1857ء کی جنگ آزادی سے شروع ہونے والا حریت و آزادی کا سفر جو بہت ساری قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد ختم ہونے والا تھا اور ہندوستان میں برطانوی سامراجی کی تاریک رات کی سپیدی پھیلنے کو تھی، جس کے نتیجے میں جہاں بہت سارے چراغ اپنی روشنی پھیلا رہے تھے وہیں برصغیر میں حریت و غیرت کا پیکر اور غلامی کی تاریکی کو دور کرنے والا سورج بھی طلوع ہو چکا تھا- اللہ تعالیٰ نے جس کے ہاتھوں سے برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ فرما لیا تھاوہ مرد خود آگاہ اور مرد آہن، برصغیر کی تاریخ کا دھارا موڑنے والا وہ اکیلا بہادر جس کے حصے میں برصغیر کے مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کی کمان دی گئی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ تھے-
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی پر امن اور قانون پسندانہ سیاسی قیادت میں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کے نتیجے میں برطانوی سامراج اس بات پر مجبور ہو گیا کہ اب ہندوستان کو آزادی دے دی جائے اور اس طرح پاکستان کے قیام کا مطالبہ بھی منظور کرلیا گیا اور 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا- تقسیم ہند کے لیے قانون آزادئ ہند ایکٹ 1947ء متعارف کروایا گیا جس کے تحت تقسیم کے معاملات طے ہونے تھے-تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں 562 شاہی ریاستیں تھیں جو زیادہ تر اپنے ریاستی معاملات میں آزاد تھیں اور مختلف معاہدوں اور شرائط کے تحت برطانوی سامراج نے ان پر اپنا اثر رسوخ قائم کر رکھا تھا-
شاہی ریاست سے کیا مراد ہے؟
شاہی ریاست سے مراد عام طور پر وہ علاقے مراد ہیں جن پر کسی بھی راجے، مہاراجے، شہزادے، نواب یا امیر کی حکومت ہوتی تھی جو اپنے تمام فیصلوں میں آزاد ہوتے تھے- برطانوی نو آبادیاتی دور میں ان ریاستوں کو بہت حد تک خود مختاری حاصل رہی اور کچھ ریاستوں کو نیم خود مختاری حاصل تھی-
لیگسیکو ڈکشنری کے مطابق شاہی ریاست سے مراد:
“The states of India that were ruled by indigenous Indian princes before the Indian Independence Act of 1947”.[1]
’’ہندوستان کی وہ ریاستیں جن پرقانون آزادئ ہند 1947ء سے پہلے علاقائی شہزادوں کی حکومت تھی‘‘-
ان ریاستوں پر سوزرینیٹی برطانیہ کی تھی اور ساورینٹی (خود مختاری) نواب یا مہاراجہ کی ہوتی تھی- آزادئ ہند ایکٹ 1947ء کے مطابق ان شاہی ریاستوں کو بھی یہ حق دیا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں جو کہ آزادئ ہند ایکٹ 1947ء کے لاگو ہونے اور برطانوی اقتدار ختم ہوتے ہی انہیں حاصل ہو جانی تھی-
جیسا کہ آزادئ ہند ایکٹ 1947ء سیکشن (7) کے سب سیکشن (b) کے مطابق:
“The suzerainty of His Majesty over the (princely) Indian States lapses, and with it, all treaties and agreements in force at the date of the passing of this Act between His Majesty and the rulers of (princely) Indian States”.[2]
’’ بھارتی (شاہی) ریاستوں پر برطانوی تاج کی سوزرینیٹی ختم ہوتی ہے اور اِس قانون کے پاس ہوتے ہی برطانوی تاج اور بھارتی (شاہی) ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان قابل عمل معاہدے بھی معطل ہوتے ہیں‘‘-
یہ شاہی ریاستیں انتظامی،قانونی اور جغرافیائی طور پر تین درجوں میں تقسیم تھیں:
- ایسی تقریباً 150 ریاستیں جو برطانوی حکومت سے معاہدے کی صورت میں اپنے قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار رکھتی تھیں- مثلاً ریاستِ جموں و کشمیر، ریاست بہاولپور، ریاست جے پور، جوناگڑھ اور حیدر آباد دکن وغیرہ-
- دوسرے درجے کی وہ ریاستیں جِن کے چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے-
- تیسرے درجے پر تقریباً 300 ایسی ریاستیں تھی جو رقبہ کے لحاظ سے کم ہونے کے ساتھ ساتھ خود مختاری بھی نہ رکھتی تھی -[3]
پاکستان سے کل 13 ریاستوں نے الحاق کیا-پاکستان کا موجودہ رقبہ 796096 مربع کلومیٹر ہے-اگر ان تمام شاہی ریاستوں کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے میں شامل نہ کیا جائے تو پاکستان کا کُل رقبہ 480875 مربع کلومیٹر بنتا ہے یعنی پاکستان کی 3لاکھ مربع کلومیڑ رقبہ ان شاہی ریاستوں کے پاکستان میں شامل ہونے کی وجہ سے ملا ہے-[4] ان شاہی ریاستوں کے نوابین پاکستان کے نا صرف حقیقتاًمحسن ہیں بلکہ یہ نوابین پاکستان کے ہیرو ہیں پاکستانی حکومت اور پاکستانی قوم کو ہمیشہ ان نوابین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور ان کو اپنا ہیرو ماننا چاہیے اور ان کی عظمت کو سلام اور خراج تحسین پیش کرنا چاہیے-
ریاست بہاولپور:
ریاست بہاولپور برصغیر کی ان 150 فرسٹ کلاس ریاستوں میں سے تھی جو رقبے کے لحاظ سے بھی بہت بڑی تھیں اور معیشت کے اعتبار سے بھی بہت خوشحال تھیں-ریاست بہاولپور کا امیر یعنی حکمران بھی مسلمان تھا اور اس کی 83 فیصد آبادی مسلمان تھی مطلب یہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی-ریاست بہاولپور کا کل رقبہ 17226مربع میل تھا[5] یہ اس وقت دنیا کے 44 آزاد ممالک سے بھی زیادہ رقبہ بنتا ہے-مثلاًبیلجیم، ڈنمارک، نیدر لینڈ،سوئٹرز لینڈ وغیرہ- ریاست بہاولپور ان تمام ممالک سے بھی زیادہ بڑی تھی- ریاست بہاولپور کے نواب صاحب کی جب قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا:
“I saw you in Karachi very despondent rest assure Mr. Jinnah: that if your dream of Pakistan does not materialize Bahawalpur is your Pakistan today”[6]
’’جناح صاحب میں نے کراچی میں آپ کو شکستہ دل دیکھا آپ پریشان نہ ہوں آپ یقین رکھیں اگر آپ کا پاکستان بنانے کا خواب پورا نہیں ہوتا آپ آج سے ریاست بہاولپور کا نام پاکستان رکھ لیں‘‘-
نہرو نے نواب صاحب بہاولپور کو پیشکش کی کہ اگر آپ بھارت میں شامل ہو جاتے ہیں تو ہم راجستھان میں شامل شاہی ریاستوں کی ایک کنفیڈریشن بنادیں گے اور آپ اس کے پریزیڈینٹ ہونگے- یعنی کئی ہزار کلومیٹر رقبے پر مشتمل ریاستوں کے آپ پریزیڈنٹ ہوتے، یعنی آج کے وزیر اعظم سے بھی زیادہ طاقت رکھنے والا عہدہ ، لیکن نواب آف بہاولپور نے پاکستان سے الحاق کیلئے اس سے انکار کردیا- [7]
جب پاکستان بنا تو ریاست بہاولپور میں پوری طرح جشن کا سماں تھا مسلم بورڈ ایک جماعت تھی جس نے ریاست کے مختلف حصوں بالخصوص ریاست کی اہم عمارات پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پوری ریاست میں پاکستان بننے کے وقت اتنی بڑی تعداد میں جلسے، جلوس،شکرانے کے نوافل اور ریلیاں نکالی گئیں اس کی ایک چھوٹی سی جھلک پینڈرل مون کی کتاب میں درج ہے کہ :
“They people of Bahawalpur had assumed that would the state accede to Pakistan they knew nothing of any other possibility. The majority of them being Muslims were well content with the prospects and throughout most of the state even the minority communities had accepted it philosophically and without undue alarm.”[8]
’’بہاولپور کے لوگوں نے یہ رائے قائم کر لی تھی کہ ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان سے ہوگا اس کے علاوہ ان کے ذہن میں کوئی امکان موجود نہیں تھا-ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی خیال تھا اور وہ اس امکان کے حوالے سے بہت خوش تھے حتٰی کہ پوری ریاست میں ہر کوئی بالخصوص اقلیتوں نے کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اس بات کو فلسفیانہ طرز پر تسلیم کرلیا تھا‘‘-
5اکتوبر کو نواب آف بہاولپور کی طرف سے الحاقی دستاویز بھیجی گئی جسے قائد اعظم ؒنے قبول کرلیا اور برصغیر کی تقسیم کے بعد 10 اگست 1947ء کو قائداعظم ؒ جب کراچی پہنچے تو وہ سب سے پہلے نواب بہاولپور کی ملیر کراچی میں الشمس کے نام سے موجود رہائش گاہ پہ تشریف لے گئے اور وہاں نواب صاحب کی رہائش پر بہاولپور فرسٹ انفٹری بٹالین نے قائد اعظم ؒ کو گارڈ آف آنر پیش کیا- 14 اگست کو قائد اعظم جب پہلے گورنر جنرل کا چارج لینے کیلئے آئے تو انہوں نے نواب آف بہاولپور کی ذاتی رولزروئس BWP-72کو استعمال کیا اور اس گاڑی کو نواب آف بہاولپو ر نے قائداعظمؒ کو ریاستِ پاکستان کیلئے بطور تحفہ پیش کردیااور الشمس کے نام سے پیلس بھی انہوں نے قائداعظم ؒ کو پیش کردیا - [9]
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو بہت زیادہ مشکلات درپیش تھیں اور جو پیسہ پاکستان کو بھارت سے ملنا تھا وہ بھی نہیں ملا- مالی طور پر بہت کٹھن حالات تھے حتیٰ کہ پاکستان کے پاس کرنسی چھاپنے کیلئے زرِمبادلہ کی کوئی گارنٹی نہیں تھی- نواب آف بہاولپور نے اپنا ذاتی سونا بینک آف انگلینڈ میں بطور گارنٹی کے جمع کروایا جس وجہ سے ریاست پاکستان کو کرنسی چھاپنے کی اجازت ملی-اگر نواب آف بہاولپور پاکستان کا ساتھ نہ دیتے تو پاکستان کیلئے اُس وقت کرنسی چھاپنا بھی مشکل تھا- [10]
گورنمنٹ آف پاکستان کے پاس ایک طویل عرصہ تک اپنے ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں تھیں- سرکاری ملازمین، افواج اور سول سرونٹس کی جتنی تنخواہ تھی وہ ساری ریاست بہاولپور ادا کرتی تھی- [11]اس کے علاوہ ریاست بہاولپور نے پاکستان کو 22 ہزار ٹن گندم دی تھی-[12] ریاست بہاولپور کی اناج کی پیداوار بہت زیادہ تھی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے نواب آف بہاولپور کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں ریاست بہاولپور فصلوں کا ایک بہت بڑا گودام ہوگا-[13] نواب سر صادق محمد خان عباسی مرحوم کو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی مدد کرنے پر 52000 پاؤنڈ ملے تھے وہ بھی انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو ریاست پاکستان کیلئے عطیہ کر دیے- مہاجرین کی آبادکاری میں ریاست بہاولپور نے منسٹری آف ریفیوجیز قائم کی اور مخدوم الملک میراں شاہ کو منسٹر فار ریفوجیز لگایا [14]اور لاکھوں روپے انہوں نے اپنی طرف سے مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے انتظامات کیلئے خرچ کیے- ریاست بہاولپور نے پاکستان کی مدد کیلئے دو کروڑ روپے مہیا کیے اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اپیل پر ریاست بہاولپور کی طرف سے پانچ لاکھ روپے قائد اعظم ریلیف فنڈ میں جمع کروائے گئے-[15] ملک کے دفاع کے لیے ریاست بہاولپور کی جانب سے سالانہ ایک کروڑ روپیہ پاکستان کو دیا جاتا تھا اور بارڈر سکیورٹی کیلئے سالانہ 15 لاکھ روپیہ ریاست پاکستان کو دیا جاتا تھا- [16]قیام پاکستان کے وقت بہاولپور کی فوج 10ہزار انفٹری پر مشتمل تھی- بعد میں 1952ء میں اس کو افواج پاکستان میں ضم کر دیا گیا اور اس کو بلوچ رجمنٹ کا نام دیا گیا-[17] پنجاب یونیورسٹی، ایچیسن کالج،کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج،میو ہسپتال،اسلامیہ کالج لاہور، ان سب کو نواب آف بہاولپور نے کہیں زمین دی، کہیں عمارت دی اور کہیں بہت بھاری عطیات دیے[18] جس سے لاہور میں تعلیم اور صحت کی سہولیات عام ہوئیں اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوا-بہاولپور میں تعلیم، صحت، انڈسٹری اور انتظامی معلاملات کا بہترین نظام موجود تھا- 1955ء میں بہاولپور ریاست کے رقبے میں 3255 تعلیمی ادارے موجود تھے-انتظامی معاملات کے عہدیداران کو بین الاقوامی سطح پر تربیت دلوائی جاتی تھی اکثر عہدے دار برطانیہ اور امریکہ سے تربیت یافتہ تھے-یہی وجہ ہے کہ وزیر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے کہاکہ:
“The 5-years educational program of Bahawalpur State will surely be prove a guiding-star for the whole of Pakistan. The thing that has especially impressed me is the absence of red-tapism in the state which has made speedy progress possible”.[19]
’’بہاولپور کا پانچ سالہ تعلیمی منصوبہ یقینی طور پر پورے پاکستان کے لیے مشعل راہ ہو گا-جس چیز نے مجھے بالخصوص متاثر کیا ہے وہ ریڈ ٹیپ ازم (دفتری معاملات میں تاخیر) کا نہ ہونا ہے جس کے وجہ سے ترقی ممکن ہوئی‘‘-
بہاولپور ریاست کے الحاق کے ساتھ ستلج ویلی پراجیکٹ (Sutlej Valley Project) کی وجہ سے زراعت کو بہت فائدہ ملا- پنجند ہیڈ ورکس بھی نواب آف بہاولپور کی جانب سے بنایا گیا تھا-[20]کراچی سے بہاولپور تک ریلوے لائن ڈبل ٹریک نواب آف بہاولپور نے بنوایا-ایران کے بادشاہ جب پہلی بار پاکستان کے دورے پر آئے تو حکومت پاکستان کے پاس ایسے برتن موجود نہیں تھے جو شہنشاہ ایران کے شایان شان ہوتے اس موقع پر بھی نواب صاحب بہاولپور جناب سر محمد صادق خان عباسی نے اپنے شاہی محل کے سونے چاندی کے برتن ایک ٹرین میں بھرکر بھیج دئیے تھے اور وہ برتن نواب صاحب نے کبھی واپس نہ لئے- ان کی بے لوث خدمات کے صلے میں قائد اعظم نے انہیں ’’محسن پاکستان‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا- ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی پاکستان ریاست بہاولپور کی صورت میں موجود تھا- المختصر!نواب آف بہاولپور نے اپنا سب کچھ پاکستان کیلئے قربان کیا- [21]
ریاست سوات:
یوسفزئی ریاست سوات جو کہ علاقائی سطح پر ڈیرہ سوات کے نام سے مشہور تھی، کا قیام 1849 ء میں عمل میں آیا جس پر اخند حکمرانوں کی حکومت تھی- یہ ریاست موجودہ ریاست خیبر پختونخوا کے ان علاقوں پر مشتمل تھی جو آج کل سوات، دیر، بنر اور شانگلہ کے اضلاع پر مشتمل ہے-[22] تقسیم ہند کے وقت سوات کے والی میاں گل عبد الودود نے پہلے پاکستان کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگری منٹ کیا-[23]3نومبر کو والیٔ سوات میاں گل عبدالودود نے بطور مقتد ر حکمران الحاق کی دستاویز قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی طرف بھیجی[24] جسے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 24 نومبر 1947ء کو قبول کرلیا اور ریاست سوات نے باقاعدہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا - [25]15 اپریل 1948ء کو میاں گل عبد الودود اور ان کے بیٹے کی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے ملاقات ہوئی[26] والئ سوات نے قائد اعظم ؒ کو تمام معاملات میں بہت قریبی اور دوستانہ تعلقات کی پیش کی-[27] میاں گل عبدالودود نے قائد اعظم کو کہا کہ اس کی ریاست اور ریاست کے باشندے ہر وقت پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہیں اور جب بھی پاکستان کو ضرورت ہوگی ہم اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے-میاں گل عبدالودود کو سٹینڈ سٹل ایگری منٹ کی مد میں پاکستان سے سالانہ 15 ہزار روپے ملتے تھے-انہوں نے قائد اعظم سے کہا کہ وہ اب الحاق کے بعد 15 ہزار روپے نہیں لیں گے [28]اور ان کی خواہش ہے کہ وہ پیسے پاکستان تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرے-اس وقت جب پاکستان شدید مالی بحران میں تھا تب یہ والیٔ سوات کی جانب سے پاکستان کو ایک اہم تحفہ تھا-قیاِمِ پاکستان سے قبل جب صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہوا تو بھی والیٔ سوات نے پاکستان کے حق میں بہت اہم کردار ادا کیا- 6 سے 17 جولائی 1947ء میں ریفرنڈم ہوا جس میں اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا- 289244 (دو لاکھ نواسی ہزار دو سو چوالیس )میں سے صرف 2874 (دو ہزار آٹھ سوچہتر)پاکستان کی مخالفت میں آئے، جبکہ بقیہ 99 فیصد لوگوں نے پاکستان کی حمایت کی-والیٔ سوات نے اس ریفرنڈم میں نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ مالی طور پر بھی مسلم لیگ کی مدد کی-[29] اس ریفرنڈم سے قبل جناح صاحب نے والیٔ سوات کو جو خط لکھا اس کا کچھ حصہ پیش ہے:
“Dear Wali-i-Swat, I am pleased indeed to hear of your wholehearted support and encouragement that you have given in our coming fight for the referendum which is to take place from the 6th July... I am, however, grateful to you and to your Heir Apparent for having made a most handsome and generous contribution towards the Fund which is necessary for us to contest this referendum. I shall always remember that at the critical moment not only we had your heart with us but you gave us every help…” [30]
’’عزیز والیٔ سوات، آنے والے 6 جولائی کے ریفرنڈم کیلئے آپ کی طرف سے ہماری مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی میرے لیے خوشی کا باعث ہے- میں البتہ آپ اور آپ کے ولی عہد کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس ریفرنڈم کے لیے فنڈز دیے-میں ہمیشہ یاد رکھوں گا کہ آپ نے اس کٹھن وقت میں نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کی بلکہ ہمیں مکمل مدد بھی فراہم کی‘‘-
اسی طرح والیٔ سوات نے قائد اعظم کے نام جو خط لکھا اس میں سوا ت کا قیام پاکستان میں کردار اور سوا ت کی پاکستان کے لیے اہمیت بڑی واضح ہے- والیٔ سوات لکھتے ہیں:
“Your Excellency Quaid-i-Azam, I am writing this to explain that Swat occupies a very strategic position as would be apparent from the study of the map of the N.W Frontier. This would be in the interest of Pakistan itself to maintain it as a strong bastion... Its loyalty to the completion of Pakistan has been constant and enthusiastic… Swat is cent per cent Muslim League…”[31]
’’عالی مرتبت قائد اعظم، میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جغرافیائی اعتبار سے سوا ت ایک اہم مقام پر موجود ہے جیسا کہ صوبہ سرحد کے نقشے سے بھی واضح ہے-یہ پاکستان کے فائدے میں ہو گا کہ اسے ایک مضبوط گڑھ بنایا جائے---اس(سوات) کی تشکیل پاکستان کے ساتھ وفاداری مستقل اور پرجوش رہی ہے---سوات سو فیصد مسلم لیگ ہے‘‘-
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو ملنے والے جنگی ساز و سامان کا بیشتر حصہ ناکارہ تھا-بالخصوص جنگی طیارے ناقابلِ استعمال تھے-ایسے کٹھن حالات میں والیٔ سوات نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان ائیر فورس کو ایک جنگی طیارہ عطیہ کیا- طیارہ پاکستان ائیر فورس کی مشاورت سے کم و بیش 2 لاکھ روپے میں خریدا گیا تھا- اس رقم کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سونے کی قیمت 56 روپے تولہ تھی جب والیٔ سوات نے لاکھوں روپے پاکستان کو عطیہ کیے-[32]
ریاست چترال:
ریاست چترال کا محل وقوع بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے-ریاست چترال کی مشرقی حدود گلگت بلتستان سے ملتی ہیں جبکہ ریاست کی شمال مغربی سرحد افغانستان کے صوبوں کنر، بدخشاں اور نورستان سے ملتی ہے-ریاست چترال کے جنوب میں سوات اور دیر واقع ہے اور واخان کی ایک تنگ پٹی ریاست چترال کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے- لواری پاس اور شندور کی چوٹی ریاست چترال کو پاکستان سے براستہ سڑک ملاتے ہیں - [33]
قیام پاکستان کے بعد چترال کے مہتر (نواب)،مہتر مظفر الملک، پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند تھے-[34] انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے مل کر ریاست کے الحاق کے حوالے سے معاملات طے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا- [35]
6 نومبر 1947ء کو ریاست چترال نے پاکستان میں شمولیت کی باقاعدہ دستاویز (Letter of Annexation) سائن کی- چونکہ چترال کا کشمیر کے ساتھ سیاسی تعلق تھا اس لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے الحاق کی دستاویز پر فوری دستخط نہیں کیے اور چترال کے الحاق کو فوری تسلیم نہیں کیا تاکہ مسئلہ کشمیر پر اثرا ت مرتب نہ ہوں-[36] 18 فروری 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے چترال کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے اور چترال پاکستان کا حصہ بنا-چترال کے مہتر قائد کی بے حد عزت کرتے تھے-انہوں نے قائد اعظم ریلیف فنڈ میں 30 ہزار روپے جمع کروائے تھے جو کہ مہاجرین کے مسائل کےلیےاہم تھے-مہتر نے ریاستی سطح پر مہاجرین کیلئے گرم کپڑے اکٹھے کیے تاکہ مہاجرین کی مدد کی جاسکے-[37]
مہتر نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو خط لکھا اور اس میں ان کی پاکستان سے محبت کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے:
“My dear Friend, Thank you very much indeed for Your Excellency's kind letter No.1683-GG/47, dated the 7th October 1947.I am grateful for your kind appreciation of what little I have been able to do for Pakistan. I also thank Your Excellency for inviting my representative to Karachi to go through the formalities of Chitral State's accession to Pakistan. I have been considering the question myself and I think it is much better if instead of sending a representative, I come to Karachi myself, so that besides going through the Accession formalities personally, I may have the pleasure of paying my respects to you…………. Meanwhile, owing to bad health, I had to postpone my visit. However, I am looking forward to some other opportunity of seeing you. Owing to this State's limited income, I have so far been able to contribute only Rs.30,000 to the Quaid-i-Azam's Relief Fund. I am also collecting warm clothes for the refugees and will forward these through the P.A. (Political Agent) in due course” [38]
’’میرے عزیز دوست بلاشبہ آپ کے خط نمبر No.1683-GG/47 کا بہت زیادہ شکریہ- آپ کی ہماری طرف سے پاکستان کے لیے چھوٹی سی کاوش جس کو آپ نے سراہا ہے اس کا بہت شکریہ اور میں اس بات کے لیے بھی شکرگزار ہوں کہ آپ نے ریاست چترال کے پاکستان سے الحاق کے حوالے سے رسمی چیزوں کو حتمی شکل دینے کیلئے میرے نمائندے کو کراچی میں مدعو کیا-میں اس معاملے کو خود پوری توجہ سے دیکھ رہا ہوں اور اپنے نمائندے کو بھیجنے کی بجائے میں ذاتی طور پر اس کام کے لیے کراچی آؤں گا اور ان معاملات کو مکمل کرنے سے بعد آپ سے بھی ملاقات کروں گا-ابھی مجھے طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے آپ کے پاس آنے کا پروگرام مؤخر کرنا پڑ رہا ہے کسی اور موقع پر آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوں گا-ریاست کی محدود آمدنی کی وجہ سے میں ابھی صرف 30000روپے جمع کروا رہا ہوں اور میں مہاجرین کیلئے گرم کپڑوں کا انتظام کررہا ہوں جو پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے جلد آپ تک پہنچ جائیں گے‘‘-
مہتر نے پاکستان کی مختلف ضروریات کے مدنظر قائد اعظمؒ کو چترالی دیودار کی لکڑی کی پیش کش بھی کی کہ اس لکڑی سے دفاتر وغیرہ میں فرنیچر بنایا جا سکتا ہے-[39] انہوں نے قائد اعظم کو درخواست کی کہ ریاست چترال میں ایک سروے کرایا جائے تاکہ ریا ست میں موجودمعدنیات جیسا کہ کاپر، آئرن، سلفر، چاندی، سونا وغیرہ کا پتا چل سکے-[40] مہتر نے یہ آفر بھی کی کہ اگر ریاست میں معدنیات دریافت ہوتی ہیں تو چترال کی عوام ان معدنیات کا 55 فیصد اپنی ترقی پر لگائے گی جبکہ بقیہ 45 فیصد پاکستان کو دے دیا جائے گا-
ریاست خیرپور:
ریاست خیر پور سندھ کے علاقے میں واقع واحد ریاست تھی-یہ ریاست بہت زرخیز تھی اور زرعی پیداوار کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی-[41] میر غلام حسین تالپور (جو کہ بورڈ آف ریجینسی کے سینئر رکن تھے) نے ریاست خیر پور کے حکمران کے نمائندے کے طور پر پاکستان سےریاست خیرپور کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے-[42] محمد علی تالپور کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو لکھے گئے خط کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجیے:
“Assalaam-o-Alaikum. I beg to offer my hearty congratulations to you on the achievement of Pakistan and your proposed appointment as its first Governor-General. May God grant you long life and good health to guide the destiny of the Indian Muslims. I would like to see the day when Your Excellency gives a lead to the Muslims of the world. The State of Khairpur is a part of Pakistan. Your Excellency has more than once declared your policy so far as the Indian States are concerned. Your Excellency alone can save the life of the minor Ruler of Khairpur and save the Khairpur State from being exploited by a gang of selfish persons. I had written; to Your Excellency's Private Secretary for an interview in Delhi but I think it could not be granted on account of numerous engagements and pressure of work. I beg to remain, Your obedient servant, Muhammad Ali Talpur Heir-Presumptive of Khairpur” [43]
’’السلام وعلیکم مَیں آپ کو پاکستان کے حصول اور اس کے ممکنہ گورنر جنرل تعینات ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو لمبی اور صحت مند زندگی عطا کرے کہ آپ مسلمانوں کے مقدر کو چمکا سکیں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کو پوری دنیا کے مسلمانوں کی راہنمائی کرتے ہوئے دیکھوں-ریاست خیر پور پاکستان کا حصہ ہے اور جہاں تک شاہی ریاستوں کی بات ہے تو اس بارے آپ ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی پالیسی کا اعلان کر چکے ہیں- جناب عالی صرف آپ ہی وہ انسان ہیں جو ریاست خیر پور کے میر کو اور اس ریاست کو خود غرض لوگوں کے ایک گروہ کے ہاتھوں استحصال سے بچا سکتے ہیں-میں نے آپ کےذاتی سیکریٹری کو دہلی میں ایک انٹرویو کےلیے لکھا ہے اور میرا خیال ہےکہ کام کے بوجھ اور مختلف مصروفیات کی وجہ سےاس کی ترتیب نہیں بن سکی-میں آپ کا فرمانبردار خادم رہوں گا-محمد علی تالپور ریاست خیر پور کا ممکنہ ولی عہد‘‘-
میر آف خیرپور کی طرف سے 3 اکتوبر 1947ء کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے گئے اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 9 اکتوبر 1947ء کو اس کو قبول فرمایا اور اس پر دستخط کیے- [44]
بلوچستان کی ریاستیں:
مکران، خاران اور لسبیلہ نسبتاً چھوٹی ریاستیں تھیں اور انہوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا-خاران کے سردار نے 19 اگست 1947ء کو ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا -
ریاست قلات:
قائداعظم نے اپنی پالیسی کے عین مطابق خان صاحب آف قلات میر احمد یار خان کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر زبرستی مجبور نہیں کیا- البتہ قائد کی خواہش تھی کہ قلات پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بدلتے عالمی منظرنامے میں قلات کی بقاء مشکل ہو گی-
قائد نے 1948ء میں بلوچستان کا دورہ بھی کیا اور وہاں کے قبائلی سرداران سے بھی مذاکرات کیے اور انہیں پاکستان کے ساتھ الحاق پر قائل کیا-جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا - مارچ 1948 ءکو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے اور قلات پاکستان کا حصہ بن گیا- [45]
خان آف قلات نے الحاق میں تاخیر کے متعلق قائداعظم کے نام اپنے ایک طویل خط میں تذکرہ کیا ہے-یہ خط 1948 ءکی ابتدا میں لکھا گیا-خان صاحب آف ریاست قلات کے خط کا کچھ حصہ ملاحظہ کریں :
“My dear Quaid-i-Azam, I have been helping you and the Muslim League for the last ten years to win Pakistan. During all this time, you have been like a father to me and you have been good enough to call me your son. You have been helping and advising me about my State's case during the British rule…. I was very grateful to you when you accepted the special position of Kalat State by recognizing its sovereign independent status in the beginning of August last year. During all this time you were advising me to accede and assuring me that after accession Kalat's rights would be sympathetically considered by you. My policy was to bring Kalat into Pakistan in a position in keeping with the honour and traditions of the State. I was bringing the tribes to accept this policy. It is for this reason that it took so long to complete the case between Pakistan and Kalat… But my and Kalat's enemies, who in reality are the enemies equally of Pakistan and Kalat, interpreted this delay as proof that I was in negotiation with some enemy of Pakistan… I feel it my duty to continue to serve Kalat and Pakistan in the way that you advise me 'is best…I, therefore, assure you that I agree for annexation with Pakistan”.
’’میرے عزیز قائداعظم! مَیں آپ کی اور مسلم لیگ کی قیام پاکستان کی خاطر گزشتہ 10 سال سے مدد کر رہا ہوں-اس تمام وقت میں آپ میرے والد کی طرح پیش آئے ہیں اور ہمیشہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے رہے ہیں-آپ نے برطانوی راج کے وقت ہمیشہ میری مدد کی اور مجھے ریاست کے معاملات میں advise بھی کیا-مجھے بہت خوشی ہوئی جب آپ نے گزشتہ برس اگست میں قلات کی آزادانہ خو دمختار حیثیت کو تسلیم کیا -اس تمام وقت میں آپ نے مجھے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مشورہ دیا اور مجھے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ الحاق کے بعد قلات کے حقوق آپ بذات خود دیکھیں گے-میری پالیسی اور چاہت ہے کہ قلات کو اس طریقے سے پاکستان میں شامل کیا جائے کہ ریاست کی عزت و وقار اور روایات محفوظ رہیں-میں قبائل کو اس پالیسی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا- یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور قلات کا کیس طوالت اختیار کر گیا-لیکن میرے اور قلات کی دشمنوں نے جو پاکستان کے بھی دشمن ہیں اس کو یوں رنگ دینا شروع کر دیا جیسے میں پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مذاکرت کر رہا ہوں-میں پاکستان اور قلات کی خدمت اس طریقے میں جاری رکھوں گا جیسے آپ مجھے مشورہ دیں گے-میں آپ کو یقین دلواتا ہوں کہ میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے تیار ہوں‘‘-
میر احمد یار خان نے دوبار قائداعظم محمد علی جناح اور ان کی قابل فخر بہن محترمہ فاطمہ جناح کو سونے اور چاندی میں تولا تھا-ان کے وزن کے برابر یہ سونا اور چاندی تحریک پاکستان کے لئے عطیہ کے طور پر پیش کر دیا تھا- [46]انہوں نے تحریک پاکستان کیلئے محترمہ فاطمہ جناح کو اس وقت کے ایک لاکھ روپے کی مالیت کا سونے کا ہار تحفے میں دیا-
ریا ستِ جوناگڑھ اور مناودر:
جنوری 1945ء میں قائداعظم نے مناودر کے علاقے بانٹوا کا دورہ کیا- حاجی موسیٰ لوائی اپنی کتاب عکسِ بانٹوا میں لکھتے ہیں کہ یہ ان کا کاٹھیاواڑ کا پہلا دورہ تھا- قائداعظم کا والہانہ استقبال کیا گیا اور ایک خطیر رقم مسلم لیگ اور تحریکِ آزادی کیلئےاکٹھی کی گئی اور اسی فنڈ سے انگریزی اخبار ڈان کا اجراء ہوا-[47] تقسیم ہند 1947ء کے وقت، ریاست کے نواب نے کانگریس کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ الحاق کیا-قائد اعظم اور نواب مہابت خانجی نے الحاقی دستاویز پر دستخط کیے اور ریاست جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن گئی -[48] ریاست جوناگڑھ دو ماہ تک پاکستان کا باقاعدہ حصہ رہی جس کے بعد بھارت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پراس پر قبضہ کر لیا-آج بھی نواب آف جونا گڑھ اور ریاست پاکستان جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں-[49] قائد اعظم نے ریاست جوناگڑھ کے مضبوط معاشی لوگوں میمن فیملی کو پاکستان آنےکی دعوت دی جسے وہاں تنگ ہوتے حالات کے پیش نظر قبول کر لیا گیا-اس سے پاکستان کی نوزائیدہ معیشت کو سہارا ملا اس کا ذکر امریکن محقق گستر، ایف، پیپنیک (Gustar F. Papneek) نے یوں کیا کہ آبادی کے صرف آدھا فیصد لوگ (میمن کمیونٹی) پاکستانی تجارت میں تقریباً 26 فیصد شراکت دار تھے-[50] اسی طرح سٹیفن، آر، لیوس (Stephen R. Lewis) نے اپنی کتاب ’’پاکستان کی صنعتی و تجارتی پالیسی‘‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو میمن تاجروں نے سہارا دیا اور ہندو تاجروں کی تمام تر توقعات کے برعکس پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھایا- [51]
ریاست امب:
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت ریاست ا مب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا محمد فرید خان جو اس کے حکمران تھے پاکستان کی طرف مائل تھے- ا مب کی ریاست NWFP کی ریاستوں میں پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کے ساتھ جولائی 1947ء میں Standstill agreement کیااور یہ کہا کہ وہ اپنے تمام ذاتی اور ریاستی وسائل کو At the disposal of the Government of Pakistan کے نام پر دے گا-[52] الحاقی دستاویز پر امب ریاست کے حکمران کی طرف سے 31 دسمبر 1947ء کو دستخط کئے گئے جسے گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم نے اسی دن قبول کیا-ریاست ا مب کے حکمران محمد فرید خان قائداعظم کو باقاعدہ بنیادوں پرخط لکھا کرتے تھے جس میں ان مسائل کے بارے میں مشاورت کرتے تھے جو ان کیلئے یا ان کی ہمسایہ ریاستوں میں پیدا ہو سکتے تھے-
ریا ستِ دیر:
تقسیم ہند کے بعد ریاست دیر کے نواب جہان خان نے 1947 ء میں پہلی کشمیر جنگ میں پاکستان کی حمایت میں اپنی افواج کو بھیجا تھا- جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کا الحاق بعد میں ہوا-
ریاست دیر کے حکمران کے بیٹے کی طرف سے پاکستان کو لکھاگیا خط ان کی پاکستان سے محبت کی واضع دلیل ہے:
“I congratulate you, and may God bless you with the gifted State of Pakistan. The shackles of slavery have been broken. On this great achievement, every Muslim may rightly feel proud.”[53]
’’میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پاکستان جیسی ریاست کا تحفہ عطا فرمایا ہے- غلامی کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں اس عظیم کامیابی پر ہر مسلمان کو فخر کرنا چاہئے‘‘ -
دیر کے نواب سر شاہ جہاں نے الحاق کی دستاویز پر 9 نومبر 1947ء کو دستخط کئے جسے قائد اعظم نے 18 فروری 1948ء کو قبول کیا- [54]
ریاست ہنزہ و نگر:
جغرافیائی نقطہ نگاہ سے یہ دونوں ریاستیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں-یہاں سے درہ کلیک سے گزر کر چینی ترکستان کے علاقے میں پہنچا جا سکتا ہے-[55]آزادی کے وقت کشمیرکے مہاراجہ نے ہنزہ و نگر کواپنے ساتھ ملانےاور حصہ بنانے کی کوشش کی جس کےلئے مختلف حربے بھی استعمال کئےاور ہنزہ ونگر کے نوابین کو بلایا اور اپنے ساتھ ملنے کا کہا لیکن دونوں ریاستوں کےنوابین نے قبول نہیں کیا-میجر براؤن نے جو تقسیم ہند کےوقت گلگت ایجنسی میں تعینات تھے- انہوں نے 35 اکتوبر 1947ء کو نوابین کو بلایا اور پوچھا کہ وہ کیا ہری سنگھ کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں (اس وقت کشمیر میں ہونے والی شورش کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے) تو ہنزہ کے میر نے اس مشکل اور کٹھن وقت میں بھی یہی کہاکہ:
“There is only one way us to go and that is to Pakistan and we shall join Pakistan”
’’ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ پاکستان کی طرف ہے- ہم پاکستان سے ہی الحاق کریں گے‘‘-
3نومبر 1947ء کو ریاست ہنزہ کے حکمران نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو لکھا:
“I declare with pleasure on behalf myself and my state accession to Pakistan”.[56]
’’میں بخوشی اپنے اور اپنی ریاست کی طرف پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہوں‘‘-
ریاست نگر کے حکمران نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو لکھا:
“In the exercise of my supremacy in and over my State do hereby execute this my instrument of Annexation and I do hereby declare that I annex to the state of Pakistan and promise full faithfulness to Pakistan. I accept the External-Affairs, Defense and Communication, as mentioned in schedule attached hereto, the Governor of Pakistan has full authority, both legislative and executive. Nothing in this Instrument affects the continuances of my supermacy in and over this State or save as provided by, or under this instrument, the exercise of any power, authority and rights now enjoyed by me in regard to the internal administration of my State. I declare that I execute this instrument on behalf of this state and my heirs and successors. (Shaukat Ali, Mir of Nagar state, 19-11-47)” [57]
ہنزہ کے میراورنگر کے میر شوکت علی نے اپنے Instruments of Accessions نومبر 1947 ءکو بھیجے، جنہیں قائداعظم نے 7 دسمبر 1947ء کو قبول کیا-[58]
ہنزہ اور نگر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ان کا تحریک پاکستان اور ملک پاکستان کے ساتھ محبت و لگاؤ کا ثبوت ہے-
ریاستِ کشمیر:
13 جولائی 1931 ءیوم شہدا ءکشمیر
(تحریک آزادی کشمیر کا باقاعدہ آغاز)
13جولائی 1931ء کو سرینگر میں مسلمانوں کے ہجوم پر گولیاں برسا دی گئیں اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا-[59] علامہ اقبال، صدر مسلم لیگ 1931 ء نے کشمیری مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے 14 اگست کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن قرار دیا-اس واقعہ پہ کشمیریوں نے اپنی نظریاتی و اسلامی شناخت کو خطرے میں دیکھا اور ڈوگرا راج سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا- دو قومی نظریہ سیاست کا محور بن گیا-اس واقعہ کو مشہور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب نے اپنی تصانیف میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کا نقطۂ آغاز گردانا ہے-[60] میر واعظ یوسف شاہ نے مسلم کانفرس کو یکجا کیا اور مسلم لیگ کے قرادادِ پاکستان 1945ء کے بعین کشمیر کو تحریک پاکستان میں شامل کرنے کی جدوجہد شروع کی- چنانچہ ڈوگرا راج کے خلاف تحریکِ آزادی کشمیر باقاعدہ طور پر تحریک پاکستان میں تبدیل ہو گئی-قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے سلسلے میں 1946ء کو کشمیر کا دورہ کیا اور مسلم کانفرس کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا- کشمیری مسلمانوں نے مسلم کانفرس پر اعتماد کا اظہار کیا-
جنوری 1947ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ڈوگرا راج کی طرف سے رکاوٹوں اور نیشنل کانفرس کے بائیکاٹ کے باوجود اسے کامیابی ملی اور مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ایوان کا حصہ بنی-مسلم لیگ کے ساتھ الحاق کے بعد پہلا الیکشن اور کامیابی تحریکِ پاکستان کی مقبولیت کا باعث بنی -
آزادیٔ ہند ایکٹ 1947ء کے اعلان کے ایک دن بعد ہی 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرس نے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر کے عوامی رائے ظاہر کی-ریڈکلف ایوارڈ سازش کے ذریعے فیروز پور اور گوردا سپور بھارت کو دے دئیے گئے اوربھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ مہیا کر کے الحاق کا راستہ ہموار کیا گیا-ڈوگرا راج کے الحاق ِ پاکستان میں تاخیری حربے عوامی انتشار کا باعث بنے اور ڈوگرا افواج نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دی جس پر قبائلی علاقے انسانی ہمدردی اور کشمیر ی لوگوں کی مدد کے لئے کشمیر میں داخل ہو گئے- بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی الحاق کا دعوٰی کر دیا جس پر مہاراجہ نے کشمیریوں کوبھارتی ہتھکڑیوں و بیڑیوں میں باندھ دیا- شیخ عبداللہ کو کشمیری رہنما کے طور پیش کیا گیا- کشمیر کا الحاق پاکستان،تقسیم ہند کا ایک نامکمل باب بن کر ابھرا-کشمیر میں بھارتی افواج کے داخلے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ پہلی کشمیر جنگ شروع ہوئی- بھارت کے ہاتھوں سے پھسلتا کشمیر دیکھ کر، نہرو نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا- کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا اور پاکستان کشمیر کا وکیل بن کر پیش ہوا- 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں حقِ خود ارادیت کی قرارداد منظور کی گئی-[61] آج بھی کشمیری دو قومی نظریہ کے تسلسل کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارتی مذموم مقاصد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں-پاکستانی پرچم میں لپٹی کشمیری شہداء کی پاکستان کیلئے کشمیریوں کی قربانیاں آج بھی جاری ہیں-
اسی طرح اور بھی کئی ریاستوں نے مسلم لیگ اور خصوصاً قائد اعظم کے نظریات اور مسلم لیگ کی شاہی ریاستوں کے متعلق معتدل پالیسی سے متاثر ہو کر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا-
جیسا کہ اسماعیل پادھیار، Junagadh: The Paradise Lost میں لکھتے ہیں کہ:
“Many of the native states in former British India were Muslim States and their Rulers were also Muslims. There were many Hindu States like Jodhpur, Jaipur etc. annexed to the border of West Pakistan and its Hindu rulers intended to accede to Pakistan” [62]
’’سابقہ برٹش انڈیا میں بہت سی مقامی ریاستیں مسلمان ریاستیں تھیں اور ان کے حکمران بھی مسلمان تھے- بہت سی ہندو ریاستیں بھی جیسا کہ جودھ پور،جے پور وغیرہ مغربی پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ریاستیں تھیں اور اِن کے ہندو رہنما پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے‘‘-
اختتامیہ:
شاہی ریاستوں کے الحاق کا مطالعہ کیا جائے تو اِس بات کا علم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ خصوصاً قائد اعظم کی منصفافہ قانونی جنگ اور معتدل رویہ کی وجہ سے مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ بات واضح تھی کہ ان کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہے-حتیٰ کہ کئی ہندو ریاستوں کے ہندو حکمران بھی قائد کی اصول پسندی اور قانون کی پاسداری کی وجہ سے پاکستان سے الحاق چاہتے تھے مگر کانگریس کی قیادت کی روایتی ہٹ دھرمی و بے اصولی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ساز باز کے سبب انہیں ایسے اقدامات سے روک دیا گیا- قائد اعظم کے ذاتی کردار اور اصول پسندی سے نوابین بہت مطمئن تھے اور سمجھتے تھے کہ جائیداد و جواہرات میں ان کی ذاتی ملکیتوں کے معاملہ میں انہیں رعایت دی جائے گی - گو کہ قائد اعظم کی اچانک وفات اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کی سیاسی افراتفری میں ان ریاستوں سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہو سکے، مگر تقسیمِ ہند کے وقت شاہی ریاستوں کے پاس سب سے بہترین آپشن پاکستان سے الحاق تھا -
جہاں تک پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں کی پاکستان کے استحکام و سالمیت میں کردار کی بات ہے تو اس حوالے سے ریاستوں اور ان کے نوابین کا کردار قابل ستائش ہے-انہوں نے اپنی ریاستوں کے پاکستان سے الحاق کی صورت میں ناصرف پاکستان کے رقبے کو وسعت دی بلکہ اس کے معاشی و دفاعی استحکام میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا- پاکستان کی حکومت اور عوام کو ان نوابین کا احسان مند ہونا چاہیے اور ان نوابین کو پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کے لیے کردار ادا کرنے والے محسنین کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے اور ان کی خدمات کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ قومی دنوں پر ان کا پرچار کرنا چاہیے -
موجودہ امکانات:
اس وقت اگر پاکستان کی سیاست اور علاقائی سیاسی منظر نامے کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہےکہ شاہی ریاستوں کی مطابقت آج بھی ویسے ہی ہے جیسے قیام پاکستان کے وقت تھی مثلاً ریاست جموں وکشمیر کو دیکھ لیا جائے تویہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایسا تنازعہ ہے جس کے اثرات پورے جنوبی ایشیاء پر ہیں اگر اس تنازعے کو بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35اے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر کے پورے جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے- اس سے خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے- اس مسئلہ کے موجودہ اثرات دونوں ممالک پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت اس خطے میں زور بازو سے اپنا اثر ورسوخ قائم رکھنے کے لیے اور کشمیریوں کی حق خود ارادیت کیلئے جدو جہد کو دبانے کیلئے خطیر سرمایہ خرچ کر رہا ہے- اسی طرح اس تنازعے کی موجودگی میں پاکستان کو بھی بھارت کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا پڑتا ہے-
اسی طرح ریاست جونا گڑھ جو کہ بین الاقوامی قوانین ِ کے مطابق الحاق کی دستاویز پر دونوں حکمرانوں کے دستخط ہونے کے بعد سے اب تک باقاعدہ پاکستان کا حصہ ہے اس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک ایسا تنازعہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے وقت کسی بھی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے-
شمالی ریاستیں مثلاًدیر،سوات ،چترال کی تذویراتی اور دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے ان ریاستوں نے اپنے پرشکوہ پہاڑی سلسلوں کے ساتھ ناصرف پاکستان کی تسخیر کو ناممکن بنا دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خوبصورتی کو بھی دگنا کردیا- بین الاقوامی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہونے کے باوجود ان ریاستوں اور ان ریاستوں کے غیور لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو یقینی بنایا ہے-
اسی طرح معاشی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ان ریاستوں کی اہمیت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے-مثلاً بلوچستان کی ریاستیں قلات، مکران، خاران، لسبیلہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہیں گوادر کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس وقت عالمی طاقتیں بھی اس کی تزویراتی و معاشی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہیں- موجودہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری اس کی سب سے بڑی مثال ہے- اسی طرح شمالی ریاستیں دیر، سوات، چترال، امب وغیرہ پاکستان میں سیاحتی اہمیت کے حوالے سے شاہکار ہیں اور پوری دنیا میں اس خطے کی اہمیت تسلیم شدہ ہے اور پوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کے ذریعے پاکستان کثیر زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے اور یہ علاقے بھی قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال ہیں-
معاشرتی حوالے سے پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ہر ریاست کی اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اپنی منفرد تہذیب وثقافت ہے- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے خطے کا ثقافتی لحاظ سے بہت متنوع ملک ہےاور یہ تمام ریاستیں اس کی خوبصورتی اور اہمیت کو بڑھاتی ہیں -
٭٭٭
[1]https://www.lexico.com/definition/princely_states
[2]Indian Independence Act, 1947
[3]Alastair Lamb, Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (Herting for dbury: Roxford books, 1991) p.4
[4]Copland, Ian. “The Princely States, the Muslim League, and the Partition of India in 1947.” The International History Review 13, no. 1 (1991): 38–69. http://www.jstor.org/stable/40106322.
[5]Attiq ur Rahman, Anjum shaheen, Dr. Muhammad Tariq, Political Background of The Bahawalpur, Before and after Bahawalpur State, International Journal of Social Sciences, Humanities and Education Volume 3, Number 1, 2019, p. 01.
[7]Anabel Loyd, Bahawalpur: The Kingdom that Vanished, Penguin Books, Online Copy, 2020, p. 124
[8]Penderal Moon, Divide and Quit? London: Chato & Windus, 1999, p. 107
[9]Mohd. Qamar-ul-Zaman Abbasi, Quaid-I-Azam Aur Riast Bahawalpur (Lahore: Qamar-ul-Zaman Abbasi 1999), p.133.
[10]Anabel Loyd, Bahawalpur: The Kingdom that Vanished, Penguin Books, Online Copy, 2020, p. 128
[11]Umbreen Javaid, Bahawalpur State: Effective Indirect Participation in Pakistan Movement, Journal of the Research Society of Pakistan, University of Punjab, Vol. 46, No. 2, 2009, p. 199
[12]“Yawer” Haft Roza (seven days), Ahmad pur East, May 22,1989.
[13]Urdu Digest Monthly, February 1978, P.213.
[14]Muhammad Arif Jan, Makhdoom-ul-Mulk se Makhdoom Ahmad Mehmood Tak, Nida Publication Lahore, 2005, p. 23.
[15]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 151
[16]Masood Hassan Shahab, Mashaheer-e-Bahawalapur. Bahawalpur: 1980. p.61.
[17]Muhammad Qamar-u-Zaman Abbassi, Baghdad sey Bahawalpur...Addition 4th, 2011.p.479.
[19]Government of Bahawalpur Budget 1953-54, Bwp,1953.
[20]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 150
[21]Mushtaque Ahmed Qureshi, Nawab Bahawalpur Kon Thy?, Newspaper Editorial Article, Daily Jang, 2018. https://jang.com.pk/amp/511563
[22]Peter J Claus; Sarah Diamond; Margaret Ann Mills, (2003). South Asian Folklore: An Encyclopedia: Afghanistan, Bangladesh, India, Nepal, Pakistan, Sri Lanka. Taylor & Francis. p. 447
[23]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 73
[24]Jinnah paper. Vol. viii.p.253
[25]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 74
[26]E.J.M. Dent to F. Amin, April 15,1948, NAP, F.216(III)-GG.123
[27]Ruler of swat to Ambrose Dundas, June 4, 1948, NAP, F.6-GG/2.
[28]F. Amin to M. Ikramullah, May 24, 1948, NAP, F.6-GG/3.
[29]Sultan-i-Rome. Swat State (1915-1969) from Genesis to Merger: An Analysis of Political, Administrative, Socio-political, and Economic Development. Oxford University Press. 2008
[30]PS-145. M. A. Jinnah to Ruler of Swat F.718/3 245 28 PI July 1947.
[31]PS-146.Ruler of Swat to M.A. Jinnah F. 6-GG/I Saidu Sharif, Swat State, N.W.F.P.,8 August 1947.
[33]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 21
[34]Ruler of Chitral to Jinnah, August 3, 1947.NAP, F.5-GG/1-2
[35]Ruler of Chitral to Jinnah, August 9, 1947.NAP, F.5-GG/3.
[36]Wayne Ayres Wilcox, Pakistan: The Consolidation of a Nation. New York.1963. P.83.
[37]Ruler of Chitral to Jinnah, October 29, 1947.NAP, F.5-GG/15.
[38]PS-39. Ruler of Chitral to M. A. Jinnah F.5-GG/9 CHITRAL STATE, 29 October 1947.
[39]Ruler of Chitral to Jinnah, September 20,1947. NAP, F.5-GG/4.
[40]Ruler of Chitral to Jinnah, February 20,1948. NAP, F.5-GG/1-2.
[41]Ch. Muhammad Ali, Emergence of Pakistan, Lahore, 1967,P.236
[42]Quoted by Zaidi, ed., Jinnah Papers, Vol. VIII, xvi.
[43]PS.124.Muhammad Ali Talpur to M. A. Jinnah. F. 8-GG/1-2.22, 8 August 1947.
[44]PS-125.Instrument of Accession of Khairpur State (KARACHI, 9 October 1947
[45]Jinnah to Ruler of Qalat, April 2,1948, NAP,F.14-GG/123.
[46]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 120
[47]Haji Mosa Lawai, Aqs-e-Bantwa (Bantwa Reflections), Qasim Mosa Lawai: Mosa Lawai Foundation, 2006, p. 50
[50]Gustar F. Papneek, The Memon Community Heritage and Identity,
http://www.memonpoint.com/images/Memon%20Heritage/Haritage%20Par%20-%20I.pdf
[51]Lewis, S. R., & Organisation for Economic Co-operation and Development. (1970). Pakistan: Industrialization and trade policies. London: Published for the Development Centre of the Organisation for Economic Co-operation and Development by Oxford University Press.
[52]Muhammad Bahar Khan, The Annexation of Princely States with Pakistan and Its Impacts, Unpublished Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Pakistan Studies, Department of Pakistan Studies, The Islamia University of Bahawalpur, 2020, p. 21
[53]Z. H. Zaidi, Quaid-e-Azam Papers.Vol.V.p.289.
[54]S.M. Yousuf to M. Ikramullah, October 8, 1947, NAP, F.124(11)-GG/1
[55]Urdu “Daira Muarif-e-Islamia. Danish Gah Punjab, Lahore. Edition 1st vol.23, 1989.p.218.
[56]Z. H. Zaidi, Quaid-e-Azam Papers. Vol. VIII. Pakistan States-47, 3 November 1947, M. Jamal Khan to William A. Brown, The Gilgit Rebellion 1947, p.177.
[57]Z. H. Zaidi, Quaid-e-Azam Papers. Vol. VIII. Pakistan States-48, Liaquat Ali Khan to George Cunningham,
Telegram, FOA, SA (4)-6/2 Most Immediate No-380-G. Lahore 6 November 1947.
[58]Annex to PS-48. Quaid-eAzam paper.vol.viii.PS.47.p.114
[60]Alstair Lamb, Kashmir: A Disputed Legacy, 1846-1990. Hertford: oxford Books, 1992.
[61]SCOR, 3rd year, 236th meeting, 28 January 1948, p,283 as quoted Ijaz Hussain, Kashmir Dispute: An International Law.Islamabad.1998, p.41
[62]Ismael Padhiar, Junagadh: The Paradise Lost, p.8