قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک جس ذات ِوالا صفات کو کامل اور خوبصورت نمونہ عمل بنا کر پیش کیا ہے وہ خاتم النبیین (ﷺ) کی ذات ِبابرکات ہے-اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کبھی بھی کوئی شخص سیرت، کردار، اوصاف، خصائل، فضائل اور اخلاق حمیدہ میں آپ کی مثل نہ تھا اور نہ ہو سکے گا- اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء و رسل (علیھم السلام)کثرت سے دنیا کے ہر کونے میں تشریف لائے اور یقیناً ان کی تعلیمات احکام ِ خداوندی کے مطابق رہیں- اللہ تعالیٰ نے ہر نبی و رسول کو اپنے اپنے دور اور اپنی اپنی قوم کیلئے ایک جامع اور کامل نمونہ عمل بنایا لیکن ان انبیاء کا تعلق اور ان کی تعلیمات کا دائرہ خود اپنی اقوام تک ہی محدود تھا چنانچہ نہ انہوں نے اپنی عالمگیریت کا دعوی کیا اور نہ ہی خدائے رب ذوالجلال نے ان میں سے کسی ایک کو بھی آخری و ابدی رہنما قرار دیا- ہر نبی مطلع ِ ہدایت پر نیر تاباں بن کر چمکا اور فیض رسانی کرتا اور فریضہ دعوت دیتا ہوا وصالِ رب سے آشنا ہوگیا-
آج ان برگزیدہ ہستیوں میں سے کئی ہستیوں کے نام زبان زد عام و خاص ہیں، لیکن جہاں تک ان کی تعلیمات اور بالخصوص ان کے اخلاق و کردار اور سیرت و صورت کی بات ہے وہ یقینا ً قابلِ ستائش اور لائقِ توصیف ہی ہوگی کیونکہ کار ِ نبوت پر فائز ہونے والی کوئی ہستی ایسی ہو ہی نہیں سکتی جس میں اعلیٰ انسانی اوصاف اور اخلاق و کردار کا جوہر معمولی درجے میں بھی کم ہو- تمام انبیائے کرام انسانی عیوب سے منزہ تھے- صداقت،امانت اور دیانت ان کا خِلقی و خُلقی جوہر تھا، اس لئےدنیا کا بڑے سے بڑا باکمال انسان اپنے قول و فعل اور سیرت و کردار میں کسی بھی پیغمبر کی ہمسری کے دعوی کی ہمت نہیں کر سکتا- ان مقدس ہستیوں کی اخلاقی رفعت، مواعظ و نصائح کی عمدگی میں کوئی شبہ نہیں لیکن حضور (ﷺ) سے قبل تشریف لائے ہوئے انبیاء و رسل (علیھم السلام) کے بارے میں کیا خود دنیا جانتی ہے؟ اور ان کے عملی اخلاق کے بارے میں کوئی حقیقی مثال ان کے پاس موجود ہے؟ کیا دنیا کو خود ان بزرگوں کے عملی اخلاق کا تجربہ اور علم بھی ہے؟ کوہِ زیتون کے پر تاثیر وعظ کی معصومانہ باتیں، سچائی اور راست بازی کی نصیحتیں، لفظی صنائع و بدائع اور دلکش تمثیلوں سے بھری ہوئی شیریں بیانی دنیا نے سنی، ان کی فصاحت اور لذتِ سماعت کا مزہ اب تک زبان و سماعت میں رس گھول رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وعظ ِبے مثال کی عملی مثالیں بھی کسی نے دیکھیں؟ کیا اس اخلاق کے سلبی پہلو کے علاوہ اخلاق کا کوئی ایجابی پہلو بھی ہمارے سامنے آیا ہے؟ وہ جس نے یہ کہا کہ ’’سب کچھ جو تمہارے پاس ہے جب تک اس کو خدا کی راہ میں لٹا نہ دو آسمان کی بادشاہت میں داخل نہ ہو گے‘‘ کیا اس نے بھی اپنا سب کچھ راہ خدا میں لٹایا؟ وہ جس نے یہ کہا کہ ’’شریروں کا مقابلہ نہ کر و‘‘ کیا اس نے بھی خود شریروں کا مقابلہ نہیں کیا؟ وہ جس نے یہ کہا کہ ’’دشمنوں کو بھی پیار کرو‘‘ کیا اس نے بھی کبھی اپنے دشمن کو پیار کیا؟وہ جس نے یہ کہا کہ ’’تو اپنے پڑوسی کو اپنے سارے جان و مال سے پیار کر‘‘کیا خود بھی اس کا ایسا ہی عمل تھا؟ وہ جس نے یہ کہا کہ ’’اگر کوئی تمہارے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو بایاں گال بھی اس کے سامنے کر دو‘‘ کیا اس نے خود بھی ایسا ہی کیا؟ وہ جس نے یہ کہا کہ ’’تم سے اگر کوئی تمہارا کرتا مانگے تو اپنی قباء بھی اس کے حوالے کر دو‘‘-کیا ایسی فیاضی کا خود اس سے بھی ظہور ہوا؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسیح علیہ السلام میں یہ صفتیں موجود نہ تھیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ نبی کا قول و فعل آپس میں متضاد ہو ہی نہیں سکتا لیکن اس کے باوجود اَوراق تاریخ میں ان عظیم المرتبت ہستیوں کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں بہت کم مستند مواد دستیاب ہو پاتا ہے- مرورِ ایام نے انبیاء کی شخصیات، تعلیمات اور اخلاق کو مستور کر رکھا ہے- حضرت مسیح (علیہ السلام) قدیم رسولوں میں سب سے آخری رسول ہیں مگر آپ کا معاملہ بھی تاریخی اعتبار سے یہ ہے کہ مغرب کے ایک بڑے مفکر برٹرینڈ رسل (B Rusell)کو یہ کہنے کا موقع ملا :
“Historically, it is quite doubtfull whether Christ ever existed at all”.
’’تاریخی اعتبار سے خود یہ معاملہ بڑا مشتبہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کا اس دنیا میں کبھی وجود تھا بھی یا نہیں ‘‘-
یعنی جب سلسلہ زندگانی کے ابواب ہی مستور اور مشکوک ہو جائیں تو تعلیمات اخلاق ِ رسول کا ظہور کیسے ممکن ہو پائے گا-
اسی طرح ہندوستان، ایران، چین، روم، یونان سمیت دوسرے ملکوں کے بانیانِ مذاہب اور اصحابِ فکر و فلسفہ کی اخلاقی و عملی زندگی کا کوئی جائزہ لینا چاہے تو معلوم ہوگا کہ کتابِ تاریخ کے اوراق خالی پڑے ہیں- ان کے چند اقوال جنہیں ہدایت و تعلیمات کا نام دیا جاتا ہےاس کے بارے میں کوئی یہ دعوی کر نہیں سکتا کہ یہ سب حقیقتاً ان ہی کے اقوال، تعلیمات و ہدایات ہیں اور بالفرض زور لگا کر چند باتوں کی صداقت کو مان بھی لیا جائے تو تب بھی ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں چند اساطیر و قصص سے زیادہ کچھ ہاتھ نہیں آتا جب کہ حضور خاتم النبیین (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ کا کون سا پہلو ہےجس پر مستند اور جامع تفصیلات موجود نہ ہوں کیونکہ آپ کی پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ کے اصحاب نے حفظ و کتابت اور تبلیغ و اتباعِ سنت کے ذریعے محفوظ رکھا ہے- یہ مسلمانوں ہی کا دعوی نہیں ہےخود مستشرقین بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں پی کے ہٹی(P.K. Hitti) لکھتا ہے:
“Though the only one of the world’s prophets to be born within the full light of history, Muhammad”.
’’پیغمبروں کی تاریخ میں واحد شخصیت حضرت محمد (ﷺ) کی ہے جو تاریخ کی بھرپور روشنی میں پیدا ہوئے‘‘-
وہ لوگ جن کے بارے میں تاریخ نے بہت کچھ اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے اور ان کا نام اور کام بھی بڑا ہے جب ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے زعماو رہنما، اہل فکر ودانش، اصحابِ قلم و قرطاس، صاحبانِ فضل وعمل، مفکرین و فلاسفہ اور فاتحین و وارثینِ تاج و تخت بظاہر یہ تمام لوگ کامیاب نظر ا ٓتے ہیں لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ان کی زندگی کی ہرجہت کامیابی کا مرقع نہیں ہوتی- بادشاہوں کی زندگیاں عموماً تکبّر و تمرّد سے آلودہ، فاتحین کی زندگیاں غصب و ظلم، وزراء و امراء خود غرضی و خود نمائی کا مجسمہ ہوا کرتے ہیں- اسی طرح فلسفیوں کی زندگیاں تشکیک و تضاد کا شکار، مصلحین بلند وبانگ نعروں کے ساتھ بے عملی کا نمونہ، انقلابی لیڈر اور باغی رہنما جوش انقلاب سے سرشار لیکن خود پرستی اور جاہ پرستی کا شکار جبکہ معلمین اخلاق، اخلاقیات کی پیچیدہ گفتگو کے ماہر لیکن بد اخلاقی کی زندہ مثال ہوا کرتے ہیں اورتبدیلی کے دعوے دار اس قابل ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کریں- غرض انسانی معاشروں کی یہ چنیدہ شخصیتیں جن کے سر پر عموماً قیادت وسیادت اور رہنمائی ورہبری کا تاج سجایا جاتا ہے خود بداخلاقی، بدعملی اور بددیانتی کے بے تاج بادشاہ ہوا کرتے ہیں- اس کی وجہ انسان کا کسی ایک پہلو میں کامل ہونا جب کہ دوسرے پہلوؤں میں ناقص ہونا ایک بدیہی امر ہے-
اس کائنات میں آج تک اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات میں کامل ترین ہستی و ذات جناب حضور سرور دوعالم (ﷺ) کی ہی ذاتِ والا صفات ہے جو قول وفعل، ایمان و عقیدہ، سیرت و کردار، معاملات و معمولات، معاشرت و اخلاق غرض زندگی کے ہر پہلو میں کامل و اکمل ہے-حضور (ﷺ) دین و عقیدہ، نزولِ وحی و مھبط وحی ہونے کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں اور سیرت و تعلیمات، اخلاق و کردار کے اعتبار سے بھی خاتم النبیین ہیں- اسی لیے آپ کے ظاہری پردہ فرما جانے کے بعد جن مدعیّانِ نبوت نے دعوی نبوت کیا ان کے اخلاق و کردار کا موازنہ آپ کے ایک عام گناہگار امتی سے بھی کیا جائے تو دعویداران اس کے مقابلے میں نہایت پست نظر آئیں گے چہ جائیکہ وہ مرتبہ خلقِ عظیم پر فائز ہونے کا دعوی کرے- حضور (ﷺ) کے اخلاق عالیہ اور کاذب مدعیانِ نبوت کے درمیان سب سے بڑا فرق ہی یہ ہے کہ حضور (ﷺ) نے پوری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا جب کہ مدعیانِ نبوتِ کاذبہ اپنی ابتداء ہی جھوٹ سے کرتے ہیں اور پھر اس ایک جھوٹ کو سہارا دینے کیلئے سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں جھوٹ زندگی میں بولتے چلے جاتے ہیں- بالفاظ دیگر نبی کریم (ﷺ) اگر مجسم صداقت و امانت ہیں تو مدعیانِ نبوتِ کاذبہ سراپا مجسم کذب و دجل ہیں-
حضور نبی کریم (ﷺ) اپنی پوری زندگی بالخصوص اعلانِ نبوت کے بعد اپنے دعوی نبوت کی صداقت کیلئے کسی خارجی دلیل کے محتاج نہ تھے کیونکہ اہل مکہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کو ماننے پر مجبور تھے کہ فقط آپ ہی ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ہیں-حالانکہ حق اور سچ یہ ہے کہ حضور (ﷺ) اس بات کے پابند نہ تھے اور نہ ہی آپ پر کوئی سماجی جبر تھا کہ آپ اپنے وقت کے لگے بندھے اخلاقی معیار کی اتباع فرمائیں بلکہ آپ (ﷺ) نے جو کیا اور جو فرمایا وہ خود ہی اعلیٰ انسانی اخلاقی وصف کامعیار بن گیا- آپ نے زانوئے تلمذ کسی معلمِ اخلاق کے سامنے طے نہیں فرمایا اور نہ ہی اخلاقی ہدایات پر مشتمل کسی صحیفے سے اخلاقی تعلیمات کا فیض کشید فرمایا بلکہ خود خالقِ دو جہاں نےآپ کو مجسمہ اخلاق بنایا ہےیعنی آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا، گفتگو کرنا، سننا، لین دین، جنگ و امن، غضب و فرحت اور خوشی و غم میں آپ کا رویہ اس قدر اعلیٰ انسانی اقدار و اوصاف کا حامل ہے جس کے سامنے انسانی تاریخ کے عظیم ترین مبلغین ِاخلاق کا کردار و عمل سورج کے سامنے دیے کی مثل بھی نہیں- کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد بعد میں فرمایا عمل پہلے کیا، دوسروں کو حکم بعد میں دیا خود اس پر عمل پہلے فرمایا-
اپنی امت کو پانچ فرض نمازوں کی تلقین فرمائی تو خود چوبیس گھنٹوں میں نو نمازیں مسلسل ادا فرماتے رہے، صحابہ کو رمضان کے روزوں کا حکم دیا تو خود رمضان کے علاوہ پیر کے دن کا روزہ اور دوسرے نفلی روزے بھی کبھی قضاء نہیں فرمائے- زکوۃ کی ادائیگی کی تاکید فرمائی تو خود پوری زندگی میں اتنا مال ہی نہیں جمع کیا کہ زکوۃ کی ادائیگی اس پر فرض ہو سکے- جہا د کا حکم دیا تو خود جہاد میں شرکت اور مومنین کے لشکر کی قیادت فرمائی اگر غریبوں اور مسکینوں کی امداد و اعانت کا حکم دیا تو پہلے خود اس فرض کو ادا کیا، کھانا کھلانے کو باعث اجر و ثواب قرار دیا تو پہلے خود بھوکے رہے اور دوسرے کو کھلایا اگر دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو پہلے خود دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کیا،درگزر کی نصیحت فرمائی تو آپ نے کھانے میں زہر ملانے والوں، تیر برسانے اور تلواریں چلانے والوں سے درگزر فرمایا بلکہ فاتح بن کر آپ نے انہیں کھلے دل سے معاف فرما دیا، کسی نے کپڑوں کی شدید ضرورت کے وقت آپ سے کپڑا مانگا تو خود اپنی چادر اتار کر اسے دے دی، محاسبہ نفس کا حکم دیا تو اپنی ذات کو لوگوں کے سامنے تبصرہ و تنقید کیلئے پیش فرمایا :
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘[1]
’’بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘-
آپ (ﷺ)نے اخلاقی مثالیں بحیثیتِ ایک انسان، ایک باپ، ایک شوہر، ایک دوست، ایک خانہ دار، ایک کاروباری تاجر، ایک افسر، ایک حاکم، ایک قاضی، ایک سپہ سالار، ایک بادشاہ، ایک استاد، ایک واعظ، ایک مرشد، ایک زاہد و عابد کی قائم فرمائیں لیکن ہر مثال اپنی انفرادیت میں پیغمبرانہ عظمت و شان رکھتی ہے-
ایک دلچسپ سوال نہایت قابلِ غور ہے کہ انسانی تاریخ میں معلمینِ اخلاق نے کتنے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے ذریعے ماہیتِ قلبی کی ہے ؟ اور کتنے لوگ اِن کی اخلاقی تعلیمات و نظریات کا مجسمہ بن پائے ہیں؟ جس کے پرچار کے لیے اِن مفکرین نے زندگی کے شب و روز ہی نہیں بلکہ پوری زندگیاں وقف کر ڈالی تھیں-
ہم یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ علم الاخلاق کے موضوع پر افکار کے جنگل اور نظریات کے دبستان قائم کرنے والے معلمینِ اخلاق اپنی زندگی میں اخلاق وکردار کے حامل چند افراد بھی تیار نہیں کر پائے جبکہ دوسری طرف حضرت خاتم النبیین (ﷺ) کے دربارِ گُہر بار میں اخلاق و کردار کے حامل صرف ایک دو نہیں بلکہ ایک لاکھ سے زائد افراد اصحابِِ رسول کے نام سےموجود ہیں جن کی مبارک زندگیاں، ان کا اخلاق و کردار اور افعال و اعمال مستند طور پر موجود ہیں- یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے پیشہ و فن کے مطابق آپ کی اخلاقی تعلیمات کے سانچے میں خود کو ڈھالا اس حوالے سے اگر مسجد نبوی کے اس مقدس مکتب کا جائزہ لیں جہاں صاحب خلق عظیم نے اعلیٰ ترین انسانی اخلاق کے سانچے میں ڈھال کر ایک بے مثال انسانی گروہ کو مستقبل کی قیادت و سیادت کے لیے تیار کیا تھا تو اس بابرکت در و دیوار جس کی چھت کھجور کے پتوں سے اور ستون کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے- اس کے الگ الگ گوشوں میں ان انسانی جماعتوں کے الگ الگ درجے موجود تھے- کہیں ابوبکر و عمر، عثمان و علی (رضی اللہ عنھم) جیسے مستقبل کے فرماں رواں زیر تعلیم تھے، کہیں طلحہ و زبیر، سعد بن معاذ و سعد بن جبیر اور معاویہ (رضی اللہ عنھم) جیسے ارباب رائے و تدبیر، کہیں ابو عبیدہ، سعد بن ابی وقاص اور عمرو بن عاص (رضی اللہ عنھم) جیسے سپہ سالا ر تھے، کہیں وہ تھے جو بعد میں صوبوں کے حکمران، عدالتوں کے قاضی اور قانون کے مقنن بنے، کہیں ان زہاد و عباد کا مجمع تھاجن کے دن روزوں میں اور راتیں نمازوں میں کٹتی تھیں- کہیں ابوذرؓ و ابودرداؓ جیسے وہ خرقہ پوش جو ’’مسیح اسلام‘‘ کہلائے، کہیں وہ صفہ والے طالب علم (رضی اللہ عنھم) تھے، جو جنگل سے لکڑی لاکر بیچتے اور گزارہ کرتے اور دن رات علم کی طلب میں مصروف رہتے تھے- کہیں حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت عباس، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) جیسے فقیہ و محدث تھے جن کا کام علم کی خدمت اور اشاعت تھا- ایک جگہ غلاموں کی بھیڑ تھی تو دوسری جگہ آقاؤں کی محفل- کہیں غریبوں کی نشست تھی اور کہیں دولت مندوں کی مجلس- مگر ان میں ظاہری عزت اور دنیاوی اعزاز کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی، سب مساوات کی ایک ہی سطح پر اور صداقت کی ایک ہی شمع کے گرد پروانہ وار جمع تھے، سب اخلاق و اعمال کے ایک ہی آئینہ قدس کا عکس بننے کی کوشش میں لگے رہے- ہر ایک اس بات کا متمنی ہے کہ انسان کامل، پیغمبر اعظم اور خلق عظیم کی ہر ہر صفت اور ہر ہر ادا کا عملی نمونہ بن سکے- تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان اصحابِ نبی میں سے ہر ایک آسمانِ اخلاقِ نبوت کا درخشندہ ستارہ بن گیا جس کی جگمگاہٹ تاقیامت جاری و ساری رہے گی اور جو بھی شخص ان اصحاب میں سے کسی ایک کی بھی اتباع کرے گا دنیاوی فوز و فلاح کے ساتھ ساتھ اُخروی نجات سے ہمکنار ہوگا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے :
’’أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم‘‘
