پاکستان کی بلیو اکانومی(بحری معیشت) کی بحالی

پاکستان کی بلیو اکانومی(بحری معیشت) کی بحالی

پاکستان کی بلیو اکانومی(بحری معیشت) کی بحالی

مصنف: ڈاکٹر حسن یاسر ملک اگست 2024

بلیو اکانومی یا بحری معیشت سے مراد سمندری ذرائع سے حاصل ہونے والی کسی بھی طرح کی آمدن ہے- عالمی سطح پر حجم کے حساب سے 80 فیصد اور قدر کے حساب سے 70 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے جس میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہورہا ہے-2020ء میں ایشیائی بندرگاہیں بالترتیب 41 فیصد اور 62 فیصدسامان ِ تجارت کو بھیجنے اور اتارنے کا ذریعہ بنیں-سمندری تجارت کو محض اس وجہ سے اہمیت حاصل نہیں ہے کہ یہ ترسیل کا سستا ترین ذریعہ ہے-سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل بالترتیب ریل، سڑک اور ہوائی ذرائع سے 10، 45 اور 163 گنا سستی ہے-جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کی 95 فیصد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے-اگرچہ پاکستان کی تجارتی ترسیل کا بھاری انحصار سمندری ذرائع پر ہے،اس کی ساحلی پٹی 1050 کلومیٹر طویل ہے اور اس کا بحرِ ہند پر 290058 کلومیٹر تک پھیلا ہوا وسیع تر معاشی رقبہ (Exclusive Economic Zone) ہے جس کے ذریعے دنیا کے 70 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے لیکن ان تمام عوامل کے باوجود پاکستا ن ان وسائل کو بروئے کا ر لاکر خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے- پاکستان کی بلیو اکانومی کے تجزیے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھا جائے-کسی بھی بلیو اکانومی کے بنیادی طور پہ درج ذیل پہلو ہوتے ہیں:

v     ساحلی سیاحت

v     ماہی گیری اور سمندری حیات(aqua culture)

v     جہاز سازی

v     بندرگاہ کی سرگرمیاں

v     سمندری حدود میں موجود ہائیڈرو کاربن

v     باد اور شمسی توانائی کی شکل میں قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع

اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس دنیا کے 200 ممالک میں سے 1000 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جو کہ دنیا میں 44 ویں نمبر پہ آتی ہے لیکن پاکستان میں ساحلی سیاحت برائے نام بھی نہیں ہے- اس مد میں پاکستان صرف 50000 امریکی ڈالر سالانہ کماتا ہے جو کہ انتہائی معمولی ہے کیونکہ عالمی سطح پر بلیو کانومی کا 62 فیصد ساحلی سیاحت پر مشتمل ہے ،اس لیے اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے-قابلِ غور امر یہ ہے کہ پاکستان کے ساحلی پانیوں میں تنوع ہے جس میں مغربی نیلے پانیوں (Turquoise Blue Waters) سے لے کر مشرقی بھورے جنگلاتی پانی (Mangroves forests) شامل ہیں- پاکستان اپنی ساحلی سیاحت سے 4 ارب ڈالر سالانہ تک کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے-

ماہی گیری اور سمندری حیات کے حوالے سے بھی کہانی کچھ زیادہ مختلف نہیں-عالمی سطح پر موجودہ دور میں مچھلی کی اوسط کھپت 22 کلو گرام ہے جبکہ پاکستان میں یہ 2 کلو گرام سے بھی کم ہے- یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے میں دلچسپی اور آگاہی کا فقدان ہے باجود اس کے کہ یہ اہم ترین اور سستا ترین ذریعہ آمدنی ہے -تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر،زرعی زمینوں کو رہائشی سوسائٹیوں میں بدلنا اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت جیسے عوامل کے باعث ایک تخمینے کے مطابق پاکستان غذائی عدم ِ تحفظ و عدمِ استحکام میں داخل ہوچکا ہے اور اس کا حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ مچھلی کو بطورغذا ستعمال کیا جائے- اس ضمن میں پاکستان میں 4 بلین ڈالر منافع کمانے کی صلاحیت ہے جبکہ یہ محض 450 ملین ڈالر کمارہا ہے -

بحری جہازوں کی صنعت میں بھی بدقسمتی سے دیکھا گیا ہے کہ کارکردگی غیر تسلی بخش ہے اور پاکستانی بحری بیڑوں کی تعداد میں اضافہ کی بجائے ان کی تعداد 71 سے 11 رہ گئی ہے- ان 11 میں سے 6 تیل بردار اور 5 مال بردار ہیں جو کہ صرف 5 فیصد تجارت کا ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے پاکستان 5 سے 6 بلین ڈالر سالانہ کا قیمتی زرِ مبادلہ غیر ملکی مال بردار بحری جہازوں پر خرچ کرنے پہ مجبور ہے-اس صورتحال میں کچھ بھی متوقع ہوسکتا ہے-مثلاً مال بردار جہاں کرایہ بڑھادیں یا ممکن ہے کہ جنگ کے دنوں میں یہ جہاز حالات کے باعث دستیاب ہی نہ ہوں- پاکستان کی بحری بیڑہ تیار کرنے کی موجودہ صلاحیت 2600ٹن ہے جبکہ سپر ٹینکر 5 لاکھ ٹن سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں-مزید برآں قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ بحری جہاز کے تعمیری شعبے کی طرح پاکستان اپنی جہاز توڑنے کی صنعت بھی گنوا بیٹھا ہے-گڈانی کی جہاز توڑنے کی صنعت کلکتہ اور بنگلہ دیش کے سامنے اپنی حیثیت کھوچکی ہے-

ساحلی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی سطح پر کمائی کا تناسب معیشت کا 11 فیصد ہے -پاکستان کے پاس عملی طور پر صرف تین مستعمل بندرگاہیں ہیں جن میں کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر شامل ہیں جبکہ پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ اور ماڑہ، پسنی اورجیونی کی بندرگاہوں کو ترقی دے تاکہ صوبائی اور قومی سطح پہ زرِ مبادلہ کمایا جاسکے لیکن اس جانب توجہ کا فقدان ہے-

’’Exclusive Economic Zone‘‘ کی وسعت 350 ناٹیکل میل تک ملنے کے باوجود سمندر میں تیل کی تلاش محض 2017 ء میں شروع کی گئی، باجود اس کے کہ ہائیڈرو کاربن کے ذرائع موجود ہیں- اس تلاش کو بھی سفارتی اور سٹریٹیجک مسائل کی وجہ سے روک دیا گیا تھا جبکہ وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس تلاش کو جاری رکھا جائے-دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ایک شمسی توانائی کا پارک سمندر کے اوپر تعمیر کیا جائے جیسا کہ چین نے کیا ہے اور اس پارک کو تعمیر کرکے ہوائی پن چکی سے زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے سمندری ہوا کا بہترین استعمال ہوگا-ابھی تک صرف 1845 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے اور وہ بھی 36 نجی پراجیکٹس کے ذریعے جو کہ گاڑھو اور کیٹی بندر کے علاقوں میں واقع ہیں جبکہ یہاں پیداواری صلاحیت 50 ہزار میگاواٹ ہے -

پاکستان کے لیے لازم ہے کہ بلیو اکانومی کو فروغ دے تاکہ معاشی سفارت کاری کا تسلسل اور توازن برقرار رہے کیونکہ موجودہ دور عالمی سطح پر باہمی انحصار کا دور ہے-

چونکہ پاکستان کو طویل ترین ساحلی پٹی، پانچ بڑے دریاؤں اور دنیا کے بڑے نہری نظام سے نوازا گیا ہے تو کم از کم ماہی گیری، ترسیلات اور ہائڈرو پاور جنریشن کے لیے انہیں بھی بلیو اکانومی کا حصہ بنایا جانا چاہیے- ڈینیوب، مکونگ، سارووا، میگھنا اور پدما دریا اس کی مثالیں ہیں جہاں سے بنگلہ دیش نے مالی سال 2019ء اور 2020ء میں 27.8 لاکھ ٹن کارگو اندرونی آبی ذرائع سے ترسیل کیا- پاکستان بھی اپنے 10370 کلومیٹر طویل اندرونی آبی راستوں کو ترسیل کے لیے استعمال کرسکتا ہے-جہاں تک سمندری تجارت کا تعلق ہے بحری جہازوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ 3 سال کے عرصے میں بندرگاہ کی صلاحیت 37 ملین سے 217 ملین ٹن سالانہ بڑھائی جانی چاہئے-گوادر کو ایک سمارٹ (خودکار) بندرگاہ میں تبدیل کیا جائے-ایک تخمینے کے مطابق 2050ء تک عالمی سطح پر تیل اور گیس کی ضروریات آبی ذرائع سے پوری ہوں گی جس کیلئے بے حد ضروری ہے کہ پاکستان متواتر اپنی سمندری دریافت اور کھدائی جاری رکھے-چین ، جرمنی، روس اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ شراکت داری کرے-تیل اور گیس کے علاوہ دوسرے زیرِ آب وسائل جیسا کہ تانبا، نکل، سونا، چاندی اور فاسفورس ان کو بھی تلاش کیا جائے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر