ابتدائیہ:
مسئلہ فلسطین اور مقبوضہ جموں کشمیر ترک نو آبادیات کے خلاف حریت پسندی کی نا قابل تردید حقیقت بن چکی ہیں؛یہ علاقے فوجی چھاؤنیوں، غیر قانونی قبضوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی علامت ہیں- باوجود ان دردناک تصاویر کے حریت پسند نہ صرف اپنے خون سے تحریک ترک نو آبادیات کی شمع کو جلا دے رہے ہیں بلکہ اپنی جانوں کے نذرانوں سے اس کےعَلّم کو مزید اونچا کر رہے ہیں-[1] پاکستان کے بانیان کا مؤقف ان دونوں تنازعات پر روز اول سے اصولی رہا ہے اور ہمیشہ انہوں نے عالمی، علاقائی اور مقامی اداروں میں اخلاقی،سیاسی اور قانونی مدد کی کوشش کی- ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ عالمی اداروں کی نظراندازی ان مسائل کو مزید پیچیدہ و گمبھیر بنا رہی ہے- وقت کا تقاضا ہے کہ تمام عالمی، علاقائی اور مقامی ذمہ داران ان مسائل کے پُر امن حل کی کوششیں کریں نہیں تو عالم انسانی ایک مرتبہ پھر نو آبادیات کی آگ میں جل سکتا ہے جس کی مدلل دلائل کشمیر کا نیوکلئیر فلیش پوائنٹ اور اسرائیل کا ریاستی دہشت گرد(جس کے لیے عالمی قوانین و ریاستی حد بندیاں بے معنی ہیں) بن جانا ہے- [2]
بانیان پاکستان کا عزم : دو قومی نظریہ
بانیان پاکستان کا مسئلہ فلسطین و مقبوضہ کشمیر پر آواز اٹھانا دو قومی نظریہ کا عکاس ہے- تحریک نو آبادیات کی صورت میں قوموں کے وجود کو شدید لسانی، سیاسی، آئینی، مذہبی، سماجی اور معاشی خطرات لاحق ہو گئے اور مغربی استعماری یلغار کے تناظر میں دونوں خطوں میں قومیت کے شعور(یہاں شعور کی بجائے قومیت کی ضرورت اجاگر ہوئی کہنا غلط نہ ہو گا) پیدا ہوا-[3] مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین نوآبادیاتی علاقوں کی تقسیم کی بدولت دو قومی نظریہ کی بنیاد پر منظر عام پر آئے جہاں غاصبانہ طاقتوں نے لوگوں کے حق خود ارادیت کو مسترد کر کے فوجی قبضہ قائم کیا- دونوں علاقوں میں تحریک آزادی کو دہشت گردی سے منسلک کر کے غیر قانونی ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی کی جا رہی ہے- دونوں علاقوں میں نوآبادیاتی نظام کو تقویت دینے کے لیے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے-[4]
مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے درمیان مماثلت کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر اصل میں جنوبی ایشیاء کا فلسطین اور مسئلہ فلسطین مشرقِ وسطیٰ کا کشمیر ہے - [5]
مسئلہ کشمیر اور بانیان پاکستان کا عزم:
برٹش وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو منصوبہ تقسیمِ ہند پیش کیا جس نے برٹش انڈیا کو دو الگ آزاد و خودمختار ریاستوں ’’پاکستان اور بھارت‘‘ میں تقسیم کرنے کی تجویز دی -3 جون کے اِس منصوبہ کو مسلم لیگ اور کانگرس کے وفد نے متفقہ طور پر قبول کر لیا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اِس منصوبہ کوقانون سازی کے لیے برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کیا- جس کو بعد ازاں برطانوی پارلیمان نے قانون آزادیِ ہند 1947ء کی صورت میں حتمی شکل دے دی-[6] یعنی قانونِ آزادیِ ہند 1947ء کو مذکورہ دیسی ریاستوں کو یہ اختیار دیتا تھاکہ وہ:
- پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں یا
- بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں یا
- اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں
بھارت جموں و کشمیر پر تسلط کیلئے بے تاب تھا-دو قومی نظریہ، پاکستان کی اساس ہے لیکن بھارتی ہندو رہنما اس کی نفی کرنا چاہتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے قائداعظم کو بھی دو قومی نظریہ سے ہٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن قائداعظم کوہ ہمالیہ کی طرح اپنے نظریہ پہ ڈٹے رہے - چنانچہ بھارت نے دو قومی نظریہ کو ٹھیس پہنچانے کیلئے جموں و کشمیر پر زبر دستی قبضہ کر لیا تاکہ مسلم اکثریتی علاقے کو ہندو بھارت کے ساتھ شامل کر کے دو قومی نظریہ کو بے بنیاد ثابت کیا جا سکے - حالانکہ وہاں کی مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی، مزید اہم بات یہ کہ مہاراجہ ہری سنگھ جو راست کا خود مختار حکمران تھا اس نے بھی سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کا عندیہ دیا تھا جو بھارت کے سامراجی رہنماوں سے ہضم نہ ہوسکا اس لئے کشیر پہ فوج کشی کی گئی - کشمیری عوام دو قومی نظریہ کو صحیح معنوں میں سمجھتے تھے اور آج بھی اس کے ساتھ وابستہ ہیں- قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو متنبہ کیا کہ وہ آج کانگریس کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور آئندہ اس پر پچھتائیں گے اور وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا- بھارت نے کشمیری عوام کا جینا دو بھر کر دیا اور شیخ عبد اللہ کو بھی اپنی ’’وفاداری‘‘ کا صلہ نہ ملا- کشمیر کے کئی قائدین کا یہ ماننا ہے کہ شیخ عبد اللہ کی ہوسِ اقتدار نے کشمیر کا معاملہ تلخ کروایا - [7]
ہندوستان میں جدوجہد ِ آزادی قائد اعظم کی قیادت میں شروع ہوئی اور تب ہی سے وہی قیادت جو ہندوستان میں مسلمانوں کی وکیل تھی پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے حقوق کے لیے وکالت شروع کی- بھارت جب مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا تو پاکستان کشمیری رہنماؤں اور کشمیر کی آواز بن کر اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پہنچ گیا اور قائد اعظم کی سوچ اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ میں اپنے دلائل دیے- پاکستان نے مسئلہِ کشمیر کو دنیا کے سامنے ایک المیہ انسانی حقوق کی صورت میں پیش کیا اور دُنیا کو باور کروایا کہ بھارت نے کِس طرح مسلمانوں کا حق چھینا اور ان کے علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا-[8] اقوام متحدہ نے بانیان پاکستان کے عزم کی تائید کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ کی بجائے متنازعہ علاقہ قرار دیا اور اس مسئلہ کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حق خود ارادیت سے حل کرنے کے لیے قرار داد پاس کی- [9]
مسئلہ فلسطین اور بانیان پاکستان کا عزم:
اسرائیل کے قیام کے پیچھے برطانیہ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل میں جب یہودیوں نے دیکھا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو انہوں نے اتحادیوں کو خصوصاً برطانیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطین میں ایک صہیونی ریاست کے قیام پر آمادہ کیا - 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا- برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا- ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا-
فلسطین کے جو حالات آج ہیں وہ قائد کے عہد میں بھی موجود تھے لیکن قائد اعظم نے اس درد کو جس کرب کے ساتھ محسوس کیا آج ہم اس کے احساس سے ہی محروم ہوگئے ہیں اور یہ ہماری ناکامی ہے-
آئیے! مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم کے درد کو محسوس کرنے کی سعی کرتے ہیں:
فلسطین رپورٹ عربوں کے ساتھ سخت نا انصافی ہے:-
بمبئی، 11جولائی، 1937ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح، صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ:
’’فلسطین رپورٹ عربوں کے ساتھ بے حد شدید نا انصافی کرتی ہے اور اگر برطانوی پارلیمان نے اس پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کردی تو برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہو گی‘‘-
آپ نے مزید کہا کہ:
’’ایسا کام کرنا جو سراسر نا انصافی پر مبنی ہوغلط ہوتا ہے اور صرف اس لیے کہ اس سے زحمت کم سے کم ہوجائے گی، یا یہ خصوصی مفاد کے حسبِ حال ہے- برطانیہ کو اپنے عہد بے خوفی کے ساتھ پورے کرنے چاہیں ‘‘-[10]
قائد اعظم محمد علی جناح کی عالمگیر جدوجہد اور قائدانہ فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظور کرکے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور عالمی بد امنی کے خطرے کے پیشِ نظر اسرائیل کے اقوامِ متحدہ کا رُکن بننے کی مخالفت کی- پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر اس صیہونی ریاست کو تسلیم نہ کیا قائدِ اعظم کی اِس غیر مبہم، واضح اور بایقین بصیرت کے پیشِ نظر فلسطینی قربانیوں سے عوامِ پاکستان کا تعلق پختہ تر و مضبوط تر ہے اور قائدِ اعظم کی دی ہوئی تربیّت اور رہنمائی کی بدولت کسی حکمران کو آج تک یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ یکطرفہ طور پہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کا جرم کر سکے-
اِس طرح کے بین الاقوامی مسائل کے پیشِ نظر قائدِ اعظم عالَمِ اسلام کی مسلم ریاستوں کا ایک بلاک قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے عزائم کا مقابلہ اتحاد کے ساتھ کرسکیں-آپ نے عالَمِ اسلام سے مخاطب ہوکر کہا :
’’میں تمام مسلمان ملکوں کو دوستی اور خوشگوار تعلقات کا پیغام دیتا ہوں- ہم سب مشکل حالات سے گزر رہے ہیں- فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں طاقت کا جو ڈرامہ رچایا جا رہا ہے اس سے سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں- ہم آپس میں متحد ہوکر ہی دنیا میں اپنی آواز کو با اثر بنا سکتے ہیں‘‘-[11]
تجزیہ:
اکیسویں صدی کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا ، بھارت اور اسرائیل کی فوجی بدمعاشی کے نتیجہ میں دو مشترک اور انتہائی خطرناک تنازعات میں گھرتی جا رہی ہے- اگرچہ اقوام متحدہ کی فلسطین کے حق میں قرارداد 194 اور 242 اور مسئلہ کشمیر کے حق میں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 حق خود ارادیت کی یقین دہانی کرواتی ہیں جو کہ پاکستان کے بانیان کے مؤقف کی تائید بھی ہے لیکن ان قرار داد پر آج بھی عمل نہیں کروایا جا سکا- جس کی وجہ غاصبانہ ملکوں کی ہٹ دھرمی جبکہ عالمی طاقتوں کا معاشی و سیاسی مفادات میں ویٹیو کا جانبدارانہ استعمال ہے-[12] امریکہ نے 1999 سے 2011 تک 24 ویٹو میں سے 15 ویٹو اسرائیل کو بچانے کے لیے استعمال کی ہیں- [13]
عالمی طاقتیں اور غاصبانہ افواج فلر (Fuller) کی یوتھ بلج تھیوری (Youth Bulge Theory) کو نظر انداز کر رہی ہیں جس کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں جب12 سے24 سال کی نوجوان نسل آبادی کا 20فیصد ہو جائے وہاں خانہ جنگی ناگزیز ہو جاتی ہے-[14] ہنرک ار دال ( enrik Urdal) اپنے مقالہ میں اس خانہ جنگی کے خاتمہ کے لیے چار مختلف طریقے واضح کیے ہیں:
v نظریاتی ہم آہنگی (امریکہ کی تخلیق)
v سیاسی شمولیت (جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی بنیاد پر تقسیم کا خاتمہ)
v معاشی ترقی و مواقع (یورپ صنعتی ترقی اور سماجی ہم آہنگی)
v جغرافیائی تقسیم (تقسیم بنگال و تقسیم سوویت یونین)
آج کی دنیا کسی بھی بے بنیاد و غیر قانونی نظریہ کو بنیاد بنا کر حریت پسند تحریکوں کو دہشتگرد گردانتے ہوئے انہیں کچلنے کی اجازت نہیں دے سکتی- آج کی دنیا میں بغاوت، دہشت گردی، علیحدگی پسند تحریک اور حریت پسند تحریک کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہو گی- اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی کے تحت کشمیر و فلسطین کا مسئلہ بانیان پاکستان اور عالمی اداروں کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں گے تو ہی اس ملک و حریت پسند تحریکوں کا حق ادا ہو گا -
٭٭٭
[1]Ather Zia (2020) “Their wounds are our wounds”: a case for affective solidarity between Palestine and Kashmir, Identities, 27:3, 357-375, DOI: 10.1080/1070289X.2020.1750199
[2]Goldie Osuri (2020) Kashmir and Palestine: itineraries of (anti) colonial solidarity, Identities, 27:3, 339-356, DOI: 10.1080/1070289X.2019.1675334
[3]Cilt/Volume VI Sayı/Number 2 Ekim/October 2013 Sosyal Bilimler Dergisi/Journal of Social Sciences
[4]Ather Zia (2020) “Their wounds are our wounds”: a case for affective solidarity between Palestine and Kashmir, Identities, 27:3, 357-375, DOI: 10.1080/1070289X.2020.1750199
[5]@2019 by the Islamabad Policy Research Institute.
IPRI Journal XIX (2): 120-148. https://doi.org/10.31945/iprij.190205.
[9]UN Security Council, Security Council resolution 47 (1948) [The India-Pakistan Question], 21 April 1948, S/RES/47 (1948), available at: https://www.refworld.org/docid/3b00f23d10.html [accessed 19 June 2023]
[10](دی ٹائمز، 12جولائی1937ء)
[11](دی پاکستان ٹائمز، 8اگست 1948ء)
[12]https://ipripak.org/wp-content/uploads/2019/10/Article-5-IPRI-Journal-XIX-2-Sou-Asi-Pal-ED-SSA.pdf