تمدنی شعور(Civic Sense) ایک وسیع اصطلاح ہے جو دو الفاظ پر مشتمل ہے - ایک سیوک اور دوسرا سینس، سیوک کا معنی قصبہ اور شہر کے ضمن میں جبکہ سینس احساس ، ادراک اور آگاہی کے زمرے میں آتا ہے- لیکن یہ دونوں الفاظ مل کر جو معنی دیتے ہیں وہ ایک وسیع کینوس پر بکھرتا ہے جسے ہم ’’شہری احساس‘‘ یا عام طور پر ’’تمدنی شعور‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتے یا برتتے ہیں- شہری احساس کا مطلب معاشرے کے اصولوں پر غور کرنا ہے- اس میں قانون کا احترام اور دوسروں کے لئے آسانی، معاملات اور بات چیت کے دوران ’’آداب‘‘ کو برقرار رکھنا شامل ہے- یہ لفظ آداب اپنے اندر اک جہا ں کو سموئے ہوئے ہے جسے کھوجنا، جاننااور اس پر عمل کرنا ہی دراصل شہری احساس یا تمدنی شعور یعنی سیوک سینس ہے- تمدنی شعور کی تعریف اگر آسان زبان میں کی جائے تو یہ ’’معاشرتی اخلاق، آداب اور اقدار ہیں جو صرف سڑکوں، گلیوں اور عوامی مقامات کی صفائی تک محدود نہیں بلکہ عوامی مقامات کے نظم اور جمالیاتی احساس کو قائم کرنے کا نام ہے‘‘- اس آداب و اقدار کے جہاں میں سب سے پہلے قانون اور پھر اخلاق کا نمبر ہے اور یہ قانون اور اخلاق اپنے معاشرے میں رہنے کے اصول اور اس سے تعلق قائم کرنے اور اسے برتنے کا نظم و نسق ہے- ہماری ذمے بحیثیت شہری جو ذمہ داریاں ، فرائض اور حقوق ہیں ان کو بنا ء کسی صلے کے سرانجام دینا - مثال کے طور پر ہم اپنے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے، لیکن یہ بات شاید آج سے چالیس، پچاس برس قبل تک درست ہو آج معاملہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ پانچ دہائیاں قبل تھا- بڑھتی آبادی، وسائل کی تقسیم اور ان وسائل کو استعمال کرنے کے شعور کی کمی اور بے دریغ استعمال نے کیفیت اور صورتحال کو بدل دیا ہے-
پانی، بجلی ، گیس و دیگر وسائل کا بے دریغ استعمال نہ کرنا بلکہ ضرورت کے مطابق استعمال کرنا بھی تمدنی شعور کے ہونے کی علامت ہے- مثال کے طور پر بجلی کا بے دریغ استعمال اگر کیا جائے اضافی اور فالتو لائٹس، پنکھے اور دیگر آلات جیسے اے سی،کولنگ سسٹمز ، یا ہیوی مشینری فقط اس لئے آف نہ کیے جائیں کہ ان کا بل کون سا ہم نے بھرنا ہے جیسا کہ عموما دفاتر میں دیکھا جاتا ہے یا میں اس کا بل بھر سکتا ہوں کسی دوسرے کو اس پر کیا اعتراض ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کا اثر دور رس ہے-اگر آپ بل بھر سکتے ہیں آپ کی جیب پر بوجھ نہیں آتا لیکن جس فیڈر اور گرڈ سے آپ کو بجلی مہیا کی جارہی ہے اس پر بوجھ ضرور پڑتا ہے اور آپ کے باعث اس اضافی بوجھ سے ممکن ہے کہ دور کے یا ملحقہ علاقہ کے لوڈ پر فرق پڑے اور اس علاقہ کے مکین ہماری اس حرکت کے باعث تکلیف میں رہیں- اب جو لوگ بجلی چوری کے جرم میں مبتلا ہیں ظاہر ہے کہ ان کے لئے قوانین موجود ہیں -
پانی ایک عطیہ خداوندی ہے اور ہماری زندگی کا دار و مدار پانی پر بہت زیادہ ہے- ہماری زمین کا تین حصہ پانی اور ایک حصہ خشکی پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود ہم اکثر سنتے ہیں کہ پانی کی کمی ہے تو اس سے مراد قابل استعمال پانی ہے، قابل استعمال پانی دن بدن کم ہو رہا ہے اور اس کے معیار میں بھی کمی آ رہی ہے، زیر زمین پانی بھی سطح زمین سے دور ہورہا ہے اس صورت حال میں اگر ہم پینے والے پانی سے روزانہ گاڑیاں دھوئیں، گھروں کے فرش دھوئیں اپنے گھروں کے لان کو بھر بھر پانی دیں تو یہ سیوک سینس اور شعور کے نہ ہونے کی علامات میں سے ایک ہے- لیکن معاملہ صرف یہاں تک ہی نہیں ہے اپنے شہروں کی تعمیر اور ٹاون پلاننگ کے دوران اگر ہم ایسا بندوبست نہیں کرتے کہ بارش کا پانی زیر زمین نہ جا سکے تو یہ بھی یقیناً اچھی علامت نہیں- پانی کے ریزروائر جیسے ڈیم، ندی، جھیل، نہر اوردریا کو صاف رکھیں، اس میں کسی قسم کا گند نہ پھینکیں، اس میں سیوریج کا پانی نہ ڈالیں اور اپنے وسائل کو خود خراب نہ کریں تو یہ ہی افضل ہے-
پانی کی ایک بڑی مقدار گھر کے نلکے سے ایک ایک بوند گرنے کی وجہ سے ضائع ہوتی ہے- تحقیق کے مطابق ایک نل سے پانی ٹپکنے کے باعث اوسط تقریباً ایک گیلن پانی کا ضیاع ہوتا ہے جو سال میں 365 گیلن بنتے ہیں -اس کے علاوہ پانی کے سپلائی کی پائپ لائنز کی لیکج اور بعض اوقات خود انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی لیکیج کا تخمینہ اس سےدس گنا زیادہ ہے - اگر ہم ایک احساس ذمہ داری سے بھرپور شہری ہونے کا ثبوت دیں تو کم از کم اپنے گھروں کے نل ٹھیک کروائیں اور پانی کے پائپ لائن پر کسی بھی قسم کی لیکج کی فوری رپورٹ ذمہ داراں کو کریں تو لاکھوں گیلن پانی کا بچا سکتے ہیں جو بوقت ضرورت کام آئے گا-
اپنے گلی محلے میں گند نہ پھیلانا، کوڑا کرکٹ کو اس مخصوس جگہ پر ہدایات کے مطابق رکھنا، ہمیں خود سوچنا چاہیئے کہ اگر ہمارے ٹاؤن سیکٹر یا محلے کی آبادی پندرہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اس آبادی کا کوڑا کرکٹ سمیٹنے والے والے دو سو افراد ہیں ( اگر اتنے ہیں تو غنیمت ہیں کیونکہ بہت سی جگہوں پر یہ تعداد نہ ہونے کے برابر اور دیہی علاقوں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں) تو وہ کیسے اتنے افراد کا پھیلایا گند سمیٹیں گے، لیکن اگر 15 ہزار کی آبادی میں سے نصف بھی ان کی مدد کریں اور ان ہدایات پر عمل کریں کہ کوڑا کہاں رکھنا ہے تو اس کو ٹھکانے لگانے میں ان افراد کی کتنی مدد ہوگی یہ بات تو قصبے یا ٹاون کی تھی میٹرو پولیٹن یا بڑے شہروں میں کوڑے کے عفریت کے بے قابو ہوتے ہم دیکھ چکے ہیں ان حالات میں صرف سرکار کو دوش دینے کی بجائے ہمیں اپنے انداز بدلنا ہوں گے -
سڑک اور اس پر چلنے والی ٹریفک کسی بھی ملک کی ریسپشن (receiption)ہوتی ہے اس ایک امر سے قوم کا احوال معلوم ہو جاتا ہے اس لئے ٹریفک قوانین کی پابندی انتہائی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے آداب اور طریق کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے- دھکم پیل، زیادہ جگہ گھیرنا کسی کو جگہ نہ دینا ، بوڑھوں کا خیال نہ رکھنا اور ایسی کئی معاشرتی بیماریاں ہیں جن سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے، جیسے پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی اور تمباکو استعمال کی پابندی ہے- یہ بات اکثر نوٹ کی گئی ہے کہ اگر گاڑی میں اے سی چل رہا ہو تو سواریاں خود بھی تمباکو کا استعمال نہیں کرتیں اور اگر کوئی ایسا کر بھی دے تو باقی افراد اس کو احساس دلاتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے -گزارش ہے کہ یہ عمل اے سی سےمنسوب نہیں ہونا چاہیئے بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں باقی افراد کی صحت اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہونا چاہیئے خواہ اے سی ہو یا نہ ہو-
یہ ایک طویل موضوع ہے جو مسلسل اور مستقل بحث کا متقاضی ہے- اختصار کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند سفارشات پیش خدمت ہیں :
- اپنے گھروں سے زیادہ اپنی گلی اور محلے کو صاف رکھیں- سیر گاہوں، تفریح گاہوں اور عوامی مقامات پر کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں بلکہ اپنی باقیات کو سمیٹ کر ساتھ لائیں اور جہاں جگہ بنی ہو وہاں رکھیں-
- ٹریفک قوانین کا خیال رکھیں، جہاں پارکنگ کی جگہ ہو صرف وہاں گاڑی پارک کریں، پریشر ہارن وغیرہ کا استعمال نہ کریں اور ہدایات پر عمل کریں -
- بوڑھے، بچے اور کمزور افراد کا احساس زیادہ کریں اور دیگر عام افراد کا احساس بھی اپنے دل میں جگائیں -
- وسائل کو بے دریغ استعمال نہ کریں اور حکومتی اور عوامی وسائل کو اسی طرح استعمال کریں کہ جیسے وہ آپ کے اپنے ہیں-
- کہیں باہر کھانے جائیں تو باقی افراد بھی موجود ہیں اس کا خیال کریں اور کھانا اتنا ہی منگوائیں جتنا کہ ضروری ہو- کھانا ضائع نہ کریں کیونکہ ایک پلیٹ کھانا یا اناج اگانے میں بھی محنت صرف ہوتی ہے جبکہ اسے ضائع کرنے میں منٹ بھی نہیں لگتا-
- ماحول کا خیال رکھیں، ماحول دوست پالیسی اور انداز کو اپنائیں، پولیوشن اور دیگر خطرناک اشیاء جیسے پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں -
- اپنے پڑوسیوں کاخیال رکھیں، اونچی آواز میں گانا نہ بجائیں اور نہ ہی شور و غوغا کریں -
- کمزوروں اور اقلیتوں کا بھر پور خیال رکھیں، انہیں اپنے ملک کا شہری اور انسان سمجھیں -
- پبلک مقامات پر تھوکنے ، کوڑا پھینکنے ، دیواروں پر لکھنے، اشتہار بازی (وال چاکنگ) ہر گز نہ کریں -
آخر میں دو بہت ضروری گزارشات :
- حکومت نصاب میں سیوک سینس کے مضامین شامل کرے جس سے والدین کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود بڑے اور سینئر سٹیزن کی اہمیت اور ادب و احترام کا میلان پیدا ہوگا ،اپنے شہروں اور علاقے سے کیا سلوک کرنا ہے، اس کا ادراک ہو گا اور اس ضمن میں خصوصی طور پر سول سوسائٹی اور معزز افراد سے مل کر لائحہ عمل تیار کرے -
- علماء کرام سماجی و تمدنی شعور پر عوام کو آگاہ کریں اور جمعہ کے خطبوں اور اس کے علاوہ عوامی اجتماعات میں اس موضوع کا بھی احاطہ کریں-
٭٭٭