قیام پاکستان کا مقصد محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کر نا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی نظام تشکیل دے کر ایک جد ید فلاحی ریاست کا نمونہپیش کیا جاسکے جو فکر و تدبر سے نسل انسانی کے موجودہ مسائل کا ممکنہ حل پیش کر سکے- جیسا کہ قائد اعظمؒ نے فر مایا تھا :
The creation of a state of our own was a means to an end and not the end in itself.[1]
Wo do not Demand Pakistan Simply to have a piece of land but we want a Laboratarywher we could experiment on Islamic Principles.[2]
بد قسمتی سے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہماری قوم نے عالمی معیا رات اور امکانات کو مدنظر نہیں رکھا- نسل انسانی میں جتنی بھی جدت اور انقلاب آئے ہیں ان کے پیچھے ہر طبقہ کے افراد کی فکر کا رفر ما رہی ہے- بقول علامہ اقبالؒ :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود |
کچھ عرصہ قبل ایکایجو کیشنل ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا -وہاں گریڈ 8لیول کے ایک سکول میں نسل نو کیلئے مختلف سر گرمیوں کی شکل میں ایک کاوش دیکھی- ان میں 1 -Carrier Choice (شعبہ زندگی )ہے- ابتداء میں ہی بچوں کو ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جس کا مقصد اُ ن کی دلچسپی، شوق، وابستگی اور رجحا ن کی شناخت کرنا تھا-کیونکہ انسان اُسی فیلڈ میں نا م پیدا کر سکتا ہے جس میں اُس کا ذوق ہوتا ہے -دیگر اقوام کی نسلِ نو اپنے خوبواں کو پورا کرنے کیلئے اپنے مستقبل کا انتخاب خودکرتے ہیں- جبکہ ہمارے ہو نہارمستقبل کی سمت کا تعین والدین کی چاہت یا بہتر معاشی حالات کی بنیاد پر کرتے ہیں- ایک چیز Enrichment Activityہے-اس سرگرمی میں بچے کسی پروجیکٹ کا انتخاب کرتے ہیں، جیسے کچھ بچے کمپیوٹر پروجیکٹ کے ذریعےیور پین ہسٹری پرایک پریزنٹیشن تیار کررہے تھے تو کچھ نے کمرہ عدالت کا خاکہ بنا کر میزان عدل تھام رکھاتھا-جج، ملزم،وکیل کے کردار ادا کر رہے تھے-اس طرح وہ اپنے پسندیدہ شعبہ میں اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت بڑھا کر کم عمری میں ہی اس کے مطلوبہ معیارات سے روشناس ہو جاتے ہیں-چونکہ ان کا پیشہ اُ ن کے پسندیدہ مشغلے کی طرح ہوتا ہے پھر کیوں نا وہ اُس میں کمال کو پہنچیں، تحقیق اور جدت متعارف کروائیں؟ اس کے برعکس و طن عزیز کی نسل نو کی کوششوں کا محور اچھے گریڈ و ڈگری تو ہے لیکن پیشہ ورانہ مہارت اور عملی زندگی کی قابلیت پر خاطر توجہ نہیں-
سکول میں ان کا ایکSlogan ہوتاہے جو درحقیقت ترقی یافتہ دنیا کی نسل نو کے مزاج کی عکاسی کرتا ہے-وہیں
When We Work, We Work Hard and then we play Hard.
ہماری نسل نو کو بھی اپنے رویے کامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ کرنے چاہیں- ہر وقت ایک ہی ذہنی حالت میں رہنے کی بجائے حالات کے پیش نظر اپنی کیفیت اور اندازفکر بدلنے چاہیں- اپنے دماغ سے آرام طلب، غیر سنجیدہ اوربے مقصد خیالات کو تر ک کر نا چاہیے-بے مقصد آرزؤں کے سحر میں مبتلا نوجوانوں کو اپنا ذہنی رویہ اور نقطۂ نظر بدلنے کی ضرورت ہے -
در دل شاں آرزوہابے ثبات |
’’افسو س اس قوم پر کے جس کے نوجوان بے مقصد آرزوں کے مالک ہوں اور جوماؤں کے پیٹ سے ہی مردہ پیدا ہوں‘‘-[3]
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پس پردہ ایک فکرنظر آتی ہے- پہلے مرحلے میں بچے کے شوق یا میلان کی نشاندہی کی جاتی ہے - پھر اُس شعبہ سے متعلق مطلوبہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا اور بعد ازاں اُن کے رویوں پہ توجہ دی جاتی ہے- اس عمل کو ہیومن ڈیو پلیمنٹ کہتے ہیں جس کے مطابق فردِ واحد کودو پہلوؤں میں بیک وقت تربیت اور ترقی کی ضرورت ہے-
- سوشل ڈیو پلیمنٹ یعنی (اخلاقی، روحانی، ذہن سازی، کردار سازی کے حوالےسےترقی)
- فزیکل ڈیو پلیمنٹ یعنی (بہتر ٹریننگ، بہتر مہارت، بہتر تعلیم اور قابلیت کے اعتبار سے ترقی)
زیر نظر مضمون چونکہ ہماری نسل نو کی علمی، تحقیقی و تخلیقی عدم دلچسپی کے تنا ظر میں لکھا جا رہا ہے اس لیے اس میں علم الادراک اور محسوسات کے تقابلی جائزہ پر زیادہ توجہ مرکوز ہے بہ نسبت علم عر فان کے، وگرنہ اس مسلمہ حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ علم ِعر فان کی عدم موجودگی میں علم محسوسات اور ادراک تعمیر کی بجائے تخریب ہی کرتا ہے-علمِ عرفان سے مراد عرفانِ ذات، عرفانِ انسانیت، عرفانِ حقیقتِ انسان اور عرفانِ مقصدِ تخلیقِ کائنات ہے-علم ادراک اور محسوسات کا تعلق مادی ترقی سے ہےجو روحانی اور سماجی ترقی کے بغیر غیر مؤثر ہے-جبکہ علمِ عرفان کاتعلق روحانی تر قی سےہے اور روحانی ترقی کا تعلق اعلیٰ اخلاقی اقدار سے ہے اوریہی ’’سوشل ڈو یلیپمنٹ ‘‘ کا مقصود ہے -یو رپ اور تر قی یافتہ ممالک فزیکل اور انٹلیکچول ڈیویلیپمنٹ کے باوجود روحانی اور سوشل ڈیویلیپمنٹ ( جس کی طر ف وہ کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس کے اصل فر یم ورک اور متعین قدروں سے نا واقف ہیں ) میں پیچھے ہیں -یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے باوجو د اتنی تر قی کے ریپ، گینگ ریپ، قتل، فیملی یونٹ کا تباہ ہونا، نسلی تعصب، طبقاتی ناہمواری، خودکشی میں اضافہ جیسے بہت سے دیگرمعاشرتی مسائل کا شکار ہیں اور یہی عالمی نسل نو کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے -
تاریخ میں دانشوروں کی روح، جسم اور عقل پہ کی گئی بحث کو موجودہ انسانی ترقی کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جسم کا تعلق مادی ترقی سے ہے، عقل کا تعلق علمی و انٹلیکچول ترقی سے ہے اور رو ح کا تعلق اعلیٰ اخلاقی اقدار سے ہے - اسی لیے متوازن انسانی ترقی ( ہیومن ڈیویلیپمنٹ) کیلئے تینوں پہلوؤں کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے- سوشل سائنسز کی تعریف کے مطابق کچھ بنیادی اور عمومی انسانی ضروریات ہوتی ہیں -بنیادی اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے بغیر انسان کی بقا یا زندہ رہنا نا ممکن ہے جبکہ عام ضروریات صرف شخصیت کی تعمیر و ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں- بغور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جسم اور عقل کی بنیادی ضروریات تو پوری کی جا رہی ہیں لیکن روح کی نہیں- چو نکہ روح کا تعلق اعلیٰ اخلا قی اقدار سے ہے لہٰذا وہ دم توڑ رہی ہیں- جسم کو مادی ترقی مل رہی ہے تو وہ پھل پھول رہا ہے - عقل کو علم سے دوام حاصل ہے اور روح کو نظر انداز کرنے سے اخلاقی اقدار نا پید ہو رہی ہیں-
اس مضمون میں ایک رائج الوقت علمی مہارت کی تھیوری کا ذکرکیا جائے گا- جس سے ہمیں ہماری نئی نسل کا علم و دانش پرکھنےمیں مدد ملےگی- اس تھیوری کانامBloom Taxonomyہے جس میں علمی مہارت حاصل کرنے کا مرحلہ وار تذکرہ ہے - قارئین کی آسانی کی خاطر اس کے مفہوم کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جا رہاہے -
Awareness Information:
جب ہم کسی چیز کے بارے میں جا ن جاتے ہیں یا اس کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں تویہ حصول علم کی تگ و دو میں پہلا مرحلہ ہے- ہمیں صرف اس پراکتفاء نہیں کرنا بلکہ اگلے مرحلے کی طر ف بڑھنا ہے -
Evaluation:
معلومات حاصل کرنے کے بعد اس قابل بننا چاہیے کہ ان معلومات کی جانچ پڑتال، درجہ بندی، اندازہ یا اس کے متعلق تشخیص کرنے کی مہارت حاصل ہو جائے-
Analysis:
اس مر حلے پر بھی نہیں رکنا چاہیے بلکہ اس قابل بننا چاہیے کہ حاصل شدہ معلومات کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تاکہ اس کے متعلق اچھے برے کو جانچ سکیں-
Synthesis:
تیسرے مرحلے پر بھی نہیں رکنا چاہیے اور اس قابل بننا چاہیے کہ معلومات کی جانچ پڑتال، درجہ بندی اور تجزیہ کے بعد اس سے نتائج اخذ کیے جا سکیں-
Decision Making:
اس مرحلہ میں اس قابل بننا ہے کہ متعلقہ معلومات سے وابستہ معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے-
Application:
اب پچھلی تمام سٹیج سے آگے بڑھ کر اپنی صلاحیت کو اس قابل بنانا ہے کہ متعلقہ علم و معلومات کو دنیاوی امور میں استعمال کر سکیں-
Trouble Shouting:
یہاں پر اس قابل بننا ہے کہ اُس علم یا موضوع سے متعلق موجودہ اور مستقبل کے مسائل کا حل پیش کر سکیں-
اقوام عالم اپنی نسلوں کی علم و دانش کی پختگی اور تربیت ان خطوط پر کر رہی ہے جس سے قابلیت کے اعتبار سے ان میں اور ہمارے بچوں میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے- ہمارے معاشرے میں پہلی سٹیج سے آگے جا کر دماغی قوت اور صلاحیت کے بڑھانے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے- نتیجتاً آبادی کے بیشتر حصہ کامقدر فیصلہ ساز پالیسی بنانے والے بااختیار ایگزیکٹو ٹائپ پوزیشن کی بجائے محض مشقت و مزدوری اور کلیریکل ٹائپ ملازمت ہے -
اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا |
ہرزمانے میں پنپنے کے اپنے انداز ہوتے ہیں- ہمارا عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کےانقلاب کا ہے - آئے روز کائنات کے چھپے راز منکشف ہو رہے ہیں اور اظہارِ دنیا کے تناظر بدل رہے ہیں- اس علمی انقلاب میں پاکستانی نسل نو کو کردار ادا کرنا ہوگا- ایک زمانہ گزر گیاکہ ہم متحرک نہیں رہے - ایک وہ وقت تھا کہ جب دنیا ہر اصول اور جدت کیلئے ہمارے اسلاف کی طرف دیکھتی تھی- نظام عالم ہم طے کرتے تھے اور آج گلوبل آڈر کی ترقی میں ہمارا کوئی واضح کردار نہیں رہا - ہم نے تو کائنات کی تسخیر کا باعث بننا تھا اور وجود کے اندر کے جہان کے راز تلاش کر کے غیر مر ئی قوتوں کو دستر س میں لانا تھا-بقول علامہ اقبال صاحب :
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے |
نوجوانو!آپکےہم عصر Space Technology کے ذریعےستاروں کے جہاں کو تسخیر کرکے نئی دنیا بسانے کے خواب دیکھ رہے ہیں- وہ آسمان کی حدوں کو چھونے کی آرزو رکھتے ہیں-آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے ذریعے مستقبل میں اکثر شعبہ ہائے زندگی جدت اختیار کر رہے ہیں جیسے ریسٹورنٹ، ورک شاپ، فیکٹریاں، تعلیمی شعبہ حتیٰ کہ روبوٹک آرمی- اسی طرح جیالوجیکل یا ارتھ سائنسز میں عدم دلچسپی اور ان سے لاعلمی پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو اپنے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے-
ٹیکنالوجی بیسڈاورنظریات کی بنیاد پر قائم کردہ بزنسز کا دور دورہ ہے - فری لانسسنگ اور سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں پاکستانی نو جوانوں کی عالمی سطح پر کامیا بیوں کا سلسلہ تو چل پڑا ہے لیکن اس رجحان میں اضافہ کی ضرورت ہے - پاکستان کے کم عمر (Microsoft Certified Professional) دنیا میں اپنا لوہا منوارہے ہیں- ان میں ایان قریشی (عمر 5 برس)، عزیر اعوان ( عمر 6.5 برس)،مہر وز یا ور( عمر 6برس) ، شا فع توبانی (عمر 8 بر س) عر وبہ راؤ ( عمر 11بر س) ، با بر اقبال ( عمر9 بر س) ، عا رفہ کریم ( عمر 9 بر س) قابل ذکر ہیں-انٹر نیشنل سکر یبل چیمپئن حشام ہادی(عمر 9برس) - علی معین نوازش جنہوں نے اے لیول میں 21 A's حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا- فری لانسنگ میں پاکستانی نو جوان دنیا کے ایک تہا ئی ورک فو رس پر مشتمل ہے-
ترقی کی نتیجے میں پید ا ہونے والے چیلنجز(جیسے عالمی ماحولیاتی مسائل یا نئی وبائیں اور وائرسز)سے نمٹنے میں پاکستانی نسل نو کو میڈیکل،بائیو سائنسز اور انوا ئر مینٹل سائنسز میں اپنے ہم عصر اقوام کے مقابلے میں کردار ادا کرنا ہو گا- ہمیں اپنی نسل نو کو مستقبل کے مارکیٹ اور انڈسٹریل تقاضوں کے مطابق ماہر افرادی قوت بنانا ہوگا - امریکہ اور بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس نظریے کے تحت نصاب میں اضافی آپشنز پیدا کر رہے ہیں- مستقبل قریب میںSTEM Subjects کا دور آنے والا ہے -
STEMکامخفف Science, Technology, Engineering, Mathematic ہے-
امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے 2019ء میں (STEM)کی تعلیم پر 578ملین ڈالر خرچ کیے اور 2022ء میں بائیڈن انتظامیہ نے (STEM)تعلیمی بجٹ کو ترجیحی بنیادوں پر بڑھانے کیلئےیقین دہانی کرائی ہے- امریکہ بیورو آف لیبر سٹیٹسٹک نے (STEM) کو ’’مستقبل کا روز گار‘‘ قرار دیا ہے- ’’ان کا ماننا ہے کہ جس معاشر ے میں ٹیکنالوجی کی ترقی ہوتی ہے اس ٹیکنالوجی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا عملی حل پیش کرنے والے ہی نشوو نما پاتے ہیں ‘‘-[4]
ہمیں مستقبل کے اس کیر ئیر بیسڈ تعلیمی نظام کے لیے پہلے تو آگاہی اور پھر ٹھوس اقدامات اُٹھا کر اپنی نسل نو کو اقوام عالم کے ہم پلہ بنانے کیلئے بروقت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے-
ہمارے نوجوا ن یورپ اور امریکہ کے مادی اور پُر تعیش طرزِ زندگی کے سحر میں مبتلا ہیں اور ماڈرن ازم کے نام پر اپنی اقدار کو فرسودہ قرار دیتے ہیں- لیکن ان کی توجہ صرف ماڈرن ازم کے آزاد خیال طرز عمل پر ہوتی ہے -وہ مارڈن ازم کی اصل خصوصیات سے نا آشنا نظر آتے ہیں- جیسے علم، فن، ہنر، ایجاد، ریسرچ، ٹیکنالوجی اور ترقی کے آداب و اطوار وغیرہ- لہٰذا ترقی یافتہ دنیا سے بے حیائی اور عارضی بد نمامادی تخیلات قبول کرنے کی بجائے ان کی ترقی کے وہ بنیادی اصول اپنا نے کی ضرورت ہے جن پہ کاربند ہوکر انہوں نے زمانے کا رُخ اپنی طرف موڑ لیا ہے-
فطرت منصفانہ ہے اور بلاوجہ کسی قوم کےسرپر حکمرانی کا تاج نہیں سجاتی- اپنے آپ کو اس قابل بنانا پڑتاہے کہ نظام عالم کا بوجھ اُٹھا سکیں- دنیا کے لیے طب و طبیعیات ، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، قانون و نظام معاشرت، حکمرانی و انتظامی امور، سیاست و سفارت، ثقافت و صحافت الغرض! بنی نوع انسان کے لیے رو ئے زمین پر ایک منصفانہ اور ترقی پسند نظام وضع کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں- عروج کسی ایک پہلو میں ترقی کرنے سے نہیں آتا- قوم کے معماروں کو بیک وقت ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوانا پڑتا ہے اور اپنا مزاج و اطوار، نقطۂ نظر و ذہنی حالت، نفسیات و رویے، معیارات و انداز اور ترجیحات بدلنا پڑتی ہیں- اپنے بنیادی عقائد ونظریات اور روایات و فلسفہ حیات پہ قائم رہتے ہوئے رونما ہونے والی مثبت تبد یلیوں کو خوش اسلوبی سے قبول کرنا پڑتاہے -اس کے بعدتفکر اور تحقیق کے سمندر میں غوطہ زن ہو کرموجودہ اور ممکنہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے- پھر دیر پا خوش حالی اور پائید ار ترقی کے سفر کاآغازہوتاہے -
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا |
٭٭٭
[1]11Oct 1947
[2]Address at Islamia College Peshawar 1946
[3]حوالہ پس چہ باید کرد (حکمت فرعونی)
[4]what is STEM and why. is it important? Hannah Muniz Published 25-Oct-2021 up dated 16-Nov -2021