ابتدائیہ :
محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت (Geographical & Strategic Importance) بہت زیادہ ہے- پاکستان کا محل وقوع جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ہے، جو اسے تین بڑے خطوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت دیتا ہے- پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے علاوہ، نظریہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر معرضِ وجود آنے کی وجہ سے اسلامی دنیا خصوصاً عرب دنیا کے لیے بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے-قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ہی علاقائی اور عالمی تناظر میں اہمیت کی حامل رہی ہے- عرب دنیا، جو جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک کلیدی مقام رکھتی ہے-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں میں یکساں دین کے پیروکار ہونے کی وجہ سے اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات کو پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے-
پاکستان کا آئین اس حوالے سے خارجہ پالیسی کے طرز عمل کے لیے رہنما اصول بھی دیتا ہے- آئین کے آرٹیکل 40 کے مطابق:
“The State shall endeavour to preserve and strengthen fraternal relations among Muslim countries based on Islamic unity”.
’’ریاست اسلامی اتحاد کی بنیاد پر مسلم ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی‘‘-
اسی لئے پاکستان نے ہمیشہ سے اسلامی خصوصاً عرب دنیا سے تاریخی، اقتصادی، سیاسی اور سفارتی تعلقات اور گہرے روابط قائم کیے ہیں- زیر نظر مضمون میں ہم بدلتے ہوئے عالمی تناظر کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عرب دنیا کی بڑھتی اہمیت کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے- اسی تناظر میں تاریخی تعلقات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ہم سیاسی، سفارتی، معاشی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو بھی دیکھیں گے - اِس کے علاوہ پاکستان کی موجودہ قومی سلامتی پالیسی میں عرب ممالک کی اہمیت اور سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کے قیام کا بھی جائزہ لیں گے-
عرب دنیا کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت:
عرب دنیا، دنیا کے اہم تجارتی راستوں جیسے کہ نہر سویز، خلیج فارس اور بحیرہ احمر پر واقع ہے- اس کے علاوہ عرب ممالک میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں جو عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں- عرب دنیا کے اہم ترین ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عراق ، کویت، مصر، بحرین ، عمان ، اردن ، مراکش اور تیونس وغیرہ نمایاں ہیں- مسلمانوں کے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی نمایاں مقامات خصوصاً خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ اسی خطہ سر زمین پر موجود ہیں- دین اسلام کا ظہور بھی اسی خطہ سر زمین سے ہوا ہے، آخری وحیٔ الٰہی قرآن مجید بھی زبانِ عربی میں ہے - اس لئے اس خطے سے دنیا بھر کے بسنے والے مسلمانوں کو ایک خاص لگاؤ ہے- اسلامی ممالک کی تنظیم OIC اور گلف ممالک کی تنظیم کا مرکز بھی سعودی عرب میں قائم ہے جبکہ عرب لیگ کا دفتر مصر میں قائم ہے-
پاکستان اور عرب دنیا کے تعلقات کا تاریخی جائزہ اور پس منظر:
پاکستان جس خطہ سر زمین پر واقع ہے اس خطے کے باسیوں کے صدیوں سے عرب دنیا کے ساتھ صدیوں سے تاریخی ، مذہبی ، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں- ان تعلقات کی بنیادی وجہ اس خطہ سر زمین پر قبلہ اول، خانہ کعبہ، روضہ رسول (ﷺ) اور مسجد نبوی شریف کی موجودگی ہے- آزادی سے قبل، مسئلہ فلسطین پر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ کا پختہ اور اصولی موقف رہا- تحریک پاکستان کے لئے جب مسلمانان ہند کی تحریک چل رہی تھی تو عرب دنیا کی عوام نے نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس خطہ سر زمین کی عوام اور حکمرانوں کی جانب سے تہنیت کے پیغام موصول ہوئے- قیامِ پاکستان کے فوراً بعد فیروز خان نون نے بانیٔ پاکستان کے نمائندہ کے طور پر عرب ممالک کا خصوصاً دورہ کیا تھا- اسی تعلق اور خاص رشتے کی بنیاد پر عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات قائم ہیں- مراکش کی آزادی کے لئے پاکستان نے اقوام متحدہ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا- 1950ء اور 60ء کی دہائی میں، پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تجارتی، سفارتی اور دفاعی تعلقات میں بہتری آئی- مسئلہ فلسطین پر اصولی موقف ہمیشہ سے پاکستان کی قیادت کا رہا ہے- اس لئے 1970ء کی دہائی میں، پاکستان نے عرب اسرائیل جنگوں کے دوران عرب ممالک کی حمایت کی- 1973ء کی جنگ کے دوران، پاکستان نے عرب ممالک کو فوجی اور تکنیکی مدد فراہم کی- اسلامی سربراہی کانفرنس کے قیام عمل میں پاکستان نے کلیدی کردار اَدا کیا تھا- 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس کے دوران پاکستان میں پوری دنیا کے مسلمان سربراہان مملکت جمع ہوئے- 1970ء اور 80ء کی دہائی میں جب بیشتر عرب ممالک میں تعمیر اور ترقی کا آغاز ہو رہا تھا تو پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد نے اہم کردار ادا کیا تھا- پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایک اندازے کے مطابق 10 ملین اب بھی دہائیوں سے عرب ممالک کی تعمیر و ترقی میں اپنا ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں – 1985ء میں امارات ائیر لائن نے اپنی پہلی فلائٹ دوبئی سے کراچی کی طرف شروع کی تھی- آنے والی دہائیوں میں پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی تعلقات بھی مضبوط کیے-
اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل اور گلف ممالک سے سرمایہ کاری :
پاکستان میں اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (Special Investment Facilitation Council - SIFC) کا ملک میں معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد سرمایہ کاروں کو مختلف سہولیات فراہم کرنا، سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانا اور مختلف رکاوٹوں کو دور کرنا ہے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے راغب ہوں-
اس منصوبے کے تحت زراعت، معدنیات، لائیو سٹاک، کان کنی، توانائی،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ ان شعبوں کے ذریعے ملک کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی- اس کونسل کو مختلف حکومتی اداروں اور نجی شعبے کے مابین رابطے اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے بنایا گیا ہے- جس کے تحت مختلف پالیسیوں، قوانین، اور ضوابط میں تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ سرمایہ کاروں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ کیا جا سکے اور سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنایا جا سکے-
اس سلسلے میں گلف ممالک سے سرمایہ کاری کے حصول کے لئے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، قطر اور بحرین دورے کر چکے ہیں-
پاکستان کے وزیراعظم اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ماہ رمضان کے آخر میں مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی- جس کے دوران اقتصادی معاملات بالخصوص پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا ایجنڈا سرفہرست رہا- اس دورے کے بعد اپریل میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان ایک تجارتی وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں- حال ہی میں سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک کی قیادت میں 30 سے زائد سعودی کمپنیوں کے سرمایہ کاروں کا وفد پاکستان کا دورہ کر چکا ہے- پاکستان کو مختلف شعبوں میں سعودی عرب سے 5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری آنے کی تاحال امید ہے -
23 مئی 2024ءکو متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر متحدہ عرب امارات کی قیادت کی جانب سے معیشت کے مختلف شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے- قطر نے بھی پاکستان میں مختلف شعبوں توانائی، کان کنی اور ہوا بازی سمیت مختلف شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے-بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق قطر کی جانب سے اسلام آباد اور کراچی ائیر پورٹ پر قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی سرمایہ کاری کا امکان ہے جبکہ قابل تجدید توانائی، پاور اور سیاحت کے شعبوں میں بھی تین ارب ڈالرز سرمایہ کاری متوقع ہے-
حال ہی میں سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے 6 ڈیسکس کا قیام عمل میں لایا گیا- جس میں تین ڈیسکس سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر سے متعلق ہیں-
موجودہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات:
پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا مقصد ملک کے داخلی اور خارجی سلامتی کے مسائل کو حل کرنا، اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور بین الاقوامی تعلقات میں توازن قائم کرنا ہے- عرب ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات اس پالیسی کا ایک اہم حصہ ہیں-
پاکستان نے پہلی مرتبہ قومی سلامتی پالیسی کا 2022ء کو اجراء کیا- جس کا بنیادی مقصد اگر سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کا بنیادی نکتہ ملک کی معاشی سلامتی کو یقینی بنانا ہے- اس لئے پالیسی کے مطابق پاکستان کی توجہ معاشی سفارتکاری یعنی اکنامک ڈپلومیسی پر رہے گی اور نظر ایسے نئے روابط پر ہو گی جو پاکستان کی رابطہ کاری (Connectivity) اور معاشی استحکام کے حصول میں مدد کریں گے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ضامن بھی ہوں گے- اس پالیسی میں پاکستان نے سب سے اہم چیز کہ مستقبل میں پاکستان کسی بلاک پالیٹکس کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ ہر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار رکھے گا- اس بات کا بنیادی اشارہ بڑھتی ہوئی معیشت چین اور عالمی طاقت امریکہ کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ کی طرف تھا- ایک طرف چین، پاکستان کا نہ صرف ہمسایہ بلکہ دوستانہ ملک ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانی شراکت ہے- آج بھی پاکستانی برآمدات کا بڑا حصہ امریکہ کو جاتا ہے-اس لئےعالمی سیاست میں حالیہ تبدیلیاں پاکستان اور عرب دنیا کے تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہیں- سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کا توازن برقرار رکھنا پاکستان کیلئے ایک چیلنج رہا ہے- لیکن حالیہ چین کی مدد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی اس چیلنج کو کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے- صدر ابراہیم رئیسی کی حادثے میں وفات کے بعدمسعود پیزشکیان ایران کے صدر منتخب ہو گئے ہیں- ایران میں نئی آنے والی قیادت اگر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھاتی ہے تو اس کے پاکستان پر بھی مثبت اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں کیونکہ عرب خصوصاً گلف ممالک سے ایران کی کشیدگی اور تناؤ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتی ہے- اسی طرح، امریکہ اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں- پاکستان کو ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینا ہوتا ہے- پاکستان اور عرب ممالک کے لئے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مسئلہ دونوں خطوں کے لیے مشترکہ چیلنج ہے - سیاسی استحکام اور حکومتوں کی تبدیلی بھی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے- تاہم، سی پیک جیسے منصوبے نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں جو پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھا سکتے ہیں-
پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مزید ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں- سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے، اقتصادی تعاون میں وسعت پیدا کرنے اور تعلیم و ثقافت کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے -
اختتامیہ:
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے- جغرافیائی محل وقوع، اقتصادی روابط اور سیکیورٹی تعاون جیسے عوامل اس تعلق کی بنیاد فراہم کرتے ہیں- موجودہ عالمی تناظر میں، پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں خصوصاً گلف کے ممالک کے ساتھ مضبوط اور متوازن تعلقات قائم رکھے- توانائی کے شعبے میں خود کفالت، معاشی استحکام ، تجارتی روابط کی توسیع اور سیکیورٹی کے معاملات میں تعاون بڑھانے کی کوششیں اس پالیسی کا حصہ ہیں-
موجودہ حالات میں، جب عالمی سیاست اور اقتصادی نظام میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ عرب دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے- اس کے علاوہ، علاقائی امن و استحکام میں کردار ادا کرنے اور مشترکہ اقتصادی مفادات کے حصول کیلئے عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم مقاصد میں شامل ہے- اس طرح، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عرب دنیا کے ساتھ تعلقات عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں-
٭٭٭