اُردو زبان ہی کیوں؟

اُردو زبان ہی کیوں؟

اردو جہاں دنیا کی تیسری بڑی زبان ہےوہاں پاکستان کی قومی،علمی اور ثقافتی زبان بھی ہے- بقول ایک عالم ’’اس وقت اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت واجب اور طاعت ہے اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت کرنا معصیت و موجبِ مواخذہ ِ آخرت ہو گا‘‘-قومی زبان کے نفاذ کے جو احکامات عدلیہ و دیگر اردو زبان سے محبت کرنے والے اداروں نے جاری کیے اُس سے اس زبان کی عظمت پہلے سے بھی بڑھ گئی -

حسن عسکری نے سچ کہا تھا:’’ہماری ساری تازگی تو غیر ملکی زبان چوس لیتی ہے ہمارے اندر تجسس اور اشتیاق کیسے باقی رہے؟‘‘اس سلسلے میں چند گزارشات عرض کرنا چاہوں گا ! اسلام کے بعد اُردو پاکستان کا سب سے بڑا ستون ہے- قائد اعظم نے اسی لیے پاکستان اور اردو کا مقدمہ بیک وقت لڑا- اردو کو سرکاری اور عظیم ثقافتی ورثے کی حامل زبان قرار دیا- بین الاقوامی زبان کے طور پہ انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی قومی زبان کی قدر نہیں کرتیں ان کا دنیا میں کوئی وقار نہیں ہوتا- جتنی بھی قوموں نے ترقی کے آسمانوں کو چھوا وہ اپنی زبان کی بدولت تھا- آج بھی دنیا کے نقشے پہ ابھرتی بڑی طاقتوں کی بنیاد دیکھیں تو ترقی کی وجہ اپنی زبان کا فروغ ہے- ہمسایہ ملک چین کی بڑی مثال ہمارے سامنے ہے-ہالینڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں عام شہری کو اوسطاً چار پانچ بین الاقوامی زبانوں پر عبور ہوتا ہے لیکن پورے ہالینڈ میں کوئی ایک سائن بورڈ ایسا نہیں جو ان کی زبان ڈچ میں نہ ہو-ایسی ہی مثالیں ہمیں ایران سمیت دیگر ممالک میں بھی ملتی ہیں-

اردو کا منبع و مخرج خارجی نہیں بلکہ خود ہم ہیں، ہماری زمین اور ہماری تاریخ ہے- ہمیں اپنی زمین اور اپنی تاریخ سے محبت کرنا چاہیے نہ کہ شرمانا چاہیے- اردو کا ایک خوبصورت اور منفرد رسم الخط ہے اور جس کی ایک بے مثال تہذیب ہے اور اس تہذیب کے خمیر میں بہترین انسانی و اخلاقی قدریں جذب ہیں- اُردو اور اس کی شاعری مختلف مذہبوں، زبانوں، نسلوں اور مقامی تمدنوں سے جڑے ہوئے کروڑوں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے-اس اعتبار سے ملک کے اندر اور برصغیر کے عوام کے مابین رابطہ کے لیے اردو کا کوئی اور فطری اور مناسب متبادل نہیں ہے-اردو زبان ایک جامع زبان ہے- اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے- اس کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے- اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے -یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے-

اس کے علاوہ اردو زبان میں اخذ و جذب کی بے پناہ صلاحیت ہے- اردو زُبان ایک کلچر کی نمائندہ زبان ہے اور اپنے کلچر کی ترویج و ترقی کا باعث بھی-اُردو زبان کا استعمال ان زبانوں میں نہیں ہوتا،جو گلوبلائزیشن کے زہریلے اثرات کی وجہ سے مر رہی ہیں یا مرنے کے قریب ہیں- پھر اردو محض شاعری، افسانے اور ناول کا ذریعہ اظہار نہیں بلکہ جدید، سائنسی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے والی زندہ اور ہر لمحہ ترقی پذیر زبان ہے-

یہی وہ واحد زبان ہے جو ہمیں قومی شناخت کے سانچے میں ڈھال سکتی ہے- قومی اتحاد، ثقافت اور تعصبات کے خاتمے کی نمائندہ ہماری عظیم اور پیاری زبان اردو ہے- یہ زبان قومی یکجہتی کاعملی نمونہ ہے - تبلیغِ اسلام کے لیے بھی بزرگانِ دین نےاردو کا سہارا لیا -یہ ہمارا تاریخی،تہذیبی، ملّی اور دینی مسئلہ بھی ہے-پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نا خواندہ ہے جبکہ باقی خواندہ آبادی بھی انگریزی پر مکمل عبور نہیں رکھتی- اس کے برعکس اردو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے- لہٰذا! ایسا ملک جہاں کے زیادہ لوگ انگریزی نہیں سمجھتے وہاں اسے سرکاری زبان کا درجہ دینا قوم کے ساتھ سنگین زیادتی اور سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے- اردو زبان کی ہمہ جہت ترقی، تحفظ، نفاذ، رواج اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کے لیے ہمیں چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا- جہاں سرکاری سطح پر حکومت کی ذمہ داری ہے تو قومی اور عمومی سطح پر ہم سب پر بھی اس کے نفاذکی ذمہ داری بنتی ہے-

