پاکستان میں خلائی تحقیق کا تاریخی جائزہ

پاکستان میں خلائی تحقیق کا تاریخی جائزہ

پاکستان میں خلائی تحقیق کا تاریخی جائزہ

مصنف: ذیشان القادری اگست 2024

کائنات رب العالمین کی ملکیت ہےلیکن ملک ِ پاکستان اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک انمول خزانہ ہے جس کا حصول دینِ اسلام کی خاطر کیا گیا- قائد اعظم کے مطابق پاکستان کو اسلامی تجربہ گاہ بنایا جائے گا جہاں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نظام ترتیب دیا جائے گا- اس ضمن میں ایک اہم پہلو سائنسی تحقیق اور کائنات کی تسخیر کا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں جا بجا ارشاد ات ملتے ہیں- اس پہلو سے انسان کو تخلیق کائنات پر غور و فکر، اجرام فلکی پر تحقیق، قوانین فطرت اور کائنات کا مشاہدہ، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو کائنات میں دیکھ کر اپنے اندر کی وسعتوں کا بھی اندازہ لگانے کا موقع میسر آتا ہے- انسان بری، بحری اور فضاؤں کی تسخیر کے سا تھ ساتھ خلا میں بھی اپنے قدم رکھ چکا ہے- موجودہ دور میں خلائی تحقیق کا شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے-خلائی تحقیق (Space Research) میں زمین کی سطح (ریموٹ سینسنگ کے ذریعے)، علمِ موسمیات (Meteorology)، آب و ہوا (Climate)، سیاروں اور دیگر اجرامِ نظام شمسی، فضا کی مختلف تہوں اور خلا میں آسٹروفزکس اور میٹریل سائنسز وغیرہ کا مطالعہ شامل ہے-[1] خلائی تحقیق سےبراہ راست نشریات، انٹرنیٹ، مواصلات، موسمیاتی پیشن گوئی، نقشہ جات،جی پی ایس،معدنیات کی تلاش، پانی کے ذخائر کا انتظام، قدرتی آفات سے نمٹنےاور قومی سلامتی کے تحفظ جیسے کاموں میں استفادہ کیا جا سکتاہے-

پاکستان کی خلائی تحقیق کے مقاصد وفوائد:

پاکستان کا خلائی پروگرام زیادہ تر سماجی اقتصادیات کے عناصر (Socio-Economic Factors) کے گرد گھومتا ہے-[2] پاکستان کی خلائی تحقیق کے مقاصد میں ریموٹ سینسنگ، جیوگرافک انفارمیشن سسٹم، ٹیلی کمیونیکیشن اور آئینوسفیئر کا مطالعہ وغیرہ شامل ہیں -[3] پاکستان میں سپیس پروگرام سےنت نئی ایجادات، ہائی ٹیک نوکریاں اور ملک کی تعلیمی اور تحقیقی پروفائل کو بہتر بنانے میں مددملے گی جس سے پڑھے لکھنے نوجوانوں کو ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع بھی میسر آئے گا اور مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہوگی-

پاکستان کی خلائی تحقیق کی تاریخ:

پاکستان کے خلائی پروگرام کی ابتدا نہایت شاندار طریقے سے ہوئی- روس کے پہلے سیٹلائٹ Sputnik-1  کے لانچ کے ساتھ ہی 1957ء میں پنجاب یونیورسٹی میں خلائی تحقیق کا آغاز کر دیا گیا تھا -امریکی صدر جان ایف کینیڈی امریکہ کےچاند پر پہلا قدم رکھنے کے سلسلے میں کافی پرجوش تھے-1961ء میں صدر ایوب خان کے امریکہ کے دورہ کے موقع پر پاکستانی سائنسدانوں کی ناسا (NASA) کے اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر انٹرنیشنل افیئرز کے ساتھ میٹنگ ہوئی - ناسا کو چاند کے مشنز (Apollo Program) کے سلسلے میں بحر ہند کی بالائی فضا (Upper Atmosphere) میں ہواؤں کی حرکیات  (Wind Dynamics) کی معلومات چاہیے تھی- اس وقت امریکہ نے پاکستانی سائنسدانوں، انجینئرز اور ٹیکنیشنز کو بنیادی تربیت اور ضروری ساز و سامان مہیا کیا-

پاکستان میں سپیس سائنس کےتعلیمی ادارے:

پاکستان میں تین ادارے سپیس سائنس کی ایجوکیشن فراہم کرتے ہیں جن میں انسٹیٹیوٹ آف سپیس اینڈ ٹیکنالوجی (IST)؛ ڈیپارٹمنٹ آف سپیس سائنس ،پنجاب یونیورسٹی؛ اور انسٹیوٹ آف سپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف کراچی شامل ہیں-[4] ان اداروں میں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی سطح تک سپیس ایجوکیشن فراہم کی جاتی ہے-

قومی خلائی ایجنسی کا قیام:

پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیٹی کو 1961ء  میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے خلائی شعبے کے طور پر قائم کیا گیا-[5] اس کمیٹی نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی خلائی اداروں؛

  • US National Aeronautics and Space Administration (NASA),
  • British National Space Centre (BNSC),
  • French Centre National d’Etudes Spatiales (CNES)

 کی مدد سے راہبر ساؤنڈنگ راکٹ تیار کر کے بالائی فضا میں ہوا اور درجہ حرارت کی معلومات حاصل کرنے کے حوالے سے تجربات کیے-[6] 1964ءمیں اس کمیٹی کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے علیحدہ کر دیا گیا اور پھر 1981ء میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن (SUPARCO) کا قیام عمل میں لایا گیا -

ابتدائی سرگرمیاں :

اپنے قیام کے چند برس بعد سپارکو نے 30 سے 50 کلو گرام کےسائنسی پے لوڈ کو ساؤنڈنگ راکٹ کے ذریعے 200 سے 500 کلومیٹر تک لے جانے کی صلاحیت حاصل کر لی- 1970ء کی دہائی میں اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں آئنیوسفیرک سٹیشن قائم کیا گیا- 1975ء میں آئنیوسفیر کی تحقیق کےلیے سپارکو نے ناسا کے تجرباتی مواصلاتی سیٹلائٹ ATS-6 سے ڈیٹا حاصل کرنے کےلیےگراؤنڈ ریسیونگ اکوپمنٹ خود بنایا-[7] 1973ء میں سپارکو نے ریموٹ سینسنگ ریسرچ گروپ کا قیام عمل میں لایا جو کہ ریموٹلی سینسڈ ڈیٹا (Remotely Sensed Data) کا حصول (Acquisition) اور وضاحت(Interpretation) کرتا ہے-[8] یہ گروپ ملک کےنیشنل ریموٹ سینسنگ سینٹر (RESACENT)کے طور پر کام کرتا ہے- 1984ء میں فضائی آلودگی کے حوالے سے اوزون اورمعلق ذرات کی مقدار معلوم کرنے کا مطالعہ شروع کیا گیا - اس کے علاوہ 1989ء میں روات کے نزدیک ناسا کا لینڈ سیٹ گراؤنڈ سٹیشن بنایا گیا- [9]اس سٹیشن پر امریکہ کے لینڈ سیٹ  (Landsat)، نوا (NOAA) اور فرانسیسی سپاٹ  (SPOT)سیریز کے سیٹلائٹ سے ڈیٹا لیا جاتا رہا-

ساؤنڈنگ راکٹ:

ساؤنڈنگ راکٹ سائنسی آلات کو خلا میں لے جاتے ہیں اور ان کا خلا میں دورانیہ 5 سے 20 منٹ کا ہوتا ہے جس میں سائنسی تجربات کیے جاتے ہیں-[10] یہ راکٹ انتہائی مناسب لاگت میں تیار ہوتے ہیں- 1962ء میں پاکستان نے پہلا ساؤنڈنگ راکٹ راہبر-1صرف 9ماہ کی مدت میں تیار کیا-[11] یہ راکٹ لانچ کر نے پر پاکستان خلا میں راکٹ بھیجنے والا ایشیاء  کا تیسرا ملک بن گیا- اس کے چند دن بعد ہی راہبر-2 کو بھی لانچ کیا گیا- [12]یہ راکٹ سومیانی لانچنگ پیڈ ،ضلع لسبیلہ سے لانچ کیے گئے-اس کے علاوہ شہپر اور راہنما سیریز کے راکٹ بھی لانچ کیے گئے- 1962ء سے 1972ء کے درمیان پاکستان نے 200 ساؤنڈنگ راکٹ فضا میں بھیجے-ان راکٹ سے حاصل کی گئی معلومات ورلڈ ڈیٹا سینٹر سے بھی شیئر کی گئیں- [13] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلائی تحقیق کے پاکستانی اداروں نے ابتداء ہی میں عالمی سطح پہ خلائی تحقیق میں اپنا نام بنا لیا تھا-

سیٹلائٹ:

راکٹ کے بعد پاکستان نے ریموٹ سینسنگ، مواصلات، نیوی گیشن اور تحقیق کیلئے مختلف سیٹلائٹ خلا میں بھیجے-

  • Badar-1

پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ بدر-1 کو مقامی طور پر تیار کردہ سیٹلائٹ کو خلائی ماحول میں جانچنے، ریئل ٹائم وائس اور ڈیٹا کمیونیکیشن کو دوگراونڈ سٹیشنزکے مابین تجربات کے لیے استعمال کیا گیا- بدر-1 کو 1990 میں شی چھانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر(Xichang Satellite Launch Centre) سے چائینیز راکٹ مارچ E2کے ذریعے زیریں زمینی مدار (Low Earth Orbit)میں لانچ کیا گیا- [14]

  • Badar-B

بدر-B پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جسے 2001 میں لانچ کیا گیا -اس سیٹلائٹ کا مقصد سیٹلائٹ کنٹرول میں بہتری، سی سی ڈی سینسرز سے زمین کی تصاویر لینا، خلا کے موسم کا ڈیٹا حاصل کرنا اور کاربن اور دیگر وسائل کی پاکستان کے مختلف حصوں میں دریافت تھا-[15] بدر-B کو بائی کونور کاسموڈروم قازقستان سے روسکاموس (روسی خلائی ایجنسی) سے اس کے راکٹ Zenit-2 کے ذریعے لانچ کیا گیا-

  • PakSat-1R

پاکستان کا پہلا کمیونیکیشن سیٹلائٹ پاک سیٹ-R1 ہے جو کہ چائنہ کے اشتراک سے بنا کر 2011 میں لانچ کیا گیا- اسے Xichang Satellite Launch Center سے  لانگ مارچ 3B راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا- ملک کے نصف سے زائد ٹی وی چینلز اور نشریات اس سے منسلک ہیں-اس سے پاکستان کے دیہی علاقوں میں بھی کمیونیکیشن سروسز کو پھیلانے کا موقع ملاجبکہ سیلولر کمپنیز بھی اسے پہلی ترجیح کے طور پر استعمال کرتی ہیں- اس میں 12 ایکٹو C بینڈ اور 18 ایکٹو Kuبینڈ ہیں- [16]

  • ICube-1

2013 میں انسٹیٹیوٹ آف سپیس اینڈ ٹیکنالوجی نے آئی کیوب-1سیٹلائٹ تیار کر کے روس میں یسنے لانچ بیس (Yasnay Launch Base) سے ڈنیپر (Dnepr) راکٹ پر خلا میں بھیجا-[17] اس سیٹلائٹ سے خلا سے متعلق مختلف سائنسز میں تحقیق پر پیش رفت ہو گی- اس قسم کے نینو سیٹلائٹ بہت موٴثر بہ لاگت (cost effective) پڑتے ہیں-[18] اس سیٹلائٹ کا وزن محض ایک کلو گرام ہے-

  • PRSS-1 and PakTes-1A

2016ء میں چائینہ گریٹ وال انڈسٹری کارپوریشن سے پی آر ایس ایس-1کو تیار کرنےکا معاہدہ طے پایا- ان ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کو قدرتی وسائل کا اندازہ لگانے، ماحولیاتی تبدیلی جانچنے اور قدرتی آفات سے بروقت آگاہی حاصل کرنےکےلیےاستعمال کیاجا سکتاہے مثال کے طور پر ان سے گلیشیرز پگھلنے، گرین ہاؤس گیسز، پانی کے ذخائر اور اس کی تقسیم کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں- اسی طرح جنگلات کو لگنے والی آگ اور سیلابی صورتحال کو بھی مانیٹر کیا جا سکتاہے-[19] پی آر ایس ایس-1 کو سی پیک کی نگرانی کےلیے بھی استعمال کیا جائے گا-[20] پاک ٹیس-A1 پاکستان کا پہلا مقامی طور پر تیار کردہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے- 2018ء  میں پی آر ایس ایس-1 اور پاک ٹیس -A1کو لانگ مارچC2 کے ذریعے جیوچھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر (Jiuquan Satellite Launch Center) سے خلا میں بھیجا گیا-

  • PakTes-1B

2023ء میں پاکستان نے چائنیز لانگ مارچ 4Bراکٹ کے ذریعے پاک ٹیس B1 کو خلا میں بھیجا جس کے ذریعے قدرتی آفات، زرعی ترقی ، پانی کے ذخائر اور موسمیاتی چیلنجز کو دیکھا جائے گا- [21]

  • ICube-Q

2022ء میں چین کی قومی خلائی ایجنسی نے ایشیا پیسیفک کارپوریشن آرگنائزیشن کے ذریعے ممبر ممالک میں طلبا سے بنائے گئے پےلوڈ بنا کر بھیجنے کی پیشکش کی تھی جسے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی نے قبول کرتے ہوئے اپنا پروپوزل پیش کیا- کافی جانچ پڑتال کے بعد اس پرپوزل کو قبول کر کے آئی کیوب قمر کو آئی ایس ٹی ، سپارکو اور شنگھائی جیاؤتھانگ یونیورسٹی (Shanghai Jiao Tong University) کی معاونت سے بنایا گیا-[22] یہ سیٹلائٹ چین کے Chang’e-6 کے مشن کے ایک حصے کے طور پر لانگ مارچ – 5راکٹ کے ذریعے ہائے نان (Hainan) جزیرے سے 3 مئی 2024ء کو لانچ کیا گیا- اس کا مقصد چاند کی سطح، چاند کے مدار اور چاند اور زمین کی اکٹھی تصاویر لیناہے- اس نینو سیٹلائٹ کا وزن 7 کلو گرام ہے-

  • PakSat MM-1

پاک سیٹ ایم ایم -1 کو 30 مئی 2024ء چین کے شی چھانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹرسے  LM-3Bکے ذریعے خلا میں چھوڑا گیا- [23]اس میں 18 ٹرانسپونڈرز ہیں جو کہ C بینڈ، Ku بینڈ اور Ka بینڈ پر مشتمل ہیں-اس میں Lبینڈ بھی موجود ہے جس میں Satellite  Based Augmentation System کے ساتھ نیوی گیشن بہتر کرنے کے لیے بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم (BeiDou Navigation Satellite System)  کا استعمال کیا گیا ہے- یہ مدار زمین ‌ثابت (Geostationary Orbit) میں (زمین سے 36 ہزار کلومیٹر کی بلندی پر) رہے گا-[24] یہ سیٹلائٹ براڈ بینڈ انٹرنیٹ، ٹی وی اور مواصلاتی سروسز مہیا کرے گا-

دیگر معاہدے اور رکنیت:

پاکستان نے مون ٹریٹی 1979ء  پر بھی دستخط کیے ہیں جن کے مطابق چاند اور دیگر اجرام فلکی کو پر امن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا جب کہ کسی بھی عسکری مقصد یا ہتھیار پر مبنی خلائی مہم جوئی پر پابندی ہو گی-[25] پاکستان انٹر اسلامک نیٹ ورک آن سپیس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (ISNET)کا رکن ہے جسے اسلامی ممالک میں سپیس ایجوکیشن عام کرنے کے لیے 1987ء میں بنایا گیا-اس کے علاوہ پاکستان متعدد بین الاقوامی خلائی تنظیموں کا رکن بھی ہے- [26]

حرفِ آخر:

دنیا میں مواصلات، توانائی، صحت اور تعلیمی میدا ن میں آگے بڑھنے کےلیے خلائی تحقیق ناگزیر ہو چکی ہے-جہاں دیگر ممالک خلا میں زور و شور سے تحقیق سر انجام دے رہے ہیں وہیں ہمیں بھی اس جہت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے-  کریٹیکلی اینالائز کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ماضی کی حکومتوں کی عدمِ دلچسپی کی وجہ سے اسپیس پروگرام میں ہمیشہ دیگر ممالک کے اشتراک کا محتاج رہا ہے اور خود مختار خلائی سفر کا آغاز نہیں کر پایا ، جو کہ بہت پہلے سے ہونا چاہئے تھا-  بہر حال کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر رہا ،  پاکستان کی خلائی تحقیق ابتدا میں اچھی رہی لیکن ملک پر ایٹمی پروگرام کی وجہ سے بین الاقوامی پابندیوں، افغان جنگ، جنگِ دہشتگردی، قومی سطح پہ شدید کرپشن اور سیاسی و معاشی عدم استحکام جیسے عوامل اس سلسلے میں آگے بڑھنے میں مزاحم رہے - 

تجاویز:

وطنِ عزیز کی سالمیت کا مستقبل منتظر ہے کہ خلائی شعبے میں قومی سطح پر دوبارہ توجہ دی جائے- اس حوالے سے قائم خلا سے متعلقہ شعبوں کے وسائل میں قومی سطح پہ ترجیحی اضافہ کرنا چاہئے تاکہ تحقیق کی رفتار کسی جگہ نہ رکے، نیز ان شعبوں میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر کےانہیں آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے- اس سلسلے میں قومی پالیسی قابل تحسین ہے جس کا مقصد عوام کی زندگیوں کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ قومی مفاد اور خود مختاری کا تحفظ ہے-[27] عوام الناس کو سپیس ٹیکنالوجی کے فوائد کی آگاہی دینے کی ضرورت ہے- تعلیمی نصاب میں سپیس سائنس کا مضمون شامل کیا جا سکتا ہے- مختلف جامعات میں خلائی تحقیق سے متعلق پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں- خلائی پروگرام میں انٹرنیشنل سطح پر دوسرے ممالک اور ان کی خلائی ایجنسیوں کے اشتراک سے اپنی تعمیرِ کارکردگی(Capacity Building)کی جا سکتی ہے- جبکہ سیاسی پختگی و بصیرت اور سرمایہ کاری سے خود مختار سپیس انڈسٹری کا قیام ممکن بنانا ہمارے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگا -

٭٭٭


[1]https://www.sciencedirect.com/journal/advances-in-space-research/about/aims-and-scope

[2]Policy Vision, National Space Policy Pakistan, Pakistan Space & Upper Atmosphere Research Commission (SUPARCO) (Retrieved from: https://suparco.gov.pk/wp-content/uploads/2024/01/National-Space-Policy.pdf)

[3]Pakistan Space Activities, Handbook of Space Security, Springer, Second Edition, 2020, Page No. 1457

[4]Pakistan Space Activities, Handbook of Space Security, Springer, Second Edition, 2020, Page No. 1460

[5]https://southasiajournal.net/pakistans-space-initiative

[6]Pakistan's Space Programme, Salim Mehmud, Space Policy, Volume 5, Issue 3, August 1989, Page No. 218

[7]I.b.i.d, Page No. 224

[8]Remote-sensing Applications in Pakistan: Current Status and Future Programs, Int. J. Remote Sensing, 1986, Vol. 7, No. 9, Page No. 1147

[9]https://www.eurasiareview.com/04092023-pakistans-space-program-oped

[10]https://www.nasa.gov/soundingrockets/overview

[11]https://www.trtworld.com/magazine/why-did-pakistan-fall-behind-india-in-the-space-race-despite-a-head-start-14933979

[12]http://www.astronautix.com/p/pakistan.html

[13]Pakistan's space programme, Salim Mehmud, Space Policy, Volume 5, Issue 3, August 1989, Page No. 218

[14]Space Policy in Developing Countries, Robert C. Harding, Routledge, 2013, Page No. 186

[15]https://web.archive.org/web/20180703085935/http://www.suparco.gov.pk/pages/badrb.asp?badrblinksid=1

Pakistan Space Activities, Handbook of Space Security, Springer, Second Edition, 2020, Page No. 1458

[16]Ibid

[17]https://www.ist.edu.pk/news-2013-icube-1-launch

[18]https://www.nasa.gov/what-are-smallsats-and-cubesats

[19]https://southasiajournal.net/pakistans-space-initiative

[20]SWOT Analysis of Pakistan’s Space Program, Noor-ul-Huda Atif, NUST Journal of International Peace & Stability, 2020, Vol. III (2), Page No. 50

[21]https://www.eurasiareview.com/11062024-pakistans-space-aspirations-a-renewed-journey-beyond-the-horizons-oped

[22]https://www.ist.edu.pk/icube-q

[23]https://quwa.org/pakistan-defence-news/pakistans-new-communications-satellite-paksat-mm1

[24]https://tribune.com.pk/story/2469523/pakistan-rockets-forward-in-space-technology

[25]https://www.mcgill.ca/iasl/research/space-law/moon-treaty

[26]Pakistan Space Activities, Handbook of Space Security, Springer, Second Edition, 2020, Page No. 1466-7

[27]Policy Vision, National Space Policy Pakistan, Pakistan Space & Upper Atmosphere Research Commission (SUPARCO) (Retrieved from: https://suparco.gov.pk/wp-content/uploads/2024/01/National-Space-Policy.pdf)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر