تحقیقی جائزہ : پاکستان کے چند نعت گویانِ اردو

تحقیقی جائزہ : پاکستان کے چند نعت گویانِ اردو

تحقیقی جائزہ : پاکستان کے چند نعت گویانِ اردو

مصنف: اظہر احمد اگست 2023

’’وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ قرآن مجید فرقان حمید کے متبرک کلمات ہیں اور یہ دعویٰ محب جل شانہٗ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) سے فرمایا ہے- اس ارفع و اعلیٰ ذکر کی برکت قرآن مجید کے قاری کو ہمیشہ محسوس ہوتی ہے- یٰس، طہٰ، والضحیٰ، والیل، مدثر و مزمل کے خوبصورت القابات اس رفعت کی ترجمانی کرتے ہیں- بلاشبہ یہ گویائی شرفِ اعلیٰ بہتر از کل جہاں ہے اور محبوب کا تذکرہ محب اپنے شایانِ شان کرتا ہے اور ہر وقت کرتا ہے جبکہ اس کے فرشتے بھی بس اس کے حبیب پر درود بھیجتے ہیں-یہی نہیں بلکہ محب کی محبت کا عالم یہ ہے کہ اس نے تمام جہانوں پر اپنے محبوب کی رفعت و عظمت و فضیلت کو برقرار فرما کر اس وجۂ تخلیق کائنات کو رحمت بنادیا اور انسانوں میں سے اہلِ ایمان و اہلِ تقویٰ پہ فرض فرمایا کہ وہ اس کے محبوب کی ذاتِ بابرکات پر درود و سلام کے گل و گلزار نچھاور کریں-

حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں قصیدے پڑھنا اور آپ (ﷺ)کا ذکر پاک و ذکر خیر کرنا تو سنتِ الٰہی اور سنتِ انبیاء (علیھم السلام) ہے- ہر نبی نے اپنی بعثت کے بعد نبی آخر الزماں کی نویدیں سنائی ہیں اور جب حضور خاتم النبیین (ﷺ) اس دنیا میں تشریف لے آئے تو مومنین و عارفین و عاشقین نے اپنے اپنے انداز میں اس کے حسن و تبسم کے گیت گائے ،یہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی آپ کی قصیدہ خوانی سے اپنے دہن و سخن کو روک نہ سکے- فیض یافتگانِ نظرِ مصطفےٰ (ﷺ) اور شاعرانِ دربارِ رسالت (ﷺ)حسان بن ثابت و کعب بن مالک و عبداللہ بن رواحہ و دیگر اصحابِ مکرمین (رضی اللہ عنھم)کی سنت کو آج تلک شمع بزمِ رسالت کے پروانے ادا کر رہے ہیں-

مدینہ طیبہ کی ریاست کے بعد دوسری ریاست جو کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ (ﷺ)پر قائم ہوئی وہ مدینہ ثانی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے- اس سر زمین پر اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے محبان و عشاقان و نعت گویان کی کثرت و کوثر عطا فرمائی ہے-ان نعت گویان نےبالخصوص اردو زبان میں نعت گوئی کے ذریعے اپنی منفرد شناخت بنائی اور ایسے منزہ و متبرک انداز میں گلہائے عقیدت کے نذرانے پیش کئے کہ جنہیں لبوں پر لاتے ہی انسان کے قلب و ذہن و روح میں ایمان و ایقان و وجدان و عرفان کے انوار پھوٹنے پھلنے لگتے ہیں-

اردو زبان میں صنفِ مدحت و نعت فارسی و عربی زبان سے آئی اور نعت گوئی کے لئے نقاد نے زبان و بیان پہ کامل دسترس رکھنے کی شرط بھی لگائی- عامیانہ لہجے اور شاعری کی نوک پلک ہی کافی نہ ٹھہری بلکہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حقیقتاً نعت شریف لکھنا بہت مشکل کام ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے- اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنخیص ہے-[1] مزید برآں یہ کہ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے- اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد، گناہ لازم آجاتا ہے- اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں- یہ وہ بارگاہِ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں-[2] المختصر یہ کہ نعت کا مقصود اصلی ثنائے رسول (ﷺ) کے حوالے سے محاسن دین کا بیان اور تقربِ الٰہی کا حصول ہے- [3]

نعت گوئی اور صداقتِ مدح کی توفیق عرب سے ہوتی ہوئی ملکِ عجم و خراسان اور پھر برصغیر پاک و ہند تک آئی- حضرت امیر خسرو،بیدل دہلوی، ولی دکنی، امیر مینائی سے یہ خوشبوئے عطروعقیدت امام احمد رضا خانؒ،خواجہ الطاف حسین حالی، علامہ محمد اقبال، ابو الاثر حفیظ جالندھری، حفیظ تائب ، مظفر وارثی و دیگر نعت گویان کے قلم و خرد کے ذریعے اس سرزمین پر پھیلی -پاکستان کےچند نعت گویانِ اردو کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے-

1.  قومی شاعر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ:

علامہ محمداقبالؒ گوپاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے لیکن مصورِ پاکستان ہونے اور اپنی ان تھک محنت و مشقت کی خاطر آپ علیہ الرحمہ کو پاکستان کے قومی شاعر ہونے کی حیثیت حاصل ہے- اقبالؒ نے اردو زبان میں پایہ کمال کی شاعری کی اور مدحتِ سرور کونین (ﷺ) کے بیان میں آپ کی نظیر مشکل ہے- آپ کو بیسویں صدی کا اردو و فارسی کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے-آپ کے شعری مجموعوں میں بہ کثرت مدحت و ثنائے مصطفےٰ (ﷺ)  ملتی ہے جو رسمی انداز سے پرےتخیلِ مجلس محمدی (ﷺ) کی عکاسی کرتی ہے-شدتِ حبِ رسول (ﷺ) اور عشق کے میدان میں جدت و فکر کی آمیزش ان کی نعت گوئی میں عیاں نظر آتی ہے-بقول اقبالؒ:

تازہ مرے ضمیر میں معرکہء کہن ہوا
عشق تمام مصطفےٰ، عقل تمام بولہب

اقبال کے مکتوبات کے مجموعے میں ایک مکتوب خان نیاز الدین خان کے نام لکھا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) حیات ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی حضور نبی کریم(ﷺ) کی مجلس پاک کی صحبت سے بعین اسی طرح فیض یاب ہوسکتے ہیں جیسے آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ظاہری دور میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) ہوا کرتے تھے-لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا اس لئے خاموش رہتا ہوں-[4] بزبانِ اقبال:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

2. اعظم چشتی:

تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن محمد اعظم چشتی اردو، فارسی اور پنجابی کے نامور شاعر اور نعت گو صاحبِ دیوان ہیں-آپ 15مارچ1921ءکو گجرات میں پیدا ہوئے-آپ نعت گوئی میں کمال رکھتے تھے، کل پانچ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے جن میں سے تین اردو اور دو پنجابی زبان میں ہیں: غذائے روح (1944ء)، رنگ و بو(1953ء) اور نیر اعظم (1970ء) اردو مجموعات ہیں-[5] سن1993ء میں لاہور میں آپ کا انتقال ہوا-آپ کے نعتیہ کلام میں عجب جاذبیت، سادہ الفاظ مگر پرکشش انداز، ادب و تعظیم اور شوق کی کمال درجہ بندی ملتی ہے-آپ کے نعتیہ کلام سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

یاد آتی ہے مجھے اہلِ مدینہ کی وہ بات
زندہ رہنا ہے تو انسان مدینے میں رہے
دور رہ کر بھی اٹھاتا ہوں حضوری کے مزے
میں یہاں اور میری جان مدینے میں رہے
چھوڑ آیا ہوں دل و جان یہ کہہ کر اعظم
آ رہا ہوں میرا سامان مدینے میں رہے

3. احمد ندیم قاسمی:

احمد شاہ المعروف احمد ندیم قاسمی صاحب20نومبر 1916ءپنجاب کے شہر خوشاب میں پیدا ہوئے اور اردو ادب کے نامور شاعر، ادیب، نقاد،صحافی اور مدیر ہیں-آپ کے مجموعہ شاعری میں سے تین نعتیہ مجموعہ ہیں: جمال (1992ء) ،  ارض و سماء (2006ء) اور انوارِ جمال (2007ء)- بچپن میں چچا کے گھر سے شعری ماحول ملا-حالانکہ بچپن مشکلات میں گزرا لیکن علم دوستی سے رشتہ قائم رہا-یوں تو آپ کے بہت سے کلام کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی لیکن ایک کلام خوب زبانِ زد عام ہوا- ملاحظہ ہو:

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں تیرا دہلیز نشیں
آج میں عرش کا ہم سایا ہوں
جب بھی میں ارضِ مدینہ پہ چلا
دل ہی دل میں بھی اترایا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اک ہالۂ نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
یہ کہیں خامی ایماں ہی نہ ہو
میں مدینہ سے پلٹ آیا ہوں [6]

4. مفتی احمد یار خان نعیمیؒ:

مفسرِ قرآن، مفتی و ممتاز عالمِ دین علامہ احمد یار خان نعیمیؒ یکم مارچ1894ءکو راجھستان میں پیدا ہوئے-گھر سے ہی تعلیم و تحقیق کے جواہر نصیب ہوئے-آپ ایک اعلیٰ نعت گو شاعر بھی تھے-آپ کا نعتیہ مجموعہ دیوانِ سالک کے نام سے شائع ہوا-آپ نے 1971ءمیں داعی اجل کو لبیک کہا- آپ کا مزار گجرات میں واقع ہے-آپ کی دینِ اسلام کے لئے خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے-اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو علمِ تفسیرِ قرآن سے نوازا اور قرآن کی برکت آپ کی شخصیت سے نمایاں معلوم ہوتی تھی-آپ کے نعتیہ مجموعہ سے ایک کلام ملاحظہ ہو:

خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا
ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا
آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بُلاتے
روضہ پہ صدقہ ہوتا ان پر نثار ہوتا
طیبہ میں گر میسّردو گز زمین ہوتی
ان کے قریب بستا دل کو قرار ہوتا
مر مٹ کے خوب لگتی مٹی مرے ٹھکانے
گر ان کی رہ گزر میں میرا مزار ہوتا
یہ آرزو ہے دل کی ہوتا وہ سبز گنبد
اور میں غبار بن کر اس پر نثار ہوتا
سالکؔ ہوئے ہم ان کے وہ بھی ہوئے ہمارے
دل مضطرب کو لیکن نہیں اعتبار ہوتا[7]

5. اصغر سودائی:

تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن، ماہرِ تعلیم اور ترانہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے خالق پروفیسر محمد اصغر سودائی کمال کے شاعر اور نعت گو صاحب دیوان ہیں- آپ 26 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے- 1989ء میں شہ دو سرا کے نام سے آپ کا نعتیہ مجموعہ شائع ہوا-[8] آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ کی وفات ہوئی-سادگی و سلاست جہاں کردار میں تھی وہیں اشعار کی بنت میں بھی واضح تھی- عاجزی اور انکساری کا عنصر آپ کےنعتیہ کلام کا خاصہ ہے-چند نعتیہ اشعار درج ذیل ہیں:

سب لوگ تھے صحرا میں صدف ڈھونڈنے والے
دریائے معانی کا شناور نہیں آیا
ہے تیری نبوت کی صداقت کا کرشمہ
ایسا تو کبھی رنگ سحر پر نہیں آیا[9]

6. ابوالاثر حفیظ جالندھری:

پاکستان کے قومی ترانے کے خالق محمد حفیظ جالندھری 14جنوری1900ءکو برصغیر کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے-بچپن سے ہی شعر و سخن میں ان کی دلچسپی غیر معمولی تھی-وہ کچھ عرصے ریاست خیرپور میں درباری شاعر بھی رہے-اردو کے ساتھ عربی ، فارسی اور ہندی زبانوں پر کمال کا عبور حاصل تھا- ان کی شاعری میں سادہ مگر معیاری انداز پایا جاتا ہے- قومی ترانے کے خالق ہونےکے علاوہ انہیں شاہنامۂ اسلام تحریر کرنے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے- شاہنامۂ اسلام کل چار جلدوں پر مبنی ہے جس میں انہوں نے تاریخِ اسلام کو بمثلِ موتی، شعری سخن کے دھاگوں میں خوب احسن انداز میں پرویا ہے- آپ دسمبر 1982ءکو لاہور میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے-مدحت در شانِ مصطفےٰ (ﷺ) علیہ تحیۃ و الثناء بقلمِ حفیظ جالندھری برائے ذوقِ قاری پیشِ خدمت ہیں:

سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سْبحانی
سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوعِ انسانی
سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نْورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ  پیشانی!
سلام اے سرِّ وحدت اے سراجِ بزمِ ایمانی
زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی گْلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربّانی
سلام اے صاحبِ خْلقِ عظیم انساں کو سِکھلادے
یہی اعمالِ پاکیزہ یہی اشغالِ رْوحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشا، ترا جلوہ
تبسّم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی![10]

7. مولانا ظفر علی خان:

بابائے اردو صحافت مولانا ظفر علی خان19جنوری 1873ءکو وزیرآباد میں پیدا ہوئے- آپ کا نعتیہ مجموعہ خُمستانِ حجاز1987ءمیں شائع ہوا- [11]آپ عربی و فارسی و اردو و انگریزی زبانوں پر یکسر عبور رکھتے تھے-آپ کے لکھے کئی نعتیہ کلام مشہور و معروف ہوئے جن میں سے چند آج تلک عشاقان کی زبانوں کو محبتِ مصطفےٰ(ﷺ) کی چاشنی سے تر رکھے ہوئے ہیں-27نومبر1956ءکو آپ اس دنیائے فانی سے رحلت کرگئے-آپ کے نعتیہ کلام کے چند اشعار ذیل میں نقل کئے ہیں:

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینہء شب تار الست سے
اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایت اُولٰی تمہی تو ہو
دنیا میں رحمت دو جہاں اور کون ہے
جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمہی تو ہو
گرتے ہوؤں کو تھام لیا جس کے ہاتھ نے
اے تاجدار یثرب و بطحا تمہی تو ہو

8.  ماہرالقادری:

جنت المعلیٰ کے مقیم، مسلمانانِ دکن میں بیداری پیدا کرنے والےعظیم شاعر، نقاد، صحافی و محقق جناب منظور حسین المعروف ماہر القادری 30 جولائی1906ءکو برصغیر میں پیدا ہوئے- ذکرِ جمیل اورفردوس آپ کے دو نعتیہ مجموعے ہیں-[12] آپ کے اسلوبِ کلام میں لفظوں کے ایسے جوڑ ہیں کہ قاری محض پڑھتا جاتاہے اور لے، ترنم اور شیرینی خود بخود آتی جاتی ہے-آپ کےمشہورِ زمانہ کلام سے چند منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں:

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے

9. مظفر وارثی:

کلام کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے کے مصنف فصیح الہند و شرف الشعراءمحمد مظفر الدین احمد صدیقی المعروف مظفر صدیقی نامور اردو شاعر و ادیب ہیں- آپ1933ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے اور 77سال کی عمر پائی- نعت گوئی میں آپ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے-آپ کے دو حمدیہ مجموعے اور چار نعتیہ مجموعے بنام بابِ حرم، نورِ ازل، کعبۂ عشق اورمیرے اچھے رسول (ﷺ)شائع ہوئے-[13] پی ٹی وی کی جانب سے انہیں بہترین نعت گو کے اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے-آپ اُردو نعت گوئی کا عصرِ حاضر میں ایک اہم اور معروف نام ہیں- آپ کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے-آپ کی کئی نعتیں عصرِ حاضر میں معروف و مقبول ہوئیں-

الہام جامہ ہے تیرا، قرآن عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں، یا رحمتہ اللعالمین

ایک اور مشہور کلام ملاحظہ ہو:

تو امیر حرم، مَیں فقیر عجم
تیرے گن اور یہ لب، مَیں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، مَیں خطا ہی خطا
تُو کجا مَن کجا

10.اقبال عظیم:

پروفیسرسید اقبال عظیم اردو کے عظیم شاعر، ادیب و محقق ہیں لیکن آپ کو عصرِ حاضر میں سب سے زیادہ معرفت و مقبولیت آپ کی نعت گوئی کے باعث حاصل ہے-آپ 8 جولائی1913ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے- اردو شاعری کا آغاز زمانۂ طالبِ علمی میں کیا- آپ کے نعتیہ مجموعوں میں قابِ قوسین(1977ء)،لب کشاء اور ماحصل (ان دونوں میں غزلیں اور نعتیں دونوں شامل ہیں) اور زبورِ حرم (نعتیہ کلیات)شامل ہیں-[14] دیارِ رسول (ﷺ) تک رسائی کو اپنی زندگی کا حصول ماننے والے نعت گو شاعر اقبال عظیم 22 ستمبر 2000ءمیں کراچی میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے- آپ کے چند معروف کلام یہ ہیں:

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
کھلا ہے سبھی کے لئے بابِ رحمت
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جہاں روضۂ پاک خیر الوری ٰ ہے

حرفِ آخر:

حضور رسالتِ مآب (ﷺ)کی ذاتِ اعلیٰ کی شان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو بلند فرمادیا ہے اور آپ ’’لو لاک لما خلقت الافلاک‘‘ کے تحت وجۂ تخلیقِ کائنات ہیں- دنیا میں ہر زبان میں آپ (ﷺ) کی نعت گوئی و ثناء خوانی ہوتی ہے اور تاقیامت ہوتی رہے گی بلکہ قیامت میں بھی حضور رحمۃللعالمین کا ہی ذکر بلند کیا جائے گا- اردو زبان کے نعت گویان شعراء کی ایک طویل فہرست ہے اور اگر ان تمام عزتِ مآب اشخاص کا ذکر کیا جائے تو باقاعدہ ایک کتاب مرتب ہو جائے، طوالت کے پیشِ نظر زیرِ غور مطالعہ میں پاکستان کے محض چیدہ چیدہ نعت گو شعراء کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے-اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مدحتِ مصطفےٰ علیہ تحیۃ والثناء کی توفیق عطا فرمائے اور اس فعلِ نعت گوئی وخوانی کے صدقے کالی کملی والے(ﷺ) کا قربِ خاص عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](خان، احمد رضا، الملفوظہ، حصہ دوم، ص:184)

[2]( ندوی، شاہ معین الدین،ادبی نقوش، ص: 284)

[3](اعوان، ارشاد شاکر، عہدِ رسالت میں نعت،ص:23)

[4](مکاتیبِ اقبال بنام خان نیاز الدین خاں،مکتوب نمبر:54،ص:122)

[5]پاکستان میں فارسی ادب، جلد:6

[6](قاسمی، احمد ندیم، کتاب: کعبہ و طیبہ کی حاضری)

[7](نعیمی، احمد یار خان، دیوانِ سالک، شمار نمبر:5، ص:18)

[8](نوائے وقت راولپنڈی، شمارہ: 18مئی 2008ء)

[9]https://dunya.com.pk/index.php/special-edition/2023-05-16/3837

[10](ماخوذ از شاہنامۂ اسلام، ج: 1،ص:90-91)

[11]https://maulanazafar.pk/shop/book-12/

[12](پاکستان کے نعت گو شعراء، پاکستانیکا)

[13](وفیاتِ نعتِ گویان اردو، ص:102)

[14](اخبار اردو اسلام آباد، اکتوبر 2000)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر