حیاتیاتی تنوع زمین پر زندگی کی مختلف اقسام اور ان کی مخصوص قدرتی ترتیب کے لئے استعمال ہوتی ہے - آج ہم جو حیاتیاتی تنوع دیکھتے ہیں وہ ہزاروں سال کے ارتقائی مراحل کا ثمر ہے، جس کو قدرتی اور انسانی عوامل نے تشکیل دیا ہے-ہمارا وجود حیاتِ ارضی کے اس خوبصورت تانے بانے کا لازمی حصہ ہے اورقائم رہنے کیلئے اس پر انحصار کرتا ہے- حقیقت میں حیاتیاتی تنوع محض پودوں، جانوروں، مائیکروآرگنزم اور ان کے ماحولیاتی نظام یا ایکوسسٹم سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، اور اس کا ہماری ہستی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے- ہماری خوراک، ادویات، تازہ ہوا، پانی، مسکن اور صحت مند ماحول اسی سے وابستہ ہے- زیر نظر مضمون میں پاکستان کی حیاتیاتی تنوع /بائیو ڈائیورسٹی کے تحفّظ اور بقا کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا-
حیاتیاتی تنوع اور ایکوسسٹم سے حاصل ہونے والی اشیاء و فوائد اور ان کا انسانی حیات کی بہتری میں کردار تین منفرد اقسام میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:
- صنعت قدرت سے حاصل ہونے والی وہ چیزیں جنہیں انسان براہ راست یا کارخانوں میں استعمال کرتا ہے-
- سروسز : تفریحی اور سیاحتی فوائد یا کچھ ماحولیاتی ریگولیٹری افعال، جیسے پانی کی صفائی، آب و ہوا کی ریگیولیشن وغیرہ-
- تہذیب و ثقافت کو قائم رکھنے والے فوائد: سائنسی علم، روحانی اور مذہبی احساسات اور تہذیب و ثقافت سے وابستہ خزائین قدرت-
حیاتیاتی تنوع ہماری ہر لمحے میں بدلتی ہوئی دنیا میں ایک محفوظ چادر کا کردار ادا کرتا ہے اور خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اور پیداواری ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے-
آبادی میں اضافہ:
پاکستان دنیا میں پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے- بڑھتی ہوئی آبادی تمام وسائل بالخصوص قدرتی وسائل کے سرمائے پر دباؤ ڈالتی ہے- دیہی علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ ایندھن اور تعمیری لکڑی کیلئے قابل کاشت علاقوں سے باہرواقع قدرتی ماحولیاتی نظام پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں- پہاڑی علاقوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات میں اضافہ کیا ہے- زراعت اور رہائشوں کیلئے قدرتی زمین کے کاٹنے سے بائیو ڈائیورسٹی اوراس کے مساکن چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں-
پالیسی، منصوبہ بندی، اور ادارہ جاتی خامیاں :
غیر مؤثر پالیسی اور منصوبہ بندی کے فریم ورک کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی کمزوریاں بھی بائیو ڈائیورسٹی میں نقصان کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں- بائیو ڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم کی قدر، اس سے حاصل ہونے والے فوائد، قومی معیشت اور غربت کے خاتمے میں اس کے کردار کو قومی اور مقامی منصوبہ بندی میں ضرورت کے مطابق شامل نہیں کیا گیا ہے- نتیجتاً، ماحول کو بشمول کلائمیٹ چینج، بائیو ڈائیورسٹی، جنگلات اور اس سے وابستہ حیات کو کم ترجیح ملتی رہی ہے - قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال قلیل مدتی معاشی فوائد کا باعث تو بن سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ماحول پر ہونے والے اثرات جیسے کہ پانی کی مقدار میں کمی اور اس کے معیار کا متاثر ہونا، آبپاشی اور پن بجلی کے لیے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی جیسے اثرات کے لحاظ سے مستقبل میں قوم کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے-
زمین کا طریقہ استعمال، زندگی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں کمی اور صحرائی صورت اختیار کرنا:
پاکستان میں زرعی اراضی کل رقبے کا تقریباً 35 فیصد بنتی ہے جبکہ کل رقبے کا 4 فیصد سے کچھ زیادہ حصہ جنگلات پر مشتمل ہے- زیادہ تر دیہی آبادی کا انحصار ایسی زمینوں پر ہے جن میں فصل کا دار و مدار قدرتی بارش پر ہوتا ہے، اور یہ تیزی سے صحراؤں میں تبدیل ہو رہی ہیں- ان لوگوں کو خشک سالی، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے- بغیر سوچے سمجھے زمین کا استعمال زمین کے انحطاط اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کی ایک بڑی وجہ ہے جو کہ زمین کے استعمال کی منظم منصوبہ بندی کا متقاضی ہے- سیلابی میدانوں کو زرعی کھیتوں میں تبدیل کرنے سے نہ صرف قیمتی زمینی مساکن کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہا ہے- بنیادی طور پر انسانی اورپھر قدرتی عوامل کی وجہ سے نیم بنجر زمینیں مٹی کے شدید کٹاؤ اور آبپاشی والے علاقے غیر ضروری پانی کے جمع ہونے اور نمکینیت کا شکار ہو رہے ہیں-آلودگی میں اضافے کی وجہ سے مینگروو کے جنگلات بھی متاثر ہو رہے ہیں-
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسطاً 28000 ہیکٹر جنگلات کا نقصان ہوا ہے جس کی اوسط سالانہ شرح 1.63 فیصد بنتی ہے- مجموعی طور پر 1990ء اور 2010ء کے درمیان، ملک نے اپنے جنگلات کا 41.3 فیصد رقبہ کھو دیا، جبکہ اسی دوران شجرکاری کے رقبے میں 18.6 فیصد اضافہ ہوا- اسی عرصے میں رہائشی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے زمینی تبدیلی سے ہم نے جنگلی انواع کے مساکن کا 33.2 فیصد حصّہ کھو دیا-
جنگلات کی کٹائی:
سرکاری تخمینے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ تقریباً 5.4 فیصد ہے، جبکہ FAO کے مطابق یہ تقریباً 2.4 فیصد ہے- پاکستان کے کل رقبے کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ مکمّل طور پر ہر کسی کی رسائی میں ہے جس میں ریاستی ، گاؤں کی شاملاتی اور ملکیتی زمینیں شامل ہیں- یہ علاقے مویشیوں کو چرانے، چارہ اور ایندھن کی لکڑی جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں- شمالی پہاڑی علاقے میں الپائن چراگاہوں کے علاوہ، زیادہ تر رینج لینڈز خشک ہیں، جہاں ہر سال 300 ملی لیٹر سے کم بارش ہوتی ہے- ان زمینوں پر ملکیتی حقوق اکثر غیر طے شدہ ہوتے ہیں اور عام طور پر مقامی قبائل اور کمیونٹیز ان زمینوں سے استفادہ کرتے ہیں -
1990ء اور 2014ء کے درمیان مویشیوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے- حد سے زیادہ چرائی نے رینج لینڈز کی بقا کو شدید متاثر کر دیا ہے- زیادہ تر رینج لینڈز اپنی ممکنہ چرنے کی صلاحیت کا 50 فیصد کھو چکے ہیں- یہاں مؤثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے-
غربت و افلاس سے با ئیوڈائیورسٹی کا تعلق :
غریب اور پسماندہ کمیونٹیز کا ذریعہ معاش حیاتیاتی تنوع اور ایکوسسٹمز سے بڑی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے- پاکستان کا 50 فیصد سے زیادہ رقبہ ایک طرح کی مشترکہ ملکیّت پر مشتمل ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ استحصال کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں بگڑتے ہوئے ماحولیاتی نظام، روزی روٹی کا بوجھ، غربت میں اضافہ اور صحت میں کمی واقع ہوئی ہے- ایکوسسٹمز کی صحت کو بحال اور برقرار رکھ کر غربت میں کمی کی جا سکتی ہے - مشترکہ ملکیّت کے ایکوسسٹمز کی مثالوں میں جنگلی مساکن، پہاڑی ایکوسسٹمز، رینج کی زمینیں، ساحلی علاقے اور جنگلات شامل ہیں -
حیاتیاتی تنوع کے تحفّظ کیلئے عملی اقدامات:
بائیو ڈائیورسٹی کی تخمیناً قدرو قیمت کو قومی اکاؤنٹنگ اور رپورٹنگ کے نظام میں شامل کیا جانا انتہائی ضروری ہے- بے زمین اور چھوٹے زمیندار اپنی زندگی گزارنے کیلئے ایکوسسٹمز سے حاصل کردہ اشیاء پر انحصار کرتے ہیں-بائیو ڈائیورسٹی کے نقصان سے خواتین اور بچوں پر کام کا بوجھ بڑھتا ہے اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے- قومی پالیسیوں میں بائیوڈائیورسٹی کی قدر و قیمت کو مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے- اس کی کی تخمیناً قیمت جب تک اکاؤنٹنگ، رپورٹنگ اور منصوبہ بندی کے نظام میں شامل نہیں کی جائے گی اس کے تحفظ اور بحالی میں درکار سرمایہ کاری کا حصول ممکن نہیں -
زمینی ماحولیاتی نظام، انواع اور ان کے مساکن :
پاکستان کو متنوع فزیوگرافی، مٹی کی اقسام اور آب و ہوا کی وجہ سے با ئیو ڈائیورسٹی کی دولت سے نوازا گیا ہے- زمینی بائیو ڈائیورسٹی جنوب میں صحراؤں سے لے کر شمال اور مغرب میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں تک ہے- کل قومی زمینی رقبہ میں سے، 62.7 فیصد بیابان ہیں، جو صحراؤں، بنجر زمینوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہیں- ان اراضی کا زیادہ حصّہ ریاستی زمینیں ہیں جن سے ایک حد تک ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے- ان علاقوں میں زمین کا سب سے زیادہ استعمال مویشی چرانے اور ایندھن کی لکڑی کے لئے ہوتا ہے- ان زمینوں کا ایک چھوٹا سا حصہ شکار گاہ قرار دیا گیا ہے جس میں شکار کے قوانین نافذ ہیں -
محدود رینج کے ساتھ نباتات اور حیوانات کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے- پودوں کی انواع میں سے پانچ monotypic genera اور 400 انواع جن کا تعلق 169 genera اور 45 families سے ہے، پاکستان کے شمالی اور مغربی پہاڑوں تک محدود ہیں- حیوانات میں مقامی mammals شامل ہیں جیسے Balochistan Forest Dormouse اور Pale Grey Shrew- مقامی نسل کے جانور Balochistan Pygmy Jerboa اور Woolly Flying Squirrel، جو اس کی نسل کا واحد رکن ہے، صرف پاکستان میں موجود ہے- Punjab Urial کو حال ہی میں ایک مکمل نوع کا درجہ دیا گیا ہے- Chiltan Wild Goat, Capra ایک مقامی ذیلی نسل کی مثال ہے جو کہ پاکستان میں پائی جاتی ہے -
محفوظ علاقے Protected Areas :
محفوظ علاقوں کے قیام کا مقصد ماحول سے حاصل ہونے والی اشیاء، دیگر فوائداور ثقافتی اقدار کے تحفّظ کو یقینی بنانا ہے- ان محفوظ علاقوں میں شکار گاہیں، جنگلی حیات کی پناہ گاہیں اور نیشنل پارکس ملک کے کل رقبے کے تقریباً 12 فیصد پر پھیلے ہوئے ہیں- پروٹیکٹڈ ایریا سسٹم ریویو کے مطابق پاکستان کے بہت سے محفوظ علاقے قائم کردہ معیار پر بالکل بھی پورا نہیں اترتے ہیں-
Biodiversity Convention کے مقاصد کے مطابق نئے اور ابھرتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی اور ریگولیٹری فریم ورک کو بہتر اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے- قدرتی مساکن کو توسیع کے ذریعے محفوظ کیا جانا چاہیے- Corridors اور Protected Areas کے مؤثر و مربوط نیٹ ورکس کا قیام ضروری ہے- مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنایا جائے اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ ان علاقوں کے محافظ کے طور پر کام کر سکیں-
Biodiversity سے متعلق علم، بنیادی سائنس اور ٹیکنالوجی، اس کی اقدار، طریق کار، صورت حال اور رجحانات کو بہتر بنانا اور ترویج دینا ضروری ہے- خطرے سے دو چار انواع کے تحفظ کی صورت حال کو بہتربنانے، چراگاہوں کو برقرار رکھنے کی بہت بڑی صلاحیت رکھنے والے خانہ بدوش لوگوں کو چراگاہوں کی مینجمنٹ کے مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے- ا یکوسسٹمز اور ان سے وابستہ مساکن کی صحت اور حالت کا جائزہ لینے کے لیے GIS لیبارٹریز قائم کی جانی چاہیئں اور conservation کی ترجیحات اور مواقع کی نشاندہی کے لیے نقشے تیار کیے جائیں-
فارسٹ ایکوسسٹم :
پاکستان کے جنگلات کو پانچ فزیوجینومک اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: کونیفر (confirs)، جھاڑی نما (scrub)، دریائی (riverine)، منگرووز (mangroves) اور باغات (plantations)- قدرتی جنگلات متعدد متنوع ماحولیاتی نظاموں پر مشتمل ہیں، جن میں مغربی ہمالیائی temperate جنگلات شامل ہیں، جو عالمی 200 ترجیحی ایکوسسٹمز میں شامل ہیں- بلوچستان میں جونیپر (Juniper) کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کمپیکٹ جنگل ہے، جسے ایک زندہ فوسل سمجھا جاتا ہے- جبکہ پاکستان میں تقریباً تمام جنگلات کے ایکوسسٹمز کو خطرہ لاحق ہے: چلغوزے کے جنگلات، جو بنیادی طور پرعام لوگوں کے ہی زیر کنٹرول علاقوں میں پائے جاتے ہیں، درخت کاٹنے کی وجہ سے غائب ہونے کے شدید خطرے میں ہیں- دواؤں کے پودوں کی وسیع اقسام مغربی ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے معتدل جنگلات میں وافر مقدار میں اگتی ہیں- مثال کے طور پر ہزارہ اور مالاکنڈ میں 500 ٹن دواؤں کے پودے پیدا ہوتے ہیں- مری کی پہاڑیوں میں 16 ٹن، آزاد کشمیر میں 38 ٹن اور گلگت بلتستان میں تقریباً 24 ٹن گھریلو استعمال اور برآمد کے لیے پودے حاصل کیے جاتے ہیں-
بہت سے جنگلات میں، مقامی کمیونٹیز کو لکڑی کی فروخت پر فیصد کے حساب سے حصہ دیا جاتا ہے اور اس طرح وہ درختوں کی کٹائی کیلئے حکومتی مشینری پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں- تعمیراتی لکڑی کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور مافیاز حقوق کے حاملین لوگوں کے ساتھ مل کر غیر قانونی درختوں کی کٹائی کروا رہے ہیں- جنگلات کے قریب رہنے والے لوگ بھی کھانا پکانے اور سردیوں میں اپنے گھروں کو گرم رکھنے کیلئے ایندھن کی لکڑی پر انحصار کرتے ہیں- ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صوبہ کے پی میں 80 فیصد جنگلات کی کٹائی ایندھن کے حصول کے لیے ہوئی ہے -
پاکستان کی فارسٹ بائیو ڈائیورسٹی کے تحفظ اور بقا کیلئے اس کے استعمال کے حوالے سے واضح راہنما اصول اور باقاعدہ اداروں کی ضرورت ہے- مقامی لوگوں کے حقوق اور مراعات میں اصلاحات سمیت تخفیف کے اقدامات کیے جائیں-
ساحلی اور سمندری ایکوسسٹم :
پاکستان کا سمندری ساحل، سندھ میں سر کریک اور بلوچستان میں جیوانی کے درمیان 1098 کلومیٹر ہے، جس میں 768 کلومیٹر بلوچستان اور 330 کلومیٹر سندھ میں آتاہے- پاکستان کے تین ساحلی اور سمندری ایکوسسٹمز گلوبل 200 ترجیحی ایکوسسٹمز میں شامل ہیں، جو بحیرہ عرب، ریتلی اور چٹانی ساحل کے ایکوسسٹمز ، ساحلی جھیلوں اور حال ہی میں جزیرہ استولا Astola Island میں دریافت ہونے والے corals پر مشتمل ہیں- 86727 ہیکٹر پر محیط مینگروو کے درخت بنیادی طور پر دریا کے سمندر میں گرنے والے مقام پر پھیلے ہوئے حصّے میں پائے جاتے ہیں- یہ درخت ایک مفید ماحولیاتی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان کی اقتصادی قدر و قیمت کو پاکستان میں اچھی طرح سے تسلیم نہیں کیاگیا ہے-
ساحلی اور سمندری بائیو ڈائیورسٹی کو متعدد خطرات کا سامنا ہے، جن میں سے کچھ کے لئے قومی سطح پر جبکہ کچھ کو عالمی سطح پر کارروائی کی ضرورت ہے- سمندری ماہی گیری ایک ملین سے زیادہ لوگوں کے لیے براہ راست ذریعہ معاش ہے- یہاں تقریباً 15000 ماہی گیری کے مختلف سائز کے جہاز، چھوٹی سے درمیانے درجے کی کشتیاں، بڑی لانچیں، اور ٹرالر، ماہی گیری میں مصروف ہیں- برآمد کی جانے والی انواع میں بنیادی طور پر جھینگا، انڈین میکریل، ربن فش، ٹونا، اور کیکڑے شامل ہیں- سارڈینز کو پکڑ کر چکن فیڈ میں تبدیل کیا جاتا ہے- افزائش کے موسم کے دوران ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے نتیجے میں مچھلیوں اور جھینگے کی تعداد میں شدید کمی واقع ہوئی ہے-
سمندری اور ساحلی علاقوں میں وسائل کے تحفظ اور بقا کیلئے حکومت اور اس سے وابستہ ایجنسیوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے- سمندر میں Protected Areas قائم کرنے کی ضرورت ہے- ویٹ لینڈز wetlands کے تحفظ کے اقدامات، انڈس فار آل، اور مینگرووز فار دی فیوچر جیسے پروگراموں کو فعال بنا کر ملک میں wetlands کی بائیو ڈائیورسٹی کے تحفظ اور بقا کیلئے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے-
زرعی حیاتیاتی تنوع کی بقا :
زرعی شعبہ پاکستان کے جی ڈی پی میں تقریباً 22 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے، برآمدات کا 60 فیصد سے زیادہ ہے اور 60 فیصد سے زیادہ دیہی افرادی قوت کو ملازمت فراہم کرتا ہے- فصلیں، بشمول پھل، سبزیاں اور مویشی، معیشت میں تقریباً مساوی حصہ ڈالتے ہیں- پاکستان کے کل 79.61 ملین ہیکٹر رقبے میں سے تقریباً 22 ملین ہیکٹر رقبہ کاشت کیا جاتا ہے، جس میں سے 75.5 فیصد آبپاشی کے تحت ہے اور بقیہ بارانی زراعت پر مشتمل ہے- نہری اور بارانی زراعت کی اہم پیداوار میں کپاس، گندم، چاول، گنا، پھل، سبزیاں، دودھ، گوشت، انڈے، چنے، جوار، جو، مکئی، دال، مونگ پھلی اور سرسوں شامل ہیں- تقریباً تمام آبپاشی والے علاقوں میں زرعی ادویات اور روایتی آبپاشی کے طریقوں کے ساتھ زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی کاشت کی جاتی ہے- اس طرح کے زرعی طریقوں کی وجہ سے نہری پانی کی قلت اور زیر زمین پانی کا معیار شدید متاثر ہوا ہے- سبز انقلاب کی وجہ سے فصلوں کی مقامی اقسام معدوم ہو گئیں اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے نئی اقسام متعارف کروائی گئیں- فصلوں کی مقامی نسلوں کا ختم ہونا دراصل بائیو ڈائیورسٹی کا نقصان ہے-
زرعی بائیو ڈائیورسٹی کے مسائل سے نمٹنے کیلیے زرعی ترقی اور تحقیق کے اصولوں اور طریقوں کو قومی پالیسیوں، قوانین، سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں، تعلیم اور توسیعی پروگرامز کا باقاعدہ حصّہ بنانے کی ضرورت ہے- اس حوالے سے کسان اور عام آدمی کی استعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے- بڑی فصلوں کے لیے سسٹین ا یبل زراعت کے ماڈلزپر کام کیا جانا چاہیے اور خاص طور پر نامیاتی مادوں کے استعمال اور مٹی کی بائیو ڈائیورسٹی کو فروغ دینا چاہیے- پانی کے نقصانات اور زرعی ادویات کے استعمال کو کم کرنا ہوگا- زرعی حیاتیاتی تنوع کو فصلوں کی گردش، انٹر کراپنگ، فصل / مویشیوں کو ساتھ ملا کر،پولینیٹرز polinators کے تحفظ اور مٹی کے اندر کی بائیو ڈائیورسٹی کے ذریعے بحال کیا جانا چاہیے-
پائیدار پیداوار اور کھپت
Sustainable Production and Consumption
سسٹین ایبل پروڈکشن اور کنز نمپشن سے مراد ضرورت کی اشیا اور فوائد جو کہ زندگی کا معیار بہتر بنانے کی بنیادی ضرورت پوری کریں اور قدرتی وسائل اور زہریلے مواد اس طرح حسب ضرورت استعمال کئے جائیں کہ اس سے اتنی کم ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو جو کہ کسی طرح بھی قدرتی سائیکلز کو اس طرح متاثر نہ کرے کہ اگلی نسلوں کی ضروریات خطرے میں پڑھ جائیں- پاکستان کے پیداواری شعبے میں ٹیکسٹائل، خوردنی تیل، چینی، کھاد، سیمنٹ، کیمیکل اور چمڑے کی صنعتیں شامل ہیں- مزید بڑی صنعتوں میں کوئلے کی کان کنی اور دیگر صنعتی کان کنی، تیل کی تلاش کی صنعتیں، اور ہائیڈرو پاور پروجیکٹس آتے ہیں- یہ فضائی اور زمینی آلودگی کے ذریعے حیاتیاتی تنوع کو متاثر کرتی ہیں-سالٹ رینج میں جنگلی پنجابی بھیڑ Urial کے مسکن میں بڑھتی ہوئی سیمنٹ کی صنعت اس مقامی نسل کی بقا کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے-
پاکستان میں قدرتی جنگلات کا نسبتاً ایک چھوٹا سا حصّہ ہے جبکہ تعمیراتی لکڑی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جو غیر قانونی کٹائی کو مزید موزوں بناتی ہے- پچھلے 50 سالوں میں ملک اپنے اصل 4.4 فیصد جنگلات کا تقریباً نصف سے زیادہ حصّہ کھو چکا ہے- نباتات اور حیوانات کی بہت سی اقسام کی تجارت کی جاتی ہیں- ان قدرتی وسائل کی سسٹین ایبل ایکسٹریکشن کے لیے صارفین اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ پالیسی سازوں کو ماحولیاتی قدرو قیمت اور وسائل کے زیادہ استحصال کے ماحولیاتی نتائج سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے-
پاکستان کے اہم جنگلی جانوروں میں برفانی اور عام چیتا، بھورا ریچھ، ہمالیائی کالا ریچھ، بلوچستانی کالا ریچھ، تبتی بھیڑیا، ہندوستانی بھیڑیا، کشمیری اور ہندوستانی اڑنے والی گلہری، انڈس ڈالفن، انڈس فلائنگ گلہری، افغانی جنگلی بھیڑ، کابلی، سلیمانی، استور اور کشمیری مارخور، لداخی جنگلی بھیڑ، سندھی آئی بیکس، اور پنجابی جنگلی بھیڑ شامل ہیں- جنگلی پرندوں میں چیڑ فیزنٹ، برف کا تیتر، سارس، سائبیرین، اور عام کونج، بارشی اور عام بٹیر ، شاہین، سفید دم والا عقاب، اور فلیمنگو وغیرہ شامل ہیں- مچھلیوں کی نایاب نسلوں میں گولڈن مہاشیر، سنو کارپ، کشمیر کیٹ فش، ہمالیائی برفانی ٹراؤٹ، زیبرا فش اور یلو فن ٹونا وغیرہ قابل ذکر ہیں- اسی طرح پودوں میں بھی بے شمار نایاب نسلیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں جن میں انڈین میپل، جونیپر، نیپلیز ایلڈر، ہمالیائی تھنر ، چلغوزا، کتھ، اسپاٹڈ آرکڈ، ایکونائٹ، پرائمروز اور گگل وغیرہ شامل ہیں-
پاکستان کو اپنے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے ادارہ جاتی فریم ورک کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے- پاکستان نے 1992ء میں بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن کنونشن (CBD) پر دستخط کیے اور 1994ء میں اس کی توثیق کی- تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے دیرپا استعمال (sustainable use) کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، نیشنل کنزرویشن سٹریٹیٹیجی کا مسودہ تیار کیا گیاجو کہ 1992ء میں قومی پالیسی کے طور پر اپنایا گیا- اسی سال، حکومت نے جنگلات کے شعبے کا ماسٹر پلان تیار کیا - اور اب تک بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن کے تین ایکشن پلان تیار کیے گئے ہیں- مگر بدقسمتی سے ان ایکشن پلانز کا پوری طرح عملی نفاذ نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے ایکوسسٹمز اور جنگلی حیات کے مساکن مسلسل تنزلی کا شکار ہیں-
تجاویز:
کنزرویشن کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ماحولیات پر کام کرنے والے صحافیوں کی ایک ٹیم بنائی جانی چاہیے- اس ضمن میں الیکٹرانک میڈیا اور جدید ٹولز کو استعمال میں لا کر حیاتیاتی تنوع کو ایک ورثے کے طور پر مارکیٹ کرنے کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے جو سیاحوں کو راغب کرنے اور نوجوانوں کو حیاتیاتی تنوع کی دیکھ بھال میں اچھے طریقے سے مشغول کرنے میں مدد دے سکتا ہے-
پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے کیلئے ملک کی بائیو ڈائیورسٹی اور ایکوسسٹمز کی حقیقی قدر و قیمت کا تخمینہ لگا کر اسے قومی منصوبہ بندی اور ترقی کے عمل کی اکاؤنٹنگ اور رپورٹنگ سسٹم میں شامل کیا جانا چاہیے- نیز بائیو ڈائیورسٹی کے وسائل کے موثر انتظام اور نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو مؤثر بنایا جانا چاہیے-سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفّظ کے لئے موثر انتظام کے ساتھ قوانین، ضوابط اور پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے-
جنگلات، ماحولیاتی نظام اور مساکن کی صحت اور حالت کا جائزہ لینے کے لیے GIS لیبارٹریاں قائم کی جانی چاہیے اور تحفظ کی ترجیحات اور مواقع کی نشاندہی کرنے کے لیے ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ہم آہنگ نقشے تیار کیے جائیں-
محفوظ علاقوں کے نیٹ ورک کو وسعت دینے کی ضرورت ہے- زرعی پالیسیوں اور منصوبوں میں سسٹین ایبل اگریکلچر، زرعی ماحولیاتی نظام کا حیاتیاتی تنوع، انواع اور زمینی حیاتیاتی تنوع کا تحفظ، ٹرانسجینک جانداروں کا دانشمندانہ استعمال اور موسمیاتی تبدیلی کے تحفظات کو شامل کیا جانا چاہیے- بیماری کے خلاف مزاحمت، خشک سالی برداشت کرنے اور پیداوار میں اضافے کیلیے فصلوں کی اہم مقامی اقسام کو genetic selection کے ذریعے بہتر بنایا جانا چاہیے-
٭٭٭