  (میں سے ہرایک )پر اسی طرح حرام ہیں جیساکہ آج کےدن کی، آج کےاس  مہینے  میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے‘‘-

اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا :

’’ألا، انما ھن أربع: أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئاً، ولا تقتلوا النفس التی حرم اللّٰہ الاّ بالحق، ولا تزنوا، ولا تسرقوا‘‘ [26]

’’ آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو نا حق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا‘‘-

حضور نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا:

’’الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ‘‘ [27]

’’ سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا- کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے‘‘-

٭٭٭


[1](المعانی لکل اسم معنی، ترجمۃ و معنی خُلُق فی قاموس عربی)

[2](ابنِ منظور، لسان العرب، جلد:10، ص:86)

[3](القلم:4)

[4](الانعام:159)

[5]( شیخ عبد الحق حق محدث دہلوی، مدارج النبوت، ج:1، ص:63)

[6](عبد المصطفیٰ اعظمی، سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ)، اٹھارواں باب:اخلاقِ نبوت، ص:600)

[7](سنن ابنِ ماجہ، باب آداب و اخلاق)

[8]( مسند احمد،ج:4،رقم االحدیث: 3622)

[9](صحیح مسلم،رقم الحدیث: 6501 )

[10]( المعجم الکبیر، رقم الحدیث:7647)

[11]( سنن ابنِ ماجہ، باب آداب و اخلاق)

[12]( صحیح بخاری، کتاب الادب)

[13](ایضاً)

[14]( سنن ابن ماجہ، بَابُ : حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ)

[15]( سنن ابی داؤد، کتاب الادب)

[16](مشکوۃ المصابیح،رقم الحدیث: 3259)

[17]( تفسیر در منثور، زیر آیت الاحزاب:5)

[18](تہذیب الاسماء،ج:1، ص:198)

[19](سنن ترمذی،کتاب المناقب)

[20](مسند احمد، رقم الحدیث:16018)

[21](السنن الکبرٰی للبیہقی، رقم الحدیث: 11305)

[22](سنن تّرمذی، رقم الحدیث:1944)

[23]( صحیح مسلم، کتاب الایمان)

[24]( البخاری فی الادب المفرد كِتَابُ الْجَارِ بَابُ لا يَشْبَعُ دُونَ جَارِهِ)

[25](صحیح مسلم، كِتَابُ الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَ الْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ)

[26]( مسند احمد، رقم الحدیث:18220)

[27]( مسند احمد،رقم الحدیث:19774)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر