مملکت پاکستان کو رب ذولجلال نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے- کچھ ایسی صلاحیتیں ہیں جن سے پاکستان کو دنیا میں فروغ اور استحکام حاصل ہوا اورکچھ ایسی صلاحیتیں ہیں جن سے تا حال دنیا نا آشنا ہے- یہ سر زمین اپنے اندر ایسا قدرتی حُسن سموئے ہوئے ہے کہ جس کی پوری دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی-ارضِ پاکستان اقوام عالم میں بالخصوص اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے ایک منفرد وممتاز مقام رکھتا ہے -
پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے عالمی اہمیت کا حامل ہے-اس سر زمین کے سرد و گرم علاقے، حسین ساحلی پٹی اور کئی پہاڑی علاقے دنیا بھر کو اس خطے کی طرف متوجہ کرتی ہے-شمال تا جنوب پاکستان کا رقبہ ایک ہزار میل سے زیادہ ہے جبکہ مشرق تا مغرب چند سو میل سے زیادہ نہیں لیکن یہ مختصر سا خطہ جغرافیائی اور موسمی لحاظ سے کئی خصوصیات کا حامل ہے- پاکستان عرب سمندر کے قریب مشرق وسطی اور عمان کے خلیج میں واقع ہے- علاوہ ازیں افغانستان، ایران، بھارت اور چین اس کے ہمسایہ ممالک ہیں-پاکستان تاجکستان کے بُہت قریب ہے لیکن افغانستان دونوں ملکوں کو واخان راہداری کی طرف سے جدا کرتا ہے- پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے-[1]
اللہ رب العزت نے اس پاک سرزمین کو قدرتی مناظر کی صورت میں ایسا نور عطا کیا ہےجو اس کے حسن اور دلفریبی میں اضافہ کرتا ہے -دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں جو قدرت کی کاری گری پاکستان کی حسین وادیوں، تپتے صحراؤں، گہرے سمندروں، برفیلی چٹانوں اور وسیع بیابانوں میں ملتی ہیں اور جن نعمتوں کا اظہار اس ملک خداداد میں ہوا ہے دنیا کے کسی اور ملک میں اس کا ملنا ناممکن ہے -
پاکستان میں سیاحت کی اہم اقسام چار زمروں میں منقسم ہے، یعنی آثار قدیمہ اور تاریخی سیاحت، ماحولیاتی سیاحت، ایڈونچر ٹورازم اور مذہبی سیاحت- جسے صراحتاً پیش کیا جاتا ہے:
سیاحت:
دنیا بھر میں سیاحت ایک ایسی منافع بخش صنعت ہے جو کئی سیاحوں کی کشش، زر مبادلہ اور ملکی فروغ کا باعث ہے- پاکستان اپنی اس صلاحیت کے باعث پوری دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے- پاکستان کی سرسبزو شاداب وادیاں، قدیم تہذیبیں، صحرا، میدان، ساحل سمندر اور دیگر ایسے پرکشش فطری نظارے ہیں کہ سیاح انہیں دیکھے بنا نہیں رہ سکتے -
Condé Nust Traveler عالمی سفر کی معروف ترین امریکی جریدے نےجو کہ دنیا کے بہترین traveler magazine کے طور جانا جاتا ہے -ان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سال 2020ء میں سیاحت کیلئے دنیا کا بہترین ملک قرار دیا- میگزین نے 2020ء کیلئے اپنی سیاحتی ممالک کی فہرست میں پاکستان کو پہلے نمبر پر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ ”پاکستان ایسے خوبصورت سیاحتی مقام کا حامل ملک ہے کہ ہر کسی کو سیاحت کے لیے پاکستان جانا چاہیے- دنیا کے بہترین تعطیلات اور سیاحتی مقام کی دوڑ میں پاکستان نے جاپان، فن لینڈ، فرانس، برطانیہ، ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور چین جیسے دنیا کے خوبصورت ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا‘‘-
دنیا ایک گلوبل ولیج کی صورت میں سمٹتی جا رہی ہے اور اس گاؤں کا حصہ ہونے کے ناطے پاکستان سیاحت، فطرت کے حسن، سنگلاخ پہاڑ، سحر انگیز سمندری ساحلوں اور خوبصورت وادیوں کے حوالے سے ایک تابناک ستارے کی مانند چمک رہا ہے-میگزین کے مطابق طالبان کے ختم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ، امن کی بحالی، نرم ویزا پالیسی، دنیا کے سب سے بلند پولو گراؤنڈ، شندور میلے، بلند پہاڑ، وادی کیلاش، ملکی ثقافت اورتاریخی مقامات کی وجہ سے پاکستان کو اس فہرست میں اول نمبر پر رکھا گیا ہے-یہی اہم وجوہات کی بنا پر Condé Nast Traveller نے پاکستان کو 2020ء کے لیے سیاحت کے فروغ کی سب سے بڑی منزل قرار دیا- وضاحت طلب بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے سب سے خوبصورت دلکش سیاحتی ممالک کی یہ فہرست ، ٹریولر بلاگرز، utube vlogs، magazines اور adventures club کے تبصرے اور آراء کے بعد ترتیب دی جاتی ہے- [2]
پاکستان دنیا میں بلحاظ خوبصورتی اساطیری حیثیت رکھتا ہے- ان گنت حسین وادیوں، جھرنوں، گلیشیئرز کی بستی کا تذکرہ کیا جائے تو شمالی پاکستان اپنی مثال آپ ہے کہ جس کی دلفریب ر نگینیوں کو دیکھنے کے لیے سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں-اس سحر انگیز شمالی پاکستان میں تین مقامات اپنی دل کشی کی بناء پر سرِ فہرست قرار دیے جا سکتے ہیں جن میں بلتستان کا دیوسائی، بالائی ہنزہ میں خنجراب پاس اور دیامیر کا فیری میڈوز شامل ہیں- علاوہ ازیں پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات جن میں سوات، کاغان، کالام، وادی ہنزہ، وادی نیلم اور مری کی پہاڑیاں اپنا دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں جو کہ ذہنی و روحانی لذت کا منبع ہیں-
پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے علاوہ بات کی جائے تو کچھ اور بھی ایسے دلفریب علاقے ہیں جو سیاحت کیلئےاتنی مقبولیت حاصل نہیں کرپائے جن کاتذکرہ ذیل میں کیاجاتا ہے-
بلوچستان کا زیادہ تر حصّہ خشک پہاڑی اور صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے -لیکن کچھ سیاحتی مقامات ایسے ہیں جو قدرتی حسن سے مالا مال ہیں-جن میں تفریحی مقام مولہ چٹوک بھی شامل ہے جسے سیاح چھپی ہوئی جنت سے تشبیہ دیتے ہیں- یہ تفریحی مقام ضلع خضدار کے علاقے مولہ میں واقع ہے- چٹوک سے مراد قطروں کی صورت میں گرنے والا پانی-
وادِیٔ سون سکیسر :
وادئ سون سکیسرپنجاب کی حسین ترین جگہ کے طور پراُبھرتی ہے- کوہستانِ نمک کے وسیع پہاڑی سلسلے پر موجود نمک کی کانیں اور نمکین پانی سے بھری قدرتی جھیلوں والے اس سرسبزو شاداب علاقے کو مقامی زبان میں ’موروں کی وادی‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے-300 مربع میل پر پھیلی وادیِ سون سکیسر خوبصورت قدرتی جھیلوں، جھرنوں، آبشاروں، سرسبز جنگل کا مجموعہ ہے- یہ وادی پنجاب کے ان چند مقامات میں سے ہے جہاں برف باری بھی ہوتی ہے-یہ کلرکہار سے شروع ہوتی ہےجو وادی ونہار کے نام سے موسوم ہے اور یہاں آنے والے زیادہ تر سیاح اپنے دورے کی شروعات پہاڑ کی چوٹی پر واقع ’آہو باہو‘ یا ’موروں والی سرکار‘کے مزار سے کرتے ہیں جہاں حضرت سُلطان باھُو کی چلہ گاہ ہے اور آپ کے خلیفہ مدفون ہیں -
مشہور صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے یہاں کی پہاڑی پر 40 روز تک چلہ کیاتھا- پہاڑی پر موجود مزار اور نیچے جھیل کے درمیان میں تختِ بابری موجود ہے- یہاں لگی تختی تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کی فوج نے چٹان تراش کر بابر کے لیے ایک تخت بنوایا جس پر کھڑے ہو کر مغل بادشاہ نے اپنی فوجوں سے خطاب کیا تھا- ’اوچھالی کمپلیکس جس میں شامل نمکین پانی کی جھیلیں، کھبیکی اور جھالر جھیل اپنی خوبصورتی میں مالا مال ہیں-[3]
پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک کی صف اول میں شامل ہے جہاں دریا پہاڑ سے اُترتے ہیں اور ہزاروں ایکٹرزمینوں کو سیراب کرتے ہوئے سمندر میں مدغم ہوجاتے ہیں- پاکستان کے حسن میں جہاں گرم ترین علاقے موجود ہیں وہاں سرد ترین علاقے بھی اپنی خوبصورتی بیان کرتے ہیں جیسےکوہ کرم کا 37 فیصد حصہ گلیشیئر سے ڈھکا ہوا ہے- پاکستان پر جو گلیشیئرز ہیں ان میں سیاچن گلیشیر، باتورا گلیشیر، ہسپر گلیشیر، بیافو گلیشیر، بلٹورو گلیشیر، ینگوٹا گلیشیر، چیانترا گلیشیر، ترچ میر گلیشیر اور چوگو لوگما گلیشیر جیسے طویل گلیشیرشامل ہیں-[4]
مذہبی سیاحت :
’’مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے- مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں- ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی ٹرپس کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے‘‘-[5]
مساجد و مقابر:
دنیا بھر میں سندھ کو صوفیائے کرام کی دھرتی کے نام سے جانا جاتا ہے - سندھ کا دامن اس حوالے سے بہت وسیع ہے- بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ دیکھیں تو یہ سر زمین اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے سائے تلے رہی ہے- بالخصوص پاکستان کی سر زمین وادی مہران میں حضرت لعل شہباز قلندر، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، صوفی شاہ عنایتؒ، پنجاب میں حضرت داتا گنج بخش حضرت علی ہجویریؒ، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت سلطان باھُوؒ، حضرت امام بری سرکار کے مقابر، کراچی میں ساحل سمندر پر واقع حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ، حضرت یوسف شاہ غازی موجودہیں- پاکستان میں بہت سی ایسی تاریخی مساجد ہیں جو دنیائے اسلام میں اپنے منفرد آرکیٹکچر کی وجہ سے بہت معروف ہیں - جن میں بادشاہی مسجد ، مسجد وزیر خان ، مسجد مہابت خان ، فیصل مسجد ، شاہجہان مسجد ٹھٹھہ اور بھونگ مسجد شامل ہیں -
وادی مہران کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں اسلام، سکھ، بدھ مت، ہندو مت اور جین مت کے متعدد تاریخی مقامات موجود ہیں-تھرپارکر میں ہندو اور جین مت کے ماننے والوں کے قدیم مندر اور مقامات موجود ہیں- سکھر میں سادھ بیلو کا مندر اس حوالے سے خاص اہمیت ا رکھتا ہے-
سکھوں کی مذہبی سیاحت :
ضلع نارووال میں واقع گردوارہ دربار صاحب کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال قیام کیا- یہیں ان کی قبر اور سمادھی ہے -کرتار پور راہداری پاکستان کی مذہبی آزادی و ہم آہنگی کے لیے غیر متزلزل عزم کا عملی مظہر پیش کرتی ہے-سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کے کھلنے سےجو مذہبی بھائی چارے اور سکھ برادری سے رواداری کا آغاز ہوا اور ساتھ ہی اس سے پاکستان میں مذہبی سیاحت کا باقاعده آغاز ہوا -ا س کے علاوہ ان کے دیگر تاریخی مقامات جن میں پنجہ صاحب حسن ابدال، ڈیرہ صاحب لاہور اور جنم استھان ننکانہ صاحب شامل ہیں-
بدھ مت تہذیب کے آثار :
پاکستان کی سر زمین خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقے اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتے ہیں کہ یہاں بدھ مت کی شاندار معبد گاہیں،یونیورسٹیاں اور اسٹوپے موجود ہیں- بدھ مت سے متعلق گندھارا آرٹ ایک عظیم تہذیب کا آئینہ دار بھی ہے- گوتم بدھ کی خاک 8 اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی جسے بعد میں اشوک اعظم نے اس وقت کی سلطنت کے تمام بڑے شہروں میں اسٹوپے تعمیر کروا کر ان میں یہ خاک محفوظ کروادی تھی- یہ خاک 84 ہزار اسٹوپوں میں رکھی گئی- ایسے کئی اسٹوپے سوات مینگورہ، ٹیکسلا، مردان، شہبا ز گھڑی، گلگت، اسکردو ( حال ہی میں تقریباً تین کلو میٹر دور ہمالیہ پہاڑوں میں منتھل کے مقام پر نویں صدی میں کندہ کی گئی تصاویر چٹا ن پر دریافت ہوئی)جسے منتھل بدھا راک کہا جاتا ہے اس کے علاوہ معبد اور مجسمے ہنزہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں موجود ہیں- مردان کا ضلع تخت بائی پہاڑ پر گندھارا آرٹ کی طرزِ تعمیر سے آراستہ پورا ایک شہر موجود ہے جو اب عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے-1980ء سےہری بہلول کے آثاریونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں-
جین مت،ہندو مت:
بلوچستان میں ہنگول دریا کے کنارے واقع ہنگلاج مندر کونانی مندربھی پکارا جاتا ہے-یہ پاک و ہند کے ہندو برادری کا مقدس ترین مقام ہے- ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں- نانی مندر کے بعد نگر پارکر کا چوڑیو مندر متبرک سمجھا جاتا ہے- سیالکوٹ کا تاریخی شوالہ تیجا سنگھ مندر بھی ہندومت کے لیے ایک اہم مقام رکھتا ہے- کراچی میں واقع شری رام سوامی، 200 سال قدیم لکشمی نارائن مندر اور ڈیڑھ ہزار سال پرانا ہنومان مندر بھی اہم مندروں کی فہرست میں شامل ہیں- لاہور کا والمیکی مندر اور پشاور کا گورکھ ناتھ مندر بھی زائرین کا مرکز ہے- گوڑی مندر،ویراوا مندر اور چکوال میں کٹاس راس مندر بھی اہمیت کے حامل ہے-[6]
ذرائع /وسائل :
دُنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں- اوّل انسانی وسائل ہیں -جس سے مراد یہ ہے کہ مختلف کاموں کو سرانجام دینے کیلئے انسانوں میں کس قدر قابلیت، صلاحیت اور اہلیت ہے- دوم قدرتی وسائل جو قدرت نے مہیا کئے ہیں-قدرتی وسائل پیداوار کا ذریعہ ہیں- قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے درمیان تقسیم کی لکیر واضح نہیں ہے-
کسی بھی ملک کے معدنی ذخائر اس ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں- ان ذخائر میں ملنے والی معدنیات میں قدرتی طور پر کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں جن سے دھاتیں بنائی جاتی ہیں یا ان سے دوسرے کیمیائی مرکبات بنائے جاتے ہیں اور پاکستان الحمدللہ ان ذخائر سے مالا مال ہے -
پاکستان دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے- مشہور دھاتوں، غیردھاتی اشیاء اور معدنی ذخائر میں انٹی منی، کرومیم، تانبا، لیڈ، زنک، مینکانیز، لوہا، لیٹرائیٹ، بیرائیٹ، بنٹو نائٹ، چائناکلے، کوئلہ، گریفائیٹ، نمک، میگنیسائٹ، نیفلین سانائٹ، گندھک، جپسم، لائم اسٹون اور فائر کلے شامل ہیں- اس کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی معدنیات پائی جاتی ہیں مگر ان کا بھی صحیح طرح اندازہ نہیں لگایا جاسکا-
آزاد کشمیر، خیبر پختون خواہ اور شمالی علاقہ جات معدنیات سے مالامال ہیں جہاں ہیرے اور قیمتی پتھر اور دیگر معدنی وسائل وافر مقدار میں ملتے ہیں- قیمتی دھاتیں مثلاً سونا، چاندی اور مولبڈنم وغیرہ دوسری دھاتوں جیسے لوہا اور تانبا کے ساتھ ملتی ہیں- سونا بعض دریاؤں کی ریت اور پانی میں بھی پایا جاتا ہے-آبشاریں، ندی نالے اور دریا ان علاقوں کا جھومر ہیں -
ضلع چاغی نوکنڈی میں واقع ریکوڈک کا پر اینڈ گولڈ پراجیکٹ دنیا میں سونے اور چاندنی کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے- ریکوڈک ضلع چاغی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے جو ریگستانی علاقہ ہے- یہ نوکنڈی کے شمالی مغرب میں ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے- مقامی لہجے میں اس کا تلفظ ’’ریکے ڈک‘‘ ہے، جس کے معنی ’’ریت کے ٹیلے‘‘کے ہیں، جس کی بگاڑ ریکوڈک ہے- یہاں 123 ملین ٹن تانبے اور 20-9 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں- ایک اندازے کے مطابق یہاں گیارہ ملین پاؤنڈ کے تانبے کے ذخائر کی موجودگی بتائی جاتی ہے- ریکوڈک میں 58 فیصد تانبا اور 28 فیصد سونا ہے-دنیا میں قدرتی گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ پاکستان میں پایا جاتا ہے- بلوچستان کو قدرت نے بےپناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا ہے، ضلع کوہلو اور کوئٹہ کے قریب کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں- مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ، خضدار، خاران اور چاغی میں کرومائیٹ کا وسیع ذخیرہ ہے- خضدار کے نزدیک بیرٹس کے دو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں- ضلع چاغی، زردکان، سیاچنگ، جھولی، پتوک، مسکیچاھ، زہ، چلغیزی اوریٹک میں ماربل کے ذخائر پائے جاتے ہیں، ماربل کی ایک اعلیٰ قسم اونیکس کے ذخائر بولان، لسبیلہ اور خضدار میں دریافت ہوئے ہیں- کوئٹہ، قلات، ہرنائی، سور رینج اور سپنتنگی کے علاقوں میں چونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں- چاغی میں لوہے کے 30 ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں- اس کے علاوہ تانبا، سونے، سلور اور لیڈ کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں-[7]
سوئی گیس :
پاکستان برصغیر کا وہ واحد ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال کیا ہے-1950ء کے عشرےمیں بلوچستان کے قبائلی علاقے میں سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کے ذخائر دستیاب ہوئے- اس مناسبت سے یہ قدرتی گیس ’’سوئی گیس ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی- ہماری سماجی اقتصادی صنعتی اور تجارتی زندگی میں نمایاں انقلاب کا سر چشمہ ثابت ہوئی- اب پاکستان کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی قدرتی گیس کے نئے اور بڑے ذخائر دریافت ہوچکےہیں-
نمک:
رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کانیں کھیوڑہ کے نام سے پاکستان میں پائی جاتی ہیں- یہاں روزانہ کی پیداوار ساڑھے 3 لاکھ ٹن سے زائد ہے- یہاں کے ذخائر کا اندازہ 82 ملین ٹن سے 600 ملین ٹن تک لگایا گیا ہے-یعنی اگر روزانہ اسی مقدار میں مسلسل نمک نکالا جاتا رہا تب بھی ساڑھے تین سو سال تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا-
کالا سونا: کوئلہ:
معدنی وسائل جن میں کالا سونا یا کوئلہ کو بہت اہمیت حاصل ہے- کوئلہ کے دنیا میں تیسرے نمبرپر وسیع ذخائررکھنے والا ملک پاکستان ہے- جس کے پاس 185050 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں، جو دنیا کا 19-3 فیصد ہیں- ماہرین کے مطابق سندھ کے ریگستان میں کوئلے کے بڑے وسیع ذخائر موجود ہیں- صحرائے تھر کو دنیا کا نواں بڑا صحرا ہونے کا شرف حاصل ہے- 175 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن سے آئندہ 500 برسوں تک سالانہ50 ہزار میگاواٹ بجلی یا 10کروڑ بیرل ڈیزل یا لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے-[8]
دُنیا کا سب سے بڑا ڈیم :
تربیلا ڈیم دنیا کے سب سے بڑا ڈیموں میں ہے یہ دریائے سندھ پر واقع ہے اور اس کی چوڑائی465 فٹ ہے اور یہ تقریباً 250 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے -اس کی تعمیر میں تقریباً 2بلین ڈالر کی لاگت آئی تھی- اس ڈیم میں تقریباً13-6کلومیٹر پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور اس ڈیم کی تعمیر 1947میں مکمل ہوئی تھی-[9]
دُنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ :
دُنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جنہیں سمندر میسر نہیں جب کہ پاکستان آبی وسائل سے بھی مالا مال ہے اورا یک وسیع ساحل سمندر رکھتاہے-پاکستان میں کئی بندرگاہیں ہیں اوردنیا کی سب سے بڑی گہرے پانی کی بندرگاہ بھی موجود ہے -گوادر پورٹ تقریبا 627ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے-اسے تقریبا7-5 ارب روپے میں عمان سے خریدا گیا تھا -یہاں 4264 جہازوں کے ذریعے 196 ممالک سے تجارت ہو سکتی ہے-گوادر پورٹ کو ہی سی پیک سے جوڑا گیا ہے -
پاکستان چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے تجارت کا گیٹ وے ہے- پاکستان کے سمندر کا بیشتر حصہ یعنی 1200 کلو میٹر طویل ساحل، صوبہ بلوچستان سے منسلک ہے- 1970ء کے عشرے میں بلوچستان کی مچھلی کی سالانہ پیداوار 40ہزار ٹن تھی - اب ایک تخمینے کے مطابق ہماری مچھلی اور جھینگے کی پیداوار ایک لاکھ دو ہزار ٹن سے بھی زیادہ ہوچکی ہے- ہمارے ہاں پائی جانے والی مچھلی اور اعلیٰ درجے کے جھینگے دنیا بھر میں مشہور ہیں-[10]
انسانی ذرائع /افرادی قوت :
ہماری قوم کے لوگ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں اپنے لئے ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں- یہ خصوصیت دنیا کی کم ہی اقوام میں پائی جاتی ہے- ان میں وسائل سے مالا مال ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں اور کم وسائل رکھنے والے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی- دنیا میں کسی ترقی پذیر اور کم وسائل رکھنے والی قوم نے کھیل کے میدان میں ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کی جیسی پاکستانی کھلاڑیوں نے کی ہیں - پاکستان نے ہاکی کھیلی تو اولمپک چیمپئن، ورلڈ چیمپئن، ایشیائی چیمپئن کے اعزازات حاصل کیے - کرکٹ کھیلی تو ورلڈ کپ جیتا اور دیگر کئی مقابلے جیتے- اسکوائش کھیلا تو کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے- اسنوکر کھیلا تو عالمی چیمپئن قرار پایا -اسی طرح نیزہ بازی ،گھڑ سواری اور جیپ ریلیوں میں اپنے نام کا سکہ اور ملک پاکستان کا نام روشن کیا -غرض کوئی بھی کھیل ہو پاکستانی قوم اپنے جوش اور ہمت سے اپنی صلاحیت کو منوا لیتی ہے -
امن کے لئے کوشاں :
پاکستان کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ علمی میدان میں عصر حاضر میں جہاں پاکستان کو دہشتگردی کے نام پر بدنا م کیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب ہمارے بہت سے مصلح اور نوجوان دانشور جن میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب جو کہ تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ کے چیئر مین اور دیوان آف جونا گڑھ اسٹیٹ بھی ہیں، کا نمایاں کردار ہے جو اپنی علمی کاوشوں ،سیمینارز، تقاریر کے ذریعے نوجوانان پاکستان کو امن کی طرف راغب کرنےمیں پر عزم ہیں اور
مسلم اُمہ کو امن کا پیغام دینے کے لئے کوشاں ہیں - آپ کو 2020ء میں انٹرنیشنل تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ (INSPAD) کی طرف سے دنیا کی اُن دس شخصیات میں شامل کیا گیا ہے جو عالمی سطح پہ امن و استحکامِ عالم کے لیے اپنی شبانہ روز محنت کر رہے ہیں - [11]
خدمت خلق: دُنیا کا سب سے بڑا ایمبولنس سسٹم :
عبد الستار ایدھی جیسی مخلص اور با ہمت شخصیت عالمی سطح پر عزت اور احترام کی حامل ہے- دنیا بھر میں ان جیسی کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں ہے- آپ کی کوششوں سے دنیا بھر کا سب سے بڑا پرائیوٹ ایمبولینس سسٹم پاکستان میں موجود ہے ایدھی کے پاکستان میں 300 شہروں میں مراکز ہیں جن میں 1800 سے زائد ایمبولینس ہیں جبکہ ائیر ایمبولینس اور ایمبولینس ہیلی کاپٹرز بھی موجود ہیں- یہ ایمبولینس 24 گھنٹے سروس دیتی ہےجبکہ ایدھی ایمبولینس کو روزانہ 6 ہزار کالز موصول ہوتی ہیں-
دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام
کسی ملک کی ترقی کیلئے زرعی پیداوار، صنعتی پیداوار، معدنی دولت اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے- پاکستان کے محنت کش کسان جن کی محنت سے زراعت کو فروغ حاصل ہے- دنیا کا سب سے بڑانہری نظام بھی پاکستان میں ہے -پاکستان کے رقبے کےتقریباً 25فیصد حصے پر کاشت کی جاتی ہےاور یہاں دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام سے پانی کی ترسیل کی جاتی ہے - رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس ہے اور پاکستان میں روس کے قابل کاشت علاقے سے 3گنا زیادہ رقبہ پر کاشت کی جاتی ہے-
ذہانت:
انسٹیٹیوٹ آف یورپین نے 135 ممالک میں ایک پول آرگنائز کیا اور اس میں پاکستان کو چوتھے نمبر پر ذہین ترین قوم قرار دیا گیا- جس کی مثال عارفہ کریم اور بابر کمال جیسی شخصیت کے علاوہ دنیا کا سب سے کم عمر میں بننے والے جج محمد الياس ہیں جبکہ ساتویں نمبر پر دنیا میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز اور انجینئرزکا تعلق پاکستان سے ہے-
زیدان حامد جن کو لٹل پروفیسر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے -7سال کی عمر میں 500 سے زائد کتب کا مطالعہ کرنے اور پیر یا ڈک ٹیبل کو کم وقت میں ترتیب دے کر 9 سال کی عمر میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ حاصل کیا-زیدان حامد جیسے کئی ذہین بچے پاکستان کا مستقبل ہیں-[12]
چو نکہ ہمارا ملک ترقی پذیر ملک ہے اس کے باوجود پاکستانی قوم نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ان جیسے کئی دوسرے بین الاقوامی سطح پر معروف ومحترم سائنس دان دنیا کو دیئے -پاکستان میں دنیا کی محنتی اور سستی لیبر فورس موجود ہے جو دنیا کے ہر علاقے میں سخت سے سخت کام کرسکتی ہے- یہ دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کے لاکھوں شہری دنیا بھر کے ممالک میں موجود ہیں اور اپنی ہنر مندی و ذہانت سے انہیں مستفید کررہے ہیں- دنیا کے تمام بڑے اداروں میں اعلیٰ positions میں پاکستانی اساتذہ اور سائنس دان کام کررہے ہیں-مختلف ممالک اسکالرشپس اور جابز آفر کرتے ہیں اور ترقی پذیر ہونے کے باعث ہماری یوتھ اپنی صلاحیتیں دوسرے ممالک میں پیش کرنے پر مجبور ہیں-
محمود شام اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ تاریخ سوال کرتی ہے کہ کیا ریاست پاکستان ناکام ہوئی ہے- نہیں کیونکہ اس ریاست کے شہری جب دوسرے ملکوں میں جاتےہیں تو انہیں سنوار دیتے ہیں- دوبئی، بحرین، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، ناروے سب اس کی گواہی دے رہے ہیں- یہ اپنے وطن کو بھی سنوار سکتے ہیں اگر انہیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے-[13]
٭٭٭
[1]Ur-eferrit-com
[2]https://worldnaturenews-com/2020/02/08/pakistan-worlds-best-travel-destination-for-2020-by-conde-nast-traveller/
[3]https://www-bbc-com-cdn-ampproject-org/v/s/www-bbc-com/urdu/pakistan-49057417-amp?amp_gsa=1&_js_v=a9&usqp=mq331AQKKAFQArABIIACAw%3D%3D#amp_tf=From%20%251%24s&aoh=16583230800514&referrer=https%3A%2F%2Fwww-google-com
[4]https://www-bbc-com
[5]https://www-independenturdu-com/node/105751
[6]www-dawn news-tv
[7]Online-digestroohani
[8]-https://www-worldbank-org/en/news/feature/2020/11/09/a-renewable-energy-future-for-pakistans-power-system
https://fukatsoft-com/b/%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D8%A7%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%DA%86%DB%8C%D8%B2%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DB%81/[9]
[10]Roohanidigest-online
[11]https://t-co/HTiGxV2aWz
[12]https://www-google-com/amp/s/celebritynews-pk/zidane-hamid/amp
[13]https://jang-com-pk/news/1110618