وطن اور دھرتی سے محبت انسان کے خمیر میں شامل ہے- وہ اولین ٹھکانہ جہاں انسان اپنی پہلی سانس لیتا ہے، ہمیشہ انسان کو عزیز ہوتا ہے- بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ وہ ٹھکانہ انسان کی پہلی محبت بن جاتا ہے- انسان کو یہاں کسی بھی طرز کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا-وطن سے محبت اور عشق قومی اور دینی فریضہ بھی ہے -
حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس خوبصورت واقعہ سے وطن کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے- غفار قبیلہ کا ایک شخص ہجرت کے بعد کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ آیا (یہ احکام نزول پردہ سے پہلے کا واقعہ ہے) تو حضرت عائشہؓ نے اُس سے پوچھا کہ مکہ کا کیا حال تھا تو اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے یہ جواب دیا کہ:
’’سر زمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے- اس کے چٹیل میدان میں سفید اذخر گھاس خوب جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے‘‘-
حضور نبی کریم(ﷺ) نے یہ سنا تو آپ (ﷺ)کو مکہ کی مزید یاد آنے لگی جس پہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
’’بس کرو اور مکہ کے مزید احوال بتا کر ہمیں غمگین نہ کرو“-
دوسری روایت میں ذکر ہے کہ :
’’رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا تو نے دلوں کو ٹھنڈا کر دیا‘‘-[1]
اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں- شاعری جذبات کے اظہار کا ایک نمایاں ذریعہ ہے- ایک بات عمومی طور پہ گفتگو کے انداز میں بھی کہی جا سکتی ہے لیکن جب اپنی بات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے شعری صورت میں اظہار کیا جائے تو اس کی تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے- کیونکہ فنون لطیفہ کا ہماری طبیعت اور ماحول کے ساتھ گہرا انسلاک ہے- اپنی رائے کے اظہار کے لئے اور بھی دیگر صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں برصغیر میں عموماً شاعری اور فنون لطیفہ کے ساتھ عوام کی گہری جذباتی وابستگی ہے -اس کی عملی مثالیں صوفیاۓ کرام کی شاعری سے لی جا سکتی ہیں- سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعر کا ہمارے سماج،ثقافت اور معاشرت کے ساتھ ایک قریبی رشتہ ہے جو ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے -قیام پاکستان کی مکمل تحریک میں ہمیں فکر اقبال کارفرما نظر آتی ہے اور اس ضمن میں اقبال کا کلام ہمارے لئے وطنیت اور حب الوطنی کا بے بہا خزانہ لئے ہوئے ہے-
ڈاکٹر انصرعباس لکھتے ہیں:
’’قیام پاکستان کے بعد اردو شاعری میں جو رویہ سب سے غالب رہا وہ پاکستان سے محبت و عقیدت کا رویہ تھا- اس رویے کے زیر اثر اردو شعراء نے پاکستان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر اسے پوری اسلامی دنیا کیلئے مینار نور بنانے میں اہم کردار ادا کیا- تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان تک متنوع موضوعات ایسے ہیں جو اردو ملی نغموں کا حصہ بنے- ان موضوعات میں ہجرت، ہجرت کے نتیجے میں فسادات، سیاسی عدم استحکام، مارشل لاء، پاک بھارت جنگیں،شہدائے وطن، قومی و ملی رہنماؤں پر لکھے گئے شعر پارے، تعمیر پاکستان مناظر پاکستان، پاکستانی شہروں سے محبت کا اظہار، مذہبی روایات، اخلاقی روایات اور ضبط آزادی جیسے متعدد موضوعات پر شعرائے پاکستان نے قلم آزمائی کی‘‘-[2]
قیام پاکستان سے تاحال شاعری کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو ہر دہائی میں شعراء کی ایسی نمایاں کھیپ موجود رہی ہے جنہوں نے وطن عزیز سے محبت، عقیدت، یگانگت اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے خامہ فرسائی کی اور اپنے وطن کو خراج تحسین پیش کیا- اس ضمن میں جو موضوعات بیان ہوئے ان میں وطن کی ضرورت و اہمیت ، شہداء کی قربانیوں، وطن عزیز سے وفاداری اور وطن عزیز کی خوبصورتی کو بڑھ چڑھ کر شعرائے کرام نے خراج تحسین پیش کیا-اگر اس روایت کا قیام پاکستان سے تاحال جائزہ لیا جائے تو ایک مفصل بحث کی ضرورت ہے- لیکن یہاں جامع اور مختصراً چند شعراء کے کلام سے عملی مثالوں سے وضاحت کی جاتی ہے-
حب الوطنی کے ذیل میں بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت پہ سینکڑوں خوبصورت ملی نغمے اور نظمیں شعراء نے لکھیں، جن کو قبول عام بھی حاصل ہوا -اس حوالہ سے رسالہ’’ہمایوں‘‘کےایڈیٹر میاں بشیر احمد کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی-
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح |
اس نظم کی مقبولیت کتنی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی اور آج بھی یہ نظم خواص و عام کی زبان پہ زد عام ہے-سیماب اکبر آبادی کی ایک اور نظم ’’شکریہ قائد اعظم‘‘ میں یوں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:
مل گیا مرکز ہمیں بخت آزمائی کے لیے |
قائد اعظم کی خدمات اور سیاسی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں مولانا ظفر علی خان کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے-
ملت کا تقاضہ ہے کہ اے قائد اعظم |
بانیٔ پاکستان کی شخصیت کو دیگر بھی سینکڑوں نمایاں شعراء نے خراج تحسین پیش کیا- خراج تحسین بنتا بھی تھا کہ ایسا لیڈر قوم کو میسر آیا جس نے اپنی حکمت عملی، محنت اور استقلال سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا-
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہجرت کے موضوع پر بہت سارا ادب تخلیق ہوا جس میں ہجرت و فسادات کے موضوع کو سخن کا حصہ بنایا گیا- اس حوالے سے ڈاکٹر عنصر عباس لکھتے ہیں:
’’تقسیم اور فسادات کے موضوع پر اردو شاعری میں اس کا اظہار زیادہ تر غزل میں ہوا ہے- ناصر کاظمی نے اردو غزل میں ماضی کی یاد کو مستقل موضوع بنایا‘‘-[5]
یہاں سے نئی زندگی کی ابتداء ہوئی اور ادب کا موضوع بدل گیا- ن.م راشد کی نظم’’ اے وطن اے جان‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
اے وطن ترکے میں پائے تُو نے وہ خانہ بدوش |
آزادی کے بعد کی صورتحال میں کچھ ادباء ایسے بھی تھے جو قنوطیت کی بجائے رجائیت کا رنگ بھرنے میں مصروف تھے- ایسے مصنفین کا نصب العین تھا کہ اب تمام احوال کو حقیقت کی نظروں سے تسلیم کیا جائے اور پاکستان کو دل و جان سے قبول کر لینے کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے-ان شعرا میں احمد ندیم قاسمی کا نام سر فہرست ہے وہ لکھتے ہیں:
کس لئے آج کی شب جشن چراغاں نہ کروں |
احمد ندیم قاسمی کی اس دعائیہ نظم سے کون واقف نہیں:
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے |
قوم میں جذبہ تعمیر زندہ کرنے میں اردو شعرا نے اہم حصہ شامل کیا- شعراء نے اپنے نغموں سے قوم کو ایک نئے سفر اور لگن کا درس دیا- ماہر القادری اپنی نظم ’’چلو‘‘ میں لکھتے ہیں:
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتے چلو |
آزادی کے بعد وطنِ عزیز کے باسیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا- لیکن آزادی کی نعمت جس ظلم کی چکی میں پسنے کے بعد نصیب ہوئی تھی اس کے بعد تمام مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے کیونکہ اب وطنِ عزیز میں آزاد سانس اور فضا میسر تھی- کسی طرز کا کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہ تھی- عبادات اور رسم و رواج کی آزادی تھی- الغرض! ایک امن اور آشتی کا دور چل پڑا-چیدہ چیدہ مسائل کے حل کے لیے قوم یکجان رہی اور نوزائیدہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لگی- کیونکہ یہ وقت کانٹوں کی تکلیف سے کراہنے کا نہیں تھا کیونکہ وطن عزیز کے باسیوں نے آگے کا سفر کرنا تھا-اس سارے منظر نامے میں شعراء اپنا نمایاں کام کر رہے تھے- احمد فراز کی نظم ’’اے میری ارض وطن ‘‘کا یہ حصہ بہت اہم ہے:
آج سے میرا ہنر پھر سے اثاثہ ہے تیرا |
احمد فراز کا نام مزاحمتی شعراء میں نمایاں ہے- انہوں نے مارشل لاء کے دور میں بھی اپنا جھکنا گوارا نہ کیا-ان کی وطن سے محبت ان کی شاعری و شخصیت دونوں میں نمایاں ہے-
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے |
صوفی غلام مصطفی تبسم آزادی کو اجالے سے منور کرتے ہیں اور آزادی کو نعمت سے تعبیر کرتے ہیں:
کیوں ترستے ہو اجالے میں اجالے کے لیے |
جہاں شعراء نے اپنے وطن عزیز کی محبت میں پرُ خلوص ترانے اور ملی نغمے لکھے وہیں اپنے ملک کی خوبصورتی اور دلکشی کو بھی اپنے اشعار کا حصہ بنایا -اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو مالک کائنات نے حسن فطرت سے ایسا نوازا ہے کہ اس کی مثال ناممکن ہے-وطن عزیز میں صحرا، پہاڑ، دریا، سمندر سب کچھ موجود ہے تمام موسم موجود ہیں اور قدرتی مناظر و سیاحت بھی بے مثال ہے- شمالی علاقہ جات کے حسن کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی- ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح پاکستان کے قدرتی مناظر و خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کیلئے آتے ہیں- پاکستان میں برف پوش پہاڑوں، وادیوں، وادی کشمیرجنت نظیر اور دیگر کئی مقامات ایسے ہیں جو سیاحوں اور شعراء دونوں کے لیے یکساں دلچسپی کا باعث ہیں- انہی مقامات کی دلکشی اور خوبصورتی کو شعرا نے اپنے اشعار میں سمویا- قتیل شفائی کس طرح پاکستان کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں:
ہر ایک ذرے کی دلکشی میں چمک رہا ہے ضمیر اپنا |
اسی طرح اسلم انصاری بادشاہی مسجد کی جمالیات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
دستِ عالمگیر ہو یا تیشہ محنت کشاں |
پاکستان کے شمالی علاقہ جات بالخصوص گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی میں یکتا ہیں اور ان علاقہ جات کی شہرت اور قدرتی مناظر کی شہرت عالمی سطح پر بھی ہے- ان علاقوں کی خوبصورتی کو اقبال عامی نے یوں اجاگر کیا ہے:
سبز وادی کوہساروں کی زمیں |
معروف شاعر محمود الرحمٰن کا یہ کلام دیکھے:
بہر کام پُر کیف رنگیں فضائیں |
پروین شاکرلکھتی ہیں:
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے |
قدرتی خوبصورتی کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ اردو شعراء نے وطن عزیز کے مختلف شہروں پر بھی کلام لکھا- مختلف شہروں سے محبت درحقیقت اپنے وطن سے مٹی کا ایک انداز ہے- لاہور سے محبت کرنے والوں نے لاہور کی شان و شوکت اور خوبصورتی پر بہت کچھ لکھا- ناصر کاظمی لکھتے ہیں:
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد |
اسی طرح زندہ دلان لاہور کے بارے میں جعفر بلوچ لکھتے ہیں:
یہاں آ کے میں نے بہت فیض پایا |
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو معاشی و تجارتی ہر دو حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے -حافظ امرتسری کراچی سے محبت کس انداز میں کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
یہ کراچی نگار مشرق ہے |
اسی طرح دیگر بڑے شہروں کے بارے میں شعراء کا کلام موجود ہے جیسے اسلام آباد، سیالکوٹ، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا وغیرہ- مختلف جگہوں کا ذکر کیا جائے اور کشمیر کا ذکر نہ ہو یہ امر ممکن ہی نہیں- حفیظ جالندھری اپنی نظم تصویر شہر میں لکھتے ہیں:
معرکہ درپیش ہے جذبات کی تقسیر کا |
صوفی غلام مصطفی تبسم یوں لکھتے ہیں:
ہر گوشہ تیرے گلشن فردوس کی تصویر |
احمد فراز اپنی نظم ’’نیاکشمیر‘‘ میں جہاں کشمیر کی دلاویز خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں وہیں استحصالی قوتوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں:
میری فردوس گل و لالہ و نسریں کی زمیں |
حب وطن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے عساکر پاکستان کو کس طرح فراموش کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر محاذ پہ عسکری طاقتوں نے وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے-یومِ پاکستان، یومِ آزادی اور دیگر اہم دنوں کے حساب سے پاکستانی شعراء کے ملی نغمے وترانے اپنی مثال آپ ہیں- ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
جمیل الدین عالی کا یہ ملی نغمہ زبان زد عام ہے:
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں |
جمیل الدین عالی صاحب کا یہ نغمہ بھی بے حد مشہور و معروف ہے :
اے وطن کے سجیلے جوانو! |
حفیظ جالندھری اپنی نظم میں جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
پاکستان کی عزت میں جو لڑنے مرنے جاتے ہیں |
احمد ندیم قاسمی نظریہ پاکستان اور وطن عزیز سے محبت کا احوال اپنی نظم 6 ستمبر میں یوں تحریر کرتے ہیں:
آخری بار اندھیرے کے پُجاری سُن لیں |
شاعر مزدور احسان دانش کے نغموں میں وطن کی مٹی سے محبت کا جذبہ اپنے عروج پہ کارفرما نظر آتا ہے- افواجِ پاکستان کے نام اپنی نظم میں لکھتے ہیں:
وطن کی آبرو تم ہو، وطن کے پاسباں تم ہو |
مجید امجد کا نام اردو شعر و ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں-ان کی شاعری بھی جذبہ حب الوطنی کی عکاس ہے- اپنی نظم’’سپاہی ‘‘میں لکھتے ہیں:
اگر اس مقدس سر زمیں پر میرا خوں نہ بہتا |
6ستمبر کے عنوان سے شورش کاشمیری کی عمدہ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:
غلامان آلِ نبی زندہ باد |
ناصر کاظمی کی کتاب’’نشاطِ خواب‘‘ میں ہمارے پاک وطن کی شان کے نام سے یہ نظم موجود ہے :
ہمارے پاک وطن کی شان |
دور حاضر کے شعراء کا کلام اگر سامنے رکھا جائے تو بہت سے نمایاں ملی نغمے، ترانے اور نظمیں موجود ہیں اور موجودہ شعراء بھی عوام الناس میں حبِ وطن اجاگر کرنے میں پیش پیش رہے ہیں کیونکہ یہ موضوع ہی ایسا ہے کہ ہر خاص و عام اس موضوع پہ اپنا اظہار کرنا چاہتا ہے جب عوام الناس دھرتی سے اپنی محبت کے اِظہار کیلئے بے چین ہوتی ہے تو شاعر تو اپنے معاشرہ و عہد کا سب سے سنجیدہ و حساس شخص ہوتا ہے وہ کیسے اپنے خیالات کے اظہار سے رُک سکتا ہے- ذیل میں چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
بزبانِ انجم خیالی:
سنبھال رکھی ہیں دامن کی دھجیاں میں نے |
بزبانِ ندیم بھابھہ:
ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر |
بزبانِ محمود ہاشمی:
زمیں کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں |
بزبانِ سائل نظامی:
ہجرت کی شب حضور نے آنسو بہائے تھے |
وطن سے محبت اور عقیدت کسی بھی ملک کے باسیوں کے لیے ازحد ضروری ہےاور یہ کسی بھی شہری کی گھٹی میں شامل ہوتی ہے -اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں- وہ لوگ عجیب و غریب سوچ کے مالک ہوتے ہیں جنہیں اپنے دیس سے محبت نہ ہو- آج بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب مغربی میڈیا و فکر سے متاثرین یہ اعتراض کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم کا نقصان ہوا ہے- اس آزادی کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر تحریک پاکستان کے قائدین پر اعتراضات کے نشتر چلائے جاتے ہیں اور انہیں ملکی سطح کے ٹاک شوز میں برا بھلا کہا جاتا ہے- اس سے بڑھ کر کسی قوم کی بد بختی اور بدنصیبی کیا ہو گی کہ اپنے محسنین پر کیچڑ اچھالا جائے اور ان کی تضحیک کی جائے -یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے- دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا- مجھے تو وطن عزیز کی فضائیں ہر لمحہ معطر اور پرنور لگتی ہیں-
آج کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان نسل میں وطن سے محبت اور عقیدت کے نمایاں پہلوؤں پر بات کی جائے اور ان کی فکری اور نظریاتی طور پر تربیت کی جائے کہ وہ وطن عزیز پاکستان مدینہ ثانی کے معزز اور سمجھ دار شہری ثابت ہوں اور مستقبل قریب میں ملک کے باگ ڈور سنبھالیں- کیونکہ یہ ضرورت وقت ہے اور اس پہ مدارس، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کام کی ضرورت ہے کہ اساتذہ کرام طلباء و طالبات میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ کریں- تاکہ کل کو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو -ہمارا مستقبل پاکستان کا مستقبل ہے- پاکستان محفوظ ہے تو ہم محفوظ ہیں-تمام نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات دفن کرکے ملی یگانگت و اتحاد کا عَلَم تھام لینا چاہیے اور ایک دوسرے کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے ایک دوسرے کا دست وبازو بننا چاہیے-آخر پہ راقم کا ایک شعر:
جامی میں اپنی جان بصد شوق وار دوں |
٭٭٭
[1](المقاصدالحسنہ از سخاوی ص 298 بیروت)
[2](انصر عباس ، پاکستانی اردو شاعری میں ملی نغمہ کی روایت ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی (اردو) ، اسلام آباد ، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی ، 2019)
[3](قائداعظم، قائد کی خوشبو)
[4](قائداعظم سے خطاب، ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح)
[5](انصر عباس ، پاکستانی اردو شاعری میں ملی نغمہ کی روایت ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی (اردو) ، اسلام آباد ، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس و ٹیکنالوجی ، 2019)
[6](جشن چراغاں شعلہ گل)
[7](چلو ، فردوس)
[8](اے میری ارض وطن ،شب خون)
[9]( شب خون)
[10](صبح آزادی ، سو بار چمن مہکا)
[11](وطن کے لئے ایک غزل، ہزارہ میں ملی شاعری)
[12](بادشاہی مسجد، منتخب کلیات اسلم انصاری)
[13](گلگت ،شمالی علاقے کا اردو ادب)
[14](قومی نظمیں)
[15](برسبیل سخن ،میرا لاہور)
[16]( کراچی، میرا سوہنا پاکستان)
[17](خون کے چراغ ، فغان کشمیر)
[18](نیا کشمیر)
[19]( اللہ اکبر ،جیوے جیوے پاکستان)
[20](پاکستان کی عزت، جنگ ترنگ)
[21](6ستمبر، محیط)
[22]( افواج پاکستان کے نام ،جنگ ترنگ)
[23](سپاہی، امروز )
[24](چھ ستمبر، الجہاد، الجہاد)