سیرۃالنبیﷺ

سیرۃالنبیﷺ

اہل لغت نے ’’سیرت‘‘کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً:طریقہ، ہیئت، طرز ِزندگی، چلنا پھرنا، کردار، لوگوں کے ساتھ برت برتاؤ کی کیفیت، سوانح عمری، چال چلن، حالت، عادت، خصلت، وغیرہ-[1]

لفظ ’’سیرت‘‘ قرآن کریم میں بھی آیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

’’قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَفْ وقفۃ سَنُعِیْدُہَا سِیْرَتَہَا الْاُوْلٰی‘‘[2]

’’ فرمایا اُسے اُٹھالے اور ڈر نہیں اب ہم اُسے پھر پہلی طرح کردیں گے ‘‘-

اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو فرمایا جارہا ہے کہ اس سانپ کو پکڑ لے ہم اس کو اُسی پہلی حالت اور ہیئت یعنی عصاء میں تبدیل کردیں گے تو یہاں پر لفظ ’’سیرت‘‘ ہیئت، حالت اور شکل و صورت کے معنی میں آیاہے-

 لفظ ’’سیرت‘‘ کی اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے اگر چہ کسی شخص کی سوانح حیات، اس کے کردار،یا اس کے زندگی گزارنے کے طور اطوار، رہن سہن، چال چلن اور مزاج وغیرہ پر دلالت ہے-لیکن سیرت کا لفظ اپنےعمومی مفہوم کے اعتبار سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے حالاتِ زندگی، طرزِ زندگی، اخلاقیات شریف، عاداتِ مبارکہ، لوگوں کے ساتھ معاملات، غزوات و سرایا کے حالات و واقعات بلکہ ولادت باسعادت سے لے کر یوم ہجر تک کی حیات مُبارک کے ایک ایک گوشے کو بیان کرنے کا نام ہے-

دراصل سیرتُ النبی (ﷺ) ہی اسلام کی عملی تصویر ہے،وحی الٰہی کی پریکٹیکل صورت ہے،یہی اسلام کی بنیاد ہے، یہی مسلمانوں کی طاقت کا سرچشمہ ہے، یہی مسلمانوں کی فتوحات کا دروازہ ہے، یہی اسلام کا ماضی ہے اور یہی اسلام کا مستقبل ہے-

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم و اُمت کےپاس ماضی کا سب سے قیمتی سرمایہ اُن کی سیرت و کردار ہوتا ہے اِس کی اہمیت کا اندازہ قُرآن مجید کی اِس آیت مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے :

’’فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘ [3]

’’سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘-

اللہ تعالیٰ نے ہمیں خصوصی طور پر اپنے ماضی، تاریخ اور سیرت و کردار میں جھانکنے کی طرف متوجہ کیا ہےاور دوسرے مقام پر قرآن مجید اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

’’نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘[4]

’’(اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں‘‘-

یہاں پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصے کو احسن القصص فرمایا گیا ہے گویا کہ سیرت انبیاء (علیھم السلام)کو احسن سیرت اور اس کو بیان کرنا سنت الٰہیہ ٹھہرایا گیا ہے- قُرآن کریم ایک اور مقام پر ’’سیرت انبیاء (علیھم السلام)‘‘ کو بیان کرنے کی افادیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

’’وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ‘‘[5]

’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اطہر) کو تقویت دیتے ہیں‘‘-

مفسرین کرام نے تفاسیر میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء و رسل (علیھم السلام) کا ذکر مبارک، اُن کے قصے، اُن کے تذکرے، اُن کی سیرت، یہ سب کچھ مسلمانوں کے قلوب کی تقویت، طہارت اور دین پر ثابت قدم رکھنے کا مکمل سامان ہے-

اس لئے آج پورا عالم کفر اپنی توانائی کا بہت بڑا حصہ اس کام پر صرف کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے مسلمان قوم کے ذہنوں میں ’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت و کردار‘‘ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں تاکہ ان کا تعلق ’’سیرت النبی (ﷺ)‘‘سے کٹ جائے- بالفاظ دیگر کہ جو اُن کے ایمان کی انرجی کا بنیادی سرچشمہ ہے جہاں سے یہ عزت اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کیلئےسانس لیتے ہیں ان کا منبع و مصدر ختم ہو جائے- کیونکہ سیرت مصطفٰے (ﷺ) پر عمل کرنے سے جو آدمی کے وجود میں طاقت اور برکت آتی ہے وہی اِس کی فتوحاتِ دینی و دنیوی کا سر چشمہ ہے-

’’حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی تو کہا جائے گا، ’’آیا تم میں سے کوئی شخص نبی پاک (ﷺ) کا صحابی ہے‘‘ تو کہا جائے گا کہ ہاں! پھر ان کو فتح حاصل ہوگی- پھر ایک زمانہ آئے گا تو کہا جائے گا کہ ’’آیا تم میں سے کوئی شخص نبی پاک (ﷺ) کےاصحاب میں سے مصاحبت رکھنے والا (یعنی تابعی) ہے‘‘ تو کہا جائے گا کہ ہاں! پھر ان کو فتح حاصل ہوگی- پھر ایک زمانہ آئے گا تو کہا جائے گا کہ ’’آیا تم میں سے کوئی شخص نبی پاک (ﷺ) کےاصحاب کے اصحاب سے مصاحبت رکھنے والا (یعنی تبع تابعی) ہے‘‘ تو کہا جائے گا کہ ہاں! پھر ان کو فتح حاصل ہوگی‘‘-[6]

یہ ہے سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی تاثیر، جتنا کوئی اپنے آپ کو سیرت کےپیکر میں ڈھالتا جائےگا اسی قدر اس کے وجود میں تاثیر پیدا ہوتی جائے گی-

سیرت مصطفٰے (ﷺ) کی پاکیزگی اور شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ (ﷺ) کی ذات پاک سے وابستہ ہر لمحہ، ہر خیال،ہر سانس، ہر گھڑی بلکہ زندگی مبارک کا ہر ہر گوشہ اتنا پاکیزہ،معطر اور صاف و شفاف ہے کہ جس کو قرآن کریم کی حقانیت، اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے اور نبوت کی صداقت پر دلیل بنایا گیا ہے- جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ‘‘[7]

’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘-

جس کی حیات مبارک کے ایک ایک لمحے کو اللہ تعالیٰ دلیل کے طور پر پیش کرنے کا حکم فرمائے اس کی پاکیزگی کا عالم کیا ہو گا-جس کی پوری عُمر مبارک پر ’’لعمرک‘‘ کی مہر ثبت ہو اُس کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی طہارت کا عالم کیا ہو گا ؟

حضرت سعد بن ہشام (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق کے بارے میں ارشاد فرمائیں تو آپ (رضی اللہ عنہا) نے ارشاد فرمایاکہ:

’’ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ‘‘[8]

’’ آپ (ﷺ) کا خُلق قرآن تھا‘‘-

حافظ ابن کثیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ’’خُلقِ قرآن‘‘ والی روایات کو نقل کرنے کے بعد بطور خلاصتاً اور نتیجتاً لکھتے ہیں:

’’ومعنى هذا أنه عليه الصلاة والسّلام صَارَ امْتِثَالُ الْقُرْآنِ ‘‘[9]

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) مجسم قرآن تھے‘‘-

یہاں پر دو چیزیں قابل غور ہیں:

ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے تو یوں قرآن کریم کی حفاظت میں سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی حفاظت بھی شامل ہے کیونکہ آپ مجسم قرآن ہیں-یہی وجہ ہے کہ 1400 سال سے جس قدر آپ (ﷺ) کی زبان اقدس سے نکلا ہوا ایک ایک حرف، آپ (ﷺ)کی حرکات و سکنات کی ایک ایک ادا، آپ (ﷺ) کے وجود مبارک کا ایک ایک خدو خال، آپ (ﷺ) کی گفتار و کردار اور انداز محفوظ ہیں؛ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیرت مصطفےٰ (ﷺ)کی حفاظت قرآن کی حفاظت میں شامل ہے-

دوسری چیز یہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم کےمتعلق حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ:

’’ لَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ وَلَا تُبْلَغُ غَايَتُهُ‘‘[10]

 اس قرآن مجید کے عجائب ختم ہونےمیں نہ آئیں گے اور اس کی غایت تک پہنچ نہ ہوگی‘‘-

ہر آنے والا دن قرآن پاک کے حقائق اور معارف کی ایک نئی دنیا لے کر آرہا ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے-اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت و ارشادات میں پنہاں حقائق و معارف بھی ایک لامتناہی اور متلاطم سمندر ہے جو بھی سیرت پر قلم اٹھاتا ہے وہ دوسرا کنارہ نہیں پاتا-کیونکہ اوصافِ قرآن اوصافِ مصطفےٰ (ﷺ) ہیں-

سیرتُ النبی (ﷺ) کا ہر دور کے لئے قابل عمل ہونا :

حضور نبی کریم (ﷺ) چونکہ تمام نبی نوع انسان کی رہنمائی کیلئے مبعوث کئے گئے ہیں اس لئے آپ (ﷺ) کی سیرت پاک انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ ضروری بھی تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بھیجا ہی اس شان سے ہے :

’’تَبٰـرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا ‘‘[11]

’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ ’’تمام جہانوں کے لیے ‘‘ ڈر سنانے والا ہو جائے‘‘-

’’ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘[12]

’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) ’’پوری انسانیت کے لیے‘‘ خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘-

آپ(ﷺ) کی رسالت عامہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جتنے بھی انسانی شعبہ ہائے زندگی ہیں ان میں ہر ایک آدمی کو ہدایت و رہنمائی کا مکمل سامان فراہم کیا جائے، چاہے باپ ہو، بیٹا ہو، شوہر ہو،تاجر و دکاندار ہو، استاد و شاگرد ہو،مبلغ ہو، قانون ساز ہو، سیاست دان ہو، حکمران ہو، سربراہِ فیملی یا خاندان ہو، یا ایک عظیم سپہ سالار ہو، سیرت النبی (ﷺ) میں ہر ایک لئے ہدایت و رہنمائی کا سبق موجود ہے-

جب ایک سپہ سالار اور مجاہد اسلام آپ (ﷺ) کی سیرت پاک کا مطالعہ کرتا ہے تو اس پر یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ بڑے سے بڑے طاقتور دشمن کے سامنے کس طرح عزم و استقلال کی آہنی دیوار ثابت ہوا جا سکتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجائے توپھر دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا سکتا ہے- قرآن کریم نے ہمیں اسی طرف متوجہ کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ‘‘[13]

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے‘‘-

چونکہ آپ (ﷺ) مظہر اتم اور مظہر کامل تھے اس لئے آپ (ﷺ) کا ہر وصف اپنی معراج کو پہنچا ہوا تھا-

علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی(المتوفی:1350ھ)سید عبد الکریم الجیلی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ:

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (ﷺ) ہرکمالات کا مظہر ہیں اور اللہ تعالی کے اسما ء وصفات کےحقائق کا مظہر کا مل ہیں ‘‘- [14]

جس طرح رسول اللہ (ﷺ) جمال و صفاتِ الٰہی کے مظہرِ کامل ہیں، اُسی طرح آپ (ﷺ) کی امت کے اولیاء سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق و صفات کے مظہرِ کامل بنے  ہیں- اس وقت راقم دنیا کے جس خطے سے بارگاہ رسالت کی دریوزہ گری کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے اس کا سیرت النبی (ﷺ)  کے ساتھ بڑا ہی گہرا تعلق ہے-یہ خطہ برصغیر کا خطہ ہے، ساری دنیا میں اسلام کا پھیلنا سیرت النبی (ﷺ) کا فیضان ہےاس میں شک نہیں-لیکن برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پھلنا پھولنا فقط سیرت النبی (ﷺ) کے پیکر میں ڈھلے ہوئے صوفیاء کرام کی سیرت و کردار کا ہی نتیجہ ہے-

٭٭٭


[1](لسان العرب/ تاج العروس/ المنجد / مصباح اللغات/ فیروز اللغات)

[2]( طہ : 21)

[3]( الاعراف : 176)

[4]( یوسف : 3)

[5]( ھود : 120)

[6]( صحيح البخارى، کتاب الجہاد)

[7]( یونس : 16)

[8]( مسند احمد بن حنبل/ شعب الایمان للبیہقی)

[9](تفسیر ابن کثیر، سورۃ القلم، زیر آیت:4)

[10]( الإتقان في علوم القرآن)

[11]( الفرقان : 1)

[12]( السبا: 28)

[13]( الاحزاب : 21)

[14](جواہر البحار، فی فضائل النبی المختار (ﷺ)، ج:4، ص:285، دارلکتب العلمیہ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر