اپنی مٹی سے ہی رونق ہے پذیرائی بھی

اپنی مٹی سے ہی رونق ہے پذیرائی بھی

اپنی مٹی سے ہی رونق ہے پذیرائی بھی

مصنف: مستحسن رضا جامی اگست 2024

 

میرا سرمایہ میری عزت و عظمت تجھ سے
کیسے ممکن ہے کروں میں نہ محبت تجھ سے

تیری سرحد تیری بنیاد بہت روشن ہو
الفت و نور سے مہکا ہوا ہر آنگن ہو

ہر گھڑی روشنی بانٹیں تیرے غیور چراغ
ساری دُنیا پہ عیاں ہوں تیرے مسرور چراغ

ایسا انمول وطن کوئی نہیں دُنیا میں
اس قدر کون سی دھرتی ہے حسیں دُنیا میں

پانچ دریاؤں کی زرخیز زمیں کس کی ہے
سبزہ و گُل سے جواں ایسی جبیں کس کی ہے

ایسے منظر ہیں کہاں ایسے ہیں کہسار کہاں
ایسی خوشبو ہے کدھر ایسا ہے سنسار کہاں

رنگ اور نسل کی بنیاد پہ تفریق نہ ہو
کسی دشمن کو جھپٹنے کی ہی توفیق نہ ہو

اختلافات بھلانے سے بھلائی ہوگی
اسی صُورت میں حریفوں سے رہائی ہوگی

کاش ہو دائمی یکجائی و وحدت اپنی
ہم سے سنبھلے گی اسی طور امانت اپنی

میرے سینے میں رہے تجھ سے عقیدت کا جُنوں
بڑھتا ہی جائے ہر اک لمحہ محبت کا جُنوں

تیری تزئین میں ہو صَرف ہنر، کافی ہے
اپنی مٹی سے محبت کا ثمر، کافی ہے

اپنی مٹی سے ہی رونق ہے پذیرائی بھی
بس ترے نام سے ہو میری شناسائی بھی

چاہے مشکل ہو یا آسانی تیرے ساتھ رہوں
تیری رفعت تیری نصرت کے قصیدے لکھوں

                        ٭٭٭ 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر