ابتدائیہ:
قدرت نے پاکستان کو ثقافتی، سماجی اور معاشرتی تنوع سے نوازا ہے- پاکستان کے اندر مختلف مذہبوں اور ثقافتوں کی ایک تاریخ موجود ہے- جنوبی ایشیا ء میں واقع مملکت خداداد پاکستان کا ثقافتی منظر نامہ میں جہاں ایک تنوع کا عالم برپا ہے تو وہاں دوسری طرف قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا عنصر بھی نمایاں پایا جاتا ہے- زیر نظر مضمون میں ہم پاکستان ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، مذہبی اور دیگر حالات زندگی کے اعتبار سے پائے جانے والے تنوع کا جائزہ لیں گے-
پاکستان میں کثیر الجہتی بولیاں:
پاکستان میں قومی اور علاقائی سطح پر مختلف زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں- ایتھنولوگ کے مطابق پاکستان میں 77 زبانیں نمایاں ہیں- ان میں سے 68 مقامی اور 9 غیر مقامی ہیں-[1] یہ مختلف زبانیں، مختلف علاقائی گروہوں کی نمائندگی کرتی ہیں- انگریزی، پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے- پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی اور سرائیکی صوبہ پنجاب، پشتو اور ہندکو صوبہ خیبر پختونخوا، سندھی صوبہ سندھ، بلوچی صوبہ بلوچستان اور شینا گلگت بلتستان میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں- ایک اندازے کے مطابق گوجری کثیر العلاقائی زبان کے طور پر مشہور ہے- پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں آیر، بدیشی، باگری، بلتی، بٹیری، بھایا، براہوی، بروشسکی، چلیسو، دامیڑی، دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، فارسی، دری، رچناوی، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، ہریانی، گجراتی، گوجری، گرگلا، ہزاراگی، ہندکو، جانگلی، جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کشمیری، کاٹی، کھیترانی، کھوار، انڈس کوہستانی، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی، لوارکی، مارواڑی، میمنی، اوڈ، ارمری، پہاڑی، پوٹھواری، پھالولہ، سانسی، ساوی، شینا (دو لہجے)، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی، وانیسی اور یدغہ وغیرہ شامل ہیں-
ان زبانوں میں سے بعض زبانیں عالمی طور پہ اپنی افادیت کھو رہی ہیں کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے- وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں- پاکستان کے علاقے چترال کو ملک کا کثیراللسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں-یہ زبانیں پاکستان کی لسانی تنوع کی عکاسی کرتی ہیں اور ہر زبان کی اپنی ادبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت ہے- پاکستان کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی یہ زبانیں مقامی ثقافت اور روایات کی مضبوط بنیاد ہیں-
مذاہب اور فرقے:
پاکستان میں دین اسلام کے پیروکاروں کی اکثریت ہونے کے باوجود یہ ایک کثیر المذہبی ملک ہے- ان مذاہب میں عیسائیت، ہندو مت ، جین مت سکھ دھرم ، بہائی مذہب، بدھ مت اور پارسی مذہب کے افراد نمایاں ہیں-[2] پاکستان میں مختلف مذاہب کا یہ تنوع ملک کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ کا آئینہ دار ہے- پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہندومت کو ماننے والوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے- ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید کی تعلیمات اسی علاقے سے جڑی ہیں- اس کے علاؤہ ہندو مت میں مختلف فرقوں مثلاً وشنو مت، شیو مت اور شاکت مت کے ماننے والے افراد شامل ہیں- پاکستان میں عیسائی بھی موجود ہیں جن میں مختلف فرقے جیسے رومن کیتھولک، پروٹیسٹنٹ، ایل ڈی ایس اور اینگلیکن شامل ہیں- جین مت کی قدیم تاریخ بھی موجود ہے، لیکن آج کل پاکستان میں جین مت کے پیروکار بہت کم ہیں- سکھوں کی بھی بڑی کافی تعداد یہاں بستی ہے- بدھ مت کے بانی گوتم بدھ اور سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک نے آج کے موجودہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں قیام کیا تھا، کٹاس راج مندر کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو دھرم کی اہم شخصیت کرشنا نے قیام کیا - پاکستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر ٹیکسلا، سوات، تخت بھائی اور گلگت بلتستان میں بدھ مت کے قدیم آثار پائے جاتے ہیں اسی طرح اسلام آباد میں بدھا کیو(Budha Caves) ہیں- قادیانی مذہب کو دنیائے اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص 1974ء میں آئین پاکستان کے تحت غیر مسلم ہیں اور قادیانیت غیر مسلم اقلیتی مذہب ہے - قادیانی مذہب اور بہائی مذہب کے پیروکار بھی مختلف علاقوں میں موجود ہیں-
مختلف مذاہب کے پاکستان میں مسلمان فرقوں کا بھی تنوع پایا جاتا ہے -پاکستان میں 96.5 فیصد مسلمانوں کی کُل آبادی میں 80 سے 90 فیصد اکثریت اہلسنت کی ہے- جبکہ 10 سے 15 فیصد اثنا عشری اہل تشیع کی ہے -[3] اہلسنت کے مختلف فرقوں میں بریلوی (کُل اکثریت کا 75 سے 80 فیصد)، دیوبندی (تقریباً 15- 20 فیصد)، اہل حدیث / سلفی(5 فیصد) شامل ہیں-اسماعیلی فرقہ کی آغا خانی اور بوہرہ دو اہم شاخیں ہیں- [4]
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں فرقہ پرستی کا عنصر نوآبادیاتی دور میں کھُل کر سامنے آیا اور اس وقت فرقوں کا تنوع اس فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے- بدقسمتی سے بہت سے نام نہاد مذہبی عناصر نے اپنے مفادات کی خاطر فرقہ وارانہ شدت پسندی کو ہوا دی ہےجو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری قومی، مذہبی اور ملی بنیادوں کو مسمار کر رہی ہے- یہ انتہا پسندی، مذہبی فرقہ واریت اور جہالت بد قسمتی سے اب ہمارا کلچرل ٹریڈ مارک ہےجس کے باعث باہمی احترام کی فضا شدید متاثر ہوئی ہے-
معاشی اور اقتصادی تنوُّع :
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق معاشی تقسیم کی بنیاد پر پاکستان کی آبادی کو پانچ اہم طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کے مطابق اپر کلاس یا ایلیٹ دو سے چار ملین لوگوں پر محیط ہے- اس میں دولت مند تاجر، سیاستدان اور اعلیٰ مرتبے والے افسران شامل ہیں - اس کے بعد اپر مڈل کلاس آتی ہے جس کی آبادی 10 سے 14 ملین لوگوں پر محیط ہے- اس میں بڑے پیشہ ور افراد، مینیجرز اور انٹرپرائنائزر شامل ہیں -اس کے بعد مڈل کلاس آتی ہے جس کی آبادی 40 سے 50 ملین لوگوں پر مشتمل ہے- اس میں چھوٹے کاروباری حضرات، کلرکس اور ہنر رکھنے والے افراد شامل ہیں -اس کے بعد لوئر مڈل کلاس ہے- جو کہ 60 سے 70 ملین لوگوں پر مشتمل ہے اس میں کسان، چھوٹے کاموں کی مہارت رکھنے والے افراد اور مزدور شامل ہیں- آخر میں لوئر کلاس آتی ہے جو کہ 60 سے 80 ملین لوگوں پر مشتمل ہے- اس میں بغیر ہنر والے افراد، عام مزدور اور انتہائی غریب طبقے کے لوگ شامل ہیں- ورلڈ بینک کی رپورٹ 2022ء کے مطابق پاکستان میں% 39.3 آبادی خطِ غربت سے نیچے رہ رہی ہے جو کہ تقریباً 80 سے 90 ملین لوگوں پہ محیط ہے-
شہری و دیہی تنوُّع:
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک 2017ء کے مطابق پاکستان میں شہری آبادی کا تناسب 75.58 ملین ہے اور دیہی آبادی کا تناسب 132.19 ملین ہے- جبکہ پنجاب میں شہری آبادی کا تناسب 43.6 ملین اور دیہی آبادی کا تناسب 82.4 ملین ہے، سندھ میں شہری آبادی 29.2 ملین اور دیہی آبادی 26.5 ملین ہے، خیبر پختو خواہ میں شہری آبادی کا تناسب 10.2 ملین اور دیہی آبادی کا تناسب 33.5 ملین ہے، اسی طرح بلوچستان میں شہری آبادی کا تناسب 3.6 ملین اور دیہی آبادی کا تناسب 17.1 ملین ہے-
تعلیم کا تنوُّع:
ورلڈ بینک 2022ء کے سروے کے مطابق ، 10 سال یا اس سے زیادہ خواندہ آبادی میں 70.2 فیصد مرد اور 46.5 فیصد عورتیں شامل ہے -کم خواندہ آبادی میں 14.1 فیصد لوگ شامل ہیں، جو کہ صرف پڑھ لکھ سکتے ہیں لیکن ان کی تعلیم پرائمری سے کم ہے - اسی طرح ناخواندہ آبادی میں مردوں کی تعداد 19.5 فیصد اور عورتوں کی تعداد 35.6 فیصد ہے-
عمر کا تنوُّع:
2023ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 0 سے 14 سال کی عمر کے حامل افراد کی تعداد 40.3 فیصد ہے اور 15 سے 64 سال کی عمر کے حامل افراد کی تعداد 56 فیصد ہے . جبکہ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد 3.7 فیصد ہے-
پاکستان میں ذاتوں اور قبائل کا تنوُّع:
پاکستان میں کثیر الاانواع ذاتیں موجود ہیں جن کا تعلق کہیں تو قبائل کے ساتھ اور کہیں پیشے کے ساتھ بھی جڑا ہے، بلوچ ، پشتون ، کشمیری ، سندھی ، گجراتی وغیرہ شامل ہیں- اگر ہم انفرادی سطح پر اس کا ذکر کریں تو بلوچ بنیادی طور پر صوبہ بلوچستان میں آباد ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں بھی آباد ہیں- بلوچوں کے بڑے قبائل میں رند، مری ، رئیسانی ، مگسی ، بروہی، بگٹی ، مینگل اور چھوٹے بڑے بہت سے شامل ہیں- پشتون، جنہیں عرف عام میں پٹھان بھی کہا جاتا ہے، زیادہ تر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں آباد ہیں-بڑےقبائل میں یوسفزئی، آفریدی، محسود، وزیر ، ترین اور دیگر بہت سے شامل ہیں- آزاد جموں و کشمیر کے کشمیری لوگ پاکستان میں آزاد کشمیر اور پنجاب کے کچھ حصوں میں آباد ہیں- کشمیری کمیونٹی متنوع ہے جس کے افراد مختلف پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں- سندھی صوبہ سندھ کے مقامی ہیں اور سندھی زبان بولتے ہیں- بڑے سندھی قبائل میں بھٹو، میمن ، تالپوراور جونیجو شامل ہیں- پاکستان میں گجراتی کمیونٹی ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی اصل ہندوستانی ریاست گجرات سے ملتی ہے- وہ بنیادی طور پر کراچی میں آباد ہیں- گجراتی کمیونٹی میں متنوع گروہ شامل ہیں، جیسے میمن اور کھوجا شامل ہیں-پنجاب میں ذاتوں کا تنوع بہت وسیع ہے- یہاں مختلف نسلی گروہ، زبانیں اور ثقافتیں پائی جاتی ہیں جو صدیوں پرانی تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں- بڑی تعداد میں راجپوت، جاٹ، گجر، آرائیں، اعوان، نیازی ، شیخ، سید اور کمبوہ وغیرہ آباد ہیں- یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تقریباً تمام علاقوں میں ذات، برادری اور قبائل انتخابات میں غیر معمولی طور پہ اثر انداز ہوتے ہیں -
سیاسی جماعتوں کا تنوُّع:
تنوُّع کا کثیر الجہتی منظر سیاسی عمل میں بھی موجود ہے - پاکستان میں انواع و اقسام کی سیاسی جماعتیں پائی جاتی ہیں قومی اور وفاقی سیاست کرنے والی جماعتیں، صوبائیت کا نعرہ، علاقائیت کا نعرہ ،مقامی قومیت کا نعرہ ، لسانی بنیاد پہ سیاسی جماعت کا قیام- اسی طرح مذہبی سیاست میں بھی بہت تنوع ہے بعض مذہبی سیاسی جماعتیں دعویٰ ہمہ گیریت کا کرتی ہیں ان کا بظاہر فوکس اسلامائزیشن پہ ہوتا ہے مگر تاریخی عمل یہی ثابت کرتا ہے کہ مذہب کے نام پہ سیاسی جماعتوں کا اصل مقصدفرقہ وارانہ مفادات ہی ہیں مگر فرقوں کا نام نہیں لیتے - بعض جماعتیں کھل کر فرقہ وارانہ سیاست کرتی ہیں ان میں بھی مزید کئی اقسام ہیں جیسا کہ کچھ کے پیچھے برادر اسلامی ممالک کا سرمایہ اور سپورٹ ہوتی ہے اور کچھ صرف ملکی سطح تک محدود ہوتی ہیں- کمیونٹی کی بنیاد پہ بھی سیاسی جماعتیں ہیں جیسا کہ مہاجرین سے تعلق رکھنے والی جماعتیں جن میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف خطوں کے وہ لوگ جو قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے آئے -
طرز ہائے تعمیر :
پاکستان کی تاریخ میں قدیم زمانے سے جدید دور تک مختلف طرز ہائے تعمیرات ملتے ہیں- مہر گڑھ تہذیب کے مٹی اور اینٹوں کے مکانات،[5] وادی سندھ کی تہذیب کے عظیم شہروں موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں پیچیدہ منصوبہ بندی، پکی اینٹوں سے بنے مکانات، نکاسی آب کے نظام اور بڑے بڑے گودام اور پشاور، سوات اور ٹیکسلا میں پائی جانے والی گندھارا تہذیب میں بدھ مت کے اسٹوپے[6] ( جو یونانی اور ایرانی طرز تعمیر کا امتزاج ہیں)اس کی قدیم مثالیں ہیں-[7] اسلامی دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کی تعمیرات، مغلیہ دور کے لاہور کے شاہی قلعہ، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد اوردیگر نمایاں ہیں- [8]
برطانوی نوآبادیاتی دور میں کراچی اور لاہور میں گوتھک اور نو کلاسیکل طرز کی عمارتیں تعمیر ہوئیں -[9] سکھ دور میں گوردوارہ جنم استھان، سمرک محل اور پنجہ صاحب جیسی تعمیرات کی گئیں جبکہ ابھی اور کرتارپور راویریا کو بنایاگیا- ہندو مندروں میں کٹاس راج مندر، ہنگلاج ماتا مندر وغیرہ شامل ہیں-[10] آزادی کے بعد جدید طرز کی تعمیرات جیسے اسلام آباد کی فیصل مسجد، کراچی کی قائد اعظم لائبریری اور لاہور کا مینارِ پاکستان تعمیر ہوئے- موجودہ دور میں جدید طرز پر تعمیر کی گئی رہائشی سکیمیں شامل ہیں جن میں آج کی ضروریات کے مطابق رہائشی اور تجارتی عمارتوں کو تعمیر کیا گیا ہے- یہ مختلف ادوار کی تعمیرات پاکستان کی متنوع ثقافتی اور تاریخی ورثے کی عکاسی کرتی ہیں-
آرٹ:
پاکستان کے تمام صوبوں کی مقامی بولیوں اور زبانوں میں شاعری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں اور ہر صوبہ کے مقامی اسلوب اور لسانی پیرائے کا اظہار ملتا ہے-پنجابی زبان کا ایک نمایاں لہجہ ہمیں دوہڑے اور ماہیے کی صنف میں ملتا ہے- اسی طرح سرائیکی دوہڑا بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے- لوک شاعری میں تمام علاقوں میں حمد ، نعت، نظم ، غزل ، رزمیہ نظمیں، عشقیہ داستانیں، عشقیہ گیت ، لوریاں اور پہیلیوں کی صورت میں کلام ملتا ہے- لوک گیت کی مثالیں بھی موجود ہیں-بلوچی لوک گیتوں میں لیلڑی ، لیکو ، زہیروک، لاڑوگ، ھالو،سوت اور موتک جیسی اقسام شامل ہیں-سندھی شاعری میں غزل ، نظم ، بیت ، دوہے ، وائی ، کافی ، آزاد نظم ، سانیٹ ، ٹپہ، ماہیا اور ہائیکو جیسی اصناف میں کلام ملتا ہے- پشتو لوک گیت بہت مقبول ہیں- مثلاً لنڈئی، چاربیتہ، نیمہ کئی، بگتئی، بدلہ ، لوبہ اور اللہ ہُو یہ سب پشتو لوک گیت کی اقسام ہیں-
صوفیانہ شاعری اور صوفیاء کے کلام کی بنائی گئی دھنیں آج بھی دلوں کو عشق کی حرارت سے لبریز کرتی ہیں- مقامی لہجوں میں گیت مقبول عام ہے-اسی طرح مختلف اقسام کے آلاتِ موسیقی بھی استعمال کئے جاتے ہیں -مثال کے طور پر ، ڈھول پنجابی، رُباب پختون، سرود اور بینجو بلوچی اور الغوزو سندھی ثقافتی موسیقی کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ کئی ایسے آلاتِ موسیقی ہیں جو کہ مخصوص سماجی تہواروں اور گروہوں سے منسلک مانے جاتے ہیں- جیسا کہ شہنائی شادی بیا ہ کے موقعوں پر بجائی جاتی ہے اور طبلہ، طنبہ اور سارنگی کو صوفیانہ موسیقی اور جوگیوں کی روایات سے جوڑا جاتا ہے- پاکستان کے روایتی آلاتِ موسیقی میں دف، طبلہ، ستار، رُباب، سارنگی،بین، بانسری، ڈھول، ڈھولک، تھال، گھڑا، ایکتارا، شہنائی، چمٹا، ہارمونیم، الغوزہ، طنبور، بھورینڈو، چاردھا یا پامیری رُباب، بلوچی بینجو، سرود، سروز، وینہ، تانپورہ، دنبورہ سرِ فہرست ہیں[11]-اس کے علاوہ پاکستان میں بجائے جانے والے آلاتِ موسیقی میں سورنائی، سُر بہار، سورسنگھار، نقرہ، خنجاری، پکھاوج، بانجو جلترنگ، وچھاترا سنتور، سارگی، سارندہ، طاؤس، سروز، دلرُبا، بانسری، سورنائی، خنجاری،، ڈھولک، نقرہ، چمٹا، پکھاوج، جلترنگ بوریندو، بابُل ترنگ، چپاروں، چنگ، دفالی، دائرہ، دنبورو، ڈانڈو، دفو، ڈُھل، ڈِلو، ڈونیلی، غازی، کماچی، کانی، کرتل، مُرلی، مُتا، نغارہ، نر، پاوا، پُنگی، سارندہ، سارو، شرنائی، سُراندو، تلیون ،طنبی بھی شامل ہیں- [12]
ٹیکسٹائل آرٹ یا کشیدہ کاری :
ٹیکسٹائل آرٹ پاکستانی خطے کی قدیم روایتوں میں شامل ہے-سندھ اور بلوچستان کے لوگ بالخصوص خواتین کی ٹیکسٹائل آرٹ بہت مشہور ہے اور ان کی آرٹ میں رنگ، ڈیزائن اور نقش مخصوص گروہ، ان کے پیشے اور سماجی مقام کی عکاسی کرتے ہیں- بالکل اسی طرز پر پنجابی، پختون، بلوچی، گلگتی، بلتستانی، چترالی، کشمیری اور پوٹھوہاری خواتین اور مرد اپنے اپنے لباس کو سجاتے ہیں- ٹیکسٹائل آرٹ کے وہ شاہکار جو تقریباً پاکستان کے تمام علاقوں میں مقبول ہیں ان میں سندھی اجرک، سندھی ٹوپی، سندھی بھجکی (Ladies Purse) بلوچی ٹوپی، پختون پاکول (ٹوپی) ، چترالی پاکول، ہنزئی پاکول، روایتی چادریں، پختون واسکٹ اور گھاگرے بہت نمایاں ہیں-
رسم الخط:
پاکستان میں عربی زبان کیلئے نسخ اور رقعہ، دیوانی رسم الخط استعمال ہوتے ہیں- اردو زبان کے لئے نسخ، نستعلیق رسم الخط کو زیادہ تر استعمال کیا جاتا ہے مگر عربی اور اردو کی خطاطی کے لئے دیگر رسم الخط میں کوفی، ثلث وغیرہ بھی استعمال ہوتے ہیں- پاکستان کے دیگر علاقوں میں لکھی جانے والی زبانوں میں پشتو، سندھی، بلوچی/ براہوی کے لئے عام طور پر نسخ رسم الخط ہی استعمال کیا جاتا ہے تا کہ سمجھنے اور پڑھنے میں آسانی ہو-سندھی زبان کے لئے عربی سندھی رسم الخط بھی بہت اہمیت رکھتا ہے-
پنجانی زبان کے لئے دو رسم الخط استعمال ہوتے ہیں جن میں گورکھی اور شاہ مکھی، پہلا سکھوں کی زبان لکھنے کے لئے اور دوسرا مسلمانوں کی زبان لکھنے کے لئے-ہندو اور سنسکرت زبانوں کے لئے دیوناگری رسم الخط بیشتر استعمال کیا جاتا ہے - سندھ کے علاقوں میں اسماعیلی کمیونٹی کے لئے کھوڑو رسم الخط استعمال ہوتا ہے (خاص طور پر تحریری روایت کے طور پر)- کھوار (چترال کے علاقے میں بولی جانے والی زبان)، شینا (گلگت کے کچھ علاقوں میں)، بلتی (گلگت کے کچھ علاقوں میں) زبانوں کے رسم الخط شامل ہیں- انگریزی کیلئے رومن رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے-
روایتی لباس :
پاکستان میں، روایتی لباس مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں، جوہر ایک خطے کے منفرد ثقافتی ورثے اور آب و ہوا کی عکاسی کرتا ہے- پنجاب میں مردوں کے روایتی لباس میں سیدھے کٹے ہوئے پنجابی شلوار قمیض، کرتہ، دھوتی اور لنگی شامل ہیں- دیہی مرد اکثر پتلے کپڑے کی پگڑی پہنتے ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، اور روایتی جوتے جسے کھسہ کہا جاتا ہے وہ پہنتے ہیں- پوٹھوہاری شلوار، ملتانی شلواراور بہاولپوری شلوار مخصوص انداز ہیں جو چوڑے اور تہہ دار ہیں-
خواتین عام طور پر پنجابی سوٹ پہنتی ہیں، جس میں ڈھیلے پیلیٹڈ ٹراؤزر کے ساتھ ایک مختصر، فٹ ٹیونک کا جوڑا ہوتا ہے- اس لباس میں اکثر وسیع پیمانے پر کڑھائی کی جاتی ہے جیسے پھولکاری، ہاتھ کی کڑھائی کی روایتی تکنیک- دیہی علاقوں میں خواتین پوٹھوہاری شلوار، پٹیالہ شلوار، لاچا، گاگرا، قرتی، لہنگا اور پھولکاری بھی پہنتی ہیں-
سندھ کے روایتی لباس میں شلوار قمیض شامل ہے، جسے اکثر مخصوص سندھی ٹوپی اور اجرک کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، پیچیدہ ڈیزائن والی شال کے ساتھ- مرد بھی دھوتی پہن سکتے ہیں- سندھی خواتین رنگ برنگی چولی ، گھاگرے کے ساتھ جوڑا زیبِ تن کرتی ہیں- یہ اپنے منفرد آئینے کے کام اور پیچیدہ ہاتھ کی کڑھائی کے لیے مشہور ہیں- خواتین کا ایک اور روایتی لباس لہنگا اور چولی ہے جسے گاجی کہتے ہیں، خاص طور پر سندھ کے پہاڑی علاقوں میں مشہور ہے-
بلوچی مرد ڈھیلے شلوار قمیض پہنتے ہیں، اکثر چوڑی شلواروں کے ساتھ صحرا کی گرمی سے خود کو بچانے کیلئے پگڑیوں کے مختلف انداز سورج سے بچانے کے لیے زیبِ تن کرتے ہیں-بلوچی خواتین شلوار کے ساتھ لمبے، ڈھیلے ٹونکس (قمیض) پہنتی ہیں- ان لباسوں کو پیچیدہ کڑھائی اور آئینے کے کام سے سجایا جاتا ہے، اور رنگ پیلیٹ مٹی کے ٹونز سے لے کر گہرے بلیوز اور پرپلز تک ہیں جو اس خطے کے صحرائی منظر کی نمائندگی کرتے ہیں-
خیبر پختونخواہ میں مرد روایتی لباس میں شلوار قمیض پہنتے ہیں، جس میں ڈھیلا ڈھالا اور متحرک رنگ شامل ہے- مرد پشاوری چپل جیسے روایتی جوتے بھی پہنتے ہیں -خواتین شلوار قمیض پہنتی ہیں جسے روایتی واسکٹ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جسے 'واسیک' کہا جاتا ہے- ان لباسوں میں اکثر پیچیدہ تھریڈنگ اور آئینے کی زیبائش ہوتی ہے، جس سے لباس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے-
شیروانی رسمی مواقع پر پہنی جاتی ہے، خاص طور پر دولہا شادیوں کے دوران زیبِ تن کرتا ہے جو ایک لمبے کوٹ جیسا لباس ہے جو شلوار قمیض کے اوپر پہنا جاتا ہے-چمڑے سے بنے روایتی کھُسے پہنے جاتے ہیں جو اکثر سیرامک موتیوں، آئینے اور دیگر زیورات سے مزین ہوتے ہیں-
اختتامیہ:
پاکستان کو ثقافتی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی تنوع کے تناظر میں دیکھا جائے ،تو یہ ایک انتہائی ہزاروں رنگوں کا گلدستہ نما نظر آتاہے- جو یقیناً ہر طبقہ کا تنوع اِسے حسین سے حسین تر بنا تا ہے، بشرطیکہ ہر قسمی تنوع اپنے اپنے دھارے میں چلتا اور بڑھتا رہے - تنوع میں پر امن زندگی کی ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے دوسروں کا احترام -
لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ایک صدی کی سماجی تاریخ کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ مذہبی و سیکولرملائیت زدہ ذہنیت نے اپنی کم ظرفی، کم علمی اور کج فہم رویوں، طریقہ کار اور محدود مفاد پرستانہ سوچ کی وجہ سے مذہبی و دیگر تنوع کو آپس میں ٹکرا دیا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور پر تشدد شدت پسندی نے جنم لیا - تاریخ عمل میں دیکھیں تو بر صغیر میں ہزار برس تک اولیاء اللہ نے اس رنگ برنگیت اور تنوع میں پر امن معاشرہ بھی چلا کر دکھایا اور اسلام بھی پھیلایا ، برطانوی نو آبادیات کے بعد ملائیت کو بااختیار کیا گیا تو نتیجہ ہم سب بھگت رہے ہیں -
اس کٹھن اور گھٹن زدہ ماحول میں تنوع کو برداشت اور جذب کرتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کے حصول کا واحد ذریعہ تصوف و روحانیت ہے - صوفی ازم ہی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے اتنے زیادہ تنوع میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے - اس کی ایک اہم مثال ہمارا وجود ہے جس میں اربعہ عناصر کو صرف روح ہی نے یکجا کیا ہوا ہے، اگر روح نکل جائے تو وجود ریزہ ریزہ ہو جائے، تعفن اور بد بو پھیل جائے، لیکن یہ روح کا فیض ہے کہ وجود گلنے، سڑنے اور تعفن سے محفوظ ہے ، یہی فیض انفرادی سے اجتماعی و سماجی کرنا ہے -
معاشرتی ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ یکساں تعلیمی نظام بھی ہے-جس کے ذریعے مذہبی تنوع اور منافرت کم کے ہم آہنگی کے فروغ کیلئے نئی نسل کو اختلافات سے بچا کر اتحاد و یگانگت کی تسبی میں پرویا جا سکتا ہے- وگرنہ اس وقت ملک میں کئی ہا طرح کے تعلیمی ماڈلز موجود ہیں جو تقسیم در تقسیم کے ساتھ ساتھ معاشرے کو طبقات میں باٹنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں-
آج ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح قومی قیادت درکار ہے جس کا پاکستانی معاشرہ کےحوالے سےکوئی ہمہ جہت وژن ہو، جو اس سارے تنوع کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، مسائل کو حل کر سکے اور قوت کو ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں صرف کرے- قائد اعظم وہ واحد لیڈر ہیں جو آج تک تمام قبائل میں بے پناہ مقبولیت رکھتے ہیں-اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی صداقت، اصول پسندی تھی اور تنوع کو جذب کر لینے کا کرشمہ تھا– آج بھی ایسا ہی لیڈر اس قوم کو چاہئے جو قائد اعظم کی طرح سچا ، با اصول اور متنوع ہو-
٭٭٭
[1]https://www.ethnologue.com/country/PK/
[2]USCIRF report 2022
[3]Pew Research Center. https://www.pewresearch.org/wp-content/uploads/sites/7/2009/10/Shiarange.pdf
[4]https://cf2r.org/tribune/roots-of-radical-islamist-ideologies-in-south-asia-part-2/
Pakistan Today, Dec 27, 2021. https://www.pakistantoday.com.pk/2021/12/27/theological-roots-and-politics-of-tlp/
[5]Jarrige, C., Francois, J., Meadow, R. H., & Quivron, G. (1995). Mehrgarh: Field Report 1974-1985 From Neolithic Times to the Indus Civilization. Karachi: the Department of Culture and Tourism, Government of Sindh, Pakistan
[6]Possehl, G. L. (2002). The Indus Civilization: A Contemporary Perspective. AltaMira Press.
[7]Behrendt, K. A. (2007). The Art of Gandhara in the Metropolitan Museum of Art. Metropolitan Museum of Art.
[8]Koch, E. (2014). Mughal Architecture: An Outline of Its History and Development (1526-1858). Primu
[9]Tillotson, G. H. (1989). The Tradition of Indian Architecture: Continuity, Change, and the Politics of Style since 1850. Yale University Press.
[10]Mumtaz, K. K. (1989). Temples of Koh-e-Jud & Thar:. Lahore: Anjuman Mimaran