برِصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر اور جنوبی وسطی ایشیائی ممالک میں عمومی طور پر دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا جوکردار صوفیاء نے ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے- جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقے جہاں قدرتی وسائل سے مالامال ہیں وہیں گزشتہ سینکڑوں دہائیوں سے دین ِاسلام کے ماننے والوں کا مرکز تصور کیے جاتے ہیں، جِس کی بنیادی وجہ صوفیاء کا پیغام ِمحبت ، رواداری اور دین کے ساتھ روحانی وابستگی ہے- اگر پاکستان میں علاقائی اِعتبار سے صوفیاء کا کردار دیکھا جائے تو کشمیر سے خیبر تک کوئی بھی علاقہ اِن کے فیضان سے محروم نظر نہیں آتا جو کہ لوگوں کے دِلوں کی اُجڑی اور غیر آباد بستیوں کو خوبصورت انداز میں آبیاری فراہم کر رہا ہے اور یہ فیضان رَہتی دُنیا تک اللہ کے نام لیواؤں کی تعداد بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا-
صوفیاء کی تعلیمات عمومی طور پر نہ تو کسی خاص علاقے کے لئے ہوتی ہیں اور نہ ہی خاص لوگوں کے لئے، بلکہ اُن کا پیغام اِنسانیت ہے اور کسی بھی علاقے کا فرد کسی بھی خطے کے صوفی سے اِکتسابِ فیض کر سکتا ہے- اُنیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں برِصغیر پاک و ہند میں ہندو اور انگریز سامراج کے خلاف اٹھنے والی آزادی کی تحریک کو جِس خوبصورت انداز میں مسلم مفکرین ، شعراء، دانشوروں، ادیبوں، فلسفیوں، مشائخ اورصوفیاء نے آگے بڑھاتے ہوئے اپنے مقصد (پاکستان) کا حصول ممکن بنایا وہ قابل ستائش ہے- جذبہ حریت کو خود شناسی اور خود آگاہی سے ماخوذ کیا جاتا ہے جو کہ درگاہِ صوفی کا بنیادی عنصر تصور کیا جاتا ہے- تحریک آزادی کی بنیاد بھی اُسی فلسفہ پر رکھی گئی جو اسلام کے بنیادی اُصولوں کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے- اُس تحریک کی کمان اللہ پاک نے علامہ محمد اقبالؒ اور قائدِ اعظمؒ جیسے مومنین ِ با استقامت کے ہاتھ دی، جنہیں وقت نے سچا ثابت کیا - پاکستان کی مٹی صوفیاء کے حوالے سے کافی ذرخیز تصور کی جاتی ہے جِس میں درجہ بدرجہ سینکڑوں صوفیاء صاحب مرقد ہیں- اِن سے جڑی تعلیمات مخلوقِ خدا کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں- سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کی ولادت بھی 27 رمضان المبارک کی اسی رات ہوئی جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا- تو اس حوالے سے اس خطے کو ہم مبارک اور برکتوں والا علاقہ بھی کہہ سکتے ہیں جہاں اللہ پاک کے نیک بندوں نے بے شمار کرامات کا اظہار فرمایا-
تعلیماتِ صوفیاء کی ترویج و اشاعت وہ عظیم کارنامہ ہے جسے آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ تصور کیا جاتا ہے- اِس کار ِخَیر میں حصہ لینے والے افراد نہ صرف اپنی دُنیا و آخرت کا ساماں پیدا کرتے ہیں بلکہ سینکڑوں اور نفوس کے لئے بھی راہ نجات ثابت ہوتے ہیں- پاکستان شائد دُنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ نوجوان افرادی قوت کا بیشتر حصہ تصور کئے جاتے ہیں- صوفیاء کی تعلیمات (جو کہ قرآن و سنتؐ سے ماخوذ ہوتی ہیں) سے ہی اِس نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچایا جا سکتا ہےاور ان کی سوچ اور فکر عوجِ ثریا پہ لائی جا سکتی ہے جہاں کامیابی یقینی تصور کی جاتی ہے- بقول علامہ اقبالؒ :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے |
خود شناسی کا یہ سبق کسی نہ کسی طرح سے ہر صوفی نے پڑھایا ہے- جِس کا بنیادی مقصد خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنا اور مقصد حیات کا حصول ممکن بنانا ہے- اِس سبق کا پرچار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دُنیا کے ہر کونے میں ضروری ہے- جِس کے لئے بے شمار لوگ اپنے حصے کا دِیؔا جلانے میں مصروف عمل ہیں- اُن میں ایک نام پروفیسر فتح محمد ملک کا بھی ہےپاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں - کئی مغربی ممالک میں تدریس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بحیثیت ریکٹر اپنے فرائض سر انجام دے چُکے ہیں -
ایک درجن سے زائد کتابیں آپ کے علمی اور فکری اقبال کا منہ بولتا ثبوت ہیں- علامہ اقبال ؒ کے افکار کی عصری تعبیر پہ سب سے موثر کام آپ ہی کا سمجھا جاتا ہے - فتح محمد ملک صاحب (1984-88 & 1992-96) ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبال چئیر پر پروفیسر رہنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں اور 1974ءمیں کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک میں ساؤتھ ایشیئن فیلو بھی رہے-اِس دوران وہاں کے طلبہ کو پاکستان کے مختلف صوفیاء کی تعلیمات سےروشناس کرواتے ہوئے متعدد لیکچرز دئیے- حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’’Spiritual Heritage of Pakistan: Sufi Poetry in Folk Idiom ‘‘ کے نام سے پبلش ہوئی جو اُنہیں لیکچرز کا مجموعہ ہے- اِ س کتاب کی خصوصیت یہ ہے اِس میں پاکستان کے کم و بیش بارہ (12) صوفیاء پر ایک ایک باب (chapter) تشکیل دیا گیا-
ہر علاقے کے صوفی کی یہ خصوصیت ہوتی کہ وہاں کے کلچر، رہن سہن، رسم و رواج اور تمدن کے مطابق فلسفۂ وحدت کا پرچار کرے اور لوگوں کو حق کی طرف بلائے-اِس کتاب میں اِسی چیز پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح پاکستان کے اِن صوفیاء نے علاقوں کی مناسبت سے کلمہ حق بلند کیا اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے دین اسلام کی ترویج میں اپنا کردار ادا کیا اور کلمہ طیبہ پہ عامۃ المسلمین کی ایسی عمل پسندانہ تربیت کی جو بالآخر اسی کلمے کی بنیاد پہ ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت کے قیام پہ منتج ہوئی - جب کانگریسی ملاں برہمن انگریز گٹھ جوڑ کے آلہ کار بن کر سادہ لوح مسلمانوں کو جناح کے خلاف بھٹکا رہے تھے اس وقت کلمہ طیبہ کے مفہوم پہ صوفیائے کرام کی عمل پسندانہ تربیت ہی تھی جس نے لوگوں کے دل جناح سے بد ظن ہونے کی بجائے اسے اسلامیانِ ہند کا قائد اعظم ثابت کیا اور مسلمانوں کی بارہ سو سالہ تاریخ کا تسلسل نہ ٹوٹنے دیا اور اپنے لئے ایک آزاد مملکت حاصل کی - سماج کو فکری اعتبار سے جہاں بھی ٹھوکر لگی،صوفیاء نے آگے بڑھ کر مخلوق خدا کی رہنمائی کا بیڑا اُٹھایا مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام و مسلمانوں کی بے لوث خدمت کی -
اِس کتاب کا پہلا باب کشمیر جنت نظیر میں اسلام کی ترویج و ترقی اور اُس کے پھیلاؤ کے محرکات پر مشتمل ہے- جِس میں مصنف نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اِس چیز کی وضاحت کی کہ کیسے دین اِسلام صوفیاء، سیاسی اور مذہبی شخصیات کی کاوشوں سے اِن علاقوں تک پہنچا- آج جو جذبہؔ حریت اِس علاقے کی شان سمجھا جاتا یہ سب اُن صوفیاء کے فلسفے کا عکس ہے جنہوں نے وہاں کے باسیوں کو جینے کا ڈھنگ سکھایا اور خود شناسی و خود آگاہی کے بنیادی سبق سے آگاہی دی-
دوسرے باب میں دیکھا جائے تو، بابا فریدؒ المعروف گنج شکرؒ کے نظریہ ؔ بھائی چارہ، ذات پات سے پاک معاشرے کی تشریح کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے- ہندوستان کے اُس وقت کے حالات کے تناظر میں بابا فریدؒ نے جِس خوبصورتی سے لوگوں کو دین متین کی تبلیغ کی وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی- آج بھی لوگ اُن کے نظریات سے مستفید ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں-
تیسرا باب شیخ عثمان مروندیؒ المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی زندگی اور اُن سے جڑے مختلف واقعات پر مشتمل ہے- جبکہ فاضل مصنف نے زیادہ توجہ اُن کی وجہ شہرت بننے والی صفت ’’قلندر‘‘ پر دی اور اس پر روشنی ڈالی کہ کیسے ملتان سے شروع ہونے والا تصوف کا یہ سلسلہ سیہون شریف میں جا آباد ہوا-
چوتھا باب پنجاب کی ہندو فیملی سے تعلق رکھنے والے بابا نانک (المعروف بابا گرونانک) پر لکھا گیا- جِن کی ساری زندگی انسان اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے گزری- بابا نانک آج کم و بیش 400برس گزرنے کے باوجود بھی ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے چاہتوں کی مالا پروئے ہوئے ہیں-اُن کا درسِ انسانیت اور رب کے ساتھ تعلق کی مضبوطی اور توحید ایک ایسی فکر تھی جو دُنیا کے طول و عرض سے لوگوں کو اُن کو طرف متوجہ کرتی ہے-
پانچواں باب لاہور کےصوفی بزرگ شاہ حسین ؒ کے سلسلۂ تصوف پر لکھا گیا- جِن کا سبق روحانی استخلاص کی سیڑھی سے ہوتے ہوئے ذاتی محاسبے پر ختم ہوتا ہے- مقامی ثقافت اور روایات کو دیکھتے ہوئے جِس شاعرانہ انداز میں شاہ حسینؒ نے لوگوں کو حقیقت ِ حق سے روشناس کرایا شائد ہی کسی اور بزگ کے حصے آیا ہو-
چھٹا باب سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والے صوفی بزرگ حضرت سُلطان باہو ؒ کے فرمودات اور آپ کے فلسفۂ تصوف پر لکھا گیا- آپ نے کم و بیش 140 کُتب لکھیں اور لوگوں کو ’’ھُو‘‘ کا ایسا کلمہ پڑھایا کہ ہر سننے اور پڑھنے والے کے دِل کے تار بجا دیتا ہے- فارسی، پنجابی، سرائیکی، عربی اور اردو زبان پر مشتمل نہ صرف کلامِ باہو ؒبلکہ باقی کُتب بھی اپنی پہچان آپ ہیں- آپؒ کی تعلیمات جہاں شریعت مطہرہ کی پابندی پر زور دیتی ہیں وہیں روحانی ذِکر اور بیداریٔ روح کی بھی تلقین کرتی ہیں- چنبے کی بوٹی کی خوشبو اسلامیانِ ہند کے مشامِ جان کو کئی صدیوں سے معطر کئے ہوئے ہے - سلطان باھُو کی ھُو نے دلوں میں وحدت کے ایسے تار چھیڑتی ہے جو سننے والوں کو اس فقر کی طرف لاتی ہے جسے اقبال نے ’فقرِ غیور‘ کہا ہے - یہ سلطان باھُو تھے جنہوں نے پنجاب اور برصغیر کے لوگوں کو یہ سکھایا تھا کہ صرف قیل و قال سے اسلام کا پرچم بلند نہیں ہوتا بلکہ حسین کی طرح سر نیزے پہ رکھنا پڑتا ہے -
جے کر دین علم وچ ہوندا سَر نیزے کیوں چڑھدے ھُو
ساتواں باب پشتو کے مشہور صوفی بزرگ اشرف خان ہیگری المعروف رحمان باباؒ پر لکھا گیا- اِتحاد،دوستی اور بھائی چارے کا درس دیتی ہوئی رحمان بابا کی شاعری علاقے کے حسن کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے- وقت کی مناسبت سے عالمی سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے رحمان بابا نے اپنے لوگوں میں جِس طرح شعور کی شمع روشن کی وہ اپنی مثال آپ ہے جِس نے پشتونوں کو اپنی شناخت حق کے ساتھ قائم کرنے میں مدد فراہم کی-
کتاب کاآٹھواں باب قصور شہر کی شان و آن حضرت عبداللہ شاہ ؒ المعروف بلؔھے شاہ ؒ پر رقم کیا گیا- جنہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے زمانے میں مسلمانوں کو تقویت اور ہمت بندھانے میں اہم کردار ادا کیا- مسلمانوں کے شکست خوردہ ہونے کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے تعلق کو رب تعالیٰ سے جوڑنے پر زور دیا- مصلحت اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی- ظاہر پسندی پر تنقید و طنز ہمہ وقت ان کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی- انہوں نے شاعری میں شرع اور عشق کو ایک لڑی میں پرو دیا اور عشق کو شرع کی معراج قرار دیا- ان کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے جو شرع پر چل کر پیغام حسینیت کو فروغ دیتا ہے اور یزیدیت کو ہمیشہ کے لیے شکست دیتا ہے بلّھے شاہ نے پیارو محبت کے پیغام کو فروغ دیا- عربی فارسی میں عالم ہونے کے باوجود انہوں نے پنجابی کو ذریعۂ اظہار بنایا -
نوواں باب مشہور صوفی بزگ شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ پر لکھا گیا- شاہ صاحب ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو اللہ اور اُس کے رسول(ﷺ) کا پیغام پہنچایا- آپؒ کے آباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت محمد (ﷺ) تک پہنچتا ہے-آپؒ کے کلام کو ’’ شاہ جو رسالو‘‘ کا نام دیا گیا ہے- سندھ میں قرآن اور حدیث کے بعد شاہؒ کے رسالے کو بہت اہمیت حاصل ہے-
دسواں باب حضرت عبد الوہاب ؒ المعروف سچل سر مست ؒ پر لکھا گیا ہے- آپؒ سندھ کے مشہور صوفی بزگ، شاعر، فلسفی اور مفکر تھے- آپؒ کی شہرت کی اصل وجہ سات زبانوں میں شہرآ فاق فکر سخن (کلام ) ہے- سچل سرمستؒ کا سلسلۂ نسب خلیفہ دؤم سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے ملتا ہے- اِس لحاظ سے آپ فاروقی نسب سے تعلق رکھتے ہیں- شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے بعد سچل سرمست کو سندھی زبان کا ممتاز ترین شاعرسمجھا جاتا ہے- شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں تو جمال ہے مگر سچل سرمست کی شاعری میں جلال پایا جاتا ہے اور یقیناً وہ اِسی جلالی کیفیت و رنگ میں رنگے ہوئے تھے-کائنات کی ظاہری کثرت میں بنیادی وحدت ہی کارفرما ہے، جیسے نظریات کی تلقین سچل سرمست کے کلام میں جابجاء دکھائی دیتی ہے- بنی نوعِ انسان کے رنگ اور روپ کی کثرت وحدت الوجود میں ہی پائی جاتی ہے اور اِس لحاظ سے لوگوں میں ذات پات، اُونچ نیچ، فرقہ، طبقہ اور عقیدہ کی موجودگی کی کوئی وُقعت نہیں ہے یعنی سب انسان برابر ہیں کیونکہ لہر اور بحر کی اصلیت ایک ہی ہے- سچل سرمست کا کلام زمان و مکان کی حدود کا پابند نہیں سمجھا جاتا بلکہ اُنہوں نے مذہب و ملت‘ ملک و وَطن اور زبان کی حدود کو حاصل کرکے ایک ایسی ہمہ گیر تعلیم کی تبلیغ کی ہے جس کی دنیاء کے ہر ملک و قوم کی ضرورت سمجھا جاتا ہے-
گیارہواں باب چترال کی سرزمین کے صوفی شاعر مولانا مرزامحمدسیئرؒ المعروف بابا سیئر ؒ کے افکار پر لکھا گیا- آپؒ اپنے متعلق خود فرماتے ہیں:
دبیرم، شاعرم، رندم، ندیمم، شیوہا دارم
یعنی میں لکھاری، شاعر، پیار کرنے والا، بادشاہ کا ساتھی اور بہت ساری حالتوں (صورتوں) کا مالک ہوں- آپؒ چترالی زبان کھوار اور فارسی کے عظیم صوفی شاعرٹھہرے- ضلع چترال کے گاؤں ریشن میں آپ کا مزار واقع ہے- کھوار اکیڈمی نے بابا سیئر کو کھوار شاعری کے حافظ شیرازی سے تشبیہ دی ہے-
کتاب ھذا کابارہواں باب بلوچستان کے مشہور صوفی شاعر مست توکلی پر لکھا گیا ہے- اتحاد، یگانگت اور عالمی بھائی چارہ آپ کے افکار کا مغز تصور کئے جا تے ہیں- علاقے کے باسیوں کو درسِ محبت سے ایسے جوڑا کہ جِس کی مثال صدیوں یاد رکھی جائے گی- مست توکلی نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت اور مادرِ وطن کے لیے محبت کے پیغام کو پھیلایا-ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہےوہ بلوچوں کے لیے ان کے دل کی آواز اوران کی روایات و اقدار کے امین نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خاص و عام انہیں بلوچستان کی بلبل کا خطاب دیتے ہیں-
اگر اِن مندرجہ بالا تمام صوفیاء کی تعلیمات کو ایک جگہ سمویا جائے تو اتحاد، بھائی چارہ، انسانیت، محبت، عالمی امن، دین کی طرف رغبت، یقین، روحانی استخلاص، خود شناسی و خود آگاہی اور پیار کا درس ہی ملتا ہے- پاکستان اِس حوالے سے اِنتہائی خوش نصیب ٹھہرا کہ اِتنے بڑے عظیم المرتبت صوفیاء کا مسکن ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کے طول و عرض سے لوگ اِن بزرگوں کے فیضان سے مستفید ہو رہے ہیں-
٭٭٭