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کرو گے ہدایت پا جاؤگے‘‘-[2]
ہم جب حضور(ﷺ) کےخلق عظیم کی بات کرتے ہیں تویہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہماری مراد داستانِ قیل و قال ہی نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی اخلاق کے نام پرکسی وقتی نشاط، راحت و فرحت، فوز و فلاح اور امن وسکون کی حالت میں آپ (ﷺ) سے صادر ہونے والے افعال، اعمال، اقوال اور رویہ ہواکرتا ہے کیونکہ مذکورہ حالتوں میں اچھا خاصاشخص بھی بڑا بااخلاق بن جایاکرتا ہے-ا علیٰ انسانی اخلاق کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب انسان کسی تکلیف و پریشانی سے دو چار یا مشکل و مصیبت میں گرفتار ہو- ایسی صورت حال میں اچھا خاصا انسان فکرودانش کے بجائے جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے- غم واندوہ کی کیفیت، صدمات و خسران کی حالت اور زخم خوردگی کے دوران بڑے بڑے معلمینِ اخلاق ڈھیر ہو پڑتے ہیں- وہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کو وعظ ونصیحت بہت آسان ہے لیکن خود اُس پر قائم رہنا بڑی قربانی مانگتا ہے- اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کے نعرے بنانااور لگاناسہل ہے لیکن خود اُس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا اور مفادات کو قربان کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے-
ماضی کو تو خیر جانے دیجئے آج اکیسویں صدی میں انسانی حقوق کے چیمپین اور بین الاقوامی سطح پر تہذیب وشائستگی، امن و رواداری اور مکالمہ بین المذاہب کے علم بردار ممالک کے عملی رویوں کا اگر جائزہ لیاجائے تووہ مالی و مادی مفاد کے نام پر کروڑوں لوگو ں کو تہ تیغ کرنے سے نہیں چوکتے- لاکھوں مغربی دانشوروں کی دانش اُس وقت تلبیسِ ابلیس کا شکار ہو جاتی ہے جب کسی مسئلہ میں ’’ہمارا‘‘، ’’تمہارا‘‘یا پھر ’’اُن کا‘‘ کہہ کر انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر تفریق قائم کرکے اخلاقیات نامی کسی علم کے وجود ہی کا انکار کردیا جاتا ہے، چہ جائیکہ اخلاق کے انسانی بندھن سے بندھ کر اپنی قوت و طاقت اور مادی شان و شوکت کے اظہاریا پھر مفادات کے حصول کا موقع گنوایاجائے- آج اپنی طاقت کو قابو میں رکھنے اور مظلوم کی حمایت میں کھڑا ہونے کے بجائے تڑتڑاتی ہوئی گولیاں، پھٹتے ہوئےبم، گولہ باری کرتےہوئے توپ خانے، اُڑتے ہوئے میزائل، بے دریغ بم باری کرتے ہوئے جنگی جہاز، لاکھوں لوگوں کو لمحہ بھر میں لقمہ اجل بنانے والے کیمیائی و حیاتیاتی اسلحے کے انبار اور نامعلوم لیکن مہلک حیاتیاتی جرثوموں کی تخلیق کو ہی سائنسی اخلاق و مادی تہذیب کی رفعت سمجھا جاتا ہے- آج پوری دنیا میں (International Humanitarian Law) کا بڑا چرچا ہے، اس قانون کے تحت انسانی ہمدردی بالخصوص اسیرانِ جنگ اور قیدیوں کے حقوق کے غم میں پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک اخلاقی وعظ و نصیحت کے دریا بہا رہے ہوتے ہیں لیکن اُس کی حقیقت جاننے کے لیے اسیرانِ پلِ چرخی وگوانتاناموبے کی حالتِ زار کوئی تاریخی افسانہ نہیں بلکہ آج کے دور کی ناقابلِ تردید حقیقت ہے جو پوری انسانیت کے نام پرکلنک کا ٹیکا ہے- اسی طرح پانچ لاکھ معصوم عراقی بچوں کا قتل، لاکھوں شامیوں کی بے گناہ شہادتیں، برمیوں کا لاکھوں مسلمانوں کو زندہ کاٹنا اور جلانا، کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں اور انسانوں کا ظلم و ستم کا شکار ہو کر اپنی اپنی سرزمین چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونا جیسی صورت حال ہر آدمی کے مطالعہ و مشاہدہ میں ہے-
جبکہ دوسری طرف آقا کریم (ﷺ) کا طرزِ عمل اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ یہ تھا جب حملہ آوران ِ مکہ قیدیوں کو لے کر گئے تو رات کو نبی (ﷺ) کو نیند نہ آئی، ادھر سے اُدھر کروٹیں لیتے تھے، کرب و اضطراب نمایاں تھا، ایک انصاری نے عرض کیا کہ حضور (ﷺ) کو کچھ تکلیف ہے، فرمایا نہیں مگر عباس (حضور(ﷺ)کے چچا) کے کراہنے کی آواز میرے کان میں آرہی ہے اس لیے مجھے چین نہیں آتا- انصاری چپکےسے اُٹھا،اس نے جاکر عباس کی بندھ مشک کھول دی، انہیں آرام مل گیا تو وہ فورا سوگئے، انصاری پھر حاضر خدمت ہو گیا، حضور(ﷺ) نے پوچھا کہ اب عباس کی آواز کیوں نہیں آرہی، انصاری بولا میں نے ان کے بندھن کھول دیے ہیں، فرمایا:جاؤ!سب قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرو- جب حضور(ﷺ) کو اطلاع دی گئی کہ سب قیدی اب آرام سے ہیں،تب نبی کریم (ﷺ) کا اضطراب دور ہوا اور حضور (ﷺ) خواب شیریں سے استراحت گزیں ہوئے-
ذرا سوچیں یہ وہ قیدی تھےجنہوں نے 13 سال تک متواتر اہل ایمان کو ستایا، کسی کو آگ پر لٹایا، کسی کو خون میں نہلایا، کسی کو بھاری پتھروں کے نیچے دبایا اور کسی کو سخت اذیتوں کے بعد خاک و خون میں سلایا- پھر اس پر یہ نرمی اور یہ سلوک – تاریخِ عالَم ایسے عظیم اخلاق کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے-
حضرت عباس حضور(ﷺ) کے چچا تھے اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے وہ بادل نخواستہ صرف قوم کے اِکراہ و اِجبار سے بدر میں آئے تھے بایں ہمہ حضور (ﷺ) کے عدل و انصاف نے ان میں اور دوسرے قیدیوں میں کوئی امتیازی فرق قائم کرنا پسند نہ فرمایا- لیکن حضور (ﷺ) کی رحمدلی اور طبعی شفقت ورافت کا یہ عالم تھاکہ جب تک سب قیدیوں کےبا آرام ہونے کی خبر نہ ملی اس وقت تک آپ(ﷺ) کو نیند نہ آئی-
مدینہ طیبہ میں ہجرت فرمانے کے بعد جب اہلِ مکہ پر اللہ تعالیٰ نے قحط کی شدید آفت کو اُتارا تووہ ابوسفیان جو ہمیشہ مسلمانوں کا حریف رہا وہ خود دربار مصطفوی (ﷺ) میں حاضر ہوااور گزارش کی کہ حضور ہمیشہ احسان اورصلہ رحمی کی دعوت دیا کرتے ہیں- ہم حضور کے قریبی عزیز آپ سے رحم کے ملتجی ہیں، احسان فرمائیے اور دعا کیجئے کہ اس شدید قحط سے ہم کو نجات ملے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ثمامہ بن اثال سردار نجد کو بھیج دیا کہ مکہ میں فورا غلہ پہنچانے کابندوبست کریں، یہ دولت ایمان سے مالا مال ہو چکے تھے، ان کے علاقہ میں اناج بکثرت تھا، انہوں نے غلہ صرف اس لیے روک رکھا تھا کہ اہل مکہ دشمنان اسلام ہیں، اب حکم نبوی (ﷺ) کی تعمیل ہوئی اور اہل مکہ کی جان میں جان آئی-
جنگ احد میں رسول اکرم (ﷺ) اس قدر شدّتِ تکلیف اور تلخی صدمات سے دوچار ہوئے، ستر قریبی صحابہ نہایت بے دردی سے شہید کیے گئے، چچا جان حضرت حمزہ کے جسدِ مقدس کا مثلہ کیا گیا، خود آپ کے چار دندان مبارک مجروح ہوئے، جبین اطہر اور بازو مبارک پر بھی زخم آئے- ایسی حالت میں کوئی عام دنیاوی قائد و رہنما ہوتا تو دشمن کیلئےسب و شتم کی بوچھاڑ، واہی تباہی الفاظ کی یلغار اور بددعاؤں کا دریا بہا دیتا لیکن بعض صحابہ کی بے پناہ چاہت اور خواہش کے باوجود کہ آپ (ﷺ) مشرکین کیلئے بد دعا فرمائیں، قائدِاخلاقِ انسانیت، حضور فخر موجودات (ﷺ) کا فوری رد عمل انسانی تاریخ میں اعلی اخلاق اور مثالی انسان کا ارفع ترین نمونہ ان الفاظ میں تھا’’إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَلَكِنْ بُعِثْتُ رَحْمَةً‘‘اور پھر فرمایا ’’اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون‘‘ یعنی میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہو ں،میں تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اور پھر فرمایا اے خدایا ! میری قوم کو نورِہدایت عطا فرما کیونکہ وہ اب تک مجھے اور میری حقیقت کو نہیں جان سکے ہیں-
جنگ طائف ان حملہ آوروں کے ساتھ ہوئی، جن سے حنین اور اوطاس میں شدید محاربہ ہواتھا، یہ لوگ ان مقامات سے شکست کھاکر قلعہ طائف میں محصور ہوگئے تھے اور ابھی ان کی فوجی طاقت زوروں پر تھی، حضور نبی کریم(ﷺ) نے قلعے کا محاصرہ کرلیا، چند روز کے بعد حضور (ﷺ) کو معلوم ہوا کہ دشمن محاصرے کی شدت سے سخت تکلیف میں ہیں، بھوک نے ان کی ہلاکت کو بہت قریب کر دیا ہے، حضور(ﷺ)نے محاصرہ اٹھادینے کاحکم دے دیا، چند صحابہ (رضی اللہ عنھم)نے جنگی اصول کومد نظر رکھتے ہوئے عرض کیا کہ اب تو قلعہ فتح ہونے والا ہے مگر حضور(ﷺ) نے از راہ رحم وکرم جو حکم دیا تھا، اس کی تعمیل کرائی-
مذکورہ بالا چند سیرتی شہ پارے، حیات اقدس کے ان مقدس لمحات پر مشتمل ہیں جن میں آپ (ﷺ) بحیثیت قائد و رہنما، حاکم و سربراہ اور نبی و مرسل کی حیثیت سے اپنی مفتوح اور مغلوب افراد اور قوم سے دل کھول کر انتقام لے سکتے تھے، خون کی ندیاں بھی بہا سکتے تھے، ایک جرم کے بدلے صدہا صد مجرمین کی سرکوبی بھی کر سکتے تھے اور بدعا کے ذریعہ ان کو ہلاک بھی کر وا سکتے تھے لیکن نبی رحمت (ﷺ) نے اخلاق حسنہ کے اوج ثریا پر کھڑے ہو کر اپنے قول، فعل، عمل اور کردار سے اپنی نبوت کی صداقت کی دلیل مہیا فرمائی کہ نبی کا مقصد خون بہانا، انتقام لینا اور کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرنا نہیں ہوتا بلکہ رب تعالی نے جس بلند ترین منصب ’’خلق عظیم‘‘ پر آپ کو فائز فرمایاہے اس کی عملی شہادت اور دلیل فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ قیامت تک تہذیب و انسانیت کے دعوے دار اگر کسی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے اور کسی اخلاقی پیمانے میں اپنے رویے کو تولنے پر آمادہ ہوں تو وہ آئینہ نبوت ِ محمدی (ﷺ) اور میزان خلق عظیم (ﷺ) کو معیار بنا سکیں- اللہ تعالیٰ آج کی پریشاں حال انسانیت کو حضور نبی رحمت (ﷺ) کی نبوت پر ایمان لانے اور آپ کے اخلاق عالیہ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے- آمین
٭٭٭
[1](یونس :16)
[2](ابوبکر محمد بن حسین الآجری، الشریعۃ، ج:4،رقم الحدیث:1166، مطبوعۃ: دار الوطن، ریاض السعودیۃ،1420ھ)