ہمیں اپنے رویے اور مزاج بدلنے کی ضرورت ہے اردو کو مکمل سرکاری زبان کے طور پہ اپنائیں اسے وہ مقام دیا جائے جو ایک آزاد ملک میں قومی زبان کا حق ہے-اپنی ذات سے یہ کام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شعور کی بے داری اہم ہے پھر میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے- سرکاری، دفتری، عدالتی، رسم الخط، رابطہ کاری، طباعت و اشاعت، مجلس ترجمہ، اصطلاحات جیسی ذیلی مجالس کی تشکیل بھی کی جاسکتی ہے-ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے آزادی کے نام پر زمین کا ٹکڑا تو حاصل کر لیا مگر ذہنی طور پر وہی غلام کے غلام ہیں- ہمارا نظریہ اسلام ہے مگر ہمارے آئیڈیل انگریز اور ان کی انگریزی- اسی کش مکش میں ہم نے اپنی قومی شناخت کھو دی ہے- ہم انگریزی لباس، چھری کانٹے سے کھانا، انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں- ہمیں اپنی چیزوں پہ حق جتانا نہیں آتا- ہمیں اپنی ہی زبان اپناتے شرم آتی ہے- ہم منہ ٹیڑھا کر کے غلط انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں بہ نسبت درست اردو کے-

اردو کی ہمہ جہت ترقی، توسیع اور قومی زندگی کے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں اس کا نفاذ اور رواج ہو-حکومت سرکاری اور غیر سرکاری حکم جاری فرمائے- تمام انگلش میڈیم اسکولوں کا ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے-ملازمت کے لیے ہر جگہ اور ہر سطح پر بالمشافہ ملاقات میں تبادلہ خیال قومی زبان میں کیا جائے-مقابلے کے امتحانات اردو میں ہوں-پاکستان کی جامعات میں تحقیقی مقالات قومی زبان میں ہوں-سڑکوں، گلیوں، ڈاک خانہ، ریلوے،موٹر گاڑیوں کے شناختی نمبر، ملکی مصنوعات کا تعارف، تمام سرکاری، نیم سرکاری، صنعتی، تجارتی، تعلیمی، سماجی، ثقافتی محکموں، اداروں، تنظیموں انجمنوں، شہروں، عمارتوں کے نام، جملہ اشتہارات، رسیدیں، دکانوں، بازاروں، سڑکوں، اداروں کے داخلہ فارمز اورتمام محکموں کے بلات قومی زبان میں ہوں- سرکاری، غیر سرکاری ، رسمی اور غیررسمی تقریبات قومی زبان میں ہوں-غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردوکے قالب میں ڈھالا جائے- اردو میں تمام مضامین کی اصطلاحات تیار کی جائیں- حکومت اردو کے اداروں، ادیبوں، مصنفوں اور شاعروں کی سرپرستی کرے-ابتدا سےانتہا تک اردو کو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے رائج کیا جائے -زبان کی بنیادی مہارتوں سننے،بولنے،پڑھنے اور لکھنےمیں بہتری لائیں-

اردو ذریعہ تعلیم کے فروغ کیلئے طلبہ کو مختلف نوعیت کی ترغیبی مراعات اور وظائف فراہم کئے جائیں-اردو ذریعہ تعلیم کے اساتذہ کو متعلقہ مضامین کی جدید معلومات سے آراستہ کرنے اور درس و تدریس کے جدید طریقہ ہائے کار سے متعارف کرایا جائے- پبلک سروس کمیشن اور دیگر ادارہ جات کی جانب سے منعقد کئے جانے والے امتحانات کے پرچہ جات اردو میں تیار کئے جائیں اور امتحانات میں شریک ہونے والے اردو ذریعہ تعلیم کے امیدواروں کو بطور ترغیب کچھ مخصوص رعایتیں دی جائیں-اردو ذریعہ تعلیم کی ترقی کے لئے اس کو روزگار اور تحقیق سے جوڑنا اشد ضروری ہے-

قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ اردو زبان کے اداروں کا قیام عمل میں لاتےہوئے ان کے دائرہ کار میں ادبی،  نصابی، تخلیقی، تحقیقی کتب کی اشاعت و ترجمہ کی ذمہ داری کو شامل کرنا مناسب رہے گا- وقت اور حالات نے ہمیں جو تحفے دیئے ان میں سے ایک ” اردو ناشناسی‘‘ بھی ہے، نئی نسل کو بے شمار چیزوں کے نام اردو میں نہیں آتے، بلکہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں الفاظ کم ہیں اسی لیے وہ انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں ، جبکہ اردو انگریزی کی بہ نسبت ایک وسیع زبان ہے جس میں ہر چیز کے لیےکئی کئی الفاظ موجود ہیں جن کو مخصوص مقام و مواقع پہ استعمال کیا جا سکتا ہے-یہ رسمِ نقالی( فیشن) احساس کمتری اور سہل پسندی سے ہے-ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہر لفظ کا اپنا ایک تہذیبی پس منظر ہوتا ہے-جب ہم کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے ذریعہ ہم ایک تہذیب کو بھی پیش کرتے ہیں-اس طرح انگریزی استعمال سے ہمارا تہذیبی تشخص بھی متاثر ہوتا ہے-

اردو میں انکل اور آنٹی کے مترادف رشتوں کے نام، خالہ خالو،  مامی  ماموں ، چاچی چاچا، تائی تایا، پھوپھی پھوپھا-

اردو میں رنگوں کے نام: سفید، موتیا، آبی ، کریمی، دودھیا، پیلا، میٹھا پیلا ، کڑوا پیلا، کشمشی، بنفشی، کاکریزی، گل اناری، انابی، لال، ہرا، دھانی، مہندیا، فیروزی، نیلا، آسمانی، سبز، گلابی، آتشی، چمپئی، سنہرا، کتھئی، بادامی، پستئی، پیازی، بینگنی، فالسئی، چقندری-

گھریلو استعمال کی مختلف چیزوں کے نام: پاندان، خاصدان، اگالدان، چلمچی، آستاوا، لوٹا، لگن، سینی، طباق، تشت، چلم، چلمن، پردے، دیوار گیری، دری، چاندنی، تکیہ، گاؤ تکیہ، کشن، طشتری، کشتی، آبخورے، پیالے،  پیالیاں، لگن، دیگچی، پتیلی، پھونکنی، توا، توی-

زیورات کے نام: ہار، ست لڑا، گلوبند، بالی، بندے، بالی پتے، جھمکے، جھمکیاں ، انگوٹھی ، چھلا، چوڑیاں، کنگن، کڑے، کلائی، بازوبند، نتھ، لونگ، نتھنی، ٹیکا، بندیا، جھومر-

لباس کے نام: شرارہ، غرارہ، چوڑی دار پئجامہ، کھڑا پئجامہ، سیدھا پئجامہ،قمیض، کرتا، کرتی، انگرکھا، کوٹی، کوٹ، شیروانی، اچکن، واسکٹ، ٹوپی، دوپلی، جناح کیپ، ٹوپا، کنٹوپ، صافہ، پگڑی، دستار، دستانے، موزے-

جوتوں کے نام: جوتے، چپل، سینڈل، پمپی، پشاوری، کھسے، سلیم شاہی، ناگرہ،

الفاظ کی کثرت اور وافر موجودگی پہ غور کریں تو پھریہ ہماری بد قسمتی یا بے ضمیری یا پھر غلامانہ مفلوج سوچ ہے کہ ہم انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں- یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری زبان ہمارا فخر ہے- کیونکہ ہماری قومی زبان اردو ہے اس لیے ہمارے ملک میں انگریزی زبان کو ایک دوسرے درجے کی زبان کی حیثیت ملنی چاہیے-  یہ وضاحت ضروری ہے کہ اپنی علاقائی زبان میں بات کرنا اور بات ہے اور انگریزی میں بات کرنا اور بات ، اس لئے اردو بمقابلہ پشتو، پنجابی ، سندھی، پہاڑی، بلوچی یا پاکستان میں بولی جانے والی دیگر علاقائی زبانوں کے نہیں ہے ، علاقائی زبانوں کا فروغ ہماری ترجیح ہونا چاہئے -  اصل مسئلہ انگریزی زبان ہے جو ہمارے بابؤں کی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر تہذیبی شناخت کو نگلتی جا رہی ہے - وطن سے وفا کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اردوسے محبت کریں- علاقائی زبان کے ساتھ صرف اردو پہ فخر کریں اور اس کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں-اس کے لیے ہر شخص اپنے اپنے طور پر اردو کا زیادہ استعمال کرے بکیں، چیئرز، بائک جیسے بے معنی الفاظ کی جگہ کتابیں، کتب، کرسیاں، موٹر گاڑیاں جیسے بامعنی الفاظ استعمال کریں- اپنی روز مرہ زندگی میں، گھروں میں، خاص کر بچوں کے ساتھ انگریزی کی بجائے اردو الفاظ کا استعمال کریں  تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارا فخر بحال رکھ سکیں-

نجات ِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

                         ٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر